Powered By Blogger

вторник, 15 марта 2016 г.

بہادری و عظمت کا پیکر ....ایک بلوچ عورت , سمی بلوچ

بلوچ قومی تاریخ میں جس طرح بلوچ نوجوانوں نے قومی جنگ میں قربانیاں دی ہیں ، جدوجہد کی ہے اسی طرح بلوچ عورتوں نے بھی اس جنگ میں بڑی کردار ادا کی ہے ۔بلوچ عورتوں کی جرأت اور بہادری کی گواہی تاریخ کے اوراق میں سنہرئے الفاظ میں درج ہیں۔ بلوچ عورتیں جنہوں نے تلوار اٹھائی ہے اور جنگیں فتح کی ہیںیا پھر شہادت نوش کی ہیں، وہ اس جنگ میں مردوں کے مقابلے میں برابرکاشریک ہیں۔جلسے اور احتجاجی مظاہروں میں بھی زیادہ تر عورتیں دکھائی دیتی ہیں۔بلوچستان میں جو ظالمانہ ریاستی آپریشن جاری ہیں ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ 1948سے لے کر تادم تحریر بلوچ نے جتنی بھی ریاستی جبر و بربریت سہی ہیں ،کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے انتہائی ہمت و بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا ہے اور ہمیشہ اپنے بھائیوں کے ساتھ قدم بہ قدم رہیں گی۔ اس جنگ میں بلوچ عورتیں جب اپنے بھائی، بچوں،شوہروں کو شہید ہوتے دیکھتے ہیں تو انتہائی برداشت ،صبرو تہمل اوربہادری کا مظاہرہ کرکے اپنے پیاروں کو گلزمین کے سپرد کرتی ہیں جو ہ بڑی ہمت اور بہادری کاجیتا جاگتا مثال ہے لیکن ان عورتوں میں ایک بہت ہی عظیم جرأت مند اور بہادر عورت نے بھی اپنا نام تاریخ میں قید رقم کیا،جو شاید بلوچ ماؤں کے لئے مثال بن چکی ہے۔ اس عورت کے بارے میں بیان کرنانا ممکن شاید نہ ہو لیکن اسکی عظمت کے حوالے سے میرے پاس جو الفاظ ہیں وہ ناکافی ہیں۔
بلوچستان میں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی عابدہ جسکی تعلیمی قابلیت بس میٹرک تک ہے وہ اپنے ایک چھوٹے سے گھر میں شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک خوشحال زندگی گزار رہی تھی جس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک دن زندگی میں اتنی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ بلوچ قومی جنگ میں ہر بلوچ مرد عورت کی طرح یہ بھی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ شامل تھی ۔ریاست اس گھر کے لوگوں اور چھوٹے بچوں سے خوف محسوس کر رہی تھی۔ فوج نے کئی بار انکے گھر کی قیمتی چیزیں مال غنیمت سمجھ کر لوٹنے کے بعد خالی گھر جلا کر راکھ کر دیا اس کے بعد عابدہ کے شوہر ماسٹر رحمت جو21 جنوری 2015 کو ایک جنگ میں شہید ہوا۔ گھر کے واحد کفیل کے شہادت کے بعدسب عابدہ کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ عابدہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کس حالت میں ہوگی کس طرح یہ دکھ سہ لے گی، کس طرح اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش کریگی لیکن جب سب لوگوں نے عابدہ کو دیکھا کہ اس کی آنکھیں نم بھی نہیں ہیں دکھ اور تکلیف کی آ گ اسکے سینے میں جل رہی تھی مگر اس نے آگ کی گرمی کو صبر اور استقامت سے برقرار کھی ہوئی تھی۔کچھ دن گزرنے کے بعد اس عورت نے پھر سے اپنے بچوں کی خاطر زندگی کو ترجیح دیا پھر سے جینے کی امید شروع کی ۔عابدہ کے گھر کی روشنی کو بجھا دیا تھا مگر ساتھ میں ان شمعوں کو بھی ختم کیا جو شاید ایک ساتھ ملتے پھر سے نئی روشنی قائم کرتے ۔تین مہینے بعد 19مئی 2015کوگھر میں چھاپہ مار کر اسکے کمسن بیٹے 15سالہ معراج رحمت کے نازک جسم کو مملکت خداد کی فوج نے گولیوں سے چھلنی کیااور بیٹے کی جدائی میں ایک ماں پر کیا گزرتی ہے یہ صرف ایک ماں ہی جان سکتی ہے ۔بیٹے کی شہادت کے بعدعابدہ کی ساری بندشیں ختم ہو گئیں۔ بیٹے کی لاش خون سے لت پت اسطرح جیسے سرخ چادر زمین پر بچھایا ہے لیکن اس ماں کے حوصلے پہاڑوں کی طرح بلند تھے، آنسو کا ایک قطرہ بھی اس عظیم ماں کے آنکھوں میں نہیں تھا جو شایدایک دن اسکی کمزوری کی گواہ بن جائیں بیٹے کی مسکراہٹ کے ساتھ خود مسکرا تی ہے اور شہید بیٹے کے ماتے کو چومتی ہے اور کہتی ہے ایک بیٹے کو اسکی ماں پکار رہی ہے لے جاؤ اسکو اپنے گلزمین کے حوالے کردو۔لیکن اس ماں کے آنکھوں میں آنسو کا قطرہ نہیں آیا۔عابدہ کے چہرے پر ڈر نہیں تھا صرف اسکا سر فخر سے بلند تھا۔عابدہ کہتی تھی مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ میرادوسرا بیٹا تو زندہ اور سلامت ہے لیکن تین مہینے بعد ریاستی فوج کے تین دن کی خون کار آپریشن میں دوسرا بیٹا فرہاد رحمت بھی شہید ہو۔اس آپریشن میں عظیم گوریلا لیڈر داکٹر اللہ نظر کے بھائی شہید سفر خان اور بھتیجاکمانڈر سلیمان عرف شئے حق اپنے بھائی اور کچھ مہمانوں کیساتھ شہید ہوئے ۔دشمن فوج انکی لاشوں کو گاڈی کے پیچھے باندھ کر گھسیٹ کر لے گئے۔ اس ماں نے بیٹے کی لاش بھی نہیں دیکھی جو وہ دل سے تسلی کر لے کہ اسکا دوسرا بیٹا بھی شہید ہوا ہے لیکن جس طرح اس عورت کے دکھ ، درد اور تکلیفیں بڑھتی گئیں اس عورت میں درد کے ساتھ جینے کی ہمت و حوصلے بھی بڑھتی گئیں اور وہ مادریں سرزمین کی ممتا کے آگے سرنگوں رہی ۔شوہر کے ساتھ دونوں بیٹوں اور شوہر کوسرزمین کے حوالے کرکے کہتی رہی کہ اصل ماں تو سرزمین ہے انھیں مجھ سے زیاہ انکی ضرورت ہے ۔ 
ایک بار میں ان سے ملنے گئی دیکھاکہ جو باتیں میں نے لوگوں سے سنی تھیں وہ بالکل ویسی ہی تھی،وہ اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ مشغول تھی ۔جب میں اندر گئی مجھے دیکھ کر انتہائی خوش ہو گئی کہنے لگی کئی دنوں بعد کوئی اپنا ملا ہے۔عابدہ ویسے ہی بہت زیادہ خوش مزاج نیک اور زندہ دل انسان ہیں میں ان کے پاس بیٹھ گئی ۔وہ بڑی دلیری سے اپنے سرتاج اوراپنے فرزندوں کی شہادت کی باتیں کر رہی تھی ۔جب میں اس کی آ نکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتی تھی تو میں محسوس کرتی تھی کہ ایک دکھ سے بھری سمندران آنکھوں کے پیچھے چھپی ہے لیکن میں جس عابدہ کو باہر سے دیکھ رہی تھی وہ بہت ہی دلیر اور نڈر تھی اس کے چہرے میں ایک شکن تک دکھائی نہ دی پہلے تو میں یہ ہمت کھو چکی تھی کہ میں اس سے کچھ باتیں کر وں اسکا حال پوچھ سکوں لیکن جب میں نے عابدہ کی بہادری دیکھی مجھ میں بھی طاقت آگئی ۔میں نے اس سے کئی سوالات پوچھے کہ تم کیسے ہو کس طرح تم اپنی چھوٹے بچوں کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہی ہو؟
عابدہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میری زندگی وقت کی سی ہے جو گزرتی جا رہی ہے اور وقت کسی کے لئے نہیں رکھتی ہے میں خوش ہوں اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ.میں اپنے بچوں اوران کے والد کی شہادت سے پہلے ہماری زندگی بہت خوشگوار تھی ہمارے گھروں میں مہمانوں کا آناجانا اور زندگی کے دوسرے مواقعوں میں بہت خوش تھے اس کے علاوہ بلوچستان کے جو حالات تھے ان کے مطابق میں جانتی تھی کہ بلوچستان میں ہر عورت کی طرح میرا گھر جلا دیا جائیگا میرے شوہر اور بچے شہید کیے جائینگے لیکن میں کبھی بھی ان حالات سے دستبردار نہیں ہوئی ۔
ہاں میں معراج کی شہارت کے بعد تھوڑی زحمت تھی کیونکہ میرے شوہر کے شہادت کے چلے جانے کے بعدمیرے گھر کی ذمہ داری معراج ہی نے اس کم عمری میں اٹھا یا تھا اور فرہادجب زندہ تھا اس کے لیے میں پریشان تھی کیونکہ وہ ہمیشہ بیمار رہتا تھا۔
جس دن میرا بڑا بیٹافرہاد دوڈتے ہوئے میرے پاس آیا اور کہنے لگاکہ ’’اماں معراج پوجیانی دست ء شہید کنک بوتگ‘‘ (اماں ریاستی دشمن کے ہاتھوں معراج شہید ہو گیا ہے) تو میں نے کہا ’’ اللہ ءِ باہوٹ انت منا پہر انت کہ پہ ماتیں گلزمین ءَ شہید کنک بوتہ‘‘(اللہ کی امان میں رہے ،مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا اپنے مادر وطن بلوچستان کے لیے شہید ہوا ہے)
مجھے بالکل بھی پریشانی محسوس نہیں ہوئی اورنہ ہی میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک قطرہ باہر نکلا۔
جب تین مہینے بعدمشکے کے ایک بڑے ریاستی آپریشن میں شہید سفر خان ،شہید سلیمان ، شہید ذاکر اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوئے ان میں میرا کمسن بیٹا فرہاد بھی شامل تھا۔جب سرمچاران شہداء کے والدین کو مبارک باد دینے کے لیے آ ئے اور سب کو مبارک باد دیا کہ انکے سپوتوں نے اس عظیم مقصد کے لئے جام شہادت نوش کیاہے۔ سب کو مبارک باد دینے کے بعد جب میری باری آئی تو اس آدمی کے قدم رک گئے اور کہنے لگاان شہیدوں میں ایک اور ہے جسکا نام سننے کے بعد شاید کسی کو برداشت نہ ہو تو میں مسکرائی اور کہنے لگی کہ ابھی تک مجھ میں بہت صبر اور برداشت ہے مجھے فخر ہے اپنے دوسرے بیٹے پرجس نے اپنے غیرت اور گلزمین کے لئے شہادت نوش کیا ہے۔ میں بھی اپنے آپ کو ہزاروں بلوچ بیویوں اورماؤں کی طرح خوش نصیب سمجھتی ہوں، مجھے یاد ہے میرے شہید شوہر رحمت اکثر کہتے تھے ،موت کا وقت مقرر ہے مگر اس جنگ میں نہیں کہیں بھی اور کسی بھی وقت آ سکتی ہے،پھر مسکراتے ہوئے مزاق بھی کرتے تھے کیا پتہ ہم سب ایک ساتھ قربان ہو جائیں، انکی شہادت کے بعد میری ہمت کم نہ ہوئی یقیناًدکھ تکلیف بڑھ گئے ،مگر بیٹے کی شہادت اور انکی لاش کو آنکھوں کے سامنے ،بلکہ پاکستانی فوج کی گولیوں کو خود انکے سینے میں پیووست ہوتے دیکھ کر پتہ نہیں کیسی طاقت جان میں آئی کہ میں بیٹے کی محبت میں آنسو بہانا چاہتی تھی مگر پھر رحمت یاد آیا انکی باتیں کہ شاید ہم ایک ساتھ قربان ہوں،پھر جب فرہاد کے شہادت کی خبر آئی تو میں نے سجدہ کیا زمین کو اور دیر تک بوسہ دیتے رہی اور زمین سے ایک گرمی میری شریر میں محسوس ہوئی،اور ہلکی سے آنسو کی بوند شاید زمین پہ ٹپھکی ہو،دل میں کہتی رہی اے وطن! ابھی میں اورمیرے دوسرے بچے باقی ہیں خود کواور انہیں تمہارے ممتا کے حوالے کرنے کی ہمت ہے مجھ میں۔جب زمین سے سر اُٹھایا تو ہمت اور حوصلے شاید مزید بلند ہوئے۔میری طرح کتنی مائیں بہنیں ہیں جنہوں نے سب کچھ قربان کیااور کر رہی ہیں،بس دعا کرتی ہوں قربانی کا جذبہ ختم نہ ہو۔
عابدہ اپنے شوہر،بچے اور گھرکی ہستی قربان کرنے کے بعدبھی پیچھے نہیں ہٹے،اس کے پاؤں میں اب بھی کوئی لغزش نہیں،سب کچھ اس گلزمین کی خاطر قربان کر نے کے باجود بڑی دلیری ،ہمت اور جرأت کے ساتھ صبر اور برداشت کا دامن تھامے اپنے زندگی کی باقی ماندہ دن گزار رہی ہیں جو بہادری و عظمت کی علامت بن گئی ہے۔
بلوچستان کی ہر ایک عورت عابدہ ہے ۔ہر ایک عابدہ نے ریاستی دشمن کے ہر ظلم ،جبر و تشدد کو بڑی دلیری و بہادری سے برداشت کیا ہے،ہر موڈ پر دشمن کا مقابلہ کیا ہے۔ اپنے پیاروں کو لوریوں کیساتھ گلزمین کے سپردکئے۔اپنے لخت جگروں کی شہادت پر اپنے سروں کو فخر سے ہمیشہ کے لئے بلند کیا ہے ایسی ماوؤں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائینگی۔ اور جب تک ایسی مائیں بلوچ سرزمین پہ وجود رکھتی ہیں جو اپنی اولاد سمیت پورے خاندان کی قربانی دینے کی ہمت کے ساتھ انکی پروش میں سرزمین کی محبت شامل کر تی ہیں ایسے قوم زیادہ دیر تک غلام نہیں بنائے رکھے جا سکتے۔



вторник, 8 марта 2016 г.

کامریڈ عبدالقیوم بلوچ گوادری 


تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
2016-03-08 09.14.02ستائیس مارچ 1948ء کے جبری الحاق سے لیکر اب تک بلوچ اپنے وسائل کا استحصال کرنے، اپنے سیاسی حقوق ضبط کرنے، جسمانی طور پر ختم اور خوف زدہ کرنے، اور آخر میں غیر بلوچوں کی آمد کیساتھ انہیں ایک اقلیت میں تبدیل کرنے کی پاکستانی ریاست کی کوششوں کیخلاف مزاحمت کرتے آ رہے ہیں۔ بلوچ مزاحمت نے اب تک ان شیطانی منصوبوں کو ناکام بنایا ہے تاہم اس کیلئے بلوچوں کو اپنی زندگیوں کی ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مزاحمت میں کوئی وقفہ یا کمی نہیں آئی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس مزاحمت کی شدت اور اس کے علاقے بدلتے رہے ہیں؛ ابتدائی طور پر یہ مرکزی بلوچستان تک محدود تھی پھر یہ مکران کے ساحلی علاقوں میں اپنے اثرات کیساتھ مری اور مینگل علاقوں میں منتقل ہوئی۔ اسوقت مزاحمت سب سے زیادہ مکران کے ساحلی اور ملحقہ علاقوں میں فعال ہونے کے ساتھ ساتھ پورے بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہے۔
مکران کو اس تعلیم نے فائدہ پہنچایا ہے جس کے حصول کیلئے وہاں کے لوگ کوشش کرتے آئے ہیں اور یہ سیاسی شعور اسی تعلیم کی دین ہے۔ مکران اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کو بے انتہا مصائب جھیلنے پڑے ہیں جو ان بڑے منصوبوں کے تناظر میں سفاکانہ جبر ا ور ’غلیظ جنگ‘ کی صورت میں ان پر نازل ہوئی ہیں جو حتیٰ کہ ارجنٹینا، برازیل اور چلی میں اسی طرح کے جبر کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے بھی باعث شرم ہیں۔ صریح سیاسی اور اقتصادی جبر کا شتر بے مہار جو پاکستان نے بڑے منصوبوں اور ترقی کے نام پر چھوڑا ہوا ہے اس نے انہیں اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑا کیا ہے۔ اغواء اور قتل کیے گئے لوگ جنکی تعداد ہزاروں میں ہے اور ایسا بالکل نہیں لگتا کہ یہ سلسلہ بند ہونے والا ہے لیکن پھر بھی بلوچ جوش و ولولے میں اضافہ کیساتھ اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں بہت سارے بہادر اور جوانمرد لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں بلوچستان کیلئے قربان کی ہیں اور وہ تمام لوگ اپنی بے لوث قربانیوں کیلئے بلوچ قوم کے شکریے اور تعریف کے مستحق ہیں۔ میں گوادر سے تعلق رکھنے والے کامریڈ عبدالقیوم بلوچ کے بارے میں بات کروں گا، جنکی پانچویں یوم شہادت دو ہفتے قبل تھی، جو شے نذر کے ہاں 1984ء میں پیدا ہوئے۔ علاقے کے دیگر بچوں کی طرح انہوں نے بھی 1989ء میں گوادر کے جدید اسکول میں داخلہ لیا اور 2002ء میں اپنے میٹرک کا امتحان پاس کرنے تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 2004ء میں حکومت کے زیر انتظام سید ہاشمی ڈگری کالج گوادر سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے بی اے پرائیویٹ طور پر کیا۔ وہ ایک اچھے اور محنتی طالبعلم تھے جنہوں نے اچھی طرح سیکھنے کیلئے بہت محنت کی؛ وہ سیاسی ادب میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ جدید سکول میں ایک طالبعلم تھے تو دیگر بہت سے طلباء کی طرح عبد القیوم نے بھی نو سال کی نوعمری میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شمولیت اختیار کی۔ بی ایس او میں شمولیت باعث فخر سمجھی جاتی تھی۔ تاہم ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر جب انہوں نے بی ایس او میں شمولیت اختیار کی تھی تو اس میں شمولیت کرنا ایک عام رواج تھا لیکن جب انہوں نے سیاسی لٹریچر پڑھا اور سینئر ارکان کی تقاریر اور مذاکرے سنے تو وہ سیاسی طور پر بالغ ہوئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ بی ایس او کی سرگرمی محض ایک غیر سنجیدہ تفریح نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے، ہراس بلوچ کیلئے جسے اپنے مادر وطن سے محبت ہے اور جو پاکستان کی نا انصافیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔
سن 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں بی ایس او مختلف دھڑوں اور رہنماوں کی تقلید میں بٹی ہوئی تھی جو بلوچ مسئلے کے حل کیلئے مختلف پالیسیوں اور نقطہ ہائے نظر کی وکالت کیا کرتے تھے۔ اس تقسیم نے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سارے شکوک و شبہات پیدا کیے کہ آیا بی ایس او اس سے کیا حاصل کرلے گی اور کیا یہ اپنے قومی حق خود ارادیت کی راہ پر رہنے کے قابل رہے گی جو کہ اس کا بنیادی مقصد تھا۔
مشرف اور ان کے میگا پراجیکٹس کی آمد کیساتھ پالیسیوں پر اختلافات میں اضافہ ہوا چونکہ کچھ لوگ ان نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے محسوس کیا کہ یہ منصوبے ان کے مفادات کے برخلاف آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی لانے اور ان سماجی قوتوں، جو بلوچ معاشرے کی تاریخی طور پر سیکولر سماجی اقدار کی مخالفت کریں گی، کو یہاں لانے کی ایک چال سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہیں۔ 2002ء میں بحث و تکرار اور ساز باز سے تنگ آکر ڈاکٹر اللہ نذر نے تربت کے پارک ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس کی اور نظریاتی بنیادوں پر موجودہ بی ایس او کی تقسیم کا اعلان کیا اور بی ایس او- آجوئی کے قیام کا اعلان کیا۔ بلوچی میں آجوئی کا مطلب آزادی ہے اسی لئے ان کا گروہ بی ایس او- آزاد کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس بارے میں خود قیوم، وہ اس کے بانی ارکان میں سے ایک تھے، کا کہنا تھا کہ ان سمیت بی ایس او گوادر زون کے صرف 7 ارکان تھے جنہوں نے شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے بی ایس او- آزاد کو سب سے زیادہ مقبول اور موثر طلباء تنظیم بنانے میں انتھک محنت کی۔ یہ امر صرف یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ زبردست مشکلات کیخلاف اور ناموافق حالات میں جدوجہد سے آشنا تھے اور یہ بات ان کی زندگی اور موت سے اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان اپنی استحصالی پالیسیوں اور نقصان دہ میگا پراجیکٹس کیخلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت سے حواس باختہ ہو گیا تھا اور اسکی عسکری موجودگی کے اضافے سے بلوچ جدوجہد کو ڈرانے اور ناکام بنانے کیلئے 2008ء میں ’مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی کے تحت بلوچستان میں بلوچ کارکنوں کے جسمانی خاتمے کی ایک منظم پالیسی کا آغاز ہوا۔ بی ایس او- آزاد چونکہ بلوچ عوام کے حقوق کی جدوجہد میں سب سے آگے تھی اور اسی سبب فرنٹیئر کور، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کی معاونت سے چلنے والے ’ڈیتھ اسکواڈز‘ کا اہم ہدف بن گئی۔
Comrade Abdul Qayyum Baloch
بلوچ حقوق کی جدوجہد کیلئے ان کی محنت اور لگن کے باعث کامریڈ قیوم بلوچ بی ایس او- آزاد کی مرکزی کمیٹی کے رکن بنے۔ انہوں نے شادی کی اور انکے دو بچے ہوئے، ایک بیٹا حیربیار اور ایک بیٹی شفا۔ اپنے آپ کو بلوچ جدوجہد کیلئے وقف کرنے نے انہیں پاکستان کیلئے ایک ہدف بنادیا جو انہیں خاموش کرنا چاہتا تھا۔ 11 دسمبر 2010ء کو انہیں گوادر میں اپنے چچا کے گھر سے پاکستانی ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے اغواء کیا گیا۔ دو ماہ بعد 10 فروری 2011ء کو ان کی بری طرح سے مسخ شدہ لاش ہیرونک ضلع تربت سے ایک اور بلوچ سرگرم کارکن جمیل یعقوب بلوچ، جو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رکن تھے، کیساتھ پائی گئی۔ بلوچ کی جانب پاکستان کا جبر بلاامتیاز رہا ہے اور یہ جبر محض ان لوگوں تک محدود نہیں جو آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ یہ اسے ان تمام لوگوں کیخلاف بروئے کار لاتا ہے جو بلوچ عوام کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
Qayyum_Grave
ان کی شہادت کے بعد انہیں گوادر میں ذکری فرقے کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ تین بار ان کے قبر کی بے حرمتی کی گئی ہے اور وہاں بلوچستان کی آزادی کے لہراتے پرچم کو جلایا گیا۔ ان کی قبر پر ”کافر، کافر ذکری کافر“ کی تحریر درج تھی۔ بلوچستان میں ذکریوں کیخلاف کوئی تعصب نہیں ہے؛ حکومت کے حمایت یافتہ مذہبی گروہ ذکریوں کے قتل اور اس طرح کے غلیظ جرائم میں ملوث ہیں۔ حمید بلوچ، ثناءسنگت، قمبر چاکر، الیاس نذر، سلیمان عرف شیہک، رضا جہانگیر، ڈاکٹر منان بلوچ اور دیگر سینکڑوں بلوچ نوجوان جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، کامریڈ عبدالقیوم بلوچ کی طرح مادر وطن اور بلوچستان کی آزادی کیلئے محبت کی علامت ہیں۔ ان کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائینگی۔
مصنف 1970ءکی دہائی کے ابتداءسے بلوچ حقوق کی تحریک سے وابستہ ہیں
وہ @mmatalpur پر ٹویٹس کرتے ہیں
اور mmatalpur@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

воскресенье, 6 марта 2016 г.

مہرگڑھ کی تہذیب علی گڑھ کے لونڈوں کی باقیات سے ہضم نہیں ہوتی

جون ایلیا نے بھی کیا خوب کہا تھا کہ ’’پاکستان یہ سب علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی ۔ ‘‘ علی گڑھ کے لونڈوں کے وارث جوکہ اپنی تاریخ و آباؤ اجداد سے اس قدر شرمندہ ہیں کہ وہ اپنی جڑوں کو بُھلا کر اپنی شناخت کبھی عربوں، ایرانیوں، افغانوں اور نجانے کس کس میں ڈھونڈتے نظر آتے ہیں ۔ علی گڑھ کے شرارتی لونڈوں کے پوتے نواسے نومولود غیر فطری ریاست پاکستان کے نام نہاد قلمکار و تاریخ دان بن کر مہر گڑھ کی ہزاروں سالہ قدیم تہذیب وتمدن کے وارثوں (بلوچوں کوغیر مہذب لکھ کر اپنی احساس کمتری کو چُھپانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔
فرانز فینن ’ نسلی عصیبت اور ثقافت‘ کے موضوع پر خوب لکھتے ہیں کہ ’’ فرد کو منطقی طور پرکمترثابت کئے بغیراُسے غلام بنائے رکھنا ممکن نہیں‘‘
قابض قومیں ہمیشہ محکوم اقوام کو خود سے کمتر ظاہر کرنے کے لئیے مختلف کوششیں کرتی ہیں چاہے تاریخ کو توڑ مروڑ کے مسخ شدہ حالت میں کتابوں میں شائع کیا جائے۔ اخباروں کےذریعے یا پھر ٹی وی کا سہارا لے کر ڈراموں میں محکوم اقوام کو مذاق کا نشانہ بنانا کر اُنہیں غیر مہذب و نیچا دکھایا جاتا ہے اور خود کو مہذب ، اٖفضل و اعلٰی قوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
ویسے تو ایسی بے تحاشہ مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے نام نہاد دانشور بلوچ قوم و بلوچستان کی تاریخ کو مسخ کرکے پیش کررہے ہیں مگر اس کی ایک او ر واضح مثال گزشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا میں گردش کررہی ہے پنجاب بورڈ کی انٹرمیڈیٹ پارٹ ٹو کی ’’ سوشیالوجی آف پاکستان کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب میں بلوچ قوم کا تعارف نفرت انگیز طریقے سے مصنف نے کچھ یوں کیا ہے۔
8e276514-5911-4d99-b3b6-eef0470215d3
۔۱غیر مہذب لوگ جو ہمیشہ لڑائی اور مار دھاڑ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
۔۲یہ لوگ صحراؤں میں رہتے ہیں اور قافلوں کو لوٹتے ہیں ۔
قبضہ گير کا بنيادی فلسفہ اور طريقہ کار يہی ہوتا ہے کہ نفسیاتیجنگ ميں شدت لاکر محکوم قوم کے اندر يہ احساس بڑھ جائے کہ وہ جاہل ٬ بے تعليم ٬ بے ہنر٬ غير مہذب ہے جبکہ آقا جس نے قوم کو غلام رکها ہے وہ تہذيب يافتہ ٬ ترقی يافتہ اور زندگی کے ہر شعبے ميں اعلیٰ ہے ۔ یعنی غلام قوم اپنے آپ کو پيدائشی طورپر محروم تصور کرے۔
بلوچوں کی آزاد ریاست کو قبضہ کرنے کے بعد گذشتہ سرسٹھ سالوں سے مار دھاڑ تو پنجابی قابضین کرتے چلے آرہے ہیں ، گھروں پر بمبارڈمنٹ ، دیہاتوں کو صفحہِ ہستی سے مٹانا ، ہزاروں نوجوانوں کو لاپتہ کرنا، ہزاروں کو حراستی قتل کے بعد اُنکی لاشوں کو ویرانوں میں پھینکنا ۔۔۔۔ریاست کے یہ سارے مکروہ اعمال ،عالمی قوانین و انسانی اقدار سے کوسوں دُور ہیں جو کہ قابض قوم کو کسی بھی طرح مہذب نہیں کہہ سکتی۔
بلوچوں کی سر زمین بلوچستان نہایت وسیع و کشادہ ہے جس میں صحرا بھی ہیں، پہاڑی علاقے ، سمندری علاقے ، چٹیل و سر سبز و شاداب میدان بھی ہیں ، ہمیں اپنی سرزمین کے ہر حصے سے محبت ہے ۔ مصنف اسلام آباد و لاہور کی عالیشان عمارتوں میں بیٹھ کرہمارے بلوچوںبارے میں طنزیہ و حقارت بھرے لفظوں کا چناؤ کرکے فرعون بن کر ہماری زبوں حالی کو نشانہ بناتے ہوئے کہتا ہے کہ بلوچ صحراؤں میں رہتے ہیں۔
54504168-7cba-4702-900b-63db88229fee
مگر موصوف میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ یہ اقرار کرسکے کہ اُن صحراؤں اور پہاڑوں میں رہنے والوں کے قدرتی وسائل کو مصنف کی قوم قابض قومگزشتہ سرسٹھ سالوں سے لوٹتی آرہی ہے تم جس عالیشان عمارت میں بیٹھ کر صحرا والوں کا مذاق اُڑ رہے ہو وہ بھی اُنہی کے وسائل کو بے دریغ لوٹ کر ممکن ہوا ہے۔
تیس لاکھ معصوم بنگالیوں کا قتلِ عام تم نے کیا تھا بلوچوں نے نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو غیر مہذب کون ہوا؟
تین لاکھ مسلمان بنگالی لڑکیوں و عورتوں کی عصمت دری تم نے کی تھی بلوچوں نے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو غیر مہذب کون ہوا؟
افغانستان کی تین نسلیں و امن تم نے برباد کیا ہے بلوچوں نے نہیں ۔۔۔۔۔۔ تو لڑائی اور مار دھاڑ کرنے والا کون ہوا؟
بھارت میں پراکسیز کے ذریعے شرارتیں تم کررہے ہو ، بلوچ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو امن کا دشمن کون ہوا؟
سندھیوں، پشتونوں اور سرائیکیوں کے حق پر ڈاکہ تم نے ڈالا ہے ، بلوچوں نے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دوسروں کے وسائل کو لوٹنے والا کون ہوا؟
بے سہارا لڑکیوں اور عورتوں پر آوارہ کتے پنجاب میں چھوڑے جاتے ہیں ۔۔۔۔ بلوچستان میں نہیں ۔۔۔۔۔ تو غیر مہذب کون ہوا؟
لڑکیوں کے ناک پنجاب میں چوہدری کاٹتے ہیں ۔۔۔۔۔ بلوچستان میں ماؤں ، بہنوں کو عزت و احترام حاصل ہے ۔۔۔۔ تو غیر مہذب و جاہل کون ہوا؟
کمسن لڑکوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کا واقعہ پنجاب کے شہر قصور میں ہوا تھا ، بلوچستان کے شہر پنجگور میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تو انسانی اقدار سے حاری غیر مہذب کون ہوا؟
ہیرا منڈی بھی پنجاب کے سر کا جھومر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو واقعی میں بہت مہذب و غیرت مند نکلے
مذہبی انتہا پسندی کے مراکز پنجاب میں ہیں، بلوچستان میں نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو شدت پسند کون ہوا؟
اپنی شناخت سے تم شرمندہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بلوچ نہیں
غیروں میں اپنا ڈی این اے تم تلاش کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔ بلوچوں کو اپنے قومی شناخت پر فخر ہے۔
تمہاری نصف آبادی عرب، اور بقایا ایرانی، افغان و ترک بننے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ ا ور آپ چلیں ہیں بلوچوں کو تہذیب سکھانے
بیرونی قوتیں جب بھی بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہوئے ہیں تو بلوچستان کے بہادر سپوت آخری حد تک اپنی قومی تشخص کے لئیے لڑے ہیں، تُرک ، پُرتگیز، انگریز یا دیگر، بلوچوں نے سبھی سے لڑ کر اپنے وطن کی حفاظت کی ہے تو یہ بات علی گڑھ کے لونڈوں کی باقیات کو بھی سمجھ لینی چائیے کہ ہزاروں سالہ قدیم تہذیب مہرگڑھ کے وارث اپنے سرزمین کی آزادی کے لیےقابض ریاست سے آخری دم تک لڑتے رہیں گے۔