Powered By Blogger

четверг, 21 сентября 2017 г.


یوسف عزیز مگسی کا انقلابی ورثہ

۱۔ ریاست قلات:
درحقیقت یہی مرکزی بلوچستان ہے جہاں دارلسلطنت قلات (بلوچی)تھا۔ اس ریاست میں آئینی طور مندرجہ ذیل علاقہ جات تھے۔ قلات ،خاران، مکران،نوشکی، چاغی، مری،بگٹی وکھیتران قبائلی علاقہ جات، نیابت کوئٹہ و بولان اور کوہ سیلمان میں واقع بلوچ قبائلی علاقے اس ریاست کا حکمران خان قلات ہوا کرتا تھا۔
۲۔ برطانوی بلوچستان:
یہ چمن، ژوب، لورالائی ، دُکی اور دیگر پشتون قبائل علاقوں پر مشتمل تھا۔ یہ اضلاع برطانیہ نے معاہدہ گنڈمک کے تحت افغان حکمرانوں سے حاصل کیے اور یوں یہ اضلاع برطانوی ہند کا آئینی حصہ بن گئے(یاد رہے کہ ریاست قلات آئینی طور پر برطانوی ہند کا حصہ نہ تھی اوائل بیسویں صدی میں اصطلاح’’بلوچستان‘‘ کا اطلاق صرف برطانوی ہند کے صوبہ ’’برطانوی بلوچستان‘‘ پر ہوتا تھا۔ اس برطانوی بلوچستان میں متعدد بلوچ علاقوں کو ریاست قلات سے معاہدات کے تحت اجارہ پر حاصل کرکے برطانوی بلوچستان کی انتظامیہ کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔ ان علاقوں میں بلوچ قبائل علاقہ جات ، کوئٹہ، نوشکی،چاغی، بولان اور نصیر آباد کے علاقے شمار ہوتے تھے مگر آئینی طو ر یہ قلات کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ یوں برطانوی سیاسی و انتطامی اصطلاح میں’’بلوچستان‘‘ سے صرف برطانوی بلوچستان مراد لیا جاتا تھا۔ جغرافیائی و معاشی و اقتصادی طور پر یہ دونوں خطے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اس لئے یہاں دخل سے قبل آئین قلات کے تحت یہاں کا آئینی و سیاسی ڈھانچہ وفاق اور کانفیڈریسی کے اصولوں پر قائم تھا۔ یہاں کی اکثر آبادی قبائل ڈھانچہ پر استوار تھی۔ تبیلہ یا تمن(ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ۱۰ ہزار کے ہیں یعنی۱۰ پر مشتمل افراد کا قبیلہ لیکن یہ اصطلاح بعد میں۱۰ ہزار سے زائد یا کم قبیلہ پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے) اور ان کا راہنما(سردار یا تمندار) قومی اور ملکی امور میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔
سردار کا انتخاب قبائل کے جرگہ یا مجلس میں کیا جاتا تھا لیکن برطانوی عمل دخل میں سردار کا عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کو زمینیں عطا کرکے برطانوی عمل وخل میں سردار کو عہدہ موروثی بنا دیا گیا اور وفادار سرداروں کا جاگیریں عطا کرکے برطانوی عہد کے جاگیرداروں کے برابر مرتبہ دیا گیا۔ یوں بلوچ قوم کے صدیوں کی جمہوری اقدار پر چھاپہ مارا گیا۔ جس کے باعث بلوچ تمنات و قبائل نے برطانوی استعماراور سرداریت کے خلاف مسلح جدوجہد کی روایت قائم کی جس کا مقصود آزادی اور جمہوری انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔ آزادی کی مسلح جدوجہد کو استعمار نے سازشوں، اسلحہ کی برتری، قبائلی تضادات اور معاشی پسماندگی کی بنا پر ناکام بنا دیا تھا(جنگ عظیم اوّل میں اکثر و بیشتر قبائل نے خلافت عثمانیہ کی حمایت اور اپنی مکمل آزادی کے حصول کے لئے مسلح جہاد میں شرکت کی تھی لیکن یہ جدوجہد بھی معاشی، سیاسی و دفاعی عوامل کے سازگار نہ ہونے کی وجہ سے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی تھی۔ اس جدوجہد میں لاکھوں بلوچ شہید ہوئے یا قید کی سختیوں سے گزرے۔ ہزاروں افراد نے سویت یونین، عرب خلیج کے علاقوں، برطانوی ہند اور مشرقی افریقا کی طرف ہجرت کی تھی جس کا بلوچستان کی سیاسی و معاشی زندگی پر منفی اثر پڑا۔
ان حالات میں بلوچستان کے چند نوجوانوں نے ایک خفیہ تنظیم کا آغاز ۱۹۲۰ء میں کیا تھا۔ یہ تنظیم۱۹۲۹ء میں ایک سیاسی جماعت کی شکل میں ’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان‘‘ کے نام پر ابھری جس کی قیادت کے لئے میر محمد یوسف علی خان عزیز مگسی کا انتخاب عمل میں آیا۔ میریوسف علی خان عزیزؔ مگسی کی قیادت کا دور مئی ۱۹۳۵ ء تک محیط ہے جب وہ زلزلہ میں۳۰/۳۱ مئی کی شب شہادت سے ہمکنار ہو کر کوئٹہ میں دفن ہوئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
یوسف عزیزؔ کی شہادت نے بلوچستان اور عالم اسلام کو ایک ایسے فرزند سے محروم کر دیا جو مفکر بھی تھا اور مردمیدان(مجاہد)بھی۔ آج بھی اہل بلوچستان ان کی وفات پر نوحہ خواں ہیں۔ ان کے بے لوث خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے کردار و افکار پر عمل پیرا ہوں۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہم مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات ڈھونڈیں:
۱۔ محمد یوسف علی خان عزیزؔ کون تھے؟
۲۔ ان کے عملی زندگی کیسی تھی؟
۳۔ان کے افکار و نظریات کیا تھے؟
میر محمد یوسف علی خان بمقام جھل مگسی جنوری۱۹۰۸ء میں مگسی قبیلہ کے سردار و تمندار نواب قیصر خان کے ہاں متولد ہوئے(مگسی تُمن لدشار بلوچ قبیلہ کی شاخ ہے) محمد یوسف علی خان کی والدہ زہری قبیلہ کے سردار رسول بخش زرکزئی کی دختر نیک اختر تھیں۔زہری قبیلہ نے جنگ عظیم اوّل میں دیگر بلوچ قبائل کی طرح خلافت عثمانیہ کی حمایت میں مسلح جدوجہد میں حصہ لیا۔(سچ تو یہ ہے کہ بلوچ قبائل کی مسلح جدوجہد نے برطانوی ہند کی افواج کو عراق میں فوجی کاروائیوں کو غیر مؤثر بنا دیا تھا جس کا عثمانی افواج نے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ کے ہزاروں مسلح سپاہیوں مع برطانوی جنرل کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا تھا) جھالاوان کے ان مجاہدین کی نواب قیصر خان مگسی نے خفیہ مدد کی تھی۔
جنگ عظیم اوّل کے خاتمہ کے بعد برطانوی انتظامیہ نے اس جرم کی پاداش میں نواب قیصر خان مگسی کوبمعہ اہل خاندان برطانوی ہند کے شہر ملتان میں نظر بند کر دیا تھا۔ یوسف علی خان کی اوّلین علمی تربیت جھل مگسی میں پرائیوٹ طور پر کی گئی تھی۔ عربی و فارسی کے اساتذہ نے نہ صرف زبان و ادب بلکہ مسلم تاریخ وتمدن سے بھی ان کو آگاہی بخشی۔ انہی اساتذہ سے انہوں نے قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ قیام ملتان میں نوابزادہ محمد یوسف علی خان نے برطانوی ہند کی اور سیاسی فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی سامراج اور اس کی حکمت عملی کا مطالعہ کیا تھا نیزآپ نے برطانوی ہند کی تحریکات عدم تعاون، خلافت تحریک کے محرکات کے ساتھ ساتھ، مولانا ابوالکلام آزادو غیرہ کے افکار کا گہرامطالعہ کیا تھا جس کے اثرات نوجوان عزیز مگسیؔ کی تحرویروں اور تعلیمات میں عیاں ہیں۔
خلافت عثمانیہ کی تباہی و بربادی اور مسلح جہاد کی عارضی ناکامیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست قلات اور اس سے منسلک علاقوں میں برطانوی استعمار نے ظلم و جبر کو تیز تر کر دیا تھا تاکہ یہاں آزادی کے تصور کا گزر بھی نہ ہونے پائے۔ اسی جبر و بربریت کے خلاف نوجوان مجاہد میر محمد یوسف علی خان نے آواز اٹھائی اور اس کا آغاز ایک اخباری مضمون بعنوان’’فریاد بلوچستان‘‘ میں کیا۔ یہ مضمون لاہور کے اخبار ’’مساوات‘‘ میں۱۹۲۹ء میں شائع ہوا تھا۔ یوسف عزیزؔ نے لکھا تھا:’’آج ساری دنیا شاہراہ ترقی پر گامزن ہے مگر بلوچ ایسے سوئے ہوئے ہیں کہ جاگناناممکن معلوم ہوتا ہے۔ بلوچوں سے ہماری مخلصانہ درخواست ہے کہ خدا کے لئے ساری دنیا کو ہنسنے کو موقع نہ دیجیے۔ یہی وقت ہے اگر اسلاف کو خون آپ میں اب تک موجزن ہے تو اٹھیے جس طرح آپ کے اسلاف اٹھا کرتے تھے۔ سیاسی غلامی کی زنجیروں کو ایک نعرہ حریت لگا کر توڑ ڈالیے اور قوموں کے لئے مشعل راہ بن جائیے۔ باہمی حسد ورقابت اور ان لغویات کی بیخ کئی کیجیئے اور صرف آتش رقابت سے اپنے سینوں کو مشتعل کیجئے کہ جنگ آزادی میں تم سے زیادہ کوئی بہادر نہ نکلے اور تم سے پہلے کوئی جام شہادت نوش نہ کرے۔ خدا کے لئے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹائیے اور دیکھے تاریخ کیا کہتی ہے۔ مادروطن کی قربانیوں سے سبق حاصل کیجئے۔‘‘
میر یوسف علی کے اس آتش بیان و انقلابی پیام نے جہاں بلوچوں میں ایک نئی روح پھونکی وہاں استعمار اور اس کے گماشتوں کو خوف اور انتقام و جبر کی طرف مائل کر دیا تھا۔ برطانوی ایجنٹ برائے گورنر جنرل و ریز یڈنٹ (AGG & Resident)نے وزیراعظم قلات(سرشمس شاہ جن کا تعلق گجرات (پنجاب) سے تھا) کو اسی نئی انقلابی صورت حال کو بروقت کچلنے کا حکم دیا۔ یوں استعمار نواز قبائلی سرداروں کی ملی بھگت سے نوابزادہ محمد یوسف علی خان پر’’تخریب کاری‘‘اور بغاوت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس مضمون کو پڑھنا اور بلوچستان میں تقسیم کرنا خلاف قانون قرار پایا۔ نوابزادہ مگسی کو ایک سال کی قید اور دس ہزار نو سو روپے جرمانہ کی سزا دی گئی۔قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ سرداری و سرکاری جرگہ نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ یوسف علی خان نے غلط، خلل انداز اور فتنہ انگیز نظریات پھیلائے ہیں اور ان جرائم کی تمام تر ذمہ داری اس کے جدید نظریات اور تعلیمات پر عائد ہوتی ہے۔ بہر حال یوسف علی نے اس سزا کا کچھ حصہ جیل اور کچھ حصہ نظر بندی کی صورت میں بمقام گٹ زہری اپنے ماموں سردار میر رسول بخش زرکزئی(زہری) کی نگرانی میں گزارا۔
اس مختصرسے مضمون پر اتنی بھاری ظالمانہ سزا سے ان مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جو بلوچ قومی تحریک کے اولین راہنما کو درپیش تھے۔ انہی ایام میں زیر زمین سامراج دشمن تحریک’’ینگ بلوچ پارٹی‘‘ کے راہنما میر عبدالعزیز کردنے آپ سے جیل میں رابطہ قائم کیا اور گزارش کی کہ آپ بلوچ قومی تحریک کی قیادت کریں اور اس کی راہِ عمل متعین کریں جس پر بلوچ قومی تحریک عمل پیرا ہوا۔ آپ نے آزادی کے ان متوالوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے ایک متحدہ تنظیم اور ایک نصب العین پر یکجا ہونے کی ضرورت پر زور دیا اور یوں بلوچستان کی تاریخ اوّلین سیاسی جماعت’’انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آپ کو صدر منتخب کیا گیا۔
آپ بلوچی ، اردو اور فارسی میں شاعری کیا کرتے تھے۔ انقلابی شاعروں کی مانند آپ نے شاعری کو اپنے استعمار دشمن نظریات، آزادی وطن، سماجی ومعاشی انصاف، نمائندہ حکومت اور اسلام کے نظریہ عدل کے پرچار کا ذریعہ بنایا تھا۔ اتحاد پارٹی کے جنرل سیکریٹری میرعبدالعزیز کرد اور نائب صدر نوابزادہ عبدالرحمن خان بگٹی منتخب ہوئے۔ نوابزادہ بگٹی، یوسف عزیز کے قومی و اسلامی نظریات سے بے حد متاثر تھے جس کی پاداش میں ان کو اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کے عہدہ سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ ان کے والد نواب محراب خان بگٹی نے ان کو اپنی جانشینی سے معزول کر دیا ۔ انقلابی نظریات کی بدولت ان کو بمقام رانچی(انڈیا) اور جیکب آباد میں قیدو نظربند کیا گیا۔ ان کی بجائے ان کے چھوٹے بھائی نواب محمد اکبر خان کو بگٹی قبیلہ کا سردار مقرر کیا گیا تھا۔ اتحاد پارٹی نے اپنے اولین جلسہ بمقام کوئٹہ۱۹۳۱ء میں مندرجہ ذیل لائحہ عمل کو اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔
۱۔ سرداری نظام کا خاتمہ
۲۔ بلوچستان کے مختلف حصوں کا اتحاد اور آئینی و جمہوری نظام کا اجراء
۳۔ بلوچستان میں تعلیم کا پھیلاؤ
۴۔ جمہوری و آئینی ذرائع کے حصول میں ناکامی کی صورت میں مسلح جدوجہد کی تیاری
۵۔ غیر استحصالی نظریات پر مبنی اسلامی معاشرہ کا قیام
ان مقاصد کے حصول کے لئے یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھیوں نے برطانوی بلوچستان میں محدود قانونی رعایتوں اور ریاست قلات کے قدیم دستور میں دی گئی آئینی رعایتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچوں میں سیاسی بیداری پیدا کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ آپ کی قیادت میں اتحاد پارٹی نے جیکب آباد(اصل نام خان گڑھ) میں اور حیدر آباد (سندھ) میں۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۳ء میں’’بلوچ و بلوچستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا تھا۔ ان کانفرسوں میں بلوچستان اور ریاست قلات سے مختلف قومیتوں اور برطانوی ہند کے صوبہ جات(سندھ۔پنجاب وسرحد) کے بلوچ نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ ان اجلاسوں میں مندرجہ ذیل قرار داد منظور کی گئیں:
۱۔ بلوچستان کے متعدد حصوں کا اتحاد اور مکمل سیاسی آزادی کا مطالبہ
۲۔ سرداریت کا خاتمہ
۳۔ عورتوں کو اسلامی طریقہ سے میراث میں حصہ
۴۔ ڈیرہ جات و جیکب آباد کی بلوچستان میں شمولیت
۵۔ برطانوی بلوچستان کو صوبائی درجہ اور اصلاحات دیے جانے کا مطالبہ
۶۔ بلوچستان میں مفت تعلیم کا اجراء۔نئے سکولوں او ر کالج کے قیام کا مطالعہ
۷۔ ذرائع آمدورفت کی ترقی
۸۔ چھوٹی صنعتوں کا قیام
۹۔ قبائلی رسومات مثلا ولوّر اور لب پرپابندی اور کالا کالی کا خاتمہ
اس آخری مطالبہ سے مقصود عورتوں کے وقار کی بحالی اور ان کو اسلامی قوانین کے تحت حقوق و برابری دلانا مقصود تھا۔
ان قرار دادوں نے بلوچ شرکاء کانفرنس کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا یوں دو واضع گروہ یا مکاتیب فکر سامنے آئے۔ایک گروہ جو بلوچ سرداروں اور جاگیرداروں پر مشتمل تھا مذکورہ بالا قرار دادوں کو حکومت وقت سے محاذ آرائی سمجھتا تھا۔ اس لئے برطانوی استعمار اور اس کی انتظامیہ سے ٹکراؤ کی بجائے وفاداری اور مراعات میں یقین رکھتا تھا۔ دوسرا گروہ جو جدید نظریات کے زیر اثر تھا وہ سامراج اور سامراج دوست عناصر سے مراعات (بھیک) مانگنے کی بجائے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتا تھا۔ اس دوسرے گروہ کی قیادت یوسف عزیز مگسی اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔ ان کو خفیہ طور پر میر احمد یار خان(بعدازاں خانِ قلات) کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔
مکمل آزادی کے حصول کی خاطر یوسف عزیز کی قیادت میں پارٹی نے سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہد کا فیصلہ کیا۔ انہی کے ایما پر رئیسانی ، رند، بگٹی قبائل میں سرداریت کے خلاف پر امن تحریکوں اور ہجرت کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس محاذ کو مزید طاقتور بنانے کے لئے نوابزادہ یوسف عزیز مگسی نے محمد اقبال، مولانا ابوالکلام آزاد اور ظفر علی خان ایڈیٹر، زمیندار، لاہور سے ملاقاتیں کیں اور ان کی امداد کے طالب ہوئے تھے ۔ آپ نے برطانوی ہند کی تنظیم’’آل انڈیا مسلم کانفرنس‘‘ انجمن حمایت اسلام لاہور ، جامعہ ،دہلی سے بھی فکری رابطے استوار کیے۔ نیز آپ نے بلوچستان کے قومی پریس کی ابتدااپنے مالی وسائل سے کی۔ متعدد نوجوان(جو مدارس میں استاد ومعلم رہے تھے)نے اخبارات، البلوچ، بلوچستان اور بلوچستان جدید، الخیف وغیرہ کی ادارت سنبھال کر علمی و فکری جدوجہدکی بنیادیں رکھیں۔ یہ اخبارات یکے بعد دیگرے ضبط ہوتے رہے اور اس کے عملہ کو خوف و ہراس، مالی پریشانیوں اور سزا و عقوبت سے بھی گزرنا پڑا لیکن یوسف عزیز اور ان کے رفقاء سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ یوسف عزیز نے متعدد نوجوانوں کو اپنے مکاتیب کے ذریعہ اس علمی، فکری اور عملی جدوجہد میں شرکت کی دعوت دی۔ برطانوی ہند کے اخبارات میں مضامین کا ایک سلسلہ بھی جاری رکھا ان کے مکاتیب اور مضامین میں اسلامی نظام عدل، عورتوں کے حقوق اور اشتراکیت وغیرہ جیسے موضوعات ہوتے تھے۔
ان اخبارات کا داخلہ بلوچستان میں اکثر و بیشتر ممنوع ہی رہا کرتا تھا۔ ان کے پڑھنے والوں کو محکمہ خفیہ اداروں کے اہلکار خوف و مصائب کا نشانہ بناتے اور نوبت جیلوں تک بھی جا پہنچتی۔ درحقیقت اس صورت حال کا اندازہ برطانوی ہند کے سیاسی کارکن نہیں کر سکتے تھے جہاں آئینی اصلاحات کے نتیجہ میں لولی و لنگڑی جمہوریت کی طرف پیش رفت جاری رہتی تھی قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ بلوچ کانفرنس(۱۹۳۲ء) منعقدہ جیکب آباد کے لئے نواب محراب خان تمندار بگٹی قبیلہ نے گرانقدر چندہ یوسف عزیز کو دیا تھا لیکن جب بگٹی قبیلہ کے ایک وفد نے نواب کے مظالم کے خلاف یوسف عزیز کو اپنی فریاد پہنچائی تو یوسف عزیز نے سردارانہ تعلقات کی پرواہ کیے بغیر مظلوم بگٹی قبائلیوں کی عملی حمایت کا اعلان کیا اور نواب محراب خان بگٹی کو ان کا عطا کردہ عطیہ بھی واپس کر دیا اور کہا کہ نواب بگٹی کی طرف سے یہ چندہ درحقیقت رشوت ہے تاکہ میں اور میری تنظیم مظلوم بگٹیوں کی مدد نہ کر پائیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یوسف عزیزؔ نے بلوچ قوم کی حقوق کے تحفظ و بازیابی کے لئے اپنے طبقہ(سردارو سردارخیل) سے عملاََ علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ آپ کی قیادت میں اتحا د پارٹی نے سرداروں اور سرداریت کے خلاف عملاََ جدوجہدکیا۔ یوسف عزیز کے مجاہدانہ کارناموں نے اہل بلوچستان کو یہ پیغام دیا تھا کہ جو سردارقومی مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دے سکتے وہ عوام کے ہرگز دوست نہیں اس لئے وہ ا س قابل نہیں کہ وہ ان کے(بلوچ قوم کے) قائد و رہنما بنیں۔
یوسف عزیز جہاں جدید اسلامی تعلیمات کے حامی اور بلوچستان کی آزادی کے دلدادہ تھے وہاں وہ اس امر سے بھی واقف تھے کہ غیر طبقاتی نظریات پر مبنی اسلامی ڈھانچہ تعلیم اور سیاسی تنظیم سرداریت کے خاتمے کے بغیر ناممکن ہے۔ وہ ریاستی بلوچستان میں سرداروں کے اختیارات کم کرنے اورجمہوری قدروں کے فروغ کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ جب میراحمد یارخان،خان قلات بنے تو وہ چاہتے تھے کہ ریاست میں تعلیمی و سماجی اصلاحات کی جائیں۔ خان قلات، سید جمال الدین افغانی کے افکار سے نہ صرف متاثر تھے بلکہ ان کی بیگم کا تعلق افغانی کے خاندان ہی سے تھا۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سرداروں کو اپنے دارالحکومت قلات مدعو کیا اور میر محمد یوسف عزیزؔ کو بھی بحیثیت تمندار مگسی قبیلہ کے بلایا گیا۔ میر یوسف عزیز کے بقول جب وہ پاییہ تخت قلات پہنچے تو انہوں نے ریاستی بلوچستان میں جمہوریت ، تعلیم، آئین سازی وغیرہ کے قیام کا مطالبہ کیا۔ اس پر خان قلات میر احمد یار خان نے آپ سے کہا کہ وہ اپنے مطالبات کو ایک قرارداد کی صورت میں سرداری کونسل میں پیش کریں۔ یوسف عزیز نے محمد امین کھوسہ کو ایک خط میں بتاتے ہیں کہ :
’’چنانچہ بندہ نے دس پندرہ منٹ کی تقریر کے اندر اپنی تحریک کو پیش کیا۔ ختم کرتے ہی زرکزئی سردار (میر رسول بخش، جو کہ آپ کے سگے ماموں بھی تھے) اور وڈیرہ بنگلزئی(سردار نور محمد) نے بغیر کسی دلیل و حجت کے جاہلانہ طریقہ پر مخالفت کی اور پھر لہڑی سردار(نواب بہرام خان) نے تو سرے سے اسٹیٹ کونسل کی ہی مخالفت کی۔ مگر بنگلزئی سردار کی مخالفت بالکل جاہلانہ اور زور دار طریق پر تھی۔۔۔۔۔مجلس کا رنگ دیکھ کر نواب رئیسانی اور سردار شہوانی نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا۔‘‘
یوسف عزیز اپنے خط میں آگے چل کر اپنے دوست محمد امین خان کھوسہ بلوچ (جیکب آباد) کو لکھتے ہیں:’’ تاہم شکر ہے کہ میں اپنے ضمیر، اپنی قوم اور غرباء کی ترجمانی کے فرض سے غافل نہیں ہوا اور وقت آئے گا کہ آپ اور آپ کی نسلیں پشیمان ہوں گی۔‘‘
