Powered By Blogger

воскресенье, 9 февраля 2020 г.

پاکستان کی کل اینڈ ڈمپ پالیسی کا تاریخی تسلسل: اسد مینگل اور احمد شاہ کرد کی تکلیف دہ یا دیں

تحریر: ڈاکٹر نصیر دشتی

اکیسویں صدی کے آغاز سے لیکر آج تک بلوچس

تان سے سینکڑوں بلوچ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغوا کئیے جا چکے ہیں- سینکڑوں متاثرین کا اب بھی کوئی پتہ نہیں چلا ہے اور ان کے خاندان کے افراد اپنے پیاروں کے بارے میں کسی بھی خبر کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں- اس عمل کا سب سے افسوسناک پہلو جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی قرار دیا گیا ہے، اس پالیسی کے تحت سیکیورٹی ایجنسیاں اکثر لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ویران علاقوں میں پھینک دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے دور میں شروع کی جانے والی ‘کل اینڈ ڈمپ’ پالیسی مختلف نام نہاد سویلین حکومتوں کے تحت آج بھی جاری ہے۔ اس پالیسی کی عملدرآمد میں بلوچ کارکنوں کو ماروائے عدالت اغوا کرنا اور انہیں غیر معینہ مدت کے لئے غیر قانونی حراست میں رکھنا شامل ہیں، اس دوران ان پر تشدد اور تفتیش کیا جاتا ہے، اور قتل کر دیے جانے کے بعد ان کی لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر واقعات میں، ان لاشوں کے جسمات پر وحشیانہ تشدد اور مسخ کئیے جانے کے نشانات پائے جاتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2012 میں جاری بریفنگ میں کہا گیا ہے کہ،

“ہماری اپنی تحقیق کے مطابق کم از کم 249 بلوچ کارکنان ، اساتذہ ، صحافی اور وکلا 24 اکتوبر 2010 اور 10 ستمبر 2011 کے درمیان غائب ہوچکے ہیں یا ان کا قتل کردیا گیا ہے، ان میں سے اکثر نام نہاد ‘کل اینڈ ڈمپ’ کی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں”-

‘کل اینڈ ڈمپ’ سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اپنائی گئی ایک حکمت عملی ہے اور اسے ایک منظم طریقے سے بلوچ معاشرے کی کریم کو جسمانی طور پر مٹا دینے کی کوشش کے تحت میں عمل میں لایا جارہا ہے۔ ریاستی سیکیورٹی اداروں کے زیردست بلوچستان کے مختلف علاقوں میں معاشرہ مخالف اور انتہا پسند مذہبی عناصر پر مشتمل افراد کو بلوچ نیشنلسٹ کارکنوں کی شناخت ، اغوا اور لاشوں کو پھینکنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ عناصر بلوچستان میں فوج کے ’ڈیتھ اسکواڈز‘ کے نام سے مشہور ہیں۔

اگرچہ اکیسویں صدی کی شروع کے دو دہائیوں کے دوران اس رجحان کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، لیکن بلوچستان میں قتل و غارت گری کی پالیسی کی کہانی کی کڑی کئی سال پہلے 1970 کی عشرے سے شروع ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے ایک نمایاں شکار بلوچستان کے پہلے منتخب وزیر اعلی سردار عطاء اللہ مینگل کے بڑے صاحبزادہ تھے۔ بزرگ بلوچ رہنماء جب دیگر بلوچ اور پختون رہنماؤں اور نیشنل عوامی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ حیدرآباد جیل میں قید تھے اور مشہور زمانہ حیدرآباد سازشی مقدمے میں غداری کے الزامات پر مقدمات کا سامنا کر رہے تھے تب ان کے بیٹے اسد مینگل بلوچستان میں فوجی آپریشن کے خلاف سیاسی ہم آہنگی کی فروغ میں متحرک تھے- سکیورٹی ایجنسیوں کا خیال تھا کہ وہ نہ صرف وسطی بلوچستان کو سیاسی حوالے سے متحرک کر رہے ہیں بلکہ وسطی بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کے متحرک کرنے میں بھی سرگرم ہیں۔

