Powered By Blogger

суббота, 23 сентября 2017 г.


پاکستان داعش کی مدد کیوں کررہی ہے ؟ .....اسماعیل بلوچ


پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے نہ چاہتے ہوئے بھی ،اْس کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ کوئٹہ جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں !! اگر سرتاج عزیز کے بیان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضع طور پر عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے عالمی دہشتگردی کا مرکز و دہشتگردوں کا محفوظ پناہ گاہ رہا ہے اور ہمیشہ سے پاکستان اس پالیسی پر گامزن ہے کہ عالمی دہشت گردی کی کفالت کی جائے اس لیے پاکستانی وزیر خارجہ کے نگاہ میں ایسے ’’چھوٹے موٹے واقعات‘‘کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان داعش کی مدد کیوں کررہی ہے ؟
اس سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے یا ہو رہا ہے ؟
اور داعش کے لیے پاکستان میں متحرک رہنا یا اپنے اڈے قائم کرنا کیوں اہم ہے ؟
تو میری ناقص رائے کے مطابق پاکستان میں اپنے اڈے قائم کرنا داعش کے لیے اس لیے اہم ہے کہ عراق اور سوریا میں داعش کوبْری طرح سے شکست ہوچکا ہے، اور اس کی پرانی ساکھ بے حد متاثر ہوئی ہے اس لیے داعش اب دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے لیے نئے محفوظ مقامات اور وہاں نئی پناہ گائیں بنانے کی تلاش میں سر گرداں ہے اور داعش وہاں اپنی نئی پناگاہیں بناکر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے جس کی تازہ مثال افغانستان میں تورہ بورہ کے مقام پر تاریخی زیر زمین غاروں پر قبضہ اور امریکہ کی داعش کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی بم کا گرانا ہے اور مزید حال ہی میں طالبان اور داعش کی پاکستان کی مدد سے افغانستان میں مفاہمت ( واضع رہے کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے)افغان ضلع سرپل پر قبضہ ہے ۔دوئم پاکستان داعش کے لیے اس لیے ایک بہترین ملک ہے کہ پاکستان میں داعش کے لیے تمام سہولیات دستیاب ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی قومی تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بطور پراکسی داعش کی ضرورت ہے اور داعش بھی پاکستان کی ہر شے کو استعمال کرکے اپنے اہداف تک بہ آسانی پہنچ سکتی ہے ، داعش کے دہشتگرد پاکستانی پاسپورٹ سے کسی بھی ملک میں بہ آسانی سفر کر سکتے ہیں ،پاکستانی الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنے پراپیگنڈہ اور برتی مہم کے لیے آزادانہ استعمال کرسکتی ہے ،یہاں آزادانہ طور پر اپنے جنگی و تربیتی کیمپس قائم کر سکتی ہے ۔گزشتہ سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ پنجاب سے بڑی تعداد میں خواتین نے داعش میں شامل ہوکر داعش کی شدت پسندوں سے شادی کی ہے اور اْن عورتوں کا کہنا تھا کہ ہم ’’مجاہدین ‘‘ کی محض جنسی خواہشات پوری کرکے ’’جہاد ‘‘میں حصہ ڑال رہے ہیں۔
یہ تو تھے داعش کے فائدے مگر پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ داعش کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا ؟
جب پاکستان نے اپنی زمین سرکاری مشینری اپنے لوگ اپنے محفوظ پناگاہ داعش کے لیے وقف کیے ہیں۔ تو اس کے عوض پاکستان داعش سے لازماً اچھی خاصی رقوم وصول کرتی ہے اور داعش کے ذریعے بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش تو یقیناً کررہا ہے ۔
بلوچستان میں داعش کے لیے عسکری کیمپ اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو داعش میں بھرتی کرنا بلوچستان میں بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنا اور پاکستان کی سب سے اہم مقصد عالمی دنیا میں بلوچ مسئلے کو مذہبی و فرقہ وارانہ رنگ دیکر اصل مسئلے کودباکر غلط فہمیاں پیدا کرنا اور دنیا کو یہ باور کرنے کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں کوئی قومی آزادی کی تحریک نہیں چل رہی ہے بلکہ یہ تو محض ایک فرقہ وارانہ مسئلہ ہے کہ اس کے پیچھے بہت سے ملک سی پیک کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔
داعش جیسے دنیا کی امیر ترین دہشتگرد تنظیم سے پیسہ وصول کرنا اور پھر عالمی دنیا سے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے بھی ڈالر اور فوجی امداد حاصل کرنے کی کوشش اور سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ امریکہ اور اْن ممالک کے دباؤ کو اپنے اوپرکم کرنا اور اْن کو یہ باور کرانا کہ پاکستان کسی اسلامی شددت پسند تنظیم کی مدد نہیں کررہی ہے بلکہ وہ خود دہشتگردی کا شکار ہے۔
صاف ظاہر ہے ایسے بڑے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے اپنے لوگوں اور فوجیوں کے اوپر اور اْن مقامات پر حملہ کرانا کہ جو پاکستان کے دفاعی اساس ہوں جس سے دنیا باور کرسکے کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے۔جس سے دنیا پاکستان کی ہر طرح کی مدد کرے اور اس کے بعد پاکستان کا بلوچوں کے خلاف اور ہر اس قوم کے خلاف داعش کو استعمال کرنے کا منصوبہ ہے جو پاکستان میں آزادی یا حقوق کی جدوجہد کررہے ہیں یا پاکستان کے غلیظ حرکتوں پر تنقید کررہے ہیں۔
داعش کو ہندوستان کے خلاف بھی بہ آسانی استعمال کیا جاسکتاہے افغانستان کے خلاف تو داعش اور طالبان استعمال ہو ہی رہے ہیں۔ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ اکثر ایسے غلیظ پالیسیوں کے نتائج برعکس ہوتے ہیں ،جس طرح ترکی نے کرد تحریک کے خلاف داعش کو استعمال کیا۔داعش کو آزادانہ نقل و عمل کی اجازت دی اور داعش کے زخمیوں کو اپنے ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں فراہم کیں اور داعش سے بلیک مارکیٹ میں کئی ہزار بیرل تیل سستے دام خریدا ۔اس سے ترکی عالمی دنیا میں تنقید کا نشانہ بھی بنا اور ہر فورم میں ترکی کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قلیل عرصے کے بعد یہی داعش ترکی ہی پر حملہ آور ہوتا ہے ۔
اسی طرح پاکستان کی داعش پالیسی بھی پاکستان کے لیے ایک دن درد سر بن جائیگی۔ پاکستان یہ بھول چکاہے کہ امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک اتنے بے وقوف نہیں ہیں جو اس طرح کے غلیظ پالیسیوں کو پہچاننے سے قاصر ہونگے اور اپنی امداد اور رقوم جاری کرکے پاکستان پر بھروسہ کرینگے اور نہ ہی ایسے ہتھکڑوں سے پاکستان بلوچ تحریک کو ختم کرسکے گی ۔
آج پاکستان کی وجود نہ صرف بلوچ ، پشتون اور سندھیوں کے وجود کے لیے خطرہ ہے بلکے پاکستان پورے دنیا کے لیے ایک خطرناک دہشتگرد ریاست بن چکا ہے۔
بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے 2016 میں اپنے ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے واضع کیا تھا کہ کس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بلوچستان کے علاقوں میں ذخیرہ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ خضدار کے علاقے ساسول میں پاکستانی افواج علاقہ مکینوں کو وہاں سے نکال رہا ہے، تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو ان علاقوں میں محفوظ رکھ سکے۔
اور گذشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپناایک محفوظ اور مضبوط زیرزمین اسلحہ خانہ بلوچستان میں تعمیر کرچکا ہے جس کا مقصد بیلسٹک میزائلز اور کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا ہے ۔اور غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں القاعدہ لشکر جنگوی طالبان شفیق مینگل جیسے اسلامی شددت پسندوں کے محفوظ پناگاہیں جو پاکستانی فوج اْس کی آئی ایس آئی اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثنا زہری کی سربراہی میں قائم ہیں اور حرکت میں ہیں وہاں اسی ہی علاقے خضدار میں پاکستان نے اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے اور جوہری وکیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا ہوا ہے، اگر یہ جوہری اور کیمیائی ہتھیار داعش ، القائدہ کے ہاتھ آئیں تو کس طرح سے یہ دنیا میں تبائی مچاسکتے ہیں دنیا کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ۔

четверг, 21 сентября 2017 г.


یوسف عزیز مگسی کا انقلابی ورثہ

۱۔ ریاست قلات:
درحقیقت یہی مرکزی بلوچستان ہے جہاں دارلسلطنت قلات (بلوچی)تھا۔ اس ریاست میں آئینی طور مندرجہ ذیل علاقہ جات تھے۔ قلات ،خاران، مکران،نوشکی، چاغی، مری،بگٹی وکھیتران قبائلی علاقہ جات، نیابت کوئٹہ و بولان اور کوہ سیلمان میں واقع بلوچ قبائلی علاقے اس ریاست کا حکمران خان قلات ہوا کرتا تھا۔
۲۔ برطانوی بلوچستان:
یہ چمن، ژوب، لورالائی ، دُکی اور دیگر پشتون قبائل علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ اضلاع برطانیہ نے معاہدہ گنڈمک کے تحت افغان حکمرانوں سے حاصل کیے اور یوں یہ اضلاع برطانوی ہند کا آئینی حصہ بن گئے(یاد رہے کہ ریاست قلات آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھی اوائل بیسویں صدی میں اصطلاح’’بلوچستان‘‘ کا اطلاق صرف برطانوی ہند کے صوبہ ’’برطانوی بلوچستان‘‘ پر ہوتا تھا۔ اس برطانوی بلوچستان میں متعدد بلوچ علاقوں کو ریاست قلات سے معاہدات کے تحت اجارہ پر حاصل کرکے برطانوی بلوچستان کی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان علاقوں میں بلوچ قبائل علاقہ جات ، کوئٹہ، نوشکی،چاغی، بولان اور نصیر آباد کے علاقے شمار ہوتے تھے مگر آئینی طو ر یہ قلات کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ یوں برطانوی سیاسی و انتطامی اصطلاح میں’’بلوچستان‘‘ سے صرف برطانوی بلوچستان مراد لیا جاتا تھا۔ جغرافیائی و معاشی و اقتصادی طور پر یہ دونوں خطے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اس لئے یہاں دخل سے قبل آئین قلات کے تحت یہاں کا آئینی و سیاسی ڈھانچہ وفاق اور کانفیڈریسی کے اصولوں پر قائم تھا۔ یہاں کی اکثر آبادی قبائل ڈھانچہ پر استوار تھی۔ تبیلہ یا تمن(ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ۱۰ ہزار کے ہیں یعنی۱۰ پر مشتمل افراد کا قبیلہ لیکن یہ اصطلاح بعد میں۱۰ ہزار سے زائد یا کم قبیلہ پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے) اور ان کا راہنما(سردار یا تمندار) قومی اور ملکی امور میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔
سردار کا انتخاب قبائل کے جرگہ یا مجلس میں کیا جاتا تھا لیکن برطانوی عمل دخل میں سردار کا عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کو زمینیں عطا کرکے برطانوی عمل وخل میں سردار کو عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کا جاگیریں عطا کرکے برطانوی عہد کے جاگیرداروں کے برابر مرتبہ دیا گیا۔ یوں بلوچ قوم کے صدیوں کی جمہوری اقدار پر چھاپہ مارا گیا۔ جس کے باعث بلوچ تمنات و قبائل نے برطانوی استعماراور سرداریت کے خلاف مسلح جدوجہد کی روایت قائم کی جس کا مقصود آزادی اور جمہوری انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔ آزادی کی مسلح جدوجہد کو استعمار نے سازشوں، اسلحہ کی برتری، قبائلی تضادات اور معاشی پسماندگی کی بنا پر ناکام بنا دیا تھا(جنگ عظیم اوّل میں اکثر و بیشتر قبائل نے خلافت عثمانیہ کی حمایت اور اپنی مکمل آزادی کے حصول کے لئے مسلح جہاد میں شرکت کی تھی لیکن یہ جدوجہد بھی معاشی، سیاسی و دفاعی عوامل کے سازگار نہ ہونے کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی تھی۔ اس جدوجہد میں لاکھوں بلوچ شہید ہوئے یا قید کی سختیوں سے گزرے۔ ہزاروں افراد نے سویت یونین، عرب خلیج کے علاقوں، برطانوی ہند اور مشرقی افریقا کی طرف ہجرت کی تھی جس کا بلوچستان کی سیاسی و معاشی زندگی پر منفی اثر پڑا۔
ان حالات میں بلوچستان کے چند نوجوانوں نے ایک خفیہ تنظیم کا آغاز ۱۹۲۰ء میں کیا تھا۔ یہ تنظیم۱۹۲۹ء میں ایک سیاسی جماعت کی شکل میں ’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان‘‘ کے نام پر ابھری جس کی قیادت کے لئے میر محمد یوسف علی خان عزیز مگسی کا انتخاب عمل میں آیا۔ میریوسف علی خان عزیزؔ مگسی کی قیادت کا دور مئی ۱۹۳۵ ء تک محیط ہے جب وہ زلزلہ میں۳۰/۳۱ مئی کی شب شہادت سے ہمکنار ہو کر کوئٹہ میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
یوسف عزیزؔ کی شہادت نے بلوچستان اور عالم اسلام کو ایک ایسے فرزند سے محروم کر دیا جو مفکر بھی تھا اور مردمیدان(مجاہد)بھی۔ آج بھی اہل بلوچستان ان کی وفات پر نوحہ خواں ہیں۔ ان کے بے لوث خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے کردار و افکار پر عمل پیرا ہوں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ڈھونڈیں:
۱۔ محمد یوسف علی خان عزیزؔ کون تھے؟
۲۔ ان کے عملی زندگی کیسی تھی؟
۳۔ان کے افکار و نظریات کیا تھے؟
میر محمد یوسف علی خان بمقام جھل مگسی جنوری۱۹۰۸ء میں مگسی قبیلہ کے سردار و تمندار نواب قیصر خان کے ہاں متولد ہوئے(مگسی تُمن لدشار بلوچ قبیلہ کی شاخ ہے) محمد یوسف علی خان کی والدہ زہری قبیلہ کے سردار رسول بخش زرکزئی کی دختر نیک اختر تھیں۔زہری قبیلہ نے جنگ عظیم اوّل میں دیگر بلوچ قبائل کی طرح خلافت عثمانیہ کی حمایت میں مسلح جدوجہد میں حصہ لیا۔(سچ تو یہ ہے کہ بلوچ قبائل کی مسلح جدوجہد نے برطانوی ہند کی افواج کو عراق میں فوجی کاروائیوں کو غیر مؤثر بنا دیا تھا جس کا عثمانی افواج نے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ہزاروں مسلح سپاہیوں مع برطانوی جنرل کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا) جھالاوان کے ان مجاہدین کی نواب قیصر خان مگسی نے خفیہ مدد کی تھی۔
جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے اس جرم کی پاداش میں نواب قیصر خان مگسی کوبمعہ اہل خاندان برطانوی ہند کے شہر ملتان میں نظر بند کر دیا تھا۔ یوسف علی خان کی اوّلین علمی تربیت جھل مگسی میں پرائیوٹ طور پر کی گئی تھی۔ عربی و فارسی کے اساتذہ نے نہ صرف زبان و ادب بلکہ مسلم تاریخ وتمدن سے بھی ان کو آگاہی بخشی۔ انہی اساتذہ سے انہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ قیام ملتان میں نوابزادہ محمد یوسف علی خان نے برطانوی ہند کی اور سیاسی فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی سامراج اور اس کی حکمت عملی کا مطالعہ کیا تھا نیزآپ نے برطانوی ہند کی تحریکات عدم تعاون، خلافت تحریک کے محرکات کے ساتھ ساتھ، مولانا ابوالکلام آزادو غیرہ کے افکار کا گہرامطالعہ کیا تھا جس کے اثرات نوجوان عزیز مگسیؔ کی تحرویروں اور تعلیمات میں عیاں ہیں۔
خلافت عثمانیہ کی تباہی و بربادی اور مسلح جہاد کی عارضی ناکامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست قلات اور اس سے منسلک علاقوں میں برطانوی استعمار نے ظلم و جبر کو تیز تر کر دیا تھا تاکہ یہاں آزادی کے تصور کا گزر بھی نہ ہونے پائے۔ اسی جبر و بربریت کے خلاف نوجوان مجاہد میر محمد یوسف علی خان نے آواز اٹھائی اور اس کا آغاز ایک اخباری مضمون بعنوان’’فریاد بلوچستان‘‘ میں کیا۔ یہ مضمون لاہور کے اخبار ’’مساوات‘‘ میں۱۹۲۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یوسف عزیزؔ نے لکھا تھا:’’آج ساری دنیا شاہراہ ترقی پر گامزن ہے مگر بلوچ ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ جاگناناممکن معلوم ہوتا ہے۔ بلوچوں سے ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ خدا کے لئے ساری دنیا کو ہنسنے کو موقع نہ دیجیے۔ یہی وقت ہے اگر اسلاف کو خون آپ میں اب تک موجزن ہے تو اٹھیے جس طرح آپ کے اسلاف اٹھا کرتے تھے۔ سیاسی غلامی کی زنجیروں کو ایک نعرہ حریت لگا کر توڑ ڈالیے اور قوموں کے لئے مشعل راہ بن جائیے۔ باہمی حسد ورقابت اور ان لغویات کی بیخ کئی کیجیئے اور صرف آتش رقابت سے اپنے سینوں کو مشتعل کیجئے کہ جنگ آزادی میں تم سے زیادہ کوئی بہادر نہ نکلے اور تم سے پہلے کوئی جام شہادت نوش نہ کرے۔ خدا کے لئے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹائیے اور دیکھے تاریخ کیا کہتی ہے۔ مادروطن کی قربانیوں سے سبق حاصل کیجئے۔‘‘
میر یوسف علی کے اس آتش بیان و انقلابی پیام نے جہاں بلوچوں میں ایک نئی روح پھونکی وہاں استعمار اور اس کے گماشتوں کو خوف اور انتقام و جبر کی طرف مائل کر دیا تھا۔ برطانوی ایجنٹ برائے گورنر جنرل و ریز یڈنٹ (AGG & Resident)نے وزیراعظم قلات(سرشمس شاہ جن کا تعلق گجرات (پنجاب) سے تھا) کو اسی نئی انقلابی صورت حال کو بروقت کچلنے کا حکم دیا۔ یوں استعمار نواز قبائلی سرداروں کی ملی بھگت سے نوابزادہ محمد یوسف علی خان پر’’تخریب کاری‘‘اور بغاوت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس مضمون کو پڑھنا اور بلوچستان میں تقسیم کرنا خلاف قانون قرار پایا۔ نوابزادہ مگسی کو ایک سال کی قید اور دس ہزار نو سو روپے جرمانہ کی سزا دی گئی۔قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سرداری و سرکاری جرگہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ یوسف علی خان نے غلط، خلل انداز اور فتنہ انگیز نظریات پھیلائے ہیں اور ان جرائم کی تمام تر ذمہ داری اس کے جدید نظریات اور تعلیمات پر عائد ہوتی ہے۔ بہر حال یوسف علی نے اس سزا کا کچھ حصہ جیل اور کچھ حصہ نظر بندی کی صورت میں بمقام گٹ زہری اپنے ماموں سردار میر رسول بخش زرکزئی(زہری) کی نگرانی میں گزارا۔
اس مختصرسے مضمون پر اتنی بھاری ظالمانہ سزا سے ان مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جو بلوچ قومی تحریک کے اولین راہنما کو درپیش تھے۔ انہی ایام میں زیر زمین سامراج دشمن تحریک’’ینگ بلوچ پارٹی‘‘ کے راہنما میر عبدالعزیز کردنے آپ سے جیل میں رابطہ قائم کیا اور گزارش کی کہ آپ بلوچ قومی تحریک کی قیادت کریں اور اس کی راہِ عمل متعین کریں جس پر بلوچ قومی تحریک عمل پیرا ہوا۔ آپ نے آزادی کے ان متوالوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے ایک متحدہ تنظیم اور ایک نصب العین پر یکجا ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور یوں بلوچستان کی تاریخ اوّلین سیاسی جماعت’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آپ کو صدر منتخب کیا گیا۔
آپ بلوچی ، اردو اور فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ انقلابی شاعروں کی مانند آپ نے شاعری کو اپنے استعمار دشمن نظریات، آزادی وطن، سماجی ومعاشی انصاف، نمائندہ حکومت اور اسلام کے نظریہ عدل کے پرچار کا ذریعہ بنایا تھا۔ اتحاد پارٹی کے جنرل سیکریٹری میرعبدالعزیز کرد اور نائب صدر نوابزادہ عبدالرحمن خان بگٹی منتخب ہوئے۔ نوابزادہ بگٹی، یوسف عزیز کے قومی و اسلامی نظریات سے بے حد متاثر تھے جس کی پاداش میں ان کو اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد نواب محراب خان بگٹی نے ان کو اپنی جانشینی سے معزول کر دیا ۔ انقلابی نظریات کی بدولت ان کو بمقام رانچی(انڈیا) اور جیکب آباد میں قیدو نظربند کیا گیا۔ ان کی بجائے ان کے چھوٹے بھائی نواب محمد اکبر خان کو بگٹی قبیلہ کا سردار مقرر کیا گیا تھا۔ اتحاد پارٹی نے اپنے اولین جلسہ بمقام کوئٹہ۱۹۳۱ء میں مندرجہ ذیل لائحہ عمل کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
۱۔ سرداری نظام کا خاتمہ
۲۔ بلوچستان کے مختلف حصوں کا اتحاد اور آئینی و جمہوری نظام کا اجراء
۳۔ بلوچستان میں تعلیم کا پھیلاؤ
۴۔ جمہوری و آئینی ذرائع کے حصول میں ناکامی کی صورت میں مسلح جدوجہد کی تیاری
۵۔ غیر استحصالی نظریات پر مبنی اسلامی معاشرہ کا قیام
ان مقاصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں نے برطانوی بلوچستان میں محدود قانونی رعایتوں اور ریاست قلات کے قدیم دستور میں دی گئی آئینی رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ آپ کی قیادت میں اتحاد پارٹی نے جیکب آباد(اصل نام خان گڑھ) میں اور حیدر آباد (سندھ) میں۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۳ء میں’’بلوچ و بلوچستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا تھا۔ ان کانفرسوں میں بلوچستان اور ریاست قلات سے مختلف قومیتوں اور برطانوی ہند کے صوبہ جات(سندھ۔پنجاب وسرحد) کے بلوچ نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ ان اجلاسوں میں مندرجہ ذیل قرار داد منظور کی گئیں:
۱۔ بلوچستان کے متعدد حصوں کا اتحاد اور مکمل سیاسی آزادی کا مطالبہ
۲۔ سرداریت کا خاتمہ
۳۔ عورتوں کو اسلامی طریقہ سے میراث میں حصہ
۴۔ ڈیرہ جات و جیکب آباد کی بلوچستان میں شمولیت
۵۔ برطانوی بلوچستان کو صوبائی درجہ اور اصلاحات دیے جانے کا مطالبہ
۶۔ بلوچستان میں مفت تعلیم کا اجراء۔نئے سکولوں او ر کالج کے قیام کا مطالعہ
۷۔ ذرائع آمدورفت کی ترقی
۸۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام
۹۔ قبائلی رسومات مثلا ولوّر اور لب پرپابندی اور کالا کالی کا خاتمہ
اس آخری مطالبہ سے مقصود عورتوں کے وقار کی بحالی اور ان کو اسلامی قوانین کے تحت حقوق و برابری دلانا مقصود تھا۔
ان قرار دادوں نے بلوچ شرکاء کانفرنس کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا یوں دو واضع گروہ یا مکاتیب فکر سامنے آئے۔ایک گروہ جو بلوچ سرداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھا مذکورہ بالا قرار دادوں کو حکومت وقت سے محاذ آرائی سمجھتا تھا۔ اس لئے برطانوی استعمار اور اس کی انتظامیہ سے ٹکراؤ کی بجائے وفاداری اور مراعات میں یقین رکھتا تھا۔ دوسرا گروہ جو جدید نظریات کے زیر اثر تھا وہ سامراج اور سامراج دوست عناصر سے مراعات (بھیک) مانگنے کی بجائے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس دوسرے گروہ کی قیادت یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔ ان کو خفیہ طور پر میر احمد یار خان(بعدازاں خانِ قلات) کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
مکمل آزادی کے حصول کی خاطر یوسف عزیز کی قیادت میں پارٹی نے سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انہی کے ایما پر رئیسانی ، رند، بگٹی قبائل میں سرداریت کے خلاف پر امن تحریکوں اور ہجرت کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس محاذ کو مزید طاقتور بنانے کے لئے نوابزادہ یوسف عزیز مگسی نے محمد اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان ایڈیٹر، زمیندار، لاہور سے ملاقاتیں کیں اور ان کی امداد کے طالب ہوئے تھے ۔ آپ نے برطانوی ہند کی تنظیم’’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘‘ انجمن حمایت اسلام لاہور ، جامعہ ،دہلی سے بھی فکری رابطے استوار کیے۔ نیز آپ نے بلوچستان کے قومی پریس کی ابتدااپنے مالی وسائل سے کی۔ متعدد نوجوان(جو مدارس میں استاد ومعلم رہے تھے)نے اخبارات، البلوچ، بلوچستان اور بلوچستان جدید، الخیف وغیرہ کی ادارت سنبھال کر علمی و فکری جدوجہدکی بنیادیں رکھیں۔ یہ اخبارات یکے بعد دیگرے ضبط ہوتے رہے اور اس کے عملہ کو خوف و ہراس، مالی پریشانیوں اور سزا و عقوبت سے بھی گزرنا پڑا لیکن یوسف عزیز اور ان کے رفقاء سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ یوسف عزیز نے متعدد نوجوانوں کو اپنے مکاتیب کے ذریعہ اس علمی، فکری اور عملی جدوجہد میں شرکت کی دعوت دی۔ برطانوی ہند کے اخبارات میں مضامین کا ایک سلسلہ بھی جاری رکھا ان کے مکاتیب اور مضامین میں اسلامی نظام عدل، عورتوں کے حقوق اور اشتراکیت وغیرہ جیسے موضوعات ہوتے تھے۔
ان اخبارات کا داخلہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر ممنوع ہی رہا کرتا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو محکمہ خفیہ اداروں کے اہلکار خوف و مصائب کا نشانہ بناتے اور نوبت جیلوں تک بھی جا پہنچتی۔ درحقیقت اس صورت حال کا اندازہ برطانوی ہند کے سیاسی کارکن نہیں کر سکتے تھے جہاں آئینی اصلاحات کے نتیجہ میں لولی و لنگڑی جمہوریت کی طرف پیش رفت جاری رہتی تھی قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ بلوچ کانفرنس(۱۹۳۲ء) منعقدہ جیکب آباد کے لئے نواب محراب خان تمندار بگٹی قبیلہ نے گرانقدر چندہ یوسف عزیز کو دیا تھا لیکن جب بگٹی قبیلہ کے ایک وفد نے نواب کے مظالم کے خلاف یوسف عزیز کو اپنی فریاد پہنچائی تو یوسف عزیز نے سردارانہ تعلقات کی پرواہ کیے بغیر مظلوم بگٹی قبائلیوں کی عملی حمایت کا اعلان کیا اور نواب محراب خان بگٹی کو ان کا عطا کردہ عطیہ بھی واپس کر دیا اور کہا کہ نواب بگٹی کی طرف سے یہ چندہ درحقیقت رشوت ہے تاکہ میں اور میری تنظیم مظلوم بگٹیوں کی مدد نہ کر پائیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یوسف عزیزؔ نے بلوچ قوم کی حقوق کے تحفظ و بازیابی کے لئے اپنے طبقہ(سردارو سردارخیل) سے عملاََ علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ آپ کی قیادت میں اتحا د پارٹی نے سرداروں اور سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہدکیا۔ یوسف عزیز کے مجاہدانہ کارناموں نے اہل بلوچستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ جو سردارقومی مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دے سکتے وہ عوام کے ہرگز دوست نہیں اس لئے وہ ا س قابل نہیں کہ وہ ان کے(بلوچ قوم کے) قائد و رہنما بنیں۔
یوسف عزیز جہاں جدید اسلامی تعلیمات کے حامی اور بلوچستان کی آزادی کے دلدادہ تھے وہاں وہ اس امر سے بھی واقف تھے کہ غیر طبقاتی نظریات پر مبنی اسلامی ڈھانچہ تعلیم اور سیاسی تنظیم سرداریت کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے۔ وہ ریاستی بلوچستان میں سرداروں کے اختیارات کم کرنے اورجمہوری قدروں کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ جب میراحمد یارخان،خان قلات بنے تو وہ چاہتے تھے کہ ریاست میں تعلیمی و سماجی اصلاحات کی جائیں۔ خان قلات، سید جمال الدین افغانی کے افکار سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی بیگم کا تعلق افغانی کے خاندان ہی سے تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سرداروں کو اپنے دارالحکومت قلات مدعو کیا اور میر محمد یوسف عزیزؔ کو بھی بحیثیت تمندار مگسی قبیلہ کے بلایا گیا۔ میر یوسف عزیز کے بقول جب وہ پاییہ تخت قلات پہنچے تو انہوں نے ریاستی بلوچستان میں جمہوریت ، تعلیم، آئین سازی وغیرہ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر خان قلات میر احمد یار خان نے آپ سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات کو ایک قرارداد کی صورت میں سرداری کونسل میں پیش کریں۔ یوسف عزیز نے محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں بتاتے ہیں کہ :
’’چنانچہ بندہ نے دس پندرہ منٹ کی تقریر کے اندر اپنی تحریک کو پیش کیا۔ ختم کرتے ہی زرکزئی سردار (میر رسول بخش، جو کہ آپ کے سگے ماموں بھی تھے) اور وڈیرہ بنگلزئی(سردار نور محمد) نے بغیر کسی دلیل و حجت کے جاہلانہ طریقہ پر مخالفت کی اور پھر لہڑی سردار(نواب بہرام خان) نے تو سرے سے اسٹیٹ کونسل کی ہی مخالفت کی۔ مگر بنگلزئی سردار کی مخالفت بالکل جاہلانہ اور زور دار طریق پر تھی۔۔۔۔۔مجلس کا رنگ دیکھ کر نواب رئیسانی اور سردار شہوانی نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘
یوسف عزیز اپنے خط میں آگے چل کر اپنے دوست محمد امین خان کھوسہ بلوچ (جیکب آباد) کو لکھتے ہیں:’’ تاہم شکر ہے کہ میں اپنے ضمیر، اپنی قوم اور غرباء کی ترجمانی کے فرض سے غافل نہیں ہوا اور وقت آئے گا کہ آپ اور آپ کی نسلیں پشیمان ہوں گی۔‘‘
ان حالات میں یوسف عزیز دل برداشتہ ہونے کی بجائے ایک مجاہدانہ عزم کے ساتھ ان نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم جری کرتے نظر آتے ہیں اور سرداریت کے خلاف ایک لا متناہی جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں اور اپنے عزیز دوست میر محمد امین کھوسہ(جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم تھے) کو لکھتے ہیں کہ ان کی آئندہ حکمت عملی سرداری نظام اور سرداروں کے خلاف ہوگی۔ وہ میر احمد یار خان (حکمران قلات)کی سرداریت کے خلاف آئینی اصلاحات کا ساتھ دیں گے اپنے طویل خط کے آخر میں وہ بلوچ و بلوچستان کے باشعورطبقہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ:
’’ اب سرداروں کو کچلنا چاہیے ان کے سُدھر نے کی امید فضول ہے۔‘‘
اب تقریباََ ایک صدی گزرجانے کے بعد بلوچستان کی سیاست یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ سرداروں سے سماجی و تعلیمی اصلاحات اور فکر کی امید رکھتے ہیں وہ یا تو تاریخِ بلوچستان سے نابلد ہیں یا خوش فہمیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اس گزشتہ صدی نے سردار ان بلوچستان کو اقتدار کی سربلندیوں پر دیکھا ہے لیکن ان کی قوم دشمنی بلوچ قوم پر عیاں ہے۔ میر محمد یوسف عزیز کا مذکورہ پیغام آج بھی نوجوانوں کے لئے دعوتِ عمل ہے۔ اس خط میں ایک عظیم علمی سماجی، معاشی اور سیاسی انقلاب کے لئے سرداریت کو کچلنا لازمی ہوگا۔ان کوشکست فاش دینے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ تعلیمی اور معاشی اصلاحات کا بھرپور نفاذ ہے۔ یوسف عزیز کے انقلابی نظریات:
بلوچستان میں مروجہ سیاسی و معاشی ڈھانچہ برطانوی استعمار اور ان کے نمائندگان (سررابرٹ سنڈیمن۔ جنرل جان جیکب سر مرویدر وغیرہ) کا مرہون منت ہے۔ یہ نظام عرف عام میں سنڈیمن سسٹم یا سرداری و تمنداری نظام یا سرداریت کے نام سے موسوم چلا آرہاہے۔ استعماری دور میں بلوچستان کے روایتی و آئینی ڈھانچہ(وفاقیت و نیم وفاقیت پرمبنی) کو معطل کرکے نیم قبائلی و نیم جاگیر داری نظام کا اجراء کیا گیا جس کا مرکزی کردار سردار یا تمنداررہا ہے۔ اس نئے نظام میں حکومت قلات اور بلوچ عوام کے اختیارات اور حقوق غصب کرنا تھا نیز بلوچ وبلوچستان کو قبائل اکائیوں میں تقسیم کرکے ان کو غلامی کی نئی بیڑیوں میں جکڑ دینا مقصود تھا تاکہ بلوچ قوم میں آزادی اور مساوات کی امنگوں کا خاتمہ اور اتحاد پارہ پارہ کر دینا تھا۔ سنڈیمن نظام نے سرداروں پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی تھی کہ وہ جدید نظریات(اسلام کے معاشی اور جمہوری نظریات وغیرہ) کو بلوچستان میں داخل نہ ہونے دیں۔ یہی وجہ تھی کہ جدید نظریات اسلامی اقدار کی سرداروں نے بھرپور مخالفت کی تھی۔
یوسف عزیز مگسی نے جب سیاسی شعور پایا تو بلوچستان و بلوچ قبائل کا سیاسی و معاشی ڈھانچہ جس کی بنیادیں حکمران بلوچستان پر نصیر خان نوری (۱۷۹۴وفات) نے استوارکی تھیں سرداروں اور استعمار کی ملی بھگت سے تباہ کردیا تھا۔ یوسف عزیز سامراجیت اور سرداریت کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ سماجی و معاشی انقلاب کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی ہو کررہ جائے گی اس لئے انہوں نے اسلام کی معاشی مساوات اور استعمار دشمنی کا نعرہ بلندکیا۔ان کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ وطن کی سیاسی آزادی کا تمام تر فائدہ قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور نئی ابھرتی ہوئی پیٹی بورژواژی کو پہنچے گا اور بلوچستان کے کچلے ہوئے طبقات(ماہی گیر، کسان، خانہ بدوش اور قبائل وغیرہ بلوچستان کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک ہیں) سے محروم کر دیے جائیں گے۔ اس لئے یوسف عزیز نے اسلامی اشتراکیت کو بلوچستان میں انقلاب کی اساس و منزل قرار دیا تھا۔یقینایوسف کا نظریہ، اسلام کے اشتراکی اصولوں پر مبنی تھا۔ یوسف عزیز قرآنی تعلیمات اور محبت رسولؐ میں سرشار تھے۔ وہ الہندکی بورژوا قوم پرستی، ذات پات کا نظام اور مذہبی فرقہ واریت سے ازحد متنفرتھے۔
کانگریس کی جمہوری تحریک کو ہندوستان کے بالائی طبقات کے لئے سودمند دیکھتے تھے۔ آپ نے بلوچ قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ ہمیں اصلاحات، کونسل، گورنری صوبہ کیا فائدہ دیں گے۔ علاوہ اس کے کہ غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ ملکی سرمایہ دارہوں گے۔ ۹۰ فیصد بلوچستان کی غریب آبادی کے لئے سوراج(آزادی) تب ہوگا جب وہ لوٹ سے بچیں گے۔‘‘
اپنی وفات سے چند ماہ قبل اپنے ایک دوست (جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پار ہے تھے) محمد امین کھوسہ کو لکھا تھا کہ اشتراکیت ہی کچلے ہوئے طبقات کے مسائل کاحل ہے۔ وہ اشتراکیت کے جدید مفکرین کارل مارکس اور لینن کے افکار کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امین کھوسہ کولکھتے ہیں:
’’پیارے وطن کے نوجوان بھائی۔ اللہ آپ کو جلدی(تعلیم سے) فارغ کر کے اچھے کام (یعنی قومی تحریک) میں مصروف کرے۔ میں اپ کو ذیل کا ایک مشورہ ضرور غرض کروں گا۔ اگر آپ نے مانا تو میں بہت مشکور ہوں گا۔ کارل مارکس کی تصنیفThe Capitalاور ’’دنیا کے دس ہلاکت آفرین دن‘‘جو انگریزی میں ہے اور ایک سیاح کے قلم کی لکھی ہوئی ہے۔ ان کو ضرور دیکھیں۔ اگرچہ مجھے احساس ہے کہ آپ میں فطر تا بغیر کسی تقلید کے ایک مادہ اشتراکیت ہے اور غریبوں ، کسانوں، مزدوروں کے لئے لڑنے والا دل بھی۔‘‘
آپ کی ایک فارسی نظم’’ آہ افغان سرداران بنام سرکارِ برطانیہ‘‘ ہے۔ اس نظم میں سرداران بلوچستان، برطانوی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل(A.G.G)اور ریزیڈنٹ برائے بلوچستان کیڑ کے حضور فریاد رساں ہیں اور یوسف عزیز مگسی پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص(یوسف مگسی ) آقاوغلام کی تمیز روا نہیں رکھتابلکہ آقا و بندہ کے درمیان مساوات کا حامی ہے۔ ایسا شخص جو کہ ہمارے حقوق(سرداریت) کا جانی دشمن ہے وہ یقیناًبرطانیہ کا بھی دوست نہیں۔ ہم برطانوی سرکار کے دست و بازو ہیں اس لئے ہمارا وقار اور سرکار انگلیسہ کی شان و شوکت لازم و ملزم ہیں ۔آپ سب کے منصف ہیں اور انصاف کا تقاضایہ ہے کہ آپ یوسف سے سرداری کا منصب چھین لیں اور اس کی خوفناک جماعت (انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان) کو منتشر کر دیں۔ وہ اس ملک میں اصول اشتراکیت کا نقیب ہے۔ اس نے اپنے طبقہ سے ناطہ توڑ کرکے مفلوک الحال بلوچ عوام سے ناطہ قائم کر لیا ہے۔ یہ فریاد ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔
’’یہ انہی کا مقلد ہے۔ اس کے نظریات کی نشر و اشاعت بلوچ نوجوانوں میں کرتا ہے اگر یہ شخص(یوسف عزیز) آزاد چھوڑ دیا گیا تو نہ صرف یہ اور اس کا گروہ ہمارے اقتدار(سرداری نظام)کا خاتمہ کردے گا بلکہ اس کا گروہ (انجمن اتحاد.....) برطانوی اقتدار کا بھی خاتمہ کر دے گا۔‘‘
کسانوں اور مزدوروں کے لئے یوسف عزیز نے احباب کو متوجہ کیا اور اپنے ایک دوست کو ’’بلوچستان مزدور پارٹی‘‘ کے قیام کی تجویز دی۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اقبال کی طرح کارل مارکس اور لینن کے اقتصادی و سیاسی انقلاب سے متاثر تھا(یادرہے کہ حضرت عمرؓ تک ارضیات اُمہ کی ملکیت کی پیداوارہے جس کی ابتداء اموی جاگیردارانہ خلافت سے شروع ہوئی تھی جس نے اسلام کے نظام عدل کو مختلف تا ویلات کی مدد سے ذبح کر دیا تھا) اقبال کی طرح مگسی اسلام کے عادلانہ معاشی و سماجی انصاف کی تلاش میں نظر آتاہے۔ اس موضوع پر مگسی نے اپنے دوست و احباب کو خطوط لکھے اور اپنے نقطہ نظر کی ترویج کے لئے مضامین بھی لکھے جن کواس مختصر مضمون میں پیش کرناازحد مشکل کام ہے۔
اس مضمون کے آخر میں حقوق نسواں کے حوالہ سے یوسف مگسی کے نظریات کو جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یوسف عزیز اس بات سے کما حقہ واقف تھے کہ عورت کے حقوق تسلیم کیے بغیر بلوچستان میں سماجی و معاشی انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ بلوچ خاتون بہت ہی بے کس اور مجبور خاتون ہے وہ نیم جاگیرداری اور نیم قبائلی نظام کے ظلم کا شکار چلی آرہی ہے۔ ا س مظلوم عورت کو جو حقوق اسلام اور قدیم بلوچی دستور نے عطا کیے تھے وہ عرصہ دو صدی سے رواج کے نام پر چھین لیے گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ بلوچستان میں احترام نسواں کا یہ عالم رہا ہے کہ اگر کوئی مظلوم یا مسافر ایک عورت سے پناہ مانگ لیتا تھا تو وہ تمام قبیلہ یا قوم کی سماجی ذمہ داری میں آجاتا تھا ۔ اسی طرح خانہ جنگیوں میں اگر عورت گزارش لے کر اپنے دشمن قبیلہ کے پاس جاتی تو اس کو بلوچی آئین کے تحت رد کرنا نا ممکن تھا۔ قدیم بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ خواتین نے اہم فیصلوں کے لئے ’’ بلوچ مجلس یا جرگہ‘‘ میں مردوں کے برابر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح میدان جنگ میں بلوچ خواتین قائد بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاََ بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ رسم کالاکالی(کاراکاری) کا بلوچ قبائل میں کوئی رواج نہ تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قبائل جاگیر داری نظام کے زیر اثر آئے تو عورت، مرد کی ملکیت قرار پائی۔ معمولی شک یا اس سے چھٹکارا پانے کے لئے یا اس کی جائیداد ہتھیانے کے لئے اس پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر نجات پائی جانے لگی۔
ماضی قریب میں درجنوں عورتیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں بلکہ بلوچی دستور کے تحت اس ظلم سے بچنے کے لئے جب انہوں نے سرداروں کے ہاں پناہ لی تو ان خواتین کو بلوچی دستور کے خلاف سرداروں نے بیچ ڈالا۔ اس طرح کے واقعات سن کر یوسف عزیز سرداریت و ملائیت کے خلاف سراپااحتجاج بن گئے۔ وہ ملائیت، قبائلیت اور ظالمانہ رسم رواج کے مخالف اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نسواں کے داعی تھے۔ لندن سے اوائل ۱۹۳۵ء میں اپنے ذاتی دوست اور سیاسی رفیق محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں:
’’........تمھاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ری مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کو دنیا کا بدترین کھلونا بنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کر ڈالا۔ خدا ان سے سمجھے۔ حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے دماغوں کو ان امتیازوں یعنی مردوزن کے درمیان کا اسیر دیکھتا ہوں.......مگر امین۔ یورپ کے متعلق آپ کے علمایان دین کی تمام رائیں غلط بخدا کہ غلط۔ یورپ بہت آزاد ہے ۔ آپ سے بازار میں رسٹورینٹوں میں پارٹیوں میں آزادانہ عورتیں ملیں گی ، باتیں کریں گی، کھیلیں گی، منائیں گی اور رشتہ دارکوئی بھی دخل نہیں دیں گے مگر اخلاقی لحاظ سے وہ برائی جو آپ کے دراز ریش حضرات اس سے منسوب کرتے ہیں ۔ ایک فیصدی پائی جائے گی۔ یہاں کی عورت اپنی عصمت کی حفاظت آپ کے رسم و رواج کے مطابق پردہ اور تلوار و بندوق کے ڈر کے ذریعہ نہیں کرتی۔ ان کا معیار کچھ اور ہے۔ کاش کہ اس خط میں تفصیلات لکھ سکتا۔ یہاں کی کنواری عورتیں جو شادی شدہ ہیں۔ عصمت کے معاملہ میں انتہائی بلند معیار پر ہیں۔‘‘
یوسف عزیز مگسی اس تقابلی جائزہ کے بعد یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے جائیں جو ان کو اسلام نے عطا کیے ہیں۔ یوسف عزیز براہِ راست قرآن مجید اور سنت رسول کریم کی طرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ محض تقلید پر تکیہ گوارانہ کرتے تھے بلکہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بلوچ و بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں۔ اپنے ایک اور رفیق میر تاج محمد ڈومبکی کولکھتے ہیں:
’’ خدائے قدوس کے نزدیک انفرادی زندگی کی صلاحیت جماعتی منفعت کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں ہمیں طریق استدعا بتایاگیا ہے وہ جماعت کی طرف سے ہے۔ سورۃ فاتحہ کو ہی دیکھے.....اھد نا الصراط المستقیم نہیں۔ انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم یہ سب جمع کے صیغہ جات ہیں۔‘‘
ایک دوسرے خط مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۳۲ء میں ان مقاصد کے حصول کے لئے عملی اقدامات کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے:
’’قریبی عرصہ سے میرا ارادہ ہے۔ سندھ، بالخصوص جیکب آباد( جو مرکز ہے بلوچوں کا ) آنے اور بلوچ بھائیوں کی امداد سے فی الحال ایک انجمن’’حزب اللہ ‘‘ یعنی خدائی فوج کی بنیاد ڈالنے کا۔ جس کے اغراض ومقاصد واضح ہیں یعنی دین الٰہی و قیام بردین الٰہی کی تبلیغ۔‘‘
ان خطوط سے واضع ہوتا ہے کہ وہ بلوچ عوام اور بلوچستان میں ایک اسلامی انقلاب کی تیاروں میں کوشاں تھے۔اپنے ایک مضمون میں انہی مقاصد کے حصول کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:’’مقام حمد وثنا اور موقع فخر و مباہات ہے کہ بلوچ بھی جاگے۔ نہ صرف بستروں پر اللہ تعالیٰ کا نام جپنے کے لئے بلکہ میدان عمل میں آئے ہیں اور ایک ایسے عزم کا مل اور یقین واثق کے ساتھ آئے ہیں جس کا اعتراف خود قوائے باطلہ کو بھی ہے اگر چہ ان کا اعتراف و اظہار دبی زبان سے کیا جارہاہے۔ نیشنلزم بلکہ اس سے بھی اعلیٰ وارفع تخیل یعنی اسلام ازم جس کی وسعت میں قومی، وطنی، لسانی معتقدات سے سب خائف و پریشان ہو کررہ جاتے ہیں جس کا معیار انسانیت کامل کا حصول اور نوع انسان کی نجات ہیں۔ اتحاد ویگا نگت کی روح پھیلاتا ہے، دلوں سے محوشدہ یاد کو پھر دہرانے کے لئے ایک جماعت حق کا پیشوا ہونا اور اپنے ہم مذہب اور ہم وطن رہنمایاں قوم کی مخالفت اور حکومت کی شکوک افزا روش کے باوجود شراب عشق سے مست موافع و مہالک سے بے نیاز اپنے مسلک پر ثابت اور صراط مستقیم پر چلا جانا اگر کوئی دلفریب حقیقت رکھتا ہے تو مستقبل کے لئے پر امید ہوں کہ انشا اللہ یہ سہرا بلوچوں کے سر ہوگا۔‘‘
لیکن فرنگی سامراج آپ کے ارادوں و عزائم سے خوف زدہ تھا۔ ۱۹۳۴ء میں آپ کے رفقاء کر لئے گئے۔ اے ۔جی۔ جی بلوچستان اور برطانوی نژاد وزیراعظم نے مجبور کیا کہ آپ بلوچستان چھوڑ کر لندن روانہ ہو جائیں۔ یہ حکم جبری تھا۔ اسی دوران برطانوی انتظامیہ نے مگسی مرحوم کی مالی امدادسے چلنے والے متعدد اخبارات’البلوچ‘، کراچی۔ ’’بلوچستان جدید‘‘ ،کراچی کو یکے بعد دیگرے ضبط کر لیا تاکہ انجمن اتحاد اور یوسف عزیز کے افکار و عمل کا پرچارروکا جاسکے۔آپ کے اشارہ پر آپ کے اخبار نویس ساتھی محمد حسین عنقا نے تیسرا اخبار’’ینگ بلوچستان‘‘ کراچی سے جاری کیا۔ اس نئے اخبار کے شمارۂ اوّل کے لئے یوسف عزیز نے لندن سے دس صفحات پر مشتمل ایک یادگار مضمون ارسا ل کیا:
’’جلے جلوس، جماعت بندی، اخبار نویسی یہ سب جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ فرنگی استبداد کا یہ حال ہے کہ ہمارے رفقا کوقیدو بند میں ڈال دیا گیا ہے اور ہمارے ہمدردوں کو بے روزگار کیا گیا ہے دربارسبی سے خطاب کیا جاتا ہے۔ کہ چند شورش پسند اٹھے ہیں جو بلوچستان کی پر امن فضا کو مکدراور اس کے سکون کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔ آؤ مل کران کا استقبال کریں۔‘‘
یوسف عزیز نے ان دھمکیوں اور غیر انسانی پالیسیوں پر برطانوی استعمار کو ان لفظوں میں للکارا:
’’ایسی آمریت کے دورمیں اس کے سوا اور کوئی چارہ کا ر باقی نہیں رہتا کہ آزاد بلوچستان کا جھنڈا بلوچستان کے سرحدی علاقہ گرم سیل میں گاڑ کر اپنی پرانی تاریخی بلوچ روایات کے تحت بلوچی لشکر لے کر فرنگی استعمار پرہلہ بول دیا جائے۔‘‘
اس پیغام نے بلوچستان کی سیاست میں ہیجانی صورت پیدا کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افکار اور اعمال میں سید جمال الدین افغانی سے بھرپور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے افکار پر علامہ محمد اقبال کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ ان کے متعدد خطوط میں علامہ اقبال کے اشعار ملتے ہیں مثلاََ ایک خط کے آخر میں یہ اشعار درج ہیں ’’ لوکار میڈ:
تیر و سنان خنجر و شمشیرم ارزوست
با من بیا کہ مسلک شبرم ارزوست
(اقبال)
بلوچ و شجاعت، بلوچوم ارزوست
خیزد! باز نعرۂ اسلام آرزو است
(عزیز)
ایک دوسرے خط کے شروع میں یہ شعر ہے:
خردی نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی
اپنے مقصد کی ترویج کے لئے انہوں نے جھل مگسی قصبہ میں ’’جامعہ عزیزیہ‘‘ کے نام سے ہائی اسکول بھی قائم کیا تھا۔ جہاں پر طلباء کو مفت تعلیم ، لباس اور خوارک مہیا کی جاتی تھی۔ انہوں نے دیگردیہاتوں میں پرائمری سکول قائم کیے۔ ان کا ارادہ تھا کہ لندن میں بلوچ طلباء کے لئے ایک ہاسٹل قائم کیا جائے جس کے اخراجات انہوں نے خود براداشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔’’جامعہ یوسفیہ‘‘ کے کورسز کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انجمن حمایت اسلام، لاہور اور جامعہ ملیہ، دہلی کے نصاب سے بہت متاثر تھے نیز جامعہ عزیز یہ جھل میں بلوچستان کے جغرافیہ ، تاریخ و ثقافت کے مضامین کو بھی شامل نصاب کیا ہوا تھا۔
یوسف عزیز نے تعلیم کے علاوہ سماجی برائیاں(شراب اور بھنگ)پر پابندی عائد کی تھی۔ ان کو اپنے مقاصد میں از حدکامیابیاں ہوئیں۔ بلوچ اور اہل بلوچستان ان سے والہانہ پیا رکرتے تھے۔ جلا وطنی سے واپسی کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ متعدد محاذوں پر جدوجہدکریں گے جن میں آئینی و تعلیمی اصلاحات، سردای نظام کا خاتمہ، اسلامی تعلیمات کی ترویج۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سوویت یونین کی مدد سے آزادی کی مسلح جدوجہد کا ارادہ بھی رکھتے تھے لیکن بلوچ اور بلوچستان کی یہ انتہائی بد قسمتی تھی کہ یوسف عزیز کوئٹہ میں ۳۰/۳۱مئی۱۹۳۵ء کی درمیانی رات میں زلزلہ میں شہید ہوگئے یوں بلوچ اور اہل بلوچستان ایک عظیم دانشور، قائد، ساتھی اورعظیم راہنما سے محروم ہوگئے۔
یوسف عزیز مگسی کی وفات کا نوحہ ہر طبقۂ فکر نے کیا ہے۔ اس مضمون کے آخر میں میر گل خان مرحوم(بلوچی زبان کے شاعر، ادیب، مورخ اور سابق وزیر تعلیم بلوچستان) کا غیرمطبوعہ خط(مورخہ۳۱اگست۱۹۳۵ء) کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جو انہوں نے نوابزادہ میر شہباز خان نوشیروانی(نواب خاران کے چھوٹے بھائی اور بلوچ قومی تحریک کے سرگرم رکن) کو محمد یوسف عزیز کی زلزلہ میں شہادت پر لکھا تھا:
’’وہ کون سا دل ہے جس میں نوجوان یوسف کی ناگہانی موت کا سن کر رنج والم کے بادل نہ امنڈ آئے ہوں۔ وہ کو ن سی آنکھ ہے۔ جو بلوچستان کے اس مایہ ناز فرزند کی یا دمیں خون کے آنسو نہیں بہاتا ہو۔ یوسف ! ہم گم کردہ راہ بلوچوں کے لئے خضر کی طرح نمودار ہوا اور بھولے بھٹکے بلوچوں کو راستے پر لگا کر یکایک غائب ہوگیا۔ یوسف کو خداوندنے مسیحا ء بلوچ بناکر بھیجا جو مردہ بلوچوں میں حیات جاوید پھونک کر خود آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔‘‘
1. Inayatullah BALOCH. The problem of " Greater Balochistan". A study of Baloch Nationalism (Published under the auspices of South Asia Institute, University of Heidelberg, Germany), 1987.
2. Inayatullah Baloch. Resistence and Libration in Balochi Poetry, in: South Asia Digest of Regional Writing, vol. II (1985)
۳۔ میر گل خان نصیر ، تاریخ بلوچستان۔ جلددوم۔ کوئٹہ۱۹۵۶ء۔
۴۔ سوانح حیات میر عبدالعزیز خان کرد، بلوچی دنیا، ملتان ، جون و جولائی۱۹۶۸ء۔
۵۔ مکاتیب و مضامین از محمد یوسف علی خان عزیز مگسی، الحنیف، جیکب آباد(سالنامہ۱۹۳۸+۱۹۳۷ء)
۶۔ نوکین دور(بلوچی) ، کوئٹہ،۲۱۔اکتوبر۱۹۶۶ء۔
۷۔ ہفتہ وار، بلوچستان جدید، کراچی، ۲۴۔ مئی ۱۹۳۴ء۔
۸۔ زمیندار، لاہور۷۔ستمبر۱۹۳۲ء۔
۹۔ میراحمد یار خان، بلوچ(خانِ قلات) مختصر تاریخ قوم بلوچ و خواتین بلوچ، کراچی۹۷۲۔
۱۰۔ ماہنامہ بلوچی دنیا،ملتان،مئی۱۹۷۱ء ، جولائی۱۹۷۳ء۔
۱۱۔ غیر مطبوعہ خط از میر گل خان نصیر بنام نوابزادہ میر شہباز خان بلوچ نوشیرانی(فاران) مورخہ۳۔ اگست۱۹۳۵ء۔

