Powered By Blogger

пятница, 23 ноября 2018 г.

(شہید رازق رازی عرف بلال بلوچ کا آخری تحریر جو اسنے کراچی چینی سفارت خانے پر حملے سے ایک گھنٹہ پہلے اپنے فیسبک پر پوسٹ کیا تھا. دیوان ء خاران)
رخصت آف آوار ون سنگت آک❤️
میں کیا ہوں ؟
تحریر: جلال بلوچ
اکثر کبھی فراغت کے لمحات میں خود کے بارے میں سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہوں کے آخر میں ہوں کیا چیز ؟میری اوقات کیا ہے ؟یہ ذندگی کیا ہے ؟ذندگی کیا مقصد کیا ؟کیا میرے ذندگی بامقصد ہے ؟کیا بے مقصد ذندگی بھی کوئی ذندگی ہوتا ہے ؟
حتیٰ کہ بعض مرتبہ بے قابو ہوکر اٹھ جاتا ہوں آہینے کے سامنے کھڑا ہوکر آہینے کی شفافیت کے سامنے آ کر خود کو ایک لمحے کے لیے غور سے دیکھتا ہوں خود کو صیح معنی میں پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں۔ کہ جب میری تخلیق ہو چکی تھی تو میرا فنا ہونا بھی اٹل اور فطری ہے کیونکہ ہزاروں سالوں سے مجھ سے بھی نایاب و باوقار انسان اس سرزمین پہ جنم لے کر فنا بھئ ہو چکے ہیں۔ کیوں فنا ہوچکے ہیں ؟کیا میں بھی فنا ہوجاوں گا ؟کیا میرا جنم اس دنیا میں صرف فنا ہونے کے لیے ہوا تھا ؟اگر مقصد فنا ہونا تھا ؟تو جنم لینا کیوں ؟کیا فناء کے لیے جنم لینا اور جنم لیکر پھر فناء ہونا عجیب منطق نہیں ہوا؟
میں آخر کیوں فناء ہوتا ہوں ؟میں خود فناء ہوتا ہوں ؟یا کوئی اور قوت مجھے فناء کردیتی ہے ؟نہیں بقول فلسفی سارتر کے انسان اپنی وجود کے بعد اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے تو پھر میں اپنے ہاتھوں خود کو کیسے فناء کردوں ؟کیا میں بے وقوف اور آحمق ہوں ؟کیا بامقصد ذندگی اور بامقصد موت فناء کی ذمرے میں شمار ہوتا ہے ؟نہیں میرے خیال میں ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔
یہ سب کچھ سوچنے اور غور کرنے کے بعد اپنے اندر پلنے والی انا پرستی فخر، غرور کا سوچتا ہوں تو ایک دم گھبرا جاتا ہوں کہ چند دنوں کا مسافر جو ایک عارضی سفر پر محو سفر ہوکر ایک دن جانا ہی تو ہے یہ سب جاننے کے باوجود یہ سب تصورات اور الجھاوں کے ساتھ الجھ کر کیسے میں پل و چل سکتا ہوں ؟
پھر اچانک سے یہ خیالات میرے حقیر سے وجود کو اپنے گہرے میں لیکر آ جاتے ہیں کہ یہ تو شاید شیطان کا کام ہے وہ شیطانی کر رہا ہے؟ لیکن پھر سے یہ بھی یاد آجاتا ہے کے شیطان تو ایک مہینہ (رمضان)میں قید ہو جاتا ہے پر اس وقت بھی ہمارا یہی حال رہتا ہے کیوں ؟
کیا پرتضاد اور تذذب کا شکار اپنے اندر خود ایک شیطان نہیں ہوتا ہے ؟کیا وہ خود اپنے اندر شیطان بن کر دوسرے نامعلوم شیطان کو موردالزام نہیں ٹھہراتا ہے ؟کیا یہ اپنے ساتھ خود ایک فریب نہیں ہے ؟یا منافقت نہیں ہے ؟اگر جواب ہاں میں ہے ؟تو مجھے پرفریب اور منافقت سے انتہائی نفرت ہے میں کبھی منافق اور پرفریب انسان نہیں بن سکتا ہوں ۔
یہ میر مصصم ارادہ اور مستقل مزاجی کا عزم ہے اب میں دیکھوں کوئی شیطان آکر مجھے سبق سکھاہے اور قاہل کرے میں ایک بار نہیں ہزار بار اس کو چیلنج کرتا ہوں ۔۔۔
مطلب یہ سب کچھ ہم اپنے فطرت بنا چکے ہیں اور ہم اس وقت تک یہ ختم نہیں کر پاہینگے جب تک ہم خود سے لڑنا نہ سیکھ لیں اپنے اندر کے انا پرستی کو مارنا سیکھ نہ لیں اور خود میں خود پیدا کردہ الجھنوں سے نہیں نکل سکھے کچھ جگہوں پہ رشتوں اور انسانیت کے اصولوں کے سامنے جھکنا سیکھ نہ لیں
اور یہ سب ایک انسان کر سکتا ہے لیکن صرف اس سوچ نے ہمیں تباہ کر رکھا ہے کہ پہلے میں ہی کیوں اگلا کیوں نہیں؟
یہ بہانے جھوٹ بذدلی اور منافقت کے علاوہ کچھ نہیں ۔
اس وقت تک ہمارے اندر کا غرور اور تکبر نہیں مر سکتا جب تک ہم رشتوں اور انسانیت کی رسی کو تھامنے کے واسطہ جھکنا سیکھ نہ لیں کیوں کے یہ سب ایک مسافر کو زیب نہیں دیتا جو چند سالوں کے لیے اس سر زمین کا حصہ ہے اور پر باقی تمام لوگوں کی طرح یہ بھی دنیا چھوڑ کر اسکے وجود کا خاتمہ ہوگا۔۔ توکیوں نہ کچھ ایسے کریں جو انسانیت کی سربلندی اور مشعل راہ نہ ہو۔ کرے اپنی قوم و سرذمین کیلئے سرخرو ہوکر ہمیشہ فناء نہیں ذندہ ہونا کیا کمال کی بات نہیں ہوگا
؟

Комментариев нет:

Отправить комментарий