Powered By Blogger

вторник, 31 июля 2018 г.

ہر راز دار کا ایک راز دار ہوتا ہے – نودان بلوچ


ایک بار پھر سے اپنے اندر کی کمزوریوں کو مدنظر رکھ کر لکھنے جا رہا ہوں۔ وہ کمزوریاں جن کی وجہ سے ہم نے بہت سے نقصان اٹھائے ہیں اور اب تک انہی کمزوریوں کی وجہ سے نقصان اٹھا رہے ہیں.
بچپن میں جب میں اس قدر باشعور نا تھا اپنے چچا کے ہمراء کہیں جا رہا تھا، تو انہوں نے اپنے اور اپنے دوستوں کے بیچ کا ایک راز مجھے بتا دیا اور کہا کے یہ بس میں تمہیں بتا رہا ہوں کسی تیسرے کو مت بتانا اور اچانک باتوں باتوں میں وہ کسی سوچ میں گم ہوگئے، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کے ہر ایک رازدار کا ایک رازدار ضرور ہوتا ہے۔ مزید کہنے لگے کہ میں آپکو اپنا رازدار سمجھ کر یہ راز افشاں کر رہا ہوں آپ اپنے کسی رازدار کے ساتھ بیٹھ کر یہی باتیں کروگے اور خبردار خرقگے خہ یہ راز ہے کسی کو مت بتانا، پھر وہ بھی اپنے کسی رازدار کے پاس یہی باتیں کہے گا اور اسی طرح خبردار کرےگا ہو سکتا یے خبردار والا عمل یہیں سے ختم ہو جائے اور اس طرح چلتے چلتے یہ راز مجھ تک واپس پہنچے گا تب یہ راز راز نا رہیگا۔
اس وقت مجھے اسکی باتیں سمجھ نا آئے لیکن جیسے زندگی کے حالات بدلتے گئے اور چیزوں کو سمجھنے لگا تو آج یہ بات یاد آگئی کے واقعی میں ویسا ہی ہے جیسا چچا نے مجھ سے کہا تھا ہر ایک رازدار کا ایک رازدار ہوتا ہے۔
بھروسہ مظبوط سنگتی کی بنیاد ہوتی ہے اور بھروسے کی بنیاد رازداری ہے، جب آپ کے راز آپکے اندر ہیں آپ ایک چٹان کے مانند مظبوط ہو، جو کسی بھی طوفان کا بآسانی مقابلہ کر سکتے ہو آپکی رازداری آپکو ٹوٹنے نہیں دیگی، جیسے بھی حالات آجائیں آپ خود کو ان مشکل وقتوں سے بچا سکو گے اگر آپ نے اپنی راز اپنے اندر ہی رکھے ہیں تو!
آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں ہم ایسے سوفٹویر کا استعمال کرتے ہیں، جس میں ہم اپنے پرائیویٹ ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں تو ہم بھروسہ کے بنیاد پر سب کچھ اس میں رکھتے اور یقین کرتے ہیں کے یہاں ڈیٹا محفوظ ہے۔ مگر یہ بھروسہ کسی انسان پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ سوفٹویئر ہمارے کنٹرول میں ہے لیکن انسان کو بدلتے دیر نہیں لگتا کبھی دوست تو کبھی دشمن تو اگر مضبوط رہنا ہے تو اپنی کمزوریاں بس خود میں بنا کر رکھو۔
لیکن اگر ہم ان میں سے ہیں کہ ہر تیسرا دوست ہمارا رازدار ہے تو ہمیں ایک ہوا کا جھونکا بھی ریت کی طرح اُڑا دیگا۔ جب ہمارے راز سرِعام ہوں ہر تیسرا بندہ جانتا ہو کے میری کمزوری کیا ہے تو وہ مجھے باآسانی شکست دے سکے گا۔ وہ میرے کمزوریوں کو لیکر مجھ پے حملہ کریگا لیکن یہ غلطی اسکی نہیں جو مجھ پے زورآور ہے، کمزوری مجھ میں ہے کہ میں نے اپنے کمزوریاں اپنے ہر اٹھنے بیٹھنے والے کو بتاوں، یہی سمجھ کر کے یہ میرا رازدار ہے تو یہ ہماری ناسمجھی ہے۔