ان حالات میں یوسف عزیز دل برداشتہ ہونے کی بجائے ایک مجاہدانہ عزم کے ساتھ ان نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے کا عزم جری کرتے نظر آتے ہیں اور سرداریت کے خلاف ایک لا متناہی جنگ لڑنے کا مصمم ارادہ کرتے ہیں اور اپنے عزیز دوست میر محمد امین کھوسہ(جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طالب علم تھے) کو لکھتے ہیں کہ ان کی آئندہ حکمت عملی سرداری نظام اور سرداروں کے خلاف ہوگی۔ وہ میر احمد یار خان (حکمران قلات)کی سرداریت کے خلاف آئینی اصلاحات کا ساتھ دیں گے اپنے طویل خط کے آخر میں وہ بلوچ و بلوچستان کے باشعورطبقہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ:
’’ اب سرداروں کو کچلنا چاہیے ان کے سُدھر نے کی امید فضول ہے۔‘‘
اب تقریباََ ایک صدی گزرجانے کے بعد بلوچستان کی سیاست یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ سرداروں سے سماجی و تعلیمی اصلاحات اور فکر کی امید رکھتے ہیں وہ یا تو تاریخِ بلوچستان سے نابلد ہیں یا خوش فہمیوں کا شکار چلے آرہے ہیں۔ اس گزشتہ صدی نے سردار ان بلوچستان کو اقتدار کی سربلندیوں پر دیکھا ہے لیکن ان کی قوم دشمنی بلوچ قوم پر عیاں ہے۔ میر محمد یوسف عزیز کا مذکورہ پیغام آج بھی نوجوانوں کے لئے دعوتِ عمل ہے۔ اس خط میں ایک عظیم علمی سماجی، معاشی اور سیاسی انقلاب کے لئے سرداریت کو کچلنا لازمی ہوگا۔ان کوشکست فاش دینے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ تعلیمی اور معاشی اصلاحات کا بھرپور نفاذ ہے۔ یوسف عزیز کے انقلابی نظریات:
بلوچستان میں مروجہ سیاسی و معاشی ڈھانچہ برطانوی استعمار اور ان کے نمائندگان (سررابرٹ سنڈیمن۔ جنرل جان جیکب سر مرویدر وغیرہ) کا مرہون منت ہے۔ یہ نظام عرف عام میں سنڈیمن سسٹم یا سرداری و تمنداری نظام یا سرداریت کے نام سے موسوم چلا آرہاہے۔ استعماری دور میں بلوچستان کے روایتی و آئینی ڈھانچہ(وفاقیت و نیم وفاقیت پرمبنی) کو معطل کرکے نیم قبائلی و نیم جاگیر داری نظام کا اجراء کیا گیا جس کا مرکزی کردار سردار یا تمنداررہا ہے۔ اس نئے نظام میں حکومت قلات اور بلوچ عوام کے اختیارات اور حقوق غصب کرنا تھا نیز بلوچ وبلوچستان کو قبائل اکائیوں میں تقسیم کرکے ان کو غلامی کی نئی بیڑیوں میں جکڑ دینا مقصود تھا تاکہ بلوچ قوم میں آزادی اور مساوات کی امنگوں کا خاتمہ اور اتحاد پارہ پارہ کر دینا تھا۔ سنڈیمن نظام نے سرداروں پر یہ ذمہ داری بھی عائد کی تھی کہ وہ جدید نظریات(اسلام کے معاشی اور جمہوری نظریات وغیرہ) کو بلوچستان میں داخل نہ ہونے دیں۔ یہی وجہ تھی کہ جدید نظریات اسلامی اقدار کی سرداروں نے بھرپور مخالفت کی تھی۔
یوسف عزیز مگسی نے جب سیاسی شعور پایا تو بلوچستان و بلوچ قبائل کا سیاسی و معاشی ڈھانچہ جس کی بنیادیں حکمران بلوچستان پر نصیر خان نوری (۱۷۹۴وفات) نے استوارکی تھیں سرداروں اور استعمار کی ملی بھگت سے تباہ کردیا تھا۔ یوسف عزیز سامراجیت اور سرداریت کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ سماجی و معاشی انقلاب کے بغیر سیاسی آزادی بے معنی ہو کررہ جائے گی اس لئے انہوں نے اسلام کی معاشی مساوات اور استعمار دشمنی کا نعرہ بلندکیا۔ان کی نظریں دیکھ رہی تھیں کہ وطن کی سیاسی آزادی کا تمام تر فائدہ قبائلی سرداروں، جاگیرداروں اور نئی ابھرتی ہوئی پیٹی بورژواژی کو پہنچے گا اور بلوچستان کے کچلے ہوئے طبقات(ماہی گیر، کسان، خانہ بدوش اور قبائل وغیرہ بلوچستان کے اقتدار اعلیٰ کے اصل مالک ہیں) سے محروم کر دیے جائیں گے۔ اس لئے یوسف عزیز نے اسلامی اشتراکیت کو بلوچستان میں انقلاب کی اساس و منزل قرار دیا تھا۔یقینایوسف کا نظریہ، اسلام کے اشتراکی اصولوں پر مبنی تھا۔ یوسف عزیز قرآنی تعلیمات اور محبت رسولؐ میں سرشار تھے۔ وہ الہندکی بورژوا قوم پرستی، ذات پات کا نظام اور مذہبی فرقہ واریت سے ازحد متنفرتھے۔
کانگریس کی جمہوری تحریک کو ہندوستان کے بالائی طبقات کے لئے سودمند دیکھتے تھے۔ آپ نے بلوچ قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ ہمیں اصلاحات، کونسل، گورنری صوبہ کیا فائدہ دیں گے۔ علاوہ اس کے کہ غیر ملکی سرمایہ داروں کی جگہ ملکی سرمایہ دارہوں گے۔ ۹۰ فیصد بلوچستان کی غریب آبادی کے لئے سوراج(آزادی) تب ہوگا جب وہ لوٹ سے بچیں گے۔‘‘
اپنی وفات سے چند ماہ قبل اپنے ایک دوست (جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم پار ہے تھے) محمد امین کھوسہ کو لکھا تھا کہ اشتراکیت ہی کچلے ہوئے طبقات کے مسائل کاحل ہے۔ وہ اشتراکیت کے جدید مفکرین کارل مارکس اور لینن کے افکار کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امین کھوسہ کولکھتے ہیں:
’’پیارے وطن کے نوجوان بھائی۔ اللہ آپ کو جلدی(تعلیم سے) فارغ کر کے اچھے کام (یعنی قومی تحریک) میں مصروف کرے۔ میں اپ کو ذیل کا ایک مشورہ ضرور غرض کروں گا۔ اگر آپ نے مانا تو میں بہت مشکور ہوں گا۔ کارل مارکس کی تصنیفThe Capitalاور ’’دنیا کے دس ہلاکت آفرین دن‘‘جو انگریزی میں ہے اور ایک سیاح کے قلم کی لکھی ہوئی ہے۔ ان کو ضرور دیکھیں۔ اگرچہ مجھے احساس ہے کہ آپ میں فطر تا بغیر کسی تقلید کے ایک مادہ اشتراکیت ہے اور غریبوں ، کسانوں، مزدوروں کے لئے لڑنے والا دل بھی۔‘‘
آپ کی ایک فارسی نظم’’ آہ افغان سرداران بنام سرکارِ برطانیہ‘‘ ہے۔ اس نظم میں سرداران بلوچستان، برطانوی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل(A.G.G)اور ریزیڈنٹ برائے بلوچستان کیڑ کے حضور فریاد رساں ہیں اور یوسف عزیز مگسی پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص(یوسف مگسی ) آقاوغلام کی تمیز روا نہیں رکھتابلکہ آقا و بندہ کے درمیان مساوات کا حامی ہے۔ ایسا شخص جو کہ ہمارے حقوق(سرداریت) کا جانی دشمن ہے وہ یقیناًبرطانیہ کا بھی دوست نہیں۔ ہم برطانوی سرکار کے دست و بازو ہیں اس لئے ہمارا وقار اور سرکار انگلیسہ کی شان و شوکت لازم و ملزم ہیں ۔آپ سب کے منصف ہیں اور انصاف کا تقاضایہ ہے کہ آپ یوسف سے سرداری کا منصب چھین لیں اور اس کی خوفناک جماعت (انجمن اتحاد بلوچ و بلوچستان) کو منتشر کر دیں۔ وہ اس ملک میں اصول اشتراکیت کا نقیب ہے۔ اس نے اپنے طبقہ سے ناطہ توڑ کرکے مفلوک الحال بلوچ عوام سے ناطہ قائم کر لیا ہے۔ یہ فریاد ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔
’’یہ انہی کا مقلد ہے۔ اس کے نظریات کی نشر و اشاعت بلوچ نوجوانوں میں کرتا ہے اگر یہ شخص(یوسف عزیز) آزاد چھوڑ دیا گیا تو نہ صرف یہ اور اس کا گروہ ہمارے اقتدار(سرداری نظام)کا خاتمہ کردے گا بلکہ اس کا گروہ (انجمن اتحاد.....) برطانوی اقتدار کا بھی خاتمہ کر دے گا۔‘‘
کسانوں اور مزدوروں کے لئے یوسف عزیز نے احباب کو متوجہ کیا اور اپنے ایک دوست کو ’’بلوچستان مزدور پارٹی‘‘ کے قیام کی تجویز دی۔حقیقت تو یہ ہے کہ وہ اقبال کی طرح کارل مارکس اور لینن کے اقتصادی و سیاسی انقلاب سے متاثر تھا(یادرہے کہ حضرت عمرؓ تک ارضیات اُمہ کی ملکیت کی پیداوارہے جس کی ابتداء اموی جاگیردارانہ خلافت سے شروع ہوئی تھی جس نے اسلام کے نظام عدل کو مختلف تا ویلات کی مدد سے ذبح کر دیا تھا) اقبال کی طرح مگسی اسلام کے عادلانہ معاشی و سماجی انصاف کی تلاش میں نظر آتاہے۔ اس موضوع پر مگسی نے اپنے دوست و احباب کو خطوط لکھے اور اپنے نقطہ نظر کی ترویج کے لئے مضامین بھی لکھے جن کواس مختصر مضمون میں پیش کرناازحد مشکل کام ہے۔
اس مضمون کے آخر میں حقوق نسواں کے حوالہ سے یوسف مگسی کے نظریات کو جاننا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ یوسف عزیز اس بات سے کما حقہ واقف تھے کہ عورت کے حقوق تسلیم کیے بغیر بلوچستان میں سماجی و معاشی انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رہے کہ بلوچ خاتون بہت ہی بے کس اور مجبور خاتون ہے وہ نیم جاگیرداری اور نیم قبائلی نظام کے ظلم کا شکار چلی آرہی ہے۔ ا س مظلوم عورت کو جو حقوق اسلام اور قدیم بلوچی دستور نے عطا کیے تھے وہ عرصہ دو صدی سے رواج کے نام پر چھین لیے گئے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تاریخ بلوچستان میں احترام نسواں کا یہ عالم رہا ہے کہ اگر کوئی مظلوم یا مسافر ایک عورت سے پناہ مانگ لیتا تھا تو وہ تمام قبیلہ یا قوم کی سماجی ذمہ داری میں آجاتا تھا ۔ اسی طرح خانہ جنگیوں میں اگر عورت گزارش لے کر اپنے دشمن قبیلہ کے پاس جاتی تو اس کو بلوچی آئین کے تحت رد کرنا نا ممکن تھا۔ قدیم بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ بلوچ خواتین نے اہم فیصلوں کے لئے ’’ بلوچ مجلس یا جرگہ‘‘ میں مردوں کے برابر اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح میدان جنگ میں بلوچ خواتین قائد بھی نظر آتی ہیں۔ مثلاََ بلوچی شاعری سے پتہ چلتا ہے کہ رسم کالاکالی(کاراکاری) کا بلوچ قبائل میں کوئی رواج نہ تھا لیکن جیسے ہی بلوچ قبائل جاگیر داری نظام کے زیر اثر آئے تو عورت، مرد کی ملکیت قرار پائی۔ معمولی شک یا اس سے چھٹکارا پانے کے لئے یا اس کی جائیداد ہتھیانے کے لئے اس پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر نجات پائی جانے لگی۔
ماضی قریب میں درجنوں عورتیں اس ظلم کی بھینٹ چڑھ گئیں بلکہ بلوچی دستور کے تحت اس ظلم سے بچنے کے لئے جب انہوں نے سرداروں کے ہاں پناہ لی تو ان خواتین کو بلوچی دستور کے خلاف سرداروں نے بیچ ڈالا۔ اس طرح کے واقعات سن کر یوسف عزیز سرداریت و ملائیت کے خلاف سراپااحتجاج بن گئے۔ وہ ملائیت، قبائلیت اور ظالمانہ رسم رواج کے مخالف اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حقوق نسواں کے داعی تھے۔ لندن سے اوائل ۱۹۳۵ء میں اپنے ذاتی دوست اور سیاسی رفیق محمد امین کھوسہ کو لکھتے ہیں:
’’........تمھاری بربادی کا باعث انگریز نہیں بلکہ تمہارے دراز ری مذہب فروش باشندے ہیں۔ کم بختوں نے مذہب جیسی بلند تخلیق کو دنیا کا بدترین کھلونا بنا کر انسانی آبادی کے ایک عظیم حصے کو برباد کر ڈالا۔ خدا ان سے سمجھے۔ حیران ہوتا ہوں جب بڑے بڑے دماغوں کو ان امتیازوں یعنی مردوزن کے درمیان کا اسیر دیکھتا ہوں.......مگر امین۔ یورپ کے متعلق آپ کے علمایان دین کی تمام رائیں غلط بخدا کہ غلط۔ یورپ بہت آزاد ہے ۔ آپ سے بازار میں رسٹورینٹوں میں پارٹیوں میں آزادانہ عورتیں ملیں گی ، باتیں کریں گی، کھیلیں گی، منائیں گی اور رشتہ دارکوئی بھی دخل نہیں دیں گے مگر اخلاقی لحاظ سے وہ برائی جو آپ کے دراز ریش حضرات اس سے منسوب کرتے ہیں ۔ ایک فیصدی پائی جائے گی۔ یہاں کی عورت اپنی عصمت کی حفاظت آپ کے رسم و رواج کے مطابق پردہ اور تلوار و بندوق کے ڈر کے ذریعہ نہیں کرتی۔ ان کا معیار کچھ اور ہے۔ کاش کہ اس خط میں تفصیلات لکھ سکتا۔ یہاں کی کنواری عورتیں جو شادی شدہ ہیں۔ عصمت کے معاملہ میں انتہائی بلند معیار پر ہیں۔‘‘
یوسف عزیز مگسی اس تقابلی جائزہ کے بعد یہ مطالبہ کرتا نظر آتا ہے کہ عورتوں کو وہ تمام حقوق عطا کیے جائیں جو ان کو اسلام نے عطا کیے ہیں۔ یوسف عزیز براہِ راست قرآن مجید اور سنت رسول کریم کی طرف رجوع کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ محض تقلید پر تکیہ گوارانہ کرتے تھے بلکہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بلوچ و بلوچستان کے مسائل کا حل ڈھونڈھتے ہیں۔ اپنے ایک اور رفیق میر تاج محمد ڈومبکی کولکھتے ہیں:
’’ خدائے قدوس کے نزدیک انفرادی زندگی کی صلاحیت جماعتی منفعت کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں ہمیں طریق استدعا بتایاگیا ہے وہ جماعت کی طرف سے ہے۔ سورۃ فاتحہ کو ہی دیکھے.....اھد نا الصراط المستقیم نہیں۔ انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم یہ سب جمع کے صیغہ جات ہیں۔‘‘
ایک دوسرے خط مورخہ ۲۱ مئی ۱۹۳۲ء میں ان مقاصد کے حصول کے لئے عملی اقدامات کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے:
’’قریبی عرصہ سے میرا ارادہ ہے۔ سندھ، بالخصوص جیکب آباد( جو مرکز ہے بلوچوں کا ) آنے اور بلوچ بھائیوں کی امداد سے فی الحال ایک انجمن’’حزب اللہ ‘‘ یعنی خدائی فوج کی بنیاد ڈالنے کا۔ جس کے اغراض ومقاصد واضح ہیں یعنی دین الٰہی و قیام بردین الٰہی کی تبلیغ۔‘‘
ان خطوط سے واضع ہوتا ہے کہ وہ بلوچ عوام اور بلوچستان میں ایک اسلامی انقلاب کی تیاروں میں کوشاں تھے۔اپنے ایک مضمون میں انہی مقاصد کے حصول کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:’’مقام حمد وثنا اور موقع فخر و مباہات ہے کہ بلوچ بھی جاگے۔ نہ صرف بستروں پر اللہ تعالیٰ کا نام جپنے کے لئے بلکہ میدان عمل میں آئے ہیں اور ایک ایسے عزم کا مل اور یقین واثق کے ساتھ آئے ہیں جس کا اعتراف خود قوائے باطلہ کو بھی ہے اگر چہ ان کا اعتراف و اظہار دبی زبان سے کیا جارہاہے۔ نیشنلزم بلکہ اس سے بھی اعلیٰ وارفع تخیل یعنی اسلام ازم جس کی وسعت میں قومی، وطنی، لسانی معتقدات سے سب خائف و پریشان ہو کررہ جاتے ہیں جس کا معیار انسانیت کامل کا حصول اور نوع انسان کی نجات ہیں۔ اتحاد ویگا نگت کی روح پھیلاتا ہے، دلوں سے محوشدہ یاد کو پھر دہرانے کے لئے ایک جماعت حق کا پیشوا ہونا اور اپنے ہم مذہب اور ہم وطن رہنمایاں قوم کی مخالفت اور حکومت کی شکوک افزا روش کے باوجود شراب عشق سے مست موافع و مہالک سے بے نیاز اپنے مسلک پر ثابت اور صراط مستقیم پر چلا جانا اگر کوئی دلفریب حقیقت رکھتا ہے تو مستقبل کے لئے پر امید ہوں کہ انشا اللہ یہ سہرا بلوچوں کے سر ہوگا۔‘‘
لیکن فرنگی سامراج آپ کے ارادوں و عزائم سے خوف زدہ تھا۔ ۱۹۳۴ء میں آپ کے رفقاء کر لئے گئے۔ اے ۔جی۔ جی بلوچستان اور برطانوی نژاد وزیراعظم نے مجبور کیا کہ آپ بلوچستان چھوڑ کر لندن روانہ ہو جائیں۔ یہ حکم جبری تھا۔ اسی دوران برطانوی انتظامیہ نے مگسی مرحوم کی مالی امدادسے چلنے والے متعدد اخبارات’البلوچ‘، کراچی۔ ’’بلوچستان جدید‘‘ ،کراچی کو یکے بعد دیگرے ضبط کر لیا تاکہ انجمن اتحاد اور یوسف عزیز کے افکار و عمل کا پرچارروکا جاسکے۔آپ کے اشارہ پر آپ کے اخبار نویس ساتھی محمد حسین عنقا نے تیسرا اخبار’’ینگ بلوچستان‘‘ کراچی سے جاری کیا۔ اس نئے اخبار کے شمارۂ اوّل کے لئے یوسف عزیز نے لندن سے دس صفحات پر مشتمل ایک یادگار مضمون ارسا ل کیا:
’’جلے جلوس، جماعت بندی، اخبار نویسی یہ سب جمہوریت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ فرنگی استبداد کا یہ حال ہے کہ ہمارے رفقا کوقیدو بند میں ڈال دیا گیا ہے اور ہمارے ہمدردوں کو بے روزگار کیا گیا ہے دربارسبی سے خطاب کیا جاتا ہے۔ کہ چند شورش پسند اٹھے ہیں جو بلوچستان کی پر امن فضا کو مکدراور اس کے سکون کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔ آؤ مل کران کا استقبال کریں۔‘‘