اسد مینگل اور ان کے دوست احمد شاہ کرد 6 فروری 1976 کو روح زمین سے غائب کر دیے گئے- حکام نے ان کی گمشدگی میں اپنا کردار تسلیم کرنے سے انکار کردیا- تاہم ، ان کے دوست اور خاندان کے افراد جانتے تھے کہ انہیں انٹیلیجنس ایجنسیوں سے وابستہ اہلکاروں نے اٹھایا ہے- کراچی میں محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب انکی گاڑی پر گھات لگائے افراد نے حملہ کیا تھا- عینی شاہدین اور علاقہ مکینوں نے گولیوں کی آوازیں بھی سنی تھیں- ان کا خون پوری گاڑی میں پھیلا ہوا تھا، لیکن ان کی لاشیں کبھی نہیں ملیں- ان کی گمشدگی کے وقت یہ افواہیں پھیلی تھیں کہ انہیں موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا تھا اور انکی لاشیں غائب کر دی گئی تھیں- تاہم دوسروں کا خیال ہے کہ انھیں بعد میں فوج کے ہاتھوں ایک حراستی مرکز میں ہلاک کیا گیا تھا- انکے اہل خانہ اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انہیں قانون کی عدالت میں پیش کرنے کے مطالبے کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی- فوج اتنی طاقتور تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان بھٹو کو بھی اسد اور اس کے دوست کی گمشدگی کی اصل کہانی نہیں بتائی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو جنہوں نے اس سے قبل مینگل کی حکومت کو برطرف کردیا تھا، سابق وزیراعلی بلوچستان کی صورتحال کو لیکر کافی پریشان تھے لیکن ان کے آرمی چیف ، جنرل ضیا نے انہیں اس معاملے پر خاموش رہنے کی تنبیہ کی تھی۔ بھٹو کی اپنے جنرل کے حکم کے خلاف عمل کرنے کی ہمت نہیں ہوئی-

انیس سو ستتر میں فوج کے ہاتھوں بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ، فوجی حکومت نے بلوچ رہنماؤں کو رہا کر دیا- تاہم اسد اور اس کے دوست کے پتہ کا اب بھی کسی کو کوئی علم نہیں ہے- ایک پاکستانی صحافی حامد میر جن کے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے قریبی تعلقات ہیں ان کے مطابق، جنرل ٹکا خان نے جو جنرل ضیاء کی تقرری سے قبل آرمی چیف تھے انہیں بتایا تھا کہ اسد مینگل اور اس کے دوست کو فوج نے 1976 میں کراچی میں میر بلخ شیر مزاری کے گھر سے اٹھایا تھا اور ٹھٹھہ کے قریب کہیں قتل کئیے جانے کے بعد وہاں انہیں جلدی سے دفن کردیا تھا- 20 فروری ، 2012 کو ، انٹر سروسز انٹلیجنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ایک سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل حمید گل نے ایک ٹیلی ویژن ٹاک شو کے دوران اعتراف کیا تھا کہ سردار عطاء اللہ مینگل کا بیٹا اسد مینگل ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک تفتیشی مرکز میں مارا گیا تھا-

اسد مینگل اور ان کے دوست کی گمشدگی کے 50 سال بعد بھی سیکڑوں بلوچ سیاسی ، سماجی اور قبائلی شخصیات غائب کئیے جا چکے ہیں اور متاثرہ خاندانوں کو انکے پتہ کا کوئی علم نہیں ہے- ان میں سے چند خوش قسمت تھے کہ کچھ ویران جگہوں پر انہیں اپنے پیاروں کی لاشیں ملیں البتہ انکی اکثریت اب بھی اپنے پیاروں کے حال کے بارے میں کچھ سننے کے منتظر ہیں- سیکیورٹی فورسز کو دی جانے والی استثنیٰ اور بین الاقوامی انسان دوست تنظیموں کی پاکستان کے امور میں عدم دلچسپی کی وجہ سے قتل و غارت گری کی پالیسی سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو انصاف کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اسد مینگل بلوچستان میں “کل اینڈ ڈمپ” پالیسی کے پہلے شکار تھے- ان کے 90 سال کے والد سردار عطاء اللہ مینگل، ان کے چھوٹے بھائی جاوید مینگل اور اختر مینگل، انکے اہل خانہ اور سیاسی دوستوں کو شاید اسد مینگل کی باقیات سے متعلق کبھی بھی کوئی خبر موصول نہ ہو- شاید انہیں کبھی بھی پتہ نہ چل سکے کہ اسد اور اسکے دوست کے ساتھ درحقیقت کیا ہوا تھا، اور شاید یہی اس افسوس ناک واقعہ کی سب سے تکلیف دہ پہلو ہے۔


Комментариев нет:

Отправить комментарий