Powered By Blogger

четверг, 30 января 2020 г.

تیس جنوری: ہم نے کیا کھویا؟ – دل مراد بلوچ

تیس جنوری 2016 کی ایک سرد رات، پارٹی دوستوں کے ساتھ ایک کٹیا میں آگ کے الاؤ پر خود کو گرم رکھنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ بی بی سی اردو پروگروام کے انتظار میں تھے کہ کوئی خیر کی خبر، کسی کی رہائی کی خبر بلیٹن میں شامل ہو۔ لیکن بی بی سی سے شاذہی خیر کی خبر ہماری سماعت کے حصے میں آئی۔ سویہ بھی معمول کا انتظار تھا۔ آٹھ بج گئے۔ ایک چھوٹی سی ریکارڈر ہمیشہ ہاتھ میں ہوتا کہ شاید کوئی قابل ریکارڈ خبر ہو۔ آٹھ بج گئے اور خبروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مسلسل سننے سے بی بی سی جیسے مہان ادارے کی یکسانیت بھی انتہائی ناگوار گزرتی ہے لیکن دوسرا چارہ کار نہ تھا۔ سننا نصاب کا لازمی حصہ بن چکا تھا۔ جب تک بی بی سی ریڈیو سروس مرحومین میں شامل نہ تھا، بلوچ سیاسی سرکلوں میں آٹھ بجے سے نو بجے تک مجلس میں ایک ہی آواز کو چلنے کی اجازت تھی اور وہ بی بی سی اردوسروس تھا۔ ساتھی اس طرح منجمد ہوکر سنتے جیسے کہ شاگرد زانو تلمذ ہوکر اپنے گرو کا درس سنتے ہیں۔ عمومی دنوں کی طرح خبروں کی سرخی اور متن میں بلوچستان کا ذکر شامل نہیں تھا۔ لیکن آخر تک سننا لازمی تھا۔ ہم اکتائے اکتائے سن رہے تھے کہ آخری چند منٹوں میں اعلان ہوا کہ پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے مستونگ میں ڈاکٹر منان بلوچ کوقتل کردیا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جیسے ہم پر بجلی گری۔ اس سے قبل کہ کاظم مینگل کی خبرچلتی، ذہن نے ہزار نقشے بُنے۔ خبر کے رَد ہونے کی ہزار تاویلیں بنانے میں جت گیا۔

انسانی ذہن بھی عجیب شئے ہوتا ہے کہ کبھی کبھارکوشش کے باوجود ذہن کوئی خیالی عکس بنانے سے قاصر رہتا ہے۔ اور کبھی ایک مختصر لمحے ہی میں ہزاروں قصے بُنتا ہے۔ یہ ایک ایسا ہی لمحہ تھا کہ ذہن میں متنوع خیالوں کاطوفان برپاتھا۔ نہیں۔ یہ ڈاکٹر منان جان نہیں ہوں گے۔ یہ پاکستان کا ایک اور جھوٹ ہوگا جو پاکستان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ پاکستان ایک دو دفعہ پہلے ڈاکٹر اللہ نذربلوچ کو مارنے کے جھوٹے دعویٰ سمیت ایسے متعدد کارنامے انجام دے چکا تھا۔ سوچا یہ بھی جھوٹ ہی ہوگا۔ ایسے ہی خیالات سے ہماری ڈھارس بندھ رہا تھا کہ کاظم کی رپورٹ شروع ہوئی۔ اس میں بدنام زمانہ وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کا آواز بھی شامل تھا، جو بڑے فخر سے دعویٰ کررہے تھے کہ انہوں نے ”بی ایل ایف“ کے کمانڈرڈاکٹر منان کو ماردیا ہے۔ انہوں نے یہ ہزرہ سرائی بھی کیا کہ ڈاکٹر اللہ نذر کو مارنے کے بعد بی ایل ایف کے معاملات کو ڈاکٹر منان چلارہے تھے۔ یہ فورسز کی بڑی کامیابی ہے وغیرہ وغیرہ۔ بی بی سی معتبر ادارہ ہے، اس کی خبروں کی صداقت پر شک کم ہی ہوتا ہے لیکن دل ہے کہ مانتا نہیں۔ رپورٹ ختم ہوئی تو صدیق بلوچ سے ڈاکٹر منان کے بارے چند سوال کئے گئے انہوں یہ زحمت گوارا نہیں کہ ڈاکٹر صاحب بی ایل ایف کے نہیں بی این ایم کے سیکریٹری جنرل ہیں۔ البتہ یہ اقرار کی کہ پڑھے لکھے رہنما تھے۔ میں، چیئرمین صاحب اور چند ساتھی گویا سُن ہوچکے تھے۔ بی بی سی کا گھنٹہ ختم ہوا۔ ہم بُت بنے بیٹھے رہے۔ کسی نے ہمت کرکے ریڈیو بند کردی۔ آگ بھی بجھ گیا تھا۔ میں تفصیلی احوال لینے کے لئے چلاگیا، شاید وہ بھی اس امید سے کہ میں خبر کی تردید لاؤں۔

زمستان کی یخ بستہ گوریچ زوروں پر تھا لیکن آج میں سردی گرمی جیسے فطری احساسات سے عاری ہوچکا تھا۔ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ بعد ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔ پارٹی میڈیئٹر کا نمبر ملایا جو بدقسمتی سے مل گیا اور میں بس ایک ہی لفظ بول پایا ”ھال“۔ جواب میں انہوں نے ایک ہی لفظ کہا،”راستے“۔ پھر ہمت کرکے تفصیل جاننی چاہی۔ دوسرے شہید دوستوں کے نام پوچھ کرتفصیل لے کر واپس پہنچ گیا تو ساتھی بجھ چکے آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ میری خاموشی نے انہیں سب کچھ بتا دیا۔ رات ڈھل چکی تھی اور میں اجازت لئے بغیر اٹھ کر اپنے کٹیا جاپہنچا، بستر پر دراز ہوا۔ یہ بات ہی بے معنی ہے کہ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ احمق دل ابھی تک نہیں مان رہا تھا کہ یہ ہوچکا ہے۔

بلوچ قومی تحریک کے سیاسی سفر میں تیس جنوری کا دن ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ سرزمین بلوچ پر طلوع ہوا،ایک ایسی نقصان جسے شائد لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتاہے، کہتے ہیں کہ تیس جنور ی کو ہم نے ڈاکٹر منان بلوچ اور ساتھی کھودیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے تحریک آزادی کی ایک ایسی ہستی کھودیا جس کانعم البدل پیدا کرنے کے لئے صدیاں درکارہوتی ہیں۔ اس دن ہم نے مستونگ میں سنگت ثنا کے پہلو میں ایک ڈاکٹر منان کو نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے باعمل انسان، توانا و پُر تاثیر آواز، تحریکی مستقبل کے بین الاقوامی مبلغ کو منوں مٹی تلے دفن کردیا۔ ایک ایسی آواز جو صدا بہار تھا۔ ایک ایسی آواز جس میں کبھی تھکن نہیں آئی۔ ایک آواز جس میں تاثیر تھا۔ ایک ایسی آواز جو کانوں تک پہنچتے ہی دل میں اترجاتا اور روح کو سرشارکرجاتا۔ وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش کردی گئی۔ دشمن نے یونہی تو منان جان کے قتل پر شادیانے نہیں بجائے۔

فارسی میں کہتے ہیں ”جائے استاد خالی است“بلوچ جدوجہد میں آج جائے استاد خالی ہے، نجانے کب اور کس موڑ پر یہ جگہ پر ہو،کون بصور ت ڈاکٹر منان اس نشست پر جلوہ افروز ہو،شہدائے مستونگ کوئی معمولی نقصان تو نہیں تھا کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اوہ خدایا ہم نے کیا کھودیا؟ ڈاکٹر منان جان کے علاوہ بابو نوروز، اشرف جان، حنیف جان، ساجد جان سبھی اپنے اپنے فیلڈ میں لائق و قابل دوست تھے۔ ان سب نے ایک ہی وقت میں ہونا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہونی کو کوئی دیو بھی انہونی میں نہیں بدل سکتا۔ یہ ہوچکا تھا۔ یہ تلخ گھونٹ پینا ہی تھا۔ پارٹی نے انہیں بلوچ سیاست کا مینارہ نور قراردیا۔ پارٹی نے انہیں مشعل راہ قرار دیا۔ پارٹی نے سوگند کی تجدید کی کہ یہ سفر نہیں رکنے والالیکن یہ زخم کبھی نہیں بھرے گا،یہ خلاشائد صدیوں بعد پر ہو۔

ڈاکٹرمنان بلوچ محض ایک شخص کا نام نہیں تھا۔ بلکہ ڈاکٹر منان ایک انقلابی رویے اورحرکت کا نام تھا۔ ایسا رویہ جس میں اپنائیت تھی۔ کشش تھا، خوشبوتھا، مہک تھا۔ ڈاکٹر منان جان کے پاس پہنچ کر من و تو، زمان و مکان مٹ کر بس قالب ہی الگ رہ جاتے۔ سب ایک ہی روح میں سما جاتے اورمحفل گویا محفل ِسماع بن جاتا۔ ڈاکٹر منان وہ لڑی تھا جس میں پارٹی کارکن اوردوزواہ بڑے خوبصورتی سے پروئے ہوئے تھے۔ وہ تھے ہی ایسے۔ سرزمین کے عاشق۔۔۔ بلوچستان کے عاشق تھے۔ کتاب کے عاشق۔ علم کے عاشق تھے۔ بی این ایم کے فدائی تھے اور فدا ہو کر ثابت بھی کرگئے۔ بلوچستان کو ہمیشہ علمی میدان میں قحط کا سامنا رہا ہے لیکن تحریک میں علمی دوستوں کا قحط تو نہیں البتہ کمی ضرور تھا۔ ڈاکٹر منان اس قحط زدہ وادی کے گلستان تھے۔

غلامی میں موت کی سی سکوت ہوتی ہے۔ ذہن منجمد اور تقلید محض بن کر رہ جاتے ہیں۔ غلامی کے اس گہری سکوت میں ڈاکٹر منان بلوچ حرکت کا دوسرا نام تھا۔ وہ سکوت اور ایک جگہ ٹہر کر رہنے کو سیاسی انسان کا موت سمجھتے تھے۔ سیکوریٹی خدشات حد سے بڑھ گئے تھے۔ دوستوں نے مشوردہ دیا کہ سفر کم اوراحتیاط زیادہ کریں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ”خوف اور احتیاط میں فرق ہوناچاہئے۔ اگر ہم احتیاط کے نام پر خوف زدہ ہوکر بیٹھ گئے تو یہ ہماری قومی موت ہوگا“اور”ہماری انفرادی موت میں قومی زندگی پنہاں ہے“۔ ہمیشہ سفر میں تھے۔ مکران، جھالاوان، خاران، سراوان اورکراچی غرض بلوچستان کے چپے چپے چھان لیتے۔ وہ جہاں گئے، اپنا نشان چھوڑ گئے۔ جہاں گئے، بی این ایم کی داغ بیل ڈال گئے، سیاست کی نہال لگا گئے۔ دلوں میں آزادی کی تمنا مثل مشعل روشن کرگئے۔ وہ آزادی کا ایک ایسا شمع دان تھے جس میں آزادی کا لَو ہمیشہ روشن رہتا تھا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ڈاکٹر منان بلوچ جہاں بھی گئے آج وہاں سیاسی آثار توانا صورت میں موجود ہیں اورہمیشہ موجودرہیں گے۔

دشمن کی بے پناہ بربریت کے باوجود آج بلوچستان اوردیگر ممالک میں پارٹی موجود ہے۔ پارٹی ورکر بساط بھر کام کر رہے ہیں۔ اس میں ڈاکٹر منان بلوچ کی سیاسی محنت اور سرزمین سے عملی عشق کا بڑا عمل دخل حاصل ہے۔ ان شبانہ روز محنت نے سینکڑوں کل وقتی کارکن اور ہزاروں دوزواہ پید اکئے، جن کا آج جینا مرنا پارٹی کے لئے ہے۔ پارٹی مشن کے لئے ہے۔ بلوچستان کی آزادی کے لئے ہے۔

اس تحریک سے پہلے بلوچ سیاست ہمیشہ چند حلقوں یا چند شہروں تک محدود رہا ہے۔ یہ کریڈٹ ڈاکٹر منان بلوچ ایسے ہستیوں کو جاتا ہے کہ انہوں ایسے علاقوں میں قومی سیاست کی آبیاری کی جہاں یہ شجر ممنوعہ تھا، جہاں قومی سیاست کا نام ونشان تک عنقا تھا۔ ان علاقوں میں ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز محنت اور سیاسی بصیرت سے آج قومی تحریک کے جہدکارمختلف محاذوں پرقابل فخر کردارادا کر رہے ہیں اوربلوچ نیشنل موومنٹ کے دو کونسل ایسے علاقوں میں منعقد ہوئے جہاں کسی سیاسی سرکل اور مجلس کے آثار نہیں ملتے تھے۔ دوہزار دس کا سیشن جھاؤکے حصے میں آیا جہاں تین دہائیوں سے پاکستان کے پروردہ ایک خاندان کا راج تھا، جنہوں نے اس علاقے کو ہرمیدان میں قرون وسطیٰ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا تھا۔ لیکن جب ڈاکٹر منان بلوچ نے قدم رکھا تو جادو سا ہوگیا۔ شخصی راج کے پرخچے اُڑگئے اورقومی سیاست ہر گدان میں پہنچ گیا۔ آج بھی جھاؤ، گریشگ، کولواہ جیسے مختلف علاقوں میں ڈاکٹر منان بلوچ کی کردار جہدکاروں کی صورت میں دشمن کا ہر میدان میں مقابلہ کررہے ہیں۔

ڈاکٹر منان بلوچ کے لئے قومی سیاست ایک عبادت تھا۔ روحانی سرشاری کا دوسرا نام، اس لئے ایک جگہ ٹک کر بہتر وقت کا انتظار کے بجائے جدوجہد کے لئے بہترمواقع پیدا کرنے اور دشمن کے لئے بلوچ سرزمین توے کی مانند گرم کرنے میں مصروف رہے۔ شہر، کوچگ، پہاڑی سلسلے ہر اس جگہ پہنچے جہاں ایک بھی بلوچ کا گدان موجو د تھا۔ میں گدان کا لفظ محاورتاَ استعمال نہیں کررہا ہوں بلکہ حقیقت میں ڈاکٹر منان نے شاشان، سورگر، کولواہ، زامران، بالگتر، پروم جیسے دیہی علاقوں اوران سے متصل پہاڑی سلسلے سب سے پہلے سر کرلئے اور آزادی کا پیغام بلوچ گدانوں تک پہنچایا۔

تیس جنوری 2016 کو بلوچ سیاست کا ایک اہم باب ڈاکٹرمنان جان کے قتل کی صورت میں ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا۔ وہ انسان جس نے بلوچ قوم کی بے پایاں خدمت کرنا تھا، قومی آزادی کے لئے مزید مسافتیں طے کرنی تھی، مزید عملی وسیاسی کارنامے سرانجام دینے تھے لیکن مستونگ کے کلی دتوئی میں یہ سارے امکانات ہمیشہ کے لئے بظاہرمعدوم ہوگئے۔ جو لہو حق کے لئے بہتا ہے وہ معدوم نہیں ہوتا ہے۔ وہ فنا کے بجائے ہزاروں، لاکھوں کی بقا کا وسیلہ بنتا ہے۔ ڈاکٹرمنان بلوچ اور ساتھیوں کا لہوبلوچستان کے ہر افق میں شام کی سرخی میں ہمیں ہر روز آزادی کا پیغام دیتے ہیں۔ ہر روز ہماری آشائیں جگاتے ہیں ہر روز ہمیں مزید قوت کے ساتھ آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آج بے شک دشمن بہت طاقت ور ہے، ایک ریاست بمع تمام اداروں کے بلوچ سرزمین پر یلغار کرچکا ہے، کرایہ دار قاتل اور مرسنریوں کی تعداد بھی بڑھ چکی ہے۔ پاکستان کے حواری ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اورچندے حیلہ گر بلوچ کے جذبات سے کھیلنے کی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں نہتے بلوچ فرزند کٹ رہے ہیں، زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں لیکن جنگ جاری ہے۔ محاذوں کی تعداد بڑھ رہے ہیں۔ بلوچ اور بلوچیت توانا ہورہا ہے۔ دشمن کے لئے سرزمین اب گرم حلوہ نہیں رہا گوکہ ابھی جمع تفریق کا وقت تو نہیں آیا لیکن ڈاکٹر منان بلوچ سمیت تمام شہدا کے لہو ہم سے یہی تقاضے کرتے ہیں کہ اپنے صفوں کا جائزہ لینے کے عمل کو نماز کی طرح فرض سمجھ کر آگے بڑھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم شہدا کے لہو کے سامنے سرخرو ہورہے ہیں۔

понедельник, 27 января 2020 г.

خان قلات قومی نمائندہ نہیں بلکہ ایک شکست خوردہ نظام کی آخری علامت ہیں – ڈاکٹر اللہ نذر

خان قلات قومی نمائندہ نہیں، طبعی موت مرچکے نظام کی آخری علامت ہیں، نام نہاد ”خان ِقلات“ اپنی سیاسی طبعی عمر گزار چکے، محض دقیانوسی قبائلیت کی آخری نشانی ہیں۔ بلوچ رہنماء

 ان خیالات کا اظہار بلوچ آزادی پسند قوم پرست رہنماء ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیا ۔

انہوں نے کہا بلوچ قومی تحریک ایک منظم و مسلسل ارتقائی عمل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے جہاں وہ کسی ایک فرد یا شخصیت پر انحصار نہیں کرسکتی بلکہ یہ تحریک بلوچ قوم کی اجتماعی میراث بن چکی ہے۔ پوری قوم اس تحریک کا پاسبان ہے اور بلوچ قوم نے تحریک کی نمائندگی کا فریضہ سیاسی پارٹیوں اور مسلح تنظیموں کو تفویض کیا ہے نہ کہ کسی ایک فرد کو۔

انہوں نے کہا کہ چند دنوں سے ایک امریکی صحافی آرمسٹرانگ ولیمز اپنے ٹی وی شو میں نام نہاد خان قلات کی پذیرائی کر رہے ہیں اور اسے ”کنگ آف بلوچ“ جیسے القابات سے نوازنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ جس نظام سے چھٹکارہ پاکر مغرب جدیدیت کی طرف بڑھ کر فلاحی ریاست و سماج بننے میں کامیاب ہوا ہے مگر تیسری دنیا کے غلام قوموں کے لئے وہ اب بھی اسی نظام کا خواہاں ہے۔ یہ بلوچ تحریک کے روح کے منافی اور بلوچ قوم کے مسترد کردہ نظام کی باقیات کو زندہ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بلوچ قوم نے واضح کر دیا ہے کہ قومی تقدیر اور قومی نمائندگی کا فیصلہ بلوچ قوم کا اجتماعی اختیار ہے، کوئی بیرونی طاقت یا گروہ نہیں جو جسے چاہے تفویض کرے۔

قوم پرست رہنماڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی غلامی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اور بنیادی محرک دقیانوسی قبائلی نظام اور قبائلی شخصیات کی منفی، رجعتی اور مصلحت پسندانہ سوچ ہے۔ اس کی وجہ سے عظیم وطن اور تہذیب کا مالک قوم ایک ایسی قوت کے زیرنگین ہے جس کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ کوئی تہذیب۔

آزادی پسند رہنماڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ خان قلات ایک شکست خوردہ نظام کی آخری علامت ہیں۔ انہیں توانا کرنے میں ان قوتوں کو ضرور دلچسپی ہوگی جو ایک قوم اور اجتماعی قیادت کے بجائے چند شخصیات سے مستقبل کے معاملات کے لئے بات چیت کے خواہاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ نیشنلسٹ پارٹی اور تنظیمیں قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں جبکہ ایک فرد کے لئے چند شخصی مراعات ہی سب کچھ ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں دقیانوسی قبائلیت اور قبائلی نظام اپنی طبعی موت مرچکی ہے۔ لہٰذا کسی نام نہاد خان کے سر پر شاہی تاج رکھنے سے نہ معروضی حقائق بدل سکتے ہیں اور نہ ہی سیاسی طور پر طبعی موت مرچکے شخص کو ایک قوم پر مسلط کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قوم نے اپنی آزادی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور عظیم قربانیوں کا یہ سفر جاری ہے۔ لیکن ہم واضح کرتے ہیں کہ بلوچ قوم نے یہ قربانیاں کسی فردِ واحد کو خوش کرنے یا بطور بادشاہ منوانے کے لئے نہیں بلکہ اپنی اجتماعی قومی بقاء کے لئے دی ہیں۔ ایک مسترد شدہ فرد کی اس طرح سے آؤ بھگت پوری قوم کی توہین ہے۔ کیونکہ سلیمان داؤد بلوچستان میں نہ سیاسی بساط رکھتے ہیں اور وہ نہ ہی وہ آزادی کی جد و جہد کا ایک سرگرم حصہ ہیں۔ ایسے میں اْنھیں سے حالات کے مطابق ایک مہرے کے طور پر استعمال کرکے عالمی سطح پر بلوچ قومی جد و جہد اور ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر فائدہ صرف ایک شخص کیلئے ہی ممکن ہے جسے ہم مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔

четверг, 23 января 2020 г.

وطن کا عاشق :تحریر: دل جان بلوچمنگل 24 فروری, 2015

وطن کا عاشق :تحریر: دل جان بلوچ
منگل 24 فروری, 2015
کانٹوں سے سجی ہوئی پر خار درد بھری دشوار گزار سفر پر چلنے والے مسافر انسان کو کوئی پاگل بے وقوف کوئی جاہل کوئی گمراہ ہی کہے گا ، میری رائے کے مطابق پاگل پن ، جاہلیت، مست گمرائیت کی آخری حد بھی ہو لیکن موت قبول کرنا گہوارہ نہیں ہوتا، گلی شہروں میں گھومنے پھرنے والے گالی گلوچ دینے والے پاگل بھی موت سے ڈرتے ہیں جتنا بھی پاگل ہو آگ یا پانی میں کھودنا گہوارا نہیں کرتا پھر یہ پاگل انسان کون جو اپنے پاگل پن کی وجہ سے موت کو آغوش میں لینا اپنے لئے فخر محسوس کرتے ہیں پھر یہ تو پاگل عاشق ہوتے ہیں عشق یعنی گھر کا عشق نہیں پیسے کا عشق نہیں گھر والوں کا عشق نہیں ،سیرتفریح کا عشق نہیں ،ماں باپ خاندان والوں کا عشق نہیں ،نوکری روزگارکمائی کا عشق نہیں بلکہ وطن کی عشق ،
میں اپنی قلم کی نوک سے مادر وطن کی ایک سچے عاشق کی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اسے میں اپنے آپ سے زندگی میں بہت قریب سے پایا تھا وہ عاشق وہ بہادر وغیرت مند اور کون ہوسکتا ۔
نوشکی کی گلیوں میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس کے فیصلوں اور مستقبل کے حوالے سے نوشکی بھی بے خبر تھا جب اس بچے کا جنم ہوا تو نا جانے باپ نے کیا سوچ کر حق نواز نام رکھا ہوگا جب لڑکپن میں داخل ہوا یہ دور کسی بچے کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیں لیکن تم تو عام بچوں سے زراہٹ کے تھے تمہارے عمر کے بچے نوشکی کے گلیوں میں فٹبال کرکٹ کھیلتے ہیں اور تم شہید فدا ، شہید حمید کے تصاویر کو سینے سے لگا کر سوتے جب شہید نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کی خبر ہر طرف پھیلی تو باقی بلوچوں کی طرح تم بھی اپنے جذبات کو کنٹرول نہ کرسکے اور گھر سے نکلنے ،اپنی بساط کے مطابق دشمن کو نقصان دینے لگے تمہیں دیکھ کر کہتے کہ تم بچے ہو گھر جاؤ لیکن ان کی باتوں کو ان سنی کرکے اپنے کام مصروف ہوتے ،اس کے بعد بی ایس او (آزاد) میں شمولیت کی تو دن رات تنظیمی کاموں میں ایک کرتے تھے ہر کال پر حاضر تھے جب دشمن نے تمہیں مسلسل کام کرتے دیکھا تمہاری مخلصی کو بلوچ قوم کے ساتھ دیکھ کر تم پہ جھوٹے قتل کا مقدمہ کر ڈالا اس مقدمہ سے بھی بور جان نہیں گھبرایا بلکہ اپنے ارادے کو مزید مضبوط کی اور بی ایل اے میں شمولیت اختیار کی اور دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھایا تمہاری بہادری کا دشمن کو اچھی طرح اندازہ تھا اس کے بعد نوشکی میں جتنے بھی تنظیمی کام ہوئیں ان کے اکثر ایف آئی آر تمہارے نام درج ہے میرے دوست بلوچ سرزمین بانج تو نہیں لیکن تمہارے بعد نوشکی میں بی ایس او کو تمہاری طرح کا زونل صدر اور بی ایل اے کو بہادر سرمچار نہیں ملا۔
سنگت تم نے زندگی کو اچھی طرح دیکھا تک نہیں تھا کہ وطن نے قربانی کی آواز دی اور تم نے بے دھڑک مادر وطن کی آواز پر لبیک کہہ کر امر ہوگئے تم میں ذاتی غرض نہیں تھا زندہ رہنے کا لالچ نہ تھا نہ اپنے دشمن کو آرام کرتے ہوئے دیکھتے تو پریشان ہوتے حکمت عملی بنا کر دشمن پر حملہ کرتے تو تم خود ہر حملے میں پہلے صف میں ہوتے بولان ہو یا قلات پارود میں یا نوشکی ہو جہاں بھی دوست آپ کو بھیجتے آپ کامیاب ہوکر لوٹتے تم تو بنے تھے دشمن کو برباد کرنے کے لئے ، حق نواز جان 19فروری کو بھی پہلے مورچے میں تھا بزدل دشمن بھیس بدل کر اندر داخل ہونا چاہتے تھے لیکن حق نواز جان نے اسے ناکام بنا دیا دوستوں کی حفاظت کی اور خود قربان ہوگیا بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بے غرض ہوکر بغیر کسی لالچ کے جیتے ہیں اور وہی اس راستے میں کامیاب ہوتے ہیں کامیاب بھی حق نواز، حئی، امیر ، گزین اور شیرا جیسے سنگت ہوتے ہیں ایسے تو نام کے بہت سے آئے ،کسی نے کہا کہ میں فدا ہوں لیکن فدا ہین نہ بن سکا ،کسی نے کہا میں زبیر ہوں لیکن پھلین زبیر نہ بن سکا کسی نے کہا میں پھلین ہوں لیکن وطن پر قربان نہ ہوسکا ،کسی نے کہا کہ میں بابو ہوں لیکن وفا نہ کرسکا ،حق نواز جان تمہارے بعد بہت سے آئے گئے لیکن ان میں سے حق نواز کوئی نہ بن سکا آج بھی آنکھیں نوشکی کے راستوں پر لگے ہیں کہ شاہد کوئی حق نواز آئے گا اور امید ہے کہ ایک نہ ایک دن وہی حق نواز وہی سوچ وہی کام کا جنون وہی مادر وطن سے عشق کا جنون لیکر ضرور آئے گا۔
آج دوست تمہیں گزرے دو سال ہوگئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے کہ ہم سب ایک ساتھ تھے آج جب ان راہوں سے ان گزرگاہوں سے گزرتا ہوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم اب بھی ساتھ ہو ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر چڑتا ہوں تو تمہیں ساتھ پاتا ہوں ہر لمحہ ہر پل تم یاد آتے ہو تمہاری دوستی تمہارا خلوص تمہاری بہادری آج بھی یاد ہے سنگت تم نے تو وطن سے وفا کی اور مکمل ہوگئے۔
ٓٓآج بھی یاد ہے شہید حئی اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشن بیرگیر کو انجام دینے کے سلسلے میں شہید ہوگئے تو کام کے سلسلے میں شہر گئے ہوئے تھے جب تمہیں اطلاع ملی کہ حئی شہید ہوا ہے تو تم سب کام چھوڑ کر کیمپ چلے آئے اور حئی کی شہادت پر بہت افسردہ تھے اکثر سوچوں میں گم رہتے تھے حئی جان کی شہادت کے چار ماہ بعد دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی میں سنگت حق نواز بھی شہید ہوگئے سنگت تمہاری فکر آج بھی زندہ ہے لیکن کبھی کبھی اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے کہ مجھ جیسا کمزور انسان کم سوچ رکھنے والا شخص کم ہمت کو تم جیسا دوست ملا تھا۔

вторник, 21 января 2020 г.

پاکستانی ٹارچر سیلوں سے شہید نصیر بنگلزئی کا آخری پیغام – نوروز بلوچ

شہید نصیر بنگلزئی مستونگ کے علاقے اسپلنجی کا رہنے والا تھا وہ بہادر اور وطن پہ جان قربان کرنے والا سرمچار تھا، انکی ہر وقت یہی کوشش تھی کہ وطن کی آزادی کی راہ میں زیادہ سے زیادہ اپنا حصہ ڈال دوں اور وطن اور اپنی ماں بہنوں کی عزت پہ ہاتھ ڈالنے والوں کو زیادہ سے زیادہ جہنم رسید کرسکوں۔ اسی سوچ نے اسے ایک عام شہری سے سرمچار بنا دیا اور اس نے یونائیٹڈ بلوچ آرمی(UBA) جوائن کر لیا۔ سرمچار بنتے ہی اس سے اپنی ذمہ داریاں پوری لگن اور ایمانداری کے ساتھ سنبھال لیں۔

وہ شہید نورزیب کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ساتھی تھا کچھ وقت تک علاقائی کام سنبھالنے کے بعد جب تنظیم کے ساتھیوں نے انکی لگن، ایمانداری اور مخلصی کو دیکھی تو انہوں نے اسے شال کے کاموں کو سنبھالنے کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا۔ جب یہ بات تنظیمی سطح پہ طے ہونے کے بعد نصیر جان کو بتایا گیا تو نصیر جان نے خوشی کا اظہار کرکے اسے خوشی خوشی قبول کرلیا اور کچھ دنوں بعد شال کی طرف چل پڑا، شال میں نصیر جان نے قدم رکھتے ہی دن رات محنت کر کے اپنے لیئے کچھ خاص ساتھی اکھٹے کیا۔ ان میں سے ایک ساتھی اسکا کزن شہید نصیب اللہ عرف مانجی بھی تھا اور تحریکی کاموں کو سنبھالتے ہی قابض پہ ہر جگہ سے حملہ بول دیا۔ شال دھماکوں کی آوازوں سے گونج اٹھا اور قابض فوج لرز اٹھا اور قابض نے انہیں ہر طرح سے ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر آزادی پسند سرمچار بہت ہی ہوشیار اور بہترین انداز میں اپنے ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے، جس سے دشمن کو شک بھی نہیں ہونے دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں اور کزن مانجی کے ساتھ ملکر بہت سے محاذوں پہ دشمن پہ قہر بنکر برسے اور انکے نیندیں حرام کیئے۔

ایک دن نصیر جان اور اسکا کزن مستونگ سے کوئٹہ کی طرف آرہے ہوتے ہیں تو ریاستی اہلکار اور خفیہ اداروں کے اہکار انہیں مستونگ سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پہ منتقل کرتے ہیں۔

کچھ دن بعد انکے کچھ کزنز اور اسکے چار بھائیوں کو بھی حراست میں لیا جاتا ہے، شہید نصیر اور اسکے کزن کو بہت اذیت دی جاتی ہے لیکن وہ مانتے نہیں ہیں، نہ کہ تنظیمی راز افشاں کرتے ہیں حالانکہ ان سے ریاستی اہکاروں کی طرف سے وعدے بھی کی جاتی ہیں کہ راز ظاہر کرنے اور اپنے ساتھیوں کو گرفتار کروانے پر انہیں رہا کیا جائیگا لیکن وہ غلامی کی زندگی اور غداری جیسے غلیظ چیز کو اہمیت دینے سے زیادہ شہادت کو ترجیح دیتے ہیں اور انکی یہ جرت مندانہ اور دلیرانہ سوچ نے انہیں آج تاریخ کا حصہ بنایا۔

بقول شہید کے ایک ساتھی کے کہ جب نصیر جان کو ٹارچر کیلئے کمرے سے لینے ایف سی اہلکار آئے تو اسکی آنکھیں ایک سفید پٹی سے باندھ کر اسکی ہاتھوں کو پیچھے کی طرف باندھ کر لیکر گئے، جب لیکر گئے تو نصیرجان کو بہت بے دردی سے مارنے لگے اور ایک ایف سی اہلکار اس سے بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہا تھا کہ اپنے ساتھیوں کا نام بتاو اور اپنے تنظیمی راز افشاں کرو مگر نصیرجان کے منہ سے بار بار ایک ہی جواب آتا تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا کسی کہ بارے میں نہ کہ مجھے کسی کا پتہ ہے، زیادہ مار کھانے کی وجہ سے نصیرجان بے ہوش ہوکر گر پڑتا تھا مگر ظالم اہلکار بے ہوشی کی حالت میں بھی اسے مار رہے ہوتے ہیں اور سخت سردی میں اسکی جسم پہ برف والا پانی ڈالا جاتا ہے اور جب وہ ہوش میں آتا ہے تو ایف سی اہلکاروں سے کہنے لگتا ہے جتنا مار سکتے ہوں مارو ابھی بہت ہی کم دن رہ گئے ہیں تمہارے بلوچستان میں، تم لوگ اپنے آخری سانسیں گن رہے ہو ہمارے گلزمین کو تم جیسے یزیدی فوج سے آزاد ہونا ہوگا ہمیں اپنے دھرتی کو تم جیسے بزدلوں اور مکاروں سے پاک کرنا ہوگا، تمہیں تمہارے ہر ظلم کا حساب دینا ہوگا۔ کیونکہ بلوچ نوجوانوں میں اب شعور آچکا ہے اب انہیں اپنی غلامی کا احساس ہوگیا ہے جس قوم کو اپنی غلامی کا احساس ہو جاتا ہے پھر وہ قوم زیادہ دیر تک غلام نہیں رہتی۔

یہ سن کر قابض اہلکاروں میں اور بھی غم و غصہ کی لہر دوڑتی اور وہ سیخ پا ہوکر شہید نصیر جان کو اور زیادہ اذیت دینے لگے کافی مارنے کے بعد نصیرجان کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے کمرے تک لیکر آتے ہیں اور اسے گرا کر مارنے لگے یہ کہتے ہوئے کہ ہر اس آنکھ کو نکال دینگے جو کہ بلوچستان کے آزادی کا خواب دیکھتا ہے، ہر اس زبان کو کاٹ دینگے جس زبان پہ آزادی کا لفظ آتا ہے، ہر اس ذہن کو ختم کرینگے جس میں بلوچستان کے آزادی کا خیال آتا ہے اور ہر وہ دل کو چیر دینگے جس میں آزادی کی خواہش اٹھتا ہو۔

یہ سن کر نصیر جان ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ دیوار میں دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بڑی مشکل سے دیوار پہ ٹیک لگا کر کھڑے ہوکر ان سے کہتا ہے ان آنکھوں کو تم نکال دو گے، ان سے آزادی کا خواب چھین لو گے، اس زبان کو تم خاموش کرو گے کہ آزادی کا دوبارہ اس پہ الفاظ نہ آئے یہ بتاو کہ میرے دل سے کیسے آزادی کا خیال نکالوگے، اس دل سے اپنے لیئے نفرت کو کیسے ختم کر سکو گے، چلو مان لیتے ہیں کہ تم مجھے مار کر میرے دل سے آزادی کے جوش و جذبے کو ختم کروگے، یہ تو بتاو کہ میرے فکر کو کیسے ختم کرسکوگے، ان نوجوانوں کے دل سے کیسے تحریک آزادی کے خواب کو ختم کر سکو گے، جو کہ تمہارے خلاف اٹھ کھڑے ہیں، جو شہادت کو اپنا شان سمجھ کر دیدہ دلیری سے تمہارے بزدل اہلکاروں پہ ہر راستے پہ گھات لگا کر حملہ کر رہے ہیں اور تمہارے بزدل اہلکاروں کو جہنم رسید کرکے تمہیں روزانہ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اب تم جیسے ناپاکوں کیلئے اس پاک دھرتی پہ کوئی جگہ نہیں، یہ سن کر قابض اہکار غصہ سے سرخ پیلا ہو کر نکلتے ہیں اور نصیر جان گر پڑتا ہے۔

ایک قیدی اس کے پاس جاتا ہے اسکا سر اٹھا کر اپنے گود میں رکھتا ہے تو شہید نصیر کے منہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے اور شہید مسکراتے ہوئے اس سے کہنے لگتا ہے پتہ ہے، مجھے میرے مرنے کا تھوڑا بھی افسوس نہیں ہے نہ کہ مجھے موت کا خوف ہے بس افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے وطن کی آزادی کو دیکھے بنا جانا پڑ رہا ہے یہ آنکھیں آزادی کے پیاسے ہیں بہت لیکن یہ آزادی بنا دیکھے بند ہونے والے ہیں۔

اچھا سنو؟ مجھے پتہ ہے مجھے مار دیا جائیگا، پر تم چھوڑ دیئے جاؤگے، تم جب چھوٹ جاؤگے تو سب سے پہلے میرے دوستوں تک میرا پیغام پہنچانا کہ نصیر تم سب کو سلام کہہ رہا تھا، بعد سلام انہیں کہنا کہ تحریک آزادی نہیں رکنا چاہئے، میرے فکری دوست مجھ سمیت تمام شہیدوں، اسیروں اور ماں بہنوں سب کی امیدیں تم سے وابستہ ہیں۔ یہ تحریک آزادی میں کئی ہزار شہیدوں کا خون شامل ہے، یہ سلسلہ نہیں رکنا چاہئے آزادی عنقریب ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آزادی کو دیکھے بنا مجھے جانا پڑ رہا ہے، میں جسمانی طور پہ تحریک اور تم سب سے الگ تو ہو رہا ہوں مگر روحانی طور پر ہمیشہ تحریک اور تم سب سے جڑا رہونگا۔

اسکے بعد میرے گھر جاکر میرے ماں سے کہنا کہ میرے موت پہ میرے لئیے ماتم مت کرنا بلکہ خوشیاں منانا کیونکہ تیرا بیٹا وطن کی جہد میں ایک فکر لیکر اس دنیا سے جارہا ہے۔

اسکے بعد میرے ابو کو کہنا کہ اپنے بیٹے کی لاش پہ ہنستے ہوئے آنا تاکہ سب تمہیں دیکھ کر کہیں کہ یہ ہے شہید کا باپ جسے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر ہے کوئی بھی دُکھ نہیں

میرے بھائیوں کو کہنا کہ ناز کرنا اپنے بھائی کی شہادت پہ کیونکہ آج کے بعد لوگ میرے نام سے تمہیں پہچاننگے کہ وہ دیکھو شہید نصیر کے بھائی جارہے ہیں اسکے بعد نصیر جان کی آنکھیں لگ جاتی ہیں کہ ایک ایف سی کا ٹیم پہنچ جاتی ہے اور نصیرجان کو اپنے ساتھ لیکر جاتے ہیں اور کچھ دنوں بعد اسکا لاش کوئٹہ قمبرانی روڑ پہ پھینک دیا جاتا ہے، جب لاش کو اٹھاتے ہیں گاؤں لاتے ہیں تو یزیدی لشکر نے شہید نصیر کو بہت بے دردی سے مار دیا ہوتا ہے، اسکے سر کو جگہ جگہ سے ڈرل کیا ہوتا ہے اور پاؤں کی ہڈیوں کو ڈرل مشین کے ذریعے جگہ جگہ سے سوراخ کیا ہوتا ہے اور سینے کو خنجر سے چیرا ہوتا ہے تاکہ لوگ دیکھ کر ڈر کے مارے تحریک آزادی سے کنارا کشی کریں، مگر ان درندوں کو کیا پتہ شہیدوں کے خون سے تحریکیں اور بھی پختہ ہونگے ہمارا فکر اور ارادے اور بھی مضبوط ہونگے اور آزادی طے ہوگا۔

воскресенье, 19 января 2020 г.

جبری گمشدگاں پہ بلوچ قومی بیانیہتحریر: ریاض بلوچدی بلوچستان پوسٹ

صحافی حامد میر ایک تقریب میں فرما رہے تھے کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو جنہیں ضیا کے فوجی حکومت نے تختہ دار پہ لٹکایا تھا نے دوران حراست ایک کتاب “افواہ اور حقیقت” لکھی ـ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ان کے دورِ حکومت میں کراچی سے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل اٹھا کر غائب کر دیے گئے ـ انہوں نے وزیرِ اعلی سندھ سے پوچھا ، اُن سے جواب ملا؛ ہمیں نہیں پتہ آپ آرمی چیف سے پوچھیں ـ جب وہ آرمی چیف جنرل ٹکا خان سے پوچھتے ہیں تو اگلے دن ان کے دفتر میں تین جنرلز آتے ہیں ـ بھٹو ان سے پوچھتا ہے سابق وزیر اعلیٰ کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ وہ ملک دشمن تھا اس لیے اٹھایا گیا اور وہ ہمارے کمانڈوز کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے آپ بس میڈیا میں کہہ دیں وہ افغانستان بھاگ گیا ہےـ بھٹو کہتا ہے ٹھیک وہ میں کہہ دوں گا لیکن ان کی لاش کہاں ہے؟ جرنیل کہتے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں پتہ ان کمانڈوز نے سندھ کے کسی ویرانے میں دفنایا ہوگا ـ بھٹو لکھتے ہیں کہ وہ چپ رہے، آگے لکھتے ہیں کہ اگر وہ اس دن چپ نہیں رہتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی ـ

پاکستان ایک فوجی ریاست ہے ـ اس کے ہر ادارے بشمول پارلیمنٹ یا سیاسی جماعتیں سب فوجیوں کی مرضی و منشاء سے ہی چلتے ہیں ـ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے، اگر کوئی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنا چاہتا ہے تو اسے بوٹ چوم کر ہی گذرنا پڑتا ہےـ یہ جب چاہیں کسی کو صاحب اقتدار بنا دیں جب چاہیں فقیرـ

اب آتے ہیں بلوچ جبری گمشدگان کے بارے میں جو ایک انتہائی حساس انسانی حقوق کا معاملہ ہے ـ اب تک ہزاروں بلوچ فرزندان پاکستانی فورسز اور ایجنسیوں کے ہاتھوں جبراً لاپتہ ہوکر عقوبت خانوں میں اذیتیں جھیل رہے ہیں ـ سینکڑوں کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جاچکی ہیں ـ سینکڑوں کو اجتماعی قبروں میں دفنایا گیا ہےـ سینکڑوں کو فوجی آپریشنوں میں مار کر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور سینکڑوں کے جسم سے اعضاء نکال کر کراچی اور لاہور کے اسپتالوں میں منتقل کیے گئے ہیں ـ ہزاروں اب بھی غائب ہیں ـ یہ ایک طویل فہرست ہے ـ بد قسمتی سے کسی بھی بلوچ تنظیم یا ادارے کے پاس جبری گمشدگان کی تفصیلی کوائف یا کوئی مستند رپورٹ نہیں ہے ـ وجہ بہت سارے ہیں ـ ہوسکتا ہے انکے پاس ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہر علاقے میں رسد نہیں ہے ـ دوسرا اور ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان میں میڈیا بلیک آؤٹ ہے اور تیسرا سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ جبری گمشدگان کے معاملے میں ریاست کچھ سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مل کر بلیک میلنگ کر رہی ہےـ بلوچ گمشدگان کا سودا کیا جارہا ہے جس طرح سے سرینڈر کا ڈرامہ رچایا جاتا ہےـ

مثلاً الیکشن کے ادوار میں ریاست اور ریاستی زیر نگران سیاسی پارٹیاں کسی غریب کا بچہ بے قصور اٹھا کر غائب کرتے ہیں، اگلے دن وہ انتخابی امیدوار اس غریب بلوچ کے پاس جاتا ہے اور بلیک میل کرتا ہے کہ آپ ہمیں ووٹ دیں ہم آپکا بچہ لے آئیں گے ـ کچھ دنوں یا مہینوں بعد اسکا بچہ بازیاب ہوجاتا ہے ـ کچھ لوگ شکریہ فلانی کا ٹرینڈ چلا دیتے ہیں اور غریب بلوچ کو انکے بقول ریاستی دائرہ کار میں لاکر وہ اس ماحول پہ جشن منا لیتے ہیں ـ اسی طرح ایک سنگین انسانی مسئلہ پہ کریڈٹ گیم کا سلسلہ چلتا آ رہا ہے ـ

ہزاروں گمشدگان میں سے جب ایسے کچھ لوگ جن کا سیاست یا ریاست سے کسی دور کا واسطہ نہیں ہوتا وہ بھی اٹھا لیے جاتے ہیں ـ جب ریاستی پارٹیاں بلوچ اور مقبوضہ ریاست میں مصلحت پسندانہ سیاست شروع کرتے ہیں تو ریاست انہی لوگوں میں چار پانچ کو چھوڑ کر ان پارٹیوں کیلئے سیاسی ماحول کا راستہ ہموار کر دیتی ہے تاکہ ریاست کیلئے ایک پاکستانی طرز سیاست کا ماحول بنا رہے ـ

ہمارے لوگ بھی کتنے سادہ ہیں، جو ماما قدیر پچھلے دس گیارہ سالوں سے ان جبری گمشدگان کی بازیابی کیلئے ایک جہد مسلسل کر رہے ہیں ، جنہوں نے ایک ہزار کلومیٹر پیدل لانگ مارچ کیا انکی جدوجہد کو ایک دم بھول جاتے ہیں ـ ہماری ماں بہنوں کے شب روز احتجاج کو یکدم بھول جاتے ہیں اور کچھ سیاسی گیمبلرز کو کریڈٹ دے دیتے ہیں ـ

اگر جو کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ بلوچ پارلیمنٹرینز پارٹیوں کی سیاسی دباؤ یا کوششوں سے کچھ گمشدگاں بازیاب ہوئے ہیں تو کیا وہ ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ان کو کس جرم میں سالوں اذیت خانوں میں پابند سلاسل کر رکھا تھا؟ کس جرم میں وہ سزا کاٹ رہے تھے؟ اور اگر جو چار پانچ زندہ بازیاب ہوئے ہیں، کیا وہ زندہ لاش نہیں ہیں؟ کیا انکو راتوں میں نیند آتی ہے؟ کیا وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہیں؟

اگر سچ میں یہ پارٹیاں بلوچ گمشدگاں کے سنگین معاملے میں اتنے مخلص ہیں تو آج تک، زاھد بلوچ، زاکر مجید ،ڈاکٹر دین محمد بلوچ ،شبیر بلوچ،نواز عطاء، راشد حسين، علی اصغر یا دوسرے بلوچ سیاسی کارکنان یا طلباء کو کیوں بازیاب نہیں کرا سکے؟ اگر انکو بازیاب نہیں کرا سکتے ہیں تو انکے خاندان والوں کو اتنا تو بتا دیں کہ انکے پیارے زندہ ہیں یا زندان میں دورانِ اذیت شہید ہو چکے ہیں.

ہم کچھ لمحوں کیلئے مان بھی لیں اور شکریہ اختر مینگل کہہ بھی دیتے ہیں، انکے بقول ہم سنگ دل ہیں ہم سے ان ماؤں بہنوں کے گھر میں خوشی دیکھی نہیں جاتی ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اٹھائے جائیں تاکہ بلوچ قومی آزادی کی سیاست مزید زور پکڑے ـ ہمیں اس چیز کا اندازہ نہیں ہے کہ انکے پیارے غائب ہیں انکے گھر کا کیا حال ہے ـ ہم تو بھگوڑے ہیں یا فراری ہیں ہمیں تو بغاوت کرنا ہی آتا ہے، دکھ درد میں قوم کے ساتھ نہیں کھڑے ہیں ـ کیا چند بیگناہ افراد کی بازیابی کا مطلب ہے بلوچ مسئلہ حل ہوگیا؟ کل کو پھر اٹھائے یا مارے نہیں جائیں گے؟ کیا ہم بلوچ گمشدگان کی بازیابی کیلئے اپنا قومی بیانیہ بدل دیں؟

یہ جنگ تو بلوچ نے پاکستانی قبضہ کیخلاف اور قومی غلامی سے نجات کیلئے خود شروع کی ہے ـ گمشدگان یا لاشوں پہ ماتم یا کسی کی رہائی پہ جشن عارضی ہو سکتی ہے ـ

کیا استاد اسلم کے جوان سال فرزند صحیح سلامت ان کے پاس نہیں تھے؟ پھر انہوں نے کیوں ان کیلئے موت یا شہادت کا رستہ چنا؟ کیا ان کو پتہ نہیں تھا کہ ان کا بیٹا شہید ہونے جا رہا ہے؟ لیکن ان کے بیٹے نے ہمارے روشن کل کیلئے خود کو قربان کردیا ـ

قومی آزادی کی جنگ میں قربان ہونے کا فلسفہ عظیم ہوتا ہے ـ ہمیں بے شک اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے جدوجہد کرنی چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے قومی بیانیے سے دستبردار ہو کر ریاستی بیانیے کی ترویج کریں ـ اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنے ہی لوگوں کی طویل جدوجہد کا کریڈٹ ریاستی اداروں یا پارٹیوں کو دیں.

вторник, 14 января 2020 г.

امریکہ-ایران جنگ اور بلوچبرزکوہیدی بلوچستان پوسٹ

موجودہ حالات کے پیش نظر، شاید ہی کوئی ایسا طبقہ ہائے فکر ہو، جہاں یہ سوال گردش نہیں کررہی ہو کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ، ایران پر براہ راست حملہ آور ہوکر، ایک روایتی جنگ کا آغاز کریگا یا نہیں؟ اگر حملہ ہوگا تو وہ کس نوعیت کا حملہ ہوگا؟ حالات کس کروٹ بدلینگے، مشرق وسطیٰ کس صورتحال سے دوچار ہوگا، علاقائی سطح پر کیسی تبدیلیاں رونما ہونگی اور ان تبدیلیوں کے اثرات بلوچستان و بلوچ قوم پر کیا پڑیں گی؟

میں بحیثیت لکھاری طوطے کی طرح رٹے رٹائے عالمی سیاست، جنگی حالات و واقعات پر موجود تجزیوں و تبصروں کا اگر متحمل ہوسکا تو یہ قلم کیساتھ نا انصافی ہے، اور نا ہی میں ہوائی و تصواراتی، سنی سنائی تجزیوں و تبصروں کا قائل ہوں۔ بے شک! ہم بحیثیت قوم و بحثیت انسان، دنیا جہاں سے الگ تھلگ نہیں ہوسکتے ہیں، اور تمام بدلتے حالات کے اثرات بلواسطہ یا بلاواسطہ ہم پر پڑتے ہیں، خاص طور پر بحیثیت ایک مظلوم و محکوم قوم، ہم ہر معمولی و غیر معمولی حالات و واقعات کے اثرات سے ضرور اثر انداز ہوتے ہیں۔

اپنے تصوراتی تجزیات میں طبل جنگ پِیٹنے سے پہلے، ذرا ماڈرن وار فیئر کے جدید جہتوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے، جہاں اس جدید دور میں دو ریاستیں براہ ریاست ایک دوسرے کے ساتھ ایک روایتی جنگ کے آغاز سے حد درجہ اجتناب کرتے ہیں۔ پوری عرب بہار اور شام کی صورتحال اسی ماڈرن وارفیئر کا عملی اظہار ہے۔ جہاں جنگیں پارکسیز کے ذریعے لڑی گئیں۔ اور اگر فریقین جوھری ہتھیار سے لیس ہوں تو، وہاں روایتی جنگ کا امکان تو سرد جنگ کے زمانے سے ہی بہت معدوم ہے۔ البتہ ایک دوسرے پر پریشر ڈالنا، یعنی ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑ کرے یا مجبور کرکے آئندہ توبہ کروائے، یہ کام ریاستیں اور ان کے خفیہ ادارے پروکیسیز یا اپنے مخالف ریاست کے اندر سے جنم لینے والی تحریکوں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (تحریکوں اور پروکسیز میں فرق اس پر پھر کبھی تفصیل سے بحث ہوگی)

فرض کریں، اگر امریکہ براہِ راست ایران پر شدت کے ساتھ حملہ کرکے ایران پر مکمل قبضہ کرتا ہے یا اندر سے رجیم بدلتا ہے یا پھر جاکر مزید اس کو تقسیم در تقسیم کردیتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا پھر امریکہ اس فارمولے کو کب تک اسی طرح قائم رکھ سکتا ہے یا کنٹرول کرسکتا ہے؟ جبکہ باقی چھوڑیں افغانستان اور عراق ہمارے سامنے واضح مثال اور تجربہ ہیں۔ ہم افغانستان کو لیتے ہیں، ایران کے مقابلے میں طالبان رجیم افغانستان میں انتہائی تباہ حال شکل میں موجود تھی جب امریکہ نے حملہ کیا لیکن آج تک امریکہ افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکا ؟ اور یہ بھی غور طلب ہے کہ طالبان کے علاوہ مجموعی افغان قوم میں امریکہ کے خلاف کس حد تک نفرت تھی؟ اور آج ایران میں امریکہ کے خلاف نفرت کس حد تک ہے؟ افغان قوم نے کس حد تک امریکہ کے منظور نظر حکومت کو قبول کیا اور ایران کی عوام کس حد تک قبول کرنے کو تیار ہے؟ یہ اہم اور بنیادی سوال ہیں۔

اس وقت ایران میں ملا رجیم کی مخالفت میں کس حد تک فارسی، عرب، کرد، بلوچ یا دیگر اقوام میں ایسی منظم قوت اور قیادت موجود ہے جو امریکہ کی مدو و کمک سے اپنی رٹ قائم کرسکے؟ اگر دلیل یہ بنتا ہے کہ جب امریکہ کا معاشی، جنگی اور فوجی سپورٹ مکمل ہو تو قوت بننے میں دیر نہیں لگتا، تو پھر افغانستان میں امریکی اور اتحادیوں کی لامحدود افغان قوم کو جنگی، معاشی، فوجی سپورٹ پھر بھی پاکستانی پروکسی طالبان سے امریکہ کیوں نجات حاصل کرنا چاہتا ہے؟

یہ تمام عوامل اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہیں، امریکہ براہ راست ایران میں اپنی فوج اتارنے سے اجتناب کرے گا، اور یہ جنگ بلواستہ معاشی پابندیوں، عالمی دباؤ، پراکسیوں، اندرونی خلفشار اور گاہے بگاہے کے ٹارگٹ کلنگ سے لڑتا رہے گا، جب تک کہ وہ ایران میں ملا رجیم نہیں بدلتی یا انہیں جھکاتی نہیں اور دوسری جانب ایران بھی اسی طرز سے لڑتا رہے گا۔ بلکہ یہ لڑائی 1979 میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے دن سے شروع ہوچکا ہے اور آج تک جاری ہے، بس اسکے شدت میں کمی بیشی آتی رہتی ہے۔

یہاں ایران-امریکہ کے تعلقات و جنگ کے نوعیت پر بات کرنا اسلیئے ضروری ہے کہ بلوچ قومی تحریک برائے آزادی میں ایک ایسا مصنوعی طبقہ ہائے فکر جنم لے چکا ہے، جو عملی طور پر بوریا بستر باندھ کر، اس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب امریکہ بہادر ایران میں فوجیں اتارے گا اور امریکی جنرل اپنے ہیلی کاپٹر سے اترکر ایک جادوئی ڈبے میں بند بلوچستان کی آزادی کی چابی ان کے ہاتھ میں تھمائیں گے، اور وہ ایک نجات دہندہ کی طرح، آخری وقت میں اس چابی سے آکر آزادی کا دروازہ کھولیں گے اور ہرطرف انکی جئے جئے کار ہوگی۔

اب جب تک کہ وہ چابی انکے ہاتھ میں تھمائی نہیں جارہی، یہ مذکورہ گروہ فی الحال ڈونلڈ ٹرمپ کے ہر ٹویٹ پر زور زور سے بغلیں بجاتا نظرآتا ہے، اور جب خطے میں تھوڑا تناؤ پیدا ہوجائے تو یہ تیسرے جنگ عظیم کا طبل اتنا زور سے بجانا شروع کردیتے ہیں کہ شور میں اپنی ہی آواز نہیں سنتے۔ ” دیکھو سلیمانی مارا گیا، اب ایٹمی جنگوں کی باری ہے، ایران نے پچاس میزائل امریکی بیس پر فائر کردیئے اب تو جنگ ہی جنگ ہے” وہ تو غارت ہو ایران کا کہ میزائل حملوں سے چھ گھنٹے پہلے سوئٹزر لینڈ اور عراق کو مطلع کردیا تھا کہ وہ ایسی کاروائی کرنے جارہے ہیں اور امریکہ نے بیس خالی کرکے حفاظتی تدابیر کرلیں تھی، اور میزائل بھی ارادتاً نشانے کے ادھر اُدھر گرتے رہے۔ اس پر ستم انہوں نے یہ کہہ دیا کہ بس یہی ہمارا بدلہ تھا، اب ہم اچھے بچوں کی طرح چپ کرجائیں گے بس امریکہ مزید ہمیں تنگ نا کرے۔ اس سے اچھی بھلی جنگ رک گئی اور بلوچستان آزاد ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اب یہ گروہ دوبارہ ٹوئیٹر پر آزادی کا انتظار کررہی ہے۔

اس تمام صورتحال اور سوچ کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے، لیکن اس پر ستم یہ ہے کہ مذکورہ گروہ اپنے اس مزاحقہ خیزی کو ایک ایسا کانسپیرسی تھیوری بناچکی ہے، جسکے مضمرات لامحالہ ہر نوخیز ذہن پر منفی پڑیں گے، اور خاص طور پر اس کانسپریسی تھیوری میں اپنی خاموش دستبرداری کو تین خوبصورت جذباتی بلیک میلنگ نکات میں چھپایا گیا ہے یعنی
1۔ جو امریکہ بہادر کا انتظار کرنے کے بجائے عملی طور پر آزادی کیلئے لڑرہے ہیں، مررہے ہیں وہ بیوقوف اور جذباتی ہیں، اور نوجوانوں کو بے موت مروا کر ضائع کررہے ہیں۔
2۔ بیس سال مشرقی بلوچستان میں جو جنگ لڑرہے تھے، وہاں سے ہم مورچے خالی کرکے، بیانوں، ٹویٹوں اور فیس بک پوسٹوں میں مغربی بلوچستان کو پہلے آزاد کریں گے، اور جو اتفاق نہیں کرتا وہ ایرانی پراکسی ہے، متحدہ آزاد بلوچستان کا مخالف ہے۔
3۔ ہم نہیں لڑرہے ہیں کیونکہ تب تک آزادی ممکن نہیں جب تک کوئی بیرونی ملک مکمل حمایت نہیں کرے، لیکن اگر کوئی اور اپنے کسی زخمی یا بیمار تک کو کسی اور ملک لے گیا بھلے وہ لڑرہا ہو، مررہا ہو، وہ پراکسی ہے۔

کون ذی شعور بدبخت بلوچ جہدکار یہ نہیں چاہتا کہ بلوچ گل زمین اور بلوچ قوم کی منصوعی و غیر فطری تقسیم ختم ہو، اور پوری بلوچ قوم ایک ہی عظیم تر سرزمین کا مالک ہوکر دنیا کے خطے پر نمودار ہوجائے۔ مگر مذکورہ گروہ کے ارادے، جنگی تبصرے اور تجزیئے محض خیالی ہیں، معروضی حقائق سے بے علمی ہیں اور اپنے بے عملی کو چھپانے کے ہیں۔

جب سوویت یونین سپرپاور تھا تو ہر طرف سوشلزم کی پرچار و بلندی تھی، قوموں میں انقلاب برپا ہوا، افغانستان میں بھی ثور انقلاب آیا، ہم بھی بلوچ سوشلسٹ، لیننسٹ و کمیونسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا بن گئے، لیکن نتیجہ صفر جمع صفر حاصل صفر ہی رہا۔ جب تیاری نہیں تھا تو نتیجہ لاحاصل تھا، ابھی امریکہ نواز بن کر ہم کیا کرسکتے ہیں؟ سودیت یونین کو پھر ایک ازم تھا لیکن امریکہ کو کچھ نہیں ہے، بقول نواب خیر بخش مری کے امریکہ، امریکیوں کے علاوہ کسی کا نہیں ہوتا۔

بات سادہ سی ہے، کوئی امریکہ و روس آئے، یا کوئی ازم وزم، اول و آخر بات یہ آتی ہے کہ آپکی آزادی ہے، آپکی جنگ ہے، بوجھ آپکو اٹھانا ہے، جنگ آپکو لڑنی ہے۔ اگر عالمی حالات بدلتے ہیں، آپکے حق میں آتے ہیں، کوئی مدد کردیتا ہے تو وہ بونس ہے۔ لیکن اگر عالم کہتا ہے کہ ہم آپکی آزادی کی حمایت نہیں کرینگے تو کیا آپ اپنے آزادی سے دستبردار ہوجاؤ گے؟ اسلیئے بلوچستان کی آزادی کو ایران کے میزائلوں میں، یا امریکہ کے ڈرونوں میں، ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئیٹوں میں نہیں، اپنے زمین پر ڈھونڈو زیادہ بہتر ہے۔

ایک دفعہ نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک بلوچ سے میری بلدیہ ہوٹل کوئٹہ میں ملاقات ہوئی، جس میں انہوں نے کہا کہ “ہم نہ لڑینگے، نہ قربانی دینگے، نہ پہاڑوں پر جائینگے، جب امریکہ سپورٹ کریگا ہم خود آزاد ہونگے، آج اگر مالک کی طرح کوئی بیٹھ کر وہی باتیں کرے تو، اس نے اتنے سال جہد میں ضائع کردیا، جب اسے گھوم پھر کر ڈاکٹر مالک کے موقف پر ہی آنا تھا۔ 19 سال پہلے ہم نے مالک کے اس موقف کو مسترد کردیا تھا اور جھوٹ و دھوکا قرار دیا تھا، آج ہم اسے کیسے قبول کررہے ہیں؟

آپ نیشنل پارٹی و مالک وغیرہ گروہ کے ساتھ بیٹھیں، یا بی این پی وغیرہ کے ساتھ، وہ ایسا نہیں کہ خود کو براہِ راست غدار یا جنگ سے فرار تسلیم کرتے ہیں، بلکہ انکے پاس لمبی چوڑی تھیوریاں ہیں کہ وہ کیسے صحیح ہیں آزادی کی جنگ نا لڑ کر، آزادی کی بات نا کرکے۔ اور باقی سب کیسے جذباتی اور سطحی ہیں۔ اب بظاہر اسی طرح کی خام تھیوریاں ایک حلقے میں تیار ہورہی ہیں، اب وہ پَک کر کیا ہونگی۔ قیاسات سے اجتناب کرکے بس دیکھتی رہنی چاہئیں۔

مغربی بلوچستان پربی این ایم کے موقف پرکنفیوژن کاالزام لگانے والے اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔چیئرمین خلیل بلوچ

بلوچ قوم کے لئے ہندوستان موزوں اتحادی بن سکتا ہے اور بلوچ ہندوستان کے ساتھ ایک بلاک کا حصہ بن سکتا ہے، مغربی بلوچستان پر بی این ایم کے موقف پرکنفیوژن کاالزام لگانے والے اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ احتجاج موبلائزیشن کا صرف ایک ٹول ہے اوراحتجاج کو صرف ایک ٹول کے طورپر استعمال کریں لیکن یہ ہمارا کل وقتی کام نہیں ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے حالیہ دنوں اپنے دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔

 چیئرمین خلیل بلوچ نے بی این ایم میں ممبرشپ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ میں ممبرشپ حاصل کرنے کا طریقہ کار آئین میں موجود ہے۔ کوئی بھی شخص بلوچ نیشنل موومنٹ کے پروگرام سے اتفاق رکھتا ہے اور ڈسپلن کا پابند ہوتا ہے اور کوئی بھی ایسی سرگرمی نہیں کرتا ہے جس سے قومی پارٹی بلوچ نیشنل موومنٹ کو نقصان پہنچے تو اسے پارٹی کے آئینی طریقہ کار کے مطابق متعلقہ یونٹ میں تین مہینے تک بحیثیت دوزواہ شامل کیا جاتا ہے۔ اگر اس تین مہینے کی مدت تک اس یونٹ یا زون کے ذمہ دار اس دوزواہ کے پارٹی پروگرام کے لئے کردار سے مطمئن ہوتے ہیں پارٹی اسے ممبر کا درجہ دیتا ہے اور اسے ممبرشپ کارڈ جاری کیا جاتا ہے۔ اگر خواہش مند شخص اس معیار پرپورا نہیں اترتا ہے تو بلوچ نیشنل موومنٹ اسے ممبر شپ نہیں دے سکتا۔ سرزمین یا سرزمین سے باہر، سبھی کے لئے شرط یہی ہے۔ خواہش مند شخص کے لئے پارٹی اساس اور پروگرام سے متفق ہونا لازمی ہے۔

انٹرویو میں بی این ایم ممبران کی احتجاجی مظاہروں کے علاوہ دیگر ذمہ داریوں کے حوالے سے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی ممبر اورعہدیدار اپنی پارٹی پروگرام کو آگے بڑھائیں۔ وہ جہاں بھی ہوں پارٹی کے نمائندے ہیں۔ اُس علاقے میں، اس سماج میں جتنی ان کی رسائی ہے، وہاں وہ اپنی پروگرام کو لٹریچر کے ذریعے، سوشل میڈیا کے ذریعے، کارنر میٹنگز کے ذریعے پہنچائیں۔ ایک پارٹی ممبر کا کل وقتی کام یہی ہے کہ وہ بلوچستان میں ہو یا بلوچستان سے باہر دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو، پارٹی پروگرام، پارٹی پالیسی اپنے لوگوں اور دنیا تک پہنچائیں۔ احتجاج موبلائزیشن کا صرف ایک ٹول ہے اوراحتجاج کو صرف ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں لیکن یہ ہمارا کل وقتی کام نہیں ہونا چاہیئے۔ دو، چار مہینے بعد صرف ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت تک ہماری ذمہ داریاں محدود نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پارٹی کارکنوں کی ذمہ داریاں اس سے قطعی زیادہ ہیں جو انہیں پورا کرنے ہیں۔ پارٹی میں یونٹ، زون اور ریجن، سینٹرل کمیٹی اورکابینہ کے ذمہ داریوں کا (تعین و) تشریح آئین میں موجود ہے، وہ کہیں بھی اپنی آئینی اختیارات کا استعمال کرسکتے ہیں۔ آئینی ذمہ داریوں پر کام کرسکتے ہیں لیکن وہ اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرسکتے۔

چیئرمین خلیل بلوچ سے مغربی بلوچستان سے متعلق بی این ایم کے موقف کے حوالے سے پوچھا کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ بی این ایم کے خلاف ایک منفی پروپیگنڈہ اور الزام ہے کہ ایران اور مغربی بلوچستان سے متعلق بی این ایم کنفیوژن کا شکار ہے۔ مغربی بلوچستان سے متعلق پارٹی پروگرام جوکہ پارٹی منشور کا حصہ ہے۔ اس میں پارٹی کا موقف واضح ہے۔ منشور کے شق نمبر دو اور شق نمبر تین اس بارے میں پارٹی کا موقف واضح کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک بات میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پارٹی کا سب سے بڑا (سیاسی) گراؤنڈ پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان ہے کہ وہاں پارٹی دوستوں کی محنت، جانفشانی، قید و بند، قربانی اورشہادت سے پارٹی نے موبلائزیشن کا عمل طے کیا ہے۔ ان قربانیوں اورشہادتوں نے لوگوں کو موٹیویٹ کیا ہے اورایک ایسی فضا بنائی ہے کہ بلوچ کے لئے ایک مضبوط baseلئے ایک گراؤنڈ تشکیل پاچکا ہے۔  پارٹی اپنی زیادہ طاقت و قوت اور صلاحیتوں کو وہاں صرف کرتے ہیں جہاں انہیں اس کے لئے ایک میدان بن چکی ہے یا اس پہ کام ہوا ہے۔ قوم صرف لفاظی سے آزاد نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی بھی ایسے پروپیگنڈے آگے بڑھاتا ہے، اسے ہوا دیتا ہے یا ایسی منفی تاثر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے وہ صرف اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسروں پر الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں۔ جدوجہد کے لئے ایک گراؤنڈ، ایک ٹیم ورک یا سیاست کے بنیادی تقاضے اورضروریات ہیں۔ انہیں تمام یا ان میں چند ایک کو آپ پورا کرسکیں تو آپ ایک جدوجہد کرسکتے ہیں۔

خلیل بلوچ کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ ایران اور امریکہ کے قضیئے میں ضروری نہیں کہ بلوچ کسی فریق کی ہمراہ داری کرے۔ خواہ وہ امریکہ ہو یا ایران، بلوچ اپنے قومی مفاد مقدم رکھتا ہے یا بلوچ کے قومی مفاد یا قومی کاز کو جہاں سے نقصان پہنچ رہا ہے یا ہماری زمین کسی کے خلاف غلط استعمال ہورہا ہے یہ کام خواہ کوئی بھی کرے، ماضی میں بلوچ سرزمین بلوچ کی منشا کے برخلاف استعمال ہوا ہے۔ بلوچ نے اس کی مخالفت کی ہے۔ بلوچ آئندہ بھی اپنے قومی مفاد کو سامنے رکھ کر ایسے معاملے پر اپنا موقف سامنے لائے گا۔ میرے خیال میں ایسے تنازعات میں ضروری نہیں کہ کسی ایک فریق کی ہمراہ داری کی جائے۔ بلوچ کی خالص قوم پرستانہ جدوجہد ہے اور قوم پرستانہ جدوجہد کے اپنے تقاضے اور ضروریات ہوتے ہیں۔ بلوچ نیشنل موومنٹ انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور انشاء اللہ انہیں پورا کریں گے۔

خلیل بلوچ سے سوال کیا گیا کہ کیا بلوچ اس پوزیشن میں ہے کہ ایک سے زائد محاذ کھول سکے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ محاذ بیک وقت کھولنا بلوچ کے مفاد میں شاید نہ ہو۔ جیسا کہ آپ خطے میں امریکہ اور چین کے مفادات پر بات کررہے ہیں یا ایران کا تنازعہ ہے۔ خطے میں ان کے اپنے اپنے مفادات ہیں جنہیں وہ تحفظ دینا یا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں کوئی بھی بلوچ کے مفاد سے ہم آہنگ نہیں ہوتا ہے یا بلوچ کے مفاد کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اگر بلوچ کوئی محاذ کھولتا ہے تو بحیثیت ایک قوم یا قومی تحریک کے اس کا مقابلہ کر سکتا ہے یہ ممکن ہے۔ اگر کسی کی مفاد ہماری قومی مفاد سے متصادم نہ ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری نہیں کہ ان حالات میں بلوچ ایک سے زائد محاذ کھولے ہاں البتہ جیسا کہ کوئی چین کی طرح ہماری سرزمین پر یلغار کرتا ہے، یہاں لوگوں کو بیدخل کرتا ہے، براہ راست یا دشمن کے ساتھ بلوچ نسل کشی کرتا ہے، وہاں بلوچ جس طرح پاکستان کے خلاف لڑ رہا ہے، اسی طرح چین کی توسیع پسندانہ اورجارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے انہیں بھی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ تواس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا فیصلہ وقت و حالات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ یہاں نہیں دیکھا جاتا ہے کہ چین بڑی طاقت ہے، اس کے خلاف محاذ کھولنے کے سود و زیاں کیا ہیں بلکہ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کیا نئی محاذ کھولنا ناگزیر ہے۔ اگر ناگزیر نہیں ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ شاید بلوچ کے مفاد میں نہ ہو۔

چیئرمین خلیل سے سوال کیا گیا کہ ایک جانب امریکہ و اسرائیل دوسری جانب چین و روس اور دیگر ممالک ہیں۔ حال ہی میں مسلمان (جنرل سلیمانی) مارا جاتا ہے تواس جنگ امریکہ ایران (تنازعے) کو چین کے خلاف استعمال کرتا ہے یا پٹرول و گیس یا مذہبی جنگ ہوتا ہے، آپ اسے کس طرح دیکھتے ہیں؟

اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں مذاہب اور جنگوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی مذہب ہو اور اس کا استعمال امریکہ کرے یا سعودی یا اس خطے میں ہم دیکھیں، یہاں کوئی مذہب کو وہابی ازم کے خلاف ستعمال کرتا ہے کوئی شیعہ ازم کے خلاف استعمال کرتا ہے لیکن جہاں بھی نیشنلزم کی جدوجہد رہی ہے یا نیشنلزم کی جڑیں مضبوط ہیں وہاں مذہبی منافرت کی کوششیں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ خواہ امریکہ ہو، پاکستان ہو، سعودی ہو یا ایران یا اگر دنیا کا کوئی بھی ملک ہو وہ وہاں مذہبی منافرت کو مضبوط کرنے میں ناکام رہا ہے۔ جہاں بھی نیشنلزم کمزور رہی ہے وہاں مذہب بطور آلہ استعمال ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا واحد حل یہی ہے اور ہم نے ہمیشہ اس بات پہ زور دی ہے کہ آج دنیا کو مذہب کے نام پر یا مذہبی انتہا پسندی کے نام پر بڑی دہشت کا سامنا ہے۔ اس میں مذہبی ریاستوں کے خالق ہوں، ان کے گاڈ فادر ہوں، مذہبی ریاست آج خود دنیا کے لئے عفریت بن چکے ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں اس کی تشخیص کرتے ہیں اس کا سدباب کرتے ہیں، اپنی غلطیوں کا ادراک کرکے اس کا ازالہ کرتے ہیں یا آگے اپنی غلطیوں کا اعادہ نہیں کرتے ہیں تو بڑی اچھی بات ہے۔ اس کا حل یہی ہے کہ قومی ریاستوں کو تسلیم کیا جائے اور انہیں تقویت دی جائے تو اس صورت میں اس عفریت کا علاج یا سدباب ممکن ہے۔ اس میں صرف امریکہ کو الزام دینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک موثر ہتھیار کے طور پر ہرمذہب نے اپنے وقت میں دنیا کے امن پر اسی طرح اثرات مرتب کیئے ہیں جیسا کہ آج ہم اس خطے میں یا دنیا کے مختلف خطوں میں دیکھ رہے ہیں کہ معصوم انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے یا اپنی جارحانہ پالیسیوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار اور خالق ایک سے زائد ہیں۔ صرف ایک (فریق) کو مورد الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔

خلیل بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ علاقائی طاقتوں کا جائزہ لیں تو یہاں بھارت ایک معاشی و عسکری طاقت ہے۔ چین معاشی اور بڑی عسکری طاقت ہے اور امریکہ بھی خطے میں افغانستان، مشرق وسطیٰ اور خلیج میں موجود ہے لیکن خطے میں مقابلہ، محاذ آرائی یا مفادات کی جنگ بھارت اور چین کے درمیان زیادہ نظر آتا ہے۔ بلوچ قوم کے لئے ہندوستان موزوں اتحادی بن سکتا ہے اور بلوچ ہندوستان کے ساتھ ایک بلاک کا حصہ بن سکتا ہے۔ اس لئے کہ ہندوستان بلوچ کے مفادات کو پائمال نہیں کر رہا ہے۔ چین اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے ساتھ بلوچ سرزمین پر بلوچ نسل کشی میں پاکستان کے ساتھ برابر کا شریک ہے۔ اس لئے چین اپنی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ ایک فطری اتحادی نہیں سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہندوستان کی (موجودہ) شہریت کے بل کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی اثرات خطے اور خطے کی سیاست پر نہیں پڑسکتے ہیں۔ یہ ہندوستان کی اندرونی سیاسی مسئلہ ہے۔ یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ خطے کے لئے تشویشناک بات بن سکے یا کوئی یہ کہے کہ اس کی ادراک بلوچ کو نہیں ہے۔ میں اسے ایسی صورت حال نہیں سمجھتا ہوں۔

خلیل بلوچ سے بلوچ جہدکاروں کے آپس میں مربوط ہوکر سرگرمیاں جاری رکھ سکنے اور اس حوالے سے بی این ایم کے پالیسی کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی میں بلوچ قومی سیاست میں سیاسی کارکن مختلف مراحل اور مختلف صورت حال کا مقابلہ کرچکے ہیں، حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ یقیناً بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق جہدکار اپنی ساتھیوں یا اپنی قوم سے رابطہ کاری کے لئے ایک پالیسی، طریقہ کار وضع کرتا ہے۔ آج کے حالات میں ہم جانتے ہیں جہدکار کھلے عام سرگرمی نہیں کرسکتے یا روابط نہیں رکھ سکتے ہیں۔ مشکلات ضرور ہیں لیکن ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی ہے یا آج سوشل میڈیا ایک ایسی وسیع میدان بن چکا ہے کہ وہاں نہ صرف ساتھی آپس میں مربوط ہوسکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی بدلتے حالات کے ساتھ ہم نے بلوچستان اور خلیج میں سیل سسٹم متعارف کرایا ہے تاکہ جہاں بلوچ آبادی زیادہ ہے یا دشمن نے Penetrateکیا ہے۔ وہاں کے مخصوص حالات میں آپسی رابطہ کاری یا تنظیم کاری میں آسانی ہو۔ یقیناً حالات اثر انداز ہوسکتے ہیں، محدود مدت کے لئے سرگرمیاں ماند پڑ سکتے ہیں لیکن یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتا ہے۔ مشکلات پیدا ہوتے ہیں لیکن جدوجہد اپنی راہیں اپنے آپ پیدا کرتا ہے۔ پارٹی، پارٹی کیڈر اپنی سوچ و فکر یا اپنی شعوری بالیدگی اور اپنی ساتھیوں کی مشاورت سے ایسی راستے تلاش کرتے ہیں اپنی ساتھیوں سے رابطہ کاری کرسکتے ہیں اور پارٹی وقتاً فوقتاً بدلتے حالات میں اپنی حکمت عملیاں تبدیل کرتا ہے اوراپنی فریضے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔

چیئرمین خلیل بلوچ سے میڈیا کے استعمال کے لیے بی این ایم کے منصوبے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قسم کی جدوجہد میں میڈیا کا کردار اہم ہوتا ہے۔ دوستوں کی تجزیہ اور مشورے سے میڈیا بلیک آؤٹ کے سدباب کے لئے یا مقابلہ کرنے کے لئے بلوچ نیشنل موومنٹ نے 2008 اور 2009 سے سنگر پبلی کیشن کی بنیاد رکھا اوراسے ایک تسلسل دے دی۔ دوستوں کی (اس کام میں) مہارت میں نشوونما کے باعث یہ کام آج تک جاری ہے۔ زرمبش پبلی کیشن بھی میڈیا کا ایک حصے کی احاطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ یا آج سوشل میڈیا کا دور ہے سینکڑوں کے حساب سے دوست ٹیوٹر یا فیس بک میں یا سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کے ذریعے پارٹی کا موقف اور پالیسی دنیا تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں ساتھی مختلف مراحل یا سرد وگرم سے گزر کر یورپ یا دیگر ممالک میں پہنچ چکے ہیں۔ وہ پارٹی سفیر کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ وہاں کے مقامی باشندوں، سول سوسائٹی کو بلوچستان کے حالات، بلوچستان میں پاکستان کے جرائم سے باخبر رکھ سکتے ہیں یا اکیس ویں صدی میں بلوچستان کے لوگ کس طرح جی رہے ہیں یا کیسی کرب سے گزررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچ نیشنل موومنٹ نے ہمیشہ اپنے کارکنوں پر زوردیا ہے کہ وہ میڈیا کو مثبت اورقومی مفاد کے لئے استعمال کریں اور قومی جدوجہد کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے استعمال کریں۔ میرے خیال میں آج اس خطے یا دنیا میں کہیں بھی تحریکوں کو دبانے یا کچلنے کی کوشش ہوتا ہے، وہاں سوشل میڈیا ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔  اس (قوموں کی دبی) آواز کو دنیا تک پہنچا سکتا ہے۔ ہماری کوشش بھی یہی ہے کہ میڈیا کے جتنے ذرائع ہیں ان پراپنی صلاحیت، وسائل کے مطابق پائیدار بنیادوں پر کام کرسکیں۔ دوست اس پر کام کررہے ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔ یہ وسیع میدان ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ جتنا زیادہ ہو سکتا ہے اسے (سوشل میڈیا) ہم قومی کاز کے لئے بروئے کارلائیں

سال 2019میں 626فوجی آپریشنز میں 785سے زائد افرادلاپتہ، 302افرادقتل،200سے زائد گھر نذر آتش ,دستاویزی رپورٹ و تجزیہ

جبری گمشدگیوں کا سیاہ باب
 سال 2019میں 626فوجی آپریشنز میں 785سے زائد افرادلاپتہ،
302افرادقتل،200سے زائد گھر نذر آتش

سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

 

مقبوضہ بلوچ ریاست گزشتہ ادوار کی طرح اس سال بھی پاکستانی ظلم و بربریت کی تصویرپیش کرتی رہی۔ جہاں قابض ریاست کی جانب سے پورے خطے میں فوجی آپریشن، بلوچ فرزندوں کی شہادت، جبری گمشدگی کے واقعات،دوران آپریشن عمر اور جنس میں تفریق نہ کرتے ہوئے لوگوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ،بنانا گھروں میں لوٹ مار اورانہیں نذرآتش کرنا، مقامی افراد کو جبری طور پر ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سال قابض ریاست نے بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی پالیسی میں شدت لائی جس کی وجہ سے درجنوں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئیں۔ 


     ایک جانب ریاستی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب مسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی کارروائیاں بھی جاری رہیں جن میں ریاست کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑا۔ ان کارروائیوں میں جو سب سے زیادہ یا عالمی سطح پہ شہ سرخیوں میں رہا وہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے گودار میں واقع پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ تھا جو غالباً 26گھنٹوں تک جاری رہا جس میں چار بلوچ فدائین وطن پہ نثار ہوتے ہیں جب کہ قابض ریاست کے درجنوں مسلح اہلکاروں سمیت بعض پاکستانی اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کار بھی اس حملے کا نشانہ بنتے ہیں۔مسلح آزادی پسند تنظیموں کے علاوہ آزادی پسند غیر مسلح جماعتوں، تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا جہاں ملکی سطح سے لیکر عالمی سطح تک وہ پاکستانی بربریت کو افشاں کرنے اور بلوچ قوم کو ان کافطری حق دلانے کی جدوجہد کرتے نظرآئیں۔ ان کے علاوہ اس سال استحصالی منصوبہ پاک چائنا کاریڈورکی صورتحال بھی مخدوش نظر آئی جس سے بظاہر ایسی صورتحال نکلتی ہے کہ یہ منصوبہ آنے والے دنوں میں مکمل ناکامی کا شکار ہوگا۔اس منصوبے کی ناکامی اور چائنا کی اس میں عدم دلچسپی نے قابض ریاست کو بلوچوں پہ مزید ستم ڈھانے کے لیے اکسایا جہاں آج اس پورے خطے میں جہاں سے یہ روٹ گزرتا ہے وہاں اجاڑ بستیوں کے کھنڈرات نظرآتے ہیں۔ اس سال ان تمام واقعات کے ساتھ ساتھ نام نہاد قوم پرست جو پاکستان کی وفاق کے پرستار ہیں انہوں نے بھی اپنی ساکھ بچانے کے لیے مختلف نقطہ نظر اپنائیں جیسے ایک جانب نیشنل پارٹی جو اس استحصالی منصوبے(سی پیک) کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار کا حامل رہا ہے وہ اس منصوبے کے خلاف اخباری بیانات جاری کرتا رہا اور بلوچ قوم جس کی نسل کشی میں یہ جماعت روز اول سے متحرک ہے بلوچوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ریاست مخالف نعرہ بازی بھی کرتا رہا، جبکہ یہی روش ہم بلوچستان نیشنل پارٹی کی سوچ میں دیکھتے ہیں جو کبھی حق خودرادیت تو کبھی ریاستی ایوانوں میں جگہ بنانے کے لیے چھ نکات اور صوبائی خودمختاری جیسے متنازعہ سلوگن دیتا ہے۔ اس سال آواران سے چار بلوچ خواتین کی ریاست کے ہاتھوں جبری گمشدگی پہ ان کا واویلہ اور از بعد ان کی رہائی، اس واقعہ کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور بعض ایک فورم پہ بی این پی کے قائدین اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں جیسے ڈیرہ جات میں منعقد ہونے والے اپنے جلسے میں اس کا اظہار وغیرہ۔


     الغرض ایک جانب بلوچ آزادی پسند تنظیمیں اور جماعتیں جہد آزادی کے سفر میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں تو دوسری جانب ریاست کی استحصالی پالیسیاں، جبر و ستم اور انہیں مزید دوام بخشنے کے لیے ان وفاق پرستوں کا کردار بھی واضح ہوچکا ہے۔بلوچستان کے حالات جہاں آزادی پسندوں کی کامیابیوں نے ریاست کو ادھ موا کردیا ہے وہاں اندرونی طور پر قابض ریاست کی سیاست بھی منتشر نظرآتی ہے جہاں اس سال قابض ریاست کے لیے اس کی سیاست میں سب سے واقعہ جمیعت علماء اسلام کا حکومت مخالف دھرنا اور از بعد مظاہروں کا سلسلہ تھا جس میں بعض دیگر جماعتوں کے قائدین بھی شریک ہوتے رہیں۔اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں، قابض کی عدلیہ اور عسکری اداروں کے مابین فضاء بھی گرم رہی جو پہلے پہل پاکستان کے آرمی چیف کے عہدے میں توسیع اور ازبعد سابق پاکستانی جنرل اور صدر پرویز مشرف کی پھانسی کا سندیسہ تھا۔عالمی مالیاتی اداروں نے بھی گزشتہ ادوار کی طرح اس سال بھی پاکستان کوچند ناکام ممالک کی زاویے سے دیکھتے رہے جو قابض ریاست کی معاشی زبوں حالی کو افشاں کرتی ہے۔اور ساتھ میں اس خطے میں مقیم دیگر محکوم قومیں جن میں پشتون، سندھی اور مہاجر بھی ریاستی جبر کے خلاف سراپاء احتجاج ہیں جہاں ان اقوام کے ہزاروں فرزند ریاست نے جبری طور پر لاپتہ کرنے کے ساتھ ان کے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی دی ہیں۔ایسے حالات میں ان تمام اقوام کو جو اس ریاست سے گلوخلاصی چاہتے ہیں کسی ایک پلیٹ فارم پہ آکے اس غیر فطری ریاست کی عمر مزید کم کرنے کا موجب بن سکتے ہیں لہذا ان اقوام کے رہنماؤں کو اس جانب اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ یکجہتی کی پالیسیوں میں ہی ان کی بقاء ہے۔


     عالمی سطح پہ دیکھا جائے تو یہ سال علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی بدترین مثال پیش کرتی ہے بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حالات جس کی وجہ سے ایران،امریکہ، روس،امریکہ اور سال کے اواخر میں ترکی جارحیت کی وجہ سے یورپی ممالک اور امریکہ کا ترکی کے ان اقدامات کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا، ایران،سعودیہ تعلقات بھی اس سال شدید کشیدہ رہے بالخصوص تیل تنصیبات پہ حملوں کے بعد، اس کے علاوہ شمالی کوریا اور امریکہ تعلقات میں پھر تناؤ کی صورت دیکھنے میں آئی۔ اس سال ایران اور عراق میں پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے سکہ رائج الوقت کو کہیں تبدیل ہونا پڑا تو کہیں وہ اپنی رٹ قائم کرنے کی کوششوں میں مظاہرین کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال بھی کرتا رہا، ایران کے علاوہ افغانستان میں صدارتی الیکشن بھی مکمل ہوگئے جن کی روسے اشرف غنی ایک بار پھر کامیاب ہوگئے۔افغان خطہ الیکشن کے علاوہ بھی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا جہاں امریکہ،طالبان مذاکرات  کے حوالے سے کبھی تعطل تو کبھی پھر شروع ہونے کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔ساتھ میں جنوبی ایشیائی ممالک بھارت اور پاکستان اس سال کے اوائل میں ایک بڑی جنگ کے دھانے پہ بھی آپہنچے۔ان تمام خبروں کے ساتھ امریکہ اور چائنا کی تجارتی جنگ مستقبل میں نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو روایتی جنگ کی جانب دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔


     مقبوضہ بلوچستان کے حالات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سال 2019ء گزشتہ چندسالوں کی طر ح بلوچ قوم کے لیے لہو کا عکس پیش کرتا ہے جہاں قابض ریاست نے بلوچ قوم کے خلاف 626فوجی آپریشنز کیے جن میں 785 بلوچ فرزندوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیاجس میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔اس سال302 نعشیں برآمد ہوئے۔80 بلوچ فرزندوں کو فورسز نے شہید کیا جبکہ144 لاشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے اور78 نعشوں کی شناخت نہ ہو سکی۔


قابض ریاست کی جانب سے گھروں کو نذرآتش کرنا، مسمار کرنا اور ان میں لوٹ مار کے واقعات میں بھی شدت نظرآئی جہاں اس سال 1416زائد گھرانے ریاستی بربریت کی زد میں آگئے اور فورسز نے دوران آپریشنز لوٹ مار کی اور اسی دوران 200 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔


ریاستی فورسز کی عقوبت خانوں سے321 افراد بازیاب ہوئے اور فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں 42 نئی چوکیاں بھی قائم کیں۔


 اس کے علاوہ بعض افراد کے قتل کے محرکات سامنے نہ آسکے۔۔ان کے علاوہ ہزاروں بلوچ خاندان اس سال بھی ریاستی جبر کی وجہ سے ایران، افغانستان اور اندرون بلوچستان، سندھ و جنوبی پنجاب کی جانب نقل مکانی پہ مجبور ہوئیں۔مال مویشی اور دیگر مالی نقصانات کا حساب ممکن ہی نہیں۔


    ان اعداد و شمار سے ریاستی بربریت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کس قہر کا سامنا کررہے ہیں۔ بلوچستان کی اس مخدوش صورتحال کا اگردنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں سے تقابلی جائزہ لیا جائے توبعض خطے جنہیں اقوام متحدہ اور بعض بڑی طاقتوں نے جنگ زدہ خطے قرار دیے ہیں یہاں حالات ان سے زیادہ گھمبیر ہیں لیکن دنیا بالخصوص اقوام متحدہ نے ابھی تک بلوچ وطن کو جنگ زدہ قرار نہیں دیا جس کی وجہ سے قابض ریاست کو مزید شہ مل رہی کہ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے بلوچ قوم کو اپنی قہرمانی کا شکار کریں۔۔۔البتہ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں، جماعتیں اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں اس بابت جدوجہد کررہے ہیں اور پاکستانی بربریت کا اصل عکس بھی دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ساتھ میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچ فرزندوں کی بازیابی کے لیے متحرک تنظیم (وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز) کی جدوجہد کو دس سال بھی پورے ہوگئے۔گزشتہ سالوں کی طرح یہ تنظیم اس سال بھی اپنی جدوجہد کے تسلسل کو آگے بڑھاکے ریاستی بربریت کو دنیا کے سامنے افشاں کرنے کی کوششوں میں ہے۔اس امید پہ کہ شاید کسی دن دنیا کے مہذب اقوام اور عالمی ادارے اس ریاستی ظلم و بربریت کے خلاف متحرک ہوجائیں۔


    عالمی سطح پہ اس سال اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام میں بلوچ آزادی پسند تنظیمیں کافی متحرک نظر آئیں اور اس ضمن میں  انہوں نے دنیا کو بلوچ قوم پہ ہونے والے مظالم کی روک تھام کی جانب توجہ مبذول کرانے کی سعی بھی کی۔لیکن ایک بات عیاں ہے کہ بلوچ عالمی سطح پہ کسی ایک پلیٹ فارم سے آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کررہے جس کی وجہ سے جدوجہد پہ منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں لہذ آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو عالمی سطح پہ کسی ایک پلیٹ فارم کے تحت ہی جدوجہد کرنا ہوگا تا کہ دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے،اس کے علاوہ ان کا یہ اقدام بلوچ قوم کی آزادی کی امیدوں کو دوبالا بھی کریگی۔لہذا بلوچ قوم کے رہنماؤں کو قومی مفادات کی خاطر چند ایک نکات پہ متفقہ فیصلہ کرنا ہوگا۔اس قسم کے اقدامات سے ایک تو عالمی سطح پہ تحریک توجہ کا حامل ہوگا دوم بلوچ قوم میں تحریک کی مزید پذیرائی کا باعث بھی بنے گا۔ایسے اقدامات کا ایک اور مفید صورت یہ نکلے گی کہ سیاسی دکانداری کو چمکانے والے وفاق پرست بلوچ قوتیں جو ہر موقع پہ قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی سعی کرتے ہیں ان کی راہیں مسدود ہوجائیں گی وہ چاہے نیشنل پارٹی ہو یا بلوچستان نیشنل پارٹی کی بلوچ سرزمین کو مزید غلامی کی نظر کرنے اور بلوچ کش پالیسیاں۔۔۔بلخصوص ایسے حالات میں تو یہ نظریہ مزید اہمیت کا حامل ہے جہاں ایک جانب قابض ریاست معاشی، سیاسی اور سماجی حوالے سے دگرگوں کی کیفیت میں مبتلاء ہے اور ساتھ میں دنیا کی بڑی طاقتوں چائنا، امریکہ اور روس کے درمیان رسہ کشی اور بلخصوص جنوبی ایشیا، افغانستان، ایران اور مشرق وسطیٰ کے مخدوش حالات جن کے اثرات نے آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس نہج پہ آج دنیا کے حالات پہنچ چکے ہیں ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خطے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان روایتی یا ایٹمی جنگ کی تصویر پیش کرے۔ایسے میں اگر حالات اس سطح پہ پہنچ جاتے ہیں تو ان سے بلوچستان کی جنگ کو مزید توانائی کی ضرورت محسوس ہوگی لہذا آج ان حالات کا ادراک رکھتے ہوئے بلوچ قومی رہنماؤں کو آنے والے دنوں کے لیے نت نئی پالیسیوں جو وقت و حالات سے مطابقت رکھتی ہوں ان کا نفاذ کرنا چاہیے۔کیونکہ ایسی پالیسیوں کی وجہ سے ایک تو جدوجہدپہ کبھی جمود طاری نہیں ہوگا اور دوم منزل مقصود کا حصول سہل بن جائیگا۔


воскресенье, 12 января 2020 г.

ایک دن بلوچوں کی طرح گذاریئے – حکیم واڈیلہ

جب آپ کی والدہ ایک پرائیوٹ ہسپتال میں بہترین ڈاکٹرز اور نرسوں کی موجودگی میں آپ کے پیدائش کا درد اٹھارہی تھی ۔ تب بلوچستان کے امیر ترین شہر گوادر میں ایک ماں دوران زچگی ابتدائی طبی امداد میسر نہ ہونے کی وجہ سے اور ڈاکٹر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی اور اپنے بچے کی زندگی کی جنگ ہار چکی تھی۔

جب آپ کی والدہ آپ کی خاطر بہترین ناشتہ آملیٹ، بٹر، جیم یا کریم بریڈ پر لگا کر پیش کررہی تھی۔ تب معدنیات سے بھرپور بلوچستان کے ایک گاوں میں ایک ماں اپنے بیٹے کو سوکھی روٹی سیاہ چائے کے ساتھ کھلا رہی تھی۔ جب آپ اسکول کے لئے بہترین یوینفارم زیب تن کرکے اچھے جوتے پہن کر اسکول بس، وین یا سوز وکی کا انتظار کررہے تھے۔ تب آواران کے کسی گاوں کا ایک بچہ اپنے پھٹے پرانے کپڑوں میں ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر پیدل اسکول کی طرف روانہ ہو رہا تھا۔

جب آپ پنکھے یا اےسی کی ہوا میں آرام دہ کرسیوں پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کررہے تھے، تب بلوچستان کے اکثر علاقوں کے بچھے تپتی دھوپ میں زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

جب آپ اسکول سے واپس گھر پہنچ کر اپنے کمرے میں جاکر اپنا سامان رکھ کر واپس آکر کھانے کے میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کا انتظار کررہے تھے، جسے پکانے کی خاطر سوئی گیس کا استعمال کیا گیا ہے۔ عین اسی وقت ڈیرہ بگٹی میں سوئی گیس کے حقیقی وارث لکڑیاں چُن کر اپنے لئے کھانا بنانے کی کوشش کررہے تھے۔

آپ اپنی زندگی میں مگن تھے، عمر گذارتے گئے، اسکول پاس کرکے کالج پہنچ گئے، پھر آپ نے یونیورسٹی جوائن کرکے ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کرلی اور وہ بھی بغیر مسائل کے۔ جبکہ بلوچستان میں وہ بچہ جو تمہارے ہی ساتھ اپنے گھر سے اسکول کے لئے روانہ ہوا تھا وہ اب لاپتہ ہوچکا ہے۔ وہ ماں جو تمہارے والدہ کے وقت کے عین مطابق ڈیرہ بگٹی میں کھانا پکانے کی تیاریوں میں مصروف تھی، وہ فوجی آپریشن میں شہید کردی گئی۔ وہ اسکول جس کی عمارت کبھی تعمیر نہ ہوسکی تھی وہ اب فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہوگئی ہے۔

آپ بڑے ہوچکے ہیں، آپ انسانیت سمجھنے لگے ہیں آپ کہہ رہے ہیں ہمیں بلوچوں کے درد کا احساس ہے۔ بلوچ ہمارے بھائی ہیں ہم بلوچوں کے انسانی حقوق کی اہمیت و قدر کرتے ہیں انکے خلاف فوج کشی کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن اسی لمحہ میں آپ بلوچوں سے یہ بھی کہہ ڈالتے ہیں کہ آپ آزادی مت مانگیں آپ پاکستان زندہ باد کہہ دیں آپ فوج کی عزت کریں آپ بوٹ کی بقاء و سلامتی کو مجروح نہ کریں۔

آپ نے چونکہ پاکستان اسٹڈیز کا علم حاصل کیا ہے، اسی لئے آپ بہت کنفیوز ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ بلوچوں کی کوئی دستاویزی تاریخ تو میسر نہیں اسی لئے انہیں بےوقوف بنانا انہیں انکی حقیقی تاریخ سے بھٹکانا بہت بڑی بات نہیں ہوگی لیکن آپ غلط سوچتے ہیں آپ غلط سمجھتے ہیں، آپ نے ابھی بلوچ کے مزاج، انکی سوچ، انکے قابلیت اور اپنی قوم و سرزمین سے محبت سے بھری تاریخ کا مطالعہ ہی نہیں کیا۔ کیونکہ آپ بلوچ بن کر نہیں جیئے ہیں۔

آپ ایک دن بلوچوں کی طرح گذارئیے پھر آپکو اندازہ ہوگا کہ پیراں سالہ آغا عبدالکریم، نواب نوروز خان، نواب اکبر خان بگٹی و نواب خیر بخش مری جیسی تاریخی شخصیات اس عمر میں بھی کس طرح اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوتے ہوئے دشمن کو للکارتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ بلوچ بن کر زندگی گذاریئے پھر آپکو اندازہ ہوگا کہ گوادر میں سی پیک کے نام پر کس طرح تباہی پھیلائی جارہی ہے۔ لوگوں کی معاشی استحصال کس طرح سے رواں دواں رکھا گیا ہے۔ طالب علموں کی جبری گمشدگیوں سے لیکر ماہیگیروں کے زریعہ معاش کو کس طرح تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا ہے۔

اگر آپ بلوچ بن کر جی رہے ہوتے تو آپ کو پتا ہوتا کہ ایک گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر کیوں پہاڑوں کو اپنا مسکن بناتا ہے۔ بولان کی خوبصورت وادیوں میں پلنے والا اُستاد کیوں اپنے ہی اولاد کو سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے ہوئے قربان کردیتا ہے۔ اگر آپ بلوچوں کی طرح زندگی گذارتے تو آپ یقیناً دیکھ پاتے سن پاتے، سمجھ پاتے اور جان پاتے کہ کیوں بلوچ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں اور کیوں پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں۔

пятница, 3 января 2020 г.

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہبلوچستان اور برطانوی مؤرخینمصنف: ڈاکٹر فاروق بلوچ

برطانوی جاسوسوں کی آمد سے قبل بلوچستان کے سیاسی حالات

            بلوچستان میں برطانوی جاسوسوں کی آمد کا سلسلہ اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوا۔ برطانوی مداخلت سے قبل بلوچستان ایک منظم ملک تھا جس میں بلوچ قوم کی حکومت قائم تھی ۔ 1410ء سے جس حکومت کا آغاز بلوچوں کے کمبرانی میروانی قبائل نے کیا تھا وہ اب پھیل کر ایک مضبوط، مستحکم اور وسیع سلطنت کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ گو کہ آغاز میں ان قبائل کا دائرہ کار زیادہ وسیع نہ تھا اور وہ سوراب، نغاڑ، چپر، زیارت اور قلات تک محدود تھے اور بلوچستان پر مغلوں کی حکومت قائم تھی مگر سارے بلوچستان پر انہیں تسلط حاصل نہ تھا بلکہ وہ پایہ تخت قلات، مستونگ، کوئٹہ اور سبی وغیرہ پر تسلط رکھتے تھے یہ قبضہ صرف فوجی نوعیت کا تھا اور وہ لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے میں ناکام رہے تھے لہٰذا ایک عام بلوچ منگولوی تسلط کو اپنی غلامی سے تعبیر کرتا تھا اور ان کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنی قومی اور قبائلی اقدار کو ترجیح دیتا تھا ۔ لہٰذا منگول کبھی بھی ان قبائل کی تسخیر نہ کر سکے ۔ 1410ء میں میروانی بلوچوں نے قلات کے دہواروں اور آس پاس کے دیگر قبائل سے مل کر منگول اقتدار کا خاتمہ کیا اور پایہ تخت پر قبضہ کرلیا اور بلوچ حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ جس وقت کمبرانی میروانی قبائل کو قلات اور سوراب میں اقتدار حاصل ہوا تو اس زمانے میں بلوچستان کا شیرازہ مکمل طور پر بکھرا ہوا تھا اور یہ مختلف علاقوں میں منقسم ہو کر مختلف قبائل کے زیر اثر تھا ۔ مکران پر ملکوں کے بعد بلیدی قبائل نے قبضہ کیا اور مکران کو ایک ایسی ریاست کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی کہ جو مقامی قبائل کے زیر اثر اور وسط ایشیائی یا ایرانی حکمرانوں کے ماتحت تھا۔ سیستان پر قبائل بلوچ کا تسلط ہونے کے باوجود وسط ایشیائی اور ایرانی خاندانوں نے ہمیشہ اسے اپنے زیر قبضہ رکھا حتیٰ کہ باقی ماندہ بلوچستان بھی ہمیشہ بیرونی اقتدار کے ماتحت رہا اور بیرونی حکمران ہمیشہ اس کے حصے بخرے کرتے رہے تاآنکہ کمبرانی بلوچوں نے قلات پر قبضہ کرکے بلوچی اقتدار کا آغاز کیا ۔ 1410ء سے 1666ء تک میروانی قبائل انتہائی نامساعد حالات اور وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنی محنت اور خون سے اپنے خطے کی نہ صرف حفاظت کرتے رہے بلکہ اس کے مختلف حصوں کے اتحاد کے لئے بھی کوشاں رہے ۔ 1666 ء میں کمبرانی قبائل کی ایک اور ذیلی شاخ نے اقتدار سنبھالا اور میراحمد خان اوّل نے قلات پر اپنی حکمرانی شروع کی۔(1) اس دلیر و دبنگ حکمران نے بلوچستان کے بیشتر ٹوٹے ہوئے انگوں کو اکٹھا کرکے منظم کیا اور طمطراق کے ساتھ 29 سال حکمرانی کرنے کے بعد 1695ء میں رحلت فرمائی(2) اس کے بعد تخت قلات کو جو بھی حکمران ملے وہ میرا حمد خان جیسے عظیم حکمران (خان) کی مناسبت سے احمدزئی کہلائے۔ احمد زئی خاندان کے کئی قابل حکمرانوں نے بلوچستان کے بکھرے ہوئے شیرازے کو یکجا کرنے اور بلوچ قبائل کو ایک قومی دائرے میں لانے کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ خصوصاً میراحمدخان اول (1666-1695) میر عبداللہ خان قہار (1716-1731) اور میر نصیر خان نوری (1749-1794) بلوچستان کے قدیم جغرافیہ کی بحالی، اتحاد اور بلوچ قومی یکجہتی کے لئے ناقابل فراموش کردار ادا کرتے رہے۔ میر نصیر خان نوری کے عہد میں پہلی بار بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت واضح ہوئی اور بلوچستان کے خارجی تعلقات بیرونی دنیا کے ساتھ قائم ہوگئے اور بلوچستان کا رقبہ 3,40,000 مربع میل تک پھیل گیا۔ میر نصیر خان نوری کے زمانے کو اس لئے اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ برطانوی جاسوسی مہمات سے فوراً پہلے کا دور ہے  میر نصیر خان نے قلات ( بلوچستان ) پر اٹھارہویں صدی کے وسط سے آخری عشرے کے وسط تک یعنی 1749ء سے لے کر 1794ء تک حکمرانی کی اور اس دوران نہ صرف بلوچستان کے بکھرے اور علیحدہ ہوئے حصوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہوا اور انہیں ایک ہی جغرافیائی لڑی میں پرودیا بلکہ منتشر اور قبائلی عصبیتوں کا شکار بلوچ قوم کو بھی متحدو منظم کرنے میں کامیاب ہوا۔

            انگریزی مداخلت سے قبل بلوچستان میں ایک وسیع قومی حکومت قائم تھی کہ جس کا مرکز قلات تھا۔ یہ حکومت کئی نشیب و فراز سے گزر کر اٹھارہویں صدی میں بام عروج پر جا پہنچی۔ اٹھارہویں صدی میں قلات کو دو ایسے حکمران نصیب ہوئے کہ جنہوں نے گمنامی اور پستی میں پڑی ہوئی بلوچ قوم کو سیاسی عروج اور شہرت عطا کی۔ ان میں اول شخصیت میر عبدا للہ خان قہار کی تھی کہ جنہوں نے مرکز قلات سے چاروں سمتوں میں دور دور تک کامیاب یلغاریں کرکے قندھار کی سر حدوں سے لے کر ساحل مکران تک اور بندر عباس سے ڈیرہ غازی خان تک وسیع علاقے کو 15 سالوں تک جولان گاہ بنائے رکھا، اور ان تمام حدود میں اپنے گھوڑے دوڑائے کہ جہاں بلوچ قبائل آباد تھے مگر مرکز قلات بلکہ بلوچ قومی دھارے سے کٹے ہوئے تھے میر عبدا للہ خان ایک عظیم سپاہی تھے مگر ان کا جانشین میر محبت خان ان کی طرح قابل اور بہادر ثابت نہ ہوا ۔ ایران میں نادر شاہ افشار نے ظہور پذیر ہوکر تمام ایران، افغانستان، سندھ، ہند اور وسط ایشیاء کی ریاستوں پر قبضہ کر لیا تو بلوچستان کے خان میر محبت خان بھی ان کے اتحادیوں میں شامل ہوئے اور نادری کیمپ کا ایک اہم حصہ بن گئے مگر اس کے اس فیصلے نے مستقبل میں بلوچستان کے لئے بہت مسائل پیدا کئے ۔

            میرمحبت خان اور میر اہلتاز خان یکے بعد دیگرے حکمران بنے مگر دونوں نااہل ثابت ہوئے اور بلوچستان بدستور نادر شاہ افشار کے زیر اثر رہا 1747ء میں نادر شاہ افشار اپنے بھتیجے کے ہاتھوں ایران میں قتل ہوا(3) تو احمد خان سدوزئی المعروف احمد شاہ ابدالی نے اپنی افغان سپاہ اور قبائلی سرداروں کے تعاون سے قندھار میں افغان حکومت کی داغ بیل ڈالی۔ 4) (