Powered By Blogger

вторник, 8 марта 2016 г.

کامریڈ عبدالقیوم بلوچ گوادری 


تحریر: میر محمد علی ٹالپر
ترجمہ: لطیف بلیدی
2016-03-08 09.14.02ستائیس مارچ 1948ء کے جبری الحاق سے لیکر اب تک بلوچ اپنے وسائل کا استحصال کرنے، اپنے سیاسی حقوق ضبط کرنے، جسمانی طور پر ختم اور خوف زدہ کرنے، اور آخر میں غیر بلوچوں کی آمد کیساتھ انہیں ایک اقلیت میں تبدیل کرنے کی پاکستانی ریاست کی کوششوں کیخلاف مزاحمت کرتے آ رہے ہیں۔ بلوچ مزاحمت نے اب تک ان شیطانی منصوبوں کو ناکام بنایا ہے تاہم اس کیلئے بلوچوں کو اپنی زندگیوں کی ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مزاحمت میں کوئی وقفہ یا کمی نہیں آئی ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس مزاحمت کی شدت اور اس کے علاقے بدلتے رہے ہیں؛ ابتدائی طور پر یہ مرکزی بلوچستان تک محدود تھی پھر یہ مکران کے ساحلی علاقوں میں اپنے اثرات کیساتھ مری اور مینگل علاقوں میں منتقل ہوئی۔ اسوقت مزاحمت سب سے زیادہ مکران کے ساحلی اور ملحقہ علاقوں میں فعال ہونے کے ساتھ ساتھ پورے بلوچستان میں پھیلی ہوئی ہے۔
مکران کو اس تعلیم نے فائدہ پہنچایا ہے جس کے حصول کیلئے وہاں کے لوگ کوشش کرتے آئے ہیں اور یہ سیاسی شعور اسی تعلیم کی دین ہے۔ مکران اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لوگوں کو بے انتہا مصائب جھیلنے پڑے ہیں جو ان بڑے منصوبوں کے تناظر میں سفاکانہ جبر ا ور ’غلیظ جنگ‘ کی صورت میں ان پر نازل ہوئی ہیں جو حتیٰ کہ ارجنٹینا، برازیل اور چلی میں اسی طرح کے جبر کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے بھی باعث شرم ہیں۔ صریح سیاسی اور اقتصادی جبر کا شتر بے مہار جو پاکستان نے بڑے منصوبوں اور ترقی کے نام پر چھوڑا ہوا ہے اس نے انہیں اپنے حقوق کیلئے اٹھ کھڑا کیا ہے۔ اغواء اور قتل کیے گئے لوگ جنکی تعداد ہزاروں میں ہے اور ایسا بالکل نہیں لگتا کہ یہ سلسلہ بند ہونے والا ہے لیکن پھر بھی بلوچ جوش و ولولے میں اضافہ کیساتھ اپنی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہاں بہت سارے بہادر اور جوانمرد لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانیں بلوچستان کیلئے قربان کی ہیں اور وہ تمام لوگ اپنی بے لوث قربانیوں کیلئے بلوچ قوم کے شکریے اور تعریف کے مستحق ہیں۔ میں گوادر سے تعلق رکھنے والے کامریڈ عبدالقیوم بلوچ کے بارے میں بات کروں گا، جنکی پانچویں یوم شہادت دو ہفتے قبل تھی، جو شے نذر کے ہاں 1984ء میں پیدا ہوئے۔ علاقے کے دیگر بچوں کی طرح انہوں نے بھی 1989ء میں گوادر کے جدید اسکول میں داخلہ لیا اور 2002ء میں اپنے میٹرک کا امتحان پاس کرنے تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 2004ء میں حکومت کے زیر انتظام سید ہاشمی ڈگری کالج گوادر سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد 2008ء میں انہوں نے بی اے پرائیویٹ طور پر کیا۔ وہ ایک اچھے اور محنتی طالبعلم تھے جنہوں نے اچھی طرح سیکھنے کیلئے بہت محنت کی؛ وہ سیاسی ادب میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وہ جدید سکول میں ایک طالبعلم تھے تو دیگر بہت سے طلباء کی طرح عبد القیوم نے بھی نو سال کی نوعمری میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) میں شمولیت اختیار کی۔ بی ایس او میں شمولیت باعث فخر سمجھی جاتی تھی۔ تاہم ان کے بھائی کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر جب انہوں نے بی ایس او میں شمولیت اختیار کی تھی تو اس میں شمولیت کرنا ایک عام رواج تھا لیکن جب انہوں نے سیاسی لٹریچر پڑھا اور سینئر ارکان کی تقاریر اور مذاکرے سنے تو وہ سیاسی طور پر بالغ ہوئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ بی ایس او کی سرگرمی محض ایک غیر سنجیدہ تفریح نہیں بلکہ ایک قومی فریضہ ہے، ہراس بلوچ کیلئے جسے اپنے مادر وطن سے محبت ہے اور جو پاکستان کی نا انصافیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔
سن 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں بی ایس او مختلف دھڑوں اور رہنماوں کی تقلید میں بٹی ہوئی تھی جو بلوچ مسئلے کے حل کیلئے مختلف پالیسیوں اور نقطہ ہائے نظر کی وکالت کیا کرتے تھے۔ اس تقسیم نے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سارے شکوک و شبہات پیدا کیے کہ آیا بی ایس او اس سے کیا حاصل کرلے گی اور کیا یہ اپنے قومی حق خود ارادیت کی راہ پر رہنے کے قابل رہے گی جو کہ اس کا بنیادی مقصد تھا۔
مشرف اور ان کے میگا پراجیکٹس کی آمد کیساتھ پالیسیوں پر اختلافات میں اضافہ ہوا چونکہ کچھ لوگ ان نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بننا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر اللہ نذر نے محسوس کیا کہ یہ منصوبے ان کے مفادات کے برخلاف آبادیاتی خصوصیات میں تبدیلی لانے اور ان سماجی قوتوں، جو بلوچ معاشرے کی تاریخی طور پر سیکولر سماجی اقدار کی مخالفت کریں گی، کو یہاں لانے کی ایک چال سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں ہیں۔ 2002ء میں بحث و تکرار اور ساز باز سے تنگ آکر ڈاکٹر اللہ نذر نے تربت کے پارک ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس کی اور نظریاتی بنیادوں پر موجودہ بی ایس او کی تقسیم کا اعلان کیا اور بی ایس او- آجوئی کے قیام کا اعلان کیا۔ بلوچی میں آجوئی کا مطلب آزادی ہے اسی لئے ان کا گروہ بی ایس او- آزاد کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس بارے میں خود قیوم، وہ اس کے بانی ارکان میں سے ایک تھے، کا کہنا تھا کہ ان سمیت بی ایس او گوادر زون کے صرف 7 ارکان تھے جنہوں نے شمولیت اختیار کی تھی۔ انہوں نے بی ایس او- آزاد کو سب سے زیادہ مقبول اور موثر طلباء تنظیم بنانے میں انتھک محنت کی۔ یہ امر صرف یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ زبردست مشکلات کیخلاف اور ناموافق حالات میں جدوجہد سے آشنا تھے اور یہ بات ان کی زندگی اور موت سے اچھی طرح ثابت ہوتی ہے۔
پاکستان اپنی استحصالی پالیسیوں اور نقصان دہ میگا پراجیکٹس کیخلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت سے حواس باختہ ہو گیا تھا اور اسکی عسکری موجودگی کے اضافے سے بلوچ جدوجہد کو ڈرانے اور ناکام بنانے کیلئے 2008ء میں ’مارو اور پھینک دو‘ کی پالیسی کے تحت بلوچستان میں بلوچ کارکنوں کے جسمانی خاتمے کی ایک منظم پالیسی کا آغاز ہوا۔ بی ایس او- آزاد چونکہ بلوچ عوام کے حقوق کی جدوجہد میں سب سے آگے تھی اور اسی سبب فرنٹیئر کور، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ان کی معاونت سے چلنے والے ’ڈیتھ اسکواڈز‘ کا اہم ہدف بن گئی۔
Comrade Abdul Qayyum Baloch
بلوچ حقوق کی جدوجہد کیلئے ان کی محنت اور لگن کے باعث کامریڈ قیوم بلوچ بی ایس او- آزاد کی مرکزی کمیٹی کے رکن بنے۔ انہوں نے شادی کی اور انکے دو بچے ہوئے، ایک بیٹا حیربیار اور ایک بیٹی شفا۔ اپنے آپ کو بلوچ جدوجہد کیلئے وقف کرنے نے انہیں پاکستان کیلئے ایک ہدف بنادیا جو انہیں خاموش کرنا چاہتا تھا۔ 11 دسمبر 2010ء کو انہیں گوادر میں اپنے چچا کے گھر سے پاکستانی ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے اغواء کیا گیا۔ دو ماہ بعد 10 فروری 2011ء کو ان کی بری طرح سے مسخ شدہ لاش ہیرونک ضلع تربت سے ایک اور بلوچ سرگرم کارکن جمیل یعقوب بلوچ، جو بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے رکن تھے، کیساتھ پائی گئی۔ بلوچ کی جانب پاکستان کا جبر بلاامتیاز رہا ہے اور یہ جبر محض ان لوگوں تک محدود نہیں جو آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں بلکہ یہ اسے ان تمام لوگوں کیخلاف بروئے کار لاتا ہے جو بلوچ عوام کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔
Qayyum_Grave
ان کی شہادت کے بعد انہیں گوادر میں ذکری فرقے کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ تین بار ان کے قبر کی بے حرمتی کی گئی ہے اور وہاں بلوچستان کی آزادی کے لہراتے پرچم کو جلایا گیا۔ ان کی قبر پر ”کافر، کافر ذکری کافر“ کی تحریر درج تھی۔ بلوچستان میں ذکریوں کیخلاف کوئی تعصب نہیں ہے؛ حکومت کے حمایت یافتہ مذہبی گروہ ذکریوں کے قتل اور اس طرح کے غلیظ جرائم میں ملوث ہیں۔ حمید بلوچ، ثناءسنگت، قمبر چاکر، الیاس نذر، سلیمان عرف شیہک، رضا جہانگیر، ڈاکٹر منان بلوچ اور دیگر سینکڑوں بلوچ نوجوان جنہوں نے اپنی جانیں قربان کیں، کامریڈ عبدالقیوم بلوچ کی طرح مادر وطن اور بلوچستان کی آزادی کیلئے محبت کی علامت ہیں۔ ان کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائینگی۔
مصنف 1970ءکی دہائی کے ابتداءسے بلوچ حقوق کی تحریک سے وابستہ ہیں
وہ @mmatalpur پر ٹویٹس کرتے ہیں
اور mmatalpur@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے

Комментариев нет:

Отправить комментарий