Powered By Blogger

пятница, 30 июня 2017 г.


انتہائی غور طلب
ترتیب: سردرو بلوچ
بلوچ جہد آزادی کا مشعل تمام تر مشکلات و کمزوریوں کے باوجود اگر آج تک روشن ہے تو اس کی روشنائی ان دلیر اور مخلص بلوچوں کی قربانیوں کی بدولت ہے جنہوں نے اپنے لہو کو قوم و سرزمین کی آزادی کےلئے پانی کی طرح بہایا۔
جہاں اس سرزمین کے آزادی کے لیئے ہر شہید کی قربانی کے پیچھے ان کے قیمتی کارناموں اور انمول کردار کی ایک اعظیم تاریخ ہے تو وہاں ایسے خاندانوں کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے ایک کے بعد ایک اپنے جگر گوشے تحریک پر قربان کئے اور اف تک نہیں کی محمد خان لانگو جس نے مجید اول کے بعد شھید امیر بخش و مجید ثانی کو قربانیوں کا مثال بنایا حاجی رمضان زہری نے جواں سال مجید کے زندگی کے بدلے اپنے اور حئی عرف نثار کی موت کو قبول کرکے تحریک پر اپنی دنیا اور خاندان وار دی اسطرح شھید رفیق شہسوار کے خاندان نے ایک کے بعد ایک قیمتی جوانیاں تحریک پر قربان کرکے یہ پیغام دیا کہ آزادی سے بڑھکر کچھ بھی نہیں واجہ اختر ندیم کا خاندان ہو یا واجہ ڈاکٹر اللہ نذر کا ہر ایک نے وقت آنے پر ثابت کردیا کہ یہ لہو اور سانسیں یہ خوبصورت جوانیاں یہ بز و بالا بالاد وطن اور قوم کی امانت ہیں دشمن کے سامنے لہو بہہ سکتا ہے مگر بک نہیں سکتا آنکھیں نکل سکتی ہیں مگر جھک نہیں سکتے یہ گرم سانسیں اور جسم سر مٹی پر گر کر مٹی میں مل سکتا ہے مگر دشمن کے قدموں پر گرنا ممکن نہیں ۔ بلوچوں کے ایسے خاندانوں کے بیچ ایک ایسا خاندان بھی ہے جس سے شاید قوم کی اکثریت واقف نہیں جو دشمن کے ناروا بربریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا اور اپنے گھر کے چراغ ایک ایک کرکے طوفان کے نذر کرکے تحریک کے راہ کو روشن رکھا ایک کے بعد ایک فرزند قربان کرتے ہوئے انکے قدم کبھی بھی نہیں لڑکھڑائے دس نوجوانوں کو قربان کرنے کے بعد بھی انکار عزم و ہمت حوصلہ دیدنی ہے ۔
اس گم نام خاندان کی قربانیوں کی داستان اتنی اعظیم ہے کہ جسے الفاظ میں بیان کرنا کم از کم میرے لیے مشکل ہے میں ایک سرسری سا تعارف پڑھنے والوں کےلئے پیش کررہا ہوں تاکہ وہ جان سکیں کہ وطن کے محافظ اور سچے فرزند تاریخ عالم میں دیگر اقوام کے سامنے قومی ناموس و غیرت کو لیکر زندہ و تابندہ ہیں یہ جو بزدلوں اور قوم فروشوں کی تشہیر دشمن جس انداز میں کررہی ہے ان سب وطن فروشوں اور غداروں کے سامنے ایسے ایک خاندان کی عظمت اتنی عظیم جیسے کوہ چلتن کے بلندی و عظمت کے سامنے ایک خنزیر کی اوقات ۔
یہ خاندان مری قبیلے کے شیرانی شاخ سے تعلق رکھتا ہے اور انکے سربراہ کا نام ہے احمد خان ۔اس خاندان کا شمار انگیزی یلغار میں کمبد کی جنگ سے لیکر پاکستان کے پنجابی فوجی قبضہ گریت کے خلاف ہونے والی ہرجنگ میں ہوتا رہا ہے اور ہر جنگ میں انہوں نے اپنا قومی فریضہ نبھایا ہے شہید احمد خان نے خود بھٹو کے دور حکومت میں پنجابی فوجی جارحیت کے خلاف مزاحمتی جنگ میں حصہ لیا اور اسکا خاندان فوجی بربریت کا شکار رہا اور بحالت مجبوری انکو افغانستان ہجرت کرنا پڑا اور نواب خیربخش مری بابو جنرل شیرومری اور ہزار خان بجارانی کی قیادت میں کئی سال جلا وطنی میں گذارے وطن واپسی پر بیروزگاری اور تنگ دستی کے وجہ سے لسبیلہ اوتھل اور وندر کا رخ کیا لیکن جب دوبارہ سے تحریک نے نواب خیربخش مری اور واجہ حیربیارمری کی قیادت میں سراٹھایا اور تاریخ اپنے آپ کو دوہرانے لگا تو شہید احمدخان اپنے جوانسال بیٹوں اور خاندان کے ساتھ اپنے ابا و اجداد کی تاریخی کردار کی پاسداری کرتے ہوئے اس تسلسل کو پھر سے جاری و ساری رکھنے کےلئے پوری خاندان سمیت وطن کی پاسبانی کے لئے حاضر ہوا ۔اس کے تمام بیٹے اور بھتیجے کوہ ہستان مری کے ہر مختلف گوریلا کیمپوں میں اپنا فریضہ نبھاتے رہے گھر میں موجود عورتیں بچے بوڑھے حب چوکی وندر اور لسبیلہ میں دوسروں کی زمینوں پر مزدوری کرکے گذر بسرکرتے رہے اس خاندان کے نوجوانوں نے ان علاقوں میں بھی کہیں شہری حملے کر کے دشمن کے مفادات پر ضرب لگاتے رہے۔
2010 کا سال تھا جب پاکستانی خفیہ اداروں نے اپنے زرخرید مخبروں کے ذریعے ان کا سراخ لگایا اور شہید احمد خان کے بیٹے صحبت خان اور ان کے بھتیجے عرضی خان کو حب چوکی کے بازار سے اغواء کیا اور تقریبا 3 مہینے بعد صحبت خان کو شہید کر کے اس کی لاش شہید شادی خان مری کی لاش کے ساتھ کوئٹہ سے کچھ ہی فاصلے پر ڈگاری کراس پر پھینک دیا اور اس کے ایک مہینے بعد 2010 کے آخری مہینوں میں شہید عرضی خان کی لاش اوتھل سے ملی۔
مگر اس خاندان کو چونکہ اس قربانیوں کی اہمیت کا اندازہ بخوبی تھا اس سے ان کے حوصلے پست ہونے کے بجائے اور بڑھ گئے اور انھوں نے اپنے اس قومی فرض کو ایمانداری سے نبانے کی ٹھان لی۔اور کوہستان مری کے کیمپوں اور حب چوکی میں ان کے نوجوانوں نے سرکار پر کئے کامیاب حملے کیئے۔
چونکہ اندر کے بد خواہ اور قریبی مخبروں کے نگاہیں اس خاندان کا پیچھا کررہے تھے اسلئے ان لوگوں نے لسبیلہ سے اندرون سندھ ہجرت کا سوچا اور رات کے اندھیرے میں م حب چوکی سے سندھ کی طرف نکل گئے مگر بدقسمتی سے گھر کا بیدی لنکا ڈھائے نوری آباد کے قریب دشمن نے مزدہ ٹرک والوں کی بھیس میں انکو آگھیرا 2011 کے شروعات میں خفیہ اداروں نے اس ہجرت کے دوران شہید احمد خان ان کے 3 بیٹے اور 4 بھتیجوں کو اغواء کیا یعنی شہید احمد خان سمیت 8 فرزند خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوئے اور ایک مہینے بعد شہید احمد خان کی مسخ شدہ لاش شہید طارق کی لاش سمیت اوتھل میں پھینکا جب یہ لاشیں کراچی پہنچائے گئے تو پتہ چلا کہ لاشوں پر تیزاب بھی پھینکا گیا ہےاور ایک مہینے بعد شہید وزیر خان جو شہید احمد خان کا بھتیجا تھا اس کی لاش ایک اور شہید نصیب اللہ مری کی لاش سمیت لورالائی سے ملی اور لاشوں کی حالت ناقابل شناخت تھی اور چونکہ ان کے بھائی اس وقت تک خفیہ اداروں کی تحویل میں تھے انھوں نے یہ انکشاف کیا کہ ایک رات قبل شہید وزیر خان اور پہلے سے تحویل میں لیئے ہوئے شہید نصیب اللہ کو خفیہ اداروں کے اہلکار ہمارے پاس سے لے گئے اسی شہادت کی بنیاد پر ان کے خاندان والوں نے لورالائی سے ملنے والی لاش کو شہید وزیر کی لاش تصور کر لیا اور کویٹہ میں شہید احمد خان کے قبر کے ساتھ ہی شہید وزیر خان کو دفنایا گیا۔
اور تقریبا 1 مہینے بعد شہید احمد خان کے بیٹے شہید شربت خان اور بھتیجے شہید زمان خان کی لاش اوتھل سے ملی اور قابل شناخت تھی انھیں بھی کوئٹہ میں شہدا قبرستان میں دفنایا گیا۔
اور شہید احمد خان سمیت آٹھ فرزندوں میں سے 4 کو شہید کیا گیا اور ان کے دو بیٹے رحمدل اور رسول بخش اور دو بھتیجوں کو چھوڑ دیا گیا۔
ان لاشوں کی بھرمار نے اس خاندان کے نوجوانوں کو تحریک آزادی سے دور کرنے کے بجائے اور زیادہ حوصلہ بخشا اور انھوں نے اپنے نوجوانوں کو کیمپوں اور شہروں میں کاروائیوں کے لئے پہلے سے زیادہ جذبہ سے سرشار بھیجتے رہے۔
2015 میں شہید احمد خان کے دو بھتیجے شہید صورت خان عرف منشی کو اس کے بھائی سمیت حب چوکی سے اغواء کیا 9 مہینے بعد 2016 میں شہید صورت خان عرف منشی جو کہ حب چوکی میں گروپ کمانڈ کر رہا تھا کی لاش کراچی سے ملی اور اسے حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے وہیں کراچی میں دفنایا گیا۔
یہ سلسلہ یہی نہیں رکھا اور اس خاندان کے نوجوانوں نے قربانیوں کی چونکہ تاریخ رقم کرنے کی ٹھان لی تھی۔2016 کے نومبر کے مہینے میں ایک کاروائی کے بعد شہید احمد خان کے بیٹے جس کو پہلے بھی خفیہ اداروں نے اغواء کے بعد چھوڑ دیا تھا اپنے دو چچازاد کے ساتھ حب چوکی کے پہاڑی سلسلے کی طرف جا رہے تھے راستے میں پہلے سے گھات لگائے دشمن نے ان پر حملہ کردیا گرفتاری کی کوشش کی لیکن مزاحمت جنکے خون میں شامل ہو وہ کیا سر جھکائنگے دو بدو شدید جھڑپ کے بعد تینوں فرزند شہید ہو گئے اور دشمن کو بھی شدید نقصان سے دوچار کیا اور اسی حواس باختگی میں قبضہ گیر فوج نے شہید احمد خان کے جوان سال بیٹے شہید رسول بخش اور دو بھتیجے شہید رزاق اور شہید زبیر خان کی لاشوں کو دینے سے انکار کر دیا اور یہ شرط رکھا کہ لاشیں اس وقت ملیں گی جب اس خاندان کے باقی ماندہ لوگ سرینڈر کرینگے۔۔
لیکن پڑھنے والوں کو یہ بتاتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہورہا ہے کہ ان حیرت انگیز قربانیوں کی داستان مجھے قلم بند کرانے والا شھید احمد خان کے جوان سال بیٹے ہیں جنکے پشت پر یتیموں اور بیواہوں کی ایک فوج ہے مگر انکے جذبے اور حوصلے دیکر چلتن اور زرغون شرما جاتے ہیں
اس جواں سال سربراہ کےحوصلوں اور جذبہ حب الوطنی کا اندازہ اس بات سے لگائیں تو اس نوجوان کا جواب تھا "ان شہیدوں نے اپنی زندگی میں ایسا نہیں کیا تو میں کون ہوتا ہوں ان کی شہادت کو ضائع کرنے والا اگر میں ان کا حقیقی سپوت ہوں تو میں اور میرا باقی ماندہ خاندان بھی اسی سلسلے کو برقرار رکھیں گے"۔

четверг, 29 июня 2017 г.

A Message by Shaheed Suleman aka Shehak Baloch


On June 30th 2015, Pakistani Army attacked Mehi village in Mashkay, some 400km from Quetta, the hometown of Balochistan Liberation Front (BLF) supreme commander Dr. Allah Nazar Baloch. Army began aerial shelling and spraying bullets with helicopter gunships on the village and nearby mountains and then ground troops moved in breaking into civilian houses. In that carnage totally 11 people were brutally massacred including Dr. Allah Nazar’s elder brother Safar Khan and two of his nephews Suleman aka Shehak and Zakir Baloch.
Suleman was a commander of BLF. The family was gathered there for the funeral of Suleman’s father who passed away on June 29. Among the martyred only four were members of BLF and rest were non combatant civilians.
CJo5IIKUcAAk7O5
Here are two EXCLUSIVE video clips recorded moments before Shaheed Shehak Jan’s martyrdom where he speaks his last word for his friends, family and nation.
WARNING! This Video Contains Gruesomely Graphic Images Viewer Discretion Strongly Advised
Shaheed Shehak Jan’s Message to his Sangats
My Sangats, I have been shot. If I get martyred, fight with the enemy is going on. Freedom for Balochistan is our aim. All the sacrifices that our Sangats have made, they are still sacrificing; for the sake of their sacrifices I urge the leadership and all that don’t do anything that might harm our organization causing the struggle to stop. In order to strengthen the struggle and foil all the tactics of the enemy, every Sangat must struggle. I may not have much strength left to speak… Perhaps I am short of time.
Long Live Balochistan.
Long Live BLF.
Long Live Free Balochistan.
Salaam Alek!
Shaheed Shehak Jan’s Message to His Family
O mother, don’t be sad at all, I am not dying a coward’s death. If I die, I will be dying like aman. My children, be proud of me that I have fought for my nation. (The ones at the hill top are shooting? They are shooting at a higher trajectory). We have fought and luckily I am shot at the front (of my body). My mother, don’t be sad at all. My sisters, don’t be sad at all. I have sacrificed for a good cause. I have not done anything wrong that you would ever be ashamed of among the folks. Salaam Alek!
Right after recording this message Shehak Jan gave all of his belongings and bullets to his Sangats. He said: these bullets are enough. I am already hit and may not last long. I will kill at least two of enemy soldiers and then shoot myself. I will not let them take me alive.
After the Mehi carnage Pakistani Army tied the dead bodies of martyred Baloch to their military trucks and dragged them for miles. Most of them are mutilated beyond recognition.

вторник, 20 июня 2017 г.

شہید نورامینگل برصخیر میں انگریز سامراج کے خلاف بلوچ گوریلون کی لڑائیوں کی بھت سے داستانین ھیں ، ان میں جھالاوان کے بلوچ گوریلے نورا مینگل کی داستان بھی ایک اھم داستان ھے

جھالاوان کے بلوچ گوریلے نورا مینگل کی داستان بھی ایک اھم داستان ھے۔۔8 مارچ1916کو سردار نورالدین مینگل ،شہبازخان گرگناڑی ،نورا مینگل و سردار رسول بخش ساسولی اپنے دیگر کئی ساتھیوں کے ہمراہ زیدی میں پیر کمال شاہ کے مزار پر جمع ہوکر ایک عہدنامہ تحریر کر کے حلف اُٹھا ئے کہ جب تک دم میں دم ہے قبضہ گیرکے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔ان کا یہ عہد نامہ آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے۔سردار نورالدین مینگل اور شہباز خان گرگناڑی اسلحہ وغیرہ حاصل کرنے کیلئے ایرانی بلوچستان چلے گئے۔جبکہ غازی رسول بخش ساسولی ، غازی نورا مینگل ،میر خان محمد گرگناڑی ، غازی سلیمان گرگناڑی ، گہرام مینگل ، لالو مینگل اور دیگر ساتھی مزاحمت جاری رکھے۔ لاڑکانہ ، دادو اور شکار پور کے علاقہ میں انگریز فوج کے خلاف چھاپہ مار کاروائیاں کرتے رہے جس کی وجہ سے علاقہ میں بے چینی بڑھتی گئی۔12اپریل1916ء کو نورا مینگل ، خان محمد گرگناڑی ، لالو مینگل اور ان کے ساتھیوں نے لاکھوریان کے قریب ڈاک کو چھین لیا۔
سوراب کے قلعہ پر قبضہ کرنے والے تھے کہ حکومتی اہلکاروں کو تازہ کمک پہنچا کر قلعہ کو قبضہ ہونے سے بچالیا۔ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ نے ولی محمد کے بیٹے میر رحیم خان مینگل و میر علم خان مینگل کو خضدار بلوایا، انہیں نورا مینگل اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کاحکم دیامگر انہوں نے نورا مینگل کو گرفتار کرنے سے معذوری ظاہر کی ۔ نورا مینگل دہشت اور خوف کی علامت بن چکے تھے۔ انگریز مجبور ہو کر نورا مینگل اور اس کے ساتھیوں کے خلاف خود جنگ کے لئے میدان میں اتر آیا۔ایک لشکر میر رسول بخش ساسولی کی گرفتاری کیلئے زیدی روانہ ہوا۔نورا مینگل اس وقت اپنے اکیس ساتھیوں کے ہمراہ مشہور پہاڑی سلسلہ کوہ پھب میں موجود تھا۔اچانک اُنہیں معلوم ہوا کہ انگریز لشکر میر رسول بخش ساسولی کی گرفتاری کیلئے زیدی روانہ ہوا ہے تو وہ راتوں رات میر رسول بخش ساسولی کی مدد کیلئے زیدی روانہ ہوئے، ابھی وہ گاج کے علاقے پہنچے تھے کہ اُنہیں معلوم ہوا کہ فوج زیدی نہیں بلکہ وڈھ کا رُخ کیا ہوا ہے۔
 اُ نہوں نے اسے ایک جنگی چال سمجھا ۔ فوراً اُلٹے پائوں واپس خود کو وڈھ پہنچادیئے ۔برسات کا موسم تھا آفتاب غروب ہوچکا تھا، وقفے وقفے سے بارش برس رہی تھی۔مگر یہ شیر جواں 50میل کا فاصلہ دوبارہ طے کرکے صبح صادق کو برستی بارش میں واپس کوہ پھب پہنچ گئے۔کپتان ہینڈرسن رات کے اندھیرے میں گہرام مینگل جو کہ نورا مینگل کے چچا زاد بھائی تھے کے گائوں اور گھر کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ گہرام ،لالو اور حسین خان اور ان کے ساتھی اپنے اپنے گھروں میں موجود تھے۔ صبح ہوئی تو وہ خود کو انگریز فوج کے گھیرے میں پائے۔
انگریز نے لیویز سپاہئیوں کے ذریعے انہیں پیغام بھیجا کہ تلوار پھینک کر سلام کرو اور ہمارے ساتھ لڑائی کرنے سے باز آجائو۔ تو اُنہوں نے جوش شہادت سے سر شار ہوکر تلوار پھینکنے کے بجائے ننگی تلوار لیکر میدان میں نکلے۔گہرام خان مینگل جب تلوار لیکر انگریز فوج کی طرف حملہ آور ہوا تو حسین خان گمشادزئی نے اُسے پیچھے سے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر روکے رکھا اور کہا کہ آج دیکھنا کہ آپ سے پہلے میرے بھائی اور بیٹے کس طرح لڑکر جام شہادت نوش کرتے ہیںاور ہوا بھی اسی طرح حسین خان گمشادزئی کے بھائی اور بیٹے ایک ایک کر کے انگریز سے لڑکر جام شہادت نوش کر گئے۔
آخر میں حسین خان گمشادزئی گہرام مینگل کو پیچھے پھینک کر خود لڑنے کفار پر حملہ آور ہو ا اور شہادت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔اب گہرام مینگل کی باری تھی۔ گہرام مینگل ننگی تلوار لیکر انگریز کمانڈر پر حملہ آور ہورہا تھا تو انگریز کمانڈر کے ہاتھ میں پستول تھی اس پستول سے وہ گہرام مینگل کو سات گولیاں مار چکا تھاجوکہ اس کے پیٹ میں لگے تھے جس کی وجہ سے اس کی انتڑیاں نکل کر باہر آچکے تھے اور دشمن پر حملہ کرنے میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ انہیں اپنے آزار بند کے ساتھ باندھ کر دشمن پر حملہ آور ہوئے اور آٹھویں گولی سے پہلے اپنے مدمقابل کا سر قلم کرکے شہادت جیسے عظیم درجے پر فائز ہوکر ہمیشہ کے لئے امر ہوئے۔اس معرکہ میں گہرام مینگل اور حسین خان گمشادزئی کے علاوہ کل 33جوان جام شہادت نوش کئے ۔
 جب گائوں کے تمام لوگ (مرد) شہید ہوئے تو فوج نے پورے گائوں کو لوٹ کر شہداء کو ایک بھوسے کے گودام (کوم)میں پھینک کر اوپر مٹی ڈال دی۔
 انگریز ی فوج گہرام مینگل اور اس کے ساتھیوں کو شہید کرکے ان کے گائوں اور گھروں کو تخت و تاراج کرنے کے بعد پہاڑوں کے دامن میں واقع گائوں کارُخ کردیا۔اوروہاں پر بھی لوٹ مار کر کے واپس وڈھ کی جانب جا رہے تھے کہ نورا مینگل ان کے راستے میں آکر ان سے اپنے نہتے شہداء کا وہ بدلہ لیا کہ فرنگی انگشت بدنداں ہوئی اور تاریخ میں ایسا بدلہ شاید کسی نے لی ہو ۔ نورا مینگل راستے میں ایک پہاڑی کے دامن میں تاک میں سات(7) ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر فوج کے آنے کا انتظار کر رہے تھے جبکہ باقی کے چودہ(14)ساتھیوں کو دیگر چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی طرف بھیج دیئے۔ رائفل صرف نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی کے پاس تھے باقی ساتھیوں کے پاس مقامی روائیتی ڈھاڈری بندوق (رُغدار)تھے۔ان میں سے پانچ ساتھیوں کے پاس صرف تلواریں تھیں۔ پلٹن جوں جوں قریب آتا گیا
 نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی نے فوج پر فائرنگ شروع کردی فوجی جوں ہی فائرنگ کی آواز سنے تو فوراًزمین پر لیٹ گئے ۔ وہاں ایک خشک ندی اور ساتھ میں پر پُک کے درخت موجود تھے ان میں وہ چھپ گئے۔نورا مینگل کے پانچ ساتھی جو صرف تلواروں سے لیس تھے جوش میں آکر تلواریں ننگی کر کے ان پر حملہ آور ہوئے اُنہیں دیکھ کر باقی چودہ ساتھی جن کے رُغدار ناکام ہوئے تھے وہ بھی اپنی اپنی تلواریں میان سے نکال کر فرنگیوں پر حملہ آور ہوئے۔ابھی تک وہ دشمن تک نہیں پہنچے تھے کہ دشمن کے گولیوں کا نشانہ بن کر جنت الفردوس سدھار گئے، جو اُن کی آخری خواہش تھی انہی میں سے ایک مجاہد اپنے تلوار کے ساتھ قریب تھا کہ ہینڈرسن کا سر قلم کرتاہنڈرسن یہ دیکھ کر اُٹھ بیٹھا اور پستول نکال کر اُسے بھی شہادت کی راہ دکھائی۔ ا ب صرف نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی رہ گئے تھے۔ اسی دوران ہنڈرسن کا سینہ نورا مینگل کے سامنے تھا کہ موقع پاکر نورا مینگل نے اس کے سینے میں گولی پیوست کر کے جہنم واصل کردیا۔کپتان پار گیڈ گھٹنوں کے بل رینگ کر ہنڈر سن کے لاش تک پہنچ گیا اور پائوں سے پکڑ کر لے جانے والے تھا کہ نورا مینگل کی دوسری گولی نے پارگیڈ کے پیشانی میں پیوست ہو کر اسکا کا تمام کردیا۔
 یہ دیکھ کر لیفٹیننٹ کلینیکل اُٹھا تو نورا مینگل کی تیسری گولی نے اُس کی ٹوپی اُڑادی مگر وہ بد بخت بچ نکلا۔ آفیسران کے مردار ہونے کے بعد باقی فوج میں بھگدڑ مچ گئی ان کی ترتیب ٹوٹ گئی، ہر کوئی جس طرف منہ تھا بھاگنے لگے جس سے نورا مینگل اور خان محمد گرگناڑی کو بہترین موقع ملا اور اُنہوں نے ایسا تابڑ توڑ حملہ کیا کہ ہر گولی سے ایک ایک سپاہی زمین پر گررہا تھا ۔زمین پر خون کی ندیاں بہنے لگیں ، کئی کئی لاشیں زمین پر پڑی ایڑیاں رگڑ رہے تھے ۔ اب پلٹن واپس ہوئی۔ رسالہ حملہ آور ہوا حملہ کے دوران رسالہ کا جمعدار سب سے آگے تھا ۔ خان محمد گرگناڑی کی گولی نے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے پیچھے دوسرا سوار آرہا تھا اس کا کام نورا مینگل کی گولی نے تمام کردیا۔ یہیں سے رسالہ دو حصوں میں تقسیم ہوا اور ان سے گزرتا ہوا دور ہوگیا اور تیزی سے ان سے اوجھل ہوگیا۔اسی دوران کرنل ڈیوڈ (ڈیہو) وہیر میں آچکا تھا لیفٹیننٹ کلینیکل نے اُسے دودکی معرکے کی داستان سنائی کہ اس جنگ میں دو (2)کپتانوں کے علاوہ رسالہ جمعدار اور کئی سپائی مارے گئے ہیں (اندازاً 100 سے زائد سپائی مارے گئے تھے ۔کیونکہ نورا مینگل کے بقول جو بعد میں انہوں نے لوگوں کو بتایاتھا کہ میں نے 90 گولیاں برسائے تھے جن میں سے صرف 2 یا 3 گھوڑوں اور خچروں کو لگے باقی انگریز سپاہیئوں کے جسموں میں پیوست ہوئے) خان محمد گرگناڑی کی گولیاں الگ کامیابیاں سمیٹے تھے۔
لیفٹیننٹ کلینیکل نے یہ بھی کہا کہ نورا مینگل کے 333 ساتھی بھی مارے گئے ہیں، جو سارے کے سارے نہتے تھے جن کے پاس صرف تلواریں تھیں۔اگر یہ سارے نورا مینگل کی طرح پُر سلاح ہوتے تو فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ بچ کر واپس نہیں آسکتا۔کرنل ڈیہو یہ سن کر انتہائی رنجیدہ ہوا اور آگ بگولہ ہو کر سیدھا وڈھ پہنچ گیا ۔یہاں ولی محمد مینگل ، جمعہ خان شاہیزئی اور دیگر معتبرین کو بلوایا اوراُنہیں گرفتار کیا (مگر کچھ عرصہ بعد یقین دہانیوں کے بعد اُنہیں رہا کر دیا گیا) اب کرنل ڈیہو خود نورا مینگل کی گرفتاری کیلئے نکل گیا۔وڈھ ، مولہ، گاج گولاچی، سارونہ، نال ، گریشہ، مشکے ہر جگہ ڈھونڈتا رہا مگر نورا مینگل تھا کہ ہاتھ نہیں آرہاتھا۔ نورا مینگل کی یہ خاصیت تھی کہ وہ دراز قد انتہائی چست ، پیدل جانے میں انتہائی ماہر، الٹے ہاتھ کا انتہائی کامیاب نشانہ باز (ٹِک تیر توپچی) جنگ کے دوران طنز و مزاج اور ہنس مکھ، عام حالت میں انتہائی خاموش طبع انسان تھا۔ روایات سے معلوم ہوا ہے کہ اکثر جنگ کے دوران نظروں سے اوجھل ہوتاتھا
 انگریز سرکار نے اپنی ایڑی چوٹی کا ذور لگایا مگر نورا مینگل کو گرفتار نہ کر سکا۔آخر میں جبب بے سر و سامانی کی حالت ہوئی، ساتھی ایک ایک ہو کر گرفتار ہو گئے پھر بھی نورا مینگل ہتھیارپھینک کر سلام کرنے کو اسلامی روایات اور بلوچی روایات کے بر خلاف سمجھا۔ جب پھب پہاڑ میں تھا تو بے سر و سامانی اور بندوق زیادہ استعمال ہونے سے خراب ہوگیا تو یہ سوچ کر کوئی وفادار ساتھی ملے جو اسے اسکا بندوق (رائفل) ٹھیک کر کے دے۔یہ سوچ کر اس نے خاران کے والی نواب حبیب اللہ نوشیروانی کا انتخاب کیا کیونکہ نواب حبیب اللہ کے والد ان کے بچپن میں مارا گیا اور اس کی حکمرانی چھن گئی تھی ، وہ یتیمی کی حالت میں جھالاوان آیا تھا اور یہاں پناہ حاصل کی تھی ۔یہاں کے بلوچوں نے اُسے نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ اس کی مالی مددکرکے اس کی حکمرانی بھی واپس دلا دی تھی ۔نورا مینگل خاران پہنچنے میں کامیاب تو ہو ا مگر نواب حبیب الله نوشروانی نے غداری اور نمک حرامی کا مظاھرہ کرتے ھوئے نورا مینگل کی موجودگی کی خبر کوئٹہ یا نوشکی میں انگریز حکومت کو دے دی اور فوج نے رات کے اندھیرے میں نورا مینگل کو گھیر لیا۔ نورا مینگل نہتے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گرفتار ہو کر کوئٹہ یا کراچی سے کالا پانی biپہنچا دیاگیا اور کئی سالوں کی قید کے دوران ہی شہید ہوئے ان کی جیل ہی میں شہادت کی خبر ان کے ایک رہائی پانے والے ساتھی کی زبانی معلوم ہوئی تھی ۔مگر ان کے مزار سےبلوچ قوم ابھی تک نابلد ہیں
۔