یہ بیماری ہمارے پورے جسم میں ہے، اگر بیماری ایک ہاتھ میں یا پاوں میں ہوتا تو اُسکو آپ کاٹ سکتے ہو، بنا ہاتھ یا پاوں کے چل پھر سکتے ہو۔ کام بھی کر سکتے ہو پر جب پورے جسم میں یہ بیماری ہو تو پھر چلنے کے قابل بھی نہیں رہتے، ہمارے دوستوں میں یہ بیماری عام ہے اور قابل غور چیز یہ ہے کے یہ بیماری لاعلاج تو نہیں لیکن پھر بھی ہم نے کبھی اس کے علاج پر زور نا دیا اور اب پورے طورپر اس مرض میں مبتلا ہیں اور اس وجہ سے ہم آگے بڑھنے کے بجائے وہی ایک معزور بوڑھے شخص کی طرح رینگتے رینگتے چل رہے ہیں کیونکہ ہم نے کبھی اپنے تنظیمی راز اپنے اندر نہیں رکھے اور ہر دوسرے کو اپنا رازدار سمجھ کے تنظیمی راز دیتے گئے اور جانے انجانے میں اپنے کچھ ایسی تنظیمی اور ذاتی راز باہر نکالتے ہیں کہ جو ہمیں اپنے آخری سانس تک اپنے اندر چھپائے رکھنے ہوتے ہیں، اسکو ہم اپنے کسی دوست یا دوست سے بڑھ کر کسی اپنے کو بتا دیتے ہیں
المیہ یہ بھی ہے کہ کمزوری اوپر سے ہے۔ بغیر جانچ پڑتال ہر دوست کو تنظیمی راز دیتے ہیں خفیہ مشنوں کا حصہ بناتے ہیں اور ہیروازم کا شکار دوست خود کو تنظیمی دوست ظاہر کرنے اور اپنے نام کیلئے کچھ ایسی باتیں ظاہر کرتے ہیں جو آگے چل کر ہمارے گلے میں پھانسی کے پھندے کی طرح ہونگے لیکن جب پھندہ گلے میں ہو تو بس جان ہی جائیگا۔
جو چیزیں ہوئی نہیں ہیں آگے ہونے والے ہیں، یہ بھی غیر تنظیمی دوستوں اور ہمدردوں کو پتا ہوتے ہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے تو یہ سب تنظیموں میں رازداری نا ہونے کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ یہ سب ہماری غلطیاں ہیں، جلدی لوگوں پر اعتماد کرکے انہیں تنظیمی رازوں سے آگاہ کرتے ہیں اور پھر انہی کے غلطیوں پر رونے لگتے ہیں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کے اتنے شہادتوں’سینکڑوں دوستوں کے اغواء ہونے اور خفیہ مشن پر دوستوں کی شہادت کے باوجود بھی ہم سمجھ نا پائے اور خود میں بہتری نا لاسکے۔
یہی کمزوری مسلح تنظیموں سے لیکر سیاسی تنظیموں میں عام ہے، اگر میں کسی تنظیم کا کارکن ہوں، مجھے ایک مشن یا کسی چیز کا حصہ بنایا جاتا ہے تو جتنی باتیں وہاں مجھے بتائے جاتے ہیں، سکھائے جاتے ہیں، تو وہ باتیں میں اپنے کسی ذاتی دوست کے ساتھ بیٹھ کر وہی باتیں ظاہر کرونگا، یہی سوچ کے کہ یہ میرا رازدار ہے اور کئی دفعہ ہم غلط ثابت ہوتے ہیں، لیکن یہ کمزوریاں اوپر سے نیچے سب میں ہیں اس کو سدھارنے کا عمل خود سے شروع کرنا ہے۔
ہر چھوٹے بڑے دوست کو ان چیزوں کا حصہ نا بنائیں جو ذہنی حوالے سے پختہ نا ہوں، وہ کبھی آپکے رازوں کو اپنے اندر نہیں رکھ سکتے تو پہلے اپنے دوستوں کو تیار کریں پھر انہیں ہدف دیا جائے اور اپنے اندر کی باتوں سے آگاہ کیا جائے
مسلح تنظیموں کی بات کی جائے تو کچھ ایسے غیر سنجیدہ دوستوں کی کہانیاں بھی منظر عام پر آئی ہیں، جو سرمچاری کے نام پے محبوباوں سے رابطہ رکھنا تنظیمی راز دے کر خود کو ہیرو ثابت کرنا، جب تنظیم کی طرف سے کوئی مشن ملے اور جب ٹارگٹ پر پہنچے تو اس محبوبہ کو فون کرکے بولا جاتا ہے کے اب سنو ڈر کا آواز۔
ایسی کہانیاں ہمارے سامنے ہوئے ہیں جب ہم اپنے مشنوں،رازوں اور کاموں کو ایسے سرعام بتا دیں تو ہم سوچ نہیں سکتے کے ہم کن نقصانوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
بلوچ تحریک کے مسلح اور سیاسی تنظیموں میں سب سے زیادہ جس تنظیم کے حکمت عملی اور پالیسیاں اچھے لگے، وہ تنظیم بی ایل اے ہے کیونکہ وہاں پر رازداری کے حوالے سے قانوں تھوڑا سخت ہے اور ان چیزوں کا زیادہ اہمیت دیا جاتا ہے اور یہ نہایت بہترین عمل ہے۔ اپنے تنظیم کے رازوں کو اپنے نئے دوستوں کو نا دینا انہیں ہر چیز سے واقف نا کروانا، جب تک وہ پورے طور پر تیار نا ہوں تو شاید یہ حکمت عملی سارے تنظیموں کو اپنانا چاہیئے تاکہ مستقبل میں نقصانات سے بچا جا سکے۔
ہر کارکن کو سمجھایا جائے کے ایک ایک گوریلہ سپاہی کی اولین خوبی رازداری ہے وہ کسی سے خاص نہیں دکھتا، گوریلہ سپاہی خود میں ایک عام سا ہی رہنے والا شخص ہوتا ہے۔ گوریلہ جنگ میں گوریلہ سپاہی کو سکھایا جاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے کام کو سر انجام دیکر وہاں سے با حفاظت نکلے، گوریلہ سپاہی کا سب سے پہلا مقصد خود کی جان حفاظت میں رکھ کر دشمن کو نقصان پہنچانا ہے، گوریلہ کے اصول خود کو محفوظ رکھنا اپنے کاروائی سے عام عوام کو نقصان نا پہنچانا اور ایک چھوٹے ہتھیار سے زیادہ دشمن کو نقصان دینا اور ٹھکانے بھیس بدل کر رہنا ایک جگہ ہمیشہ کسی ہوٹل یا کسی ایک چوک پر زیادہ وقت نا گذارنا۔ راز داری گوریلہ کا سب سے اہم جز ہے ایک گوریلہ اپنے راز آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود سے بھی ہمکلام نہی کر سکتا، عام لوگوں میں رہنا روشنی سے زیادہ اندھیرے کا فائدہ اٹھانا اور چھپ کر وار کرنا وار کرکے پیچھے ہٹ جانا ہے، اصول ایک گوریلہ کو مکمل گوریلہ بناتے ہیں۔
ہم بھی خود کو گوریلہ کہتے ہیں لیکن جہاں دشمن کو اصل گوریلہ کو پہچاننے میں مشکل ہوتا ہے، وہیں ہم کو ہمارے ہاں ایک عام شخص کیلئے پہچاننا بہت آسان ہے، ہم میں بہت کمزوریاں ہیں ہمارا پہچان بہت آسان ہے، کیونکہ ہم اپنا پہچان اپنے ہاتھ میں رکھ کے گھوم رہے ہیں۔ جو بھی ملے اسکے ہاتھ میں دے کر نکل جاتے ہیں اپنے کسی دوسرے رازدار کی تلاش میں، ہم کسی کے ساتھ 20منٹ بیٹھ جائیں چار میٹھے الفاظ سامنے والے سے سُنیں تو اپنا پہچان اور جنم کنڈلی اسکے سامنے رکھ دیتے ہیں، اکثر دوست سوشل میڈیا پر ایسا کرتے ہیں اور انہی میٹھے الفاظ نے ہمیں کڑوے نقصان دیئے۔
لیکن ہم خود میں بہتری لانے کے بجائے یہ نقصان ہضم کرکے آگے بھی نقصان کھانے کیلئے تیار کھڑے ہیں، یہ سینکڑوں کمزوریوں میں سے ایک کمزوری ہے جو سر سے پاوں تک ہم میں پھیلا ہوا ہے، اگر اب بھی ایسے کمزوریوں سے اجتناب نہیں کیا گیا، تو ہم پھر سے انہی نقصانوں کا شکار ہوتے رہینگے تنظیموں اور جہدو جہد کی کمزور ہونے کی وجہ پہلے اختلاف کے آڑ میں خود کو سوشل میڈیا پر دشمن کے سامنے ظاہر کردیا۔ اب ہر دوست تنظیم کے ہر بات سے واقف ہوکر بلا جھجک اسے کسی سے بھی کہہ دیتے ہیں، ان میں سے یہ بھی ایک اہم وجہ ہے، اگر شروع سے ہم راز اپنے اندر رکھتے تو اب تک جتنی بار ہمارے مسلح اور سیاسی تنظیمی ٹوٹ پوٹ کا شکار ہوئے ہیں ایسا نا ہوتا اور آج ہم بہتر پوزیشن میں ہوتے اور ایک بہتر طریقے اور حکمت عملی سے دشمن کے سامنے رکاوٹ ہوتے یہاں عمل سے پہلے پلان ظاہر ہوجاتا ہے تحریک چل رہا وہ کمزوری اب بھی ہم سب میں ہیں اسے ختم کیا جا سکتا ہے،
آگے بہتر حکمت عملیوں سے دشمن کے مدمقابل آنا ہوگا اور جب ہر کمزوری کو روکا جائے ختم کیا جائے تو یقیاناٗ ہم خود کو نقصانوں سے بچا کر دشمن کو نقصان دے سکیں گے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий