Powered By Blogger

суббота, 29 февраля 2020 г.

بابا مری ایک انقلابی صوفی – کریمہ بلوچ

بابا مری ایک انقلابی صوفی – کریمہ بلوچ
     
چند سال پہلے جب میری ملاقات بابا مری کے ساتھ نہیں ہوئی تھی میں نے انکے جلاوطنی کے زمانے کے ایک دوست سے انکے متعلق پوچھا کہ بابا کیسے مزاج کے انسان ہیں؟ انہوں نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ آپ نے کبھی گوتم بدھ کے بارے میں سنا ہے؟ بس انہیں دیکھ کر گوتم بدھ کا گمان ہوتا ہے، جلاوطنی میں جب ہم ساتھ تھے تو وہ خود بیلچہ لے کر اپنے رہائش گاہ کی چھت پر جمی برف ہٹاتے تھے. وہ غرور سے نا واقف انسان ہیں۔
جب پہلی با ر میری ملاقات بابا سے ہوئی تو انکی بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ دیکھ اور دھیمہ لہجہ سنکر مجھے انکے دوست کی وہ بات یاد آگئی ۔ اس دن کے بعد سے ہماری دوستی شروع ہوگئی، ہاں دوستی، کیونکہ وہ غرور و تکبر سے پاک انسان تھے ، ان میں دکھاوے اور سرداری شان کی رمق بھی نہیں تھی۔ وہ مجھ سے ایسے ملے جیسے میں انہی کے گھر پیدا ہوئی انکی سگی بیٹی ہوں۔ اور ہاں، بابا میں ایک اور بات یہ بھی تھی کہ وہ کسی کو دیکھتے تو چند لمحوں کی ملاقات میں ہی سمجھ لیتے کہ سامنے والا انسان کیسی ذہنیت کا مالک ہے۔اور اس کے سامنے ہی یہ بات کہہ بھی دیتے۔بابا، ایک ایسے انسان تھے جو ایک طرف سے محبت کے جذبات سے سیراب ہو اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا جنگجو بھی ہو۔ بابا ، جو جنگ کی تیاری میں بھی مصروف رہتے اور اتنی ہی شدت سے انسان سے محبت بھی کرتے ،وہ نواب بھی تھے درویش و ملنگ بھی ، بہت بڑی طاقت کا مالک انسان پھر بھی نہایت معصوم اور نرم گو۔بابا ، جو سخت سے سخت بات بھی انتہاء درجے کے نرم لہجے میں کرتے تھے.

بابا انسان دوست تھے، وہ انسانی برابری کے علمبردار بھی تھے اور اس برابری کے دشمنوں سے انتہائی نفرت بھی کرتے تھے

حقیقتاً بابا ایک انقلابی صوفی تھے۔ بابا میری نظر میں اس عہد کا سب سے بڑا انسان ہے، بے بہا آدرشوں کا تخلیق کار انسان اپنی عہد اور اس کے شرائط پہ فتح رکھنا والا انسان ، یہ سچ ہے کہ وقت اور حالات انسانوں کو تخلیق کرتے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بابا وہ انسان ہے جس نے خود کو تخلیق کیا ، خود کو تلاش کیا اور پورے انسانی سماج کو راہ دکھانے کی جدوجہد میں کامیاب ہوا۔

بابا جہد مسلسل کا دوسرا نام ہے، مسلسل سفر کرنے والی ایک ایسی علامت جو بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی۔ جو نا کبھی جھکے، نا رُکے ، نا ٹوٹے اور نا کبھی منزل سے پہلے ڈیرے ڈالے ۔ ایسی مستقل مزاجی تو سخت پہاڑوں میں بھی نہیں ہوتی، موسموں کے نشیب و فراز اور وقت کی ظالم رفتار تو ان سنگلاخ پہاڑوں کو رگڑ رگڑ کی فضاوں میں ریت کی صورت میں بکھیر دیتی ہے، مگر بابا کو تو زندگی، غلامی، اور برے سے برے حالات کے نشیب و فراز کے آ ہنی ہاتھ بھی نہ ہلا سکے ۔

بابا کی کٹھن اور تکلیف دہ زندگی کے انگنت راز ایسے بھی ہیں جو کبھی عیاں ہوئے ہی نہیں کیونکہ انکی عظمت ایسی ہے کہ انہوں نے کبھی جتایا ہی نہیں، کبھی کوئی گلہ کیا ہی نہیں ، کبھی اپنے ماتھے پر شکن تک آنے نہیں دی ۔ عظمت کی بلند روح انکی شخصیت میں پوشیدہ تھی ۔ خاموشی سے سب سہہ لیا اور خاموشی سے چلے بھی گئے ۔

انگریز لاٹ کی بگھی کھینچنے سے انکاری عَلم بغاوت بلند کرنے والے خیر بخش اول کے فکر کا اکلوتا وارث بابا خیر بخش مری ہی تھے ، اب یہ وراثت کب، کہاں اور کتنے نسلوں بعد اس گلزمین کو نصیب ہو کون جانے ؟، کیوں کہ بابا مری روز روز پیدا نہیں ہوا کرتے ، صدیوں کی مسافت درکار ہوتی ہے۔

29فروری1928کو مہراللہ مری کے گھر میں جنم لینے والا یہ مضبوط آدرشوں کا مالک انسان بچپن ہی میں اپنے والد اور والدہ کے سائے سے محروم ہوگیا ۔ میں نے ایک دفعہ جب سوال کیا کہ بابا آپ کے کتنے بھائی بہن ہیں تو وہ دھیمی آواز میں بولتے رہے میرے سارے بہن بھائی بچپن میں پیدا ہوتے ہی فوت ہوگئے تھے ، میری پیدائش کے چند مہینوں میں والدہ کا انتقال ہوگیا تھا اور جب میں چھ سال کا ہی تھا تو میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا تھا اپنے سارے بہن بھائیوں میں صرف میں ہی زندہ رہ سکا، چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ مسکراتے ہوئے اپنے متعلق بولے۔

1933 میں جب بابا 6سال کے تھے تو انکے والد کا انتقال ہوگیا، اس وقت وہ بہت چھوٹے تھے اس لئے عارضی طور پر انکی جگہ انکے چچا دودا خان مری کو قبیلے کے سرداری کے فرائض سونپے گئے ، بابا مری کی ابتدائی تعلیم انکے اپنے آبائی علاقے کوہلو میں ہوئی اسکے بعد وہ لاہور ایچی سن کالج پڑھنے گئے وہاں سے تعلیم مکمل کر کے 1950میں کوہلو واپس آئے اور باعدہ طور پر قبیلے کے سردار ی کے فرائض سنبھالے ۔

ایوب کے دور حکومت میں مارکسسٹ نظریہ رکھنے والے بابا مری نے جب سیاست میں قدم رکھا تو پہلی بار انہوں نے سوشلزم کا نعرہ دیا ، ایوب خان بابا مری کی فکر سے خائف تھے۔ انہوں نے 1964 انکی سرداری ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے انکے جگہ انکے چچا دودا خان مری کو سردار مقرر کرنے کا اعلان کیا تو مری قبیلے نے دودا خان کو اپنا سردار تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انکا سردارصرف خیر بخش مری ہی ہیں، جس کے نتیجے میں مری قبائل نے دودا خان کو قتل کردیا اور طویل عرصے تک بابا مری کی ایوبی آمریت سے مخاصمت جاری رہی 1968 میں جب ایوب خان نے تمام سرداروں سے صلح کرنے کا اعلان کیا تو باقنے صلح کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں حکومت کی تمام کو چھوڑ کر بابا مری ا ساتھی نہیں بن سکتا۔
بابا مری اپنے ابتدائی سیاسی ادوار میں پارلیمانی سیاست سے مکمل دلبرداشتہ نہیں تھے، آپ پہلی بار 1962 میں ایم این اے بنے، دوسری بار 1970 کے انتخابات میں حصہ لیا پھر جیت کر ایم این اے بنے اس دوران ذولفقار علی بھٹو نے آپ کو بلوچستان کی گورنر شپ کی بھی پیشکش کی ،مگر بابا نے گورنر شپ قبول نہ کیا ، آپ نے 1973 کے آئین پر بھی دستخط کرنے سے انکار کردیا حالانکہ نیپ کی باقی قیادت اسے قبول کرچکی تھی۔

بھٹو نے جب بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کی توبابا مری، عطااللہ مینگل ، غوث بخش بزنجو اور ولی خان کو گرفتار کر کے ان پر غداری کا مقدمہ چلایا جو حیدر آباد ٹریبونل کے نام سے مشہور ہے،اس کیس میں وہ غدار بھی قرار دیئے گئے تھے اور سزائے موت کا بھی امکان تھا مگر اس دوران بھٹو کی حکومت ختم کرکے جب ضیاالحق نے مارشل لاء لگائی تو انہوں نے بلوچوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے حیدر آباد ٹریبیونل ختم کرکے بابا مری سمیت نیپ کی باقی قیادت کو رہا کردیا ۔

رہائی کے بعد بابا علاج کے غرض سے لندن بھی گئے اور فرانس بھی ، بعد میں آپ وہاں سے افغانستان چلے گئے جہاں پر مری قبیلہ پہلے سے ہزار خان مری اور شیر محمد مری کی سربراہی میں موجود تھا ۔ بابا مری نے ہلمند میں اس وقت بلوچوں کو منظم کیا ۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں نور محمد ترکئی کی قیادت میں ثور انقلاب برپا ہوچکی تھی اور وہاں حفیظ اللہ امین ، ببرک کارمل اور نجیب جیسے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کی حکومت تھی۔

افغانستان میں طالبان کی آمد کے بعد باباِ اور بلوچ قوم کو ادراک ہوگیا تھا کہ طالبان کی جڑیں کہاں پیوست ہیں اور وہ بلوچوں کے خلاف کیا کر سکتے ہیں تو یہ انکی قائدانہ صلاحیت ہی تھیں کہ انہوں نے بر وقت فیصلہ لے کر وہاں سے نکلنے اور وطن واپس آنے کا فیصلہ کرلیا۔

1992کو جب وہ بلوچستان واپس آئے تو کوئٹہ ائرپورٹ پر بلوچ عوام نے انکا تاریخی استقبال کیا کہتے ہیں کے اس موقعے پر بابا نے طنزکرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے لگا تھا کہ میں جنگ چھوڑ کر آ رہا ہوں تو لوگ میرا استقبال ٹماٹروں سے کریں گے مگر یہاں لوگ مجھ پر پھول برسا رہے ہیں، اور افسوس کا اظہار بھی کیا کہ ہماری ذہنیت ابھی تک لیڈر شپ اور شخصیت پرستی سے آگے نا جا سکی ۔

حقیقت یہ ہے کہ بابا جنگ چھوڑ کر نہیں آئے تھے ، بلکہ اس جنگ کو جیتنے کے لئے بر وقت اور صحیح فیصلہ کر کے آئے تھے، جنگ کی تیاری اور بھی منظم طریقے سے کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ آئے تھے ، یہ تو انکی شان اور بے نیازی تھی، ان کو کبھی اپنی تعریف آپ نہ کرنی پڑتی، وہ بزور دست بنایا گیا لیڈر نہ تھا بلکہ ان صلاحیتوں کا بذات خود مالک تھا۔ 1992 میں بلوچستان آنے کے بعدوہ کوئٹہ میں گوشہ نشین ہوگئے اور حق توار سرکلز کا آغاز کر دیا۔ بابا کے انہی تعلیمی سرکلز کے کوکھ سے سگار جیسے ہزاروں ایسے فرزندانِ وطن پیدا ہوئے ، جن کا آج تک کوئی نعم البدل پیدا نا ہوسکا۔

آئی ایس آئی کو بابا مری گوراہ نا تھے جب مشرف کا دور حکومت آیا تو جسٹس نواز مری کو قتل کرکے آئی ایس آئی نے بابا مری کو اس کیس میں ملوث کر کے راستے سے ہٹانے کی کوششیں کی ،بابامری کو گرفتار کر کے 18ماہ تک پابند سلاسل رکھا ، رہائی کے بعد وہ کراچی چلے گئے جہاں جاوید مینگل کے رہائشگاہ میں اپنی باقی کی زندگی گزاری ۔

بلوچ تاریخ نام خیر بخش کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی، اس نام کے دو ایسے شخصیات ہیں کے جنہوں نے بلوچ تاریخ کو سیاہ ہونے نہیں دیا، بابا بلوچ خیربخش دویم اور دوسرے بابا بلوچ خیر بخش مری کے دادا خیر بخش مری اول۔

خیر بخش مری اول جب مری قبیلے کے سردار تھے تو اس وقت انگریزوں نے زبردستی دوسرے قبائل کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کی تو مری قبیلے نے خیر بخش اول کی سربراہی میں فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کر کے بغاوت کردی تھی۔ انکی قیادت میں مری قبیلے نے انگریزوں کے خلاف تاریخی مزاحمت کی ، جس میں سبز گنبد جیسے تاریخی معرکے بھی شامل ہیں، اس جنگ میں انگریزوں نے ہر مری کی سر کی قیمت دس روپے رکھا تھا.

انگریز استعمار اپنی پوری قوت استعمال کرنے کے بعد بھی انہیں زیر کرنے میں ناکام ہوا اور بالآخر خیر بخش اول کے مطالبات مان کر صلح کے میز پر آگیا ۔یہ صلح 1903میں ہوئی تھی جس کے بعدپہلی با ران کو نواب کا خطاب دیا گیا ۔

معاہدہ امن کے بعد انگریز لاٹ نے ایک دفعہ تمام بلوچ سرداروں کو ایک میٹنگ کے غرض سے اور اپنا مطیع بنانے کیلئے سبی میں جمع کیا ، اجلاس کے بعد انگریز لاٹ نے تمام سرداروں کو حکم دیا کہ وہ اسکی بگھی (جس میں انگریز لاٹ کی اہلیہ بھی بیٹھی ہوئی تھی)کو تمام سردار کھینچ کر ریلوے اسٹیشن تک لے جائیں اور بصورت دیگر وہ انگریز سرکار کی دشمنی قبول کریں ،تو باقی تمام قبائل کے سرداروں نے یہ بگھی کھینچ کر اپنے نام تا ابد رسوائی رقم کردی، لیکن اس دوران خیر بخش اول نے اپنی تلوار میان سے نکال کر کہا ہم جنگجوہیں بگھی کھینچنے والے نہیں۔

ایک بابا خیر بخش دویم جو جدید بلوچ سیاسی تحریک کا خالق جو زندگی بھر ایک بات پر اٹل رہے کہ یہ جنگ ہماری آزادی کی جنگ ہے جس کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں، نہ کبھی کسی انٹرنیشل کمپنی سے کوئی ڈیل کی، نا تحریک کے نام بلوچستان کے وسائل کاسودہ کیا نا کسی سامراجی قوت سے تحریک کی کمک کے نام پر سودے بازی کی۔

سلیگ ہیریسن بابا مری کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان سے زیادہ شائستہ، وجیہہ اور دانشور شخص میں نے بلوچوں میں نہیں دیکھا ۔اپنے سیاسی نظریات کے آگے وہ اپنے نوابانہ عظمت کو ہمیشہ قربان کرتے آئے ان کے سیاسی نظریات کی وجہ سے ان کا طاقتور مری قبیلہ گزینی و بجارانی میں تقسیم تو ہوگئی مگر بابا نے کبھی قومی سیاسی اصولوں پر سمجھوتہ نا کیا ۔ انہوں نے اپنی نوابی کو پس پشت ڈال کر سیاسی نظریہ کواولیت دی۔بابا جیسے انسان صدیوں میں اس دھرتی پر پیدا ہوتے ہیں اور جب آتے ہیں تو کبھی مرتے نہیں۔ بابا مری مرہی نہیں سکتے کیوں جسم مرا کرتے ہیں نظریہ اور افکار نہیں، کوئی بھی موت روح کو مار نہیں سکتی، بابا محض ایک جسم نا تھے۔

пятница, 28 февраля 2020 г.

کیا میں اپنے پاگ ( پگڑٰی )کی وجہ سے بلوچ ہوں؟ میر محمد علی تالپور .


“یوم مزاحمت یا ثقافتی دن”
میں ایک سوال کھڑا کر رہا ہوں اور پھر اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ میرے جواب میں کسی ایسی چیز پر اپنے خیالات کا اظہار کروں گا جو حال ہی میں سیاسی ، ثقافتی ، معاشرتی یا معاشی طور پر صفر کی واپسی کے ساتھ ایک فیشن اور فیشن بن گیا ہے۔
کیا پاگ ، سدری اور چاوٹ )( جوتے )یا پشک قمیض اور سری کسی شخص یا اس کے بلوچیات کی تعریف کرتے ہیں یا یہ اس شخص کا کردار اور کام ہے جو واقعی اس کی بلوچیات اور بلوچستان سے محبت کی تعریف کرتا ہے؟
ہر 2 مارچ کو ’’ یوم بلوچ کلچر ڈے ‘‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اور بہت سارے بلوچوں نے روایتی پاگ ، سادریش ، پشک اور بلوچ ملبوسات کے ٹکڑوں کی مدد سے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ بلوچ ہیں۔ اور انہیں یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بلوچ ہیں اور اس پر فخر ہے۔ مجھ سے پرے ہے لباس حتمی علامت کیوں بننا چاہئے اور کسی قوم کی شناخت کا اندازہ میرے لئے واقعی حیران کن ہے۔ کیونکہ صرف وہی ممالک اور مصنوعی طور پر من گھڑت اقوام جن کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور ثقافتی طور پر دیوالیہ ہیں انہیں علامت سمجھنے اور مسلط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ علامتیت احساس کمتری کا موروثی احساس بھی ظاہر کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں انہیں اہم اور ضروری ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔ شیروانی (اوور کوٹ) اور ٹوپی کا پاکستانی جنون اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔
شناخت اور ثقافت کو لباس کے ٹکڑوں میں کیوں گھٹایا جانا چاہئے جب بلوچ جیسے قوم میں اتنی تاریخ اور میراث ہے کہ اس پر فخر اور احترام کیا جائے؟ ‘ثقافت کے دن’ یا تو بلوچوں یا سندھیوں کے معاملے کے لئے ، یہ بنیادی طور پر فرار کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی قوم کا حصہ بننے کی حقیقی ذمہ داریوں سے بچتے ہوئے اطمینان کا غلط احساس پیش کرتے ہیں جو یقینی طور پر قربانی ، صبر اور آخری کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن کم از کم نہیں۔ اگر آپ واقعتاً اسے دل سے پیار کرتے ہیں تو اپنی قوم کے مفادات کی صحیح معنوں میں مدد کرنے کے قابل حکمت ہے۔ ’ثقافت کے دن‘ آپ کو ناچنے ، گھماؤ پھراؤ ، قہقہے لگانے ، اپنے نئے کپڑے اور اپنی قوم کے لئے جوش و خروش اور آسانی سے گھر میں آرام سے آپ کی قوم کے لئے اگلی مارچ 2 تک اپنی خدمات انجام دینے کا آسان آپشن مہیا کرتے ہیں۔
آج بلوچ قوم کو اپنی شناخت ، حقوق ، ثقافت ، زندگی اور اس کی تاریخ کو درپیش مشکل چیلنجز اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ ان ہزاروں سالوں میں پہلے کبھی نہیں تھا جس کی انہوں نے جدوجہد کی ہے اور وہ زندہ ہیں۔ ان کی ہر چیز کو جس سے وہ عزیز رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ پہچانتے ہیں اس سے بھی زیادہ خطرہ ہے اس لئے ان کی زمین اور اس کے ساتھ نہ صرف ان کی طرز زندگی بلکہ ان کی زندگی بھی۔ میگا پروجیکٹس کے نام پر ان کے وسائل سنبھالے جارہے ہیں ، ان میگا پروجیکٹس کی حفاظت اور ان کو بچانے کے لئے فوجی اور بحری اڈے لگائے جارہے ہیں۔ انہیں مذہب کے نام پر سیاسی ، معاشرتی اور معاشی طور پر حق رائے دہی سے محروم اور بے دخل کیا جارہا ہے جو انہیں پاکستانی ہونے کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ وہ بنیادی طور پر مسلمان ہیں اور صرف اتفاقی طور پر بلوچ ہیں۔
ایک بااختیار ، جان بوجھ کر ، پیمانہ اور تدریجی عمل 27 مارچ 1948 کے بعد سے ہی اپنے مادر وطن بلوچستان میں بلوچوں کو بے اختیار اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے منظم انداز میں متحرک ہے۔ یہ دو طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ایک آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ اور دوسرا جاری سست جلتی نسل کشی کی وجہ سے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ تو ، کیا “یوم ثقافت” کے منتظمین اور شرکا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خوشی اور دلبرداشتہ دن کے ساتھ ان خطرات سے بچ سکتے ہیں؟ اس دن سے ان خطرات سے فرق نہیں پڑتا ہے جو ہمارے وجود کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
خوشی اور مسرت جو قدرتی طور پر ان نام نہاد ثقافت کے دنوں کے ساتھ ہوتی ہے اس سے صورتحال کی حقیقت کو دھندلا جاتا ہے۔ ضرورت ہے کہ میں اس بات کو دہراؤں کہ سیاسی کتابیں اور سیاسی ادب کے کتاب میلوں کو ریاست نے روک لیا ہے جبکہ ان ثقافتی ایام کو فروغ اور ترغیب دی جاتی ہے۔ کیوں ؟کیونکہ یہ غلامی اور تسلط کی لعنت سے لوگوں کو غافل کرکے ریاست کی مدد کرتے ہیں جو بلوچوں کے لئے روز مرہ کی حقیقت ہے۔ کلچر ڈے ، جس طرح یہاں منایا جاتا ہے ، یہ ریاست کا ایک اور ذریعہ ہے تاکہ لوگوں کی ثقافت پر اس کی آہنی گرفت مضبوط ہو اور جس طرح یہ اپنے مقصد کے مطابق ہو اور اسے اپنی ثقافت کے اصل جوہر سے بھی گمراہ کرے۔ لوگوں کو دستاویزی مضمون بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی تاریخ اور ثقافت سے انکار کیا جائے۔ تاریخ اور ثقافت لازم و ملزوم ہیں لیکن یہ ’کلچر ایام‘ شعوری طور پر تاریخ کو نظر انداز کرتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگوں کو اپنی جدوجہد اور مزاحمت کی تاریخ سے لاعلم رکھتے ہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس رخ پر ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو ہمیں فراموشی میں دھکیلنا چاہتے ہیں یا ہم وہ لوگ ہیں جو ہمارے مستقبل کے لئے لڑتے ہیں ، گیند ہماری عدالت میں ہے۔
‘کلچر ڈے’ کے موقع پر ایک بلوچ کی طرح دیکھنا پیسوں کے معاملے میں مہنگا پڑ سکتا ہے لیکن تاریخ اور تاریخی ذمہ داری کے مطابق طرز عمل کے مطابق ایک بلوچ ہونے کی قیمت اس قیمت پر آتی ہے جو شاید ہم میں سے بہت سے ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ان شرم سے کلچر کے دن طے کرتے ہیں . اگر یوم ثقافت اس طرح سے منایا جاتا جس طرح اب یہ ریاست کے مقصد کو پورا نہیں کیا جاتا تو وہ اس پر روک لگاتے کیونکہ آپ کے کتاب میلوں کو روک دیتے ہیں۔ ’’ یوم حق ،حقوق بلوچ ‘‘ منانے کی کوشش کریں اور دیکھیں کہ کیا آپ کو یونیورسٹیوں اور پریس کلبوں میں پروگرام منعقد کرنے کی اجازت ہے؟ بلوچوں کا کوئی بھی عمل جو ریاستی ظلم و ستم کے خلاف بغاوت اور مزاحمت کا نشانہ بناتا ہے ، اس طرح کے پروگرام کو اپنانے کی ہمت کرنے والوں کی ریاست کی مضبوطی سے باز آٹ ہوگی۔
ایک ایسا دن جس کا مقابلہ مزاحمت اور قوم کی جدوجہد سے نہیں ہے اور جبر کے خلاف جنگ میں اس کی مدد نہیں کرتا ہے ایک ایسا درس ہے ، جس کا مقصد عوام کے ذہنوں کو حقیقی خطرات سے ہٹانے کے لئے غیر متزلزل ، غیر متعلقہ اور قابل تحسین چیزوں کی طرف مبذول کرنا ہے۔
اگر منایا جانے والا دن اپنے حقوق اور وقار کی زندگی کے لئے بلوچ جدوجہد کا اٹوٹ حصہ نہیں بنتا ہے تو ، وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے رہیں گے اور جو کچھ ہے وہ رہے گا۔ لوگوں کو یہ باور کرنے کے لئے کہ یہ ان کی زندگی پر ایک حق ہے اور یہ مفت لوگوں میں شمار کرتے ہیں ، کو محض ایک اور چال چل رہی ہے۔
میرے خیال میں جس طرح سے ثقافت کا دن منایا جارہا ہے یہ ایک ریاست کی سرپرستی میں رہے گا ، ٹیلی الیکڑونکس نے اس چیریز کو ترقی دی جس کا مقصد 27 مارچ 1948 سے جاری ثقافتی ، سیاسی ، معاشی اور معاشرتی ظلم و جبر کو مستحکم اور طول دینا ہے۔ فیصلہ یہ ہے بالآخر اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کو بلوچ پہنے ہوئے ہو یا کوئی ایسا شخص جو بلوچ کی پرواہ کرے اور اپنی قوم کے حقوق کے لئے جدوجہد کرے۔
اگر کوئی دن منایا جائے تو ایک ‘یوم مزاحمت’ منایا جائے جو نواب نوروز خان ، نواب خیر بخش مری ، شیر محمد مری ، میر لاؤنگ خان ، کی پسند کی جدوجہد ، قربانیوں ، بہادریوں اور ثابت قدمی کی یاد کو اعزاز اور روشنی ڈالتا ہے ، صفر خان زرکزئی ، شفیع بنگلزئی ، علی شیر کرد ، بالاچ مری ، صبا دشتیاری ، رضا جہانگیر ، ڈاکٹر منان ، نواب اکبر بگٹی ، مجید لانگوں اور کنبہ ، حمید بلوچ ، جلیل ریکی ، ثنا سنگت ، کامریڈ قمبر ، محراب خان (1839) ، عطا شاد ، گل خان نصیر ، اور دیگر افراد جنہوں نے اپنے آپ کو قربانی دی یا بلوچ حقوق کے لئے اپنی زندگی صرف کی۔ اس دن کا مشاہدہ کریں جس میں ذاکر مجید ، علی خان مری ، کبیر بلوچ ، زاہد بلوچ ، ڈاکٹر دین محمد ، محمد رمضان جیسے ہزاروں افراد کی تعظیم کی جائے جو گوانتانامو اور ابوغریب جیل سے بھی بدتر مراکز میں پاکستان کی تحویل میں ہیں۔
ہماری ثقافت وہ ہے جو ہم ہیں۔ یہ ہمارے اعمال کی عکاس ہے کیونکہ ثقافت کوئی خارجی چیز نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہم سے آزاد ہے۔ ہم کس چیز کے لئے کھڑے ہیں ، ہم کس چیز کی مخالفت اور مزاحمت کرتے ہیں ، جس پر ہم یقین رکھتے ہیں اور اپنی روزمرہ کی زندگی میں خود کو کس طرح برتاؤ کرتے ہیں وہ نہ صرف ہماری بلکہ ہماری ثقافت کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔ ہمیں اپنی ثقافت کے علاوہ انصاف نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہمارے علاوہ ہمارے کلچر کا انصاف کیا جاسکتا ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں اور ہم کس طرح رہتے ہیں وہ ہماری ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے اور اگر ہم اپنی ثقافت کے جوہر کے مطابق نہیں جیتے تو ہم اپنے قوم کے وفادار اور حقیقی نمائندے نہیں بن سکتے۔
ہم اپنے ثقافت کی نمائندگی اپنے عمل سے کرتے ہیں نہ کہ اپنے الفاظ اور خالی چالوں سے۔ بلوچ بننے کے لئے آپ کو ان اقدار کے مطابق زندگی بسر کرنا ہوگی جو آپ کو ایک بلوچ بناتے ہیں۔ ہماری اقدار اور جس کے لئے ہم کھڑے ہیں وہ ہمیں بلوچ بنا دیتا ہے اگر کپڑے ، پاگ اور داڑھیوں نے ہمیں بلوچ بنا دیا تو سواری آسان ہوتی اور اب ہمیں اپنے حقوق مل جاتے۔ یہ آپ کا ایک ایسا طرز عمل ہے جس سے دشمن خوفزدہ ہوتا ہے اور وہ ہمیں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ ادب کے میلے میں آنے سے ہمیں دانشور نہیں بنتا ہے جس طرح ثقافت کے دنوں میں شرکت کرنا ہمیں مفید بلوچ نہیں بناتا ہے۔

لہذا ، اس بارے میں گہری سوچ اور فکر کے ساتھ اپنی پسند کا انتخاب کریں کہ آپ تاریخ کے ذریعہ کس طرح سوچنا چاہتے ہیں خصوصا بلوچ تاریخ کے لئے اگر ہم اپنی توانائیاں ، وقت اور پیسہ ان چیزوں سے دور رہتے ہیں جو دن کے آخر میں جانوں پر کوئی نشان نہیں چھوڑتے ہیں۔ اور ہم جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس کا مستقبل اس کے حصے کی حیثیت سے منانا چاہتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ مانا ہے کہ تمام پیدائشی انسانیت پر قرض کا مقروض ہے اور اس قرض کا ازالہ آپ انسانیت کے لئے کیا کرتے ہیں اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایک بلوچ پیدا ہونے سے آپ پر بلوچ قوم کا قرض واجب الادا ہے اور یہ آپ کا فرض ہے کہ اس کی تلافی کریں۔ . اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ اس قرض کو اس طرح سے چھٹکارا دے رہے ہیں جس طرح سے ان ثقافت کے دن منائے جارہے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہی شاید ہی کوئی امید ہے کہ بہت ہی قریب مستقبل میں بلوچ قوم شمالی امریکہ کے ہندوستانیوں کو پسند کرے گی۔
میں ایک سوال کے ساتھ ایک بار پھر رخصت لیتا ہوں جس کا جواب ہم سب کو اپنے ضمیر کے ساتھ دینا چاہئے۔ کیا ہم مقامی امریکیوں کی طرح مختلف کوریڈورزCorridorے تحفظات پر بات کرنا چاہتے ہیں جو قدرتی طور پر سی پی ای سیCPECکی پیروی کرتے ہوئے پیگز ، سدرس ، جوتے ، ساریس ، قمیضوں کی پیروی کریں گے کیونکہ امریکہ کے ہندوستانی ٹیپیز ، ہیڈ ڈریسس ، موکاسین وغیرہ کا کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے اور ہمارا ہونا چاہئے؟

четверг, 20 февраля 2020 г.

براس سے وابستہ امیدیں – برز کوہی

جنگ فناء سے بقاء کی طرف سفر ہے، جنگ مستقبل کا امن ہے، جنگ بیداری و شعور کی پختگی کا اہم ذریعہ ہے، جنگ بزدلی کو مات دیتی ہے، جنگ ٹوٹے ہوئے، بکھرے ہوئے حوصلوں کو بلندیوں تک سر کرتی ہے۔ جنگ خوف و دہشت کا سینہ چیر کر بہادری کو جنم دیتی ہے، جنگ اندھیرے میں روشنی ہے، جنگ مایوسی و ناامیدی کا دشمن ہے، جنگ بزدل و بہادر کے فرق کی وضاحت ہے۔ جنگ الجھنوں، تھکاوٹ، تذبذب اور سطحیت کو مٹانے کانام ہے۔ جنگ خود مٹتے ہوئے زبان، تاریخ، کلچر و ثقافت، تہذیب کو دوبارہ زندہ و جاوید رکھنے کا نام ہے۔ جنگ غلامی سے نجات کا واحد ذریعہ ہے، جنگ تاریخ میں تاریخی کردار نبھانے کا بہترین موقع ہے، جنگ اتحاد و اتفاق کا نام ہے، جنگ نظریاتی سنگتی و رشتوں کو مضبوط کردیتی ہے، جنگ مصنوعیت، جھوٹ و فریب دھوکا دہی کو خاک میں ملادیتی ہے۔ جنگ اپنے صفوں میں تنگ نظر، منافق، ڈرپوک لوگوں کو جگہ نہیں دیتی ہے۔ جنگ دوست و دشمن، خیر خواہ و بدخواہ کے درمیان فرق کی واضح لکیر ہے۔ جنگ وہ بہتا پانی ہے جو گندگی کو اپنے اندر ٹکنے نہیں دیتا اور باہر پھینک دیتا ہے۔ جنگ بہادر شہسواروں، جانثاروں اور سربازوں کو کوسوں دور سے لاکر ایک لڑی، ایک ہی قوت میں آخر کار پرو دیتا ہے۔ جنگ مصنوعی، باتونی بھڑک باز کرداروں کو طشت ازبام کردیتی ہے، جنگ شیرزال ماں بہن بیٹیاں جنم دیتی ہے، جنگ بہادر فرزند پیدا کرتی ہے۔ جنگ آپ کے شاعر، ادیب، دانشور، گلوکار کے پہچان و کردار کو حقیقی سمت و رخ فراہم کرکے ان کو تاریخ کے صفحوں میں ہمشہ زندہ رکھتی ہے۔ جنگ خود غرض، مصلحت پسند، موقع پرست، بدنیت، حسد و بغض رکھنے والے اناپرست لوگوں کو برداشت نہیں کرتی ہے، جنگ ہی اولین تقاضہ سچائی، مخلصی اور عاجزی ہوتا ہے۔ غلامی و محکومی کی دلدل میں جنگ کے علاوہ تاریخ میں کردار بن کر ابھرنا ممکن نہیں ہے۔ جنگی اثرات سے جو ذہنی امراض جنم لیتے ہیں، جنگ ہی ان کا خاتمہ و علاج کرتا ہے۔ جنگ ایک آرٹ ہے، جنگ ایک فلسفہ ہے، جنگ ایک تعلیم ہے، جنگ سنجیدگی و پختگی کا دوسرا نام ہے، جنگ صرف اور صرف ایماندار بے غرض اور بہادر لوگوں کا کام و پیشہ ہوتا ہے، یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ جنگ کھوئے ہستی کی کھوج ہے، جنگ انسان کی جنم نَو ہے، جنگ تخلیقِ ذات ہے، جنگ علم و زانت ہے، جنگ تکمیل ذات ہے۔ جنگ، جنگ کیلئے نہیں۔ جنگ حق کیلئے، جنگ آزادی کیلئے، جنگ امن کیلئے، جنگ برابری کیلئے۔

بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لیکر آج تک بلوچ قومی آزادی کے حصول، پاکستان کے قبضہ گیریت کے خلاف، قومی آزادی کی جنگ جاری و ساری ہے، کبھی نشیب و کبھی فراز، بلوچ قومی آزادی کی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔

مگر زیربحث سوال ہمیشہ یہ رہا ہے کہ بلوچوں کی جنگ کی سطح، شدت اور نوعیت کیا ہے؟ اور یہی امر جنگ میں ضروری ہوتا ہے، صرف جنگ برائے جنگ یا جزوی جنگ لڑنے سے نہ ہی دشمن کو تکلیف و شکست ہوگی، نہ ہی دنیا آپ کی طرف متوجہ ہوگی، نہ ہی کسی قوت کی طرف سے آپ کو اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور مالی کمک و مدد حاصل ہوگی اور نہ ہی اوپر متذکرہ جنگی فوائد و خصوصیات جزوی جنگ سے حاصل ہونگی اور نا ہی قوم پر اسکے ایسے اثرات مرتب ہونگے کہ قومی سطح پر تبدیلیاں رونما ہوں۔

گذشتہ دنوں کیچ کے علاقے دشت میں پاکستانی فوج کے ایک کمیپ پر بلوچ مسلح تنظیموں کے اتحاد (براس)کے جانثاروں کا حملہ اور کیمپ پر قبضہ، موجود تمام اہلکاروں کومارنا اور ان کے اسلحہ و گولہ بارود کو اپنے قبضہ میں لیکر خود فرار ہونے میں کامیاب ہونا، بلوچ قومی آزادی کی جنگ کی شدت و نوعیت اور سطح کو جزوی جنگ کے سرکل سے نکالنے اور حقیقی جنگ کی شکل اور رخ پر روانہ کرنے کا ایک بہترین کوشش اور حکمت عملی ہے گوکہ اس نوعیت کا یہ پہلا حملہ یا آپریشن نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس نوعیت اور شدت کے حملے ہوچکے ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کیسے اور کس طرح تسلسل کے ساتھ بلوچ قومی آزادی کی قومی جنگ کو اس نوعیت اور سطح پر لاکھڑا کرنا ہوگا؟

سب سے پہلے سوچنے، سمجھنے، جاننے کی حد تک یہ سمجھنا اور مطمیئن ہونا ہوگا کہ حقیقی جنگ اسی نوعیت اور سطح کا نام ہے، دوسرا جزوی جنگ اور مکمل جنگ کے فرق کو سمجھنا ہوگا اور جزوی جنگ کو مکمل جنگ سمجھ کر کبھی مطمیئن نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم بھی ایک جنگ لڑرہے ہیں۔ بلکہ جزوی جنگ کو اس وقت مکمل جنگ کی طرف ارتقاء سمجھنا چاہیئے۔ آج اگر بلوچ قومی آزادی کی جنگ اپنا ارتقائی عمل طے کرکے ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو ابھی بلوچ قومی آزادی کی جنگ کا تقاضہ کیا ہے؟

بہترین حکمت عملی اور بہترین منصوبہ بندی کے ساتھ حملے سے قبل یہ سوچنا اور سمجھنا ہوگا صرف اور صرف رسم جنگ کو پورا نہیں بلکہ جنگی تقاضات کو مکمل پورا کرکے مکمل جنگ لڑنا ہوگا ۔

رسم جنگ کہنے کا مقصد جنگ کے ساتھ صرف وابستگی و تعلق یا بطور رسم کسی پوسٹ و چوکی پر حملہ یا بطور رسم قبولیت سے بہتر ہے اور آج کا تقاضہ بھی ہے کہ سوچ، ارادہ، نیت اور حکمت عملی، منصوبہ بندی مکمل جنگ کی طرف ہو۔

اس سے دشمن کو نقصان زیادہ ہوگا، دنیا کی توجہ اور متذکرہ قومی تبدیلی رونما ہونگے اور جنگ میں دوستوں اور قوم کا نقصان جو جنگ کا بنیادی حصہ ہے وہ ضرور ہونگے، مگر مہنگا حساب نہیں ہوگا، کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق، بغیر کسی فائدے کے ہزیمت کا سامنا نہیں ہوگا۔ جنگ میں قربانی ضرور دینا پڑے گا لیکن قربانی دینی ہے تو اپنے قوم کا، سرزمین کا، اور جنگ کا پورا حق ادا کرکے، جنگ کے تقاضے پورے کرکے قربان ہونا مہنگا سودا نہیں۔

جنگوں و تحریکوں کی باریک بینی سے مطالعہ و تجربے سے ہمیشہ یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جہاں بھی مخلتف تحریک و تنظیم، گروپس وغیرہ ہوں، آخر کار وہاں سے ایک حقیقی و منظم قوت ابھر کر سامنے آسکے گی، جو حقیقی جنگ کے تمام لوازمات و تقاضات کو پورا کرکے مکمل جنگ کو آگے بڑھائے گی۔ آج اگر خوش فہمی نہ ہو تو براس اس قوت کی شکل اختیار کرسکتا ہے، بشرطیکہ براس قیادت سے لیکر کارکنوں تک یہ سوچ و اپروچ مکمل ایک پختہ شعور اختیار کرے کہ جنگ کو اب حقیقی جنگ کی طرف مزید گامزن کرنا ہوگا۔

یہ پروسس خود ایک پختہ و سنجیدہ عمل ہے، اس میں مکمل جنگ پر توجہ بہترین حکمت عملی اور بہترین منصوبہ بندی، چیزوں کو مکمل قومی و اجتماعی نظر سے دیکھنے و سمجھنے، صبر و برداشت، دوراندیشی اور مستقل مزاجی بہت اہم ہوتا ہے۔

جذبات، نفرت، دشمنی، جذبہ انتقام اپنی جگہ ہونا بھی چاہیئے لیکن اگر حکمت عملی کی بنیاد پر بلوچ گوریلا سرمچار کسی بھی دشمن کے پوسٹ یا کیمپ پر آپریشن کرتے ہوئے، دشمن فوج کو بارہا ہتھیار پھینکنے اور سرنڈر ہونے پر مجبور کریں اور گرفتار کریں، بعد میں ان کو جنگی قیدی بنا کر جنگی قیدی جیسا سلوک کرکے پھر انسانیت کی بنیاد پر رہا کریں، پھر ایک تو دنیا میں بلوچ قومی جنگ کے حوالے سے مزید بہترین تاثر پیدا ہوگا اور اس سے بھی بڑھ کر پھر آئندہ کسی بھی دشمن کے پوسٹ اور چوکی پر آپریشن اور قبضے کے وقت، دشمن کی فوج مزاحمت بھی نہیں کریگا۔ ان کو یہ پہلے سے معلوم ہوگا کہ ہم پھر رہا ہونگے۔ ہمیں نہیں مارینگے، پھر صرف قبضہ اور دشمن کے ہتھیاروں کو اٹھانے کا کام ہوگا۔ اس سے بھی دشمن کو بہت نقصان اور قومی جنگ کو فائدہ حاصل ہوگا۔

گوکہ ہر تبدیلی ترقی نہیں ہوتا، مگر ہر ترقی تبدیلی ضرور ہوتا ہے اور انسانی ذہن سے لیکر جنگ تک ترقی ضروری ہوتا ہے، ایک ہی ڈگر پر چلنا، کامیابی کا ضامن نہیں ہوتا ہے، اس کے لیئے تبدیلی و ترقی ناگزیر ہوتا ہے، البتہ ہر ترقی و تبدیلی وقتی طور پر ضرور عجیب و غریب اور انوکھا ہوتا ہے، اس سے گریز نہیں کرنا چاہیئے اس کے ضرور دوررس نتائج ہونگے، باقی فیصلہ اور قدم اٹھانا میرا اور آپ کا سب کا کام ہے۔

среда, 19 февраля 2020 г.

کلچر ڈے نہیں ثقافتی انقلاب کی ضرورت ہے – انور ساجدی

گھٹن اور غلامانہ ماحول میں سوچ و فکر کے دریچے بند ہوجاتے ہیں اور کسی کو سمجھائی نہیں دیتا کہ اس ماحول سے کیسے نکلنے یا اسے اپنے موافق بنانے کیلئے کیا حکمت اختیار کی جائے کسی معذرت کے بغیر اس حقیقت کا اعتراف کرنا ضروری ہے کہ اس وقت بلوچستان کے جو حالات ہیں انہوں نے جہاں پورے سماج کو ناگفتہ صورتحال سے دوچار کردیا ہے وہاں اس کے سب سے زیادہ اثرات سیاسی جماعتوں پر مرتب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بیشتر سیاسی جماعتیں اپنی وقعت کھوکر غیر سیاسی تنظیموں کی شکل اختیار کرگئی ہیں اسی سبب بعض لوگ ان جماعتوں کو این جی اوز کا نام بھی دیتے ہیں اگر غور کیاجائے تو سارا دوش ان جماعتوں کا بھی نہیں ہے کیونکہ جدید کالونیئل نظام میں آہنی گرفت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ حدود وقیود سے باہر نکلیں اس سلسلے میں ڈھیر ساری مثالیں موجود ہیں جب نیشنل پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تو مولانا عبدالحمید بھاشانی کی شرکت کے بعد یہ ملک کی سب سے بڑی اور نمائندہ سیاسی جماعت بن گئی لیکن مقتدرہ نے اسکے خلاف غداری یا حب الوطنی کا کارڈ استعمال کیا اس زمانے میں بار بار الزام عائد کیاجاتا تھا کہ خان عبدالغفار خان آزاد پختونستان بنانے کی سازش کررہے ہیں حالانکہ یہ الزام سراسر غلط تھا قیام پاکستان کے بعد باچا خان نے ایسی کوئی بات نہیں کی البتہ اپنی وصیت میں انہوں نے یہ ضرور لکھا تھا کہ انہیں جلال آباد میں دفن کیا جائے کیونکہ وہ غلام سرزمین پر دفن ہونا پسند نہیں کریں گے انکی تدفین کے بعد اس واقعہ کو غداری سے تعبیر کیا گیا اور کہا گیا کہ غفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا بھی پسند نہیں کیا اس طرح کی باتیں کرنے والے عناصر پختون اور بلوچ احساسات سے واقف نہیں ہیں گوکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ آج افغانستان اور پاکستان دو الگ اور آزاد ریاستیں ہیں لیکن بادی النظر میں تاریخی لسانی اور ثقافتی طور پر دونوں طرف کے پختونوں کو کبھی جدا نہیں کیا جاسکتا بے شک ڈیورانڈ لائن بیچ میں حائل ہو۔

اسی طرح اگر بلوچ پاکستان ایران اور افغانستان میں منقسم ہیں لیکن وہ بلوچستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں باقی لوگوں کے نزدیک بلوچستان پاکستان کا ایک صوبہ ہے ایران میں بھی اسے صوبے کا درجہ دیا گیا ہے جبکہ افغانستان میں اسکی حیثیت ایک ولایت کی ہے لیکن اس انتظامی تقسیم کے باوجود بلوچ خطہ کے لوگ اپنے آپ کو ایک وحدت کا حصہ سمجھتے ہیں اور صدیوں سے لسانی تاریخی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک چلے آرہے ہیں اس صورتحال کو باقی لوگ ایک اور تناظر میں دیکھتے ہیں۔

پرانی باتیں اور تاریخی حوالے اپنی جگہ اصل بات مستقبل کی ہے اگر بلوچ تشخص اور وحدت کو خطرات لاحق ہیں تو یہ کن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا دفاع کرے وہ بھی مشکل حالات میں کیونکہ یہاں پر تشخص کی بات کرنا وحدت پر زور دینا اور وسائل کے بارے میں کچھ کہنا غداری کے مترادف ہے کم از کم بلوچ سیاسی جماعتیں یہ نہیں جانتیں کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے انہیں خطرات کا ادراک ضرور ہے لیکن حالات انکی دسترس سے باہر ہیں۔

نئے حالات کاتقاضہ ہے کہ بلوچستان میں ایک کلچرل ریوولیشن برپا کیا جائے اس سے مراد بلوچ کلچر ڈے نہیں ہے جو چند سالوں سے اسپانسرڈ ہورہا ہے اور اس کا مقصد بلوچ قوم کی توہین اور تضحیک کرنا ہے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت بعض عناصر نوجوان مرد وزن کو بلوچی لباس پہنا کر انکی نمائش کا اہتمام کرتے ہیں جس کے بعد دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بلوچ افسردہ اور مایوس نہیں ہیں بلکہ وہ بہت خوش اور اپنے اچھے حالات پر محور رقصاں ہیں یہ عمل ایک مذاق ہے اور بلوچ احساسات اور مزاحمت سے توجہ ہٹانے کی ایک دانستہ کوشش ہے جو لوگ اس میں حصہ لے رہے ہیں انکی حیثیت کٹھ پتلی کی ہے جن کے دماغ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں اور انہیں قومی فکر دامن گیر نہیں ہے ڈھول باجے پر جولوگ ناچتے ہیں وہ ان سیاسی رہنماﺅں سے مختلف نہیں ہیں جو ہر بار الیکشن کے نام پر ہونے والے ڈرامے کا کردار بنتے ہیں اور حسب منشا استعمال ہوتے ہیں انکے پیش نظر یہاں کے عوام نہیں ہیں بلکہ وقتی سیاسی و مالی فوائد ہیں سب جانتے ہیں کہ وہ ایک دائرہ سے باہر جانے کی جرات نہیں کرسکتے لیکن کسی میں جرات نہیں کہ وہ مخصوص ڈرامے کا پارٹ نہ بنیں۔

یہ بات سب پرعیاں ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق بری طرح سے پامال ہیں جو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں ہیں یہاں بلوچستان سے مراد مشرقی و مغربی بلوچستان دونوں ہیں مغربی بلوچستان کا تو اتنا براحال ہے کہ وہاں پر جانوروں کے زیادہ حقوق ہیں حتیٰ کہ وہاں پر انسانوں کو ڈھنگ سے پھانسی بھی نہیں دی جاتی بلکہ کرینوں پر لٹکا کر بعداز مرگ بھی انکی توہین کی جاتی ہے ایسا عمل تو انگریزوں نے1857ء کی جنگ آزادی کے بعد دہلی میں کیا تھا جب ہزاروں لوگوں کو درختوں پر لٹکا کر پھانسی دی تھی۔

مشرقی بلوچستان میں تو نازیوں کی طرح لوگوں کو غائب کیا جاتا ہے تاکہ لوگ زیادہ تکلیف محسوس کریں یہاں پر معاشرتی اور معاشی حالات جان بوجھ کر تنگ کئے گئے ہیں کھربوں روپے کا بجٹ ہے لیکن روزگار کے ذرائع پیدا نہیں کئے جاتے جس کی وجہ سے لوگ ایران سے تیل لاتے ہیں اور ہزار بار ذلیل ہوتے ہیں لیکن اس کاروبار کا منافع بھی آقاﺅں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔

معاشرتی حالات بدترین ہیں روٹی کی بجائے منشیات عام مل جاتی ہیں اپنے ہی ملک میں آزادانہ نقل و حمل ممنوع ہے ہر جگہ شناختی کارڈ چیک کرکے جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اس طرح مجموعی طور پر یہ بنیادی انسانی حقوق کا ایک مضبوط کیس بنتا ہے، کیونکہ اہل بلوچستان کے ساتھ انسان تو کیا جانوروں سے بھی بدترین سلوک کیا جاتا ہے بدقسمتی سے یہاں کی سیاسی جماعتوں نے ایک ہوکر کبھی انسانی حقوق کا مسئلہ زوردار طریقے سے نہیں اٹھایا سب نے اپنی الگ الگ دکانیں سجائی ہیں اور سیاست کے نام پر پیٹ پالنے کا کام کررہی ہیں بے شک اس ریاست میں آہنی گرفت کسی جماعت یا تنظیم کو آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی لیکن اس گرفت کے باوجود راستے نکالے جانے چاہئیں ضرورت ایک ایسے سوشل ورک فورس کی ہے جو ڈیٹا اکٹھا کرے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اعداد و شمار جمع کرے گوکہ ہیومن رائٹس والے اپنی رپورٹ بناتے ہیں لیکن اس رپورٹ کو لیکر کوئی آواز نہیں اٹھایا جاتا اگر زیادہ اٹھائے تو ناموافق حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں غالباً پی ٹی ایم کے ساتھ سلوک دیکھ کر لوگ زیادہ خوفزدہ ہیں حتیٰ کہ محمود خان اچکزئی بھی کبھی کبھار کوئی بیان دے کر خانہ پری کررہے ہیں ان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے بنیادی انسانی حقوق کو بھی لسانی خانوں میں بانٹ رکھا ہے انہیں ہزارہ صوبہ پشتون وسائل کیخلاف سازش دکھائی دیتا ہے لیکن ریکوڈک اور گوادر کے وسائل کی لوٹ مار پر وہ خاموش ہیں وہ دریائے آمو تک معاملات کا ذکر کرتے ہیں لیکن اپنے پہلو میں ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

حالات بہت ہی نامساعد ہیں ساری نظریں بلوچستان کے وسائل پر ہیں سب زبانوں کو خاموش کردیا گیا ہے تاکہ ان وسائل کے حصے بخرے پر کوئی آواز نہ اٹھائے حالانکہ وسائل لے جانے ہیں تو غریب اور بے بس مالکان سے کم از کم بیٹھ کر بات تو کریں لیکن خوف طاری کرکے اپنے گماشتوں کے ذریعے سودا طے کیا جارہا ہے ان گماشتوں کی کیا حیثیت ہے یہ تو آنکھیں بند کرکے انگوٹھا لگانے والے لوگ ہیں لہٰذا بلوچستان کے لکھے پڑھے نوجوانوں کو چاہے وہ سیاسی پارٹیوں کے کارکن ہوں دانشور ہوں یا سماج کے فعال اراکین ہوں انہیں مل کر ایک نیا میثاق طے کرنا چاہئے یہی ایک ثقافتی انقلاب کی بنیاد بنے گی اس وقت سیاست کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سیاست آزاد لوگ کرتے ہیں۔فی زمانہ کوئی سیاست نہیں ہے مخصوص انتخابات میں حسب ضرورت سیٹیں الاٹ کی جاتی ہیں تاکہ دنیا دیکھے سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔

یاد رکھنے کی بات ہے کہ جبر وصبر کا ایک ثقافتی انقلاب زور آور طاقتوں نے برپا کیا ہے انہوں نے قلندر کے چوہوں کا ایک ٹولہ پیدا کیا ہے جنہوں نے سیاست کے نام پر پورے سماج کو غیرسیاسی ڈھانچے میں ڈال دیا ہے یہ لوگ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں انکو اپنی پرتعیش ذاتی زندگی کی پرواہ ہے جو انہیں میسر کردی گئی ہے ان کی بلا سے کہ انکے وطن کے ساتھ کیا ہوتا ہے لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے ساحل کے ساتھ کیا ہوتا ہے وسائل کے ساتھ کیا ہوتا ہے مثال کے طور پر ساحل کے ساتھ جو بدسلوکی ہورہی ہے وہ ماحول کی تباہی ہے آب و ہوا کی تباہی سمندر کی تباہی ہے اور سمندری حیات کی بربادی ہے یہ بذات خود ایک المیہ ہے اگر اپنے وسائل کا ایک تھو

ڑا ساحصہ خیرات کے طور پر دیا جاتا ہے وہ بھی اس مخصوص طبقہ کو تو یہ بھی لاکھوں انسانوں کے ساتھ زیادتی ہے یہ تو معلوم ہے کہ بلوچستان میں جو پرانے دانشور تھے وہ از کار رفتہ ہوچکے ہیں انکی جگہ ضرور نوجوان آئے ہونگے جو زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہونگے ان لوگوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ کس طرح انسانی حقوق اور ثقافتی سطح پر اذہان میں کوئی تبدیلی لاسکتے ہیں، آنکھیں بند کرکے خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے سے یہی بہتر ہے کہ سوچا جائے، غوروفکر کیا جائے تاکہ بند دریچے کھل سکیں گھٹن کا ماحول ختم ہوجائے اور ساحل سے کوئی بادصبا چلے کوئی تازہ جھونکا آئے۔

جن لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جو قوم سوگ میں ہے ماتم میں ہے اس کا کیا کلچرڈے منایاجائیگا یہ لوگ تو ڈھول کی تاپ پر رقص کرنے والے معصوم لوگ ہیں انکے اس معصومانہ عمل کو بھی بیچ بازار میں فروخت کردیاجاتا ہے کیونکہ اس نظام کا یہی خاصہ ہے۔

вторник, 18 февраля 2020 г.

آہ! یوسف – کوہ دل بلوچ

کہتے ہیں کہ یادیں ماضی میں لےجاکر پُرانے زخموں کو کُریدنے کے سوا اور کچھ کام نہیں آتے، مگر کچھ ایسی یادیں ہوتی ہیں جن کے زخم کُریدنے میں ایک الگ سی کیفیت ہوتی ہے، یہ کیفیت درد اور وحشت سے بھری ہوتی ہے، اس کے عالم میں رہ کر حواس اپنی جبلت کھو دیتا ہے. مگر یہی کیفیت پھر ایک دن ضمیر جگانے کا ذریعہ بن کر انسان کو مطمئن کر دیتے ہیں۔ انسان پھر ایسے کیفیتوں کو اپنا مقدر سمجھ کر ہمیشہ بچشم قبول کر لیتا ہے تاکہ ضمیر کو قوت بخشتا رہے، اسے مردہ ہونے نہیں دے. ایسے ہی ماضی کے چند یادیں آج ہمارے ضمیر کے آنگن میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، کانٹے جیسے چُھب رہے ہیں۔ درد و قہر اور سینے میں آگ بھڑکا رہے ہیں، مگر ایسا لگتا ہے جیسے اس نرم اندام سے جوالا اٹھ رہے ہیں اور اُٹھ کر للکار رہے ہیں ضمیر کو جگا رہے ہیں.

ایک دن تین ساتھی میرے پاس آئے، مجھے میزبانی کا موقع عطا کردیا، ان تینوں ساتھیوں میں ایک سنگت یوسف بھی تھا، پہلی بار آپ سے دوسرے سنگتوں کے توسط سے ملنے کا موقع ملا تھا. وہ ہنس مکھ اور معصوم چہرہ مجھے آج بھی شدت سے یاد ہے، نہ جان پہچان تھا نہ کوئی شناسائی مگر اُس کے مسکان نے مجھے اُسی دن ہی اپنائیت کا احساس دلایا کہ یہ ہم بد قسمت راج کا ایک سنگر ہے، ایک چیدگ ہے، اور اس راج کے تاریخ کا محافظ اور نئی تاریخ کا نوشتکار بھی ہے. آپ کا ایک بہت خوبصورت عادت تھا، وہ ہمیشہ زانوں کو ہاتھوں میں دبا کر بیٹھتا تھا، کیا انداز تھا سنگت کے بات کرنے کا، اپنے تو اپنے کوئی غیر بھی اُس کے صحبت کو اپنے لئے نعمت تصور کرتا تھا۔ سنگت یوسف کی ایک ہنسی ہم جیسے لوگوں کے رات بھر کی دیوان سے بھی زیادہ چاشنی رکھتا تھا۔

سنگت یوسف الفاظ کی قحط تو ہر وقت میرے زہن پر اپنا قبضہ جمائے بیٹھا ہوتا ہے، جب آپ جیسے سنگتوں کے حق میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں کیونکہ آپ سب کے کردار کے آگے میری الفاظ ختم ہونے لگتے ہیں، میں ایک ادنیٰ سا لکھاری آپ جیسے عظیم ہستیوں کے کردار پر لاکھ لکھنے کی کوشش کروں، پھر بھی آپ سب کے کردار کا حقیقی رُخ اپنے لفظوں سے بیان کرنے کااہل نہیں رکھتا، بس چند یادیں ہیں آپ سنگتوں کے اُن کو پیش کرکے چند لمحے خود سے ہم کلام ہونا محسوس ہوتا ہے، تب جاکر یہ قلم اُٹھاتا ہوں اور لکھنے بیٹھ جاتا ہوں کیونکہ یہ قلم دو ہستیوں کا تحفہ ہے اس قلم کی روانی میرا فریضہ ہے، میں بہت مقروض ہوں شہید دلوش اور شہید میرل نثار کا جن کے دیئے گئے کام میں مجھ سے ہر وقت کوتاہی سرزد ہوتا ہے۔ آج تک اپنے لکھے تحریروں میں وہ حق ادائی نہیں دیکھا، جس کا انہیں بہت زیادہ اُمید تھا لیکن پھر بھی آخری سانسوں کے لڑی تک اپنی اس کم اہلی میں لکھتا رہونگا. بس سنگت آپ مجھے معاف کرنا، اگر میں آپ کے کردار کو حقیقی معنوں میں پیش نہ کر سکوں.

وہ دن کچھ پل کا ملاقات تھا، میرے بہت اصرار کے باوجود بھی وہ مجھے میزبانی کا پورا حق ادا کرنے نہیں دیا اور پھر تینوں ساتھی اپنے منزل کی جانب محو سفر ہوئے.

یہ سنگت یوسف کا ہنر تھا، یا اُس کے ہنس مکھ چہرے کی کشش کہ ایک ملاقات کے بعد اس سے میرا رابطہ بحال ہوگیا، بہت عرصے بعد پھر یوسف سے ایک بار پھر ملاقات ہوا اس بار اس کےساتھ کافی وقت گذارنے کا موقع ملا سنگت یوسف ایک مہربان اور مخلص سنگت تھا، اُس کے انداز اور محو گفتگو سے یہ دلائل صاف نظر آتے کہ یہ کوئی معمولی ہستی نہیں ہے، اس کے مسکان کے پیچھے ایک درد ہے، جو اُسے ہر وقت ستاتا رہتا ہے۔ آپ کے خدمت و خواری سے محسوس ہوتا تھا کہ اس نوجوان نے قوم کے سارے دکھ درد کا بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس کر لیا ہے، بہت ہی ذمہ داری سے اپنے ہر کام میں مگن نظر آتا۔ دوسری دفعہ جب سنگت کے دیوان سے چند وقت زیادہ لطف اُٹھانے کا موقع ملا تو کافی مسئلوں پر مزاق مزاق میں کئی باتیں ہوئیں، سنگت آپ فلانی شخص کو جانتے ہو جس کو مذہبی شدت پسند شفیق مینگل نے قتل کروایا؟ اُس کی لاش کی بے حرمتی کی اور لاش عورتوں کے حوالے کرکے اُس پر جو من چاہا کرتے رہے؟ سنگت مسکراتا ہوا کہنے لگا “اڑے نی امر اوفتے چاسہ؟” آپ انہیں کیسے جانتے ہو؟

ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ یوسف مُسکرا رہا ہو اور ہم اس چہرے کے درشن میں ہوتے ہوئے مسکان سے عاری ہوں، مسکراتے ہوئے میں نے کہا سنگت آپ جس علاقے سے ہو اُس کے ہر پتھر سے میں واقف ہوں، میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، سنگت آپ مذکورہ علاقے کے کس گاؤں سے ہو؟ گریشہ، کودگ، نال یا لیڑوی لوپ، سے ہو؟ اے قربان یوسف آپ کے بات کرنے کے انداز پر اور آپ کے مسکراہٹ پر مجھ جیسے ادنیٰ جہد کار ہزاروں صدقہ ہوں، مجھے یاد ہے آپ نے ہنستے مسکراتے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں دباکر کہنے لگا “اڑے شوم نی ایجنسی والاس تو افیس دا علاقہ آتے داسکان ای خنتہ نُٹ” سنگت یوسف وہ چند لمحے جو آپ کے صحبت میں گذارے وہ میرے لئے اب ہر لمحہ ایک فخر کے ساتھ ساتھ درد کا بھی سماء ہوتے ہیں. تجھ سے تو اور بھی بہت سی باتیں کرنی تھی، گریشہ، نال، وڈھ، کودگ اور آواران کے صورت حال پر آپ سے تبصرہ کرنا تھا، تجھ سے جنگی ہنر پر بات کرنا تھا. سنگت آپ کے مُسکان سے لُطف اندوز ہونا تھا آپ کے معصومیت کو قریب سے دیکھنے کا آرزو تھا سنگت آپ کو اس طرح جانا نہیں چاہیئے تھا، لیکن غازی کرتا تو کیا کرتا بھائیوں کے صحبت سے زیادہ لُمہ وطن کی آہ و پکار اُسے بے چین کر رہا تھا۔ شہادت اور فتح ایک غازی کی میراث ہوتے ہیں اور سنگت آپ نے اپنے منزل کو طے کر لیا شہادت پاکر عظیم رتبے پر فائز ہوا.

سنگت یوسف آپ کے فکر، آپ کے مخلصی آپ کا اپنا پن، آپ کے ساتھ گذرے ہوئے لمحات اور آپ کے بے پناہ مہر و محبت کم از کم مجھ جیسے وطن کے غافل فرزند کو کبھی بھی غلامی جیسے بدبودار ضابطوں کو آسانی سے قبول کرنے نہیں دیں گے، تیرے ساتھ گذرے ہر ایک پل ہمارے ضمیر پر ایک ضرب ہوگا، جب ہم اندھیری راہوں میں گھرے ہوئے نظر آئیں گے آپ سنگتوں کے کردار ہمیں کبھی بھی بھٹکے ہوئے راہوں پر چلنے نہیں دیں گے.

مجھے یاد ہے آپ نے ایک سنگت کے چھوٹی سی غلطی پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُسے کم از کم ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا غلطیاں سرزد ہوتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ غلطی کو سدھارنے کے بجائے اور بھی بگاڑ دو، سنگت آپ ایک رہنما تھا سنگت جب تک آپ کے ساتھ رہا بس یہی شُبہہ رہا کہ آپ کا چہرہ سنگت زاہد بلوچ سے کافی ملتا جُلتا ہے، پھر کہتا میرا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور ایک دن کسی سنگت نے باتوں باتوں میں مجھے کہا کہ آپ نے کبھی یوسف کو غور سے دیکھا ہے اُس کا دروشُم کس کا حوالہ دے رہا ہے؟ میں نے اُنگلی ہونٹوں تلے دباتے ہوئے کہا یوسف ایک قابل ہستی کا ہوبہو فوٹو ہے مگر پھر بھی مطمئین نہیں ہوں کہ سنگت یوسف اُس خاندان سے ہے یا نہیں تو وہ سنگت بھی مسکراتا ہوا دھیمی آواز میں کہا یوسف لاپتہ سنگت زاہد کرد کا چھوٹا بھائی ہے. یہ سُن کر میں ایک پل کیلئے خاموش ہو گیا اور کہیں کھو گیا کہ بلوچ تحریک اب کافی مضبوط ہو چکا ہے، پھر خود کو کوستا رہا کہ تم اپنی کمزوریوں پر باریک بینی سے دیکھو تاکہ تجھے اندازہ ہو یہ تحریک نسل در نسل منتقل ہوتا آرہا ہے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے.

جب سے سنگت یوسف کے شہادت کی خبر ملی ہے، میرے تخیل کا ہر لمحہ اُس کے مسکان اور معصوم چہرے سے ذرا بھی کہیں اور نہیں ہٹتا، ہم نے ایسے بھی ساتھی کھوئے ہیں جن کے پیروں کے دھول سے خوشبو کی مہک اُٹھتے تھے، ہم نے ایسے بھی ہستی کھوئے جن کے سہاگن کے ہاتھوں سے ابھی تک مہندی کا رنگ بھی اُترا ہوا نہیں ہے، مگر کیا کریں دشمن جب روز لُمہ وطن کے گود کو ہمارے ہی لہو سے رنگا رہی ہو تو وہاں رنگِ حنا کی وجود مٹ جاتی ہے پھر جنگ کے آگ میں کودنا پڑتا ہے تاکہ لُمہ وطن پر کوئی غیر بد نظر نہ رکھ سکے اور قوم و راج کی تشخص و بقاء پر آنچ نہ آئے اور پھر اسی ایثار کے خاطر ناجد سلیم یوسف دودا کے ہمراہ مہندی ہاتھوں پر گھر سے رخصت ہوتے ہیں مسکاتے ہوئے “رخصت اف اوارون” کہہ کر واپس مُڑنے کا گمان تک نہیں کرتے ہے اور پھر ایک دن راج پر قہر برستا ہے بلیدہ سے یہ خبر موصول ہوتی ہےکہ یوسف عرف دودا، ناجد عرف سلیم، میران عرف داد جان، دولت رسول عرف بہرام اور شکیل عرف ماما جنید دشمن کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ اور مذہبی شدت پسندوں کے ساتھ لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں

понедельник, 17 февраля 2020 г.

ساختہ مقیاس – برزکوہی

کس حد تک اس دلیل میں صداقت ہے کہ ہر پڑھا لکھا انسان عالم نہیں ہوتا؟ اور ہر ان پڑھ انسان جاہل بھی نہیں ہوتا؟ دانائی خود ایک علم و شعور ہے، دانائی کہاں سے اور کیسے انسان میں پایا جاتا ہے؟ فلسفہ، نفسیات و سائنس اس بابت کوئی مطلق رائے نہیں دے سکا کہ دانائی کا ماخذ کیا ہے۔ کیا اسکا اساس تجربہ ہے، جنگ ہے یا عمل ہے؟ اگر عمل ہے تو کونسا عمل؟ گر مصدرِ دانائی سچائی و مخلصی ہے، تو پھر کیا ہر سچا و مخلص انسان عالم یا دانا ہوتا ہے؟

کیا عالم و دانشور اور لکھاری میں فرق ہوتا ہے؟ خیر اسکو چھوڑیں یہ بارہا موضوعِ بحث رہا ہے، پہلے یہ تعین ہو کہ ہمارے سماج میں آخر دانشور کون ہیں؟ دانشوری کا معیار کیا ہے؟ کس کی نظر میں کون دانشور ہے؟ وہ آخر زاویہ نظر کیا ہے؟ اس زاویہ نظر کی دانشوارانہ معیار کیا ہے؟ اس کی اپروچ کیا ہے؟ پھر اگر دانشور لیڈروں کی رہنمائی و نصیحت کرے تو پھر لیڈر کون ہیں؟ لیڈری کا معیار کیا ہے؟

کیا کسی بھی پارٹی، تنظیم، انجمن، یونین، گروپ کے سربراہ و عہدے دار یا ریاستی چناؤ میں جیتنے والے اسمبلی ممبر یا خاندانی وراثت میں سربراہی پر گدی نشین ہونے والے میر، سردار، نواب وغیرہ سارے کے سارے لیڈر ہیں؟ اگر ہاں تو کیسے، کہاں سے اور کب؟ کوئی وضاحت، علمی و ٹھوس دلیل؟ میرے خیال میں علمی دلیل کچھ نہیں محض دعویں اور ان دعوؤں کے اندھے خود کام، مقلد۔ اگر معیار و تعریف کا پیمانہ محض دعویٰ ہی ہوتا تو پھر اس وقت ماشاء اللہ بلوچ قوم میں سینکڑوں و ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لیڈران موجود ہیں، پھر یہ قوم آج قومی نجات سمیت، پوری دنیا میں عظیم سے عظیم تر ریاست کا طرہ لیئے سرفہرست ہوتا نہ کہ بدترین غلامی و محکومی کے دلدل میں دھنسا ہوتا۔

خوامخواہ کی دانشوری و خوامخواہ کی لیڈری کا مرض ہمارے سماج میں اس حد تک جڑ پکڑ چکا ہے کہ اب کینسر سے بڑھ کر کرونا وائرس بن چکا ہے کہ اسکا علاج نظر نہیں آرہا۔ میں اپنے آپ میں، اپنے مخصوص و محدود سرکل میں، بڑا لیڈر و بڑا دانشور بنا پھرتا ہوں، مگر اندر سے کچھ نہیں۔

کچھ سنی سنائی باتیں، رٹتے ہیں، انہیں معیار بناتے ہیں، پھر انہی کو دہراتے ہیں اور اتنا دہراتے ہیں کہ ان پیمانوں کو کسی صحیفے کا حرف آخر سمجھ کر ان پر ایمان لے آتے ہیں۔ مگر آج تک دل دماغ، آنکھیں کھول کر اس جرت کا مظاہرہ ہم نہیں کرسکتے ہیں کہ وسیع ریسرچ و تحقیق کرکے دنیاوی و علمی معیار و تعریف کے مطابق دانشور و لیڈر کا اصل معیار جانیں کہ وہ کیا ہوتا ہے؟

اگرفلسفیانہ اٹکل بازیوں و سائنس کی پیچیدہ پچکاریوں سے دامن بچا کر اپنے سماج کے چہرے کو پڑھتے ہوئے بھی اس معیار کو سمجھنے کی کوشش کرلیں تو یہ کوئی جوئے شیر لانا نہیں ہوگا، ایک سیدھا سادہ اور مختصر معیار و تعریف یہ ہوگا کہ اپنے پسماندہ تباہ حال، غلام و محکوم قوم کو شعور وعلم کی روشنی سے روشناس کرکے، قومی بیداری پھیلا کر، راہ نجات پر قوم کو ایک منظم تحریک و تنظیم میں گامزن کرنا اور اس بابت اپنے کو شعوری و علمی طور پر متحرک و منظم کرکے راغب کرنا۔ خود سچائی و مخلصی، ایمانداری اور بہادری کے ساتھ مکمل بے غرض ہوکر ہر قربانی کیلئے پیش پیش ہوکر سالوں کا ادراک و پیش بینی، دوراندیشی، صبر و تحمل اور اخلاقی اثر و اقدار کا مالک ہوکر مسلسل جدوجہد کو شدت کے ساتھ آگے بڑھانا اور وسعت دینا حقیقی لیڈر کا معیار اور تعریف ہوگا۔

دانشور کسی بھی معاشرے میں علمی طور پر ایک غیر معمولی اور نمایاں کردار کا مالک ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات، دلائل، سوالات اور علمی و عملی کردار سے پسماندہ سماج کے بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیتے ہیں اور راہ نجات کے تحریک کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں تب جاکر حقیقی لیڈر کا حقیقی دانشور ہی علمی طور پر راہنمائی کرسکتا ہے۔ دانشور اپنے سماج کا طبیب ہوتا ہے، وہ اپنے سماج کے نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کرتا ہے، اور بیماری چاہے جتنی بھی بری ہے، وہ بغیر لگی لپٹے کے اسکا تشخیص بتاتا ہے، اور بتاتا ہے کہ علاج کیسے ممکن ہے۔ اگر سماج کے اس طبیب یعنی دانشور کے صلاحیتوں میں کھوٹ ہوا تو تشخیص درست نہیں ہوتی اور اگر نیت کھوٹ دار نکلا تو پھر بتایا گیا طریقہ علاج کماحقہ نہیں ہوتا۔ اس لیئے دانشور کیلئے صلاحیت و اخلاص دونوں ضروری ہوتے ہیں۔

جب دانشور خود تحریک سے کوسوں دور ہو، تحریک کے ا،ب تک سے واقف نہ ہو، پھر ہوائی تجزیوں اور تبصروں سے علمی راہنمائی ناممکن ہوگا۔

شاید میرا اپنا علمی نقطہ نظر انتہائی ضعیف ہو، میں اس اہل نہیں کہ رہنمائی یا دانش کا پیمانہ متعارف کرنے کا اہل ہوسکوں، لیکن اتنا میں بلا حیل و حجت کے کہہ سکتا ہوں کہ جو تسلیم شدہ رائج الوقت پیمانے ہیں، وہ تمام فریب ہیں۔ انہیں فریب قرار دینے کیلئے مجھے فرداً فرداً بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ محض نتائج ہی یہ اخذ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ جب قافلہ سالوں سے صحرا میں بھٹک رہا ہو پھر یہ امر رہبری اور قافلے کے رہبر کے چننے کے معیار پر سوال اٹھانے کیلئے کافی ہے۔

محنت، قربانی، مخلصی، عزت و احترم، علم و زانت، شخصیت، شخصیت پرستی، کردار نبھانا وغیرہ اپنی جگہ مسلمہ حقائق، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 70 سالوں سے خطے میں بلوچ، پشتون اور سندھی قوموں کو کس نے اور کب غلامی کی سفر سے راہ نجات، اور قومی آزادی کے حصول کی خاطر ایک منظم و متحرک تحریک کی حتمی شکل دینے میں حقیقی و مثالی تنظیم یا ادارہ دیا؟ جس کے بنا پر ہم اس شخص کو آج لیڈر کہہ سکیں؟

کون دانشور، آج پسماندہ و غلامانہ سماج کو بلاخوف و لالچ، مصلحت پسندی و معاشی، ذاتی، مادی مجبوریوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، اپنے علمی سوالات، خیالات اور دلائل سے ہلاتے ہوئے تحریک یا جنگ نجات میں عملی طور پرشانہ بشانہ رہا ہے؟

میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب کم از کم اس اکیسویں صدی میں ہم اپنے قوم پر رحم کریں، حقائق کو مسخ اور گڈمڈ کرنے، تصوارتی و ہوائی اور جذباتی مشگافیاں قوم پر تھونپنے کے بجائے، اس قومی بقاء و فنا کی جنگ میں سب کو اپنے بساط کے مطابق جنگ میں اپنا کردار نبھانے کے ساتھ قوم کو سچائی اور حقائق کی بنیاد پر علم و آگاہی اور شعور بخشنا ہوگا کہ ہم بحثیت قوم آج ایک خطرناک موڑ پر کھڑے ہیں، اگر خاموش رہینگے، تو یہ مقام ہماری اجتماعی و قومی موت ثابت ہوگی۔

جب اجتماعی و قومی موت ہوگی، پھر نہ لیڈر، نہ دانشور، نہ قلمکار، نہ سفارتکار، نہ شاعر، نہ ادیب، نہ سیاسی و انسانی کارکن رہیگا اور نہ بحث و مباحثہ، و تنقید بچے گی۔ صرف قومی فنا ہوگا، تو فنا سے بچ کر بقاء صرف اور صرف قومی جنگ میں ہے۔ اور جنگ کی شدت میں ہے اور شدت منظم و متحرک تنظیم و تحریک میں ہے اور متحرک تنظیم و تحریک کی تخلیق ہمیشہ لیڈر اور اس کے ٹیم میں ہوتا ہے اور لیڈر ہی کے علمی، عملی راہنمائی میں جنگ کے ساتھ ساتھ شانہ بشانہ دانشوروں کا کردار ہوتا ہے۔

ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کہاں جارہے ہیں؟ کیا سوچتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں؟ یہ وہ ادراک ہے، جس کے بنیاد پر اس جنگ یا تحریک کی بنیاد رکھی ہو تو پھر خستگی سے بچائے رکھے گی۔ خیر جنگ جاری ہے، ہارے نہیں ہیں، امید زندہ ہے کہ جنگ کے شعلوں سے وہ معیار، وہ تعریف جو آج فقط کے خاکے کے صورت میں ذہنوں میں ہیں، وہ آج نہیں تو کل ضرور حقیقی شکل میں نمودار ہونگی۔

четверг, 13 февраля 2020 г.

سمی و دودا سے ماہ رنگ و یارمحمد تک – برزکوہی

جس قومی جذبے کو حرف عام میں بلوچی غیرت و عزت کہا جاتا ہے اور اجہلان جاکر اسے کلی طور پر عورت سے منسوب کردیتے ہیں، درحقیقت بلوچی غیرت جذبہ حب الوطنی اور قومی دفاع ہے۔ وطن سے عشق، اسکا دفاع اور اس وطن پر آباد لوگوں کے دفاع کیلئے سردھڑ کی بازی لگانا ہی بلوچی غیرت کا حرفِ اول ہے۔ اور جو اس شرطِ اول پر آمادہ ہے، وہی غیرت مند بلوچ ہے۔ اور بیغرتی اور کچھ نہیں، سوائے اس روش سے متضاد چلنے کے۔ یہ قومی یا بلوچی غیرت کی تعریف کسی ایک سردار و نواب نے نہیں کرکے دی بلکہ یہ ہمارے اجتماعی قومی شعور کا صدیوں کا نچوڑ ہے۔ اب حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک سردار جو نوجوانی سے لیکر آج تک اس قوم پر قابض پنجابی چوہدریوں، جاگیرداروں اور فوجیوں کی خدمت گذاری، جی حضوری میں گذار کر، اپنی سرزمین پر دشمن کے قبضہ گیریت کو جی و جان سے قبول کرچکا ہو بلکہ غلامی کو تقویت دینے اور اپنے قوم پر ہر ظلم و ستم، لوٹ ماری میں برابر شریک رہا ہو۔ وہ سردار جو بذات خود چوری، ڈاکہ زنی، لوٹ ماری، بھتہ خوری، اغواء کاری جیسے قبیح اعمال میں شریک و سرپرست رہا ہو۔ وہ سردار جسے کہیں اگر پیسہ نظر آئے، تو وہ اسکا قبلہ بن جاتا ہے۔ جو کبھی بھٹو، کبھی نواز، کبھی عمران، کبھی فوج، کبھی مولوی اور کبھی کینٹ کے باہر کسی میجر و صوبیدار کی جی حضوری کرتے نظر آئے۔ وہ سردار یار محمد جس نے بلوچ وطن کے دفاع میں انگلی تک نہیں اٹھایا ہو، لیکن خاندانی دشمنی کے نام پر سینکڑوں بلوچوں کے خون سے اسکے ہاتھ رنگے ہوئے ہوں، وہ سردار یار محمد کب اور کیسے بلوچ غیرت کا مثال بن گیا، اور وطن کی دفاع میں شہید ہونے والے ایک باپ کی بیٹی، ایک بہادر، جرات مند، بلند آواز بلوچ بیٹی، ماہ رنگ بلوچ کو بلوچی غیرت کا سبق پڑھانے لگا؟

یہ وہی سردار ہے جو ایک غریب بلوچ کا اپنا راستہ کاٹنے تک کو اپنی بے عزتی تصور کرکے اسے سزا دلواتا ہے، اور دوسری طرف اس سردار کو اس وقت بالکل بھی بے عزتی نظر نہیں آتی، جب بھرے محفل میں میڈیا کے سامنے عمران خان اسے کرسی پر بٹھانے کے بعد فوراً واپس اٹھنے کا حکم دیتے ہیں، اور جناب مدرسے میں قاعدہ پڑھنے والے طالب کی طرح چپ چاپ اٹھتے ہیں، اور ہاتھ باندھ کر ایک کونے میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں جناب، کوئی بے عزتی نہیں ہوئی۔ یہ سب عزت، غیرت، بہادری، معتبری، میری اور نوابی کے زمرے میں شمار ہیں، جب تک پیسہ ملے، کرسی ملے مائی باپ سب اچھا ہے۔ عزت و غیریت آنی جانی شے ہے، اصل چیز پیسہ ہے۔ عزت و غیرت کا یہ انوکھا معیار اور یہ تعریف، ایسے بِکے اور جھکے ہوئے، بھیک منگے سردار و نواب متعارف کرچکے ہیں۔

جس طرح مولوی، پادری، پنڈت وغیرہ حقیقی دین، مذہب اور دھرم کو مسخ کرکے، انسان کا بلا واستہ تعلق اس سے توڑ کر خود بیچ میں ایجنٹ بن کر مذہب کو صرف کمانے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ اسی طرح یہ سردار و نواب، میر و معتبر حقیقی بلوچی غیرت و بلوچی کوڈ آف آنر کو مسخ کرکے اپنے دوغلے و مصنوعی بلوچی روایات، عزت و غیرت اور بہادری کے معیار لاچکے ہیں، اور اسے اپنے لیئے طاقت و دہندے کا زریعہ بناچکے ہیں۔ بد نصیبی کی بات یہ ہے کہ ہمارے بہت سے پسماندہ ذہنیت کے مالک بے شعور لوگ کسی حدتک انکے جعلی تعریف و معیار قبول کررہے ہیں۔

ماہ رنگ بلوچ میڈیکل کی ایک طالب علم ہے، وہ ایک ڈاکٹر بنیگی، وہ اپنے قوم کیلئے، انسانوں کیلئے، انسانیت کیلئے ایک مسیحاء ہوگی، لیکن ہمارے غلامانہ سماج نے شروع دن سے ماہ رنگ کو پڑھنے اور کلاس روم میں بیٹھنے کا کم سڑکوں، پریس کلب اور مظاہروں میں دکھائی دینے کا زیادہ موقع فراہم کیا۔ ایک باشعور باصلاحیت بہادری بیٹی میدان میں نکل کر اپنے ذاتی مطالبات کی نہیں بلکہ تمام طلبہ و طالبات کے جائز حقوق کی بات کررہی ہے۔ وہ بھی ایک غیر فطری و سفاک ریاست کے اندر رہتے ہوئے بھی فطرت و قانون کے تحت مطالبات کی بات کررہی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے تھی کہ ہمارے قوم کی بیٹی اتنی باشعور و با صلاحیت ہے کہ اپنے حقوق جانتی ہے اور اپنے حقوق کی بات کرسکتی ہے۔ مگر اس اپاہچ سرداری نظام کے اپاہچ سرداریار محمد رند انہیں یہ کہہ کر چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر آپ عزت والی ہوتی تو روڈوں اور سڑکوں پر نہیں ہوتی۔

ستر سالوں سے دیا گیا یہ زبان اور یہ سوچ قابض پنجابی کی تخلیق ہے، جسکا مقصد و مراد حقیقی بلوچیت کو مسخ کرکے ان بکے ہوئے نامراد سردارں کے ذریعے پنڈی میڈ بلوچیت نافذ کرنا ہے، ایسی بلوچیت جو اپنے تئیں غلامی جذب کرسکے، کیونکہ حقیقی بلوچیت کے سانچوں میں غلامی نہیں ڈھل سکتی۔

یارمحمد رند جیسے ریاست کے سینکڑوں کاسہ لیس دشمن کا یہ سوچ لیکر، پھیلا کر ہماری ماں بہنوں کو تعیلم و شعور اور جدوجہد سے دور رکھنے اور بیگانہ کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں، جو غلامی و محکومی کو دوام دینے اور مضبوط کرنے کا ایک مضبوط حربہ ہے یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ ایک طرف یہ سوچ تخلیق کرکے یارمحمد جیسوں کو رٹانا اور انکے ذریعے یہ نافذ کرنے کی کوشش کرنا اور دوسری طرف،یہ برملا کہنا کہ جی! ہم تو تعلیم و ترقی دینا چاہتے ہیں یہ انکے اپنے سردار و نواب تعلیم کے دشمن ہیں۔ یعنی یارمحمد جیسوں کو خود علم و شعور اور تعلیم کے سامنے رکاوٹ و دشمن بناکر پھر واپس ان کے گلے میں بھی گھنٹی باندھ کر یہ کہنا کہ جی دیکھو جب طلبہ احتجاج کرتے ہیں تو یارمحمد ان کو کہتا ہے یہ بےعزتی کاکام ہے۔ اس طرح ان کے سردار پسماندہ ہیں۔

کیا مولویوں کی طرح عزت و غیرت، بہادری کے ٹھیکیدار سردار و نواب ہیں؟ جس طرح مولوی مذہب و دین کے ٹھیکیدار ہیں؟ کیا تاریخی طورپر بلوچ کوڈ آف آنر میں عزت، غیرت و بہادری کا جو معیار تھا اور ہے وہ یار محمد جیسے نام نہاد مسلط کردہ سردار پورا کررہے ہیں یا پورا کرچکے ہیں؟

بلوچ روایات و اقدار واضح ہیں، تاریخ ثابت کرچکی ہے کہ جب سرزمین پر اغیار کا یلغار یا قبضہ ہو تو قبضہ گیریت کے خلاف لڑنا ہوگا، جنگ کرنا ہوگا، شہید خان محراب خان بننا ہوگا، اکبرخان و بالاچ خان بننا ہوگا، نوروز خان و دوست محمد بننا ہوگا۔ اور آپکی بلوچ بہن و بیٹی کا باہر نکلنا بیغیرتی نہیں بلکہ بلوچ روایات میں غیرت کا اعلیٰ ترین اعزاز ہے۔ جس طرح بی بی حاتوں و بانڑی ہاتھوں سے چوڑیاں نکال کر میدان میں نکلیں تھیں، اور بلوچ روایات میں، وہ شیر زال، بلوچ غیرت، حرمت اور عزت کے استعارے بن چکے ہیں۔

جب کسی بلوچ بیٹی کیساتھ سمی کی طرح ظلم و نا انصافی ہو، اور وہ گھر چھوڑ کر انصاف طلب کرنے کیلئے آپکے پاس آئے تو پھر بلوچی غیرت کے تقاضے کے مطابق آپ کو دودا گورگیج بننا ہوگا نا کہ یار محمد۔ جب آج کے سمی، ماہ رنگ کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے تو آپ اگر دودا نہیں بن سکتے ہو، تو کم ازکم دشمن کی زبان استعمال کرکے اس کو عزت کا طعنہ نہیں دینا چاہیے تھا، حق تو آج ماہ رنگ کا بنتا ہے کہ یہ طعنہ آپ کو دیتی کہ آپ کیسے اور کہاں سے چاکر و گہرام اور دودا کے نسل سے ہو؟ آپ کی عزت کہاں چلی گئی کہ ہم روڈوں اور سڑکوں پر اگئے ہیں؟ آپ دشمن کے ساتھ کھڑے ہو، عزت و غیرت آپ بیچ چکے ہو اور طعنہ ہمیں دے رہے ہو؟ ہم تو عزت و غیریت و ننگ و ناموس کے پاسبان تھے اور پاسبان ہیں۔

یہ بات بلوچ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب دشمن کے خلاف جنگ ہو، سرزمین کی آزادی کی جنگ ہو، جو بھی اس جنگ میں شریک نہ ہو یہ بے غیرتی ہے۔ اصل بے عزتی و بیغرتی یہی ہے کہ جو اس جنگ میں گامے درمے سخنے شامل نہ ہو اور دشمن کی صف میں کھڑے ہوکر یارمحمد خود اس کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔

فینن کہتا ہے کہ ” صرف اعلیٰ نسل ہی وطن کیلئے لڑتا ہے، اور جو وطن کیلئے لڑتا ہے صرف وہی اعلیٰ نسل ہے” ، ذات پات کے نام پر انسانوں کی سماجی درجہ بندی ایک قبیح عمل ہے، لیکن پھر بھی بلوچ سماج میں جو آج خود کواعلیٰ ذات کہہ کر گھومتے پھرتے ہیں، اسکے تاریخی پس منظر میں جاکر دیکھیں، تو وہ کسی نا کسی طرح کسی ایسے شخص کی نسل سے ملیں گے جو اس وطن کے حصول و دفاع کیلئے لڑا تھا، اسی کے بنا پر آج بنا کردار کے بھی اسکی نسل خود کو اعلیٰ کہتی ہے۔ لیکن وقت بدل رہا ہے۔ پرانے تمام معیار مٹ رہے ہیں اور نئے معیار بن رہے ہیں۔ وطن کی جنگ جاری ہے۔ اب ماضی نہیں یہ جنگ تعین کریگی کہ اعلی نسل کون ہے اور کم نسل کون، غیرت مند کون ہے اور بیغرت کون۔

воскресенье, 9 февраля 2020 г.

پاکستان کی کل اینڈ ڈمپ پالیسی کا تاریخی تسلسل: اسد مینگل اور احمد شاہ کرد کی تکلیف دہ یا دیں

تحریر: ڈاکٹر نصیر دشتی

اکیسویں صدی کے آغاز سے لیکر آج تک بلوچس

تان سے سینکڑوں بلوچ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا کئیے جا چکے ہیں- سینکڑوں متاثرین کا اب بھی کوئی پتہ نہیں چلا ہے اور ان کے خاندان کے افراد اپنے پیاروں کے بارے میں کسی بھی خبر کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں- اس عمل کا سب سے افسوسناک پہلو جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی قرار دیا گیا ہے، اس پالیسی کے تحت سیکیورٹی ایجنسیاں اکثر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں میں پھینک دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دور میں شروع کی جانے والی ‘کل اینڈ ڈمپ’ پالیسی مختلف نام نہاد سویلین حکومتوں کے تحت آج بھی جاری ہے۔ اس پالیسی کی عملدرآمد میں بلوچ کارکنوں کو ماروائے عدالت اغوا کرنا اور انہیں غیر معینہ مدت کے لئے غیر قانونی حراست میں رکھنا شامل ہیں، اس دوران ان پر تشدد اور تفتیش کیا جاتا ہے، اور قتل کر دیے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر واقعات میں، ان لاشوں کے جسمات پر وحشیانہ تشدد اور مسخ کئیے جانے کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2012 میں جاری بریفنگ میں کہا گیا ہے کہ،

“ہماری اپنی تحقیق کے مطابق کم از کم 249 بلوچ کارکنان ، اساتذہ ، صحافی اور وکلا 24 اکتوبر 2010 اور 10 ستمبر 2011 کے درمیان غائب ہوچکے ہیں یا ان کا قتل کردیا گیا ہے، ان میں سے اکثر نام نہاد ‘کل اینڈ ڈمپ’ کی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں”-

‘کل اینڈ ڈمپ’ سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اپنائی گئی ایک حکمت عملی ہے اور اسے ایک منظم طریقے سے بلوچ معاشرے کی کریم کو جسمانی طور پر مٹا دینے کی کوشش کے تحت میں عمل میں لایا جارہا ہے۔ ریاستی سیکیورٹی اداروں کے زیردست بلوچستان کے مختلف علاقوں میں معاشرہ مخالف اور انتہا پسند مذہبی عناصر پر مشتمل افراد کو بلوچ نیشنلسٹ کارکنوں کی شناخت ، اغوا اور لاشوں کو پھینکنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ عناصر بلوچستان میں فوج کے ’ڈیتھ اسکواڈز‘ کے نام سے مشہور ہیں۔

اگرچہ اکیسویں صدی کی شروع کے دو دہائیوں کے دوران اس رجحان کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن بلوچستان میں قتل و غارت گری کی پالیسی کی کہانی کی کڑی کئی سال پہلے 1970 کی عشرے سے شروع ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے ایک نمایاں شکار بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلی سردار عطاء اللہ مینگل کے بڑے صاحبزادہ تھے۔ بزرگ بلوچ رہنماء جب دیگر بلوچ اور پختون رہنماؤں اور نیشنل عوامی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ حیدرآباد جیل میں قید تھے اور مشہور زمانہ حیدرآباد سازشی مقدمے میں غداری کے الزامات پر مقدمات کا سامنا کر رہے تھے تب ان کے بیٹے اسد مینگل بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف سیاسی ہم آہنگی کی فروغ میں متحرک تھے- سکیورٹی ایجنسیوں کا خیال تھا کہ وہ نہ صرف وسطی بلوچستان کو سیاسی حوالے سے متحرک کر رہے ہیں بلکہ وسطی بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کے متحرک کرنے میں بھی سرگرم ہیں۔

اسد مینگل اور ان کے دوست احمد شاہ کرد 6 فروری 1976 کو روح زمین سے غائب کر دیے گئے- حکام نے ان کی گمشدگی میں اپنا کردار تسلیم کرنے سے انکار کردیا- تاہم ، ان کے دوست اور خاندان کے افراد جانتے تھے کہ انہیں انٹیلیجنس ایجنسیوں سے وابستہ اہلکاروں نے اٹھایا ہے- کراچی میں محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب انکی گاڑی پر گھات لگائے افراد نے حملہ کیا تھا- عینی شاہدین اور علاقہ مکینوں نے گولیوں کی آوازیں بھی سنی تھیں- ان کا خون پوری گاڑی میں پھیلا ہوا تھا، لیکن ان کی لاشیں کبھی نہیں ملیں- ان کی گمشدگی کے وقت یہ افواہیں پھیلی تھیں کہ انہیں موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا اور انکی لاشیں غائب کر دی گئی تھیں- تاہم دوسروں کا خیال ہے کہ انھیں بعد میں فوج کے ہاتھوں ایک حراستی مرکز میں ہلاک کیا گیا تھا- انکے اہل خانہ اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انہیں قانون کی عدالت میں پیش کرنے کے مطالبے کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی- فوج اتنی طاقتور تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان بھٹو کو بھی اسد اور اس کے دوست کی گمشدگی کی اصل کہانی نہیں بتائی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو جنہوں نے اس سے قبل مینگل کی حکومت کو برطرف کردیا تھا، سابق وزیراعلی بلوچستان کی صورتحال کو لیکر کافی پریشان تھے لیکن ان کے آرمی چیف ، جنرل ضیا نے انہیں اس معاملے پر خاموش رہنے کی تنبیہ کی تھی۔ بھٹو کی اپنے جنرل کے حکم کے خلاف عمل کرنے کی ہمت نہیں ہوئی-

انیس سو ستتر میں فوج کے ہاتھوں بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ، فوجی حکومت نے بلوچ رہنماؤں کو رہا کر دیا- تاہم اسد اور اس کے دوست کے پتہ کا اب بھی کسی کو کوئی علم نہیں ہے- ایک پاکستانی صحافی حامد میر جن کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات ہیں ان کے مطابق، جنرل ٹکا خان نے جو جنرل ضیاء کی تقرری سے قبل آرمی چیف تھے انہیں بتایا تھا کہ اسد مینگل اور اس کے دوست کو فوج نے 1976 میں کراچی میں میر بلخ شیر مزاری کے گھر سے اٹھایا تھا اور ٹھٹھہ کے قریب کہیں قتل کئیے جانے کے بعد وہاں انہیں جلدی سے دفن کردیا تھا- 20 فروری ، 2012 کو ، انٹر سروسز انٹلیجنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ایک سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو کے دوران اعتراف کیا تھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کا بیٹا اسد مینگل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک تفتیشی مرکز میں مارا گیا تھا-

اسد مینگل اور ان کے دوست کی گمشدگی کے 50 سال بعد بھی سیکڑوں بلوچ سیاسی ، سماجی اور قبائلی شخصیات غائب کئیے جا چکے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کو انکے پتہ کا کوئی علم نہیں ہے- ان میں سے چند خوش قسمت تھے کہ کچھ ویران جگہوں پر انہیں اپنے پیاروں کی لاشیں ملیں البتہ انکی اکثریت اب بھی اپنے پیاروں کے حال کے بارے میں کچھ سننے کے منتظر ہیں- سیکیورٹی فورسز کو دی جانے والی استثنیٰ اور بین الاقوامی انسان دوست تنظیموں کی پاکستان کے امور میں عدم دلچسپی کی وجہ سے قتل و غارت گری کی پالیسی سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو انصاف کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اسد مینگل بلوچستان میں “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی کے پہلے شکار تھے- ان کے 90 سال کے والد سردار عطاء اللہ مینگل، ان کے چھوٹے بھائی جاوید مینگل اور اختر مینگل، انکے اہل خانہ اور سیاسی دوستوں کو شاید اسد مینگل کی باقیات سے متعلق کبھی بھی کوئی خبر موصول نہ ہو- شاید انہیں کبھی بھی پتہ نہ چل سکے کہ اسد اور اسکے دوست کے ساتھ درحقیقت کیا ہوا تھا، اور شاید یہی اس افسوس ناک واقعہ کی سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔


четверг, 6 февраля 2020 г.

دودا انسان نہیں کردار کا نام ہے – باگانی

داں کہ پہ سمی ءَ پیداک نہ بیت دودا یے
پہ تی دودا ءَ کدی بیر گریں بالاچ نہ بیت

کیا دودا ایک انسان ہے؟ کیا دودا اشرف المخلوقا

ت کی طرح زندگی گذار کر مرنے والے ایک بنی نوح کا نام ہے؟ کیا دودا تلوار کی ایک دھار اور بندوق کی ایک تیر سے جہاںِ فانی سے کوچ کرکے ہمیشہ کیلئے قبر میں دفن ہو جانے والا شخص کا نام ہے؟ اور ایک ایسا شخص جس سے پھر واپس آنے کی امیدیں ختم ہو جاتی ہیں؟ آؤ آج دودا سے ملتے ہیں۔

یہ کہانی تقریباً آج سے پانچ سو سال پہلے کی ہے، سمی نامی ایک خاتون جو پیشے کے لحاظ سے ایک مال و مویشی پالنے والی مالدار خاتون تھی، سمی اُس وقت کے بلوچ قبیلے بلیدئی کے سربراہ بیورغ کے علاقے میں قیام پذیر تھی اور اپنے پیشے کا کام کرتی تھی۔ سمی نے کچھ وقت بعد سردار بیورغ سے اپنے مال مویشیوں کو محفوظ نہیں گردانا اور بیورغ سے خطرہ محسوس کرنے لگی اور میر دودا گورگیج کے پاس پہنچی، دودا نے بلوچی روایات کا پاس رکھتے ہوئے ایک خاتون کو بلوچی رسم و رواج اور روایات کے تحت سردار بیورغ کی غیض و غضب سے بچانے کیلئے اپنے ہاں پناہ دی، دودا چونکہ افرادی قوت سے لیکر کسی بھی طرح سردار بیورغ کے مقابلے میں بہت ہی کم طاقت و ریخت کا مالک تھا لیکن اس وقت دودا نے کچھ نہیں سوچا اپنی کم قوت اور چھوٹے پیمانے کی طاقت کا بھی لحاظ نہیں رکھا کیونکہ اس وقت دودا کیلئے کوئی طاقت، خاندان، قبیلہ، رشتے و ناطے اہمیت کے حامل نہیں تھے بلکہ دودا کو اس وقت احساس تھا تو اپنی ہزاروں سالوں پر مبنی رسم و رواج اور روایات اور ثقافت کا، دودا انکار کر سکتا تھا اپنی کم طاقت کا بہانا بناکر سمی سے معذرت کر سکتا تھا، اپنے چھوٹے پیمانے کے طاقت کو ملحوظ خاطر رکھ کر سمی کو اجازت دے سکتا تھا کیونکہ رشتے اور ناطے میں بھی سمی اس کا کچھ نہیں لگتا تھا لیکن دودا ذات سے بڑھ کر سوچنے والوں میں سے تھا۔

اس وقت دودا کے سامنے دو راستے تھے، ہزاروں بہانہ بناکر جو آج کی موجودہ دور میں ہر کوئی بناتا ہے، سمی کو رخصت کر سکتا تھا اور اپنے خاندان، رشتے اور ناطے اور قبیلے کے ساتھ ایک اچھی زندگی بسر کر سکتا تھا جبکہ دوسرا راستہ سمی کو بلوچی روایات کے مطابق پناہ دے کر اس کی عزت و نفس کو مجروع ہونے سے بچاکر اس خاتون کو بیورغ کے غیض و غضب سے بچانے کی خاطر بیورغ سے دشمنی موڑ لینا تھا اور بلوچ تاریخ، رسم و رواج، تقافت اور باہوٹ کے تاریخی بلوچی روایات کو زندہ رکھنے کا اعلیٰ و ارفع عمل تھا۔ دودا نے بہانہ بنانے کے بجائے سمی کو اپنے حصار میں پناہ دی۔

جب بیورغ کو سمی کی بھاگ جانے کی خبر ہوئی تو ایک بڑے لشکر کے ساتھ بیورغ نے دودا کے علاقے میں جاکر سمی کے مال مویشیوں کو لوٹ کر اپنے ساتھ لے آیا، یہ دودا کی شادی کا پہلا دن تھا، دودا سویا ہوا تھا کہ اُس کی ماں نے اُس کو جگہ کر کہا
اباآں مڑو کہ دار انت باہوٹ آں
نیم روش آں نہ ریشنت چون دھاو آں
ترجمہ “بیٹے جو جواں مرد کسی کو پناہ دیتے ہیں، وہ یوں دن کے وقت نیند کی مدہوشی میں نہیں کھو جاتے۔”

ماں دودا سے مخاطب ہوکر کہتی ہے، میں نے تجھے پورے نو ماہ پیٹ میں رکھا پھر تجھے دودھ پلاتی رہی، آج اگر تم نے اگر اپنے باہوٹ یعنی سمی کے مال مویشی واپس نہ لائے تو کبھی تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی۔

دودا کے ہاتھوں میں شادی کی مہندی لگی ہوتی ہے، دودا اٹھ کر اکیلا بیورغ کا مقابلہ کرنے کیلئے نکل لیتا ہے کیونکہ بات دودا کی عزت اور بلوچی روایات کی تھی، دودا اکیلا مرد آہن کی طرح ایک بڑی لشکر کا مقابلہ کرنے کیلئے نکلتے ہیں، اور راستے میں اُن سے اپنے باہوٹ کی مال مویشیوں کی حفاظت کی خاطر لڑ کر شہادت حاصل کرتے ہیں اور اپنی ماں کے دودھ کا لاج رکھ لیتے ہیں۔

آج پانچ سو سال بعد دودا کی زمین پر اغیار(پاکستان) جبری قبضہ کرتے ہیں، یہ جابر بلوچی روایات کو پا مال کرتے ہوئے بلوچ خواتین کو آئے دن بے آبرو کرتے رہتے ہیں، اس قابض کی وحشی درندے دودا کی زمین کو چاروں طرف گھیرے میں لیتے ہیں، یہاں کی مال و مڈی یہاں کے ساحل و وسائل کو بےدریغ سے لوٹنا شروع کر دیتے ہیں، تو دودا پھر کسی بلوچ ماں کے پیٹ سے جنم لیتا ہے، جس کو ماں باپ یوسف کا نام دیتے ہیں، جوان عمری میں جب اس کی داڑھی نہیں نکلی ہوتی ہے، جب اس کے عمر کے بچے اسکول اور دیگر جگہوں میں پڑھ رہے ہوتے یا کھیل کود کی زندگی میں مشغول ہوتے ہیں، جب دودا رشتے اور ناطے سے جڑا ہوتا ہے تو ان مشاغل میں رہنے کے بجائے وطن کی دفاع میں پہاڑوں کا رخ کرتا ہے کیونکہ دودا تو بلوچی روایات کا نام ہے، دودا اپنے زمین و ساحل و وسائل کی دفاع میں شہید ہونے والے کردار کا نام ہے، دودا وطن اور مٹی کی دفاع میں لڑنے والے سرمچار کا نام ہے، دودا ایک بڑی طاقت و لشکر ایک بڑی قوت کے سامنے تن تنہا لڑنے والے اُس عظیم دلیر بہادر جانباز اور جواں مرد عمل کا نام ہے، جو بنا کسی خوف و خطر بنا کسی ذاتی خواہش و حسرت کے اپنی زمین اور روایات کے دفاع میں اپنے سے کئی گنا بڑی قوت سے لڑتا اور مرتا ہے لیکن اپنے ذاتی زندگی، رشتے و ناطے، خاندان اور لوگوں کی وجہ سے اپنے فرض سے غافل نہیں ہوتا ہے۔

پانچ سو سال پہلے بھی جب دودا بلوچی روایات کی پاس داری میں بیورغ سے مقابلے کرنے کیلئے روانہ ہو رہا تھا تو اس کے ہاتھوں میں مہندی تھی، اس کے پیچھے اس کا شریک حیات تھا، اُن کے خاندان اور قبیلے کے لوگ تھے اور آج بھی جب دودا اپنے ماں کے دفاع میں، اپنے وطن کی مٹی کی دفاع میں اغیار سے مدمقابل تھا تو اس کے ہاتھوں میں مہندی کے نشان تھے، وہ نیا نیا دولہا بنا تھا، جب بہادری اور ہمت کے ساتھ دودا نے سمی کی مال مویشیوں کی خاطر اپنے باہوٹ کی عزت کی خاطر لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کی، یہی دودا آج ایک مرتبہ پھر ظالم اور جابر وقت سے اپنے زمین، رسم و رواج، تاریخ و ثقافت، تہذیب و تمدن کو بچانے کیلئے ہاتھوں میں مہندی سجائے ہوئے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگیا۔

دودا بلوچ روایات اور تاریخ کو بچانے کیلئے لڑنے والے کردار کا نام ہے اور کردار کبھی بھی کسی بھی طاقت جبر ظلم اور ناانصافی سے مٹتا نہیں ہے، دودا مرا نہیں ہے بلکہ دودا مر ہی نہیں سکتا، جب تک بلوچ زمین محفوظ نہیں جب تک اس سرزمین کے ساحل و وسائل محفوظ نہیں، جب تک بلوچ روایات خطروں کے شکار ہیں، جب تک بلوچ ماں اور بہنیں غیر محفوظ ہیں، دودا جنم لیتا اور یلغار کے خلاف لڑتا رہے گا۔

среда, 5 февраля 2020 г.

میر بیورغ رند بلوچ

میر بیورغ رند بلوچ
میر بیورغ رند میر باہر بلوچ کا فرزند تھا جس کے ساتھ میر چاکر خان کی بہن بیاہ ہوئی تھی، میر بیورغ کا شہرت میر چاکر کے بھانجے کی حیثیت، عزم اور بہادری سے زیاده اس کے تدبر و فراست سے ہے، میر بیورغ بہادری اور شجاعت کے علاوه ایک گھبرو اور خوبرو نوجوان ہونے کی شہرت بھی رکھتاتھا یہی وجہ ہے کہ بلوچوں کی تاریخ کے اس قدیم روایتی دور میں بیورغ کی شہرت بہادری کے ساتھ عشق و محبت کی رنگین داستانوں کے سبب بھی ہے، مگر یہاں اس کے عشق و محبت کی داستانیں موضوع سے خارج ہیں، یہاں بیورغ کی شخصیت کے اس پہلو کا تذکره مقصود ہے جس کا بلوچوں کی قومی زندگی سے تعلق رہا ہے.
جرأت اور شجاعت کے لحاظ سے تو وه بلوچ تاریخ میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے لیکن بلوچوں کی تاریخ کے ایک ایسے دور میں جب کہ پہچان تشخص اور ناموری کی علامت و سبب محض لڑائی یا کشت و خون تھی، ایسے وقت میں لڑائی کی بجائے امن و صلح کی باتوں کو بزدلی پر محمول کیا جاتاہے اور جب بیورغ نے اپنی فہم و فراست سے اپنی قوم کے اتحاد، بقاء اور عظمت کے لئے جنگ کی بجائے امن کی بات کی تو ہر سمت سے اس کی ہنسی اڑائی گئی، اس کو بزدلی کا طعنہ دیا گیا، لیکن وقت نے بعد میں ثابت کردکھایا کہ عظیم بیورغ کس قدر دور اندیش تھا.
یہ واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ جس وقت رند و لاشار ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے اورمیر چاکر لشکر جمع کرکے لاشاریوں پر یلغار کرنے کے لئے روانہ ہو رہاتھا تو اس اشغال انگیز کیفیت میں بیورغ کی آواز بلوچوں میں وه واحد آواز تھی جو مذکوره لشکر کشی اور جنگ کے خلاف اٹھی.
بیورغ نے آگے بڑھ کر میر چاکر کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور اسے یوں مخاطب کرکے باہمی جنگ کے دور رس اثرات اور ہولناکیوں سے بروقت آگاہ کیا.
اے میر اعظم خان چاکر خان اپنے بغض و کینے کو کم کرو..... اپنے ہی ہم قوم کے خلاف غصہ تھوک دو.... نوہانی قبیلے کے ایک ہزار جوان ہونگے .... ہزاروں شمشیر زن لاشاری ان کے علاوه ہوں گے... وه تمھارے مقابلے میں یکجا ہوں گے... اس وقت پیچھے ہٹنا تمہارے لئے عیب ہونے کے باعث دشوار ہوگا.... اور آگے بڑھنے سے تم خونی جنگ کےسلسلے میں پھنس جاؤگے... اگر تو فاتح ہوا تب بھی تیرا نقصان ہے.. کیونکہ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے میں نقصان و خساره ہے... یہ دنیا ہمیشہ سے گردش میں ہے.. اس فانی دنیا میں تمہارے لئے دوام نہیں ہے... ایسا حملہ کرکے بعد میں زندگی بھر ارمان کرتے رہوگے........
بد قسمتی سے میر بیورغ کی اس قومی پکار کو رند معتبرین نے بزدلی سے محمول کرتے ہوئے کہا کہ میر بیورغ تلواروں کی کھنک سے زیاده خوفزده ہوگیا ہے اس کو ڈرنا نہیں چاہئے کہ ہم اسے اپنے حصار میں لے کر تیروں اور تلواروں سے بچائے رکھیں گے، بزدلی کا طعنہ سن لینے کے بعد بیورغ کے لئے مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں رہی اور وه بھی مجبورًا تباہی کے عمل میں شامل ہوجانے پر مجبور ہوا.
بلوچوں کی باہمی خانہ جنگی کے متذکره دور میں ایک مرتبہ پھر میر بیورغ نے رند و لاشار کو ایک ہی صف میں لاکر ان کے لئے باہمی اتحاد اور یکجا ہونے کا بہترین موقعہ فراہم کردیا مگر یہ ایک المیہ ہی تھا کہ میر چاکر اور میر گواہرام نے دشمنی ختم کرکے دوباره متحد ہوجانے کے اس زرین موقعے کو ضائع کردیا، اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے.
ایک مرتبہ میر چاکر خان نے میر بیورغ کو ڈيپلوماٹ کی شکل میں کسی اہم کام کے سلسلے میں کندہار کے گورنر ذو النون بیگ ارغون کے پاس بھیجا، اس وقت کندہار ترک ارغونوں کے قبضے میں تھا بعد میں ارغونوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ میر بیورغ بہت ہی حسین اور خوبرو نوجوان تھا جب کندہار گیا تو وہاں کے گورنر ذوالنون کے بیٹی گراناز نے میر بیورغ کو دیکھا دیکھتی ہی وه اس پر فدا ہوگئی چونکہ وه بھی شاہزادی تھی اور بہت خوبصورت تھی، ہوا یوں کہ ایک دوسرے پر فدا ہونے لگے، بعد میں دونوں کے درمیان محبت کی شدت کا یہ حال ہوگیا کہ ان کے لئے ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزار نے کا تصور محال ہوگیا،دونوں نے شادی کرنے کا بہت سوچا مگر گراناز کے والد ذو النون بیگ بہت ہی سخت مزاج تھا وه سمجھتی تھی کہ اگر والد سے اپنی محبت کی بات کرے تو جدائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا، تو میربیورغ کے لئے گراناز کو بھگانے کے سوا کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیا اس لئے میر بیورغ نے گراناز کو بھگاکر سیوی لے جانے کا اراده کیا جس پر گراناز بھی تیار ہوگئی.
آخر ایک رات میر بیورغ اپنی محبوبہ کو محل سے اپنے ساتھ لئے عازم سیوی ہوا، جب ذو النون بیگ کو اپنی بیٹی کے بیورغ کے ساتھ بھاگ جانے کا علم ہوا تو وه اسی وقت ایک کثیر فوج لئے اس کے تعاقب میں روانہ ہوا، بیورغ کو معلوم تھا کہ ذوالنون بیگ اس کی حرکت سے آگاه ہوتے ہی اس کے تعاقب میں روانہ ہوگا اس لئے وه دن رات ایک کرکے اپنے علاقے پہنچ گیا.
بلوچستان پہنچ کر اس نے جس فہم و فراست کا مظاہره کیا اس سے اس کی دانش مندی اور تدبر کا بہترین اظہار ہوتاہے، میر بیورغ اپنی محبوبہ کو ساتھ لئے اپنے ماموں اور رندوں  کے میر اعظم کے پاس جانے کی بجائے لاشاریوں کے سردار میر گواہرام خان کے پاس جاکر قیام پذیر ہوا، عظیم لاشاری قائد نے نہ صرف اس کو تمام تر عزت و احترام کے ساتھ اپنے ہاں رکھا بلکہ اس کے تحفظ اور سلامتی کے لئے لاشاری لشکر کو جمع کیا، کیوں کہ اس وقت تک ذو النون بیگ بیورغ کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں پہنچ چکا تھا.
میر گواہرام نے اپنے تمام لشکر کو لڑائی کے لئے تیار کرنے کے ساتھ میر چاکر خان کو بیورغ کی حرکت،اپنے ہاں قیام اور ذو النون بیگ کے اس کے تعاقب میں آمد سے مطلع کیا جس کے نتیجے میں میرچاکر خان بھی اپنے لشکر کو جمع کرکے میر گواہرام کے شانہ بشانہ بیورغ کی حفاظت کے لئے لڑنے کی غرض سے آیا اس طرح بیورغ کی تدبیر کامیاب ہوئی.
میر بیورغ جانتا تھا کہ ذو النون بیگ کا مقابلہ صرف میر چاکر کے بس کی بات نہیں ہے، وه اگر سیدھا چاکر کے پاس چلا جاتا تو گواہرام کا اس کی مدد کے لئے آنا  خارج از امکان تھا، اس لئے بیورغ میر چاکر کے بجائے میر گواہرام کے گھر جاکر گویا اس کا باہوٹ بن گیا اب باہوٹ کے تحفظ کی بلوچی روایت میں بیورغ کا تحفظ میر چاکر سے زیاده میر گواہرام کی ذمہ داری بن گیا جب کہ میر چاکر کی مدد و حمیت تو ویسے بھی بیورغ کے لئے یقینی تھی.
اس طرح عین خانہ جنگی کے دوران بلوچوں کے دونوں طائفے ایک ہی میدان میں یکجا ہوکر ایک تیسرے دشمن قوت کے خلاف لڑنے کی غرض سے جمع ہوئے اور ان کے قائدین اور لشکر کے درمیان گویا کوئی دشمنی یا مخالفت باقی نہیں رہی تھی.
اس طرح میر بیورغ نے ایک مرتبہ پھر رند و لاشار کے مابین موجود دشمنی کو اتحاد میں بدلنے کی ایک صورت پیدا کی لیکن میر چاکر اور میر گواہرام نے اپنی اپنی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر اپنے قبائل کو جنگ کا ایندھن بنے رہنے دیا، باہمی لڑائی چھڑ جانے کے بعد پھر کبھی انہوں نے اتحاد کے بارے میں سوچا بھی نہیں، یوں بیورغ کے پیدا کرده حالات سے انا کے پرستار امیر کوئی فائده نہ اٹھاسکے اور بلوچ قوت کی مکمل تباہی کے مشن کو  بالآخر میر چاکر اور میر گواہرام نے پورا کردیا...
ذو النون بیگ ارغون کے لشکر کے بلوچ علاقے میں موجودگی کے دوران بیورغ نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس سے اس کی اپنی قوم کی سلامتی کے ساتھ عقیدت کی حد تک وابستگی کا اظہار ہوتا ہے.
رات کو جب دونوں اطراف کے لشکر سوئے ہوتھے، نیندبیورغ کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وه اپنے لشکر سے کچھ دور اپنی سوچوں میں محو تھا، آنے والی دن اس کی پوری بلوچ قوم ارغونوں کے افواج بے شمار سے ٹکرانے والی تھی، اس جنگ کے چھڑنے کا سبب محض اس کی اپنی ذات اور اس کی ذاتی خوشی تھی، اسی کی حرکت کے باعث کندہار کا حکمران اپنی افواج لے کر بلوچستان میں آگیا تھا، اس کا مقصد بیورغ کو اس کی حرکت کی سزا دینا تھا، اور میر بیورغ کو سزا سے بچانے اور اس کی دلہن کو تحفظ دینے کی غرض سے جو اب بلوچوں کی عزت بن چکی تھی، پوری بلوچ قوم میدان جنگ میں جمع ہوچکی تھی...
میر بیورغ نے اس مرحلے پر سوچا کہ میں اپنی محبوبہ کو اپنے ساتھ لے آیا اور اب میری دلہن کے سہاگ کے تحفظ کی خاطر نہ جانے کتنے ہزار بلوچ خواتین کا سہاگ اجڑ جائے گا اور کتنے بچے یتیم ہوچائیں گے؟ اور اس کا ذمہ دار محض میں ہوں،، یہ سوچ کر بیورغ کانپ ساگیا، ایک جرم کرلینے کے بعد وه اپنی قوم پر مکمل تباہی لانے کا دوسرا سنگین جرم کر رہا تھا، اس احساس کے تحت اس نے اپنے جرم کی سزا سے اپنی قوم کو محفوظ رکھ کر اس کے تمام تر عواقب خود بھگتنے کا فیصلہ کرلیا.
اسی رات ہی اس پر عمل در آمد کیا تاکہ دوسرے دن کا طلوع ہونے والا سورج قتل وخون کی ہولناکیاں نہ دیکھے.
میر بیورغ تن تنہا ذو النون بیگ کے خیمے کی جانب روانہ ہوا، خیمے کے باہر ایستاده دو محافظوں کو اس نے آواز نکالنے کا موقع دیئے بغیر اپنی تلوار سے کاٹ کر رکھ دیا اور پھر خیمے کے اندر داخل ہوگیا، جہاں ارغونوں کا سپہ سالار اور کندہار کا حکمران محو خواب تھا، بیورغ خون آلود ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اطمینان کے ساتھ اپنے خسر کے پاؤں کے قریب چپ چاپ کھڑا ہوگیا، عین اسی وقت ذو النون بیگ کی آنکھ کھلی تو اس نے بیورغ کو ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اپنی خواب گاه میں موجود پایا، وه چونک کر اٹھ بیٹھا تو بیورغ نے آگے بڑھ کر اس کے پاؤں چھولئے اور اس سے یوں مخاطب ہوا:::
اے امیر کندہار! میں ہی آپ کا مجرم بیورغ بلوچ ہوں جس کو پکڑنے اوز سزا دینے کی غرض سے آپ اپنی افواج کثیر لئے آگئے ہیں، میں آپ کے محافظوں کو ختم کرکے آپ کے خیمے میں اس لئے داخل ہوا ہوں کہ اپنے آپ کو جناب کے حوالے کردوں، میں آپ کے سامنے حاضر ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے یہ ہے میری تلوار اور یہ رہی میری گردن چاہیں آپ میری خطا معاف کردیں اور چاہیں آپ میری گردن اپنی ہی تلوار سے اڑادیں.
یہ کہہ کر میر بیورغ نے  اپنی تلوار اس کے سامنے رکھ دی، ذو النون بیگ نے جب بیورغ کی جرأت و شجاعت کا یہ رنگ دیکھا تو اسی لمحے بیورغ کے بارے میں اس کے خیالات بدل گئے، اس نے سوچا کہ اس میر بیورغ سے اچھا اور بہادری کا پیکر کوئی اور شخص اپنی دامادی کے لئے شاید نہ ملے، اس نے اسی وقت اپنے امراء و فوجی  سالاروں کو بلایا اور بیورغ کی موجودگی میں ان سے کہا کہ اتنے بڑے فوجی کیمپ میں بیورغ بلوچ ہمارے خیمے کے باہر متعین پہرے داروں کی گردنیں اڑاکر ہمارے خیمے میں داخل ہوا اگر اس کی نیت بد ہوتی اور وه چاہتا تو اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے ہمیں نیند کی حالت میں ہی ابدی نیند سلادیتا لیکن اس بہادر نوجوان نے اس کے برعکس اپنے جرم کا اقرار کرکے اپنی تلوار اور گردن ہمارے حوالے کرکے اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردیا، اسے ضرور سزا ملنی چاہیئے اور اس کی سزا یہ ہے کہ میں اپنی بیٹی گراناز کا رشتہ بیورغ کے ساتھ طے کرکے اسے اپنی فرزندی میں لینے کا اعلان کرتاہوں، مجھے ایسا ہی بہادر داماد چاہیئے..... اگلے دن شادی کی تیاریاں کی جائیں..
اس طرح بیورغ نے اپنی قوم کی سلامتی کے تحفظ کے لئے جو جرأت مندانہ قدم اٹھایا اس کے سبب نہ صرف اسے اپنی محبوبہ کی دائمی رفاقت میسر آگئی بلکہ اس نے قوم کو اپنی عظیم تباہی کا شکار ہونے سے بچالیا اور جو افواج جنگ  وقتال کی غرض سے ایک دوسرے کے مقابل جمع ہوئی تھیں اب مل کر شادی کے انتظامات میں لگ گئیں.
میر بیورغ نے ایک مرتبہ بلوچوں کے سالار اعلی میر چاکر خان کو اپنی ہی قوم کو اپنے تلواروں کا شکار  کرنے سے روکنے کا مشوره دیا تھا لیکن اس کے دور اندیشانہ مشورے کو بزدلی پر محمول کرکے اس لڑائی کا آغاز کیا گیا جس نے کچھ بھی باقی نہ رہنے دیا، اب دوسری مرتبہ اس نے اپنے فیصلے پر عمل  پیرا ہوکر اپنی ذات کی قیمت پر اپنی قوم کی سلامتی کا سودا کرلیا، اور اس کی خوش بختی تھی کہ مذکوره سودے میں اسے اپنی قوم کی سلامتی کے ساتھ اپنا در مقصود بھی حاصل ہوگیا، لیکن یہ بات اس کے لئے یقینًا ایک المیہ تھی کہ اس نے تو اپنی حکمت عملی سے اپنی قوم کو تباہ ہونے سے بچالیا، لیکن اس کی قوم نے اس کی فراہم کرده یکجائی و اشتراک کے ماحول کو دوباره برادرانہ تعلقات و قومی وحدت کے قیام کا ذریعہ نہیں بنایا، اور جس تباہی سے میر بیورغ نے انہیں بچایا تھا اسے انہوں نے خود ہی پایہ تکمیل تک پہنچادیا اور اپنی ہی ہاتھوں اپنی تباہی  اور مٹنے کی داستان رقم کرلی جس کی لپیٹ میں میر بیورغ جیسا عظیم مدبر بھی آگیا اور وه ان ہی خون آشامیوں کی نذر ہوگیا.....
میر بیورغ بکٹی علاقے میں مدفون ہے.
میر بیورغ کی شخصیت کا اگر جائزه لیا جائے تو وه اپنی قوم کا مدبر اور دور اندیش قائد نظر آتاہے جس نے محض رند بن کر سوچنے کی بجائے ایک بلوچ کی حیثیت میں سوچا، اگر میر چاکر خان اپنے نوجوان بھانجے میر بیورغ کے پر خلوص مشورے کو قبول کرلیتا تو اس کی عظیم قوم ہرگز خانہ جنگی کے اس طویل المیے کا شکار نہ بنتی جس نے قوت کے ساتھ ساتھ ان کا وطن بھی ان سے چھین لیا، اس وقت اگر بلوچوں کی قیادت میر چاکر کے بجائے میر بیورغ کے ہاتھوں میں ہوتی تو شاید بلوچ تاریخ کچھ مختلف ہوتی اور ہم تیس سالہ خانہ جنگی کی تباہیوں کے مرثیے رقم نہ کرتے.
بہر حال عظیم بیورغ کو بلوچ تاریخ کا اولین ڈپلومیٹ کہا جاسکتا ہے، میری نظر میں بلوچ تاریخ کےابتدائی دور کا اگر کوئی عظیم قائد ہے تو وه نہ میر چاکر خان اور نہ ہی میر گواہرام خان بلکہ وه صرف اور صرف میر بیورغ ہی ہے..
(حبیب مینگل: از بلوچستان تاریخ کے آئینے میں، تاریخ بلوچستان)

понедельник, 3 февраля 2020 г.

شہید ڈاکٹر منان بلوچ نے موبلائزیشن کے عمل کو نئی بلندی عطا کی – بی این ایم

شہید ڈاکٹر منان جان اور ساتھیوں کے چوتھی برسی کے موقع پر مختلف اجلاس اور ریفرنس پروگراموں ک منعقد کیئے گئے۔

بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے شہدائے مستونگ ڈاکٹر منان بلوچ، بابو نوروز، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ کی چوتھی برسی کے موقع پر بلوچستان اور بیرون ملک کئی پروگراموں اور اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ مرکزی اجلاس خارجہ سیکریٹری حمل حیدر کی صدارت میں ہوا، جس کے مہمان خاص مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ تھے۔ اجلاس سے حمل حیدر، دلمراد بلوچ، مرکزی فنانس سیکریٹری ناصر بلوچ، بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ، ڈائسپورا کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ، سابقہ انفارمیشن سیکریٹری قاضی ریحان داد بلوچ، بی این ایم برطانیہ کے صدر حکیم بلوچ، برطانیہ زون کے سرگرم رکن نسیم عباس بلوچ نے خطاب کیا اور شہدائے مستونگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس عہد کا اظہار کیا کہ وہ شہدا کے مشن آزاد بلوچستان کی جد و جہد منزل تک پہنچانے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔ اسی طرح ایک اجلاس جرمنی زون کی طرف سے منعقد کی گئی۔

حمل حیدر نے کہا کہ میں ایک عرصے سے تنظیمی حوالے سے ڈاکٹر منان بلوچ سے رابطے میں رہا ہوں۔ جس وقت ہم بی ایس او میں تھے، بھی ڈاکٹر منان سے مختلف اوقات میں حال احوال ہوتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں ایک میڈیکل ڈاکٹر کا ایک بڑا رتبہ ہوتا ہے اور وہ اکثر اپنا کیریئر بہتر منانے میں مصروف رہتے ہیں لیکن ڈاکٹر منان بلوچ اپنا ذاتی کیریئر بنانے اور سرکاری تنخواہ اور مراعات سے دور رہ کر بلوچ قومی خدمت کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے تھے۔ یہ ان کی کمٹمنٹ کی ایک واضح اور بڑا ثبوت ہے۔

حمل حیدر بلوچ نے کہا کہ ان کی شہادت کی خبر ہم سب کیلئے ایک تکلیف دہ خبر تھی لیکن بیک وقت ان کی قربانیاں اتنی بڑی ہیں کہ انہوں نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ بی این ایم وہ جماعت ہے جس نے اپنے چیئرمین، سیکریٹری جنرل سمیت دوسرے مرکزی کابینہ کے اراکین اور کئی کارکنوں کی قربانی دی ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور ہمیں اس پر فخر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی ریاستی جبر کے باوجود بی این ایم بحیثیت ایک سیاسی جماعت بلوچستان اور بلوچ عوام کے دلوں میں موجود ہے اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ سرگرم اور متحرک ہے۔ یہ ڈاکٹر منان اور دوسرے رہنماؤں کی قربانی اور شب و روز محنت کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا بہت مشکل تھا۔ بی این ایم کا ہر ایک کارکن، خصوصا بی این ایم کے رہنما ریاست کے نشانے پر تھے۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی ہمت کو سلام ہے کہ انہوں نے ایسی اوقات میں بھی اپنی سرگرمیاں تیز کی ہوئی تھیں۔ انہوں نے جس انداز میں کام کیا جیسے محسوس ہو کہ کوئی سختی اور جبر وجود ہی نہیں رکھتی۔ ڈاکٹر منان بلوچ کہتے تھے کہ اگر ہم احتیاط کے نام پر سرگرمیاں نہ کریں تو تنظیم کاری ہو ہی نہیں سکتی مگر ہم احتیاط ضرور کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ہم کسی سیاسی میٹنگ میں اکھٹے ہوتے ہیں تو ہمیں اپنے شہید رہنما اور دوستوں کی سخت کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی اس طرح کی بڑی قربانیاں ہمیں اپنی تحریک کو آگے لے جانے کیلئے موٹیویٹ بھی کرتی ہیں۔ یہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

پروگرام کے مہمامن خاص مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ انتہائی بہادر لیڈر تھے۔ غلام قوم کے بارے موت کا فلسفہ نہایت واضح تھا اور وہ اپنی موقت میں قومی بقا کے قائل تھے۔ ڈاکٹر صاحب ایک مجلس میں موت کے بارے کہتے ہیں ”ویسے موت ایک بہت ہی خوفناک شئے ہے، ہم نے یہی سنا ہے کہ لوگ اس سے بھاگنے کی بہت تَگ و دُو کرتے ہیں، بیمار ہوتے ہیں تو ڈاکٹر و علاج ڈھونڈتے ہیں۔ یہاں وہاں سے اپنی زندگی کوبچانے کی جدوجہد کرتے ہیں۔۔۔ لیکن پھلیں حمید بلوچ کو مچھ جیل میں پھانسی دی جاتی ہے تومچھ کا پھانسی دینے والا خود اقرارکرتا ہے کہ جب میں حمید سے کہتا ہوں کہ ”کل آپ کو پھانسی دی جائے گی تووہ خوشی سے نہال ہوجاتا ہے“ اور جب اپنا وصیت نامہ لکھتا ہے تواُس میں کہتا ہے کہ ”میں اس لئے خوش نہیں ہوں کہ مررہا ہوں، مجھے زندگی سے نفرت ہے، بلکہ مجھے زندگی سے پیار ہے۔ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں لیکن میری وہ زندگی جو غلامی میں بسر ہورہا ہے، جومحکومی میں بسر ہورہا ہے، مجھے زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جاتا۔ اس لئے میں اُس موت کو خوشی سے گلے لگاتا ہوں۔ میں اُس موت کو خوشی سے قبول کرتا ہوں کہ میری موت سے میری چھوٹی بیٹی بانڑی جس کا عمرتین سال ہے، اُس کی زندگی میں نہیں، اُس کے بچوں کی زندگی میں نہیں، اُس کی نواسوں کی زندگی میں بلوچ ایک آزاد اور خود مختیار ملک کا مالک بن جائے اور وہ اپنی اقتداراعلیٰ کا خودمالک بنیں تواس لئے مجھے پشیمانی نہیں“۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ پروم میں ایک مجلس میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر منان جان نے قومی موت پانے والوں کے بارے میں کہا ”ویسے عجیب لگتا ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کا نام و نشان غائب ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کیسی زندگی ہے کہ بعد از موت ملتا ہے۔ یہ وہی زندگی ہے جو ہمارے ساتھیوں کو ملا ہے کہ جن کا میں نے ذکر کیا۔ یہ وہی زندگی ہے جو نواب اکبر خان بگٹی کو پیران سالی میں ملتا ہے۔۔۔ وہی زندگی ہے جو بہن زامر (براہمدغ کی بہن ِمتحرمہ) کو ملتی ہے۔ وہی زندگی ہے جو شہید عبدالرحمن کوملتا ہے۔ وہی زندگی ہے جو شہید غلام محمد کو ملتا ہے۔ وہی زندگی ہے جو لالا منیرکو ملتا ہے۔ وہی زندگی ہے کہ جس نے آج قوم کو زندہ رکھا ہے۔ ہمیشہ جوقومیں مرنا جانتے ہوں تووہ دنیا جہاں میں مٹتے نہیں ہیں، لیکن جب قوم اپنی سرتسلیم ِ خم کرتے ہیں، موت سے ڈرتے ہیں، موت کی خوفناکیوں سے بھاگتے ہیں، تو وہ قوم معدوم ہوجاتے ہیں۔ دنیا کے نقشے سے اُن کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں اُس قوم سے تعلق رکھتا ہوں کہ ہمیشہ سے کیسی بھی طاقتور قبضہ گیر، خواہ کسی بھی شکل میں آیا ہو، یہاں کامیاب نہیں رہا ہے۔ وہ میری سرزمین پر قبضہ جما نہیں سکا ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی شہید کا ایک خوبصورت بات یاد آتا ہے وہ کہتے ہیں ”آج بلو چ فخرکریں کہ وہ اتنی کشادہ زمین کے مالک اس لئے ہیں کہ اُنہوں نے زندہ رہنے کے لئے مرنا سیکھا ہے۔“

انفارمیشن سیکریٹری نے کہا کہ مجھے ان کی بہادری اور موبلائزیشن کی قوت نے بہت ہی انساپئر کیا اور میں نے اپنی زندگی میں ڈاکٹر منان جان جیسا بہادر اور موبلائزر نہیں دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر منان بلوچ قومی تحریک کے سب سے موبلائزر تھے۔ آج ان کی جگہ خالی ہے۔ وہ عوام سے تھے، عوامی لیڈر تھے اور بلوچ عوام ہی ان کے لئے سب کچھ تھا۔ شہید بلوچ قوم کے لئے مقناطیس کی مثل تھے وہ اپنے انقلابی اور دوستانہ رویہ سے مقناطیس سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔

دل مراد بلوچ نے کہا ٰڈاکٹر منان بلوچ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ عظیم لیڈر، بہترین دوست، وسیع مطالعے کے حامل، راست گو اور عوام دوست تھے۔ انہوں نے موبلائزیشن کو عمل کو نئی جہت اور بلندی عطا کی۔ وہ سب سے پہلے سابقہ ادوار میں شہید ہونے والوں کے وارثوں اور سابقہ جہدکاروں سے ملے۔ انہیں ترغیب دی کہ آپ کے اجداد یا آ پ لوگوں کی جد وجہد کی تسلسل برقرار نہیں رہ سکے لیکن آج تحریک دوبارہ شروع ہوچکا ہے، آپ لوگ اپنا حصہ ادا کریں۔ یہ کریڈٹ ڈاکٹر منان جان کو جاتا ہے کہ انہوں نے اس بات کی تشخیص کی کہ جدوجہد کی کامیابی کے لئے ضروری ہے دیہی علاقوں کو بنیاد بنایا جائے۔ یہی ڈاکٹر منان بلوچ کا موبلائزیشن کا عظیم کارنامہ ہے جس کا توڑ آج تک دشمن کے پاس نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو لوگ یکجہتی اور اتحاد کی بات کرتے ہیں اس پر میں دو واقعات بیان کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا اس بارے میں رویہ اور کوشش کس سطح کے تھے۔ سوشل میڈیا میں پارٹی اور پارٹی اتحادیوں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ عروج پر تھا۔ لیکن نواب خیربخش مری کے وفات کی خبر آئی تومیں نے انہیں نیند سے جگایا۔ انہوں نے کوئٹہ میں دوستوں سے حال و حوال کی اور سرکاری منصوبے کی خبر ملی توانہوں نے سب سے پہلے نواب صاحب کے فرزند حیربیار مری کو تین دفعہ فون کیا مگر ان کی سیکریٹری کا ایک ہی جواب تھا کہ ”صاحب مہمانوں کے ساتھ مصروف ہیں“۔ اس کے بعد انہوں نے نواب صاحب کے دوسرے بیٹے مہران مری کو فون کی۔ جب بی ایل اے اور یو بی اے کے درمیان جنگ چڑی اور جہدکار شہید کئے گئے مہران مری نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی کہ اس کا حل نکالیں کیونکہ حیر بیار صاحب جنگ پر آمادہ ہیں تو ڈاکٹر منان بلوچ نے یہ قطعا نہیں دیکھا کہ ہیربیار صاحب نواب صاحب کے فوتگی پر خالص غیر سیاسی مسئلے پر بات کرنے انکاری رہے لہٰذا اب بات کرنا بیکار ہے۔ مگر انہوں نے فوراََ حیر بیار کا نمبر ملایا لیکن جواب وہی تھا کہ صاحب مصروف ہیں وغیرہ۔ یہ ان کا رویہ تھا۔ اپنے ہاتھوں متعدد ڈرافٹ لکھے مگرجواب ندارد۔ لیکن انہوں نے کوشش ترک نہیں کی بلکہ سراوان کے سفر کا ایک اہم مقصد اسی سلسلے کو آگے بڑھانا تھا۔ جس کا مثبت رزلٹ آج ہمارے سامنے ہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ تیس جنوری کو ڈاکٹر منان جان کے ساتھ بابو نوروز، اشرف بلوچ، حنیف بلوچ اور ساجد بلوچ دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ تمام قابل ساتھی تھے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بابو نوروز اعلیٰ پائے کے دانشور تھے۔ انہیں مارکس ازم پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے حمید شاہین شہید کی سیاسی زندگی، افکار و نظریات پرقابل فخر کام کیا جو کتابی شکل میں سنگر پبلی کیشن کی جانب سے شائع ہوا۔ وہ مسلسل اپنی زندگی کے آخری دنوں تک لکھنے میں مصروف رہے۔

دل مراد بلوچ نے کہا کہ لیڈر تاریخ پیدا کرتا ہے۔ ارتقاء سینکڑوں سالوں کا سفر طے کرتا تب کہیں ایک لیڈر پیدا ہوتا ہے، لیکن کام کرنا، جہدکار پیدا کرنا لیڈر کا کام ہوتاہے۔ اسے ہم تاریخ یا ارتقا ء پر نہیں چھوڑ سکتے۔ جب یہ کام ہم تاریخ پر چھوڑ دیں تو میں سمجھتاہوں کہ یہ تحریک کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ڈاکٹر منان جان نے اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیا وہ اس میں کامیاب رہے۔ ہماری حصے کا کام باقی ہے۔

بی این ایم کے مرکزی فنانس سیکریٹری ناصربلوچ نے کہا ڈاکٹرمنان جان عظیم ہستی تھے۔ وہ ہمیشہ جہد مسلسل میں تھے۔ میرا تعلق تربت زون سے ہے۔ وہ جب بھی مکران کے دورہ پر آتے یا جلسوں، کارنرمیٹنگوں یا پارٹی اجلاس میں ان کا زور ہمیشہ موبلائزیشن، مطالعہ اور اسٹڈی سرکلز پر ہوتا کہ ان کے بغیر ہم نہیں بڑھ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی پارٹی اور جدوجہد کے لئے وقف تھا۔ جب اہم عہدوں پر نہیں تھے تو ان کا زیادہ وقت پارٹی امور کے لئے تھا اور جب سیکریٹری جنرل کے عہدے فائز ہوئے تو ان کے کام کرنے کے رفتار میں تیزی آئی۔ وہ ہمیشہ عوام، جہدکاروں کی تربیت میں مصروف رہے۔

ناصر بلوچ نے کہا کہ دوہزار دس کے کونسل سیشن کے بعد انہوں نے لٹریچر کے میدان میں بہت کام کیا اور بلوچستان کے کونے کونے میں پارٹی لٹریچر پہنچایا اورجہاں جہاں بھی ڈاکٹر صاحب نے قدم رکھا ہے، وہاں کے لوگ زیادہ موبلائز ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بلوچ قوم کو ہمیشہ درس دیا کہ پاکستان اپنی قبضہ گیریت کو برقراررکھنے کے لئے سماج میں مذہبی و نسلی منافرت اورقبائلی مناقشوں کو ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ شہید ہمیشہ فرانزفینن کا حوالہ دیتے کہ تمام مذہبی و نسلی منافرت اور قبائلی مناقشوں کا اصل منبع قبضہ گیریت ہے۔ اگر لوگ اس حقیقت سے واقف ہوگئے تو ان کا ہدف اپنے بھائی کے بجائے دشمن ہوگا۔ آج اگر یہ مسائل ختم نہیں ہوئے ہیں مگر ان کی صورت حال ضرور بدل چکی ہے۔ یہ ڈاکٹر منان جان کے تعلیمات کی بدولت ہے۔

ناصر بلوچ نے کہا ڈاکٹر شہید جب بھی دوروں پر ہوتا تو مختلف پارٹی اور تنظیموں کے ساتھیوں سے یکساں ملتا۔ کبھی بھی یہ تاثر تک نہیں دیتا کہ آپ کا تعلق کسی اور تنظیم یا پارٹی سے ہے۔ انہیں یہی درس دیتا کہ تمام جہدکاروں کو ہمہ قسم کی تفریق سے بالاتر ہوکر قومی آزادی کے لئے جدوجہد اور اپنے قوم کو غلامی سے نجات کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر منان جان نے ہمیشہ قومی سوچ کو فروغ دینے کی کوشش کی تاکہ ہم ریاست کی بربریت اور تقسیم کے کوششوں کو ناکام بنائیں۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر صاحب کا کارکنوں کے لئے ترغیب ہمیشہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک رسائی، پارٹی پیغام پہنچانا اور مطالعہ تھا۔ وہ کارنر میٹنگ، جلسے اور عوامی تربیت پر ہمیشہ زور دیتے تھے اوربذات خود عوام میں موجود رہے۔ وہ سماج میں قبضہ گیریت اورغلامی سے پیدا مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہے اور اس میدان میں انہوں نے ناقابل فراموش کام کیا۔ عوامی موبلائزیشن کے لئے انہوں نے دشمن فوج کے چوکیوں میں گھرے علاقوں کا بلاخوف و خطر دورہ کیا۔ ایسے علاقوں میں کامیاب جلسوں کا انعقاد کرکے ثابت کردیا کہ عوام کی حمایت سے ہمہ قسم کے سیاسی کام ممکن ہیں۔

ناصر بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر شہید جہاں بھی گئے وہاں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے ملے۔ میں جن دوروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تھا وہاں تما م لوگوں سے ملتے اور مذہبی طبقے سے ملنے کے لئے مسجدوں میں جاتے اور انہیں بھی جدوجہد میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے کہ ہماری تحریک کسی مخصوص مذہب یا طبقہ فکر کے لوگوں کے خلاف نہیں بلکہ ہماری جدوجہد اُس دشمن کے خلاف ہے جو ہماری سرزمین پر قابض ہے۔

بی این ایم ڈائسپورہ کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر حسن دوست بلوچ نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج ڈاکٹر منان بلوچ اور ان اہم ساتھیوں کی شہادت جو عملی طور پر سرگرم تھے اور تحریک کو آگے لے جانے میں بر سرپیکار تھے، یہ ہمارے لئے ایک سیاہ دن ہے۔ وہ حقیقی انداز میں بی این ایم اور بلوچ قوم کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ ان کی محنت اور قربانی کا نتیجہ ہے کہ بی این ایم ایک بہت بڑے دشمن کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑی ہے اور اپنا سفر جاری رکھے ہوا ہے۔ یہ غلام محمد بلوچ اور ڈاکٹر منان بلوچ سمیت کئی رہنماؤں کی شہادت اور قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۔

حسن دوست بلوچ نے بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کے مختلف اوقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں جب بھی ہم بی ایم سی ہاسٹل جاتے وہاں ڈاکٹر اللہ نذر اور ڈاکٹر منان بلوچ کے کمروں میں یہی بحث ضرور سننے کو ملتی تھی کہ آج کی سیاسی جماعتیں بی این ایم اور طلبا تنظیم بی ایس او وغیرہ اپنا حقیقی راستہ اور نعرہ چھوڑ کر عارضی اور گروہی مفادات کے گرد گھوم کر اسے بلوچ قومی سیاست کا نام دے رہے ہیں۔ اس کام کیلئے ڈاکٹر منان جان اس بات پر

زور دیتے تھے کہ بلوچستان کے جس علاقے تک ہم پہنچ سکتے ہیں ہمیں وہاں بلوچ قومی غلامی کے خلاف آگاہی دیکر قومی آزادی کیلئے کام کرنا چاہیئے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر منان کی شہادت کی خبر ایک ایسے وقت پر آئی جب دوبلوچ آزادی پسندوں تنظیموں میں آپسی جنگ جاری تھا۔ وہ اس آپسی جنگ کو ختم کرنے کی جد و جہد میں علمی طور پر مصروف تھے۔ وہ بلوچی روایت کے مطابق ان کے پاس گئے۔ ڈاکٹر منان کی قابلیت اور صلاحیتیں کسی دوسرے میں موجود نہیں ہیں۔ وہ اپنی ذات کو دفن کرکے اجتماعی انسانیت کا پیروکار تھے۔ وہ ایک ڈاکٹر تھا، ایک سوشل موبلائزر تھا، قوم پرست تھا، لیڈر تھا، ایک انتہائی مخلص کارکن بھی تھا۔ وہ کئی خصوصیات سے سرشار ایک شخصیت تھے۔ اب ہماری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنی تحریک پر حقیقت پسندانہ نظرثانی کریں۔ ہم کل کہاں تھے، آج کہاں ہیں اور کل کس طرف جا رہے ہیں۔ ہمیں ان شہدا کی تقلید کرتے ہوئے ان کے مشن کو پایہ تکمیلتک پہنچائیں۔ ہمیں انہی کی طرح اپنی ذات کو نفی کرکے اجتماعیت کیلئے کام کرنا ہے۔

حسن دوست بلوچ نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ بی این ایم کے اس فلسفہ کو عملی طور پر آگے لے جارہے تھے، جو تمام آزادی پسندوں کی حمایت اور انہیں منظم کرنے میں مدد کرنا تھا۔ وہ دو تنظیموں کی آپسی جنگ اور چپقلش کو ختم کرنے کی سفر میں شہید بھی ہوئے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ریاست جبر سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں بیرون ملک اپنی بھرپور قوت اور صلاحیت کے ساتھ کام کرکے اس کے فوائد کو بلوچستان اور بلوچ عوام تک پہنچانا چاہیئے۔

نسیم عباس نے کہا کہ جب ہم وطن میں تھے یا آج وطن سے باہرہیں، ڈاکٹر منان جان مجھ سمیت ہمیشہ اپنے تمام کارکنوں سے رابطہ میں تھے اوررہنمائی کے موجود تھے۔ کارکنوں سے ان کے کوارڈینیشن کا طریقہ نہ صرف میرے بلکہ تمام کارکنوں کے لئے ایک بہترین موٹیویشن تھا۔ پارٹی دوستوں کے علاوہ تمام بلوچ جہدکاروں سے ان کا رویہ ہمیشہ دوستانہ تھا۔ شہید چیئرمین غلام محمد کے بعد اگر کوئی ورکر دوست اور پارٹی دوست رہنما تھا تو ڈاکٹر منان جان تھے۔

بی این ایم کے سینئر کارکن ستار عبدالرسول نے کہا پارٹی اداروں نے اپنے شہدا کو بھرپور خراج تحسین ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر منان جان ایک ایسے ہستی تھے جن کی پوری زندگی سیاست، سیاست کی نشوونما، عام بلوچ، سیاسی کارکنوں کی تربیت اور حوصلہ افرائی سے عبارت تھی۔ انہوں نے عوام اور کارکنوں کی تربیت، حوصلہ افزائی اور ان سے جڑے رہنے کو سیاست کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔ ہمیشہ پارٹی کے اندرونی مسائل و مشکلات کے لئے پیش پیش تھے بلکہ بلوچ قومی تحریک کے تمام اسٹیک ہولڈر سے ان کے بہترین مراسم تھے۔ بلوچ سیاست کو شعوری اور منظم طور پر آگے لے جانا ان کا اولین مقصد تھا۔ کسی قسم کے حالات ان پر اثر انداز نہ ہوئے بلکہ ہر صورت میں قومی ضرورتوں کے لئے سفر در سفر رہے۔

انہوں نے کہا ڈاکٹر جان کی شہادت نہ صرف بلوچ نیشنل موومنٹ کے لئے نقصان ہے بلکہ ایک ناقابل تلافی قومی نقصان ہے اور مجھے ڈاکٹر منان جیسا شخص نظر نہیں آتا ہے جو ان کا صحیح معنوں میں متبادل ہو۔ ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کے دن پر ہمیں ضرور سوچنا چاہئے کہ شہید منان جان کا مشن کیا تھا میں سمجھتا ہوں کہ نہ صرف پارٹی بلکہ پوری قومی تحریک کے حوالے سے ان کا ایک مشن تھا۔ ان پر سوچنا انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانا ہمارا قومی فرض ہے۔

ستار عبدالرسول نے کہا کہ جس طرح آج پارٹی چیئرمین واجہ خلیل بلوچ نے اپنے پیغام میں کہا کہ ڈاکٹر منان جان نے اپنی موت و زندگی کا اختیار پارٹی کو تفویض کیا تھا، یہ معمولی بات نہیں ہے بلکہ یہ اس امر کا واضح دلیل ہے کہ ان کے لئے ادارہ اور ادارے کا فیصلہ مقدم تھا۔ وہ ہرصورت میں پارٹی میں جمہوری اقدار اور اجتماعی قیادت کا قائل تھا۔ انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ ہمارے لئے پارٹی کو ہر بات ہر فوقیت حاصل ہے۔ آج ہمیں اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم کس حد تک ڈاکٹر منان جان کے فکر و فلسفے پر گامزن ہیں۔ ادارہ جب مختلف عوامل و ارتقا سے گزر کر ایک ایسی چوٹی سرکرلیتا ہے پوری قیادت اور کارکنوں کوسرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے کہ یہاں تک ہم نے کیا حاصل کیا ہے اور کیا کیا حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے ہیں۔ کمی اور کوتاہیوں پر نظر ڈالیں۔ محنتی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ جن جن سے کوتاہیاں ہوئی ہیں انہیں ایڈمٹ کریں، اپنی اصلاح کریں اوراس کے ساتھ اپنی صفوں کا جائزہ لے کراُن اصولوں پر گامزن ہوجائیں جن کیلئے ڈاکٹر منان جان نے اپنی زندگی گزاری اور جن کے لئے اپنی جان نچھاور کردی۔

بی این یوکے زون کے صدر حکیم بلوچ نے کہا میری زندگی کا یادگار لمحہ وہ تھا کہ سیاسی اختلافات کے باوجود ڈاکٹر منان خوش اسلوبی اور انقلابی رویہ کے ساتھ ہم سے ملے۔ وہ ہسپتال میں بیماری کی صورت میں ہنسی خوشی اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ آج ہمیں سوچنا چاہئے کہ چارسال قبل ڈاکٹر منان بلوچ کیوں اپنی غیر محفوظ علاقے کا سفر کررہے تھے َتووہ وقت تھا جب دوتنظیم آپس آمادہ برجنگ تھے۔ یہ منان جان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج انہی تنظیموں کے لوگ ایک مورچے میں دشمن کے خلاف لڑکر شہادت پا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں صرف شہداء کوخراج تحسین پیش کرنا قطعا کافی نہیں سمجھتا بلکہ ان کی مشن کی تکمیل کے لئے اپنا حصہ بھرپور ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ آج جہاں بھی پارٹی نہیں پہنچ پایا ہے یا کارکردگی میں کمی پائی جاتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے۔ جدوجہد مسلسل عمل کا نام ہے۔

ترجمان نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک او ر اندرون بلوچستان مختلف زونوں نے اس دن کی مناسبت سے پروگرام منعقد کرکے ڈاکٹر منان جان اور ان کے ساتھیوں کو بھروپور خراج عقیدت پیش کیا۔

بی این ایم کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ شہدائے مستونگ کی یاد میں تیس جنوری کو جرمنی زون کی طرف سے ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ شہدائے مستونگ کی چوتھی برسی پر ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھیوں بابو نوروز بلوچ، حنیف بلوچ، اشرف بلوچ اور ساجد بلوچ کو خراج تحسین اور سرخ سلام پیش کیا گیا۔ اجلاس کی صدارت جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے کی جبکہ مہمان خاص بی این ایم ڈائسپورا کمیٹی کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم بلوچ تھے۔ اجلاس سے حمل بلوچ، ڈاکٹر نسیم بلوچ، زونل جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ، بی این ایم کے سینئر رہنما حاجی نصیر بلوچ، سمیع اللہ ناتو اور بابا بوہیر جوہر نے خطاب کیا۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے شہدائے مستونگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ زندہ قومیں اپنے شہدا، ہیرو اور رہنماؤں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ آج بلوچستان کے حالات ایسے ہیں کہ ہم اپنے شہدا کی برسی بھی ماضی کی طرح نہیں منا سکتے۔ مگر بیرون ملک یا جدید دنیا اور سائنسی ترقی کے نتیجے میں ہم دوسرے ذرائع سے اکھٹے ہوکر اپنے شہدا کو خراج تحسین پیش کرسک رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ڈاکٹر منان بلوچ نے چھوٹی سی مدت میں ایسے کارنامے انجام دئیے کہ ان سے ایک کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ جب کبھی ان کے بھائی شہید نورالحق کی بات آتی تو وہ قومی جہد میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرنے اور اس کردار سے پہچانے جانے کا ذکر کرتے تھے۔ وہ کہتے کہ میرے بھائی نے اپنے حصے کا فرض ادا کیا ہے، ہمیں اپنا حصہ خود ادا کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں تین شہدا واجہ غلام محمد بلوچ، شہید ڈاکٹر منان بلوچ اور ڈاکٹر خالد بلوچ کی کمی ہر وقت محسوس کرتا ہوں۔ یہ تین ایسی شخصیات ہیں کہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے ایک بہت بڑے حصے کو متاثر کیا اور انہیں موبلائز کیا۔ یہ خلا بھرنے کیلئے ہمیں صدیوں درکار ہوں گی۔ شہید غلام محمد اور ڈاکٹر منان بلوچ نہ ہوتے تو کئی اور لوگ اور سینکڑوں موجودہ کارکن اس تحریک کا حصہ نہ بنے ہوتے۔ بلوچ قومی تحریک میں شامل مختلف جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے، ایک اتحاد بنانے اور آپس میں رنجشیں ختم کرنے کیلئے ڈاکٹر منان جان نے از خود بحیثیت سیکریٹری جنرل بی این ایم اقدام اُٹھائے۔ ان میں انہیں کافی کامیابی بھی ملی۔ ان کا آخری سفر بی این ایم کو منظم کرنے کے ساتھ انہی رنجشوں کو ختم کرنے کیلئے تھا۔ غرض انہوں نے بلوچستان کے ہر کونے کا تنظیمی دورہ کیا۔ وہ جہاں کہیں بھی گئے یا ان کی میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے پوسٹنگ ہوئی وہاں آپ کو بی این ایم کے ممبر اور ہمدرد اور بلوچ قومی تحریک سے جُڑے لوگ ضرور ملیں گے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ نے اپنی نوکری سے استعفیٰ دیکر ہمہ وقت سیاست کو اپنا شعبہ اور بلوچ قومی تحریک کی خدمت کو اپنا پیشہ بنایا۔ ان قربانیوں سمیت وہ ایک صاحب علم اور کتابوں اور مطالعہ کا دلدادہ تھے۔ ان کے سفر کے سامان میں کتابیں ایک ضروری جز تھیں۔ وہ عالمی سیاست پر گہری نظر اور دسترس رکھتے تھے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جرمنی زون کے صدر حمل بلوچ نے کہا کہ تیس جنوری بلوچ قوم کیلئے ایک سیاہ دن ہے۔ اس دن ہم نے ڈاکٹر منان کو چار ساتھیوں سمیت جسمانی طور پر کھو دیا۔ انہوں نے دن رات، سردی گرمی ہر حالات میں غلامی کے خلاف جد و جہد کے بی این ایم کے پیغام کو مند تمپ سے لیکر واشک اور خارا ن تک پہنچایا۔ آج بلوچ قومی تحریک کا بلوچستان اور بیرون ملک پذیرائی انہی کی قربانیوں اور انتھک محنت اور جد و جہد کا نتیجہ ہے۔ آج ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کاروان کو آگے بڑھائیں۔

جرمنی زون کے سمیع اللہ ناتو نے کہا کہ آج ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت کو چار سال ہوئے ہیں مگر وہ ہمارے لئے آج بھی زندہ ہیں۔ قوموں میں ڈاکٹر منان جیسے لیڈر بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے سیاست کو قومی فرض سمجھ کر اپنا کردار ادا کیا اور اپنی جان کی قربانی دیدی۔ وہ ایک ملنسار سیاسی استاد تھے۔ بابا بوہیر جوہر نے کہا کہ ڈاکٹر منان ایک درویش صفت اور خوش مزاج انسان تھے۔ آج دنیا میں اگر کوئی بلوچ قومی تحریک سے واقف ہے تو وہ ڈاکٹر منان کی جد و جہد کا ثمر ہے۔ وہ ایک پیغمبر کی حیثیت سے آئے تھے۔

بی این ایم کے سینئر رہنما اور سابقہ مرکزی فنانس سیکریٹری حاجی نصیر بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر منان جان ایک نہایت دور اندیش انسان تھے۔ وہ ایک گہری سیاسی بصیرت کے مالک تھے۔ وہ جو پیشنگوئیاں کرتے تھے، وہ اکثر درست ثابت ہوتے۔ وہ دشمن کی مظالم اور پابندیوں کے باوجود اس بات کا قائل تھے کہ ہمیں ہر حال میں اپنا کام جاری رکھنا ہے۔ وہ ہر بلوچ کی جھونپڑی تک پہنچ جاتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک ہم عوام میں نہیں رہتے ہم اپنا جد و جہد آگے نہیں لے جا سکتے۔ وہ شہید ہوگئے لیکن ان کا فکر و نظریہ ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔

جرمنی زون کے جنرل سکریٹری اصغر علی نے کہا کہ داکٹر منان بلوچ کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے ایک سیاسی کوریڈور ہے جس سے ہم ہروقت رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ ان کی زندگی کا قدم قدم ہمیں ایک سبق دیتا ہے۔ ان کی دی ہوئی قربانی ہماری نسلوں کیلئے ایک موٹیویشن ہے