Powered By Blogger

среда, 5 февраля 2020 г.

میر بیورغ رند بلوچ

میر بیورغ رند بلوچ
میر بیورغ رند میر باہر بلوچ کا فرزند تھا جس کے ساتھ میر چاکر خان کی بہن بیاہ ہوئی تھی، میر بیورغ کا شہرت میر چاکر کے بھانجے کی حیثیت، عزم اور بہادری سے زیاده اس کے تدبر و فراست سے ہے، میر بیورغ بہادری اور شجاعت کے علاوه ایک گھبرو اور خوبرو نوجوان ہونے کی شہرت بھی رکھتاتھا یہی وجہ ہے کہ بلوچوں کی تاریخ کے اس قدیم روایتی دور میں بیورغ کی شہرت بہادری کے ساتھ عشق و محبت کی رنگین داستانوں کے سبب بھی ہے، مگر یہاں اس کے عشق و محبت کی داستانیں موضوع سے خارج ہیں، یہاں بیورغ کی شخصیت کے اس پہلو کا تذکره مقصود ہے جس کا بلوچوں کی قومی زندگی سے تعلق رہا ہے.
جرأت اور شجاعت کے لحاظ سے تو وه بلوچ تاریخ میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے لیکن بلوچوں کی تاریخ کے ایک ایسے دور میں جب کہ پہچان تشخص اور ناموری کی علامت و سبب محض لڑائی یا کشت و خون تھی، ایسے وقت میں لڑائی کی بجائے امن و صلح کی باتوں کو بزدلی پر محمول کیا جاتاہے اور جب بیورغ نے اپنی فہم و فراست سے اپنی قوم کے اتحاد، بقاء اور عظمت کے لئے جنگ کی بجائے امن کی بات کی تو ہر سمت سے اس کی ہنسی اڑائی گئی، اس کو بزدلی کا طعنہ دیا گیا، لیکن وقت نے بعد میں ثابت کردکھایا کہ عظیم بیورغ کس قدر دور اندیش تھا.
یہ واقعہ کچھ اس طرح ہوا کہ جس وقت رند و لاشار ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے اورمیر چاکر لشکر جمع کرکے لاشاریوں پر یلغار کرنے کے لئے روانہ ہو رہاتھا تو اس اشغال انگیز کیفیت میں بیورغ کی آواز بلوچوں میں وه واحد آواز تھی جو مذکوره لشکر کشی اور جنگ کے خلاف اٹھی.
بیورغ نے آگے بڑھ کر میر چاکر کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور اسے یوں مخاطب کرکے باہمی جنگ کے دور رس اثرات اور ہولناکیوں سے بروقت آگاہ کیا.
اے میر اعظم خان چاکر خان اپنے بغض و کینے کو کم کرو..... اپنے ہی ہم قوم کے خلاف غصہ تھوک دو.... نوہانی قبیلے کے ایک ہزار جوان ہونگے .... ہزاروں شمشیر زن لاشاری ان کے علاوه ہوں گے... وه تمھارے مقابلے میں یکجا ہوں گے... اس وقت پیچھے ہٹنا تمہارے لئے عیب ہونے کے باعث دشوار ہوگا.... اور آگے بڑھنے سے تم خونی جنگ کےسلسلے میں پھنس جاؤگے... اگر تو فاتح ہوا تب بھی تیرا نقصان ہے.. کیونکہ اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے میں نقصان و خساره ہے... یہ دنیا ہمیشہ سے گردش میں ہے.. اس فانی دنیا میں تمہارے لئے دوام نہیں ہے... ایسا حملہ کرکے بعد میں زندگی بھر ارمان کرتے رہوگے........
بد قسمتی سے میر بیورغ کی اس قومی پکار کو رند معتبرین نے بزدلی سے محمول کرتے ہوئے کہا کہ میر بیورغ تلواروں کی کھنک سے زیاده خوفزده ہوگیا ہے اس کو ڈرنا نہیں چاہئے کہ ہم اسے اپنے حصار میں لے کر تیروں اور تلواروں سے بچائے رکھیں گے، بزدلی کا طعنہ سن لینے کے بعد بیورغ کے لئے مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں رہی اور وه بھی مجبورًا تباہی کے عمل میں شامل ہوجانے پر مجبور ہوا.
بلوچوں کی باہمی خانہ جنگی کے متذکره دور میں ایک مرتبہ پھر میر بیورغ نے رند و لاشار کو ایک ہی صف میں لاکر ان کے لئے باہمی اتحاد اور یکجا ہونے کا بہترین موقعہ فراہم کردیا مگر یہ ایک المیہ ہی تھا کہ میر چاکر اور میر گواہرام نے دشمنی ختم کرکے دوباره متحد ہوجانے کے اس زرین موقعے کو ضائع کردیا، اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے.
ایک مرتبہ میر چاکر خان نے میر بیورغ کو ڈيپلوماٹ کی شکل میں کسی اہم کام کے سلسلے میں کندہار کے گورنر ذو النون بیگ ارغون کے پاس بھیجا، اس وقت کندہار ترک ارغونوں کے قبضے میں تھا بعد میں ارغونوں نے سندھ پر بھی قبضہ کرلیا، جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ میر بیورغ بہت ہی حسین اور خوبرو نوجوان تھا جب کندہار گیا تو وہاں کے گورنر ذوالنون کے بیٹی گراناز نے میر بیورغ کو دیکھا دیکھتی ہی وه اس پر فدا ہوگئی چونکہ وه بھی شاہزادی تھی اور بہت خوبصورت تھی، ہوا یوں کہ ایک دوسرے پر فدا ہونے لگے، بعد میں دونوں کے درمیان محبت کی شدت کا یہ حال ہوگیا کہ ان کے لئے ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزار نے کا تصور محال ہوگیا،دونوں نے شادی کرنے کا بہت سوچا مگر گراناز کے والد ذو النون بیگ بہت ہی سخت مزاج تھا وه سمجھتی تھی کہ اگر والد سے اپنی محبت کی بات کرے تو جدائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا، تو میربیورغ کے لئے گراناز کو بھگانے کے سوا کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیا اس لئے میر بیورغ نے گراناز کو بھگاکر سیوی لے جانے کا اراده کیا جس پر گراناز بھی تیار ہوگئی.
آخر ایک رات میر بیورغ اپنی محبوبہ کو محل سے اپنے ساتھ لئے عازم سیوی ہوا، جب ذو النون بیگ کو اپنی بیٹی کے بیورغ کے ساتھ بھاگ جانے کا علم ہوا تو وه اسی وقت ایک کثیر فوج لئے اس کے تعاقب میں روانہ ہوا، بیورغ کو معلوم تھا کہ ذوالنون بیگ اس کی حرکت سے آگاه ہوتے ہی اس کے تعاقب میں روانہ ہوگا اس لئے وه دن رات ایک کرکے اپنے علاقے پہنچ گیا.
بلوچستان پہنچ کر اس نے جس فہم و فراست کا مظاہره کیا اس سے اس کی دانش مندی اور تدبر کا بہترین اظہار ہوتاہے، میر بیورغ اپنی محبوبہ کو ساتھ لئے اپنے ماموں اور رندوں  کے میر اعظم کے پاس جانے کی بجائے لاشاریوں کے سردار میر گواہرام خان کے پاس جاکر قیام پذیر ہوا، عظیم لاشاری قائد نے نہ صرف اس کو تمام تر عزت و احترام کے ساتھ اپنے ہاں رکھا بلکہ اس کے تحفظ اور سلامتی کے لئے لاشاری لشکر کو جمع کیا، کیوں کہ اس وقت تک ذو النون بیگ بیورغ کا تعاقب کرتے ہوئے وہاں پہنچ چکا تھا.
میر گواہرام نے اپنے تمام لشکر کو لڑائی کے لئے تیار کرنے کے ساتھ میر چاکر خان کو بیورغ کی حرکت،اپنے ہاں قیام اور ذو النون بیگ کے اس کے تعاقب میں آمد سے مطلع کیا جس کے نتیجے میں میرچاکر خان بھی اپنے لشکر کو جمع کرکے میر گواہرام کے شانہ بشانہ بیورغ کی حفاظت کے لئے لڑنے کی غرض سے آیا اس طرح بیورغ کی تدبیر کامیاب ہوئی.
میر بیورغ جانتا تھا کہ ذو النون بیگ کا مقابلہ صرف میر چاکر کے بس کی بات نہیں ہے، وه اگر سیدھا چاکر کے پاس چلا جاتا تو گواہرام کا اس کی مدد کے لئے آنا  خارج از امکان تھا، اس لئے بیورغ میر چاکر کے بجائے میر گواہرام کے گھر جاکر گویا اس کا باہوٹ بن گیا اب باہوٹ کے تحفظ کی بلوچی روایت میں بیورغ کا تحفظ میر چاکر سے زیاده میر گواہرام کی ذمہ داری بن گیا جب کہ میر چاکر کی مدد و حمیت تو ویسے بھی بیورغ کے لئے یقینی تھی.
اس طرح عین خانہ جنگی کے دوران بلوچوں کے دونوں طائفے ایک ہی میدان میں یکجا ہوکر ایک تیسرے دشمن قوت کے خلاف لڑنے کی غرض سے جمع ہوئے اور ان کے قائدین اور لشکر کے درمیان گویا کوئی دشمنی یا مخالفت باقی نہیں رہی تھی.
اس طرح میر بیورغ نے ایک مرتبہ پھر رند و لاشار کے مابین موجود دشمنی کو اتحاد میں بدلنے کی ایک صورت پیدا کی لیکن میر چاکر اور میر گواہرام نے اپنی اپنی ذاتی انا کی تسکین کی خاطر اپنے قبائل کو جنگ کا ایندھن بنے رہنے دیا، باہمی لڑائی چھڑ جانے کے بعد پھر کبھی انہوں نے اتحاد کے بارے میں سوچا بھی نہیں، یوں بیورغ کے پیدا کرده حالات سے انا کے پرستار امیر کوئی فائده نہ اٹھاسکے اور بلوچ قوت کی مکمل تباہی کے مشن کو  بالآخر میر چاکر اور میر گواہرام نے پورا کردیا...
ذو النون بیگ ارغون کے لشکر کے بلوچ علاقے میں موجودگی کے دوران بیورغ نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس سے اس کی اپنی قوم کی سلامتی کے ساتھ عقیدت کی حد تک وابستگی کا اظہار ہوتا ہے.
رات کو جب دونوں اطراف کے لشکر سوئے ہوتھے، نیندبیورغ کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وه اپنے لشکر سے کچھ دور اپنی سوچوں میں محو تھا، آنے والی دن اس کی پوری بلوچ قوم ارغونوں کے افواج بے شمار سے ٹکرانے والی تھی، اس جنگ کے چھڑنے کا سبب محض اس کی اپنی ذات اور اس کی ذاتی خوشی تھی، اسی کی حرکت کے باعث کندہار کا حکمران اپنی افواج لے کر بلوچستان میں آگیا تھا، اس کا مقصد بیورغ کو اس کی حرکت کی سزا دینا تھا، اور میر بیورغ کو سزا سے بچانے اور اس کی دلہن کو تحفظ دینے کی غرض سے جو اب بلوچوں کی عزت بن چکی تھی، پوری بلوچ قوم میدان جنگ میں جمع ہوچکی تھی...
میر بیورغ نے اس مرحلے پر سوچا کہ میں اپنی محبوبہ کو اپنے ساتھ لے آیا اور اب میری دلہن کے سہاگ کے تحفظ کی خاطر نہ جانے کتنے ہزار بلوچ خواتین کا سہاگ اجڑ جائے گا اور کتنے بچے یتیم ہوچائیں گے؟ اور اس کا ذمہ دار محض میں ہوں،، یہ سوچ کر بیورغ کانپ ساگیا، ایک جرم کرلینے کے بعد وه اپنی قوم پر مکمل تباہی لانے کا دوسرا سنگین جرم کر رہا تھا، اس احساس کے تحت اس نے اپنے جرم کی سزا سے اپنی قوم کو محفوظ رکھ کر اس کے تمام تر عواقب خود بھگتنے کا فیصلہ کرلیا.
اسی رات ہی اس پر عمل در آمد کیا تاکہ دوسرے دن کا طلوع ہونے والا سورج قتل وخون کی ہولناکیاں نہ دیکھے.
میر بیورغ تن تنہا ذو النون بیگ کے خیمے کی جانب روانہ ہوا، خیمے کے باہر ایستاده دو محافظوں کو اس نے آواز نکالنے کا موقع دیئے بغیر اپنی تلوار سے کاٹ کر رکھ دیا اور پھر خیمے کے اندر داخل ہوگیا، جہاں ارغونوں کا سپہ سالار اور کندہار کا حکمران محو خواب تھا، بیورغ خون آلود ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اطمینان کے ساتھ اپنے خسر کے پاؤں کے قریب چپ چاپ کھڑا ہوگیا، عین اسی وقت ذو النون بیگ کی آنکھ کھلی تو اس نے بیورغ کو ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اپنی خواب گاه میں موجود پایا، وه چونک کر اٹھ بیٹھا تو بیورغ نے آگے بڑھ کر اس کے پاؤں چھولئے اور اس سے یوں مخاطب ہوا:::
اے امیر کندہار! میں ہی آپ کا مجرم بیورغ بلوچ ہوں جس کو پکڑنے اوز سزا دینے کی غرض سے آپ اپنی افواج کثیر لئے آگئے ہیں، میں آپ کے محافظوں کو ختم کرکے آپ کے خیمے میں اس لئے داخل ہوا ہوں کہ اپنے آپ کو جناب کے حوالے کردوں، میں آپ کے سامنے حاضر ہوں جس کی آپ کو تلاش ہے یہ ہے میری تلوار اور یہ رہی میری گردن چاہیں آپ میری خطا معاف کردیں اور چاہیں آپ میری گردن اپنی ہی تلوار سے اڑادیں.
یہ کہہ کر میر بیورغ نے  اپنی تلوار اس کے سامنے رکھ دی، ذو النون بیگ نے جب بیورغ کی جرأت و شجاعت کا یہ رنگ دیکھا تو اسی لمحے بیورغ کے بارے میں اس کے خیالات بدل گئے، اس نے سوچا کہ اس میر بیورغ سے اچھا اور بہادری کا پیکر کوئی اور شخص اپنی دامادی کے لئے شاید نہ ملے، اس نے اسی وقت اپنے امراء و فوجی  سالاروں کو بلایا اور بیورغ کی موجودگی میں ان سے کہا کہ اتنے بڑے فوجی کیمپ میں بیورغ بلوچ ہمارے خیمے کے باہر متعین پہرے داروں کی گردنیں اڑاکر ہمارے خیمے میں داخل ہوا اگر اس کی نیت بد ہوتی اور وه چاہتا تو اپنی تلوار کے ایک ہی وار سے ہمیں نیند کی حالت میں ہی ابدی نیند سلادیتا لیکن اس بہادر نوجوان نے اس کے برعکس اپنے جرم کا اقرار کرکے اپنی تلوار اور گردن ہمارے حوالے کرکے اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردیا، اسے ضرور سزا ملنی چاہیئے اور اس کی سزا یہ ہے کہ میں اپنی بیٹی گراناز کا رشتہ بیورغ کے ساتھ طے کرکے اسے اپنی فرزندی میں لینے کا اعلان کرتاہوں، مجھے ایسا ہی بہادر داماد چاہیئے..... اگلے دن شادی کی تیاریاں کی جائیں..
