Powered By Blogger

суббота, 23 сентября 2017 г.


پاکستان داعش کی مدد کیوں کررہی ہے ؟ .....اسماعیل بلوچ


پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ سرتاج عزیز نے نہ چاہتے ہوئے بھی ،اْس کے منہ سے یہ بات نکل گئی کہ کوئٹہ جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں !! اگر سرتاج عزیز کے بیان کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضع طور پر عیاں ہوتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے عالمی دہشتگردی کا مرکز و دہشتگردوں کا محفوظ پناہ گاہ رہا ہے اور ہمیشہ سے پاکستان اس پالیسی پر گامزن ہے کہ عالمی دہشت گردی کی کفالت کی جائے اس لیے پاکستانی وزیر خارجہ کے نگاہ میں ایسے ’’چھوٹے موٹے واقعات‘‘کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان داعش کی مدد کیوں کررہی ہے ؟
اس سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے یا ہو رہا ہے ؟
اور داعش کے لیے پاکستان میں متحرک رہنا یا اپنے اڈے قائم کرنا کیوں اہم ہے ؟
تو میری ناقص رائے کے مطابق پاکستان میں اپنے اڈے قائم کرنا داعش کے لیے اس لیے اہم ہے کہ عراق اور سوریا میں داعش کوبْری طرح سے شکست ہوچکا ہے، اور اس کی پرانی ساکھ بے حد متاثر ہوئی ہے اس لیے داعش اب دنیا کے مختلف خطوں میں اپنے لیے نئے محفوظ مقامات اور وہاں نئی پناہ گائیں بنانے کی تلاش میں سر گرداں ہے اور داعش وہاں اپنی نئی پناگاہیں بناکر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے جس کی تازہ مثال افغانستان میں تورہ بورہ کے مقام پر تاریخی زیر زمین غاروں پر قبضہ اور امریکہ کی داعش کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی بم کا گرانا ہے اور مزید حال ہی میں طالبان اور داعش کی پاکستان کی مدد سے افغانستان میں مفاہمت ( واضع رہے کہ افغانستان میں طالبان اور داعش ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے)افغان ضلع سرپل پر قبضہ ہے ۔دوئم پاکستان داعش کے لیے اس لیے ایک بہترین ملک ہے کہ پاکستان میں داعش کے لیے تمام سہولیات دستیاب ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو داخلی قومی تحریکوں کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بطور پراکسی داعش کی ضرورت ہے اور داعش بھی پاکستان کی ہر شے کو استعمال کرکے اپنے اہداف تک بہ آسانی پہنچ سکتی ہے ، داعش کے دہشتگرد پاکستانی پاسپورٹ سے کسی بھی ملک میں بہ آسانی سفر کر سکتے ہیں ،پاکستانی الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنے پراپیگنڈہ اور برتی مہم کے لیے آزادانہ استعمال کرسکتی ہے ،یہاں آزادانہ طور پر اپنے جنگی و تربیتی کیمپس قائم کر سکتی ہے ۔گزشتہ سال یہ انکشاف ہوا تھا کہ پنجاب سے بڑی تعداد میں خواتین نے داعش میں شامل ہوکر داعش کی شدت پسندوں سے شادی کی ہے اور اْن عورتوں کا کہنا تھا کہ ہم ’’مجاہدین ‘‘ کی محض جنسی خواہشات پوری کرکے ’’جہاد ‘‘میں حصہ ڑال رہے ہیں۔
یہ تو تھے داعش کے فائدے مگر پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ داعش کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے سے پاکستان کو کیا فائدہ حاصل ہوگا ؟
جب پاکستان نے اپنی زمین سرکاری مشینری اپنے لوگ اپنے محفوظ پناگاہ داعش کے لیے وقف کیے ہیں۔ تو اس کے عوض پاکستان داعش سے لازماً اچھی خاصی رقوم وصول کرتی ہے اور داعش کے ذریعے بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنے کی کوشش تو یقیناً کررہا ہے ۔
بلوچستان میں داعش کے لیے عسکری کیمپ اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں کو داعش میں بھرتی کرنا بلوچستان میں بلوچ تحریک کو کاؤنٹر کرنا اور پاکستان کی سب سے اہم مقصد عالمی دنیا میں بلوچ مسئلے کو مذہبی و فرقہ وارانہ رنگ دیکر اصل مسئلے کودباکر غلط فہمیاں پیدا کرنا اور دنیا کو یہ باور کرنے کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں کوئی قومی آزادی کی تحریک نہیں چل رہی ہے بلکہ یہ تو محض ایک فرقہ وارانہ مسئلہ ہے کہ اس کے پیچھے بہت سے ملک سی پیک کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔
داعش جیسے دنیا کی امیر ترین دہشتگرد تنظیم سے پیسہ وصول کرنا اور پھر عالمی دنیا سے داعش کے خلاف لڑنے کے لیے بھی ڈالر اور فوجی امداد حاصل کرنے کی کوشش اور سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ امریکہ اور اْن ممالک کے دباؤ کو اپنے اوپرکم کرنا اور اْن کو یہ باور کرانا کہ پاکستان کسی اسلامی شددت پسند تنظیم کی مدد نہیں کررہی ہے بلکہ وہ خود دہشتگردی کا شکار ہے۔
صاف ظاہر ہے ایسے بڑے منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے اپنے لوگوں اور فوجیوں کے اوپر اور اْن مقامات پر حملہ کرانا کہ جو پاکستان کے دفاعی اساس ہوں جس سے دنیا باور کرسکے کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے۔جس سے دنیا پاکستان کی ہر طرح کی مدد کرے اور اس کے بعد پاکستان کا بلوچوں کے خلاف اور ہر اس قوم کے خلاف داعش کو استعمال کرنے کا منصوبہ ہے جو پاکستان میں آزادی یا حقوق کی جدوجہد کررہے ہیں یا پاکستان کے غلیظ حرکتوں پر تنقید کررہے ہیں۔
داعش کو ہندوستان کے خلاف بھی بہ آسانی استعمال کیا جاسکتاہے افغانستان کے خلاف تو داعش اور طالبان استعمال ہو ہی رہے ہیں۔ مگر یہ بات قابل غور ہے کہ اکثر ایسے غلیظ پالیسیوں کے نتائج برعکس ہوتے ہیں ،جس طرح ترکی نے کرد تحریک کے خلاف داعش کو استعمال کیا۔داعش کو آزادانہ نقل و عمل کی اجازت دی اور داعش کے زخمیوں کو اپنے ہسپتالوں میں علاج کی سہولتیں فراہم کیں اور داعش سے بلیک مارکیٹ میں کئی ہزار بیرل تیل سستے دام خریدا ۔اس سے ترکی عالمی دنیا میں تنقید کا نشانہ بھی بنا اور ہر فورم میں ترکی کو شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک قلیل عرصے کے بعد یہی داعش ترکی ہی پر حملہ آور ہوتا ہے ۔
اسی طرح پاکستان کی داعش پالیسی بھی پاکستان کے لیے ایک دن درد سر بن جائیگی۔ پاکستان یہ بھول چکاہے کہ امریکہ اور ترقی یافتہ ممالک اتنے بے وقوف نہیں ہیں جو اس طرح کے غلیظ پالیسیوں کو پہچاننے سے قاصر ہونگے اور اپنی امداد اور رقوم جاری کرکے پاکستان پر بھروسہ کرینگے اور نہ ہی ایسے ہتھکڑوں سے پاکستان بلوچ تحریک کو ختم کرسکے گی ۔
آج پاکستان کی وجود نہ صرف بلوچ ، پشتون اور سندھیوں کے وجود کے لیے خطرہ ہے بلکے پاکستان پورے دنیا کے لیے ایک خطرناک دہشتگرد ریاست بن چکا ہے۔
بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے 2016 میں اپنے ایک ٹویٹر پیغام کے ذریعے واضع کیا تھا کہ کس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بلوچستان کے علاقوں میں ذخیرہ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا تھا کہ خضدار کے علاقے ساسول میں پاکستانی افواج علاقہ مکینوں کو وہاں سے نکال رہا ہے، تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو ان علاقوں میں محفوظ رکھ سکے۔
اور گذشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اپناایک محفوظ اور مضبوط زیرزمین اسلحہ خانہ بلوچستان میں تعمیر کرچکا ہے جس کا مقصد بیلسٹک میزائلز اور کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا ہے ۔اور غور طلب بات یہ ہے کہ جہاں القاعدہ لشکر جنگوی طالبان شفیق مینگل جیسے اسلامی شددت پسندوں کے محفوظ پناگاہیں جو پاکستانی فوج اْس کی آئی ایس آئی اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثنا زہری کی سربراہی میں قائم ہیں اور حرکت میں ہیں وہاں اسی ہی علاقے خضدار میں پاکستان نے اسلحہ خانہ بنا رکھا ہے اور جوہری وکیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کیا ہوا ہے، اگر یہ جوہری اور کیمیائی ہتھیار داعش ، القائدہ کے ہاتھ آئیں تو کس طرح سے یہ دنیا میں تبائی مچاسکتے ہیں دنیا کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий