Powered By Blogger

вторник, 31 июля 2018 г.

ہر راز دار کا ایک راز دار ہوتا ہے – نودان بلوچ


ایک بار پھر سے اپنے اندر کی کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر لکھنے جا رہا ہوں۔ وہ کمزوریاں جن کی وجہ سے ہم نے بہت سے نقصان اٹھائے ہیں اور اب تک انہی کمزوریوں کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں.
بچپن میں جب میں اس قدر باشعور نا تھا اپنے چچا کے ہمراء کہیں جا رہا تھا، تو انہوں نے اپنے اور اپنے دوستوں کے بیچ کا ایک راز مجھے بتا دیا اور کہا کے یہ بس میں تمہیں بتا رہا ہوں کسی تیسرے کو مت بتانا اور اچانک باتوں باتوں میں وہ کسی سوچ میں گم ہوگئے، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کے ہر ایک رازدار کا ایک رازدار ضرور ہوتا ہے۔ مزید کہنے لگے کہ میں آپکو اپنا رازدار سمجھ کر یہ راز افشاں کر رہا ہوں آپ اپنے کسی رازدار کے ساتھ بیٹھ کر یہی باتیں کروگے اور خبردار خرقگے خہ یہ راز ہے کسی کو مت بتانا، پھر وہ بھی اپنے کسی رازدار کے پاس یہی باتیں کہے گا اور اسی طرح خبردار کرےگا ہو سکتا یے خبردار والا عمل یہیں سے ختم ہو جائے اور اس طرح چلتے چلتے یہ راز مجھ تک واپس پہنچے گا تب یہ راز راز نا رہیگا۔
اس وقت مجھے اسکی باتیں سمجھ نا آئے لیکن جیسے زندگی کے حالات بدلتے گئے اور چیزوں کو سمجھنے لگا تو آج یہ بات یاد آگئی کے واقعی میں ویسا ہی ہے جیسا چچا نے مجھ سے کہا تھا ہر ایک رازدار کا ایک رازدار ہوتا ہے۔
بھروسہ مظبوط سنگتی کی بنیاد ہوتی ہے اور بھروسے کی بنیاد رازداری ہے، جب آپ کے راز آپکے اندر ہیں آپ ایک چٹان کے مانند مظبوط ہو، جو کسی بھی طوفان کا بآسانی مقابلہ کر سکتے ہو آپکی رازداری آپکو ٹوٹنے نہیں دیگی، جیسے بھی حالات آجائیں آپ خود کو ان مشکل وقتوں سے بچا سکو گے اگر آپ نے اپنی راز اپنے اندر ہی رکھے ہیں تو!
آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں ہم ایسے سوفٹویر کا استعمال کرتے ہیں، جس میں ہم اپنے پرائیویٹ ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں تو ہم بھروسہ کے بنیاد پر سب کچھ اس میں رکھتے اور یقین کرتے ہیں کے یہاں ڈیٹا محفوظ ہے۔ مگر یہ بھروسہ کسی انسان پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سوفٹویئر ہمارے کنٹرول میں ہے لیکن انسان کو بدلتے دیر نہیں لگتا کبھی دوست تو کبھی دشمن تو اگر مضبوط رہنا ہے تو اپنی کمزوریاں بس خود میں بنا کر رکھو۔
لیکن اگر ہم ان میں سے ہیں کہ ہر تیسرا دوست ہمارا رازدار ہے تو ہمیں ایک ہوا کا جھونکا بھی ریت کی طرح اُڑا دیگا۔ جب ہمارے راز سرِعام ہوں ہر تیسرا بندہ جانتا ہو کے میری کمزوری کیا ہے تو وہ مجھے باآسانی شکست دے سکے گا۔ وہ میرے کمزوریوں کو لیکر مجھ پے حملہ کریگا لیکن یہ غلطی اسکی نہیں جو مجھ پے زورآور ہے، کمزوری مجھ میں ہے کہ میں نے اپنے کمزوریاں اپنے ہر اٹھنے بیٹھنے والے کو بتاوں، یہی سمجھ کر کے یہ میرا رازدار ہے تو یہ ہماری ناسمجھی ہے۔
یہ بیماری ہمارے پورے جسم میں ہے، اگر بیماری ایک ہاتھ میں یا پاوں میں ہوتا تو اُسکو آپ کاٹ سکتے ہو، بنا ہاتھ یا پاوں کے چل پھر سکتے ہو۔ کام بھی کر سکتے ہو پر جب پورے جسم میں یہ بیماری ہو تو پھر چلنے کے قابل بھی نہیں رہتے، ہمارے دوستوں میں یہ بیماری عام ہے اور قابل غور چیز یہ ہے کے یہ بیماری لاعلاج تو نہیں لیکن پھر بھی ہم نے کبھی اس کے علاج پر زور نا دیا اور اب پورے طورپر اس مرض میں مبتلا ہیں اور اس وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے وہی ایک معزور بوڑھے شخص کی طرح رینگتے رینگتے چل رہے ہیں کیونکہ ہم نے کبھی اپنے تنظیمی راز اپنے اندر نہیں رکھے اور ہر دوسرے کو اپنا رازدار سمجھ کے تنظیمی راز دیتے گئے اور جانے انجانے میں اپنے کچھ ایسی تنظیمی اور ذاتی راز باہر نکالتے ہیں کہ جو ہمیں اپنے آخری سانس تک اپنے اندر چھپائے رکھنے ہوتے ہیں، اسکو ہم اپنے کسی دوست یا دوست سے بڑھ کر کسی اپنے کو بتا دیتے ہیں
المیہ یہ بھی ہے کہ کمزوری اوپر سے ہے۔ بغیر جانچ پڑتال ہر دوست کو تنظیمی راز دیتے ہیں خفیہ مشنوں کا حصہ بناتے ہیں اور ہیروازم کا شکار دوست خود کو تنظیمی دوست ظاہر کرنے اور اپنے نام کیلئے کچھ ایسی باتیں ظاہر کرتے ہیں جو آگے چل کر ہمارے گلے میں پھانسی کے پھندے کی طرح ہونگے لیکن جب پھندہ گلے میں ہو تو بس جان ہی جائیگا۔
جو چیزیں ہوئی نہیں ہیں آگے ہونے والے ہیں، یہ بھی غیر تنظیمی دوستوں اور ہمدردوں کو پتا ہوتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے تو یہ سب تنظیموں میں رازداری نا ہونے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ سب ہماری غلطیاں ہیں، جلدی لوگوں پر اعتماد کرکے انہیں تنظیمی رازوں سے آگاہ کرتے ہیں اور پھر انہی کے غلطیوں پر رونے لگتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کے اتنے شہادتوں’سینکڑوں دوستوں کے اغواء ہونے اور خفیہ مشن پر دوستوں کی شہادت کے باوجود بھی ہم سمجھ نا پائے اور خود میں بہتری نا لاسکے۔
یہی کمزوری مسلح تنظیموں سے لیکر سیاسی تنظیموں میں عام ہے، اگر میں کسی تنظیم کا کارکن ہوں، مجھے ایک مشن یا کسی چیز کا حصہ بنایا جاتا ہے تو جتنی باتیں وہاں مجھے بتائے جاتے ہیں، سکھائے جاتے ہیں، تو وہ باتیں میں اپنے کسی ذاتی دوست کے ساتھ بیٹھ کر وہی باتیں ظاہر کرونگا، یہی سوچ کے کہ یہ میرا رازدار ہے اور کئی دفعہ ہم غلط ثابت ہوتے ہیں، لیکن یہ کمزوریاں اوپر سے نیچے سب میں ہیں اس کو سدھارنے کا عمل خود سے شروع کرنا ہے۔
ہر چھوٹے بڑے دوست کو ان چیزوں کا حصہ نا بنائیں جو ذہنی حوالے سے پختہ نا ہوں، وہ کبھی آپکے رازوں کو اپنے اندر نہیں رکھ سکتے تو پہلے اپنے دوستوں کو تیار کریں پھر انہیں ہدف دیا جائے اور اپنے اندر کی باتوں سے آگاہ کیا جائے
مسلح تنظیموں کی بات کی جائے تو کچھ ایسے غیر سنجیدہ دوستوں کی کہانیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں، جو سرمچاری کے نام پے محبوباوں سے رابطہ رکھنا تنظیمی راز دے کر خود کو ہیرو ثابت کرنا، جب تنظیم کی طرف سے کوئی مشن ملے اور جب ٹارگٹ پر پہنچے تو اس محبوبہ کو فون کرکے بولا جاتا ہے کے اب سنو ڈر کا آواز۔
ایسی کہانیاں ہمارے سامنے ہوئے ہیں جب ہم اپنے مشنوں،رازوں اور کاموں کو ایسے سرعام بتا دیں تو ہم سوچ نہیں سکتے کے ہم کن نقصانوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
بلوچ تحریک کے مسلح اور سیاسی تنظیموں میں سب سے زیادہ جس تنظیم کے حکمت عملی اور پالیسیاں اچھے لگے، وہ تنظیم بی ایل اے ہے کیونکہ وہاں پر رازداری کے حوالے سے قانوں تھوڑا سخت ہے اور ان چیزوں کا زیادہ اہمیت دیا جاتا ہے اور یہ نہایت بہترین عمل ہے۔ اپنے تنظیم کے رازوں کو اپنے نئے دوستوں کو نا دینا انہیں ہر چیز سے واقف نا کروانا، جب تک وہ پورے طور پر تیار نا ہوں تو شاید یہ حکمت عملی سارے تنظیموں کو اپنانا چاہیئے تاکہ مستقبل میں نقصانات سے بچا جا سکے۔
ہر کارکن کو سمجھایا جائے کے ایک ایک گوریلہ سپاہی کی اولین خوبی رازداری ہے وہ کسی سے خاص نہیں دکھتا، گوریلہ سپاہی خود میں ایک عام سا ہی رہنے والا شخص ہوتا ہے۔ گوریلہ جنگ میں گوریلہ سپاہی کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے کام کو سر انجام دیکر وہاں سے با حفاظت نکلے، گوریلہ سپاہی کا سب سے پہلا مقصد خود کی جان حفاظت میں رکھ کر دشمن کو نقصان پہنچانا ہے، گوریلہ کے اصول خود کو محفوظ رکھنا اپنے کاروائی سے عام عوام کو نقصان نا پہنچانا اور ایک چھوٹے ہتھیار سے زیادہ دشمن کو نقصان دینا اور ٹھکانے بھیس بدل کر رہنا ایک جگہ ہمیشہ کسی ہوٹل یا کسی ایک چوک پر زیادہ وقت نا گذارنا۔ راز داری گوریلہ کا سب سے اہم جز ہے ایک گوریلہ اپنے راز آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے بھی ہمکلام نہی کر سکتا، عام لوگوں میں رہنا روشنی سے زیادہ اندھیرے کا فائدہ اٹھانا اور چھپ کر وار کرنا وار کرکے پیچھے ہٹ جانا ہے، اصول ایک گوریلہ کو مکمل گوریلہ بناتے ہیں۔
ہم بھی خود کو گوریلہ کہتے ہیں لیکن جہاں دشمن کو اصل گوریلہ کو پہچاننے میں مشکل ہوتا ہے، وہیں ہم کو ہمارے ہاں ایک عام شخص کیلئے پہچاننا بہت آسان ہے، ہم میں بہت کمزوریاں ہیں ہمارا پہچان بہت آسان ہے، کیونکہ ہم اپنا پہچان اپنے ہاتھ میں رکھ کے گھوم رہے ہیں۔ جو بھی ملے اسکے ہاتھ میں دے کر نکل جاتے ہیں اپنے کسی دوسرے رازدار کی تلاش میں، ہم کسی کے ساتھ 20منٹ بیٹھ جائیں چار میٹھے الفاظ سامنے والے سے سُنیں تو اپنا پہچان اور جنم کنڈلی اسکے سامنے رکھ دیتے ہیں، اکثر دوست سوشل میڈیا پر ایسا کرتے ہیں اور انہی میٹھے الفاظ نے ہمیں کڑوے نقصان دیئے۔
لیکن ہم خود میں بہتری لانے کے بجائے یہ نقصان ہضم کرکے آگے بھی نقصان کھانے کیلئے تیار کھڑے ہیں، یہ سینکڑوں کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے جو سر سے پاوں تک ہم میں پھیلا ہوا ہے، اگر اب بھی ایسے کمزوریوں سے اجتناب نہیں کیا گیا، تو ہم پھر سے انہی نقصانوں کا شکار ہوتے رہینگے تنظیموں اور جہدو جہد کی کمزور ہونے کی وجہ پہلے اختلاف کے آڑ میں خود کو سوشل میڈیا پر دشمن کے سامنے ظاہر کردیا۔ اب ہر دوست تنظیم کے ہر بات سے واقف ہوکر بلا جھجک اسے کسی سے بھی کہہ دیتے ہیں، ان میں سے یہ بھی ایک اہم وجہ ہے، اگر شروع سے ہم راز اپنے اندر رکھتے تو اب تک جتنی بار ہمارے مسلح اور سیاسی تنظیمی ٹوٹ پوٹ کا شکار ہوئے ہیں ایسا نا ہوتا اور آج ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے اور ایک بہتر طریقے اور حکمت عملی سے دشمن کے سامنے رکاوٹ ہوتے یہاں عمل سے پہلے پلان ظاہر ہوجاتا ہے تحریک چل رہا وہ کمزوری اب بھی ہم سب میں ہیں اسے ختم کیا جا سکتا ہے،
آگے بہتر حکمت عملیوں سے دشمن کے مدمقابل آنا ہوگا اور جب ہر کمزوری کو روکا جائے ختم کیا جائے تو یقیاناٗ ہم خود کو نقصانوں سے بچا کر دشمن کو نقصان دے سکیں گے۔

четверг, 19 июля 2018 г.

مسخ تاریخ۔ دی بلوچستان پوسٹ فیچر رپورٹ

بہزاد دیدگ بلوچ
دوسری جنگ عظیم کے بعد جب نو نوآبادیاتی دور کا آغاز ہوا اور برطانیہ نے برصغیر سے انخلاء کا فیصلہ کیا، تو ہندومسلم دو قومی نظریئے کے بنیاد پر برصغیر کے تقسیم کا فیصلہ ہوا اور پاکستان کے نام سے ایک نئی ریاست کا وجود پایہ تکمیل تک پہنچا، جس میں بعد ازاں پختونخواہ، سندھ اور بلوچستان کو بالرضا یا بالجبر اس میں شامل کردیا گیا۔ تقسیم کے فوراً بعد ہی اس خطے میں تاریخ کے بد ترین نسل کشی اور مہاجرتوں میں سے ایک وقوع پذیر ہوا، جہاں لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور سکھ قتل ہوئے یا ہجرت کرنے پر مجبور کیئے گئے، تاکہ پاکستان کو ایک مسلم اکثریتی ریاست بنایا اور وجود کو جواز بخشا جاسکے۔
بندوبستِ پاکستان کی آبادی مسلم اکثریت میں ڈھالنے کے بعد اس فتح کی تاریخی توسیع کیلئے یہاں کے شہروں کو بھی مسلمان بنایا گیا اور تاریخی شہروں کے غیر مسلم نام بدل کر نئے مسلم نام رکھدیئے گئے۔
لائلپور کو سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل سے منسوب کرکے فیصل آباد بنایا گیا۔ تاریخی شہر کیمبل پور کا نام قریب واقع قلعہ اٹک کی نسبت سے اٹک اور منٹگمری کو اس کے پرانے نام ساہیوال میں تبدیل کر دیا گیا۔ للیانی کو اسلامی نام دیکر مصطفیٰ آباد، کوٹ رادھا کشن کو حبیب آباد اور ربوہ کو چناب نگر میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی طرح بہت سے چھوٹے دیہاتوں و قصبوں کے تاریخی نام بھی بدلے گئے، جیسے چوہڑ کانہ کو  فاروق آباد بنادیا گیا۔
یہ محض چند شہروں کے نام تھے، اسی طرح بے تحاشہ قصبوں، سڑکوں اور چوراہوں کے نام بدلے گئے۔ اگر مذہبی نقطہ نظر سے ہٹ کر تاریخی بنیاد پر دیکھا جائے تو تاریخ دان شاید اس عمل کے حق میں یہ دلیل دے سکیں کہ یہ دنیا میں ہر فاتح کا طریق رہا ہے کہ وہ اپنا یادگار چھوڑتے ہیں۔ ہر فاتح اپنا تاریخ لکھتا ہے۔
“ہندو” پر فتح کے یادگار بلوچستان میں چھوڑنے کیلئے 1970 میں بلوچستان کے ایک معروف شہر ہندو باغ کا نام بدل کر مسلم باغ رکھ دیا گیا۔
تقسیم ہند کے بعد جس طرح شہروں کو مسلمان بنایا گیا، وہ سلسلہ رکا نہیں، اسکے بعد تاریخی شہروں کو پاکستانی بنانے کا مرحلہ جاری ہے اور اس فاتحانہ ذہنیت کا سب سے زیادہ شکار بلوچستان رہا ہے اور گذشتہ پانچ سالوں سے اس شدت میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
جس طرح پاکستان میں اس تصور کو عام کرنے کے بعد کہ “ہندو” پر فتح پانے کے بعد ہندو تاریخ کو مٹانے کیلئے شہروں کے مسلمان نام رکھے گئے، اسی طرح کا تصور بلوچستان میں عام کیا جارہا ہے کہ بلوچ قوم پرستی پر فتح پالیا گیا ہے اور اب بلوچستان کے تاریخی شہروں کے نام بدلے جارہے ہیں۔ شہروں کے نام بھی ان لوگوں کے نسبت سے رکھے جارہے ہیں، جو اسٹبلشمنٹ سے قریب تصور کیئے جاتے ہیں یا بلا واسطہ بلوچ تحریک آزادی کے خلاف متحرک تھے۔
بلوچستان کے ضلع قلات کے تاریخی تحصیل اور بلوچوں کے لانگو قبیلے کی آماجگاہ منگوچر کا نام تبدیل کرکے خالق آباد رکھ دیا گیا۔ منگوچر کا نام عبدالخالق لانگو کے نام کے نسبت سے تبدیل کیا گیا، جو اسٹبلشمنٹ سے قریب تصور کیئے جانے والے پارٹی نیشنل پارٹی کے بانی رہنما تھے اور ایک قبائلی دشمنی کے بدلے میں مارے گئے تھے۔ اسی قبائلی دشمنی میں ان پر اقدامِ قتل کے الزام بھی تھے۔
اسی طرح بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے تحصیل پھیلاوغ کا تاریخی نام قادر مسوری بگٹی کے نسبت سے قادر آباد رکھ دیا گیا۔ قادر مسوری بگٹی، نواب اکبر خان بگٹی کے خاندانی دشمن تھے اور انکے شہادت کے بعد انہیں باقاعدہ فوجی پروٹوکول میں ڈیرہ بگٹی لایا گیا تھا۔
کوہلو اور گردو نواح کے علاقوں کے نام بلوچستان کے قدیم ترین ناموں میں سے ایک ہیں اور ہر نام خود میں ایک تاریخ رکھتی ہے، لیکن قدوس بزنجو نے اقتدار میں آنے کے بعد ضلع کوہلو کے یونین کونسل اوریانی کا تاریخی نام بدل کر جہانگیر آباد رکھ دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کوہلو کے مقامی آبادی کو خود علم نہیں ہے کہ جہانگیر کون ہے، تحقیق کے بعد پتہ چلا کہ لیفٹیننٹ جہانگیر پاکستانی فوج میں حاضر سروس فوجی تھے، جو 10 جولائی 2009 کو باجوڑ ایجنسی کے علاقے چارمنگ کے وادی چنار میں ایک جھڑپ کے دوران ہلاک ہوئے تھے، جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کے دعوے کے مطابق وہ ایک فوجی آپریشن کے دوران بولان میں بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارے گئے تھے۔
سوراب بلوچستان کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے، جو تاریخی طور پر قلات سے پہلے بلوچستان کا دارلحکومت رہنے کا بھی اعزاز رکھتا ہے، سوراب جھالاوان اور سراوان کے بیچ سرحد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے میر عومر، بجار، گوشو کے قصے بلوچستان میں زبان زدِ عام ہیں لیکن اس تاریخی شہر کے نام کو بھی مسخ کرکے ثناء اللہ زہری نے اپنے دورِ حکومت میں اپنے بیٹے کے نام سے منسوب کرکے شہید سکندر آباد رکھ دیا۔ یاد رہے سکندر زہری اپنے چچا اور چچا زاد کے ہمراہ بلوچ مزاحمتکاروں کے حملے میں مارے گئے تھے۔
کیا واقعی سکندر زہری ایک ایسے معروف شخصیت تھے کہ انکی خاطر ایک تاریخی شہر کا نام تبدیل کیا جاتا؟ ان پر الزام تھا کہ وہ درجنوں قبائلی مخالفین کے قتل، آر سی ڈی شاہراہ پر لوٹ مار، زناہ بالجبر کے درجنوں واقعات میں ملوث تھا۔ بلوچستان کے خطے جھالاوان میں یہ افواہ عام ہے کہ انکے مارے جانے کے بعد لوگوں نے شکرانے کے نفل ادا کیئے۔
محض شہروں کے نام نہیں بلکہ بلوچستان میں کئی اسکولوں، ہسپتالوں اور سڑکوں کے نام بھی اسٹبلشمنٹ سے قریب سماجی طور پر متنازعہ لوگوں کے ناموں کے مناسبت سے رکھے جارہے ہیں۔ جیسے بلوچستان کے مرکزی شہر خضدار کے اہم مرکزی چوک آزادی چوک کا نام میونسپل کمیٹی نے بدل کر قدوس مینگل چوک رکھ دیا ہے۔ قدوس مینگل بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ سرغنہ شفیق مینگل کے ماموں اور دست راست تھے۔ شفیق مینگل پر سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنوں کے ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کا الزام ہے۔ توتک میں برآمد ہونے والی اجتماعی قبر: جس سے 169 بلوچ سیاسی کارکنوں کی لاشیں برآمد ہوئیں تھیں، کا ذمہ دار بھی شفیق مینگل کو قرار دیا جارہا ہے۔ شفیق مینگل کے تمام کارستانیوں میں قدوس مینگل بھی شریک رہے ہیں، وہ بلوچ مزاحمتکاروں کے ہاتھوں خضدار میں مارے گئے تھے۔
یہ سلسلہ محض مشرقی ( پاکستانی) بلوچستان تک موقوف نہیں ہے، بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کیلئے شہروں کے نام بدلنے کی سعی مغربی (ایرانی) بلوچستان میں کئی سالوں سے جاری ہے۔ جہاں بلوچستان کے تاریخی شہر دزاپ کا نام تبدیل کرکے زاہدان رکھ دیا گیا۔
اسی طرح مغربی بلوچستان کے شہر پھرہ کا نام بدل کر ایرانشہر رکھ دیا گیا ہے۔ آجکل جس شہر کو”خواش یا خاش“ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسکا اصل نام واش تھا، جسے رضاشاہ پہلوی کے دور میں بدل دیا گیا تھا۔ “گًورناگان” کا نام اسلام آباد رکھا گیا اور “کہن داوت” کو شمس آباد میں بدل دیا گیا۔
اسی طرح مگس کا تاریخی نام اول تو “زابلی” رکھ دیا گیا، لیکن بعد میں وہ بھی بدل کر “مہرستان” رکھا گیا۔ بلوچستان کے شہر “گہہ” کا نام بدلتے ہوئے، اسے “نیک شہر” رکھ دیا گیا۔
اس حوالے سے جب دی بلوچستان پوسٹ نے معروف بلوچ دانشور اور تاریخ دان ڈاکٹر نصیر دشتی سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ “تاریخی بلوچ شہروں کے نام تبدیل کرنا، یقیناً اُس ثقافتی نسل کشی کا تسلسل ہے، جو بلوچ انگریز قبضہ گیریت کے وقت سے لیکر آج تک سامنا کررہے ہیں۔ شالکوٹ، خان گڑھ اور جیھاڑی کا نام بدل کر پاکستان اور ایران بھی برطانیہ کے نقشِ قدم پر چلنے لگے ہیں۔ ایرانیوں نے تو نا صرف قصبوں کے نام تبدیل کیئے بلکہ وہ قبیلوں کے نام تک بدل رہے ہیں اور از خود نئے قبیلے گڑھ رہے ہیں۔”
نصیر دشتی نے مزید کہا کہ ” میرے خیال میں، اب وقت آچکا ہے کہ بلوچ قوم پرستوں میں جتنی بھی قوت ہے، وہ اس مسئلے پر اپنا آواز بلند کریں۔”
جس طرح بلوچ تاریخی تسلسل، قومی پہچان اور مرضی و منشاء کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، تاریخی بلوچ شہروں کے نام بدل کر بلوچ تاریخ، ثقافت اور پہچان کو مسخ کیا جارہا ہے اور فاتح و مفتوحہ کے رویئے کو مزید پروان چڑھا کر استحکام بخشا جارہا ہے، یہ اس امر کی غمازی کررہا ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اب تک بلوچ نفسیات کو نہیں سمجھ سکی ہے کہ انکی مزاحمت کی بنیاد وسائل سے کئی گنا زیادہ قومی پہچان پر ہے، اور قومی پہچان پر اسطرح کے کھلم کھلا حملے یقیناً بلوچ عوام میں غم و غصہ پھیلائیں گے اور مزاحمت کی طرف انکا رجحان مزید بڑھے گی۔

суббота, 14 июля 2018 г.

سراج رئیسانی قتل کے محرکات و اثرات؟ – 

برزکوہی


کل بلوچستان کے علاقے مستونگ درینگڑھ میں پاکستانی خفییہ اداروں کے تخلیق کردہ ڈیتھ اسکواڈ اور موجودہ پاکستانی آرمی کی بے ٹیم، بلوچستان عوامی پارٹی کے سرغنہ بلوچ قومی تحریک برائے آزادی کے کٹر مخالف اور دشمن پاکستان کے انتہائی وفادار اورحمایتی سراج رئیسانی، پاکستانی نام نہاد الیکشن مہم کے سلسلے میں ایک انتخابی پروگرام کے دوران خود کش دھماکے کا شکار ہوکر اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا۔ اس حملے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی اور داعش نے قبول کی۔
سراج رئیسانی بلوچ قومی تحریک کے ابتدائی ایاد سے اسکے خلاف سرگرم عمل رہا ہے۔ وہ پاکستانی فوج کے ساتھ ملکر کئی بے گناہ بلوچوں، جن میں سے بیشتر پر امن بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنان شامل رہے ہیں کے اغواء نماء گرفتاری اور شہادت میں براہِ راست ملوث رہا ہے اور سراوان کے آس پاس علاقوں میں سراج رئیسانی کی غنڈہ گردی، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، بدکرداری، بدمعاشی اور بلوچوں کی زندگی کو اجیرن بنانے کی ایک نہیں بلکہ سینکڑوں دل دہلا دینے والے واقعات رقم ہوئے ہیں۔
سراج کے انہی سیاہ کرتوتوں کیوجہ سے 2012 میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل ایف نے مستونگ کے مقام پر سراج رئیسانی پر ایک حملہ کیا تھا، جس میں وہ خود بال بال بچ گئے تھے، تاہم انکے بڑے بیٹے اکمل رئیسانی ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد سراج رئیسانی کی مزید چاندی ہوگئی، انہیں پاکستانی خفیہ اداروں نے خوب مالی مدد و عسکری امداد فراہم کرکے کھلی چھوٹ دے دی اور بھرپور انداز میں بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف استعمال کرتا رہا۔
سراج رئیسانی اپنے تشکیل کردہ دہشتگرد جرائم پیشہ گروپ جسے زبان زدِ عام میں ڈیتھ اسکواڈ کے نام سے پکارتی ہے کے ہمراہ، بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف آخری حد تک استعمال ہوتا رہا۔ وہ پاکستان کے بلوچ نسل کش پالیسیوں کے عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے، اور کئی نسل کش واقعات میں ریاستی اداروں کا ہمرکابی کرتے ہوئے برابر شریک رہا۔
دامن پر سجے سیاہ کرتوتوں کے اس طویل فہرست کو لیئے سراج رئیسانی اور اس کے کارندوں کا قتل جس طرح اور جیسے بھی ہونا تھا، اور ہو بھی گیا۔
اوراق سے سراج رئیسانی جیسے سیاہ اور بدھے تاریخی کرداروں کے صفائی کے بعد، یہ امر لازم تھی کہ بلوچ مخلوق میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی، سراج کے مارے جانے کے بعد عمومی طور پر بلوچوں کی یہ خوشی واضح طور پر نمایاں نظر بھی آئی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیں کہ سراج سے بےتحاشہ نفرت و غصہ اور مخالفت کی وجہ سے، اسکے ہلاکت کے بعد بلوچوں کی ہمدردی، خوشی اور فخر کی لہریں اب کس رخ، کس سمت جھکیں گی؟ خود کش حملہ آور کی طرف؟ مذہب کی طرف؟ جھنگوی و داعش کی طرف یا بلوچ قومی تحریک آزادی کی طرف؟
یہ ایک آفاقی فطری ردعمل ہے کہ جب بھی کسی انسان کے دل و دماغ میں، کسی بھی چیز اور عمل کے بارے میں مخالفت غصہ اور نفرت پیدا ہوگی تو لازماً دشمن کا دشمن دوست کے مصداق دوسری طرف، دوسرے فریق و قوت کیلئے دل و دماغ میں ہمدری و حمایت بھی پیدا ہوگا۔ ابھی ان بلوچوں کی ہمدردی اور حمایت کا رخ کہاں اور جھکاؤ کس طرف ہوگا؟ جو بالواسطہ یا بلاواسطہ سراج رئیسانی اور اس کی گروہ کے جبر کاشکار ہوکر عملاً متاثر ہوچکے تھے؟
اس حملے کی ذمہ داری پہلے تو لشکر جھنگوی نے قبول کی، پھر داعش اور تحریک طالبان کی قبولیت کا دعویٰ بھی منظر عام پر آیا۔ ظاہری طور پر اور عملاً یہ تینوں مذہبی تنظیمیں ہیں۔
اب داعش،جھنگوی اور تحریک طالبان پر سطحی تجزیات سے ہٹ کر، گر باریک بینی اور حقائق کے بنیاد پر تجزیہ کیا جائے تو پہلا سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ باقی دنیا جہاں ان کا نام اور سرگرمیاں موجود ہیں چھوڑکر، صرف بلوچستان میں ان کے سرگرمیوں، عزائم، اور مقاصد پر نگاہ دوڑا کی دیکھیں جائیں کے کیا ہیں؟ ماضی میں انکا کرداروعمل کیا رہا اور مستقبل میں ان کا ایجنڈہ کیا ہوگا؟ وہ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں؟ کس کے ماتحت ہیں؟ کس کے پروکسی ہیں؟ ان کا وجود، تخلیق اور پروورش کہاں سے کب اور کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ آج اور کل بلوچ تحریک اور بلوچ قوم، بلوچ سماج اور بلوچ سیاست پر اس کے کیا مثبت اور منفی اثرات مرتب ہونگے؟
وکلا یا ہزارہ برادی ہوں، چینی ہوں یا مزار و قبر سب انکے ٹارگٹ پر رہے ہیں اور اب سراج جیسا ریاستی ایجنٹ بھی انکے ٹارگٹ پر کیسے؟ آگے کون انکے ٹارگٹ پر ہوگا، یہ کہنا قبل ازوقت ہے، لیکن سوالات و خدشات اور تحفظات ہر ذہن میں موجود ہے۔
سب سے اہم اور خطرناک چیز یہ ہے کہ داعش، طالبان اور جھنگوی اندورنی طور پر اور عملاً جو بھی ہیں، ان کے مقاصد جو بھی ہوں، یہ اپنی جگہ ایک الگ طویل بحث اور وسیع تحقیق و علم کا متقاضی ہے لیکن خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ جو بھی کررہے ہیں اور کرتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہینگے، وہ مذہبی انتہاء پسند نظریے اور سوچ کی بنیاد پر رہی ہے۔
یعنی اس سوچ و نظریے کے تحت، جس نے پاکستان کو بلوچستان پر قبضہ کرنے کا جواز فراہم کیا۔ وہ مذہبی سوچ ہی ہے کہ پنجاپی اور بلوچ کو بھائی بھائی کی غیر فطری سوچ اور رشتے میں باندھ کر ہمیشہ بلوچ سماج میں پروان چڑھایا گیا۔ وہ مذہبی سوچ ہی ہے کہ بلوچوں کو ہمشہ ہی درس دیتا آرہا کہ بلوچوں کی غلامی بلوچوں پر ظلم و جبر بلوچوں کی بدحالی تباہی اور بربادی خدا کی طرف سے بلوچوں پر عزاب ہے، بس بلوچ صبر سے کام لیکر چپ چاپ برداشت کرتے رہیں، خدا خود اس عذاب کو اٹھائے گا۔ وہ مذہیبی سوچ ہی ہے کہ پاکستان جیسا غیرفطری ریاست اسلام کا قلعہ قرار دیاجاتا ہے، یعنی قلعے کو نقصان دینا، اسلام کو نقصان دینے کے مترادف اور گناہ کبیرہ ہے۔ وہ مذہبی سوچ ہی ہے جس کے بنیاد پر شفیق مینگل، سراج رئیسانی، منیر ملازئی، ملا برکت وغیرہ وغیرہ جیسے دلالوں کو یہ موقع فراہم ہوا کہ وہ بلوچ تحریک کے خلاف سادہ لوح بلوچوں کو کھڑا کریں۔ وہ مذہبی سوچ ہے جو آج تک بلوچ قوم کو ذکری و نمازی، سنی و شیعہ، تبلیغی و بریلوی وغیرہ وغیرہ کے خانوں میں تقسیم کرتا آرہا ہے۔
مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ ماضی میں آج اور مستقبل میں بھی، بلوچ سیکولر سماج اور خالص بلوچ نیشنلزم اور بلوچ قومی تحریک آزادی کو جس طرح نقصان پہنچاتا آیا ہے، اور رہے گا، ثابت کرتا ہے کہ بلوچ قومی تحریک بلوچ نینشلزم اور بلوچ سیکولر سماج اور مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ آگ اور پانی کے واضح فرق کی طرح ہیں، جو کبھی ایک ساتھ اور برابر نہیں ہوسکتے، ایک کا وجود دوسرے کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔
کیا بلوچ سماج، بلوچ سیاست اور بلوچ قومی تحریک پر بلوچستان میں بلوچ انتہاء پسندانہ سوچ کی بنیاد پر مسلح کاروائیوں کی وجہ سے، مذہبی رجحانات، مذہبی سوچ اور مذہبی اثرات مرتب نہیں ہونگے؟ گوکہ کاروائی کا ہدف پاکستان یعنی بلوچوں کے دشمن ہوں، جو قابل تحسین ہے لیکن اگر مذہبی سوچ، بلوچ سماج میں مرتب ہونگے، تو اثر پذیر مذہبی سوچ رجحانات و رخ اور عمل کی صورت میں کس طرف ہونگے؟ بلوچ کہاں، کس طرح، کس کے ساتھ وابستہ ہونگے؟ کیونکہ بلوچوں کے دل و دماغ میں ویسے بھی پاکستان اور پاکستان کی ایجنٹوں سمیت پاکستان کے ہر چیز سے نفرت اور مخالفت موجود ہے اور بلوچ قوم خاص طور پر نوجوان اپنا نفرت و مخالفت کے نیتجے میں مزاحمت کا اظہار ضرور کسی نا کسی جگہ پر کرینگے۔
اگر بلوچ نیشلزم اور سیکولر سوچ سے ہٹ کر مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ اور نظریے کے ساتھ وابستہ ہوکر بلوچوں نے اپنے نفرت اور مخالفت کا اظہار اور عملی طور پر شدت پسند تنظیموں سے جڑ کر شروع کیا، تو وقتی ہی صحیح دشمن پر کاری ضرب، سراج جیسے غداروں کے ہلاکت کی صورت میں سامنے آئے گی لیکن مستقل میں دورس نتائج کیا ہونگے؟ لازماً منفی ہونگے۔
پھر میرے خیال میں، سیکولر آزاد بلوچستان کا خواب ادھورا ہوگا، بلوچ شہیدوں کے ارمان صرف ارمان ہی رہ جائینگے اور بلوچوں کی تاریخی تحریک مزاحمت اور قربانیاں اور طویل قوم پرستی کی تاریخ مذہبی انتہاء پسندی کے آڑ میں ہمیشہ کیلئے دھندلا جائیں گے۔ بلکل دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اور دشمن کا دوست دشمن ہوتا، دوست کا دوست، دوست ہوتا ہے۔ لیکن کس حد تک یہ خیال سائینسی اور علمی ہے؟
خیر اگر یہ خیال اور سوچ صحیح اور قابل عمل بھی ہے، آج پاکستان کے دشمن بلوچوں کے دوست ہیں، پاکستان کو جتنا بھی نقصان جس کی طرف سےبھی ہو، وہ فائدہ مند ہے اور سراج جیسے غدار کی ہلاکت بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کیلئے انتہائی فائدہ مند ہے اور بلوچستان میں بیرونی سرمایہ کاری ہو، الیکشن ہو، سی پیک ہو، جن کو نقصان پہنچانا سبوتاژ کرنا پورے بلوچستان میں پاکستان کے رٹ کو چیلنج کرنا، ہر طرف امن وامان کی صورتحال کا تہس و نہس ہونا اور خوف و دہشت کا سماء بلکل بلوچوں کے جہد کے حق میں ہے اور پاکستان کیلئے انتہائی نقصان دہ اعمال اور افعال ہیں۔
لیکن جب تک بلوچستان کی سنگین و مخدوش صورتحال اور تشدد کی لہروں کو بلوچ تحریک آزادی کے حق میں اور بلوچ نیشنلزم کے سانچے میں ڈھالا نہیں جاتا اور اس کا رخ اور فائدہ اپنے حق میں تبدیل نہیں کیا جاتا، تب تک بلوچ قوم اور بلوچ تحریک کو اس کے فائدے کم اور نقصان مستقبل میں بہت زیادہ ہونگے۔
جذبات، خوشی، فخر، فائدہ، دشمن کو نقصان وغیرہ وغیرہ سب اپنی جگہ لیکن مستقبل کی تصویر اور تصویر کے ہر ایک پہلو کو ہروقت ذہن میں رکھ کر ہر آزادی پسند، قیادت سے لیکر ہر جہدکار کو بلوچستان میں رونما ہونے والے ہر واقعے اور حالات کا انتہائی سنجیدگی اور باریک بینی سے تجزیہ کرنا، اور اس پر غور کرنا، سوچنا اس وقت بے حد ضروری ہے کیونکہ یہ آزادی کی قومی جنگ ہے۔ قوم کے مسقبل کی جنگ ہے، یہ بلوچوں کے سروں و قربانیوں اور لہو کے بہنے کی جنگ ہے، یہ جنگ تاریخ ہے، تاریخ کا حصہ بن رہا ہے، معمولی سا معمولی خطاء، نادانی اور غیر ذمہ داری پورے تاریخ کو ملایامیٹ کرسکتا ہے پھر تمام تر ذمہ داری سے بلوچ قیادت اور ہر جہدکار بری الزمہ نہیں ہوگا۔
بلوچ قیادت اور جہدکاروں کو اپنے ضد و انا اور سطحی جذباتی، طفلانہ تجزیات، تصورات اور خیالات سے اب باہر نکل کر کم سے کم ان حقائق پر سرجوڑ کر مل بیٹھ کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ سوچنا اور پالیسی مرتب کرنا ہوگا، جن سے بلوچ قومی تحریک بلوچ قوم اور بلوچستان کا تشخص اور بقاء بندھا ہوا ہے۔

среда, 4 июля 2018 г.


انتخابات میں حصہ دار قومی نمائندے نہیں،قبضہ گیر کے ایجنٹ ہیں،قوم الیکشن کا بائیکاٹ کرئے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ 
 (   مقبوضہ بلوچستان  ) بلوچ قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ پاکستان کے انتخابات کا مقبوضہ بلوچستان میں کوئی آئینی ،قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے ،میں بلوچ قوم سے اپیل کرتاہوں کہ گزشتہ انتخابات کی طرح ان نام نہاد انتخابات کا بائیکاٹ کرکے دنیا کو واضح پیغام دیں کہ بلوچستان ایک مقبوضہ ملک ہے اور پاکستان ایک قبضہ گیر ہے ۔پاکستان کے تمام منصوبوں کی طرح آنے والا انتخابات بھی بلوچ قوم کی مرضی اور منشاکے بغیر ہورہے ہیں اوران میں حصہ داری کرنے والے لوگ بلوچ قومی نمائندے نہیں بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی بلوچ نسل کشی میں واضح طورپر شامل ہیں جس کا وہ خود اقرار کرتے رہے ہیں اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ ہر قبضہ گیرکو مقبوضہ قوم میں سے چند افراد ایسے ملتے ہیں جو قبضہ گیر کے دست وبازو بنتے ہیں اوربلوچ قوم میں سے یقیناًاس میں حصہ لینے والے وہی لوگ ہیں جو بلوچ قوم پر ڈھائے جانے والی مظالم کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ان کا احتساب یقینی ہے ،ماضی میں جس طرح ووٹ کاسٹ نہ ہونے کے باوجود کسی نہ کسی کو منتخب قرار دیکر نام نہاد نمائندہ بنایا گیا، اس دفعہ بھی یہی ہوگا اور ان مہروں کو بلوچ نسل کشی کے پروانوں پر دستخط کیلئے مختص کرکے بلوچ سرزمین پر قبضہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 
قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ ہم نے مختلف ادوار میں دیکھا ہے کہ پاکستان اپنے زرخریداورضمیرفروشوں کو اسمبلیوں میں لاکر انہیں دنیاکے سامنے پیش کرتاہے ،گزشتہ انتخابات سے پاکستانی جمہوریت کا پول کھل گیاکہ ایک سو سے کم ووٹ لینے والے شخص کو وزیر اعلیٰ بنادیاجاتاہے ۔ایسے لوگوں کی حیثیت محض ایجنٹ اوردلال کی ہے ،ایسے لوگوں کے استعفیٰ نامے آئی ایس آئی کے دفتر میں پہلے سے جمع ہیں اور انہیں حکم بجا آوری نہ کرنے پر لات لگا کر باہر کیا جاتا ہے۔ ثناء اللہ زہری کو جس طرح وزارت اعلیٰ سے ہٹایا گیا اور سینیٹ میں بلوچستان اور بلوچ نمائندگی پر جو ڈرامہ رچایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں انتخابات محض ڈرامہ، بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار اور بلوچستان پر قبضہ کو جواز بخشنے کی کوششیں ہیں۔ ان نام نہاد نمائندوں کو بھی بخوبی علم ہے کہ ان کا حشر ثناء اللہ سے مختلف نہیں ہوگا لیکن لالچ، عارضی مراعات اور دنیاوی عیاشیوں کو دیکھ کر یہ لوگ بلوچ نسل کشی میں ملوث پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں۔ ان معمولی مراعات کے بدلے وفاق پرست جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور مذہب کے ٹھیکیداروں سمیت سب کے ہاتھ بلوچ کے خون سے رنگے ہیں۔ 
قوم پرست رہنما نے کہا کہ بلوچستان میں بچوں اور خواتین سمیت چالیس ہزار سے زائد بلوچ پاکستانی خفیہ زندانوں میں انسانیت سوز اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں نشانہ بنا کر قتل یا دوران تشدد شہید کئے جاچکے ہیں۔ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ ایسی مظالم شام اور برما میں شاید ہی ہوں مگر پاکستان کی طالبانائزیشن پالیسی اور بلیک میلنگ سے عالمی برادری پاکستان کی مذہبی شدت پسندی پر توجہ دیکر بلوچستان کی صورتحال سے بے خبر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک میڈیا پر پابندی اور زرد صحافت ہے۔ صحافی اور صحافتی ادارے میڈیا کو آزاد قرار دیکر آئی ایس پی آر کی ترجمانی میں مصروف ہیں اور بدلے میں اشتہارات اور مراعات کے مزے لیکر بلوچستان کی صورتحال کو دانستہ طور پر چھپانے کی کوشش میں ہیں۔ 
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں جو سوگوار نہیں۔ کوئی گھر یا خاندان ایسا نہیں جس سے کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔
خواتین کو فوجی کیمپوں میں بلاکر ان عصمت دری کرنے کے واقعات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی کاکنوں کے رشتہ داروں کو اغوا کرکے لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں کسی کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ اور انسانی حقوق ناپید ہوچکے ہیں۔ ان مظالم کے باوجود پاکستان اور اس کے حواری اگر یہ سمجھیں کہ بلوچ قوم پاکستان کو تسلیم کرکے غیر آئینی اور غیر قانونی انتخابات کا حصہ بنے گی تو یہ پاکستان کی بھول اور عالمی برادری کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ ہم عالمی مبصرین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان آکر نہ صرف ان انتخابات کو اپنی آنکھوں سے
دیکھیں بلکہ آپریشن سے شدید متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے لوگوں کی داستانیں قلمبند کریں۔

воскресенье, 1 июля 2018 г.

تبریکِ آمنہ یا تذلیلِ دشمن؟ – برزکوہی


مادر وطن پر جس دن سے پاکستان جیسے درندہ صفت ریاست نے قبضہ کیا ہے، اس دن سے لیکر آجتک بلوچ نوجوان، بزرگ، اوربچوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغواء ہورہے ہیں، اغواء ہونے کے بعد کچھ خواتین طویل دردناکیوں کی داستان دامن میں سمیٹے بازیاب ہوتے ہیں لیکن اکثریت زندگی بھر بغیر نام و نشان کےغائب ہی رہتے ہیں اور کچھ تار تار عصمت کے ساتھ سہمی ہوئی گھر واپس لوٹتے ہیں۔ یہ تلخ داستانیں آج سے نہیں 70 سال سے بلوچوں کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں۔ دشمن بھی پنجابی ہے، جو انسانیت سے عاری ایک غیر مہذب دشمن ہے، اس کی سامنے گلہ کرنے اور رونے کی کوئی اہمیت نہیں، سوائے اینٹ کا جواب پھتر سے دینے کے، نا یہ کوئی اور زبان جانتا ہے اور نا سمجھتا ہے۔
جی ہاں یہ وہی پنجابی ہے، وہی پاکستان اور وہی پاکستانی فوج ہے، جب ان کے غلیظ ہاتھوں سے بنگالی اور بنگلہ دیش آزاد ہوا تو بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمان صاحب کسی دوسرے ملک دورے پر گئے، وہاں لوگوں نے بنگال کی آزادی کی انہیں مبارک باد دی تو اس نے جواباً خیر مبارک نہیں کہا بلکہ ان الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا “بنگال تو آزاد ہوگیا لیکن بدقسمتی سے میرے بنگلہ دیش میں تقریباً پاکستانی فوج کے ہاتھوں کوئی بنگالی لڑکی کنواری نہیں بچی ہے۔ مجھے اس بات کا دکھ اور انتہائی کرب ہے، لیکن آزادی کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور دشمن سے گلہ بھی نہیں کرنا چاہیئے۔”
حالیہ دنوں ایسے موقع پر واجہ براہمداغ بگٹی صاحب کا ایک وڈیو پیغام نظروں سے گذرا، جہاں ایک طرف بلوچستان کے علاقے آوارن جھاو سے سینکڑوں بلوچ بیٹیاں فوج اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں اغواء اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں اور کہیں بی بی آمنہ کی طرح نیم بے ہوشی کی حالت میں رہا ہورہے ہیں، اور کئی ابھی تک ریاستی عقوبت خانوں میں پتہ نہیں کس حالت میں زیست گذار رہے ہیں، واجہ براہمداغ کی جانب سے پاکستان کے ایسے گھناونے اور بزدلانہ اعمال کی وجہ سے وطن اور بلوچ قوم سے کوسوں دور بیٹھے ہوئے، ایک پرجوش لعنت بھیجنا چاہیئے تھا، بجائے مبارک باد دینے کے۔ کس کو مبارک باد، کیوں مبارک باد؟ رہا ہونے والے کو؟ رہا کرنے والے کو یا پھر رہائی کی سفارش کرنے والا کو؟
رہا تو بی بی آمنہ ہوچکی ہے، کوئی پوچھے، کوئی دیکھے کہ آمنہ کی حالت کیا ہے؟ آج آمنہ اس نیم بیہوش حالت میں مجھ سے ہر بلوچ بھائی و جہدکار اور واجہ براہمداغ کی طرف دیکھ کر کیا توقع و امید بہتے آنسوؤں، گہرے زخموں کے ساتھ باندھ رہی ہوگی؟ لہولہان بدن پر بلوچی دوچ کے پٹھے ہوئے کپڑے ودوپٹہ اور مٹی و خون کی خوشبو کی مہک بالوں کی گیسسوؤں میں لیئے، وہ انکو ہاتھ لگا کر ضرور یہ سوچے گی کہ ڈاکٹر شازیہ مادروطن بلوچستان کی بیٹی نہیں تھی، لیکن اس کیلئے کیا نہیں ہوا، میں تو بلوچ بیٹی ہوں میرے لیئے تو پھر میرے بھائی دشمن کے ساتھ کیا کچھ نہیں کریں گے۔
افسوس شہیدِ وطن اکبرخان بگٹی کے سیاسی جانشین واجہ براہمداغ بگٹی کی طرف سے آمنہ کو رہائی پر مبارک باد کے پیغام کے علاوہ اور کچھ میسر نا آیا۔ آمنہ کو کس چیز کا مبارک؟ عقوبت خانوں میں کچھ دن گذارنے کا؟ عزت سے بازیاب ہونے کا؟ نیم بے ہوشی کی حالت میں جنگل میں پھینکے جانے کا؟ یا پھر فریضہ حج ادا کرنے یا شادی کرنے کا؟ کس لیئے کیوں؟ یا پھر دشمن کو مبارک باد کہ اگر آپ ہزاروں کی تعداد میں کیوں نا بلوچ مرد و خواتین اس وقت آغواہ و گرفتار کرچکے ہے، اگر آپ ایک دو چھوڑ دیتے ہیں، پھر بھی آپ مبارک باد کے مستحق ہیں؟
ہم کس دنیا میں، کہاں رہ رہے ہیں؟ کیسے انسان ہیں، کیوں اتنے علم و عقل اور سوچ کے حوالے سے پیدل ہیں؟ کس بے وقوف نے ہمیں قیادت اور جہد کرنے کا حق دیا ہے؟
دنیا کے غالباً تمام انقلابی لیڈروں اور انقلابی دانشوروں کا ایک مشہور و معروف جملہ اس وقت ہزاروں کتابوں، اذہان اور تاریخ کے پرنوں پر واضح طور پر موجود ہے کہ دشمن مظلوم و محکوم قوم کیلئے، اس کی محکوم سرزمین پر اگر دودوھ اور شہد کی نہریں تک بہادیں، پھر بھی ان نہروں کی مخالفت مذمت اور اپنی لوگوں کی دلوں میں نفرت پیدا کرنا چاہیئے۔ کبھی خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔ تمھاری خاموشی سے ایسا نہ ہو، مظلوم قوم کے دلوں میں دشمن کیلئے ہمدردی پیدا ہو، کیونکہ دشمن کی شہد اور دودھ کی نہریں بھی مظلوم کیلئے زہر ہوتےہیں۔ دشمن سے کبھی خیرخواہی اور اچھائی کی توقع نہیں کرنا۔
ماؤ ایک جگہ کہتے ہیں کہ ” اگر دشمن دن کہے تو تم رات بولو، اگر دشمن رات بولے تو تم دن کہو، تاکہ تمہارے اور دشمن کے بیچ فرق کا لکیر کھینچا رہے۔” بلوچ اور دشمن کے بیچ سیاہ و سفید کی جو واضح لکیر ہے، واجہ براہمداغ یا ابتک اس واضح لکیر کی پہچان کرنے میں ناکام ہورہے ہیں، یا پھر”گِرے پولیٹکس” کا میدان سجانا چاہتے ہیں۔ جہاں نا کوئی چیز سیاہ ہے اور نا ہی سفید بس سب سرمئی۔
وگرنہ یہ کیسے ممکن ہوتا کہ قومی قیادت کا دعویدار شخص ایک ایسے وقت میں جب جھاو، مشکے، آواران و گردو نواح میں مہینوں سے آپریشن بلا تعطل جاری ہے، آبادیوں کی آبادیاں بزورِ طاقت منتقل کی جارہی ہیں، خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کے دل دہلا دینے والے ظلم کی نئے داستان رقم ہورہے ہیں اور وہ ایسے وقت میں کہتے ہیں کہ ” دشمن کے دل میں احساس و رحم پیدا ہوچکا ہے۔”
خاکمِ بدہن، یہ بیانیہ ایک سیاسی نادانی ہے یا یہ مبارک بادی ایک تسلسل کا حصہ ہے، جس کی کڑیاں پیچھے سے نواز شریف کو مبارک باد دیکر ہیرو قرار دینے، بلوچ پر جبری قبضے کے دن 27 مارچ کو یومِ قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کرکے اسے متنازعہ بنانے اور اس سے پہلے خفیہ ملاقاتوں اور مذاکرات و ڈیل پر آمادگی ظاھر کرنے سے ملتی ہیں؟
پھر کیا مذمت، نفرت اور لعنت کے بجائے شعوری یا لاشعوری، دانستہ یا نادانستہ طور پر چند بلوچوں کی رہائی پر دشمن کیلئے خود ہمدردی پیدا نہیں کرر ہے؟ یہ نادانی، ناسمجھی، کم علمی ہے یا ریاست کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے یا ناراضی مٹانے کی کوشش؟ پھر بلوچ جہد اور بلوچستان پر نظر رکھنے والے دنیا کی نظر میں، بلوچ جہد آزادی بھروسہ، اعتماد، اہمیت اور قدر کی پوزیشن کیا ہوگی؟
میں ہمیشہ کہتا ہوں آج بھی کہوں گا، برائے کرم، دنیا کو اتنا بے وقوف نہیں سمجھا جائے، جتنا ہم دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں اتنا ہی ہم دنیا کی نظر میں بے وقوف دیکھائی دیتے ہیں۔
پھر ہم چیختے چلاتے ہیں دنیا ہمیں ابھی تک کیوں صحیح طریقے سے کمک نہیں کرتا، کیا دنیا بے وقوف ہے؟ ہمارے چند مظاہروں، فوٹوسیشن، پریس ریلز، ٹویٹ، پوسٹ، سوشل میڈیا کمپین وغیرہ سے اپنی پالیسی تبدیل کرکے، پاکستان جیسے ہروقت مفت میں کام آنے والے وفادار ملک کے ساتھ کوئی اپنے تعلقات خراب کرے گا؟
کوئی نسوار بیچنے والا شخص تک، جب تک اپنا مفاد اور ذیادہ فائدے کے آثار اگر نہیں دیکھے، تو وہ بھی اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرتا۔ یہاں تو ہم عالمی طاقتوں کی بات کررہے ہیں۔
پھر بھی ہم اپنی غیر سنجیدگی، طفلانہ رویوں، حرکتوں، اعمال، فیصلوں اور بیانوں کے باوجود وسیع پیمانے پر دنیا سے مدد اور کمک کی توقع کرتے ہیں۔ جو خود کو اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
آج مجھے بھی اچھی طرح معلوم ہے، واجہ براہمداغ بگٹی صاحب اور ہر ذی شعور بلوچ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اچھی طرح علم ہے کہ اگر پاکستان کچھ بے گناہ بلوچوں کو رہا کررہا ہے، تو وہ بلوچ کون ہیں؟ ان کا تحریک اور جہدوجہد سے تعلق کیا ہے؟ دشمن انہیں کیوں رہا کررہا ہے؟ کس کے کہنے پر؟ یہ بات واضح ہے، خفیہ ادارے باقاعدہ طور پر اپنے ایجنٹوں سرفراز، قدوس، شازین، گزین، جنگریز،عالی، حاصل، اسلم بزنجو، شفیق وغیرہ جیسوں کو کچھ ریلیف دینے اور بلوچ قوم میں ان کیلئے ہمدردی پیدا کرنے اور ان کی عوض رہائی پانے والے بلوچوں کے خاندان، علاقے اور قبائل کو نام نہاد الیکشن میں ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ داری کیے مقاصد کی خاطر یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
چند بے گناہ بلوچوں کی رہائی کو ہم خوشی جان کر مبارک بادی پیش کریں، جشن منائیں، خیرات اور دعوت کا اہتمام کریں، باقی ہر روز سینکڑوں بلوچ مرد اور خواتین اغواء اور شہید ہورہے ہیں، ان کیلئے کیا کررہے ہیں؟ کیا پالیسی مرتب کررہے ہیں؟ کیا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں؟ کبھی سوچا ہے؟ اس پر عمل کیا ہے؟ آج جو شہید ہوچکےیا جو غائب ہیں انکے خاندان اور لوگوں کی کیا حالت ہے؟ ان کے بارے میں ہماری پالیسی اور پلان کیا ہے؟
جن کی ہر وقت نظر بلوچ قوم، بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک پر ہے۔ وہ کیا دیکھ اور کیا محسوس کررہے ہیں اور کیا سبق حاصل کررہے ہیں؟ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ہر معمولی سے غیر معمولی پالیسی، اقدام، آراء اور فیصلہ ہماری اپنی قوم سرزمین اور جہدوجہد کے ساتھ مخلصی سنجیدگی میچورٹی اور ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔ دنیا اور خصوصاً بلوچ قوم ہمارے ایسے چیزوں کو دیکھ کر ہمارے تحریک کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے، پھر ہم سوچ اور اعتماد کے حوالے سے آج کہاں اور کس مقام پر کھڑے ہیں؟
ہمیشہ دشمن کے ہر عمل، ہر کردار، ہر رویئے، چاہے وہ ظاہری، مصنوعی اور وقتی طور پر بلوچ کی حق میں کیوں نہ ہو اس کو مذمت، نفرت اور مخالفت کی نگاہ سے دیکھ کر بلوچوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ہوگا اور خود تمام جہدکار دشمن کی تمام اقدام پر کبھی بھی خوشی اور غم کا شکار ہونے کے بجائے، صرف اور صرف اپنی قومی جنگ پر مکمل توجہ دے۔ جب جنگ شدت اختیار کرے گی، باقی تمام سوچ، مسائل، امراض، ذہنیت، خود بخود اپنی مدد آپ فنا ہوجائینگے، تمام تنظیموں کے فکری و ہم خیال اور سنجیدہ دوست اس حوالے سے مزید سنجیدہ اور یکجا ہوکر اب عملاً اپنا ایک واضح پالیسی اور پروگرام ترتیب دیں۔
اگر ہم درست رویے اختیار نہیں کرسکے اور صحیح اقدامات نہیں اٹھاسکے تو پھر خدانخوانستہ یہ بلوچوں کا آخری قومی جنگ اگر ہاتھ سے چلا گیا، پھر فخر کیلئے کوئی لیڈریا کوئی پارٹی بچے گا اور نہ ہی ہمارے لیئے کوئی دوسرا ہمدرد ملک اور قوم بچے گا۔
آج تمام چیزوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ اور تعلق ہے، وہ قومی جنگ کے مرہون منت ہیں اور قومی جنگ کیلئے ہمیشہ جنگی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، جنگی ماحول اس وقت پیدا ہوگی جب ہم خود باقی تمام ایرے غیرے، نتو خیرے، گرے ہوئے سطحی کم ضرف توتو میں میں کی سوچوں کا قلع قمع کرکے ان کو گندی نالیوں میں پھینک دیں، تب جاکر کوئی بھی چیز ہمیں منزل پر ڈیرے ڈالنے سے نہیں روک سکے گی