اس طرح بیورغ نے اپنی قوم کی سلامتی کے تحفظ کے لئے جو جرأت مندانہ قدم اٹھایا اس کے سبب نہ صرف اسے اپنی محبوبہ کی دائمی رفاقت میسر آگئی بلکہ اس نے قوم کو اپنی عظیم تباہی کا شکار ہونے سے بچالیا اور جو افواج جنگ  وقتال کی غرض سے ایک دوسرے کے مقابل جمع ہوئی تھیں اب مل کر شادی کے انتظامات میں لگ گئیں.
میر بیورغ نے ایک مرتبہ بلوچوں کے سالار اعلی میر چاکر خان کو اپنی ہی قوم کو اپنے تلواروں کا شکار  کرنے سے روکنے کا مشوره دیا تھا لیکن اس کے دور اندیشانہ مشورے کو بزدلی پر محمول کرکے اس لڑائی کا آغاز کیا گیا جس نے کچھ بھی باقی نہ رہنے دیا، اب دوسری مرتبہ اس نے اپنے فیصلے پر عمل  پیرا ہوکر اپنی ذات کی قیمت پر اپنی قوم کی سلامتی کا سودا کرلیا، اور اس کی خوش بختی تھی کہ مذکوره سودے میں اسے اپنی قوم کی سلامتی کے ساتھ اپنا در مقصود بھی حاصل ہوگیا، لیکن یہ بات اس کے لئے یقینًا ایک المیہ تھی کہ اس نے تو اپنی حکمت عملی سے اپنی قوم کو تباہ ہونے سے بچالیا، لیکن اس کی قوم نے اس کی فراہم کرده یکجائی و اشتراک کے ماحول کو دوباره برادرانہ تعلقات و قومی وحدت کے قیام کا ذریعہ نہیں بنایا، اور جس تباہی سے میر بیورغ نے انہیں بچایا تھا اسے انہوں نے خود ہی پایہ تکمیل تک پہنچادیا اور اپنی ہی ہاتھوں اپنی تباہی  اور مٹنے کی داستان رقم کرلی جس کی لپیٹ میں میر بیورغ جیسا عظیم مدبر بھی آگیا اور وه ان ہی خون آشامیوں کی نذر ہوگیا.....
میر بیورغ بکٹی علاقے میں مدفون ہے.
میر بیورغ کی شخصیت کا اگر جائزه لیا جائے تو وه اپنی قوم کا مدبر اور دور اندیش قائد نظر آتاہے جس نے محض رند بن کر سوچنے کی بجائے ایک بلوچ کی حیثیت میں سوچا، اگر میر چاکر خان اپنے نوجوان بھانجے میر بیورغ کے پر خلوص مشورے کو قبول کرلیتا تو اس کی عظیم قوم ہرگز خانہ جنگی کے اس طویل المیے کا شکار نہ بنتی جس نے قوت کے ساتھ ساتھ ان کا وطن بھی ان سے چھین لیا، اس وقت اگر بلوچوں کی قیادت میر چاکر کے بجائے میر بیورغ کے ہاتھوں میں ہوتی تو شاید بلوچ تاریخ کچھ مختلف ہوتی اور ہم تیس سالہ خانہ جنگی کی تباہیوں کے مرثیے رقم نہ کرتے.
بہر حال عظیم بیورغ کو بلوچ تاریخ کا اولین ڈپلومیٹ کہا جاسکتا ہے، میری نظر میں بلوچ تاریخ کےابتدائی دور کا اگر کوئی عظیم قائد ہے تو وه نہ میر چاکر خان اور نہ ہی میر گواہرام خان بلکہ وه صرف اور صرف میر بیورغ ہی ہے..
(حبیب مینگل: از بلوچستان تاریخ کے آئینے میں، تاریخ بلوچستان)

Комментариев нет:

Отправить комментарий