Powered By Blogger

вторник, 27 ноября 2018 г.

مجید بریگیڈ اور ” ٹیٹ اوفینسِو” – برزکوہی

لارنس سیلن امریکن آرمی کا ریزرو ریٹائرڈ آرمی کرنل ہے جس نے اسپیشل فورسز، انفنٹری ‘کیمیکل،اور میڈیکل سروسز میںbranch qualifications اور مختلف assignments کی ہے. اس نے افغانستان اور عراق میں فوجی خدمات سرانجام دی ہیں۔ اسکے علاوہ مغربی افریقہ میں انسانی حقوق کے مختلف missions میں بھی حصہ لیا ہے. سیلن نے امریکن آرمی وار کالج سے تزویراتی مطالعے میں ماسٹرز کی ہے اور defense language institute سے عربی فرینچ اور کردش میں تربیت لی ہے.اسکے علاوہ سیلن نے نیشنل سیکیورٹی پہ متعدد آرٹیکلز بھی لکھی ہیں۔
امریکن سابقہ کرنل لارنس بی ایل اے مجید بریگیڈ کے کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے پر اپنی آراء پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “ایک تو حملہ چھوٹے پیمانے پہ کیا گیا، یہ حملہ ویتنام کے Tet offensiveجیسا ہے. اسکے گہرے تزویراتی اور نفسیاتی اثرات ہونگے، دوسرا وہ اپنے ایک اور تجزیاتی تحریر میں یہ لکھتا ہے کہ یہ حملہ بلوچ قوم نے بطور گیم جینجنگ کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔
Tet Offensive وہ حملے جو ویتنامیوں نے امریکہ کے خلاف ایک ہی دن میں 100 سے زائد مقامات پر بڑے حملے کرکے کئیے جس نے ویتنام جنگ اور ویتنامیوں کی تاریخ بدل دی۔
فرانسیوں کا dien bien phu مقام پر شکست ہو یا امریکیوں کے خلاف tet offensive ہو ویتنامی جنرل گیاپ کی عالمی شہرت اور عظمت کا مقدر بن گئے۔
اٹلی کے شہر فلورنس میں جنم لینے والی خاتون صحافی اور ناولسٹ اوریانا فلاشی جنرل گیاپ کے حوالے سے لکھتے ہیں “یہ وہ شخص تھا جس کا نام ویت نام کی جنگ کے دوران سب سے زیادہ سنائی دیتا تھا اور وہ اس لیئے نہیں کہ یہ شخص ہنوئی میں وزیر دفاع کے عہدے پر فائز تھا یا چیف آف آرمی سٹاف کے طور پر تعنیات تھا یا پھر وزیراعظم کا نائب ہو بلکہ وہ اس واسطے اتنا مشہور تھا کیونکہ اس آدمی نے dien bien phu کے مقام پر فرانسیسیوں کو شکست دی تھی، امریکی ہمیشہ dien bien phu نامی ہولناک خواب کے خوف میں رہتے تھے اور جونہی حالات اس سے بھی بدتر ہونا شروع ہوئے تو انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ یہ گیاپ ہی ہے، جو ایک نیا dien bien phu تخلیق کرنے والا ہے اور اگر اس سے بھی سادہ الفاظ میں کہا جائے تو گیاپ خود اپنے اندر ہی ایک dien bien phu ہے انہوں نے گیاپ سے فروری 1968 میں بات کی تھی، جب ویت کنگ نے tet offensive کی خوفناک شروعات کی تھی، وہ گیاپ کے بارے میں بات کررہے تھے۔ مارچ اور اپریل میں جب شمالی ویت نامیوں نے hue کو فتح کیا گیا تھا اور khe san کا محاصرہ کرلیا تھا، انہوں نے گیاپ کا ذکر مئی اور جون میں کیا، جب ویت کنگ نے saigon اور دوسرے اونچے علاقوں پر دوسرا حملہ کیا تھا۔ وہ سالوں سے گیاپ کا ذکر کرتے چلے آرہے تھے، ایک نام بہت چھوٹا اور خشک گال پر پڑے طمانچے کی طرح، یہ نام سب کے لیئے ایک ہو، ایک ڈراونا خیال بن چکا تھا، بالکل آپ امریکیوں کو ڈراتے ہیں کہ ڈوگی (کتا) آجائے گا بالکل اسی طرح امریکیوں کوڈراتے ہیں کہ گیاپ آرہا ہے۔”
اور مزید اوریانا فلاشی اپنے ایک انٹریو میں جنرل گیاپ سے سوال کرتا ہے کہ “جنرل امریکی یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ تقریباً پانچ لاکھ آدمی گنوا چکے ہیں؟”
گیاب بلکل درست تعداد ۔۔اوریانافلاشی بلکل درست؟
جنرل گیاپ، ہاں بلکل! لیکن تم اس بات پر آو جو میں کہہ رہا تھا، اس کے بعد 1968 شروع ہوتا ہے جس سال میں امریکیوں کو جنگ کی جیت کا مکمل یقین تھا پھر آناً فاناً tet offensive اور لبریشن فرنٹ نے انھیں احساس دلایا کہ وہ ان پر جب چاہیں اور جہاں چاہے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ بشمول saigon اور ایسے دوسرے شہروں کے جو ان کی کڑی نگرانی اور حفاظت میں ہیں۔
آج چین قونصل خانے پر حملہ نفسیاتی حوالے سے ایک ایسا حملہ ہے، چین و پاکستان سمیت دیگر ان کی ہمنوا تمام قوتوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ بلوچ بھی جہاں چاہیں وہاں حملہ آور ہوسکتے ہیں۔
اوریانا فلاشی مزید گیاپ سے سوال کرتے ہوئے، جنرل ہر کوئی اتفاق کرتا ہے کہ tet ofensive ایک عظیم نفسیاتی جیت تھی لیکن ایک فوجی نقطہ نظر سے آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ وہ ناکامی تھی؟ جنرل گیاپ ۔ناکامی؟ اوریانا ۔میں تو ایسا کہوں گی۔ جنرل گیاپ ۔آپ نے مجھے حیران کردیا حالانکہ پوری دنیا عسکری و سیاسی نقطہ نظر سے اس کا اعتراف کرتا ہے۔
میں tet ofensive کے بارے میں بات نہیں کروں گا کیونکہ وہ مجھ پر انحصار نہیں کرتے وہ ہم پر انحصار کرتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہtet ofensive کے بعد امریکیوں نے حملہ کرنے کی حالت کو چھوڑ کر مدافعت کو اختیار کرلیا تھا اور مدافعت ہمیشہ ہار کی پہلی نشانی ہوتی ہے، میں نے کہا ہار کی شروعات ہوتی ہے درحقیقت ہماری حتمی فتح ابھی ظہور میں آنے والی ہے۔
بی ایل اے مجید بریگیڈ کی طرف سے چینی قونصل خانے پر حملہ اس لیے تزویراتی اور نفسیاتی طور پر کامیابی ہے کہ کسی بھی ریاست کے قونصل خانے اور سفارت خانے پر حملہ کرنا تو پورے اس ملک پر حملہ تصور ہوگا۔ دوسری بات اب چین کو یہ بات سمجھنا ہوگا کہ جب کراچی جیسے ہائی الرٹ شہر اور کلفنٹن جیسے سیکورٹی زون میں قونصل خانہ جب محفوظ نہیں ہوسکتا، بلوچ حملہ کرسکتے ہیں پھر گوادر، سیندک یا سینکڑوں کلومیٹر پر مشتمل سی پیک روٹ کیسے اور کس طرح محفوظ ہوگا؟ فوجی و تجارتی رسد و حرکت کس طرح ممکن ہوگا؟ اس نوعیت کے حملے کے بعد نفسیاتی حوالے سے چین پاکستان اور ان کے ہمنواء قوتوں کے ساتھ بلوچ قومی غداروں یعنی صادق و جعفروں کو مکمل اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کے لیئے برسرپیکار بلوچ سرباز اب جدھر بھی، جہاں بھی، جس وقت اور جس کو چاہیں آسانی کے ساتھ ہدف بناسکتے ہیں۔ یہ سوچ، یہ پیغام خود اب دشمنوں کے لیے نفسیاتی شکست اور بلوچ قوم کے لیئے نفسیاتی طور پر جیت ہے۔ یہ نفسیاتی جیت اب بلوچ قوم میں مزید ہمت، حوصلہ اور شعور کو اجاگر کریگی اور بے شمار فدائین وطن پیدا ہونگے۔
اسی بنیاد اور منطق پر امریکی ریٹائرڈ کرنل لارنس کے خیالات سے اتفاق رکھنا ہوگا، جو اپنے جنگی تجربات و مہارت کی بنیادوں پر جنگی نفسیات کی تمام پہلووں کو مدنظر رکھ کر رائے قائم کرچکا ہے۔
اب اس حقیقت سے کوئی جنگی اور نفسیاتی تجربہ کار انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اس حملے کے بعد بلوچ قوم اپنی قومی جنگ، نفسیاتی حوالے سے جیت چکا ہے، مزید اگر قومی تحریک اس نفسیاتی جیت کی موقع سے جنگی، سیاسی حکمت عملی اور ہنر کے ساتھ آگے بڑھ کر اس طرح فائدے اٹھاتا رہے، تو مستقبل قریب کامیابی بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کی اور شکست دشمن کی ہوگی

понедельник, 26 ноября 2018 г.


بی ایل اے سربراہ کا چینی قونصل خانے حملے کےبعد ویڈیو پیغام، مزید حملوں کی دھمکی

بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اور حالیہ دنوں کراچی میں چینی قونصل خانہ حملے کا ماسٹر مائینڈ سمجھے جانے والے اسلم بلوچ نے اپنے جاری کردہ ایک نئے ویڈیو پیغام میں پاکستان، چین اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے والے دوسرے ممالک کو تنبیہہ کی ہے اور مزید شدت کے ساتھ حملوں کی دھمکی دی ہے۔
سوموار کی صبح بلوچ لبریشن آرمی کے میڈیا ادارے کی جانب سے اسلم بلوچ کا ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا، جسے مختلف میڈیا اداروں کو ارسال کیا گیا۔ 8 منٹ اور 33 سیکنڈوں کی اس ویڈیو میں اسلم بلوچ کو پہاڑوں میں دکھایا گیا ہے، جہاں وہ اپنا پیغام اردو زبان میں ریکارڈ کررہے ہیں۔
اسلم بلوچ اپنے پیغام میں کہتا ہے کہ “ہم نے بندوق شوق سے نہیں اٹھایا ہے، ہماری لڑائی مہم جوئی نہیں ہے، ہم بندوق و جنگ کے شوقین نہیں، بہت جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچ کا مزاج ہی جنگجوانہ ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ آج سے ستر سال پہلے جب پاکستان بلوچستان میں داخل ہوا تو انکے ہاتھ میں معاہدات، دستاویزات یا فلاحی منصوبے نہیں تھے، وہ اچھے ہمسائگانہ تعلقات قائم کرنے نہیں آئے تھے۔ جب وہ آئے تو انکے ہاتھوں میں بندوقیں، توپ اور ٹینک تھے۔ وہ ہم پر حملہ آور ہوئے، اس حملے میں انکے پاس چالبازیاں تھے، کچھ غدار تھے، اسکے باوجود مزاحمت ہوا۔ یہ حالات ہم پر مسلط کی گئیں ہیں اور انہی حالات کے تناظر میں ہم پر جنگ مسلط کی گئی۔ جب سامنے والے کے ہاتھ میں بندوق ہو تو پھر آپ پھول نہیں اٹھا سکتے۔ بندوق انہوں نے اٹھایا، ہم محض اپنے سرزمین کا دفاع کررہے ہیں۔ اور ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔”
اپنے پیغام میں وہ مزید کہتے ہیں کہ “یہ سرزمین بلوچوں کی ہے، اسکے وسائل ہمارے ہیں، اس پر فیصلہ کرنے کا حق ہمارا ہے، سازشوں، غداروں، چالبازیوں اور بندوق کے ذریعے کوئی اس سرزمین کو ہم سے نہیں چھین سکتا۔ شاید وہ ہمارے کمزوریوں اور خامیوں کی وجہ سے کچھ لوٹ کر لیجائیں لیکن کوئی اس پر اپنا قبضہ مکمل نہیں کرسکتا، کوئی آرام و اطمینان سے اور مالک بنکر یہاں سے کچھ نہیں لیجاسکتا۔”
حالیہ دنوں پاکستانی نشریاتی اداروں پر تواتر کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ اسلم بلوچ ہندوستان میں ہیں اور ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں، ان باتوں کو اپنے پیغام میں بی ایل اے سربراہ رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “ہمارے خلاف پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ہم افغانستان یا ہندوستان میں بیٹھے ہیں یا کسی بیرونِ ملک کے ایجنٹ ہیں، ہم اس سرزمین کے مالک ہیں، ہم آزاد انسان ہیں، ہم کہیں بھی آ اور جاسکتے ہیں، ہم انکے غلام نہیں، ہم مجرم نہیں کہ وہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے پر سوالات اٹھائیں اور اسے ہمارے خلاف استعمال کریں، جسطرح ہم بندوق اٹھا کر تمہارے خلاف لڑسکتے ہیں، اسی طرح ہم اپنی مرضی سے کہیں بھی اٹھ بیٹھ سکتے ہیں۔ اس وقت میں محاذ پر موجود ہوں، لڑرہا ہوں، اگر میں محاذ پر نہیں ہوتا، انکا مقابلہ نہیں کررہا ہوتا تو یہ اتنا پروپگنڈہ نہیں کررہے ہوتے۔ ہماری جنگ کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں کوئی بیرونی مدد و کمک حاصل نہیں ہے، ہم اپنے بلوچ قومی زور پر لڑرہے ہیں، ہم اپنے قومی طاقت اور محدود وسائل سے اس جنگ کو آہستہ آہستہ آگے لیجارہے ہیں۔”
اپنے پیغام میں اسلم بلوچ یہ اپیل بھی کرتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک سمیت دوسرے اقوام عالم انکی مدد کریں، وہ کہتے ہیں “ہم اپنے ہمسائے ممالک اور اقوام عالم پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کا یہ انسانی فرض بنتا ہے کہ آپ بلوچ قومی کاز میں اپنا حصہ ڈالیں اور آپکے جو اخلاقی فرائض ہیں انسانی حوالے سے وہ ادا کریں۔ آج بلوچوں پر پنجابی ریاست بزورِ بندوق قابض ہے، بلوچوں کی نسل کشی کررہا ہے، قتل عام ہورہا ہے، بلوچوں کے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہیں، اس حالت میں اقوام عالم آگے بڑھیں۔ اور بلوچوں کی ہر طرح سے کمک کریں تاکہ وہ اس قتل عام اور لوٹ مار کو روک سکیں۔”
پیغام میں دوسرے اقوام سے مدد کی اپیل کو اسلم بلوچ اپنا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “آج ایک لوٹ مار کیلئے جسکا پنجابی ریاست پاکستان کو کوئی حق نہیں، چین و سعودی عرب کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، وہ لوٹ مار کیلئے دوسروں کو اپنے ساتھ ملا سکتا ہے لیکن ہم اپنے تحفظ کیلئے کسی کے پاس نہیں جاسکتے، یہ قانون کس نے بنایا ہے؟ کیا یہ خدائی قانون ہے؟ ہم واضح الفاظ میں کہتے ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ جتنے بھی ممالک ہیں کہ اول تو وہ آگے بڑھیں اور اس پنجابی ریاست کے سامنے دیوار بنیں اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم بلوچ کی آواز کو تواناکرنے کیلئے اسکا ساتھ دیں۔”
اسلم بلوچ چین، پاکستان سمیت دوسرے سرمایہ کاروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ “میں ایک مرتبہ پھر چین، پاکستان اور جو بھی دوسرا کوئی ملک جو بلوچ ساحلی پٹی پر قبضہ کرنے کیلئے انکے ساتھ شریک ہونا چاہتا ہے، میں ان پر واضح کرتا ہوں کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم ختم کردیں، وہ مزید اس بارے میں نا سوچیں کیونکہ ہم اپنے مزاحمت میں مزید شدت لائیں گے، ہم نہیں رکیں گے۔”
اسلم بلوچ اپنے پیغام میں سندھ کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “سندھ اور بلوچستان میں چین جو کچھ کررہا ہے، وہ سندھی اور بلوچ قوم کے مرضی اور انکے قومی مفادات کے خلاف ہے، اس غلط فہمی میں کوئی نا رہے کہ ہمارے قومی مفادات اور بقا کو نقصان پہنچانے والے یہاں آسانی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہمارے یہ حملے مستقبل میں بھی جاری رہیں گے اور شدت سے جاری رہیں گے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ بزورِ طاقت یہاں آئے ہیں، ہمیں لوٹ رہے ہیں، ہمیں مار رہے ہیں، ہمارے بستیوں کی بستیاں جلا رہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو اغواء کرکے قتل کررہے ہیں، ہماری ماں بہنوں کو روڈوں پر رلا رہے ہیں۔”
انہوں نے اپنے پیغام میں یہ عندیہ دیا کہ مستقبل میں بلوچ، سندھی اور پشتون ایک مشترکہ محاذ تشکیل دیکر پاکستان کے خلاف لڑسکتے ہیں، انکا کہنا تھا کہ “ہماری کوشش رہے گی کہ مستقبل میں اس جنگ میں سندھی اور پشتون، بلوچ کے ساتھ ایک مورچے میں آکر لڑیں اور اپنی قوت ایک کریں۔ تاکہ پنجابی ریاست کو ایک سبق دیکر دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ یہ ایک غیر فطری ریاست ہے، اسکی کوئی تاریخ اور قومی وجود نہیں ہے۔”

بی ایل اے سربراہ کا چینی قونصل خانے حملے کےبعد ویڈیو پیغام، مزید حملوں کی دھمکی

بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ اور حالیہ دنوں کراچی میں چینی قونصل خانہ حملے کا ماسٹر مائینڈ سمجھے جانے والے اسلم بلوچ نے اپنے جاری کردہ ایک نئے ویڈیو پیغام میں پاکستان، چین اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے والے دوسرے ممالک کو تنبیہہ کی ہے اور مزید شدت کے ساتھ حملوں کی دھمکی دی ہے۔
سوموار کی صبح بلوچ لبریشن آرمی کے میڈیا ادارے کی جانب سے اسلم بلوچ کا ایک ویڈیو پیغام جاری کیا گیا، جسے مختلف میڈیا اداروں کو ارسال کیا گیا۔ 8 منٹ اور 33 سیکنڈوں کی اس ویڈیو میں اسلم بلوچ کو پہاڑوں میں دکھایا گیا ہے، جہاں وہ اپنا پیغام اردو زبان میں ریکارڈ کررہے ہیں۔
اسلم بلوچ اپنے پیغام میں کہتا ہے کہ “ہم نے بندوق شوق سے نہیں اٹھایا ہے، ہماری لڑائی مہم جوئی نہیں ہے، ہم بندوق و جنگ کے شوقین نہیں، بہت جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچ کا مزاج ہی جنگجوانہ ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ آج سے ستر سال پہلے جب پاکستان بلوچستان میں داخل ہوا تو انکے ہاتھ میں معاہدات، دستاویزات یا فلاحی منصوبے نہیں تھے، وہ اچھے ہمسائگانہ تعلقات قائم کرنے نہیں آئے تھے۔ جب وہ آئے تو انکے ہاتھوں میں بندوقیں، توپ اور ٹینک تھے۔ وہ ہم پر حملہ آور ہوئے، اس حملے میں انکے پاس چالبازیاں تھے، کچھ غدار تھے، اسکے باوجود مزاحمت ہوا۔ یہ حالات ہم پر مسلط کی گئیں ہیں اور انہی حالات کے تناظر میں ہم پر جنگ مسلط کی گئی۔ جب سامنے والے کے ہاتھ میں بندوق ہو تو پھر آپ پھول نہیں اٹھا سکتے۔ بندوق انہوں نے اٹھایا، ہم محض اپنے سرزمین کا دفاع کررہے ہیں۔ اور ہم اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔”
اپنے پیغام میں وہ مزید کہتے ہیں کہ “یہ سرزمین بلوچوں کی ہے، اسکے وسائل ہمارے ہیں، اس پر فیصلہ کرنے کا حق ہمارا ہے، سازشوں، غداروں، چالبازیوں اور بندوق کے ذریعے کوئی اس سرزمین کو ہم سے نہیں چھین سکتا۔ شاید وہ ہمارے کمزوریوں اور خامیوں کی وجہ سے کچھ لوٹ کر لیجائیں لیکن کوئی اس پر اپنا قبضہ مکمل نہیں کرسکتا، کوئی آرام و اطمینان سے اور مالک بنکر یہاں سے کچھ نہیں لیجاسکتا۔”
حالیہ دنوں پاکستانی نشریاتی اداروں پر تواتر کے ساتھ یہ کہا گیا تھا کہ اسلم بلوچ ہندوستان میں ہیں اور ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں، ان باتوں کو اپنے پیغام میں بی ایل اے سربراہ رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “ہمارے خلاف پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ ہم افغانستان یا ہندوستان میں بیٹھے ہیں یا کسی بیرونِ ملک کے ایجنٹ ہیں، ہم اس سرزمین کے مالک ہیں، ہم آزاد انسان ہیں، ہم کہیں بھی آ اور جاسکتے ہیں، ہم انکے غلام نہیں، ہم مجرم نہیں کہ وہ ہمارے اٹھنے بیٹھنے پر سوالات اٹھائیں اور اسے ہمارے خلاف استعمال کریں، جسطرح ہم بندوق اٹھا کر تمہارے خلاف لڑسکتے ہیں، اسی طرح ہم اپنی مرضی سے کہیں بھی اٹھ بیٹھ سکتے ہیں۔ اس وقت میں محاذ پر موجود ہوں، لڑرہا ہوں، اگر میں محاذ پر نہیں ہوتا، انکا مقابلہ نہیں کررہا ہوتا تو یہ اتنا پروپگنڈہ نہیں کررہے ہوتے۔ ہماری جنگ کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں کوئی بیرونی مدد و کمک حاصل نہیں ہے، ہم اپنے بلوچ قومی زور پر لڑرہے ہیں، ہم اپنے قومی طاقت اور محدود وسائل سے اس جنگ کو آہستہ آہستہ آگے لیجارہے ہیں۔”
اپنے پیغام میں اسلم بلوچ یہ اپیل بھی کرتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک سمیت دوسرے اقوام عالم انکی مدد کریں، وہ کہتے ہیں “ہم اپنے ہمسائے ممالک اور اقوام عالم پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کا یہ انسانی فرض بنتا ہے کہ آپ بلوچ قومی کاز میں اپنا حصہ ڈالیں اور آپکے جو اخلاقی فرائض ہیں انسانی حوالے سے وہ ادا کریں۔ آج بلوچوں پر پنجابی ریاست بزورِ بندوق قابض ہے، بلوچوں کی نسل کشی کررہا ہے، قتل عام ہورہا ہے، بلوچوں کے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹائے جارہے ہیں، اس حالت میں اقوام عالم آگے بڑھیں۔ اور بلوچوں کی ہر طرح سے کمک کریں تاکہ وہ اس قتل عام اور لوٹ مار کو روک سکیں۔”
پیغام میں دوسرے اقوام سے مدد کی اپیل کو اسلم بلوچ اپنا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ “آج ایک لوٹ مار کیلئے جسکا پنجابی ریاست پاکستان کو کوئی حق نہیں، چین و سعودی عرب کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، وہ لوٹ مار کیلئے دوسروں کو اپنے ساتھ ملا سکتا ہے لیکن ہم اپنے تحفظ کیلئے کسی کے پاس نہیں جاسکتے، یہ قانون کس نے بنایا ہے؟ کیا یہ خدائی قانون ہے؟ ہم واضح الفاظ میں کہتے ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ جتنے بھی ممالک ہیں کہ اول تو وہ آگے بڑھیں اور اس پنجابی ریاست کے سامنے دیوار بنیں اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم بلوچ کی آواز کو تواناکرنے کیلئے اسکا ساتھ دیں۔”
اسلم بلوچ چین، پاکستان سمیت دوسرے سرمایہ کاروں کو دھمکی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ “میں ایک مرتبہ پھر چین، پاکستان اور جو بھی دوسرا کوئی ملک جو بلوچ ساحلی پٹی پر قبضہ کرنے کیلئے انکے ساتھ شریک ہونا چاہتا ہے، میں ان پر واضح کرتا ہوں کہ وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم ختم کردیں، وہ مزید اس بارے میں نا سوچیں کیونکہ ہم اپنے مزاحمت میں مزید شدت لائیں گے، ہم نہیں رکیں گے۔”
اسلم بلوچ اپنے پیغام میں سندھ کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “سندھ اور بلوچستان میں چین جو کچھ کررہا ہے، وہ سندھی اور بلوچ قوم کے مرضی اور انکے قومی مفادات کے خلاف ہے، اس غلط فہمی میں کوئی نا رہے کہ ہمارے قومی مفادات اور بقا کو نقصان پہنچانے والے یہاں آسانی سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ہمارے یہ حملے مستقبل میں بھی جاری رہیں گے اور شدت سے جاری رہیں گے اور اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ بزورِ طاقت یہاں آئے ہیں، ہمیں لوٹ رہے ہیں، ہمیں مار رہے ہیں، ہمارے بستیوں کی بستیاں جلا رہے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو اغواء کرکے قتل کررہے ہیں، ہماری ماں بہنوں کو روڈوں پر رلا رہے ہیں۔”
انہوں نے اپنے پیغام میں یہ عندیہ دیا کہ مستقبل میں بلوچ، سندھی اور پشتون ایک مشترکہ محاذ تشکیل دیکر پاکستان کے خلاف لڑسکتے ہیں، انکا کہنا تھا کہ “ہماری کوشش رہے گی کہ مستقبل میں اس جنگ میں سندھی اور پشتون، بلوچ کے ساتھ ایک مورچے میں آکر لڑیں اور اپنی قوت ایک کریں۔ تاکہ پنجابی ریاست کو ایک سبق دیکر دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ یہ ایک غیر فطری ریاست ہے، اسکی کوئی تاریخ اور قومی وجود نہیں ہے۔”

воскресенье, 25 ноября 2018 г.

کراچی قونصل خانہ حملہ، پاکستان و چینی عزائم و مظالم کیخلاف فطری ردعمل ہے-ڈاکٹر اللہ نذربلوچ 

بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے جمعہ 23 نومبر کی صبح کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر بلوچوں کی جانب سے کیے گئے حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ پاکستانی مظالم اور چینی سامراجی عزائم کے خلاف بلوچ قوم کا فطری ردعمل ہے۔ چین اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل اور خطے میں طاقت کے توازن کو اپنے حق میں لانے کے لئے بلوچستان کی اسٹراٹیجک پوزیشن اور وسائل کے استحصال کے لئے پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچ نسل کشی میں شریک جرم ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی فوج بلوچستان کے طول و عرض میں مسلسل فوجی جارحیت میں مصروف ہے۔ اور بلوچ کش منصوبے سی پیک سمیت دیگر سامراجی منصوبوں کی کامیابی کے لئے چین بے پناہ سرمایہ اور عسکری آلات و مہارت پاکستان کو فراہم کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ بعض آپریشنوں میں چینی جنگی ہیلی کاپٹر اور کمانڈو براہ راست بلوچ قوم کے خلاف جارحیت میں شامل پائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ چین کے سی پیک منصوبے سمیت تمام منصوبے بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے خلاف اور بلوچ وطن کو اپنی کالونی بنانے کی کوششوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ سی پیک کے روٹ اور گرد و نواح کی آبادیوں کو بلڈوز کیا گیا ہے۔ لوگوں کے گھر بار خاکستر کرکے انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے اور وہ لوگ آج بھی دربدر ہیں۔ بلوچستان میں فوج کی جانب سے لوگوں کو اٹھانا، دوران حراست بلوچوں کو اذیت رسانی سے شہید کرکے لاشیں پھینکنا معمول بن چکا ہیں۔ لیکن سی پیک منصوبے پر کام کے ابتداء کے بعد بلوچ قومی نسل کشی میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ بلوچ مختلف محاذوں پر چین اور پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اور چینی کاؤنسلیٹ کا حملہ چین کے لئے ایک کھلا اور واشگاف پیغام ہے کہ بلوچ فرزند اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے آپ کے تمام حصار توڑ کر آپ پر دھاوا بول کر یہ واضح کرتے ہیں کہ بلوچستان لاوارث نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ چینی قونصل خانے میں شہید ہونے والے بلوچ فرزندوں اضل خان مری، رازق بلوچ اور رئیس بلوچ کی ہمت، جذبہ اور آزادی کیلئے قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ شہید ہونے والے بلوچ فرزندوں نے ایک تاریخ رقم کی ہے اور ایک زندہ قوم کی حیثیت سے جبر و استبداد، محکومیت اور کالونائزیشن کے خلاف بلوچ قوم ماضی کی طرح ڈٹ کر مقابلہ کرے گا۔ یہ ہمارا بنیادی حق اور عالمی اصولوں کے مطابق ایک راست جدوجہد ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق یہ مزاحمت اپنے منطقی انجام ’’آزاد بلوچستان‘‘ کے حصول تک جاری رہے گی۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ قابض ریاست پاکستان دو دہائیوں سے بلوچ قوم پر ظلم کے پہاڑ گرا چکا ہے۔ پاکستانی مظالم میں چین ہر سطح پر برابر کا شریک ہے۔ چین خود انقلاب و آزادی کی جنگوں سے گزرا ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ چین کو یہ ادراک کرنا ہوگا کہ قوموں کو اس طرح زیر نہیں کیا جاسکتا ہے اور قوم اپنی اقدار سے پہچانے جاتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم کے وطن کا دفاع اور ظلم و استبداد کا مقابلہ ہماری بنیادی اقدار میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم اپنے وطن کے تحفظ اور قومی بقاء کے لئے انگریر، پرتگیز اور دیگر حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی ایک طویل تاریخ کا مالک ہے۔ آج بلوچ پاکستان اور اس کے سامراجی اتحادی چین کے خلاف اپنی تاریخ کی سب سے بڑی قربانیوں کے دور سے گزر رہا ہے۔ بے پناہ مظالم کے باوجود پاکستان جیسی دہشت گرد ریاست ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکے گی بلکہ یہ انسانیت سوز مظالم ہمیں مزید توانا اور مضبوط کریں گے۔ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور ایک زندہ قوم میں اپنے شہداء کو بھولنا اور شہداء کے مشن سے انحراف کرنا ایک انہونی بات ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا ہم امید کرتے ہیں کہ چین بلوچ قوم کی مرضی کے خلاف پاکستان کا مزید ساجھے دار اور شریک جرم نہیں بنے گا بلکہ اپنے توسیع پسندانہ پالیسیوں پر فوری طور پر نظرثانی کرے گا۔

суббота, 24 ноября 2018 г.

بھگت سنگھ اور دو کامریڈ، آج رازق بلوچ اور دو کامریڈ – برزکوہی

انگریزوں کا بھارت پر قبضہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر اور ردعمل میں شہید بھگت سنگھ اور اس کے دو کامریڈوں کا عالمی سطح تک احتجاج اور آج چائینیز کمپنیوں کے نام پر بلوچستان پر قبضہ، شہید رازق بلوچ اور اس کے دوکامریڈوں کا عالمی سطح تک احتجاج کرنا۔ گوکہ دونوں تاریخی احتجاج و عالمی احتجاجوں کا اگر موازنہ کیا جائے تو وقت و حالات، تقاضات، طور و طریقے، شاید ایک حد تک کافی مختلف ہوں مگر مقصد بلکل واضح طور پر دونوں کا ایک ہی خالص سیاسی گول تھا۔ یعنی اندرونی و بیرونی سطح کے بہروں، اندھوں اور گونگوں کو صرف اپنی آواز پہنچانا اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اگر شہید بھگت سنگھ اور اس کے دوستوں کو محض انتشار و انارکی پھیلانا اور انتہاء پسندی کی حد تک جانا ہوتا تو وہ بھی کسی انسانی ہجوم میں گھس کر انسانوں کو دھماکوں سے اڑا کر انسانوں کا قتل عام کرتے، پھر کیوں برطانوی پارلیمنٹ میں وہ جاکر بغیر نقصان والی صرف آواز یعنی احتجاج کرنے والی دھماکہ کرکے اپنی پیغام موقف اور مقصد کو پوری دنیا خاص کر ہندوستان کے لوگوں تک پہنچایا اور دشمن کو بغیر جانی نقصان دیئے تینوں کامریڈ اپنے ہی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جس کے بدولت پوری دنیا کو متوجہ کرنے کے ساتھ، ہندوستان میں انگریزوں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف نفرت اور مزاحمت کی ایک لہر اٹھ گئی، پھر وہی لہروں اور فضاوں میں آخر کار انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا اور بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا خون اور احتجاج رنگ لے آیا، ہندوستان انگریزوں کے تسلط سے آزاد و خود مختار ہوگیا۔
تو آج زمان و مکان اور وقت و حالات کے معمولی فرق کو لیکر بالکل بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین بھی انہی حالات و صوررتحال اور من عن اسی عہد سے گذر رہا ہے۔ بی ایل اے کے جانثاروں شہید رازق رازی، شہید اضل مری اور شہید رئیس بلوچ بھی اندرونی اور بیرونی گونگے، بہروں اور اندھوں کو اپنا قومی موقف اور قومی مقصد کو سنانے اور سمجھانے کے حصول کے خاطر کراچی جیسے شہر کے چینی قونصل خانہ پر حملہ کرکے پوری دنیا اور خصوصاً بلوچ قوم کو یہ پیغام پہنچا دیا کہ بلوچستان میں گوادر، سیندک سمیت ایسٹ انڈیا کمپنیوں کی طرح چینیز کمپنی پاکستانی ریاست کے ساتھ مل کر بزور طاقت بلوچ قوم کا استحصال کررہے ہیں اور اس استحصالی پیش قدمی اور عزائم میں خود بلوچ قوم اپنے ہی سرزمین پر مستقبل میں مٹ کر فنا ہوگا اور چین اور پاکستان کا یہ گہناونا عمل، منصوبہ بندی، پیش قدمی اور بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ، خود عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
اگر انصاف، جمہوریت پسندی، انسانی حقوق، قومی حقوق اور انسانیت کے تقاضات کے مطابق دیکھا جائے تو چین کو کوئی بھی اخلاقی، انسانی، سیاسی اور قانونی حق نہیں ہے کہ وہ بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین پر 70 سالوں سے بزور طاقت مسلط اور قابض ریاست پاکستان کے ساتھ ملکر بلوچ ساحل اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں شامل ہو۔ اس کے باوجود چین دن بدن پیش پیش آگے بڑھ رہا ہے اور اب سعودی عرب بھی دل بڑا کرکے اس پاکستانی گہناونے کھیل میں شامل ہورہا ہے، پتہ نہیں آگے چل کر پھر کون کون اور کونسی قوتیں بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کو بے یار و مددگار اور آسان نوالہ جان کر پاکستان کے اس جرم میں ہمرکاب ہونگے؟
مختصراً پاکستان اور چین کی بلوچستان میں جاری منصوبوں، گوادر ہو، سیندک ، سی پیک، یا دیگر منصوبے اور عزائم ہوں، ان میں بلوچ قوم کا مستقبل مکمل تاریکیوں میں واضح دکھائی دیتا ہے۔ شاید ادراک، علم و دانش، وسیع سوچ اور اپروچ کے فقدان کی وجہ سے اکثریت پڑھے لکھے جاہلوں کو ابھی تک ذرا بھی ہوش نہیں کہ بلوچ قومی تشخص و شناخت جغرافیائی اور تاریخی حیثیت اور قومی بقاء مکمل طور پر فناء کے آخری مقام پر آکر کھڑا ہے۔
بلوچ قوم کو کیا کرنا چاہیئے؟ خاموش اور بے بس ہوکر اجتماعی و قومی خود کشی کرنا چاہیئے؟ سب کچھ رضاکارانہ طور پر چین اور پاکستان کے حوالے کر دینا چاہیئے؟
2006 میں بی این پی کے طرف سے گوادر کے حوالے سے لشکر بلوچستان کے نام سے لانگ مارچ مختلف جماعتوں، گروپس، پارٹیوں، گروہوں کا متواتر 18 سالوں سے چین کے خلاف بلوچستان سمیت بیرون ملکوں میں بھی محدود احتجاجی مظاہرے، جلسے، سیمنار، مکالمے، تحریریں، دھرنے، بھوک ہڑتالیں، قراردادیں، پوسٹرسازی، مہم سازی وغیرہ وغیرہ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ اگر تھوڑا ایمانداری حقیقت پسندی اور انصاف ہو پھر یہ کہنے میں بھی کوئی حرج و دکت اور دشواری نہیں ہوگا کہ نتیجہ صفر +صفر= صفر اور کچھ نہیں؟
میں واپس اپنے سوال کو دوہراتا ہوں کہ بلوچ اگر کرے تو کیا کرے؟ بلوچ قوم کے پاس کرنے کو کیا ہے؟ جو موثر ہوکر بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین چین اور پاکستان کی مزید یلغار سے محفوظ ہو؟
آج اگر بلوچ قومی تحریک و جنگ یا چائنیز پر حملوں، خدا کرے طریقہ کار جو بھی ہو سب کے سب خالص گوریلا جنگ کے تقاضات اور طریقہ کار ہیں، اگر ان کو کوئی مذہبی جنونیت، انتہاء پسندی اور سری لنکا کے تحریک تامل ٹائیگر والی عینک اور زاویہ نظر سے دیکھے اور پرکھے تو انھیں کم از کم پہلے جاہلیت، محدود اور سطحی دائروں اور قید سے نکل کر ضرور کچھ پڑھنا چاہیئے، غور و فکر تحقیق و ریسرچ کرنا چاہیئے اور ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں بلوچ قومی احساس ہونا چاہیئے، ان جاہل لکھے پڑھے لوگوں سے میں کہتا ہوں کس منطق و دلیل کے تحت آج وہ بلوچ قومی تحریک کو جنونیت اور انتہاء پسندی میں دیکھ رہے ہیں یا پیش کررہے ہیں؟ اگر آج فرض کریں بلوچ آخری حدتک اور انتہاء کو جاچکا ہے یا جارہا ہے؟ تو اس کے اصل وجوہات اور حقائق کیا ہیں؟ کیوں آج بلوچ اس حد تک جانے کو تیار ہیں؟ شعور، احساس، ادراک، مجبوری، آخر وجوہات کیا ہیں؟ ان تمام چیزوں سے نابلد ہوکر خالی خولی، سنی سنائی باتوں پر آراء پیش کرنا، صرف بکواس کے زمرے میں شمار ہوتا ہے ناکہ حقائق اور حقیقت پسندی کے زمرے میں۔ وہ اس لیئے کہ کوئی منطق و دلیل اور اگر متبادل طریقہ کار پیش نہ ہو صرف مخالفت اور نقطہ چینی ہو تو پھر لفظ بکواس استعمال کرنا ہی مناسب ہوگا یعنی اس مشکل اور پرکھٹن حالت میں بلوچ قوم کیا کرے کہ دنیا متوجہ ہو اور خاص کر بلوچ قوم میں بیداری اور شعور اجاگر ہو کہ بلوچ سرزمین مکمل ہاتھوں سے نکل کر بلوچ قوم فناء اور تباہ ہوگا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے جب بلوچ سرمچاروں نے کراچی چینی قونصل خانہ پر حملہ کیا عین اسی وقت خیبر پختون خواہ ھورگزی میں دھماکہ ہوا، اب دیکھا جائے دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ھورگزی میں بغیر واضح پروگرام اور موقف کے 50 کے قریب لوگوں کی جانیں چلی گئیں، دوسری طرف کراچی میں ایک واضح مقصد، پیغام اور پروگرام کے تحت حملہ ہوا۔ انسانی جانوں کا اتنا نقصان بھی نہیں ہوا، پوری دنیا متوجہ ہوا کہ بلوچ قوم کیا چاہتا ہے۔ اس فرق کو لیکر سمجھنا ہوگا کہ بلوچ قوم اس وقت اپنے سے بڑے سے بڑے قوتوں کے خلاف اپنی انتہائی کمزور طاقت کے بل بوتے، گوریلا جنگ لڑرہا ہے۔ آپ جو بھی نام دیں، جو بھی نام استعمال کریں، فدائی، سربازی، جانثاری اور سرمچاری اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ دیکھنا سب سے ضروری ہے عمل کیا ہے اور عمل کے پیچھے مقصد کیا ہے اور پیغام کیا ہے؟ یہ تو سارے کے سارے گوریلا جنگ کے طریقہ کار ہیں، ان طریقہ کاروں کو گوریلا جنگ کہنا سب سے بہتر ہے اور بلوچ قوم کی گوریلاجنگ شروع سے لیکر آج تک مکمل عالمی قوانین کے مطابق چل رہا ہے، اگر وقت و حالات اور اہداف پر پہنچنے تک سختی اور مشکلات درپیش ہو تو جنگی حکمت عملی اور طریقہ کار میں تبدیلی جنگ کے بنیادی تقاضات میں شمار ہوتا ہے۔
آج بھی سیندک چینی انجنیئروں اور کراچی قونصل خانے پر حملہ بھی بی ایل اے کی گوریلا جنگی حکمت عملی اور ڈاکٹرائن کی تبدیلی ہوگا تو اس میں تعجب اور حیرانی کی کیا بات ہے؟
دشمن کو آپ گولی سے، بارود سے، مائن سے، ہینڈ گرینڈ سے، کلہاڑی سے، تلوار سے، چاقو اور جیکیٹ سے مارو مسئلہ یہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ آپ کا مقصد اور پروگرام کیا ہے؟ آپ چاہتے ہو کیا؟ آج بالکل واضح ہوچکا ہے بلوچ قومی تحریک نہ کسی کا پروکسی ہے نا کسی کا پریشر گروپ ہے نا کسی کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے اور نا ہی بلوچ سرمچار کسی کے کرایے کے قاتل ہیں بلکہ خالص بلوچ قوم اپنے سیاسی پروگرام کو لیکر اپنے تاریخی و جغرافیائی، قومی ریاست کی بحالی و قومی آزادی کے ساتھ، اپنا قومی دفاع اور قومی بقاء کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اگر اس کار خیر میں انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، برطانیہ، اسرائیل، امریکہ اور پورا یورپ انسانی بنیادوں پر بلوچوں کا مدد کرے، تو اس میں کیا حرج ہے؟ آج دیکھا جائے دین اسلام کا کٹر دشمن چین پاکستان کا ہر حوالے سے دوست ہے، اس میں حرج اور تکلیف نہیں، پھر بلوچوں کے لیئے کیوں کسی کی کمک و مدد باعث تکلیف اور پریشانی؟
بلوچ قوم، بلوچ قومی تاریخ و تہذیب و تمدن، زبان، ثقافت، رہن سہن، روایات اور قومی آزادی کی سیاسی تحریک و قومی مزاحمت کے ساتھ بلوچ قومی ریاست کی تاریخی و جغرافیائی حیثیت کی بحالی کے واضح پروگرام اور مقصد کو لیکر تامل تحریک یا مذہب کے نام پر پروکسی گروپوں سے موازانہ کرنا علم و شعور کے فقدان اور بدنیتی نہیں تو اور کیا ہوسکتا ہے؟
بی ایل اے مجید بریگیڈ کے جانثار ساتھی شہید رازق رازی، شہید اضل مری اور شہید رئیس بلوچ اس مشکل اور انتہائی پرکھٹن اور تاریخ ساز دور میں ایک تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے، جو قومی کردار ادا کیا وہ صدیوں تک بلوچ اور انسانی تاریخ میں ایک روشن باب کی حثیت سے یاد ہوگا۔ اور بلوچ قومی مقصد و موقف اور مجموعی کرب و تکلیف کو جس انداز میں جس طرح اور جہاں تک پہنچا دیا، وہ ایک تاریخی اور عظیم کارنامہ ہے اور اس تسلسل اور کارنامے کا حوصلہ افزائی کرنا، ہر بلوچ کا قومی فرض اور قومی قرض ہے، اسی میں بلوچ قومی بقاء و شناخت کے محفوظ ہونے کی ضمانت ہے، نہیں تو نہ مستقبل میں کرہ ارض پر بلوچ رہے گا نہ بلوچستان کا نام۔

пятница, 23 ноября 2018 г.

(شہید رازق رازی عرف بلال بلوچ کا آخری تحریر جو اسنے کراچی چینی سفارت خانے پر حملے سے ایک گھنٹہ پہلے اپنے فیسبک پر پوسٹ کیا تھا. دیوان ء خاران)
رخصت آف آوار ون سنگت آک❤️
میں کیا ہوں ؟
تحریر: جلال بلوچ
اکثر کبھی فراغت کے لمحات میں خود کے بارے میں سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہوں کے آخر میں ہوں کیا چیز ؟میری اوقات کیا ہے ؟یہ ذندگی کیا ہے ؟ذندگی کیا مقصد کیا ؟کیا میرے ذندگی بامقصد ہے ؟کیا بے مقصد ذندگی بھی کوئی ذندگی ہوتا ہے ؟
حتیٰ کہ بعض مرتبہ بے قابو ہوکر اٹھ جاتا ہوں آہینے کے سامنے کھڑا ہوکر آہینے کی شفافیت کے سامنے آ کر خود کو ایک لمحے کے لیے غور سے دیکھتا ہوں خود کو صیح معنی میں پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں۔ کہ جب میری تخلیق ہو چکی تھی تو میرا فنا ہونا بھی اٹل اور فطری ہے کیونکہ ہزاروں سالوں سے مجھ سے بھی نایاب و باوقار انسان اس سرزمین پہ جنم لے کر فنا بھئ ہو چکے ہیں۔ کیوں فنا ہوچکے ہیں ؟کیا میں بھی فنا ہوجاوں گا ؟کیا میرا جنم اس دنیا میں صرف فنا ہونے کے لیے ہوا تھا ؟اگر مقصد فنا ہونا تھا ؟تو جنم لینا کیوں ؟کیا فناء کے لیے جنم لینا اور جنم لیکر پھر فناء ہونا عجیب منطق نہیں ہوا؟
میں آخر کیوں فناء ہوتا ہوں ؟میں خود فناء ہوتا ہوں ؟یا کوئی اور قوت مجھے فناء کردیتی ہے ؟نہیں بقول فلسفی سارتر کے انسان اپنی وجود کے بعد اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے تو پھر میں اپنے ہاتھوں خود کو کیسے فناء کردوں ؟کیا میں بے وقوف اور آحمق ہوں ؟کیا بامقصد ذندگی اور بامقصد موت فناء کی ذمرے میں شمار ہوتا ہے ؟نہیں میرے خیال میں ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ سوچنے اور غور کرنے کے بعد اپنے اندر پلنے والی انا پرستی فخر، غرور کا سوچتا ہوں تو ایک دم گھبرا جاتا ہوں کہ چند دنوں کا مسافر جو ایک عارضی سفر پر محو سفر ہوکر ایک دن جانا ہی تو ہے یہ سب جاننے کے باوجود یہ سب تصورات اور الجھاوں کے ساتھ الجھ کر کیسے میں پل و چل سکتا ہوں ؟
پھر اچانک سے یہ خیالات میرے حقیر سے وجود کو اپنے گہرے میں لیکر آ جاتے ہیں کہ یہ تو شاید شیطان کا کام ہے وہ شیطانی کر رہا ہے؟ لیکن پھر سے یہ بھی یاد آجاتا ہے کے شیطان تو ایک مہینہ (رمضان)میں قید ہو جاتا ہے پر اس وقت بھی ہمارا یہی حال رہتا ہے کیوں ؟
کیا پرتضاد اور تذذب کا شکار اپنے اندر خود ایک شیطان نہیں ہوتا ہے ؟کیا وہ خود اپنے اندر شیطان بن کر دوسرے نامعلوم شیطان کو موردالزام نہیں ٹھہراتا ہے ؟کیا یہ اپنے ساتھ خود ایک فریب نہیں ہے ؟یا منافقت نہیں ہے ؟اگر جواب ہاں میں ہے ؟تو مجھے پرفریب اور منافقت سے انتہائی نفرت ہے میں کبھی منافق اور پرفریب انسان نہیں بن سکتا ہوں ۔
یہ میر مصصم ارادہ اور مستقل مزاجی کا عزم ہے اب میں دیکھوں کوئی شیطان آکر مجھے سبق سکھاہے اور قاہل کرے میں ایک بار نہیں ہزار بار اس کو چیلنج کرتا ہوں ۔۔۔
مطلب یہ سب کچھ ہم اپنے فطرت بنا چکے ہیں اور ہم اس وقت تک یہ ختم نہیں کر پاہینگے جب تک ہم خود سے لڑنا نہ سیکھ لیں اپنے اندر کے انا پرستی کو مارنا سیکھ نہ لیں اور خود میں خود پیدا کردہ الجھنوں سے نہیں نکل سکھے کچھ جگہوں پہ رشتوں اور انسانیت کے اصولوں کے سامنے جھکنا سیکھ نہ لیں
اور یہ سب ایک انسان کر سکتا ہے لیکن صرف اس سوچ نے ہمیں تباہ کر رکھا ہے کہ پہلے میں ہی کیوں اگلا کیوں نہیں؟
یہ بہانے جھوٹ بذدلی اور منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اس وقت تک ہمارے اندر کا غرور اور تکبر نہیں مر سکتا جب تک ہم رشتوں اور انسانیت کی رسی کو تھامنے کے واسطہ جھکنا سیکھ نہ لیں کیوں کے یہ سب ایک مسافر کو زیب نہیں دیتا جو چند سالوں کے لیے اس سر زمین کا حصہ ہے اور پر باقی تمام لوگوں کی طرح یہ بھی دنیا چھوڑ کر اسکے وجود کا خاتمہ ہوگا۔۔ توکیوں نہ کچھ ایسے کریں جو انسانیت کی سربلندی اور مشعل راہ نہ ہو۔ کرے اپنی قوم و سرذمین کیلئے سرخرو ہوکر ہمیشہ فناء نہیں ذندہ ہونا کیا کمال کی بات نہیں ہوگا
؟

воскресенье, 18 ноября 2018 г.

بلوچ نسل کشی، مکران کی تہذیب اور ڈاکٹرمالک؟ – برزکوہی

پنجابی مقتدرہ قوتوں کا بندہ خاص اور پاکستانی فوج کی بی ٹیم نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ گذشتہ روز مکران کے علاقے پسنی میں پارٹی کارکنوں سے کہہ رہے تھے کہ گوادر کو لسبیلہ سے ملانا مکران کی تہذیبی تاریخ کو مٹانے کی سازش ہے۔ نیشنل پارٹی اٹھارویں ترمیم کو واپس کرنے کی کوشش کے خلاف ہے۔ دفاع، کرنسی اور خارجہ امور کے علاوہ تمام اختیارات صوبوں کو دے کر صوبوں کو خود مختار بنایا جائے۔ نیشنل پارٹی جمہوری طریقے سے بلوچ قوم کے سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی جنگ لڑرہی ہے، بلوچ ساحل اور وسائل کے تحفظ کا دفاع کریں گے۔
ڈاکٹر مالک صاحب کی1988 کو شہید وطن فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد آج تک بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کے خلاف پنجابی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ مل کر بے شمار سیاہ اور بدنما کرتوتوں اور کارناموں کو ایک طرف رکھ کر 2013 سے لیکر 2015 تک اپنے ڈھائی سالہ وزارتِ اعلیٰ کے دوران اپنی ٹیم اور بلوچ کش ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے(جس کی سربراہی سردار اسلم بزنجو، شفیق مینگل، امام بیل، شامیر بزنجو، خالد بزنجو وغیرہ کررہے تھے) سے جس طرح بلوچوں کی نسل کشی کی، آج وہ پوری قوم اور دنیا کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔
مبادا ماضی کے آج ڈاکٹر مالک بلوچ انتہائی مکارانہ و فنکارانہ انداز اور چرب زبانی کے ساتھ اپنا ہاتھ اور منہ بلوچ شہیدوں کے خون سے دھو کر پھر بھی بلوچ قوم کے سامنے مکران کی تہذیبی تاریخ کے مٹنے کا رونا شروع کرچکا ہے، پاکستان فوج کے ساتھ ملکر نیشنل پارٹی مکران سے لیکر کاہان تک پورے بلوچ قوم کے خلاف ایپکس کمیٹی میں بلوچ نسل کشی کی فیصلے کی ناصرف تائید کرتا رہا ہے بلکہ مکمل ساتھ اور مدد دینے کی بھرپور یقین دہانی اور بعد میں عملی جامعہ پہننانے میں بھی پیش پیش رہا ہے۔ بلوچ قوم کو فصل کی طرح کاٹنا اور بلوچ قوم کی ایک نسل کو نسل کشی کا شکار کرکے ختم کرنا دوسری طرف لاشوں پر کھڑے ہوکر اسی قوم اور نسل کی تہذیب و تاریخ کی بات کرنا کیا عجیب مضحکہ خیزی نہیں ہے؟
ڈاکٹر صاحب خود تہذیب کیا ہے؟ اور تہذیبی تاریخ کیا ہے؟ اگر آپ کے دل و دماغ میں اس وقت پنجابی قوم کے دیئے گئے مراعات اور لالچ سوار نہ ہوتے، آپ اندھے و بہرتے نہ ہوتے تو آپ بہتر انداز میں جانتے ہو، جب خود بلوچ قوم اور بلوچ معاشرہ سرے سے تباہی اور بربادی کی دھانے پر ہو اور بلوچ قومی بقاء اور معاشرہ فناء کی طرف محو سفر ہو اور اس کار خیر اور جرم میں آپ اور آپ کی ٹیم شانہ بشانہ ہو پھر تہذیب کی فکر مند رہنا کس کو بے وقوف اور احمق بنانے کی کوشش ہے؟
معاشرتی ترتیب و طرزعمل تہذیب ہوتا ہے، تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور فکر و احساس کا طریقہ کار اور آئینہ دار ہوتا ہے، زبان، آلات و اوزار، پیداوار کے طریقے اور سماجی رشتے، رہن سہن، اخلاق و عادات، رسم و رواج، روایات، علم و ادب، فلسفہ، حکمت، فنونِ لطیفہ، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات وغیرہ تہذیب کے مختلف مظاہر ہیں۔
فلسفی ول ڈیورانٹ کے نذدیک بھی تہذیب وہ معاشرتی ترتیب ہے، جو ثقافتی، تخلیق کو فروغ دیتا ہے، چار عناصر ملکر تہذیب کو مشتکل کردیتی ہیں، معاشی بہم رسانی، سیاسی تنظیم، اخلاقی روایات اور علم و فن کی جستجو تہذیبی ابتری اور بدنظمی کے خاتمے سے شروع ہوتا ہے۔
ڈاکٹر مالک صاحب پورے بلوچستان میں خاص کر مکران و گوادر میں لاکھوں کی تعداد میں چینی، پنجابی، بہاری، مہاجر اور دیگر غیر اقوام کی آباد کاری سے بلوچ قوم کو کالونائز کروانا، بلوچوں کی زمینیں ان سے زبرستی چھیننا، جیٹ طیاروں، کوبرا ہیلی کاپٹروں، بمبارمنٹ اور فوجی کاروائی کے ذریعے بلوچوں کی نسل کشی کرنا، انھیں ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ کرنا، پھر ان کی مسخ شدہ لاشیں پیھنکنا یا اجتماعی قبروں میں دفنانا ساتھ ساتھ بلوچ تعلیم یافتہ طبقے، طلباء، شاعروں، ادباء، گلوکاروں، دانشوروں، مفکروں، ڈاکٹروں، صحافیوں، وکلاء، سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کو بے دردی سے شہید کروانا اور تعلیمی اداروں کو فوجی چھاونی اور ٹارچر سیل بنانا بلوچوں کی تاریخی جغرافیائی حیثیت کو غیر فطری ریاست پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کی مزید استحکام کی اقدامات اٹھانا وغیرہ ان تمام کے تمام تاریخی سیاہ کارناموں کرتوں اور جرائم میں مالک صاحب آپ اور آپ کے کارندے برابر کے شریک ہیں، ڈاکٹر صاحب خضدار کے مقام توتک میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اجتماعی قبریں، جو آپ کے بندہ خاص اسلم بزنجو اور اس کے جگری دوست شفیق مینگل اور پاکستانی فوج کے کارنامے ہیں، آج ان لاشوں پر جناب آپ کھڑے ہوکر پھر بھی تہذیب کی بات کرتے ہو؟
قوم زندہ ہوگا، قومی بقاء محفوظ ہوگا۔ دہشت اور خوف کے ماحول کے بغیر ہمیشہ جستجو اور تخلیقی صلاحیتں فروغ پائینگے پھر جاکر معاشرے کی ترتیب یعنی تہذیب زندہ ہوگا اور اس کی تاریخ زندہ ہوگی مرمٹنے اور گمشدگی سے محفوظ ہوگا، جناب مالک صاحب۔
فلسفی ول ڈیورنٹ گم شدہ تہذیبوں کے بارے میں کہتا ہے، تہذیب یافتہ قوموں کی تاریخ پر پہنچتے ہوئے ذہن نشین کرنی ہوگی کہ ہم ہر تہذیب کا نہ صرف ایک حصہ منتخب کررہے ہوں گے بلکہ ان قلیل تہذیبوں کا تذکرہ کر رہے ہوں گے جو زمین پر زندہ رہینگے۔ ہم پوری تاریخ میں جاری و ساری اساطیر کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں، وہ تہذیب جو کبھی بہت بڑی تھیں، فطرت کی کسی آفت یا جنگ کی وجہ سے تباہ ہوگئیں۔ اور ان کا کچھ باقی نہیں بچا کریٹ ،سمیریا اور یوکٹان کی کھدائی سے اس بات کی اندازہ ہوسکتا ہے۔
تو جناب ڈاکٹر مالک صاحب مکران کی تہذہیبی تاریخ کے مٹنے کے لیے مگر مچھ کی طرح آنسو بہانے سے پہلے یہ سوچیں مٹنا، آفت کوئی فطری آفت نہیں ہے بلکہ سوچی سمجھی انسانی آفت ہے اور ایک مسلط کردہ جنگ ہے اور اس جنگ اور آفت میں آپ جناب اور آپ کے پارٹی کے کارندے برابر شریک تھے اور شریک ہیں۔
افسوس اور نفرت اس بات کی ہے آپ جناب ابھی تک بلوچ قوم کو اتنا سادہ اور بے وقوف اس دور کی طرح سمجھتے ہو، جب آپ اور آپ کے ٹولہ ڈاکٹران سردار اخترمینگل سے اختلاف رکھ کے الگ ہوگئے، پنجابی کی ایماء پر غیر ضروری مڈل کلاس کا سلوگن دیکر بلوچ قوم کو بے وقوف بنا کر اختر مینگل سے ذاتی ضد اور انتقام کے بدلے اپنے سوچ کی تسکین کے خاطر بلوچ قوم کو تقسیم در تقسیم کیا اورآپ لوگوں کا یہ بے معنی سلوگن اس وقت دم توڑ گیا، آپ لوگ بی این ڈی پی کی شکل میں خفیہ ادراوں کی ایماء پر انضمام کرگیے، آج پھر آپ پاکستانی اٹھارویں ترمیمم اور صوبوں کے اختیار کا سلوگن اور مکران کی تہذیب کو بچانے کی خاطر سلوگن پر گزارہ کررہے ہو، دوسری طرف آپ اور آپ کی پارٹی ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کی شکل میں صرف بلوچ قومی تہذیب نہیں بلکہ بلوچ قوم کو مسخ کررہا ہے۔ جب خود بلوچ قوم، بلوچ قومی شناخت اور بقاء نسل کشی اور کالونائزڈ کی شکل میں فناء ہوگا تو پھر بلوچ قومی تہذیب یا تہذیبی تاریخ کے لیے کیا بچے گا؟
فلسفی ارسطو کے خیال میں یہ بات یقینی طور پر امکانی ہے کہ بہت ساری تہذیبیں آئے، انہوں نے ایجادیں اور عیاشیاں کئیں، تباہ ہوئے، آج انسانی یاداشت سے مٹ گئیں۔
آج سے نہیں بلکہ 70 سال سے قابض ریاست بلوچوں کی نسل کشی کے ساتھ بلوچوں کی 11 ہزار سالا تہذیب کو ملیا میٹ کررہا ہے اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک قابض کے لے پالک بن کر مالک کی شکل میں قابض پاکستان کی اس سوجی سمجھی منصوبے میں آپ تو براہے راست شامل ہیں۔
آج بلوچ قوم اور بلوچ سماج آپ لوگوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں بچا ہے، صرف وہ لوگ آپ لوگوں کے ساتھ ہیں، جو علم و شعور سے نابلد ہیں، دوسرا وہ گروہ ہے، جن کے ذاتی مفاد اور غرض آپ اور ریاست کے ساتھ وابستہ ہیں۔
آپ اور آپ کی ٹیم تاریخ اور مورخ کے بے رحم حساب سے کسی بھی صورت میں محفوظ نہیں ہونگے، یہ بے بنیاد سلوگن اب آپ کے درد کا دوا اور مدواہ نہیں بن سکتے ہیں۔
آج یخہ بستہ شال پریس کلب یا ہر بلوچ کے گھر و گدان اور چھونپڑی سے ماں بہنوں اور بیواوں کے خون کے آنسووں اور چیخ و پکار کی ذمہ دار قابض ریاست پاکستانی فوج اور آپ اور آپ کی ٹیم ہے۔
صرف وہ بلوچ جو لاشعوری اور سادگی کی بنیاد پر آج بھی ریاستی ڈیٹھ اسکواڈ، نیشل پارٹی سے وابستہ ہیں وہ ضرور سوچ لیں اور اپنا وابستگی مکمل ختم کردیں تاکہ وہ تاریخ کی بدنامی سے بچ جائیں۔ کیونکہ حالیہ پاکستانی الیکشن میں نیشنل پارٹی اور ڈاکٹر مالک کا بندہ خاص سردار اسلم بزنجو اور اس کے بیٹے شامیر بزنجو کا شفیق مینگل کے ساتھ جوش و خروش اور خلوص کے ساتھ شانہ بشانہ بلوچ نسل کشی اور توتک واقعے میں ملوث ہونے کا واضح ثبوت ہے تو ایسے بلوچ دشمن قوتوں کے ساتھ ہمسفر اور وابستہ ہونا خود بخود تاریخی جرم کا مرتکب ہونا ہے۔

четверг, 15 ноября 2018 г.

اسیر کارکن حاصل حسرت بلوچ ۔ کریم جان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ
حاصل حسرت جھاؤ گزی میں پیدا ہوئے، پرائمری تعلیم ہائی سکول مشکے سے حاصل کی اور مڈل کی تعلیم ہائی سکول کورک سے پاس کرکے ایف اے میں داخلے کےلیئے تربت چلے گئے۔ ایف اے اور بی اے عطا شاد ڈگری کالج تربت سے پاس کیا، وہ اس وقت بہت چھوٹے تھے کہ ان کے والد محترم وفات پا گئے تھے، ایک ہی ماں کا سہارا تھا، اس کی ماں نے ہاتھوں سے کپڑے سلائی کرکے اپنے بیٹے کو پڑھایا، اپنے منہ کا نوالہ چھین کر بیٹے کی پڑھائی کےلیئے خرچ کیا، ماں نے اپنی تنگ دستی، مجبوری برداشت کرکےاپنی کمائی بیٹے کی پڑھائی کے لیئے خرچ کرتا رہا کہ میرابیٹا، میرا سہارا بنے گا۔ بڑی مشکل سے بیٹے کوبی اے تک پڑھایا، در بہ در کی ٹھوکریں برداشت کرتا رہا، وہ ایک سوشل انسان تھے، بے روز گاری کی وجہ سے انھوں نے بی اے پاس کرنے کے بعد آخر میں ایک غیر سرکاری تنظیم این آرایس پی میں بھرتی ہوئے، وہ اس وقت بلوچ نیشنل موومنٹ جوائن کر چکا تھا۔
آپ شہید واجہ غلام بلوچ کے فکر و نظریہ سے بہت مثاتر تھے، وہ ایک شاعر اور صحافی تھے، 19 اپریل 2014 کی رات تھی فوج نے گاؤں گزی کو 50 گاڑیوں اور 2 ہیلی کاپڑوں کے ذریعے رات کے تقریباً 4 بجے چھاپہ مار کر بلوچی شاعر اور صحافی حاصل حسرت سمیت 45 افراد کو اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے، 5 افراد 70 سالہ ماسٹر نور محمد، غلام جان، نواز علی، طالب حسین اور تاج محمد کو شہید کیا گیا۔ حاصل حسرت اور دولت آج تک لاپتہ ہیں، باقی افراد کو 40 دنوں کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
ایک سال پہلے ایک قیدی جو ٹارچر سیلوں میں حاصل کے ساتھ اکھٹے بند تھا اس کا کہنا تھا کہ میں نے حاصل کو دیکھا تھا، اس نے اپنا قصہ یوں بیان کیا تھا کہ میرا نام حاصل حسرت ہے میں جھاؤ گزی کا رہنے والا ہوں، میں اپنا نام بتانے سے گھبرا رہا تھا، اپنا نام نہیں بتایا ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے نہیں دیتے تھے، ہم ایک ہی کمرے میں بند تھے۔ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھی گئی تھی اور ہاتھوں میں زنجیریں تھیں۔ حاصل حسرت کو فرش پر لٹایا گیا تھا، مغرب کی آزان ہو چکی تھی، ہم نے محسوس کیا یہاں کوئی نہیں ہے، قریب آکر ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے، ہمیں چھوڑ دیا جائے گا حاصل کہنے لگا میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا، رات 4 بجے سے پہلے فوج نے پورے گاؤں کو گھیرے میں لیا ہوا تھا، مجھے میری ماں نے نیند سے اٹھایا، اس وقت سورج طلوع ہونے والا تھا، ہیلی کاپٹروں کی آوازیں آرہی تھیں۔ میرا دامادگھر کے اندرموجود تھا، میں گھر کے سامنے کھڑا تھا میرے آنکھوں کے سامنےمیرے بھائی پر ہیلی کاپٹر شیلنگ کر رہے تھے، چھوٹے چھوٹے بچے گاؤں سے بھاگ رہے تھے، عورتوں اور بچوں کی چیخ وپکار کی آوازیں آرہیں تھیں۔ میں تھوڑا گھر سے دور جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا، ہیلی کاپٹر شدید فائرنگ کر رہے تھے، پہاڑوں پر بھیٹھے ہوئے فوجی فائرنگ کر رہے تھے، ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے کئی لوگ زخمی ہو چکے تھے، کئی لوگوں کو گرفتار کرکے آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھوں کو رسی سے بندھے دیکھا تھا۔ دو آدمی جو سادہ لباس میں گاڑیوں میں سوار تھے، میرے گھر کو جلایا گیا، میری بھیڑ بکریوں کو گھر کے اندر لے جا کرجلایا گیا۔ میری بوڑھی ماں کے ہاتھوں میں قرآن شریف تھا، فوجیوں کو قرآن کا واسطہ دے رہی تھی، وہ کچھ سننے کو تیار نہیں تھے قرآن شریف کو ہاتھ سے چھین کرپھینک دیا گیا، میری بوڑھی ماں اور بہن کو دھمکیاں دے کر تشدد کیا جا رہا تھا، معلوم نہیں کتنے لوگوں کو زخمی اور شہید کیا گیا۔ ایک چھوٹی بچی خون سے لت پت زمین پر گری ہوئی تھی اور ایک بارہ سالہ لڑکے کو کمر میں گولی لگی ہوئی تھی، گولی کی وجہ سے گلہ سوکھ گیا تھا، پانی پانی کر رہاتھا۔ ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ جاری تھا، زمینی فوج گھروں اور جنگلوں سے لوگوں کو گرفتار کر رہے تھے، کچھ گھروں سے قیمتی سامان کو اٹھا کر گاڑیوں میں لاد رہے تھے۔
مجھے گرفتار کرکے آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر چھ فوجیوں نے مارمار کر بے ہوشی کی حالت میں ہاتھ پاؤں پکڑ کر گاڑی میں پھینک دیا۔ گاؤں کے تمام بوڑھوں اور بچوں کو گرفتار کرکے گاڑیوں میں پھینکا گیا اس میں ایک نوجوان اسداللہ کو ہیلی کاپٹروں کی شیلنگ سے پاؤں میں گولی لگی ہوئی تھی، گرفتار کرکے سب کو چھاؤنی میں لے گئے۔ تین دن تک ہمیں اکٹھا رکھا گیا، پھر مجھے الگ کمرے میں لے گئے۔
مجھ پر شدید ٹارچر کیا گیا، میری آنکھوں پر سرچ لائیٹ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں لگا کر لٹکایا گیا، میرے جسم کو بلیڈ سے چیر چیر کرکے زخموں پر مرچ اور نمک ڈالا گیا، میں بے ہوش ہو چکا تھا۔ پتہ نہیں کب ہوش میں آیا، پہلی فجر تھی یا دوسری فجر میں ہوش میں آیا، فجر کی آزان ہو رہی تھی کچھ دنوں تک یہی سلسلہ جاری رہا۔ ایک رات مجھے دوسرے کمرے میں لے گیا، میری آنکھوں کی پٹیاں اتاری گئیں، میرے سامنے کرسی پر ایک سفید پوش بیٹھا ہوا تھا، تفتیش شروع ہوئی، سچ سچ بتاؤ میں تمیں اچھی طرح جانتا ہوں، سچ بتاؤ گے تمیں چھوڑ دیا جائے گا ورنہ کال کھوٹریوں میں سڑتے رہو گے، بتاؤ ڈاکٹر اللہ نذر کہاں ہے؟ تم اللہ نذر سے کب ملے ہو؟ اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ اس طرح کے بہت سے سوالات پوچھے گئے میں حیران رہ گیا، خاموش رہا میں سوچ رہا تھا میں کیا جواب دوں، میرے پاس ان جیسے سوالات کا جواب نہیں تھا، پھر مجھ پر لاتوں کی بارش شروع ہوئی، میں بے بس تھا کچھ نہ کر سکا مجھے گالیاں دیتا رہا، کونسی سزا تھی مجھے نہیں دی گئی ایک تصویر مجھے دکھایا اس کو جانتے ہو میں نے کہاں نہیں جانتا ہوں پھر لاتیں۔
مجھےکہا کہ رہا ہوئے تو جاکر میری ماں کو میرا سلام کہنا، جھاؤ گزی کے ویرانوں میں میرا گھر ہے، وہاں میری بوڑھی ماں رہتی ہے جو دن رات میرا انتظار کرتی ہے، میرے گاؤں گزی کو میرا سلام کہنا، میں ایک چھوٹی سی کال کھوٹڑی میں بند ہوں۔ میرے لیے پریشان مت ہونا، میں لوٹ کر آؤنگا، ٹارچر سیلوں میں بند اپنے بھائیوں کی داستانیں جو فوج کے ہاتھوں سہہ رہے ہیں ان کو سناؤنگا۔

ایک لاپتہ شخص کی کہانی اسکے زبانی ۔ پندران زہری


جب سے میں نے اپنا ہوش سنبھالا ہے، تب سے میں سنتا آرہا ہوں کہ فلاں کو اغوا کیا گیا، فلاں کئی سالوں سے لاپتہ ہے، اسی دوران میرا ایک کزن بھی لاپتہ ہوگیا، تو میں یہی سمجھا کہ کسی شک کے بنیاد پر کسی پولیس تھانے میں بند ہوگا تفتیش کے بعد رہا ہوجائیگا، مگر چھ سال گذرنے کے بعد بھی بازیاب نہ ہوسکا۔ اسی طرح لاپتہ افراد کے تعداد بڑھتا گیا اور میرے دل میں کچھ ہمدردی پیدا ہوگئی ان لاپتہ افراد کےلیے، مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ ہمدردی میرے لیئے وبال جان بن جائیگا۔
2018 فروری کا مہینہ تھا، میں کسی کام سے کراچی گیا، اپنے رشتہ داروں کے گھر کچھ دن گذارنے کے بعد میں بازار گیا واپسی پر میں گھر کے قریب تھا کہ سول وردی میں ملبوس کچھ افراد تھے، جیسے میں پہنچا، آواز آئی یہی ہے، وہ مجھے پکڑ کر میرے ہاتھ پاوں اور انکھوں پر پٹی باندھ کر ویگو گاڑی میں جانوروں کی طرح پھینک کر مجھے لے گئے۔ اسی دوران مجھے گالیاں دی گئیں اور بندوق کے بٹوں سے مارا گیا۔ میری آنکھیں تو بند تھیں، مگر اندازاً 35 سے40 منٹ تک کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے گھسیٹ گھسیٹ کر کسی زیر خانہ کے اندر لے جاکر ایک چھوٹے سے کمرے میں الٹا لٹکا کر لوہے کی پائپ سے
مار کر سوالات کرنا شروع ہوگئے کہ آپ کا تعلق کس تنظیم سے ہے؟
کتنے دھماکے کیئے ہیں؟
کہاں کہاں تم نے کاروائی کیا ہے؟
کتنے بندے تم نے مارے ہیں؟
کراچی کیوں آئے ہو، کسی کو مارنا ہے؟
میرا جواب یہی تھا کہ میں میٹرک کا طالب علم ہوں، میرا کسی تنظیم سے بھی تعلق نہیں، میں نے کسی کو نہیں مارا، میں صرف اور صرف اپنا پڑھائی کرتا ہوں اور میرا بٹوہ آپ لوگوں کے پاس ہے، جس میں میرے تین کارڈز ہیں، ایک اسکول کا ہے اور دوسرے اکیڈمی کے ہیں، یہ باتیں سننے کے بعد مجھے لاتوں سے مار کر چلے گئے۔
اسی چھوٹے کمرے میں، جس میں ہلنا بھی مشکل تھا مجھے بند رکھا گیا، صبح کی جب آذان ہوئی کچھ دیر بعد کوئی آیا، میری آنکھوں کی پٹی کھول کر آدھا کپ چائے دیا اور کہا جلدی پیو. جب میں نے اپنی دائیں بائیں دیکھا، آٹھ دس کمرے تھے، سب میں ایک ایک قیدی بند تھے، جن کی آنکھوں پہ پٹی اور ہاتھ ہتھکڑی سے بندھے ہوئے تھے۔ مجھے باتھ روم جانا تھا، میں نے آواز دیا مجھے باتھ روم جانا ہے، وہاں سے ایک آدمی اکر میرا ایک ہاتھ کھولا، دوسرے ہاتھ کو زنجیر سے باندھ کر ایک سائیڈ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مجھے باتھ روم کے اندر چھوڑدیا، دو منٹ برابر نہیں ہوئے تھے کہ گالیوں کے ساتھ آواز آئی “جلدی کرو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے” میں نکل گیا، مجھے واپس کمرے میں بندکردیا گیا، انکھوں پہ پٹی باندھ کرچلاگیا، تھوڑی دیربعد گذرنے کے بعد تین آدمی آکرمجھے الٹا لٹکاکر مارنا اور سوال کرنا شروع ہوگئے۔
کس تنظیم سے تعلق رکھتے ہو؟
کس کے لیئے کام کرتے ہو؟
اپ کا کمانڈر کون ہے تمہارے ساتھ اور کون کام کرتا تھا؟
میرا جواب وہی تھا کہ میں طالب علم ہوں، میں کسی کے لیئے کام نہیں کرتا اور میراکمانڈر میرے استاد ہیں، جو اسکول میں پڑھاتے تھے، مجھے صبح کے آٹھ بجے سے لیکر دوپہر کے دو بجے تک الٹا لٹکا کر مار کر مجھ سے سوالات پوچھتے تھے۔ دوپہر کے بعد مجھے نیچے اتارا گیا، درد اور زخموں کی وجہ سے بھوک تو نہیں لگا مگر پیاس بہت لگی تھی، میں نے کہا پانی ملیگا بہت پیاس لگی ہے؟ آواز آئی جب تک تم کچھ بتاوگے نہیں، اسی طرح پیاسے اور بھوکے رہوگے۔
کچھ دیر بعد ایک گلاس پانی، روٹی کے چھوٹے سا ٹکڑے پر تھوڑا سا دال دیا گیا۔ میرا پورا جسم خون سےلت پت تھا، زخموں کی درد سے کھانا کھا نہیں سکا، پانی کا ایک گلاس پی کرتھکاوٹ اور درد کی دیوار پر ٹیک لگاکربیٹھ گیا۔ تو وہاں سے کوئی گالی دیتے ہوئے دروازہ کھول کرمجھے مارنا شروع کردیا، کہنے لگا کھڑے ہوجاو، ابھی اگر بیٹھ گیئے میں تمہیں الٹا لٹکادونگا، یہ کہہ کرچلاگیا، دروازے پر دو آدمی تھے، جب بھی تھوڑا سا ہلنے کی کوشش کرتا وہاں سے گالی دیتے، اس دن پورے آٹھ گھنٹے کھڑے رہنا پڑا۔
اس کے بعد دوسرے دن پھر مجھے کسی اور کمرے میں لے گئے، جب میری انکھوں سے پٹی ہٹایا گیا تو وہاں پر آٹھ سے دس بندے تھے، جنہوں نے مجھے الٹا لٹکا کر مارنا اور سوالات پوچھنا شروع ہوگئے، اتنا مارتے تھے کہ جب میں بے ہوش ہونے کے قریب ہوتا تو مجھے تقریباً 20منٹ چھوڑنے کے بعد پھر مارنا شروع ہوئے۔ اس رات مجھے 9 سے لے کر 2 بجے تک الٹا لٹکا کر مارا گیا، اس دوران بھی میرا جواب یہی تھا کہ میں طالب علم ہوں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور میں نے یہی کہا اتنا سزا سے بہتر تھا اپ لوگ مجھے مارتے. مختلف سزا دیکر واپس گھسیٹ کر مجھے اس کمرے میں بند کیا گیا کیونکہ میں خود بہت کمزوری کی وجہ سے چل نہیں سکتا تھا. تھوڑی دیر بعد صبح ہوگیا، میں باربار کہہ رہا تھاکہ پانی ملیگا، وہاں سے آواز آیا کہ اب خاموش ہوجاؤ میں مجبور ہوکر خاموش ہوگیا کیونکہ دوبارہ آواز لگانے پر مار پڑتا تھا۔ اس جگہ پر 12دن میں یہی سزا وہی سوالات پوچھتے تھے۔
دوسرے دن صبح 8بجے کا وقت تھا، مجھے کسی صرف گاڑی میں ڈال کر کسی اور جگہ لے جایا گیا، کسی کرنل کے پاس مجھے پیش کیا گیا۔ سوالوں کی بارش ہوگئی مجھ پر، میں نے کہا باقی سب مجھ پر یقین نہیں کررہے تھے بلکہ یہ کریں. میں نے جواب دیا کہ یہ سارے الزام ہیں، آپ لوگوں کو کوئی غلط فہیمی ہوگئی ہے، میں ایک طالب علم ہوں کیوں میری زندگی کو برباد کررہے ہو؟ یہ سب سن کر وہ وہاں سے چلا گیا، اس جگہ پر مجھے تقریبا 3مہینے رکھا گیا۔ اس دوران مجھے مختلف اذیت دیئے گئے. کرنٹ دینا، پانی میں ڈوبانا، الٹا لٹکا کر مارنا، گرم لوہے سے داغ دینا، یہ سب سزا دیئے گئے۔
میں خود پریشان تھا کہ اتنے جگہ تبدیل کرکے مجھ سے کئی سوالات پوچھنا بلاوجہ، کبھی کبھی گھر بھی یاد آتا تھا کہ کئی مہینوں سے غائب ہوں، کہیں ایسا نہ ہو میرے غائب ہونے کا درد نہ سہتے ہوئے، میرا باباجان اس دنیا میں نہ رہے، میرے آنسوں بہہ رہےتھے اور اس سوچ میں گم تھا کہ دروازہ کھول کر مجھے کسی گاڑی میں ڈال کر روانہ ہوئے 5 گھنٹے سفر ک بعد ایک جگہ پہنچ گیئے. وہاں پر بہت شور تھا گاڑیوں کی اور فوجیوں کی جاتے جاتے، وہاں سے کئی قیدیوں کی آواز آرہی تھی کہ پانی دو، مجھے مت مارو اور چیخنے کی آوازوں میں خواتین قیدیوں کی بھی تھیں۔ جن کے عمر مختلف تھے، کچھ دیر بعد مجھے اس جگہ کے کسی کرنل کے سامنے لے گئے، سوال کرنا شروع ہوگیا، میں بھی تھک چکا تھا، باربار انہی سوالوں کے جواب دینے سے تو میں نےکہا اپ لوگ انسان نہیں حیوان ہو، کیوں مجھے ذلیل کرتے ہو میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔ میں ایک طالب علم ہوں پھر مجھ سے سوال کیا، میں نے جواب دیا ہاں میں نے یہ سب کردیا ہے جتنے بھی دھماکے، قتل وغیرہ ہوئے ہیں بلوچستان میں یہ سب میں نے کیا ہے. میں بھی جذباتی تھا اور کہا کہ اب مجھے مارو، یہ سب میں نے کیا ہے جواب آیا ٹھیک ہے، آپ کو مارینگے بولو کیا وصیت دینا چاہتے ہو۔
میں نے کہاآپ لوگ انسان تو نہیں ہیں، بس میرا ایک وصیت ہے کہ اگر آپ لوگوں نے مجھے مارا تو میری لاش کو میرے علاقے کے قریب پھینکنا تاکہ میرے گھر والے مجھے دیکھ سکیں۔
کچھ دن گزرنے کے بعد مجھےوہاں سے لے گیئے، اب میں یہی سمجھا کہ اب مجھے ماردینگے، میں نے کہا مجھے کہاں لے جارہےہو کہنے لگا اپ نے جو وصیت کی تھی اس پر عمل کررہےہیں، میں نے کلمہ شریف پڑھنا شروع کردیا۔ کسی میدان میں لے جاکر صرف آنکھوں کی پٹی کھول کر ہاتھوں کو نہیں کھولا اور کہا اب پیچھے مت دیکھنا اگر دیکھا تو ماردینگے۔ میں کلمہ پڑھتارہا کہ وہ اپنے گاڑیوں میں سوار ہوکر چلے گئے۔ میں بھی بہت کمزور تھا، تھوڑا سا چلنے کے بعد گرکربےہوش ہوگیاتھا۔ جب میں نے اپنی آنکھ کھولی تو دو تین آدمی تھے مجھے پانی پلا کر اپنے گھر لےگیئے، میں نے انہیں اپنی کہانی سنائی اور اپنے گھر والوں کو بھی بتایا، کچھ گھنٹوں کے بعد مجھے میرے گھر پہنچایا گیا۔
زندگی میں بہت سے چیزوں کے بارے میں میں نے سوچا تھا لیکن اب کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ میں ایک ہٹا کٹا سا نوجوان تھا، ان ریاست کے آلہ کاروں نے کسی شک کے بنیاد پرمیری زندگی کو برباد کرکے رکھ دیا. آج مجھے جسمانی کمزوری اور دماغی کمزوری بہت ہے، ہر مہینے اپنے ڈاکٹر کے پاس جاتاہوں، ہر مہینے میری دوایاں تبدیل کی جاتی ہیں۔ اب اگرزندہ ہوں تو ان دوایوں کی وجہ سےزندہ ہوں۔

среда, 7 ноября 2018 г.

تیرہ نومبر نوکین بنداتے قول ،Novation consent – برزکوہی 

2010کو بی ایس او آزاد کے ایک غیرروایتی، انقلابی اور تاریخی فیصلے میں انگریز قبضہ گیر سے لیکر پاکستان (پنجابی) قبضہ گیر تک بلوچ وطن کے قبضے کے خلاف اور بلوچ قومی آزادی کی حصول کی خاطر اپنی قیمتی جانوں کو قربان کرنے والے تمام بلوچ شہداء کو ہمیشہ اور ہردن یاد کرنے کے ساتھ، سال میں ایک دن یعنی انگریز سامراج کے خلاف لڑنے والے میر محراب خان کی شہادت کے دن 13 نومبر کو تمام بلوچ شہداء کو صرف روایتی انداز میں بطور رسم یاد نہیں بلکہ اس دن ایک بار پھر فکری و شعوری بنیاد اور عزم و جوش اور جذبے کے ساتھ یہ عہدو وفا کرنا کہ شہداءِ بلوچستان کا مقصد اور مشن کو عملاً پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔
اس حقیقت اور مطلق سچائی میں کوئی دورائے نہیں کہ ہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے اور ان میں فرق ہوتا ہے، وہ کبھی برابر نہیں ہوسکتے ہیں، اسی طرح شہیدوں میں بھی عمل، محنت، کردار، فیصلہ، سوچ و اپروچ، ہنر، مہارت اور صلاحیتوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے، وہ برابر نہیں ہوسکتے ہیں لیکن وطن و قوم پر اپنی جان قربان کرنا، غلامی کو قبول نہیں کرنا، دشمن کو تسلیم نہیں کرنا، اپنے آج کو آنے والی نسل اور کل کے لیئے قربان کرنا، سب کا فلسفہ ایثار وقربانی ایک جیسا اور برابر ہے۔
اسی فلسفہ برابری کی بنیاد پر ایک ہی دن یعنی 13 نومبرکو تمام بلوچ شہداء کو پوری بلوچ قوم، ایک ہی مخصوص دن میں خراج تحیسن اور خراج آفرین پیش کرے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ بلوچ قوم آج بھی ایک زندہ قوم کی حثیت سے اپنی سرزمین پر مرمٹنے کو تیار ہے، جس کی واضح مثال بے شمار بلوچ شہداء ہیں اور ساتھ ساتھ مزید بلوچ قوم میں اپنی حقیقی ہیرو اور شہداء کے حوالے سے شعور و آگاہی اور بیداری اجاگر کرنا ہو تاکہ شہداء کے مشن میں ہر بلوچ باہمت اور باحوصلہ ہوکر شانہ بشانہ ہو۔
13 نومبر کا بنیادی سوچ اور مقصد یہی ہے، اس دن کو مزید واضح اور اجاگر کرنے کی خاطر اس دن کو ایک مخصوص اصطلاح سے منسوب کرنا چاہیئے اور “نوکین بنداتے قول”.novation consent کا پہچان دینا چاہیے۔
انسانی زندگی جب اہم مقصد اور قومی و انسانی عمل سے بے مقصد اور بے عمل ہوگا، تو اس کا اختتام موت ہوگا، پھر وہ دنیا سے جسمانی و ذہنی، ظاہری و باطنی سوچ اور وجود سے مرکر فنا ہوگا، ابدی طور پر موت کی آغوش میں چلا جائیگا لیکن شہید جسمانی حوالے سے ضرور دنیا سے جدا ہونگے لیکن اپنی فکر سوچ و عمل کردار اور قربانی کی وجہ سے دنیا میں موجود اور تاابد زندہ رہیں گے۔ یہی زندگی پھر موت نہیں ہوتا اس کو موت کہنا اور موت سمجھنا شہداء کے ساتھ ناانصافی ہوگا۔ بلکہ ایک زندہ کو مردہ کہنا، سراسر غلط عمل ہے اس سے گریز کرنا چاہیئے، شہید کی صرف جسمانی جدائی پر ماتم، تعزیت، سوگ، فاتحہ خوانی، صدقہ و خیرات، دعا کرنا، خود شہید کی شہادت یعنی زندہ رہنے والے فلسفے اور سچائی سے شعوری اور لاشعوری طور پر منحرف ہونے کے مترادف ہے۔
تمام مذاہب خاص کر دین اسلام میں بھی یہی فلسفہ اور دلیل ہے کہ شہید مرتے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور شہید کا نماز جنازہ اور شہید کو کفن اور غسل کی بھی ضرورت نہیں، پھر شہید کو ایسے رسومات میں غسل دینا، کفن پہنانا اور جنازہ پڑھانا یا پھر شہید کے لیئے صدقہ اور دعامغفرت کرنا، کس بات اور کس دلیل کے تحت؟ کیا یہ خود کھلا تضاد نہیں؟ خود شہادت کے فلسفے اور دلیل سے انحراف نہیں ہے؟ یا پھر شہادت کے حقیقی سچائی، فلسفہ، مفہوم اور تعریف سے غیر اطمینان اور تذذب کا شکار ہونے کی علامت نہیں؟ کیا یہ رسومات اور روایات کی زنگ آلود زنجیروں سے ابھی تک محبت کا اظہار نہیں؟
عجیب و غریب، غیرمنطقی و غیرسائنسی، بدبودار، اپاہچ اور بے معیاد رسومات اور روایات کی گندآلودگی میں شہیدوں کی عظیم قربانیوں، عظیم کردار و عمل اور سب سے اہم زندہ ہونے کے فلسفے کو مسخ کرکے شہید کی زندہ و تابندہ ہونے کی دلیل کو موت سے تعبیر کرنا کسی بھی شہید کے ساتھ ناانصافی اور دغابازی نہیں ہے؟
پھر قوم پر اس کے نفسیاتی اور منفی اثرات کیا ہونگے؟ ماتم زدگی، سوگ فاتحہ خوانی کی ماحول میں ہمیشہ ہمیشہ غم پریشانی تکلیف، مایوسی اور بے بسی کا عالم ہوگا اور اس عالم میں جوش، جذبہ، حوصلہ، بیداری، ہمت اور طاقت کا فقدان ہوگا اور یہ ماحول، شعوری اور لاشعوری طور پر ہم خود قوم پر مسلط اور حاوی کرتے ہیں۔
شہید جہاں بھی ہوگا، وہ وطن کی مٹی میں تحلیل ہوکر زندہ ہوگا، اس کا دیدار، جنازہ، قبر، کفن و دفن اور غسل ہونا ہو، تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیئے، وہ زندہ ہے تا ابد زندہ رہیگا، کسی زندہ انسان کے لیئے یہ چیزیں اور یہ روایات نہیں ہوتے ہیں بلکہ مردوں کے لیئے ہوتے ہیں، شہید کو مردہ کہنا یا شہید کی شہادت کے بعد مردوں والے فعل اور حرکات کرنا شہید کی شہادت سے انکاری ہونا ہے۔
اگر ہم پانچ منٹ کے لیے یہ سوچ لیں، ہم اپنی تمام روایتی اور فرسودہ روایات کا احترام کرکے ان کی پاسداری کریں تو اس حالت جنگ میں کیا ممکن ہوگا؟ تمام شہیدوں کو رسم و رواج کے مطابق ان کو ان کے آبائی علاقے پہنچانا، خاندان کا دیدار کروانا، آرام سے دفن اور کفن کروانا، فاتحہ خوانی کروانا، کیا اس حالت جنگ میں ممکن ہے؟ پھر کیا ہزاروں کی تعداد میں پہاڑوں، جنگلوں میدانوں اور اجتماعی قبروں سے نکلے ہوئے انتہائی مسخ شدہ اور نہ قابلِ شناخت شہداء کا پھرکیا ہوگا؟ ان سب کے لیئے الگ الگ رسومات کے مطابق نماز جنازہ، فاتحہ خوانی، صدقہ، کفن و دفن وغیرہ ممکن ہوگا؟ اگر نہیں تو پھر کیا باقیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگا؟
اسی تناظر میں بی ایس او آزاد نے یہ فیصلہ کیا کہ بلوچ قوم اب حالت جنگ میں ہے، جنگ مزید شدت اختیار کریگی، شہید زیادہ ہونگے، ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہونگے، پھر ان سب شہداء کی ایک ایک دن الگ الگ یاد میں پروگرام منقعد کرنا ممکن نہیں ہوگا، چند شہداء کی یاد میں پروگرام منعقد کرنا باقی شہداء کو نظرانداز کرنا، خود شہداء کو تقسیم، گروہ بندی، سطحی اور محدود سوچ اور اپروچ کی عکاسی کرتی ہے، لِہٰذا بی ایس او آزاد آئیندہ ایسے عمل اور سوچ کا مرتکب نہیں ہوگا، آج پوری بلوچ قوم اس سوچ کو قبول کرچکی ہے۔
اس حالت جنگ میں بس شہداء بلوچستان کے لیئے صرف یہی مخصوص دن 13 نومبر بطور (نوکین بنداتے قول)ہونا چاہیئے اور اسی دن ایثار و قربانی کی حدتک تمام شہداء کو بلاتفریق، جوش و جذبے، بطور جشن، دھوم دھام سے یاد کرنا (نہ کہ ماتم تعزیت سوگ، برسی، فاتحہ خوانی، صدقہ وغیرہ) ان کے مشن کو عملاً پایہ تکمیل تک پہنچانے کا یہ عہد کرنا کہ شہداء کے خون کا بدلہ صرف اور صرف قومی آزادی ہے، اس سے کم اور کچھ نہیں، جب شہداء کی سوچ، یہی مقصد اور احساس و شعور ذہن پر سوار ہو تو کوئی بھی انقلابی کبھی بھی موقع پرستی، مفادپرستی اور غلط رخ اور غلط سمت سفر کرنے کا مرتکب نہیں ہوگا، جب یہ احساس مفلوج، معذور اور کمزور ہوگا تو بھٹکنا بھی ممکن ہوگا۔
تو اسی احساس کو قومی سطح پر شعوری اور پختہ انداز میں اجاگر کرنا، قومی تحریک کے لیئے سود مند ثابت ہوگا شہداء بلوچستان قومی تحریک کے اصل ہیرو اور اصل سرمایہ ہیں انہی کی احساس اور احساس کی پختگی اور وسعت میں قومی تحریک کی کامیابی پوشیدہ ہے۔

понедельник, 5 ноября 2018 г.

منظور مایوس اور کنفیوز ہے؟ – برزکوہی 

اگر کل کی طرح آج بھی میں بذات خود جذباتیت، جنونیت، جاہلیت، آئیڈیلسٹک، روایتی شخصیت پرستی اور تقلیدپرستی کی اندھادھند گردآلودگی میں غرق و ترق ہوتا تو میں ضرور بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے پہلے کنوینشن کے بعد منقعدہ پروگرام میں بلوچ دانشور، ادیب اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ صاحب کی کڑی تنقیدی شعوراور حقائق پر مبنی تقریر کو سن کر کہتا واجہ منظور صاحب ابھی بھی مایوس اور کنفیوز ہیں، حسب روایات روایتی انداز میں ماضی کی طرح منظور صاحب کی مجلس اور دیوان سے جب اٹھتے تھے، بعد مجلس و گفتگو ہماری اکثر مخالفانہ اور نقطہ چیں آراء ایسا ہی ہوتا مگر آج نہیں۔۔۔
کل کسی دوست نے مجھے وٹسپ پر واجہ منظور صاحب کی ایک تقریر کا وڈیو بھیجا، تو جب سننے اور سمجھنے کی جسارت کی تو منظور صاحب نے صرف ایک یا دو موضوعات پر بحث نہیں کی کہ میں ان کو زیر بحث لاکر ان پر تجزیہ کروں یا روشنی ڈالوں بلکہ منظور صاحب مختلف موضوعات کو لیکر خاص کر بلوچ سماج، قبائلی روایات، بلوچوں پر ظلم و جبر، بربریت، نام نہاد قوم پرستوں، دانشوروں کی بے حسی، لالچ و خوف اور منفی کردار کے ساتھ قومی تحریک کی کمزوریوں، خامیوں، قیادت کی نالائقیوں، تحریک میں اہم جز لٹریچر کے فقدان، سوشلزم کے نام پر موقع پرستی، خودغرضی، مراعات پرستی کی بھاگ دوڑ اور بلوچ میر، معتبر، سرداروں اور نوابوں کی پاکستان کے ساتھ فرمانبرداری، چاپلوسی خاص طور پر بلوچ قوم میں پائی جانے والی جنگی نفسیاتی اثرات، فرسٹریشن اور ڈپریشن والی نبض پر ہاتھ رکھ کر بلوچ قوم کو ان خطرناک اثرات سے انتفاء کرنے کی خاطر غیررسمی تعلیم و ذہنی تربیت، ادب، نثر اور اشعار پر زور دیا اور ان کی بار بار فقدان کی نشاندہی کی۔
انقلاب فرانس کے دوران ژاں پال سارتر کی فلسفہ وجودیت کا ذکر کرکے فرانسیسی عوام کو جنگ عظیم کے منفی نفسیاتی اثرات سے انتفاء کرنے کی اہم وجہ قرار دیا۔ گوکہ منظور صاحب کی چند باتوں سے اختلاف سہی بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے وہ قابل بحث اور قابل غور و تحقیق ضرور ہیں۔ مگر مجموعی حوالے سے پورے پرمغز تقریر کو اگر حقیقت اور حقائق کی بنیاد قرار دیا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ میں پہلے بارہا کہہ چکا ہوں ہماری قبائلی روایات کی تشریح مفہوم اور معیار آج صرف ذاتی خواہشات، مفادات اور پسماندہ ذہنیت کی ذہنی سکون اور ذہنی اختراع کی حد تک محدود ہوچکے، جہاں ہماری ذاتی خواہش، ضرورت، مفادات اور لالچ کارفرما ہو۔ وہاں روایات کی پاسداری دعویٰ اور رٹے بازی موجود ہوگا۔ جہاں اجتماعی اور قومی مفاد ہو وہاں حقیقی روایات دم توڑ دینگے۔ جس طرح واجہ نے سردار یار محمد رند کی عمران خان کے ہاتھوں بے عزتی، کرسی سے اٹھانا یا ایک ایف سی کی معمولی میجر کی ایماء پر آپسی قبائلی جنگ کا شروع کرنا اور ختم کرنے کی مثال پیش کی یہ بلکل حقیقت ہے آج بلوچ قبائلیت اتنے حد تک بدبودار اور اپاہچ ہوچکا ہے کہ ایک عام بھکاری کا بھی ایک معیار ہوتا ہے، مگر اپاہج قبائلیت کا اس حد تک بھی کوئی معیار نہیں ہے۔ یہ اب صرف اور صرف روایات اور قبائلیت کے نام پر صاف ستھرا، چاپلوس اور بیکاری بن چکے ہیں، لالچ اور خوف کے علاوہ بلوچ قوم میں رضاکارانہ طور پر ان کا ایک ٹکہ بھی حیثیت اور ہمدردی نہیں دشمن کے سامنے ویسے ہی ان کی حیثیت صرف گند صاف کرنے والے ٹشو پیپر کی ہے۔
واجہ منظور بلوچ نے تعلیم یافتہ طبقے کے حوالے سے کیا خوب کہا کہ یہ ڈگری یافتہ جاہل اور نالائق ہیں، اگر دیکھا جائے لارڈ میکالے کی طرز تعلیم کو پاکستان نافذ کرکے واقعی کلرک پیدا کرنے کی حدیں پار کرکے بلوچوں میں بے حس نوکر، ملازم، تعبیدار، منافق، چاپلوس، خود غرض، موقع پرست اور مفاد پرست پیدا کرچکا ہے۔ ڈگری یافتہ جاہل اور نالائق سرزمین، قوم اور قومی تحریک سے بیگانگی اپنی جگہ اپنے ماں باپ اور خاندان سے بھی لاتعلق اور بیگانہ ہورہے ہیں۔
بلوچ ادیب اور دانشوروں کے بارے میں واجہ منظور صاحب نے جو رائے قائم کی، تو میں کہتا ہوں یہ دانشور ہی نہیں ہوسکتے ہیں، نام نہاد اور دعوے و دکھاوے کی حد تک ضرور دانشور ہیں مگر دانشوری کی حقیقی معیار اور علمی تعریف پر ہرگز نہیں اترتے ہیں۔
علمی تعریف اور معیار کی مطابق حقیقی دانشور وہ ہوتے ہیں، جو ہمیشہ خوف و لالچ، خود غرضی، موقع پرستی اور مصلحت پسندی سے مبرا ہوکر غیرجانبداری اور انصاف کے بنیاد پر سچائی کو بیان کرکے ایسے سوال اٹھاتے ہیں کہ دوسرے لوگ وہ سوال نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں یا وہ بیان کرتے ہیں، جو دوسروں کے دماغ میں نہ ہوں اور سماجی فرسودہ روایات تحریکی اور قیادت کی کمزوریوں کو انتہائی بے رحم انداز میں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ بلاخوف و بلالالچ ہر ایک پر سوال اٹھاتے اور تنقید کرتے ہوئے، اصلاح و بہتری کے لیئے نئے تخلیق وخیالات اور تجویز پیش کرتے ہیں۔ حقیقی دانشور کبھی بھی یہ خوف نہیں دکھاتے کہ لاکھوں لوگ اور پورا ایک ہجوم میرے خلاف ہوگا، میں ہدف تنقید اور ہدف نفرت نشان بن کر تن و تنہاء رہ جاوں گا۔ کسی کا بھی میرے ساتھ ہمدردی اور حمایت نہیں ہوگا بلکہ وہ وقتی رونما ہونے والی تمام صورتحال کو نظرانداز کرکے اپنی آراء اور ادراک کو مستقبل میں صحیح اور حقیقت کی روپ میں تصدیق اور قبولیت پانے کی ہمیشہ سوچ میں ہوتے ہیں، سچائی اور حقائق بیان کرنے پر دانشوروں کو معاشی بدحالی اور جان چلی جانے کی نوبت بھی آتا ہے، مگر وہ پرواہ نہیں کرتے ہیں۔
آج جس طرح واجہ شہید صباء دشیاری کے بعد واجہ منظور بلوچ انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ دوٹوک الفاظ میں سچائی اور حقائق کو بیان کررہا ہے، انکی تحریر، تقریر اور شاعری میں جو قابل ستائش عمل ہے اس پر کھٹن اور پرآزمائش دور میں واجہ کو یہ بھی معلوم ہے کہ کانٹوں سے سجے ہوئے اس سفر میں ہرجگہ ہر مقام اور لمحہ بہ لمحہ سقراط والے زہر کا پیالہ بھی رکھا ہوا ہے، اس کے باوجود شعوری اور علمی بنیاد پر اپنی قومی اور علمی فرض نبھانا تاریخ ساز دور میں تاریخ ساز عمل ہے۔
کاش یہ خواب اور تصور ایک حقیقت ہوتا، آج دنیا کی دیگر تحریکوں اور ان کے قیادت کے آس پاس کی طرح بلوچ قومی تحریک اور بلوچ قیادت کے آس پاس واجہ صباء صاحب اور واجہ منظور بلوچ جیسے دانشور ہوتے پھر اس وقت بلوچ تحریک اور بلوچ قیادت اس حد تک خوشامدپسندی، چاپلوسی، جی حضوری اور صفت و ثناء خوانی کی بھینٹ نہیں چڑھتی۔ مگر بات وہیں آکر پھر رک جاتا ہے، جیسا منہ ویسا تھپڑ، جیسا ہو جس طرح ہو آس پاس ویسا ہی بندہ آسانی سے ملے گا۔ کیونکہ نالائقوں کے ساتھ رہ کر اپنی نالائقیوں کو چھپانا آسان ہوتا ہے، اسی لیئے باعلم اور لائق لوگوں سے دور رہنا اصل میں اپنی حقیقت کو چھپانا ہی ہوتا ہے۔
فیڈل کاسترو کو کیا خوف تھا، اس کے قریب سارتر اور ڈاکٹر چے گویرا تھے، کیونکہ وہ خود باعلم، باعمل و باکردار اور مکمل انسان اور رہنماء تھے اسے چاپلوسی، صفت و ثناء، سستی شہرت اور تعریف کی بھوک نہیں تھی بلکہ تنقید برائے اصلاح اور مزید اپنے کردار اور عمل میں نکھار پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔
واجہ منظور صاحب نے تحریک میں لٹریچر پر زیادہ زور دیا، آج بلوچ تحریک میں لٹریچر کے حوالے سے یعنی تحقیق اور تخلیق کے میدان اور سیکٹر میں کیا ہورہا ہے؟ کس حد تک کام توجہ اور دلچسپی ہورہا ہے؟ لٹریچر کی اہمیت اور افادیت کے بابت آج تک دنیا کے تمام انقلابی لیڈروں اور دانشوروں کا موقف یکساں رہا ہے کہ تحریک کے لیئے لٹریچر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے بغیر تحریک میں بہتری و ترقی ممکن نہیں۔ پھر لٹریچر کے حوالے سے بلوچ قومی تحریک کہاں پر کھڑا ہے؟ کیا ہورہا ہے اور کب ہورہا ہے؟
آج عام بلوچ اور بلوچ نوجوانوں کی بلوچ قومی تحریک اور قیادت کے حوالے سے نقطہ نظر اور آراء اپنی جگہ مگر بلوچ دانشور صورت خان مری، واجہ منظور بلوچ، انورساجدی وغیرہ کی آراء اور نقطہ نظر کیا ہے؟ اس پر کبھی کسی نے سوچا ہے اور غور کیا ہے؟ یا یہ سارے غلط ہیں؟ صرف ہم من و عن صحیح ہیں؟ پھر تقریباً 15 سال قبل واجہ صورت خان و منظور بلوچ جو آراء پیش کررہے تھے آج ہم وہی صورتحال سے گزر رہے ہیں، ہم اس وقت بھی جذباتی ہوکر سب کو غلط قرار دے رہے تھے، وہ آج جو بھی کہہ رہے ہیں، ہمارا موقف اور نقطہ نظر کیا ہے؟ وہ غلط اور ہم صحیح ہیں؟ تو کل ہمارا موقف کیا ہوگا؟
یہ ساری باتیں، مایوسی اور الجھن کے نہیں، مکمل حقیقت پر مبنی ہیں جب ہم حقائق کو سمجھ جائینگے تو بجائے بغلیں بجانے، خوش فہمی کے شکار ہونے، بھڑک بازی اور اپنی منہ میاں مٹھو بننے کے مصداق سے نکل کر بے چینی کی کیفیت کا شکار ہوکر بہتری کے لیئے ضرور ہاتھ پاوں مارنا شروع کرینگے، وگرنہ بس ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر ہر چیز اچھا، خیرخیریت سے سب کچھ کھودینگے۔
میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ تقلید پرستی، کنویں کے مینڈک والی مثال اور طرز عمل سے نکل کر ہمیں سوچنا چاہیے کہ میرے نزدیک سوچ اور خیالات کے حوالے سے ہم کافی پیچھے کھڑے ہیں، آگے آنے کے لیے اصل حقیقت کو سمجھنا ہوگا اور قدم اٹھانا ہوگا۔ بجائے کل ہمیں یہ کہنا پڑے، ہم غلط تھے سوچنے سمجھنے اور نقطہ نظر کی حد تک پھر کوئی فائدہ نہیں، وہ خود پشیمانی میں شمار ہوگا، پشیمانی خود انسانی زندگی میں مثبت عمل نہیں بلکہ منفی اثرات مرتب کریگا، جس سے اپنے آپ کو تحریکی دوستوں اور قوم کو بچانے کے لیے اصل سچائی اور حقائق کی بنیاد پر وسیع و عریض انداز میں شعوری بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، اسی وجہ سے قومی جنگ کی منظم شکل و شدت کے ساتھ ساتھ لٹریچر خود بخود پوری قوم کو ڈپریشن اور فرسٹریشن سے نکال سکتا ہے۔
بلوچ دانشور، ادیب اور شاعروں کی اس وقت قومی تحریک میں فعال کردار وقت کی اہم ضرورت ہے، وہ ایمانداری، خلوص، بلاخوف، بلاخاطر اور بلالالچ سارتر، فینن، میکسم گورکی، ایڈورڈ سعید، والٹیئر وغیرہ کی طرح عملی طور پر اپنا کردار نبھائیں۔