یوسف عزیز نے ان دھمکیوں اور غیر انسانی پالیسیوں پر برطانوی استعمار کو ان لفظوں میں للکارا:
’’ایسی آمریت کے دورمیں اس کے سوا اور کوئی چارہ کا ر باقی نہیں رہتا کہ آزاد بلوچستان کا جھنڈا بلوچستان کے سرحدی علاقہ گرم سیل میں گاڑ کر اپنی پرانی تاریخی بلوچ روایات کے تحت بلوچی لشکر لے کر فرنگی استعمار پرہلہ بول دیا جائے۔‘‘
اس پیغام نے بلوچستان کی سیاست میں ہیجانی صورت پیدا کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان افکار اور اعمال میں سید جمال الدین افغانی سے بھرپور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ان کے افکار پر علامہ محمد اقبال کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ ان کے متعدد خطوط میں علامہ اقبال کے اشعار ملتے ہیں مثلاََ ایک خط کے آخر میں یہ اشعار درج ہیں ’’ لوکار میڈ:
تیر و سنان خنجر و شمشیرم ارزوست
با من بیا کہ مسلک شبرم ارزوست
(اقبال)
بلوچ و شجاعت، بلوچوم ارزوست
خیزد! باز نعرۂ اسلام آرزو است
(عزیز)
ایک دوسرے خط کے شروع میں یہ شعر ہے:
خردی نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلمان کو ہے ننگ وہ پادشاہی
اپنے مقصد کی ترویج کے لئے انہوں نے جھل مگسی قصبہ میں ’’جامعہ عزیزیہ‘‘ کے نام سے ہائی اسکول بھی قائم کیا تھا۔ جہاں پر طلباء کو مفت تعلیم ، لباس اور خوارک مہیا کی جاتی تھی۔ انہوں نے دیگردیہاتوں میں پرائمری سکول قائم کیے۔ ان کا ارادہ تھا کہ لندن میں بلوچ طلباء کے لئے ایک ہاسٹل قائم کیا جائے جس کے اخراجات انہوں نے خود براداشت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔’’جامعہ یوسفیہ‘‘ کے کورسز کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انجمن حمایت اسلام، لاہور اور جامعہ ملیہ، دہلی کے نصاب سے بہت متاثر تھے نیز جامعہ عزیز یہ جھل میں بلوچستان کے جغرافیہ ، تاریخ و ثقافت کے مضامین کو بھی شامل نصاب کیا ہوا تھا۔
یوسف عزیز نے تعلیم کے علاوہ سماجی برائیاں(شراب اور بھنگ)پر پابندی عائد کی تھی۔ ان کو اپنے مقاصد میں از حدکامیابیاں ہوئیں۔ بلوچ اور اہل بلوچستان ان سے والہانہ پیا رکرتے تھے۔ جلا وطنی سے واپسی کے بعد ان کا ارادہ تھا کہ وہ متعدد محاذوں پر جدوجہدکریں گے جن میں آئینی و تعلیمی اصلاحات، سردای نظام کا خاتمہ، اسلامی تعلیمات کی ترویج۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے وہ سوویت یونین کی مدد سے آزادی کی مسلح جدوجہد کا ارادہ بھی رکھتے تھے لیکن بلوچ اور بلوچستان کی یہ انتہائی بد قسمتی تھی کہ یوسف عزیز کوئٹہ میں ۳۰/۳۱مئی۱۹۳۵ء کی درمیانی رات میں زلزلہ میں شہید ہوگئے یوں بلوچ اور اہل بلوچستان ایک عظیم دانشور، قائد، ساتھی اورعظیم راہنما سے محروم ہوگئے۔
یوسف عزیز مگسی کی وفات کا نوحہ ہر طبقۂ فکر نے کیا ہے۔ اس مضمون کے آخر میں میر گل خان مرحوم(بلوچی زبان کے شاعر، ادیب، مورخ اور سابق وزیر تعلیم بلوچستان) کا غیرمطبوعہ خط(مورخہ۳۱اگست۱۹۳۵ء) کا وہ حصہ پیش کرتا ہوں جو انہوں نے نوابزادہ میر شہباز خان نوشیروانی(نواب خاران کے چھوٹے بھائی اور بلوچ قومی تحریک کے سرگرم رکن) کو محمد یوسف عزیز کی زلزلہ میں شہادت پر لکھا تھا:
’’وہ کون سا دل ہے جس میں نوجوان یوسف کی ناگہانی موت کا سن کر رنج والم کے بادل نہ امنڈ آئے ہوں۔ وہ کو ن سی آنکھ ہے۔ جو بلوچستان کے اس مایہ ناز فرزند کی یا دمیں خون کے آنسو نہیں بہاتا ہو۔ یوسف ! ہم گم کردہ راہ بلوچوں کے لئے خضر کی طرح نمودار ہوا اور بھولے بھٹکے بلوچوں کو راستے پر لگا کر یکایک غائب ہوگیا۔ یوسف کو خداوندنے مسیحا ء بلوچ بناکر بھیجا جو مردہ بلوچوں میں حیات جاوید پھونک کر خود آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔‘‘
1. Inayatullah BALOCH. The problem of " Greater Balochistan". A study of Baloch Nationalism (Published under the auspices of South Asia Institute, University of Heidelberg, Germany), 1987.
2. Inayatullah Baloch. Resistence and Libration in Balochi Poetry, in: South Asia Digest of Regional Writing, vol. II (1985)
۳۔ میر گل خان نصیر ، تاریخ بلوچستان۔ جلددوم۔ کوئٹہ۱۹۵۶ء۔
۴۔ سوانح حیات میر عبدالعزیز خان کرد، بلوچی دنیا، ملتان ، جون و جولائی۱۹۶۸ء۔
۵۔ مکاتیب و مضامین از محمد یوسف علی خان عزیز مگسی، الحنیف، جیکب آباد(سالنامہ۱۹۳۸+۱۹۳۷ء)
۶۔ نوکین دور(بلوچی) ، کوئٹہ،۲۱۔اکتوبر۱۹۶۶ء۔
۷۔ ہفتہ وار، بلوچستان جدید، کراچی، ۲۴۔ مئی ۱۹۳۴ء۔
۸۔ زمیندار، لاہور۷۔ستمبر۱۹۳۲ء۔
۹۔ میراحمد یار خان، بلوچ(خانِ قلات) مختصر تاریخ قوم بلوچ و خواتین بلوچ، کراچی۹۷۲۔
۱۰۔ ماہنامہ بلوچی دنیا،ملتان،مئی۱۹۷۱ء ، جولائی۱۹۷۳ء۔
۱۱۔ غیر مطبوعہ خط از میر گل خان نصیر بنام نوابزادہ میر شہباز خان بلوچ نوشیرانی(فاران) مورخہ۳۔ اگست۱۹۳۵ء۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий