Powered By Blogger

вторник, 14 января 2020 г.

سال 2019میں 626فوجی آپریشنز میں 785سے زائد افرادلاپتہ، 302افرادقتل،200سے زائد گھر نذر آتش ,دستاویزی رپورٹ و تجزیہ

جبری گمشدگیوں کا سیاہ باب
 سال 2019میں 626فوجی آپریشنز میں 785سے زائد افرادلاپتہ،
302افرادقتل،200سے زائد گھر نذر آتش

سنگر کامکمل پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے

 

مقبوضہ بلوچ ریاست گزشتہ ادوار کی طرح اس سال بھی پاکستانی ظلم و بربریت کی تصویرپیش کرتی رہی۔ جہاں قابض ریاست کی جانب سے پورے خطے میں فوجی آپریشن، بلوچ فرزندوں کی شہادت، جبری گمشدگی کے واقعات،دوران آپریشن عمر اور جنس میں تفریق نہ کرتے ہوئے لوگوں کو جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ،بنانا گھروں میں لوٹ مار اورانہیں نذرآتش کرنا، مقامی افراد کو جبری طور پر ان کے علاقوں سے بے دخل کرنے کے ساتھ ساتھ اس سال قابض ریاست نے بلوچ خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کی پالیسی میں شدت لائی جس کی وجہ سے درجنوں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے واقعات رپورٹ ہوئیں۔ 


     ایک جانب ریاستی ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب مسلح بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی کارروائیاں بھی جاری رہیں جن میں ریاست کو شدید جانی و مالی نقصانات اٹھانا پڑا۔ ان کارروائیوں میں جو سب سے زیادہ یا عالمی سطح پہ شہ سرخیوں میں رہا وہ بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے گودار میں واقع پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ تھا جو غالباً 26گھنٹوں تک جاری رہا جس میں چار بلوچ فدائین وطن پہ نثار ہوتے ہیں جب کہ قابض ریاست کے درجنوں مسلح اہلکاروں سمیت بعض پاکستانی اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کار بھی اس حملے کا نشانہ بنتے ہیں۔مسلح آزادی پسند تنظیموں کے علاوہ آزادی پسند غیر مسلح جماعتوں، تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اندرون و بیرون ملک احتجاج کا سلسلہ بھی جاری رہا جہاں ملکی سطح سے لیکر عالمی سطح تک وہ پاکستانی بربریت کو افشاں کرنے اور بلوچ قوم کو ان کافطری حق دلانے کی جدوجہد کرتے نظرآئیں۔ ان کے علاوہ اس سال استحصالی منصوبہ پاک چائنا کاریڈورکی صورتحال بھی مخدوش نظر آئی جس سے بظاہر ایسی صورتحال نکلتی ہے کہ یہ منصوبہ آنے والے دنوں میں مکمل ناکامی کا شکار ہوگا۔اس منصوبے کی ناکامی اور چائنا کی اس میں عدم دلچسپی نے قابض ریاست کو بلوچوں پہ مزید ستم ڈھانے کے لیے اکسایا جہاں آج اس پورے خطے میں جہاں سے یہ روٹ گزرتا ہے وہاں اجاڑ بستیوں کے کھنڈرات نظرآتے ہیں۔ اس سال ان تمام واقعات کے ساتھ ساتھ نام نہاد قوم پرست جو پاکستان کی وفاق کے پرستار ہیں انہوں نے بھی اپنی ساکھ بچانے کے لیے مختلف نقطہ نظر اپنائیں جیسے ایک جانب نیشنل پارٹی جو اس استحصالی منصوبے(سی پیک) کو دوام بخشنے میں کلیدی کردار کا حامل رہا ہے وہ اس منصوبے کے خلاف اخباری بیانات جاری کرتا رہا اور بلوچ قوم جس کی نسل کشی میں یہ جماعت روز اول سے متحرک ہے بلوچوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ریاست مخالف نعرہ بازی بھی کرتا رہا، جبکہ یہی روش ہم بلوچستان نیشنل پارٹی کی سوچ میں دیکھتے ہیں جو کبھی حق خودرادیت تو کبھی ریاستی ایوانوں میں جگہ بنانے کے لیے چھ نکات اور صوبائی خودمختاری جیسے متنازعہ سلوگن دیتا ہے۔ اس سال آواران سے چار بلوچ خواتین کی ریاست کے ہاتھوں جبری گمشدگی پہ ان کا واویلہ اور از بعد ان کی رہائی، اس واقعہ کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں اور بعض ایک فورم پہ بی این پی کے قائدین اس کا اظہار بھی کرچکے ہیں جیسے ڈیرہ جات میں منعقد ہونے والے اپنے جلسے میں اس کا اظہار وغیرہ۔


     الغرض ایک جانب بلوچ آزادی پسند تنظیمیں اور جماعتیں جہد آزادی کے سفر میں متحرک کردار ادا کررہے ہیں تو دوسری جانب ریاست کی استحصالی پالیسیاں، جبر و ستم اور انہیں مزید دوام بخشنے کے لیے ان وفاق پرستوں کا کردار بھی واضح ہوچکا ہے۔بلوچستان کے حالات جہاں آزادی پسندوں کی کامیابیوں نے ریاست کو ادھ موا کردیا ہے وہاں اندرونی طور پر قابض ریاست کی سیاست بھی منتشر نظرآتی ہے جہاں اس سال قابض ریاست کے لیے اس کی سیاست میں سب سے واقعہ جمیعت علماء اسلام کا حکومت مخالف دھرنا اور از بعد مظاہروں کا سلسلہ تھا جس میں بعض دیگر جماعتوں کے قائدین بھی شریک ہوتے رہیں۔اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں، قابض کی عدلیہ اور عسکری اداروں کے مابین فضاء بھی گرم رہی جو پہلے پہل پاکستان کے آرمی چیف کے عہدے میں توسیع اور ازبعد سابق پاکستانی جنرل اور صدر پرویز مشرف کی پھانسی کا سندیسہ تھا۔عالمی مالیاتی اداروں نے بھی گزشتہ ادوار کی طرح اس سال بھی پاکستان کوچند ناکام ممالک کی زاویے سے دیکھتے رہے جو قابض ریاست کی معاشی زبوں حالی کو افشاں کرتی ہے۔اور ساتھ میں اس خطے میں مقیم دیگر محکوم قومیں جن میں پشتون، سندھی اور مہاجر بھی ریاستی جبر کے خلاف سراپاء احتجاج ہیں جہاں ان اقوام کے ہزاروں فرزند ریاست نے جبری طور پر لاپتہ کرنے کے ساتھ ان کے سینکڑوں سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں بھی دی ہیں۔ایسے حالات میں ان تمام اقوام کو جو اس ریاست سے گلوخلاصی چاہتے ہیں کسی ایک پلیٹ فارم پہ آکے اس غیر فطری ریاست کی عمر مزید کم کرنے کا موجب بن سکتے ہیں لہذا ان اقوام کے رہنماؤں کو اس جانب اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ یکجہتی کی پالیسیوں میں ہی ان کی بقاء ہے۔


     عالمی سطح پہ دیکھا جائے تو یہ سال علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کی بدترین مثال پیش کرتی ہے بالخصوص مشرق وسطیٰ کے حالات جس کی وجہ سے ایران،امریکہ، روس،امریکہ اور سال کے اواخر میں ترکی جارحیت کی وجہ سے یورپی ممالک اور امریکہ کا ترکی کے ان اقدامات کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا، ایران،سعودیہ تعلقات بھی اس سال شدید کشیدہ رہے بالخصوص تیل تنصیبات پہ حملوں کے بعد، اس کے علاوہ شمالی کوریا اور امریکہ تعلقات میں پھر تناؤ کی صورت دیکھنے میں آئی۔ اس سال ایران اور عراق میں پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے سکہ رائج الوقت کو کہیں تبدیل ہونا پڑا تو کہیں وہ اپنی رٹ قائم کرنے کی کوششوں میں مظاہرین کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال بھی کرتا رہا، ایران کے علاوہ افغانستان میں صدارتی الیکشن بھی مکمل ہوگئے جن کی روسے اشرف غنی ایک بار پھر کامیاب ہوگئے۔افغان خطہ الیکشن کے علاوہ بھی عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا جہاں امریکہ،طالبان مذاکرات  کے حوالے سے کبھی تعطل تو کبھی پھر شروع ہونے کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں۔ساتھ میں جنوبی ایشیائی ممالک بھارت اور پاکستان اس سال کے اوائل میں ایک بڑی جنگ کے دھانے پہ بھی آپہنچے۔ان تمام خبروں کے ساتھ امریکہ اور چائنا کی تجارتی جنگ مستقبل میں نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصے کو روایتی جنگ کی جانب دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔


     مقبوضہ بلوچستان کے حالات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سال 2019ء گزشتہ چندسالوں کی طر ح بلوچ قوم کے لیے لہو کا عکس پیش کرتا ہے جہاں قابض ریاست نے بلوچ قوم کے خلاف 626فوجی آپریشنز کیے جن میں 785 بلوچ فرزندوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیاجس میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔اس سال302 نعشیں برآمد ہوئے۔80 بلوچ فرزندوں کو فورسز نے شہید کیا جبکہ144 لاشوں کے محرکات سامنے نہ آ سکے اور78 نعشوں کی شناخت نہ ہو سکی۔


قابض ریاست کی جانب سے گھروں کو نذرآتش کرنا، مسمار کرنا اور ان میں لوٹ مار کے واقعات میں بھی شدت نظرآئی جہاں اس سال 1416زائد گھرانے ریاستی بربریت کی زد میں آگئے اور فورسز نے دوران آپریشنز لوٹ مار کی اور اسی دوران 200 گھروں کو نذر آتش کیا گیا۔


ریاستی فورسز کی عقوبت خانوں سے321 افراد بازیاب ہوئے اور فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں 42 نئی چوکیاں بھی قائم کیں۔


 اس کے علاوہ بعض افراد کے قتل کے محرکات سامنے نہ آسکے۔۔ان کے علاوہ ہزاروں بلوچ خاندان اس سال بھی ریاستی جبر کی وجہ سے ایران، افغانستان اور اندرون بلوچستان، سندھ و جنوبی پنجاب کی جانب نقل مکانی پہ مجبور ہوئیں۔مال مویشی اور دیگر مالی نقصانات کا حساب ممکن ہی نہیں۔


    ان اعداد و شمار سے ریاستی بربریت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کس قہر کا سامنا کررہے ہیں۔ بلوچستان کی اس مخدوش صورتحال کا اگردنیا کے دیگر جنگ زدہ خطوں سے تقابلی جائزہ لیا جائے توبعض خطے جنہیں اقوام متحدہ اور بعض بڑی طاقتوں نے جنگ زدہ خطے قرار دیے ہیں یہاں حالات ان سے زیادہ گھمبیر ہیں لیکن دنیا بالخصوص اقوام متحدہ نے ابھی تک بلوچ وطن کو جنگ زدہ قرار نہیں دیا جس کی وجہ سے قابض ریاست کو مزید شہ مل رہی کہ وہ جب چاہے اور جیسے چاہے بلوچ قوم کو اپنی قہرمانی کا شکار کریں۔۔۔البتہ بلوچ آزادی پسند تنظیمیں، جماعتیں اور انسانی حقوق کی بعض تنظیمیں اس بابت جدوجہد کررہے ہیں اور پاکستانی بربریت کا اصل عکس بھی دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ساتھ میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچ فرزندوں کی بازیابی کے لیے متحرک تنظیم (وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز) کی جدوجہد کو دس سال بھی پورے ہوگئے۔گزشتہ سالوں کی طرح یہ تنظیم اس سال بھی اپنی جدوجہد کے تسلسل کو آگے بڑھاکے ریاستی بربریت کو دنیا کے سامنے افشاں کرنے کی کوششوں میں ہے۔اس امید پہ کہ شاید کسی دن دنیا کے مہذب اقوام اور عالمی ادارے اس ریاستی ظلم و بربریت کے خلاف متحرک ہوجائیں۔


    عالمی سطح پہ اس سال اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے حوالے سے پروگرام میں بلوچ آزادی پسند تنظیمیں کافی متحرک نظر آئیں اور اس ضمن میں  انہوں نے دنیا کو بلوچ قوم پہ ہونے والے مظالم کی روک تھام کی جانب توجہ مبذول کرانے کی سعی بھی کی۔لیکن ایک بات عیاں ہے کہ بلوچ عالمی سطح پہ کسی ایک پلیٹ فارم سے آواز اٹھانے کی کوشش نہیں کررہے جس کی وجہ سے جدوجہد پہ منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں لہذ آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو عالمی سطح پہ کسی ایک پلیٹ فارم کے تحت ہی جدوجہد کرنا ہوگا تا کہ دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے،اس کے علاوہ ان کا یہ اقدام بلوچ قوم کی آزادی کی امیدوں کو دوبالا بھی کریگی۔لہذا بلوچ قوم کے رہنماؤں کو قومی مفادات کی خاطر چند ایک نکات پہ متفقہ فیصلہ کرنا ہوگا۔اس قسم کے اقدامات سے ایک تو عالمی سطح پہ تحریک توجہ کا حامل ہوگا دوم بلوچ قوم میں تحریک کی مزید پذیرائی کا باعث بھی بنے گا۔ایسے اقدامات کا ایک اور مفید صورت یہ نکلے گی کہ سیاسی دکانداری کو چمکانے والے وفاق پرست بلوچ قوتیں جو ہر موقع پہ قومی آزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی سعی کرتے ہیں ان کی راہیں مسدود ہوجائیں گی وہ چاہے نیشنل پارٹی ہو یا بلوچستان نیشنل پارٹی کی بلوچ سرزمین کو مزید غلامی کی نظر کرنے اور بلوچ کش پالیسیاں۔۔۔بلخصوص ایسے حالات میں تو یہ نظریہ مزید اہمیت کا حامل ہے جہاں ایک جانب قابض ریاست معاشی، سیاسی اور سماجی حوالے سے دگرگوں کی کیفیت میں مبتلاء ہے اور ساتھ میں دنیا کی بڑی طاقتوں چائنا، امریکہ اور روس کے درمیان رسہ کشی اور بلخصوص جنوبی ایشیا، افغانستان، ایران اور مشرق وسطیٰ کے مخدوش حالات جن کے اثرات نے آج پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس نہج پہ آج دنیا کے حالات پہنچ چکے ہیں ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں یہ خطے دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان روایتی یا ایٹمی جنگ کی تصویر پیش کرے۔ایسے میں اگر حالات اس سطح پہ پہنچ جاتے ہیں تو ان سے بلوچستان کی جنگ کو مزید توانائی کی ضرورت محسوس ہوگی لہذا آج ان حالات کا ادراک رکھتے ہوئے بلوچ قومی رہنماؤں کو آنے والے دنوں کے لیے نت نئی پالیسیوں جو وقت و حالات سے مطابقت رکھتی ہوں ان کا نفاذ کرنا چاہیے۔کیونکہ ایسی پالیسیوں کی وجہ سے ایک تو جدوجہدپہ کبھی جمود طاری نہیں ہوگا اور دوم منزل مقصود کا حصول سہل بن جائیگا۔


Комментариев нет:

Отправить комментарий