понедельник, 18 сентября 2017 г.


مذہبی شدت پسندتنظیم کو تحریک آزادی سے جوڑنا ممکن نہیں

مقبوضہ بلوچستان میں جاری شعوری،علمی آزادی کی جدوجہد نے جہاں طبقات،ذات پات کو زمین بوس کر دیا اسی طرح مذہبی تفریق کو عوامی سطح پر اپنی انقلابی تعلیمات و عمل سے پروان چھڑانے نہیں دیاجو بلوچ کی سب سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔البتہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مقامی منشیات فروشوں،سماجی برائیوں میں ملوث افراد سمیت پاکستانی نظام کو اسلام کا اصل سماج ماننے والے بلوچوں کے ذریعے ایسے گروہ منظم کیے اور انہیں اپنی فوجی چھاؤنیوں میں پناگائیں دیں۔کیونکہ وہ مذہب کے نام پر تفریق اور بلوچ سماج میں دراڑڈال سکیں تاکہ قابض بہ آسانی اپنی حکمرانی قائم کر سکے۔ایسے میں لشکر خراسان،داعش،لشکر جھنگوی،جنداللہ یا جیش العدل نامی تنظیموں کو مضبوط کیا گیا تاکہ آئی ایس آئی و دیگر مذہبی سامراجی ممالک کے ایجنڈوں کے ساتھ بلوچ سماج میں مذہبی تفریق پیدا کرکے نوجوانوں کی سرزمین سے محبت کو اسلام کے شدت پسندی کی جانب راغب کیا جا سکے۔اسی طرح جنداللہ یا جیش العدل نامی گروہ جو خاص کر مکران سے ایران کے سرحدی علاقے یا نوشکی جانب اپنا کچھ وجود رکھتی ہے ، بلوچ جہد آزادی کے خلاف بھر سرے پیکار ہے۔مقبوضہ بلوچستان سے باہر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ایران کے خلاف بلوچستان کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہے یا ایسی بات کرنے والے بھی ریاستی حکمت عملیوں کے تحت بلوچ کے خلاف اس پلاننگ کا حصہ ہیں،جو بلوچ جہد آزادی کو مذہبی شدت پسندی کے غلاف میں منقلب کرنے میں جتے ہیں ۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ مذہبی تنظیم نے کب مغربی بلوچستان کی آزادی کادعویٰ کیا؟۔اگر کیا بھی ،تو کیا مذہبی شدت پسند نیشنلزم،سیکولرزم پر یقین رکھتے ہیں؟ وہ تو ملک کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ تو امت کا لفظ استعمال کرتے ہیں ،اور نہ ہی کسی تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں ۔آزادی کی جنگیں یا تحریک ہمیشہ مذہب سے مبرا رہی ہیں۔پاکستان کی اگر آزادی کی بات کی جائے تو مذہب کی بنیاد پرہندوستان کوتقسیم کرکے اسے الگ ملک کا نام دیا گیا ۔اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی تحریک آزادی نہیں تھی البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف ہندوستان کی آزادی کیلئے منظم تحریک چلی اور وہ مذہب کے بالکل بنیاد پر نہیں تھامذکورہ تحریک میں تمام مذہب کے لوگ شامل تھے ۔ 
ایسا کبھی دیکھا یا سنانہیں گیاکہ کسی مذہبی شدت پسند نے نیشنلزم کی بنیاد پر جدوجہد کی،اگر وہ نیشنلزم و سیکولرزم کی بات کرے تو وہ مذہبی شدت پسند ہو ہی نہیں سکتا،اب کچھ لوگ پتا نہیں کیوں ایسے گروہ کی حمایت پر سوشل میڈیا میں اپنی پوری قوت استعمال کر کے بغیر منطق کے دلائل دینے پر بہ زد ہیں کہ ایران کیخلاف آزادی کی جدوجہد کر کرہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ان کی یہ جنگ مغربی بلوچستان کی آزادی کی جنگ نہیں بلکہ اہل تشیع کیخلاف ایک شدت پسند مذہبی جنگ ہے جسکی جڑیں بلوچستان میں پھیل چکی ہیں جو ہزارہ برادری پر متعدد حملوں وھماکوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں جس میں سینکڑوں اہل تشیع کو بیدردی کیساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،اسی طرح ذگری فرقے پر حملے بھی ہمارے سامنے واضح مثال ہیں۔ 
ایران میں برسرپیکار شدت پسند مذہبی تنظیم جنداللہ یا جیش العدل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا اثاثہ ہے اور مذکورہ تنظیم سے وابستہ تمام ارکان کراچی و پاکستان کے بڑے بڑے مدارسوں اور فوجی کیمپس میں ریاستی اداروں کی زیر سرپرستی میں اپنی تعلیم و تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ رہی بات مذکورہ تنظیم پر گذشتہ دنوں پنجگور کے سرحدی حدود میں بلوچ سرمچاروں کے حملے و ہلاکتوں کی تو یہ ایک مثبت حکمت عملی ہے اگر بلوچ عسکری تنظیمیں پہلے پہل اس مذہبی گروہ کیخلاف کارروائی کرتی تو بلوچستان میں مذہبی شدت گروہ کاؤنٹر ہوجاتے ۔بلوچستان جسے ریاستی ادارے ایک مذہبی شدت پسندی میں دھکیل رہے ہیں اس میں بڑی حد تک کمی آجاتی ۔ کہا جارہا ہے کہ مذکورہ تنظیم پر جب بلوچ عسکری پسندوں نے حملہ کیا تو وہ ایران میں ایک کارروائی کے بعد واپس بلوچستان حدود میں آرہے تھے اور ریاستی اداروں کے کیمپ ان کے محفوظ پناگائیں ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جیش العدل ایک ایرانی مذہبی شدت پسند گروہ ہے اور اسکے اپنے مذہبی مقاصد ہیں۔اگرا کوئی غور کریں تواسکی اور داعش کے جھنڈے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔داعش سے مشابہت رکھنے کے ساتھ ،دوسری اہم بات انکے ویڈیوز و تصاویر میں صاف ظاہر ہے، انگلی اُٹھا کر اوپر کی جانب اشارہ کرنا جو داعش کا سنبل ہے، یعنی مذکورہ مذہبی شدت پسند تنظیم اسی قبیل و نظریہ کا مالک ہے جو دیگر اسلامی شدت پسند تنظیم ہیں۔اب اس تنظیم کو مغربی بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے جوڑناایک احمقانہ بات ہوگی ۔

воскресенье, 17 сентября 2017 г.

شفیق مینگل ایک مہلک ریاستی ہتھیار – ٹی بی پی رپورٹ

دو ہزار پندرہ میں سندھ کے شہر شکار پور میں ہونے والے خودکش دھماکوں کا دوہزار دس میں خضدار میں بی ایس او آزاد کی ریلی پر ہونے والے فائرنگ سے تعلق تب جڑا جب دو ہزار سولہ میں خودکش حملے کے لیئے تیار عثمان بروہی شکار پور کے ایک شیعہ مسجد میں دھماکے سے قبل پکڑا گیا۔ یہ پہلی دفعہ تھی جب ایک خودکش حملہ آور پکڑا جاتا ہے اور اپنی زبان سے بتلاتا ہے کہ میرا خود کش جیکٹ بلوچستان کے علاقے وڈھ میں ‘معاز’ نامی شخص تیار کرتا ہے۔
وڈھ میں مذہبی شدت پسندوں کی موجودگی ہمیشہ سے نہیں تھی، اور نہ ہی پورے بلوچستان میں فرقہ پرستی کا راج تھا۔ سندھ میں شیعہ مسلمانوں کے مساجد، کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور بلوچ آزادی پسندوں کے قتلِ عام سے لیکر کراچی میں ایم کیو ایم لیڈر خواجہ اظہار الحق پرقاتلانہ حملہ ہو، ان سب کی کڑیاں وڈھ کے علاقے باڈڑی میں مقیم شفیق الرحمٰن مینگل سے جاکر ملتی ہیں۔
شفیق مینگل کون ہے؟ کس طرح وہ مذہبی شدت پسندوں سے لیکر ریاست کا آلہ کار بنا، اس بابت دی بلوچستان پوسٹ  اپنے قارئین کے لیئے تحقیقات کے بعد یہ مختصر مگر جامع رپورٹ شائع کر رہی ہے۔
شفیق الرحمٰن، مینگل قبیلے کے محمد زئی طائفے سے تعلق رکھتا ہے، وہ سابق پاکستانی وزیر برائے پیٹرولیم اور سابق نگران وزیراعلی نصیر مینگل کا بیٹا ہے۔ شفیق مینگل نے اپنی بنیادی تعلیم لاہور میں قائم ایک اعلی طبقے کے کالج ‘ایچی سن’ سے حاصل کی ہے، مگر اسکے بعد اسنے اپنی سائنسی تعلیم چھوڑ کر کراچی میں ایک دیوبندی مدرسے میں پڑھائی شروع کردی اور تب اسکا وہ سفر شروع ہوا جس نے اسے نگران وزیراعلی کے بیٹے سے ہزاروں لوگوں کا قاتل بنا دیا اور آج دن تک وہ اپنے ہاتھ معصوم انسانوں کی زندگیوں سے رنگ رہا ہے۔
شفیق مینگل اور انکا خاندان شروعات میں خضدار شہر میں واپڈا گلی میں ایک معمولی سے گھر میں رہتے تھے۔ وہ اپنے شروعاتی دنوں میں بڑے بھائی عطالرحمن مینگل اور ماموں قدوس مینگل کے ساتھ افغانستان سے لائے جانے والی گاڑیوں میں منشیات کا کاروبار کرتا تھا۔
کراچی میں دیوبندی مدرسے میں تعلیم کے دوران اسکی ملاقات لشکرطیبہ کے لوگوں سے بھی ہوا، جہاں سے وہ کچھ وقت کے لیئے کشمیر کے جہادی گروپوں کے ساتھ رہا اورپھر کشمیر میں بھی پاکستانی فوج کی حمایت یافتہ جہادی تنظیموں کے ہمراہ لڑا۔ یہ کشمیر جہاد ہی تھی جہاں سے وہ آئی ایس آئی کے ایک اعلی آفیسر کی نظر میں آیا اور انھوں نے اسے ایک اثاثہ بنا دیا۔
دو ہزار آٹھ میں جب پاکستانی فوج نے بلوچستان بھر میں ‘کِل اینڈ ڈمپ’ پالیسی شروع کی تو فوج نے ساتھ ہی ساتھ ‘لوکل میلیشیا’ بھی تشکیل دینا شروع کردیئے، جن کا مقصد اس وقت تک صرف اغواء کاریوں میں معاونت کرنااور فوجی ٹیموں کو بحفاظت بلوچ علاقوں سے نکالنا تھا، مگر آزادی کی تحریک پروان چڑھنے اور بلوچ مسلح تنیظیموں کے مضبوط ہونے پر پاکستانی فوج نے اپنے ان ملیشیاوں کو بھی مسلح کردیا اور وہاں سے شفیق مینگل کا ‘مسلح دفاع تنظیم’ سامنے آیا۔
اس سرکاری ڈیتھ اسکوڈ نے اپنا پہلا حملہ دوہزار دس میں خضدار ڈگری کالج میں ہورہے بی ایس او ازاد کی ریلی پر فائرنگ کرکے کیا، جس کے نتیجے میں ایک طالب علم ‘علی دوست’ جانبحق اور متعدد طلباء زخمی ہوگئے تھے۔ اسکے بعد اسی تنظیم نے خضدار یونیورسٹی میں کلچرل پروگرام کے دوران دستی بموں سے بھی حملہ کیا تھا جہاں دو نوجوانوں کی ہلاکت اور دیگر کئی طالب علم زخمی ہوگئے تھے۔
ان دونوں حملوں میں لیاقت کرد اور بیبرگ زہری آج دن تک اپنے پیروں سے معزور ہیں۔
شفیق مینگل کو انٹیلجنس ایجنسیوں کی جانب سے پوری حمایت مل جانے کے بعد وہ اور انکا بڑا بھائی عطاالرحمان اپنا پڑاو ایک بار پھر خضدار شہر میں ڈال دیتے ہیں۔ مگر اسی اثناء بلوچستان میں سرگرم آزادی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کے ہاتھوں انکے ماموں قدوس مینگل کی ہلاکت ہوجاتی ہے۔ اپنے ماموں جو کہ پاکستانی فوج کا ایک خاص اثاثہ بھی تھا، کہ قتل پر انھیں آزادی پسند کارکن سے لیکر انکے حمایتیوں کے قتل کا مکمل اجازت نامہ مل جاتا ہے۔
دوہزار نو سے لیکر دوہزار تیرہ تک خضدار شہر میں سینکڑوں لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ اور اغواء کاریاں سب شفیق مینگل کا ڈیتھ اسکواڑ سرانجام دیتا ہے، اسی دیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں کمسن بالاچ اور مجید زہری کی شہادت ہوئی تھی، جبکہ بزرگ حاجی رمضان زہری اور حافظ عبدالقادر مینگل بھی انھی کے گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے تھے۔
شفیق مینگل کے والد مینگل قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ماں کی طرف سے انکا تعلق خضدار کے علاقے توتک کے قصبہ سے ہے، جہاں قلندارنی قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ اس رشتہ داری اور اپنی ملکیت کا بہانہ بناکر شفیق مینگل اپنا نیا ٹھکانہ توتک کو بناتا ہے۔
خیال رہے توتک میں شفیق مینگل کی آمد سے قبل ایک وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن ہوچکا ہوتا ہے جہاں قلندرانی قبیلے کے سردار کے بیٹوں سمیت دسیوں قلندرانی بلوچوں کو اغواء کیا گیا، اغواء ہونے والوں میں سے مقصود قلندرانی کی لاش بعد میں کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ سے برآمد ہوئی، مگر دیگر دسیوں افراد اب بھی لاپتہ ہیں، جن میں بیاسی سالہ عبدالرحیم قلندرانی بھی شامل ہے۔
توتک شہر کو اپنا ٹھکانہ بنانے کے بعد شفیق مینگل نے وہاں اپنے ٹارچر سیل قائم کیئے اور بلوچستان بھر سے معصوم لوگوں کو اغواء بعد وہاں پر زندانوں میں بند کرکے رکھا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان دنوں مال مویشی چرانے والے ہم سے بات کرتےتھے کہ انھیں رات بھر شفیق کے کیمپ سے چیخ و پکارکی آوازیں آتی ہیں، جیسے کسی کو ازیت دیا جارہا ہو۔ شفیق مینگل نے اپنے توتک کیمپ کے احاطے میں ہی گھڑے کھود رکھے تھے اور دوران ازیت اگر کسی کی موت ہوجاتی تو اسے وہی پر دفنایا جاتا تھا۔
ان اجتماعی قبروں کی نشاندہی دوہزار چودہ میں ایک چرواہے نے کیا تھا۔ شفیق مینگل کے کیمپ میں دریافت ہونے والی ان قبروں سے کل ایک سو انھتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی۔ ان لاشوں میں سے صرف دو کی پہچان ہوئی جن کا تعلق بلوچستان کے علاقے آواران سے تھا۔
ان قبروں کی دریافت تب ہی ممکن ہوا جب شفیق مینگل ان علاقوں کو چھوڑ کر واپس اپنے والد کے علاقے وڈھ چلا گیا، اور یہ اسلیئے ہوا کیونکہ زرداری حکومت بدل چکی تھی اور ‘آئی ایس آئی’ کے مقابلے اب ‘ایم آئی’ نے کمان سنھبال لیا تھا۔ مگر شفیق مینگل نے پالیسی شفٹ ہونے کا ادراک بہت پہلے کرلیا تھا اور اب وہ ایک عام شہری کی طرح واپس جانے والا نہیں تھا۔
شفیق مینگل پاکستانی فوج کا ایسا مہلک ہتھیار تھاجو اب صرف اپنے خالق ‘آئی ایس آئی؛ کا سنتا ہے۔ ملٹری انٹیلیجنس نے اسے غیر مسلح کرنے کے لیئے اپنے خآص بندے سید وحید شاہ کو خضدار میں بطور ڈپٹی کمشنر بنا کر بھیجا، مگر اسے بھی اس بات کا اندازہ تب ہوگیا کہ شفیق مینگل کو اب خود فوج بھی لگام نہیں ڈال سکتا جب وڈھ کے قریب ڈیتھ اسکواڈ کے بندوں نے سرکاری لیویز فورس کے آٹھ بندوں کو قتل اور متعدد کو زخمی کردیا۔
شفیق مینگل نے اپنے کھلی آزادی کا فائدہ اٹھا کر لشکرِ جھنگوی جیسے فرقہ وارانہ تنظیم میں اپنی ایک جگہ بنا لی تھی اور اسکے علاوہ افغان طالبان سے بھی گہرے روابط قائم کرلیئے تھے۔ آزادی پسندوں کے قتلِ عام کے بعد اسنے اپنا وہ کام جاری رکھا جہاں سے اسے پہلے دفعہ ‘آئی ایس آئی’ کے لیئے بھرتی کیا گیا تھا۔
شفیق مینگل نے وڈھ کے علاقے باڈڑی میں ٹریننگ کیمپس قائم کیئے۔
ان کیمپوں میں شفیق مینگل ‘آئی ایس آئی’ کےزیرنگرانی نووارد “داعش” اور “لشکر جھنگوی العالمی” نامی تنظیموں کے کارندوں کو ٹریننگ دیتا ہے۔ شفیق مینگل بلوچستان سمیت پورے خطےکے لیئے ناسور بن جائیگا، اس بات کا اندازہ سب ہی کو تھا مگر کوئی بھی حکومت یا وزیر ‘آئی ایس آئی’ کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا۔ گو کہ بلوچ مسلح تنظیموں نے شفیق مینگل پر متعدد حملے کیئے، جس میں سب سے نمایاں کوئٹہ شہر میں اسکے گھر پر خود کش حملہ تھا، جس کے نتیجے میں ڈیتھ اسکواڈ کے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔
حال ہی میں کراچی میں پولیس چھاپے کے دوران پکڑے جانے والے مذہبی شدت تنظیم ‘انصارشریعہ’ کے کارندوں نے انکشاف کیا ہے کہ انھیں ٹریننگ بلوچستان کے علاقے وڈھ سے ملی ہے اور وہاں انکا ٹرینر عبداللہ بلوچ تھا۔ خیال رہے اس سے قبل سندھ سے پکڑے جانے والے دہشتگردوں نے بھی شفیق مینگل کے ٹریننگ کیمپس کا بتایا تھا اور ساتھ میں یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ شاہ نورانی کے درگاہ پر خود کش حملے کا پلان بھی وڈھ میں تیار ہوا تھا، اس حملے میں باون کے قریب زائرین کی موت ہوئی تھی۔
شفیق مینگل اب ایک انتہائی مہلک ہتھیار بن چکا ہے اگر اسے مزید نشونماء ملی تو خطے میں  ‘داعش’ کی مضبوطی سمیت خود خطے میں ایک بڑے مذہبی شدت پسند رہنماء کی روپ میں ابھر سکتا ہے۔

суббота, 16 сентября 2017 г.

سلامی اب بدنامی نہیں کیوں ؟ تحریر۔ برزکوہی بلوچ

جب موجودہ مزاحمت شروع ہوچکا تھا، اس وقت تمام بلوچوں خاص کر مری اور بگٹی قبیلے میں ایک سوچ موجود تھا کہ پاکستان کے سامنے سلامی ہونا، مزاحمت اور دوستوں کو چھوڑ دینا خوف و پیسوں کی خاطر تحریک سے دستبردار ہونا بدترین بزدلی اور بدنامی ہے۔ سلامی تو نا ممکن اور دور کی بات تھی وہ ایسا شاید سوچتے بھی نہیں ہونگے، خاص کر مری قبیلے کے بلوچ یہ تک سوچتے تھے کہ اگر کوئی دشمن کی حراست میں دوران ٹارچر کوئی تنظیمی راز بحالت مجبوری افشاں کرتا تو وہ بھی انتہاہی قابل نفرت، شرمناک عمل گردانا جاتا۔ بزدلی غداری اور دوستوں کے ساتھ دغاباذی میں شمار ہوتا ہے یعنی بلوچی غیرت و عزت کے حوالے سے بہت بڑا میار ہوتا تھا کہ فلاں شخص فلاں ٹکر کا بندہ پنجابی دشمن کے سامنے بدنام زمانہ قلی کیمپ میں سر جھکا کر آگیا اور تنطیم و دوستوں کے بابت دوران ٹارچر کچھ راذ دے دیا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کیوں وہی بلند بلوچی میار اور بلوچی سوچ کے مالک لوگ دھڑا دھڑ بغیر تکلیف، شرم اور ٹارچر کے بلوچی پگڑی باندھ کر دشمن کے سامنے سلامی ٹھوک کر پاکستانی جھنڈے کو ہوا میں لہرا ر ہے ہیں؟ وجوہات کیا ہیں ؟ذمہ دار کون ہے؟ لوگوں کو اس حالت اور سوچ پر لا کھڑا کرنے والے ہاتھ کن کن کے ہیں؟
اگر ہم صرف اس دلیل اور موقف پر اتفاق اور تکیہ کریں کہ خوف، بزدلی اور دشمن کی ظلم و جبر اور بربریت اسکا ذمہ دار ہے یا تحریکوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے ۔ یہ حقائق بھی اپنی جگہ ایک حد تک درست ہیں لیکن شاید ہم جب تک اصل مسئلے کو سمجھ نہیں پائینگے اس وقت تک ہم خود اپنے ساتھ ناانصافی کرتے رہینگے۔
بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، تاریخ کے صفحوں کو ٹٹولنے کی ضرورت نہیں ہے، ایوب اور بھٹو دور کی بربریت پاکستان اور ایران کی مشترکہ فضائی آپریشن کو بھی یاد کرنے کی ضرورت نہیں جب مری علاقے چمالنگ میں اس وقت قریباً ڈھائی ہزار سے زیادہ بلوچ خواتین، بچے اور بزرگوں کی نسل کشی ہوئی۔ افغانستان میں درپدری زیرِ بحث نہیں ہے۔
ہم صرف حالیہ مری علاقے میں شہید نواب اکبرخان کے خلاف پاکستانی فوجی آپریشن ، مری اور بگٹی قبیلے کے بلوچوں کی کشت خون یا اس سے چند سال پہلے بے شمار خواتین اور بچوں کے قتل عام اور اغواء اور جنگ کی شدت دیکھیں تو وہ کسی طور کم نا تھے۔ بقول شہید بالاچ مری کے کہ تراتانی آپریشن تاریخ میں ایک اور جنگ کربلا تھا لوگ پانی کی ایک بوند کیلئے ترس رہے تھے کئی دن تک دن و رات انتہاہی طاقت کے ساتھ پاکستانی فوجی بربریت جاری تھی۔
میرے خیال میں آج تک اس طرح کے بڑے پیمانے کا فوجی آپریشن بلوچستان کے کسی اور جگہ پر نہیں ہوا ہے گو کہ اب روزانہ کی بنیاد پر پورے بلوچستان میں آپریشن جاری ہے۔ اگر کوئی کہے کہ دشمن کے سامنے سلامی کی اہم وجہ ریاست پاکستان کی بربریت اور تشدد کی تیز لہر ہے تو اس وقت یعنی 2006 میں کتنے بلوچ خاص کر مری قبیلے کے لوگ پاکستانی دشمن کے سامنے سلامی ہوئے؟
جب 2008 سے پاکستان نے باقاعدہ یہ فیصلہ کرلیا کہ بلوچوں کو اٹھاکر قلی کیمپوں میں تھرڈ ڈگری ٹارچر کا نشانہ بنا کر ان کی آنکھیں، دانت، ناخن حتیٰ کہ پیٹ پھاڑ کر دل اور گردے نکال کر پھر لاش میدان میں پھینک دیتا، تاکہ دوسرے بلوچوں کیلیئے عبرت کا نشان بنایا جائے اور اس پر باقاعدہ روذانہ کی بنیادوں پر عمل درآمد شروع ہوا، خاص کر 2010 سے لیکر 2013 تک یہ دہشت اور خوفناک عمل کی شدت انتہاہی تیز تھا جو اب بھی جاری ہے۔ تو پھر کیا اس وقت خوف اور لالچ نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھا؟ پھر کیوں کوئی بلوچ سلامی کا نام ہی نہیں لیتاتھا؟
بلکل پاکستانی حکمران اور میڈیا کا گمراہ کن پروپگینڈہ جس میں عام بلوچوں کو مزاحمت کار ظاہر کرنا، جھوٹ بولنا، بلیک میلنگ، دھمکی اور عام معافی کا دھوکا نما کارڈ استعمال کرنا، لوگوں کو بے وقوف بنانا شامل ہیں لیکن یہ سب اپنی جگہ لوگوں کی مایوسی خوف، بزدلی، بدظنی اور ناراضگی میں زیادہ تر حصہ ہمارے آپسی اختلافات، آپسی لڑائی، غلط پالیسیوں، غلط فیصلوں، غیر انقلابی رویوں، نالائقیوں اور کوتاہیوں کا مرہون منت بھی ہے، جس سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے۔
سلامی کرنے والے لوگ یہ بھی بخوبی جانتے ہونگے کہ پنجابی دشمن ہمیں سلامی کے بعد بھی معاف نہیں کریگا وہ یہ بھی جانتے ہونگے کہ دھوبی کے کتے کی طرح وہ نہ ادھر کا رہینگے اور نہ ادھر کا، اس کے باوجود یہ بے شرمی اور لعنت کے زندگی کے چند دن اپنانا آخر کیوں؟
قوموں اور تحریکوں میں مفاد پرست اور بزدل طبقہ موجود ہوتا ہے اور پیدا ہوتے رہینگے لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں، فیصلوں اور رویوں پر غور کریں۔ دشمن کے اس گمراہ کن پروپگینڈے کو جھوٹ اور دھوکہ ثابت کرنا ہوگا جو ہمیشہ کہتا آرہا ہے کہ یہ آپ لوگوں کے لیڈر ایک دوسرے کو برداشت نہیں کررہے ہیں۔ یہ اپنے لیڈری اور پیسوں کیلئے آپس میں لڑرہے ہیں۔ آپسی اختلافات جو بھی ہیں لیکن آج قوم میں دشمن کے یہ خطرناک اور با اثر پروپگینڈہ اثرانداز ہورہا ہے اور لوگوں کی بدظنی اور راہِ فراریت کی اہم وجہ ثابت ہورہی ہے۔ اگر جلد اس پہلو پر ہمارے لیڈاران صاحبان سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتے اور آپس میں عملاً ایک ساتھ نہیں ہوتے تو شاید ریاست کا یہ پروپگینڈہ قوم میں مزید پختہ ہوگا جس کے باعث تحریک مزید نقصان سے دوچار ہوگا۔

среда, 13 сентября 2017 г.

سی پیک کا جنازہ :تحریر پیردان بلوچ 

دنیا میں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حالات میں بھی ڈرامائی انداز میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اگر گذشتہ پانچ سے دس سالوں کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جائے تو دنیا بھر میں حیرت انگیز تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں جو یقیناً بعض ممالک کے داخلی اور خارجی پالیسیوں پر بھی گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔
جہاں ایسے اصلاحات استعمال کیے جاتے ہوں کہ ہمارا کوئی مستقل دشمن نہیں اور نہ ہی کوئی مستقل دوست صرف ہمارے مفادات مستقل ہیں یا پھر یوں کہیے کہ دشمن کا دشمن ہمارا دوست ہے ۔۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستانی سیاسی اور فوجی مقتدرہ ایک راگ الا پتے رہے ہیں سی پیک کا یعنی (چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور ) جیسے پاکستان میں ترقی کے نئے مراحل، خطے میں انقلابی تبدیلیاں، پاکستان میں معاشی دھماکہ اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا ۔۔۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ چھیالیس سے باسٹھ 62 $ بلین ڈالر کا اپنے وقت کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے جو گوادر سے کاشغر تک پھیلایا جائے گا، جس سے پاکستان میں معاشی ترقی سے لے کر انفراسٹکیچر، جدید ٹرانسپورٹ سہولیات اور صنعتیں ترقی کے نت نئے مراحل میں داخل ہوگئی ہیں۔
بظاہرایک خوبصورت منظر کشی کے سوائے کچھ بھی نہیں ہے، تیرہ نومبر دو ہزار سولہ کو باقاعدہ اس منصوبے کو آپریشنل کیا گیا دھول کی تاپ پر بھنگڑے تک ڈالے گئے۔ دوسری طرف بلوچ قوم پرست تنظیمیں اور بلوچستان میں آزادی کیلئے برسرپیکار مسلح تنظیمیں اس پروجیکٹ کو شروع سے ہی مشکوک اور اپنی نسل کشی کا نیا منصوبہ قرار دے چکے ہیں۔ جس پر سیاسی جماعتیں مذمت اور مسلح تنظیموں کی جانب سے مزاحمت کا سلسلہ شروع دن سے جاری ہے۔ گوادر سے لے کر سی پیک روٹ کے گذرنے والے مختلف راستوں پر فوجی آپریشن کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، جو ہنوز شدت کے ساتھ جاری ہے۔ گوادر سے لے کر پسنی، جیونی، اورماڑہ، تربت، مستونگ اور بہت سے بلوچ علاقوں میں خون ریزی کی ایک نئی لہر شروع کی گئی ہے۔ بلوچ لاپتہ افراد کی فہرست دراز ہوتی جارہی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے، مشرف دور سے اب تک وہ مھٹی بھر فراری روزانہ ہھتیار ڈالتے ہیں روازانہ پانچ فراری کیمپ تباہ کرنے کے آئی ایس پی ار کے دعوئوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ نا جانے ابتک کتنے کیمپ یہ تباہ کرچکے ہیں اور کتنے ہزاروں فراری سرنڈری کروا چکے ہیں لیکن وہی مٹھی بھر افراد ابتک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور نا ختم ہونے کا دور دور تک امکان نظر آتا ہے۔
ہر ذی شعور اور سیاست و ریاست کو سمجھنے والا جانتا ہے کہ پاکستان میں داخلہ پالیسی سے لے کر خارجہ پالیسی پر کنڑول فوج کے پاس ہے اور یہ نہ پاکستانی منتخب قومی اسمبلی میں مرتب کی جاتی ہے اور نہ قانون سازی کے ایوان سینٹ میں بلکہ جی ایچ کیو میں کور کمانڈر ہی پاکستانی اندرونی بیرونی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں۔ جن کی مختلف اوقات پاکستانی ریاست بھاری قیمت بھی ادا کرچکی ہے۔
دوسری جانب گوادر میں چین کی موجودگی امریکہ سمیت انڈیا اور دوسرے چھوٹے بڑے ممالک کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے جہاں کہا جارہا ہے کہ چین بلوچ ساحل پر اپنے عسکری کیمپ یا ملٹری بیس قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف بلوچ مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی بلوچ قیادت کی جانب سے گوریلا کاروائیاں تیز کرنے کا اعلان کے بعد سی پیک سے منسلک پلوں اور کام کرنے والی فوجی کنسٹریکشن کمپنی (ایف ڈبلیو او) پر متواتر کئی حملے کیئے جاچکے ہیں۔ جس سے جانی اور مالی نقصانات کی بھی اطلاعات مقامی میڈیا کے ساتھ پاکستانی میڈیا پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
جبکہ امارات حکومت بھی وقتاً فوقتاً گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار زرائع ابلاغ کے زریعے کرچکا ہے۔
قدم قدم پر سیکورٹی کے انتظامات، چیک پوسٹیں، دھماکوں کی آوازیں، ریڈ الرٹ پر کھڑی آرمی اور گوادر شہر و گرد نواح کو جس طرح سے چھاؤنی میں تبدیل کیا گیا ہے۔ جس دن سے گوادر کو ایک فوجی چھاونی بنادیا گیا اسی دن سے ہی سرمایہ کار یہ سمجھ چکے تھے کہ یہاں سرمایہ کاری کرنے کا مطلب مالی خسارے کے علاوہ کچھ نہیں اور جہاں سیکورٹی کے غیر معمولی انتظامات ہوں وہاں سمجھ لینا چاہیے کہ سیکورٹی خدشات کتنے بڑے پیمانے پر ہونگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے نئی افغانستان پالیسی کا اعلان جیسے ہی کیا، وہیں پاکستانی ٹاک شوز میں پاکستانی دفاعی اور سیاسی تجزیہ کار دبے لفظوں، یہ اظہار کرتے نظر آئے کہ یہ افغانستان پالیسی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف ایک محاذ ہے، جو پہلے سے کھلا ہوا تھا مگر اب اسکا اعلانیہ اظہار کیا گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس پالیسی بیان کے بعد جلد ہی بین القوامی فوجی اتحاد نیٹو کے سربراہ نے پاکستان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا جس میں دہشت گردوں کو پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں پر گھس کر مارنے کا عندیہ دیا تھا کا خیر مقدم کیا تھا۔
گذشتہ دنوں امریکہ میں قائم پاکستانی حبیب بینک کی نیو یارک برانچ کو بھاری جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ مذکور بینک شدت پسندی کو فروغ دینے میں فنڈنگ کرتی ہے۔
دوسری طرف پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی عدالت کے زریعے برطرفی کے بعد کوئی وزیر و مشیر سی پیک کا نام تک نہیں لے رہی ہے، جو صحافی پہلے حکومت اور فوج کی زبان بولتے تھے اور جن پاکستانی صحافیوں کو فوج کے نزدیکی جرنلسٹ ہونے کا اعزاز حاصل تھا، انکی طرف سے سی پیک کے خلاف پروپیگنڈہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت پاکستان اور فوجی قیادت یہ بھانپ گئے کہ سی پیک پروجیکٹ کو طول دینے کا مطلب اپنے لیئے ہی تباہی کا پیغام لانا ہے۔ اب اس بات کو سمجھنے کے لیے گزشتہ دنوں راولپنڈی میں سی پیک سے مطلق ریکارڑ رکھنے والے بلڈنگ میں آگ لگ جانا اور پھر ریکارڈ کا جل کر خاکستر ہونا بہت سے اشارے دے رہی ہے۔
چائینا پاکستان اکنامک کوریڈور کی لاش اوندھے منہ پڑی ہے اب جنازے اور دفنانے کا اعلان یا تو چین کی طرف سے ہوگا یا پاکستان کی طرف سے کیا جائے گا یہ دیکھنا باقی ہے۔ 
This article was first published in The Balochistan Post on 12 September 2017

среда, 6 сентября 2017 г.

بی آر اے کے سینئر رہنما گلزار امام بلوچ

گلزار امام: میں آج یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے کسی مذہبی تنظیم کے ارکان کو کسی ملک کے حوالے نہیں کیا ہے۔ البتہ جو الزامات خدا کے یہ فرشتے مجھ پر لگارہے ہیں، انہی فرشتوں کے ہمنوا طالبان نے ہمارے تنظیم کے دو اہم کمانڈروں سمیت دس بلوچوں کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ اب ہمارے ان دس ساتھیوں کا جواب کون دیگا؟ میرے نزدیک پاراچنار میں خود کش دھماکے کرنے والا جنداللہ اور اس جنداللہ و جیش العدل کے کمانڈ اینڈ کنٹرول و پروگرام میں کوئی فرق نہیں۔ یورپ میں بیٹھے ایک لیڈر اور اسکے ساتھ بیٹھے کچھ ہمنواوں کی نظر میں جیش العدل ایک آزادی پسند بلوچ تنظیم ہوسکتا ہے لیکن میں نے ان تنظیموں کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ یہ تنظیم خالصتاً سنی شدت پسند تنظیم ہے جو بلوچ کے نام کو بطور ایک کارڈ استعمال کررہی ہے، جس کی پشت پناہی براہ راست سعودی عرب کی فاشسٹ شاہی حکومت کررہی ہے۔ میں موقع کے مناسبت سے آج ان تنظیموں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ محض مغربی بلوچستان میں متحرک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پاکستانی خفیہ اداروں سے تعلقات کی نفی کرتے ہیں تو پھر آپ بتائیں کے آج سے قریباً چار سال پہلے آپ نے منشیات فروشوں کے اپیل پر پنجگور کے علاقے تسپ میں ہمارے تنظیم کے ارکان پر مسلح حملہ کیوں کیا؟ اس حملے میں ہمارے دوست اپنا دفاع کرنے اور نکلنے میں تو کامیاب ہوگئے تھے لیکن ہمارے تنظیم کے چھ موٹر سائیکل وہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ موٹر سائیکل آج بھی آپ صاحبان کے پاس ہیں۔ آپ کے مولانا عامر صاحب مجھے ان موٹرسائیکلوں کی حوالگی کیلئے تسپ پنجگور بلانا چاہتے تھے کیونکہ اسکے پیچھے براہ راست کمانڈنٹ پنجگور کا ہاتھ تھا۔ ان حضرات کا مقصد بلوچیت کے نام پر دیوان کرنا اور دوسری طرف ریاست کے ہاتھوں مجھے مارنے کی سازش تھی۔ بقول آپکے کہ ہم تین سالوں سے آپ کیلئے مسئلے پیدا کررہے ہیں تو پھر چار سال پہلے آپ کیا کررہے تھے؟ یورپ میں بیٹھے جن حضرات کے مالی مفادات آپ سے وابستہ ہیں وہ شاید آپ لوگوں کے حقیقیت سے ناواقف ہوں لیکن ہمیں بخوبی علم ہے کہ مغربی بلوچستان کیلئے جدوجہد کرنے کا دعویٰ کرنے والے ان تنظیموں کے کیمپوں میں شام و اردن کے عرب بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ محض بلوچ تنظیمیں ہیں تو پھر وزیرستان سے آئے ہوئے پٹھان ان کو ٹریننگ دینے کیونکر پہنچتے ہیں۔ مفتی شاہ میر پیدارکی جو سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کے شہادت کا ذمہ دار ہے  وہ تربت میں آپکے تنظیم کے دیوان میں کن مفادات اور کس حیثیت سے بیٹھتا ہے؟ بہر حال میرے نزدیک اس کالے جھنڈے والے جیش العدل اور کالے جھنڈے والے داعش میں کوئی بھی فرق نہیں۔ یہ دونوں ہی مذہبی جنونی تنظیمیں ہیں جو پاکستانی خفیہ اداروں کی ایماء پر لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپوں میں ٹریننگ لیکر بلوچیت کے نام پر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

вторник, 5 сентября 2017 г.

بی آر اے کے سینئر رہنما گلزار امام بلوچ کے ساتھ ایک خصوصی نشست
گلزار امام بلوچ کا تعلق بلوچستان کے علاقے پنجگور سے ہے۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بطورایک طالبعلم طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ وہ بی ایس او آزاد پنجگور زون کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ بعد ازاں جب سیاسی کارکنوں پر ریاستی کریک ڈاون شروع ہوگئی اور شہروں میں رہ کر پر امن سیاسی جدوجہد نا ممکن ہوگیا، تو انہوں نے سیاست سے کنارہ کش ہونے کے بجائے اپنے جدوجہد کا طریقہ کار بدل کر مسلح مزاحمت کا راستہ چنا اور مسلح مزاحمتی تنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی کا حصہ بن گئے اور بہت جلد اپنے مخلصی اور ذہانت سے وہ بی آر اے کے اہم کمانڈروں میں شمار ہونے لگے ۔ بلوچستان کے علاقے مکران میں بلوچ ریپبلکن آرمی کو منظم کرنے میں انکا ایک اہم کردار ہے۔ اب وہ بی آر اے مکران کے کمانڈر کے حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں دی بلوچستان پوسٹ تربت کے نامہ نگار نے ان سے ایک نامعلوم مقام پر ملاقات کی اور موجودہ حالات کے بابت انکا انٹرویو لیا جو قارئین کے خدمت میں پیش ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:آپ ایک پرامن سیاسی کارکن کے حیثیت سے جانے جاتے تھے، کیا وجہ ہے کہ آپ نے پر امن سیاست پر مسلح مزاحمت کو ترجیح دی؟
گلزار امام: میں بنیادی طور پر ایک سیاسی ورکر ہوں اور میں نے ہمیشہ سے ہی بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں مسلح جدوجہد سے زیادہ سیاسی جدوجہد کو اولیت دی ہے، لیکن ریاست نے مسلح جدوجہد سے زیادہ سیاسی جدوجہد کو زھرِ قاتل سمجھا اور سیاسی جدوجہد کے تمام دروازے بند کردیئے۔ بلوچ آزادی پسند پر امن سیاسی کارکنوں کے خلاف بد ترین کریک ڈاون کا آغاز کردیا گیا اور اس دوران ہمارے سینکڑوں سیاسی دوستوں اور رفقاء کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔حالات ایسے ہوگئے کے سرفیس پر رہ کر کوئی بھی سیاسی سرگرمی کرنا گولیاں چلانے سے کئی گنا زیادہ مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا۔ ان حالات کی وجہ سے میں نے اپنے عظیم سیاسی استاد سنگت ثناء بلوچ سے مشورہ کیا۔ ان کے صلاح و مشورے سے میں نے مسلح مزاحمت کا راستہ اپنایا جو تاحال جاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ : کیا بلوچ آزادی پسند سیاست میں اب واحد راستہ بندوق کا رہ چکا ہے یا اب تک عدم تشدد کا راستہ باقی ہے؟
گلزار امام: بلوچ نوجوانوں کے ہاتھوں میں موجود بندوق بھی شعور اور سیاسی علم کا تابع ہے اور اسی موجود بندوق کی طاقت نے پاکستان کی کمر توڑ دی ہے۔ بیرونی سرمایہ کار اور پاکستان جس ملی بھگت سے بلوچ وطن میں لوٹ مار کررہے ہیں اب وہ عدم تحفظ کا شکار ہوگئےہیں۔ اب بیرونی سرمایہ کار یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تیل کی تلاش کرنے والے جن بڑی کمپنیوں نے گذشتہ ماہ عدم تحفظ کے بنا پر اپنے کام بند کرنے اور پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا ان کمپنیوں میں سے دو کمپنیاں بلوچستان کے علاقے اورماڑہ اور ڈیرہ بگٹی میں بھی موجود تھیں اور تیل و گیس کے تلاش کا کام کررہے تھے ان کمپنیوں پر بلوچ ریپبلکن آرمی کے سرمچاروں نے متعدد حملے کیئے تھے۔ پر امن اور عدم تشدد کی سیاست صرف ان مہذب ممالک میں ممکن ہے جہاں ریاست انسانی جان و عزت کی قدر جانتی ہو۔ جہاں انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی پاسداری ہو۔ سیاسی کارکنوں کو سیاسی آزادی حاصل ہو، لیکن پاکستان جیسے ملک میں پر امن سیاسی جدوجہد کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بہر حال ہم بلوچستان میں جس بھی جدوجہد کا قائل ہوں، وہ عدم تشدد کی سیاست ہو یا پھر مسلح جدوجہد جب مقصد بلوچ وطن کی آزادی ہو تو پھر ریاست دونوں کو یکساں طور پر ہی کریش کریگا لیکن جب بندوق ہاتھ میں ہوگی تو آپ کم از کم اپنا دفاع تو کرسکتے ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ:بلوچ سیاسی حلقوں میں یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ بی آر اے میں اب تک قبائلی اثر و رسوخ کی چھاپ باقی ہے، ایسے حالت میں آپ بی آر اے کا غیر قبائلی چہرہ ظاہر ہوتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ آپ نے جہدوجہد کیلے بی آر اے کا ہی پلیٹ فارم چنا؟
گلزار امام: بلوچ قومی جدوجہد کو طبقوں میں تقسیم کرنا بلوچ قومی آزادی کی جنگ کیلئے ایک المیہ ثابت ہوسکتا ہے۔ مکران کے علاوہ بلوچستان کے اکثریتی خطے قبائلی و نیم قبائلی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ آپ بلوچستان اور بلوچ تحریک آزادی میں قبائل کے کردار سے ہر گز انکار نہیں کرسکتے۔ بقولِ ماسٹر سلیم اہم چیز رویہ ہے اور یہی میرے نزدیک اہمیت رکھتا ہے۔ اگر قبائلی پس منظر رکھنے والے لیڈر یا کیڈر کا رویہ ایک سچے سیاسی کارکن جیسا ہے تو یہاں پس منظر اہمیت نہیں رکھتی اور اگر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کسی لیڈر یا کیڈر کا رویہ اختیار ملنے کے بعدکسی سردار، میرو منسٹر کی طرح بن جائے تو پھر آپ کیا کہیں گے کون بہتر ہے؟ جہاں تک بی آر اے کا تعلق ہے تو اسکے اکثریتی سرمچار آپکے اور میرے جیسے عام بلوچ ہیں جو پورے بلوچستان میں وطن کی آزادی کے خاطر لڑرہے ہیں۔ وہ کوئی قبائلی علاقے کی نہیں بلکہ پورے بلوچستان کے آزادی کی خاطر جدجہد کررہے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کے مزاحمتی نظریات و افکار اور انکے لازوال قربانی سے متاثر ہوں اور انکے سیاسی فلسفے کا قائل ہوں۔ بلوچ ریپبلکن آرمی کا قیام بھی شہید اکبر خان بگٹی کے نظریات و افکار کے بنیاد پر ہوا تو فکری ہم آہنگی کے بنیاد پر میں نے جدوجہد کیلئے بی آر اے کا چناو کیا۔ میرے نزدیک کسی بھی طبقے سے تعلق رکھنے والے بلوچ کو جو اب مزاحمتی یا سیاسی عمل کا حصہ بن چکا ہے، اسے خاندانی پس منظر نہیں بلکہ انہیں تنظیم و ادارہ اور مظبوط ڈسپلن قومی تحریک کا پابند بناتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس وقت بلوچستان کی آزادی کی جنگ میں کئی مسلح جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جو ایک طریقہ کار اور مقصد رکھنے کے باوجود خود ایک نہیں ہوسکتے، اس تقسیم و تضاد کی وجہ کیا ہے؟
گلزار امام: یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بلوچ عسکری قوت ٹکڑوں میں تقسیم ہونے کے سبب وہ قوت حاصل نہیں کرپائی جو وہ متحد ہوکر حاصل کرپاتی۔ اس میں ذاتی پسند و ناپسند، بلوچی ضد و انا، خود پرستی، عدم خود شناسی اور عدم بھروسہ جیسے وجوہات کارفرما ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ ہم متحد ہونے سے کتراتے ہیں۔ میری ذاتی تجویز اور سوچ یہ ہے کہ تمام مزاحمتی تنظیمیں اپنی اپنی تنظیمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مشترکہ مزاحمتی فرنٹ تشکیل دیں ۔ جس میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حتیٰ کے نومولود تنظیم بلوچ ریپبلکن گارڈ تک شامل ہو۔ یوں ہم ایک مضبوط قوت تشکیل دینے کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: کیا آپ کو لگتا ہیکہ بلوچ آزادی پسند قوتیں مستقبل میں اتحاد کی طرف جاسکتے ہیں؟
گلزار امام: اگر ہر بلوچ لیڈر کے مفادات گروہی و ذاتی سے بالاتر ہوکر قومی بن جائیں تو پھر اتحاد میں بھلا کونسی چیز رکاوٹ ہوسکتا ہے یا ہوگا؟ میرے نزدیک بلوچ قوم میں ایک ایسے قومی لیڈر کا فقدان ہے جو اپنے گروہ کی سیاست سے بالاتر ہوتے ہوئے قومی مفادات کو زیادہ ترجیح دیتا ہو۔ سیاسی اتحاد کی صورت میں ہر ایک کو اپنے پیش امامی کی اہمیت کے کمی کے غم نے نڈھال کردیا ہے۔ بہرحال میں پر امید ہوں کہ عالمی حالات کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ذمینی حالات کے تقاضوں کا اداراک رکھتے ہوئے ہمارے گروہ لیڈران قومی اتحاد کی جانب گامزن ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ:اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچوں کو عالمی دوستوں کی ضرورت ہے لیکن آپ پر الزام ہیکہ آپ عالمی دوستوں کی تلاش میں مغربی بلوچستان کو بھول چکے ہیں اور اس خطے میں قابض ایران سے سمجھوتہ کر بیٹھے ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے؟
گلزار امام: بلوچ چاہے مغربی بلوچستان میں ہوں یا مشرقی بلوچستان ان سب کا دکھ درد ہم یکساں طور پر محسوس کرتے ہیں۔ سب کیلئے میرا دل ہر وقت یکساں خون کے آنسو روتا ہے اور میں تمام بلوچوں کےلئے جدوجہد کررہا ہوں چاہے وہ مغربی بلوچستان کے ہوں یا مشرقی بلوچستان کے۔ میرا ایران کے ساتھ تعلقات کے الزامات محض لغو ہیں جن کا ذمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں البتہ مشرقی بلوچستان میں پاکستانی ظلم و بربریت سے تنگ آکر پچاس ہزار سے زائد بلوچ مرد، خواتین و بچے ہجرت کرکے مغربی بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں وہاں کے عام بلوچوں کے گھر بلوچیت و انسانی ہمدردی کے بنیاد پر پناہ لیئے ہوئے ہیں۔ اگر یورپ میں بیٹھے ہوئے کسی حضرت کو ان بلوچ مہاجرین کا ایران میں موجودگی پر کوئی اعتراض ہے اور وہ اس تعلق کو ایرانی ایجنٹ گری سے تعبیر کرتا ہے تو وہ ان بلوچ مہاجرین کیلئے کوئی دوسرا حل نکالے پھر یہ تمام مہاجرین ایران سے دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ:ایرانی حکومت کے خلاف سرگرم عمل مذہبی تنظیم جیش العدل نے اپنے ایک حالیہ بیان میں بی آر اے، بی ایل ایف اور بالخصوص آپ پر الزام لگایا ہے کہ آپ نے انکے جنگجو گرفتار کرکے ایران کے حوالے کردیئے ہیں اور ان پر دو مرتبہ حملے کیئے ہیں۔ آپ اس بابت کیا کہنا چاہیں گے؟
گلزار امام: میں آج یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں نے کسی مذہبی تنظیم کے ارکان کو کسی ملک کے حوالے نہیں کیا ہے۔ البتہ جو الزامات خدا کے یہ فرشتے مجھ پر لگارہے ہیں، انہی فرشتوں کے ہمنوا طالبان نے ہمارے تنظیم کے دو اہم کمانڈروں سمیت دس بلوچوں کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کیا ہے۔ اب ہمارے ان دس ساتھیوں کا جواب کون دیگا؟ میرے نزدیک پاراچنار میں خود کش دھماکے کرنے والا جنداللہ اور اس جنداللہ و جیش العدل کے کمانڈ اینڈ کنٹرول و پروگرام میں کوئی فرق نہیں۔ یورپ میں بیٹھے ایک لیڈر اور اسکے ساتھ بیٹھے کچھ ہمنواوں کی نظر میں جیش العدل ایک آزادی پسند بلوچ تنظیم ہوسکتا ہے لیکن میں نے ان تنظیموں کو بہت نزدیک سے دیکھا ہے۔ یہ تنظیم خالصتاً سنی شدت پسند تنظیم ہے جو بلوچ کے نام کو بطور ایک کارڈ استعمال کررہی ہے، جس کی پشت پناہی براہ راست سعودی عرب کی فاشسٹ شاہی حکومت کررہی ہے۔ میں موقع کے مناسبت سے آج ان تنظیموں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ محض مغربی بلوچستان میں متحرک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پاکستانی خفیہ اداروں سے تعلقات کی نفی کرتے ہیں تو پھر آپ بتائیں کے آج سے قریباً چار سال پہلے آپ نے منشیات فروشوں کے اپیل پر پنجگور کے علاقے تسپ میں ہمارے تنظیم کے ارکان پر مسلح حملہ کیوں کیا؟ اس حملے میں ہمارے دوست اپنا دفاع کرنے اور نکلنے میں تو کامیاب ہوگئے تھے لیکن ہمارے تنظیم کے چھ موٹر سائیکل وہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ وہ موٹر سائیکل آج بھی آپ صاحبان کے پاس ہیں۔ آپ کے مولانا عامر صاحب مجھے ان موٹرسائیکلوں کی حوالگی کیلئے تسپ پنجگور بلانا چاہتے تھے کیونکہ اسکے پیچھے براہ راست کمانڈنٹ پنجگور کا ہاتھ تھا۔ ان حضرات کا مقصد بلوچیت کے نام پر دیوان کرنا اور دوسری طرف ریاست کے ہاتھوں مجھے مارنے کی سازش تھی۔ بقول آپکے کہ ہم تین سالوں سے آپ کیلئے مسئلے پیدا کررہے ہیں تو پھر چار سال پہلے آپ کیا کررہے تھے؟ یورپ میں بیٹھے جن حضرات کے مالی مفادات آپ سے وابستہ ہیں وہ شاید آپ لوگوں کے حقیقیت سے ناواقف ہوں لیکن ہمیں بخوبی علم ہے کہ مغربی بلوچستان کیلئے جدوجہد کرنے کا دعویٰ کرنے والے ان تنظیموں کے کیمپوں میں شام و اردن کے عرب بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر یہ محض بلوچ تنظیمیں ہیں تو پھر وزیرستان سے آئے ہوئے پٹھان ان کو ٹریننگ دینے کیونکر پہنچتے ہیں۔ مفتی شاہ میر پیدارکی جو سینکڑوں بلوچ نوجوانوں کے شہادت کا ذمہ دار ہے  وہ تربت میں آپکے تنظیم کے دیوان میں کن مفادات اور کس حیثیت سے بیٹھتا ہے؟ بہر حال میرے نزدیک اس کالے جھنڈے والے جیش العدل اور کالے جھنڈے والے داعش میں کوئی بھی فرق نہیں۔ یہ دونوں ہی مذہبی جنونی تنظیمیں ہیں جو پاکستانی خفیہ اداروں کی ایماء پر لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپوں میں ٹریننگ لیکر بلوچیت کے نام پر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ:سی پیک کو آپ بلوچ کے بقا و خوشحالی کے تناظر میں کیسے دیکھتے ہیں؟
گلزار امام: مستقبل میں پاکستان کے معاشی بقا کا انحصار مکمل طور پر بیرونی سرمایہ داری سے ہی وابستہ رہے گا۔ سرمایہ کاری کے تمام ذرائع بلوچ وطن میں موجود ہیں۔ بلوچ وطن جیو اسٹریٹیجک حوالے سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دوسرے اہم قوتوں کیلئے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے حالات میں بلوچ ساحل و وسائل نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر سامراجی ممالک سے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سی پیک ہو یا سیندک پروجیکٹ یا کوئی بھی اور میگا پروجیکٹ، میرے نزدیک یہ سب پاکستان پنجابی کے معاشی مفادات کیلئے عالمی منڈیوں میں بلوچستان کو نیلام کرنا ہے۔ جب تک بلوچ خود آزاد نہیں ہوتا اور اپنے وسائل اپنے ہاتھ میں نہیں لیتا تب تک بلوچ کسی بھی پروجیکٹ سے خوشحال نہیں ہوسکتا۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو اس سے اب تک ہمیں جلے ہوئے گھر، کھنڈرات میں تبدیل ہوئے گاؤں اور مسخ شدہ لاشوں کے انبار ہی نصیب ہوئے ہیں۔ ان سے بلوچ کی خوشحالی اور بقا کی امیدیں لگانے والے دھوکے میں ہیں۔ سی پیک سے محض پاکستانی جنرل خوشحال ہونگے اور انکی آرمی مضبوط ہوگی کیونکہ سارے ٹھیکے انکے ہاتھوں میں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:کیا بلوچ میں اتنی قوت ہیکہ وہ بلوچ سرزمیں پر جاری سی پیک اور دوسری عالمی صف بندیوں کے سامنے رکاوٹ بن سکے یا انھیں روک سکے؟
گلزار امام: جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ رہا تھا کہ بلوچ مزاحمت کی وجہ سے پہلے سے ہی عدم تحفظ کے بنا پر بلوچستان سے غیر ملکی سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں اور جو بچے ہوئے ہیں وہ بھی سخت فوجی حصاروں کے اندر جان جوکھوں میں ڈالتے ہوئے بیٹھے ہیں اور بھاگنے کے موقعے تلاش رہے ہیں۔ اس وجہ سے بہت سے پروجیکٹ یا تو بند ہوچکے ہیں یا سست روی کا شکار ہیں۔ جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے اس سامراجی منصوبے کے خلاف بلوچ سخت مزاحمت کررہے ہیں۔ شاید بے دریغ کشت و خون سے پاکستانی فوج سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی دے لیکن بلوچ وطن میں بلوچ مرضی کے بغیر امن کا ضامن کون بن سکتا ہے؟ بلوچ اس وقت دو سامراجی قوتوں چین اور پاکستان سے بیک وقت لڑ رہے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہم یہ لڑائی جیت رہے ہیں کیونکہ سرمایہ دار سیکیورٹی کے مخدوش صورتحال کے سبب بلوچستان میں سرمایہ کاری سے انکاری ہیں۔ چین بھی اس خطے میں امن نا ہونے کے سبب اپنے تحفظات کا اظہار کرچکا ہے۔ بہر حال ہمیں مزید صف بندیوں کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان اس نام نہاد سی پیک کو کامیاب بنانے کیلئے بلوچوں کو مکمل طور پر کچلنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ:کیا وجہ ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود بلوچ تحریک اتنی پزیرائی حاصل نہ کر پائی جتنا کہ یہ حقدار ہے، کیا یہ بلوچ سفارتکاری کی ناکامی ہے کہ بلوچ خود کو ایک فیصلہ کن قوت ثابت نہ کرسکے؟
گلزار امام: میں بہرحال سیاسی دوستوں کی بیرون ملک سیاسی جدوجہد اور سفارتکار ی کو کسی حد تک تسلیم کرونگا کہ منتشر ہی سہی لیکن کچھ کررہے ہیں۔ گو کہ دنیا کے سامنے ہم خود کو ایک قوت ثابت نہیں کرسکے لیکن ہم دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ہم پاکستانی غلامی کو تسلیم نہیں کرتے اور اپنے وطن کے آزادی کیلئے لڑرہے ہیں، لیکن دنیا عسکری قوت کو بہت اہمیت دیتا ہے اور ہم اب تک عسکری حوالے سے کمزور ہیں۔ ہمارا موثر ترین ہتھیار کل بھی آر پی جی سیون تھا اور آج بھی وہی ہے ۔ ہمیں ایک فیصلہ کن عسکری قوت بننے کیلئے مزید محنت کرنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ:ایک عام خیال یہ سامنے آرہا ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے قوت سے بلوچ تحریک پر حاوی ہورہا ہے اور بلوچ طاقت منتشر ہورہی ہے اس میں کتنی صداقت ہے ؟
گلزار امام: یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام کے اندر سے اٹھنے والی حقیقی تحریکیں کبھی ریاستی طاقت کے ذریعے منتشر نہیں ہوئے اور نہ ہی ہم منتشر ہونگے۔ ہاں حالیہ دنوں میں کچھ لوگ تحریک کے صفوں سے جدا ہوکر ریاست کے سامنے سجدہ ریز ہوکر گھر بیٹھ گئےہیں۔ جن کے انتہائی قلیل تعداد کو ریاست نے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ تحریک ایک تتقیری عمل ہے۔ اس میں فکر و نظریہ سے عاری جذباتی لوگ دباؤ کے بعد الگ ہوتے رہتے ہیں اور نیا خون نئے ولولے کے ساتھ شامل ہوتا رہتا ہے۔ کوئی اگر اسکو تحریکی انتشار سے تعبیر کرتا ہے تو پھر وہ انکی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ:آنے والے پانچ سالوں کو بلوچ و بلوچ تحریک کیلے انتہائی اہم گردانا جارہا ہے ، آپ ان پانچ سالوں کے بعد تحریک کو کہاں دیکھتے ہیں؟
گلزار امام: میری نظر میں ان سالوں میں ہماری ذمہ داری ہے کہ گراؤنڈ پر موجود سیاسی خلاء کو پر کریں۔ ہمارے لیڈرشپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ریاستی بربریت کے باوجود بلوچستان کے گراؤنڈ خاص کر شہری علاقوں میں بلوچ عوام سے رابطے تیز کریں اور رابطوں کے مسقتل ذرائع تشکیل دیں۔ اس وقت ریاست ہمیں اپنے عوام سے دور رکھ کر اپنے پالیسیاں ان پر تھونپنا چاہتا ہے اور اپنے پروپگینڈہ سے انہیں تحریک سے دور کرنا چاہتا ہے۔ عوام ریاستی بربریت کے باوجود آزادی پسند پارٹیوں سے روابط میں رہنا چاہتی ہے۔ اس بابت بلوچ آزادی پسند گروہوں کو انقلابی فیصلے کرنے ہونگے تاکہ دنیا ہمیں سیاسی و عسکری کمک مہیا کرے۔ ہمیں آنے والے سالوں میں اپنے عسکری قوت میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ ہمیں ایک طاقت بن کر دشمن کو مجبورکرنا پڑے گا کہ وہ بلوچستان  سے دستبردار ہوجائے۔
دی بلوچستان پوسٹآپ ایک کیسے آزاد بلوچستان کیلے لڑرہے ہیں؟
گلزار امام: میں ایک ایسے آزاد بلوچستان کیلئے لڑ رہا ہوں جہاں کا حکمران بھی وطن کے سڑکوں کو صاف کرنے میں فخر محسوس کرے۔ ایک ایسا وطن جہاں سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف و آزادی ہو۔ جہاں کرپشن کو غداری تصور کیا جائے۔ جہاں تمام بلوچ برابری کے ساتھ خوشحالی کی زندگی گذاریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس جنگ کا منطقی انجام آپ کے نظر میں کیا ہے؟
گلزار امام: میرے نزدیک اس جنگ کا منطقی انجام اس خطے میں ایک آزاد بلوچ وطن سے کم کچھ بھی نہیں ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ قوم کے نام کوئی پیغام؟
گلزار امام: میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستانی سازشوں کا شکار نہ بنیں اور آزاد بلوچستان کے حصول کے اس جنگ میں وہ اپنی وابستگی مزید مضبوط کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ کا بہت شکریہ کے آپ نے ہم سے بات کرنے کی حامی بھری اور ہمارے قارئین کے سامنے اپنا نقطہ نظر واضح انداز میں رکھا۔