Powered By Blogger

среда, 30 августа 2017 г.

مذہبی شدت پسندتنظیم کو تحریک آزادی سے جوڑنا ممکن نہیں

اداریہ  ,, ڈیلی سنگر
رواداری،اشترکیت،سیکولرزم نہ صرف بلوچ کی تاریخ کا انمول حصہ ہیں بلکہ بلوچ سماج و تہذیب و تمدن کاتشخص ہیں۔ بلوچ سماج کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کے اوراق اس بات پہ بھی مہر ثبت کرتے ہیں کہ بلوچ قوم قطعاً مذہبی نہیں رہا ہے۔بلوچوں میں مذہبی رواداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچ مذہب کو لے کر کبھی دست گریبان نہیں ہوا۔ البتہ پاکستانی قبضہ کے بعد بلوچ سماج میں مذہبی انتشار پھیلانے کے لیے خاص حکمت عملیاں ترتیب دیں گئیں،خاص کر،ساٹھ و ستر کی دہائی میں بلوچ سماج میں مذہبی جنونیت کو پروان چڑھانے کے لیے قابض ریاست کے خفیہ اداروں نے جمعیت علماء اسلام اور دیگر مذہبی ٹولزکے ذریعے مقبوضہ بلوچستان میں اس نظریے پر کام کو تیز کر دیاگیا۔مکران،کوسٹل بیلٹ ستر کی دہائی میں اس سے متاثر ہوئے اور ذگری فرقے کے خلاف نفرت کے رجحان کو پاکستانی اداروں نے اسی جمعیت کے کارندوں کے ذریعے پروان چھڑایا،جسکی ایک مثال پسنی میں ذکری مسلمان کا تاریخی لڑائی ہے جو مذہب کے نام تاریخ میں رقم ہے جس میں بلوچ آپس میں دست گریبان ہوئے۔البتہ پاکستانی قبضہ سے قبل بلوچ تاریخ میں بلوچ قوم آپس میں دست وگریبان کبھی نہیں ہوا جو بلوچ کی سیکولر ،روداری و اشترکیت کی سوچ و سماجی مہر و محبت کی نشانی ہے۔بلوچ تاریخ کے اس فیز میں اگر دیکھا جائے تو بلوچ آزادی کی جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مشرف کے دور سے خاص حکمت عملیوں کے ذریعے بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسندی کو ایک خطرناک نظریے کے طور پر مقبوضہ بلوچستان میں متعارف کرایا گیا۔بلوچستان بھر میں مدرسوں کی ایک ایسی نیٹ ورک پھیلائی گئی جس کے ذریعے مذہبی شدت پسند نظریہ ایک توانا شکل میں اب اپنی وجود رکھنے کی سہی میں ہے ۔مدارس سے مذہبی شدت پسندی نظریے کو پھل پھولنے کے بعد اسے مساجدوں و عبادت گاؤں تک پہنچایا گیا جو اب بلوچ سماج میں ایک کینسر کی طرح پھیل کر اسے گھل سھڑانے کی اپنی جدوجہد میں مصروف ہے ۔
مقبوضہ بلوچستان میں جاری شعوری،علمی آزادی کی جدوجہد نے جہاں طبقات،ذات پات کو زمین بوس کر دیا اسی طرح مذہبی تفریق کو عوامی سطح پر اپنی انقلابی تعلیمات و عمل سے پروان چھڑانے نہیں دیاجو بلوچ کی سب سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔البتہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مقامی منشیات فروشوں،سماجی برائیوں میں ملوث افراد سمیت پاکستانی نظام کو اسلام کا اصل سماج ماننے والے بلوچوں کے ذریعے ایسے گروہ منظم کیے اور انہیں اپنی فوجی چھاؤنیوں میں پناگائیں دیں۔کیونکہ وہ مذہب کے نام پر تفریق اور بلوچ سماج میں دراڑڈال سکیں تاکہ قابض بہ آسانی اپنی حکمرانی قائم کر سکے۔ایسے میں لشکر خراسان،داعش،لشکر جھنگوی،جنداللہ یا جیش العدل نامی تنظیموں کو مضبوط کیا گیا تاکہ آئی ایس آئی و دیگر مذہبی سامراجی ممالک کے ایجنڈوں کے ساتھ بلوچ سماج میں مذہبی تفریق پیدا کرکے نوجوانوں کی سرزمین سے محبت کو اسلام کے شدت پسندی کی جانب راغب کیا جا سکے۔اسی طرح جنداللہ یا جیش العدل نامی گروہ جو خاص کر مکران سے ایران کے سرحدی علاقے یا نوشکی جانب اپنا کچھ وجود رکھتی ہے ، بلوچ جہد آزادی کے خلاف بھر سرے پیکار ہے۔مقبوضہ بلوچستان سے باہر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ایران کے خلاف بلوچستان کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہے یا ایسی بات کرنے والے بھی ریاستی حکمت عملیوں کے تحت بلوچ کے خلاف اس پلاننگ کا حصہ ہیں،جو بلوچ جہد آزادی کو مذہبی شدت پسندی کے غلاف میں منقلب کرنے میں جتے ہیں ۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ مذہبی تنظیم نے کب مغربی بلوچستان کی آزادی کادعویٰ کیا؟۔اگر کیا بھی ،تو کیا مذہبی شدت پسند نیشنلزم،سیکولرزم پر یقین رکھتے ہیں؟ وہ تو ملک کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ تو امت کا لفظ استعمال کرتے ہیں ،اور نہ ہی کسی تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں ۔آزادی کی جنگیں یا تحریک ہمیشہ مذہب سے مبرا رہی ہیں۔پاکستان کی اگر آزادی کی بات کی جائے تو مذہب کی بنیاد پرہندوستان کوتقسیم کرکے اسے الگ ملک کا نام دیا گیا ۔اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی تحریک آزادی نہیں تھی البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف ہندوستان کی آزادی کیلئے منظم تحریک چلی اور وہ مذہب کے بالکل بنیاد پر نہیں تھامذکورہ تحریک میں تمام مذہب کے لوگ شامل تھے ۔ 
ایسا کبھی دیکھا یا سنانہیں گیاکہ کسی مذہبی شدت پسند نے نیشنلزم کی بنیاد پر جدوجہد کی،اگر وہ نیشنلزم و سیکولرزم کی بات کرے تو وہ مذہبی شدت پسند ہو ہی نہیں سکتا،اب کچھ لوگ پتا نہیں کیوں ایسے گروہ کی حمایت پر سوشل میڈیا میں اپنی پوری قوت استعمال کر کے بغیر منطق کے دلائل دینے پر بہ زد ہیں کہ ایران کیخلاف آزادی کی جدوجہد کر کرہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ان کی یہ جنگ مغربی بلوچستان کی آزادی کی جنگ نہیں بلکہ اہل تشیع کیخلاف ایک شدت پسند مذہبی جنگ ہے جسکی جڑیں بلوچستان میں پھیل چکی ہیں جو ہزارہ برادری پر متعدد حملوں وھماکوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں جس میں سینکڑوں اہل تشیع کو بیدردی کیساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،اسی طرح ذگری فرقے پر حملے بھی ہمارے سامنے واضح مثال ہیں۔ 
ایران میں برسرپیکار شدت پسند مذہبی تنظیم جنداللہ یا جیش العدل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا اثاثہ ہے اور مذکورہ تنظیم سے وابستہ تمام ارکان کراچی و پاکستان کے بڑے بڑے مدارسوں اور فوجی کیمپس میں ریاستی اداروں کی زیر سرپرستی میں اپنی تعلیم و تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ رہی بات مذکورہ تنظیم پر گذشتہ دنوں پنجگور کے سرحدی حدود میں بلوچ سرمچاروں کے حملے و ہلاکتوں کی تو یہ ایک مثبت حکمت عملی ہے اگر بلوچ عسکری تنظیمیں پہلے پہل اس مذہبی گروہ کیخلاف کارروائی کرتی تو بلوچستان میں مذہبی شدت گروہ کاؤنٹر ہوجاتے ۔بلوچستان جسے ریاستی ادارے ایک مذہبی شدت پسندی میں دھکیل رہے ہیں اس میں بڑی حد تک کمی آجاتی ۔ کہا جارہا ہے کہ مذکورہ تنظیم پر جب بلوچ عسکری پسندوں نے حملہ کیا تو وہ ایران میں ایک کارروائی کے بعد واپس بلوچستان حدود میں آرہے تھے اور ریاستی اداروں کے کیمپ ان کے محفوظ پناگائیں ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جیش العدل ایک ایرانی مذہبی شدت پسند گروہ ہے اور اسکے اپنے مذہبی مقاصد ہیں۔اگرا کوئی غور کریں تواسکی اور داعش کے جھنڈے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔داعش سے مشابہت رکھنے کے ساتھ ،دوسری اہم بات انکے ویڈیوز و تصاویر میں صاف ظاہر ہے، انگلی اُٹھا کر اوپر کی جانب اشارہ کرنا جو داعش کا سنبل ہے، یعنی مذکورہ مذہبی شدت پسند تنظیم اسی قبیل و نظریہ کا مالک ہے جو دیگر اسلامی شدت پسند تنظیم ہیں۔اب اس تنظیم کو مغربی بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے جوڑناایک احمقانہ بات ہوگی ۔ دنیا میں مذہب کے نام پر کاروبار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے،جہاں ایسے کئی گروہوں کو سعودی عرب ،پاکستان و دیگر ممالک کی جانب سے مالی مدد مل رہی ہے،تاکہ وہ اپنی مذہبی حکمرانی و مقاصد کے لیے ان کو استعمال کر سکیں،اب سوچنے کی بات یہ ہوگی کہ کسی مذہبی شدت پسند کا دفاع کرنے والے لوگ کیا خود سعودی و دیگر ملوث ممالک سے فنڈ تو وصول نہیں کر رہے...؟ایسے مذہبی شدت پسندوں کا دفاع کرکے بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسندی کو پروان چھڑانے والے یقیناًبلوچ قوم کے دوست نہیں ہو سکتے۔مذکورہ مذہبی شدت پسند تنظیم پر ہفتہ کے روز بلوچ سرمچاروں کے حملے کے بعد،سرمچاروں کو عوامی سطح پذیرائی ملنا ،مختلف مکاتب فکر کی جانب سے سراہانا یقیناًبلوچ سماج میں مذہبی شدت پسند نظریے کی بیخ کنی ہے۔ 

четверг, 24 августа 2017 г.

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا فکر انگیز پیغام.......عبداللہ حسین

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ کو ایک پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ محدود وسائل اور کمزور پوزیشن کے مقابلے میں چائنا اور امریکہ کی سیاسی، معاشی و عسکری امداد کے مزے لینے والے پاکستان کی طاقت ور ریاست ہر طرح سے بلوچ تحریک کو مٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ اگر تحریک کو ریاست ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کا مطلب ہے کہ بلوچ قوم کی زبانوں ، تاریخ و ثقافت اور جغرافیہ کو تبدیل کرنے میں پاکستا ن مکمل آزادہوگا، اب تک بلوچ قوم کے اقدار، زبان کو اگرچہ ریاست کمزور کرنے میں جزوی کامیابی حاصل کرچکی ہے، لیکن مکمل کامیاب نہ ہونے کی اصل وجہ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک ہے، جس کی جڑیں تاریخی حقیقتوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
بلوچ قوم جس طرح آج شناخت کے خطرے سے دوچار ہے، اس سے پہلے شاید ہی کبھی اس صورت حال سے دوچار ہوا ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے حالات بلوچ قو م کے لئے غیر معمولی ہیں، ان حالات سے غیر معمولی زیرک اور ادراک وفہم رکھنے والے رہنما ہی اپنے قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ، اس تحریک کے اہم ترین نام ہیں، جن کی شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود موجودہ تحریک کی با اثر ترین شخصیت ہیں۔ بلوچستان بھر میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی مسلح تنظیم کسی علاقائی نمائندہ تنظیم کے بجائے بلوچستان بھر کے نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ آزادی پسند حریت پسند نوجوانوں کی بڑی تعداد نے زبان و علاقائی تفریق کے باوجود اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے کا انتخاب کرکے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔پاکستانی ریاست بلوچستان کے حوالے سے غیر اعلانیہ، لیکن واضح موقف رکھتی ہے۔ ریاست کی عملی سرگرمیاں انہی پالیسیوں کا اظہار ہیں، اس پالیسی کے مطابق آزادی پسندوں کو جڑ سے ختم کرکے بلوچستان پر بغیر کسی رکاوٹ کے حکمرانی کی جاسکے۔ چند روز قبل ایک بریگیڈیئر نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ جس پر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کوئی موقف ظاہر نہیں کیا البتہ بی ایل ایف کے سینئر رہنماء اخترندیم بلوچ نے مذاکرات پر آمادگی کو اقوام متحدہ کی ثالثی سے مشروط کرکے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کردیا۔ بلوچستان آج ایک ایسی صورت حال سے گزر رہی ہے کہ درمیانی راہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ نیشنل پارٹی اپنے کردار سے خود کو فوج کا سول نمائندہ ثابت کرچکی ہے البتہ اختر مینگل کی پارٹی کی کوشش یہی ہے کہ وہ درمیان میں رہ کر سیاست کرے، سخت ترین کوششوں کے باوجود بھی بی این پی مینگل درمیان میں اپنے لئے جگہ نہیں بنا پائی ہے، اب بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اختر مینگل کے جھکاؤ کو آزادی پسندی کی سیاست کی طرف محسوس کررہی ہے، حالانکہ اختر مینگل پاکستانی پارلیمنٹ کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ اس پارلیمنٹ کو بلوچستان کے مسائل کے حل کا ذریعہ بھی سمجھتی ہے۔ یہ یہی پارلیمنٹ ہے جس کا تجربہ بلوچستان کے بیشتر رہنماؤں بشمول مینگل نے خود کی ہے۔ تمام پارلیمانی جماعتیں کوئی بڑی سرگرمی اپنی جگہ، بلوچی و براہوئی زبان میں پرائمری تعلیم تک رائج نہیں کرسکی ہیں۔ میگاپروجیکٹس پر کنٹرول اب اس پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے لئے محض خواب ہی ہیں۔ اگر اختر مینگل اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ طرز سیاست کو جاری رکھ کر قوم کے لئے کچھ کرسکتے ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ عالمی حالات کا بدلتا منظر نامہ اور بلوچستان میں موجود آزادی کی خواہش کو مدنظر رکھ کر اختر مینگل کو واضح الفاظ میں آزادی مانگنا چاہیے، اپنے وسائل پر حصہ مانگنے سے بہتر ہے کہ وسائل پر ملکیت کا دعویٰ کیا جائے۔
جیسا کہ شروع میں ، میں نے کہا تھا بلوچ قوم کو ایک پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ جنگ کی یہ پیچیدگی ریاست کی صرف فوجی طاقت کے استعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ زبانوں کی تفریق، مذہبی شدت پسندی، اور بلوچستان میں نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوششیں وہ حربے ہیں کہ ان کی کامیابی کی صورت میں بلوچ مزید تقسیم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس تقسیم کا نقصان کسی مخصوص تنظیم یا پارٹی کو نہیں ہوگا بلکہ اختر مینگل سمیت تمام پارلیمانی و غیر پارلیمانی جماعتیں اس تقسیم سے متاثر ہوں گے، اگر زبان کے نام سے بلوچ قوم کو تقسیم کیا گیا تو اس کے نقصانات بلوچ وطن کی ایران و افغانستان میں تقسیم کے نقصانات کی نسبت بھی زیادہ ہوں گے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے تازہ ترین پیغام میں ان حربوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست زبان، و علاقہ پرستی کی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اپنے اس پیغام میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے براہوئی زبان کا انتخاب کرکے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ بلوچ قوم کی زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ ریاست کی طاقت ور میڈیا اور دوسرے ذرائع ان حربوں کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں باقاعدہ لگے ہوئے ہیں۔ براہوئی اکیڈمی کے چند عہدے دار بھی شعوری و لاشعوری طور پر براہوئی کو بلوچ قوم سے الگ کوئی شناخت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کوششوں کا حاصل کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ بلوچوں کی یکجہتی کو مزید تقسیم کرکے شکوک و شبہات کا ماحول پیدا کیا جائے۔
اپنے اس پیغام میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے آنیوالی ریاست کے لئے ٹیکنوکریٹس، میرین بائیولوجسٹس اور دوسرے شعبوں میں ایکسپرٹس کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان شعبوں میں تحقیق کریں تاکہ آزادی حاصل کرنے کی صورت میں بلوچ اپنی ریاست کو خود چلا سکیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا یہ پیغام زمینی حقائق پر مبنی ایک فکرانگیز پیغام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام بلوچ تنظیمیں، اپنے نظریے میں اختلاف کے باوجود ان معاملات پر یکجہتی کا مظاہرہ کرکے تقسیم کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔ کیوں کہ قوموں کا اتحاد ہی ان کی بقاء ہے، اگر قومیں علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونا شروع ہوگئیں تو وہ اپنے وجود کے مخالفین کے لئے خود یہ راستہ ہموار کررہی ہیں کہ انہیں آسانی سے زیر کیا جا سکے
۔

понедельник, 21 августа 2017 г.

امریکی ادارے نے ڈاکٹر اللہ نذر کا خضدار میں جوہری ہتھیاروں بابت دعویٰ سچ ثابت کردیا


گذشتہ دنوں ایک امریکی تھنک ٹینک نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ، مضبوط اور زیرزمین اسلحہ خانہ بلوچستان میں تعمیر کرچکا ہے جس کا مقصد بیلسٹک میزائل اور کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنا ہے ۔ یہ زیر زمین کمپلیکس ایک بیلسٹک میزائل بیس کے قریب بنائی جارہی ہے جس کی شناخت ایف اے ایس The Federation of American Scientists کے ہینس کریسٹنسن نے کی۔
دریں اثناء امریکی تھنک ٹینک The Institute for Science and International Security نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نیو کلیئر سائٹ کے تین داخلی راستے اور ایک امدادی علاقہ ہے ۔ اس کمپلیکس کو کیر تھر کے پہاڑی سلسلے میں بنایا گیا ہے ۔ یہ بلوچستان اور سندھ کا سرحدی پہاڑی سلسلہ ہے ۔ مذکورہ تھنک ٹینک نے اس وقت تحقیقات کا آغاز کیا جب ایک صحافی نے انہیں اس علاقے کے کو آرڈینٹس فراہم کیئے تھے۔

Figure 1. A 2014 DigitalGlobe image showing the layout of the underground site and new security measures that create a secure complex.
Figure 2. A 2012 Google Earth image shows the excavated spoil piles at the three tunnel entrances.

حالانکہ یہ سائٹ بلوچستان میں واقع ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے مختلف بغاوتی تحریکوں سے متاثر رہی ہے۔ تھنک ٹینک نے مزید کہا ہے کہ یہ علاقہ عالمی سرحدوں سے دور ایک محفوظ علاقے میں پہاڑوں کے وسط میں تعمیر کی گئی ہے۔ جو اسے ایک محفوظ جگہ بناتی ہے۔یہ اسلحہ خانہ ایک بیلسٹک میزائل بیس کے قریب واقع ہے جسے سب سے پہلے FAS نے دریافت کیا۔ جس کی تعمیر 2004 سے لیکر 2010 تک ہوئی۔ایف اے ایس اور امریکی تھنک ٹینک دونوں کا ماننا ہے کہ یہ میزائل بیس اصل میں بیلسٹک میزائل اور Transporter Erector Launchers کا ذخیرہ خانہ ہے ۔یہ میزائل بیس کئی فوجی اڈوں کے جنوب میں واقع ہے، جن میں خضدار کا فوجی تربیتی مرکز ، خضدار فوجی چھاونی اور خفیہ اداروں کے مرکز قائم ہے جو مضبوط حفاظتی حصار میں ہیں۔
یہاں چھاونی کے قریب سے بجلی کا ایک ہائی وولٹیج لائن بھی بچھائی گئی ہے جو پہاڑی سلسلے سے ہوتے ہوئے اس اسلحہ خانہ کے قریب تک پہنچتی ہے۔ بجلی کا یہ لائن ویران جگہوں سے گذرتا ہے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ لائن اس پہاڑی اڈے کو بجلی مہیا کرنے کیلئے بچھائی گئی ہے۔

Possible Ballistic Missile Base. Source: FAS

دی انسٹیٹوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکیورٹی نے تین داخلی سرنگی راستوں کی بھی شناخت کی ہے جو کیرتھر پہاڑی سلسلے میں واقع اس اسلحہ خانے تک رسائی دیتے ہیں ۔جن میں سے دو اس علاقے میں واقع ہیں جن کا پتہ ایک صحافی نے دیا تھا۔
مذکورہ تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ تعمیر کا آغاز 2009 -2010 میں ہوئی اور یہ اگلے دو سالوں تک چلتا رہا ۔ اس سائٹ کا سپورٹ ایریا کو بلا واسطہ کئی داخلی سرنگوں سے ایک کچی سڑک جوڑتی ہے ۔ شناخت کیئے گئے تین داخلی راستے بہت وسیع ہیں جن سے بڑی گاڑیاں بآسانی گذر سکتی ہیں ۔

Powerline from the military base to the Support facility or area at the underground complex and continuing onward into the desert. It passes closely by the Support area, where in a 2014 image new construction can be seen.

مذکورہ ادارے نے اس علاقے میں 2011 کے مقابلے میں 2014 میں سیکیورٹی کے تعداد میں بے تحاشہ اضافے کا بھی مشاھدہ کیا ۔ اس سائٹ کے بابت کوئی بھی معلومات عام نہیں کی گئی ہیں لیکن یہ بات ظاھر ہوتی ہے کہ پاکستان اس سائٹ کی تعمیر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے اور بوقت ضرورت یہاں سے ایٹمی حملے کرنے کیلئے کی ہے ۔ یہ علاقہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کیلئے موزوں ترین جگہ ہے کیونکہ ایٹمی حملہ کرنے کیلئے پاکستان کا چنندہ ہتھیار وار ہیڈ میزائل ہیں۔ لیکن یہ علاقہ بلوچستان میں واقع ہے ۔ جہاں اب تک آزادی کی کئی تحریکیں اٹھ چکی ہیں اور پاکستان کو اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ذخیرہ کرنے کیلئے ایک ایسی جگہ ضرورت ہے جو اسکے عالمی سرحدوں خاص طور پر بھارت سے بہت دور واقع ہو ۔

Underground complex in perspective view showing the Support area and underground tunnel entrances.

اس حوالے سے نامور بلوچ لیڈر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے 2016 میں ٹویٹر پربتایا تھا کہ کس طرح پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بلوچستان کے علاقوں میں زخیرہ کر رہا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ خضدار کے علاقے ساسول میں پاکستانی افواج علاقہ مکینوں کو وہاں سے نکال رہا ہے، تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ رکھ سکے۔

1/2. Pakistan has shifted its nuclear arsenal to Khuzdar Balochistan - in an area called Saasol. Its local population has been evicted.


2/2. The Saasol hills were dug for the purpose nearly a decade ago. Launching pad & a large airbase have also been built there.


PakistanArmy's issued evacuation notices to the people in between Zedi & Karkh, Khuzdar Balochistan for the security of its nuclear arsenal.

حال ہی میں شائع ہونے والی تفتیشی رپورٹ اور انسٹیٹوٹ آف سائنس اینڈ انٹرنیشنل سیکورٹی کی رپورٹ، بلوچ لیڈر کے دعویٰ کو سچ ثابت کرتی ہے۔

среда, 9 августа 2017 г.

The QDA land grabbing mafia brutalities in New Kahan occupied Balochistan.


The Pakistan army, representatives of Pakistan at Balochistan assembly and the QDA (Quetta Development Authorities) mafia headed by GD Imran Zarkoon and wing commander Pakistan FC Usman have started demolishing the houses of Marri Baloch in New Kahan Hazar Ganji Quetta. They have been plotting to destroy New Kahan from past many years but they’ve accelerated their evil action in past few months.
Thousands of Marri Baloch have been residing in New Kahan Quetta after their return from Afghanistan in the early 90s. These Marri Baloch along with their leader later Nawab Khair Bakhsh Marri and hundreds of other Baloch migrated to Afghanistan in the 70s when Pakistan army launched offensives in Kohistan Marri region. Pakistan army killed thousands of Marri Baloch, looted their livestock and disappeared many thousands whose whereabouts remains unknown till today.
They lived in Afghanistan’s Helmand, Kandahar and Kabul areas as political refugees until the end of Dr Najibullah’s regime. When the Taliban took over Afghanistan they forced the Baloch national leader Nawab Khair Bakhsh Marri and his followers to leave Afghanistan and go back to their own country – Balochistan.
It is worth mentioning that during their migration from Balochistan to Afghanistan Marri people suffered heavy losses at the hands Pakistan army backed Mujahideen. They have stopped the Baloch fleeing to Afghanistan looted them of cash and other valuables including women’s jewellery. Many people were also killed by the proxies of Pakistan who were buried at different locations on the way.
During their stay in Afghanistan as political refugees, Marri and other Baloch fellow comrades fought against hunger, poverty and faced many hardships. Despite all the difficulties they refused to surrender before Pakistan army. There are a number of very large graveyards of the Marri Baloch in Afghanistan because many people died due epidemic diseases, target killing of enemy forces and explosions of bombs and explosives left behind by Russian forces and fights between Afghan rival groups.
In the early 90s when Nawab Khair Marri returned to Balochistan, the Marri Baloch refugees also returned with him. They settled at Western bypass near the famous (Koh-e-Chiltan) Chiltan Mountian in Quetta, the capital of Balochistan. The Patriot Baloch leader Hyrbyair Marri has stood by the residents of New Kahan to overcome all the hardship and difficulties and helped them to stand on their own feet.
When Quetta fruits and vegetable market and bus adda (bus station) were being relocated from old bus station to Hazar Ganji, the residents of New Kahan demanded that they should be given the jobs labour work on priority bases as compared to people from other regions but the government ignored their demand and brought in labours from Pashtun and Hazara populated areas.  The residents of New Kahan recorded their peaceful and silent protest by staging a sit-in at Hazar Ganji market but the Pakistani forces attacked the peaceful protesters and arrested around 50 people. The arrested people were distributed between different police stations across Quetta overnight and the following morning they were all shifted to central Jail Mach – one of the toughest jails in Balochistan.
Both Gazzain Marri and Jangyz Marri were ministers during this time but they did not support the peaceful protest of the Marri Baloch and did not interfere when they were arrested, tortured and humiliated by the Pakistani forces. After an ordeal of three months, the residents of New Kahan were released from the Mach jail. It is either the bad luck of the people of New Kahan or a coincidence that once again they are facing eviction from their homes when Jangyz Marri is a minister at Balochistan assembly and so far there is no sign of help from him. In fact, he is also involved in the plot to evict the resident of New Kahan.
In January 2000 the Pakistani intelligence agencies killed Justice Nawaz Marri a Judge of Balochistan High Court and then lodged FIRs against Nawab Khair Marri and his sons. During a raid on Nawab Marri’s house at Arbab Karam Khan Road, witnesses heard the local police receiving orders of “shoot to kill” from the army. Nawab Marri with his great vision, statesmanship and wisdom foiled their plot to kill him and voluntarily went with them instead of offering any resistance. He was kept in Hudda central jail in Quetta for several years. Pakistani forces had also arrested and imprisoned more than 200 Marri Baloch from New Kahan and elsewhere under the pretext of the murder of Justice Nawaz Marri. However, many of the Marri Baloch after their release from prison said they were not asked a single question about the murder of Justice Marri. In fact, they were questioned about why they went to Afghanistan, what did they do there? They were also offered amnesty if they said they would not follow Nawab Marri and his sons anymore.
While most of the men from New Kahan were in prison, the Pakistani forces started sending threating letter and leaflets to the residents of New Kahan to vacate the area or face the consequences. The residents stood firm and refuse to leave their houses and the state forces and land mafia groups eventually abandon their conspiracy against the Marri Baloch of New Kahan.
However, one again from past few months the Pakistani security forces and the QDA (Quetta Development Authority) land grabbing mafia group headed by Imran Zarkoon, wing commander FC Usman and the stooges of Pakistan at Balochistan assembly warning and treating the residents of New Kahan to leave the area. Many houses have already been demolished in the name of development.

понедельник, 7 августа 2017 г.

Would-be suicide bomber sheds light on suspected Pakistani militant web in Balochistan


Usman

The older Mengal added that his son (Shafiq Mengal) had been active in supporting Pakistani security forces in battling Baluch separatist groups
Usman’s testimony, a copy of which has been seen by Reuters, describes a web of radical seminaries and training and bomb making facilities stretching from eastern Afghanistan, where the young man was recruited, to Pakistan’s southern Sindh province.
Hundreds of people have been killed in attacks on Pakistan’s small Shi’ite community, heightening fears in the Sunni-dominated country of an escalation in sectarian bloodshed that has been a persistent threat for decades.
Pakistani police believe the network, which Usman says aided him on his 2,000 km journey, has also helped Islamic State spread its extremist agenda in South Asia, even without proven operational links with its core in the Middle East.
The Pakistani network brings together several known jihadists belonging to extremist groups that have targeted religious minorities for decades, police said, providing fertile ground for Islamic State’s ideology to spread.
Usman’s confession does not name Islamic State directly, but police say they believe the network that recruited and trained him was behind five deadly sectarian bombings in Pakistan, four of which have been claimed by the group based in Syria and Iraq.
“ISIS (Islamic State) has no formal structure (in Pakistan). It works on a franchise system and that is the model that is being used in Pakistan,” senior Counter Terrorism Department (CTD) officer Raja Umer Khattab told Reuters.
By that he said he meant Islamic State could claim attacks as its own, even if it had no direct role in coordinating them.
Usman, 18 at the time of the thwarted attack, is currently on death row in the town of Shikarpur, where he was caught.
Reuters was unable to contact him for this story, but Usman’s court-appointed lawyer said the family had shown no interest in the case.
“I am not sure if an appeal has been filed against the sentence, since no one from his family ever turned up to even meet Usman,” advocate Deedar Brohi told Reuters, adding that his client had been sentenced by an anti-terrorism court in March.
Police say the network emerged relatively recently – the main suspects became known to police over the last two years – but it is not clear whether it is acting alone or on the orders of other groups like Islamic State.

“YOU SHOULD JOIN JIHAD”

Under interrogation, Usman, arrested last September, described his recruitment in the eastern Afghan province of Nangarhar, where U.S. and Afghan forces have been fighting a local offshoot of Islamic State estimated to number a few hundred fighters.
Originally from the Pakistani valley of Swat, his family fled to Nangarhar after his father, a member of the Pakistani Taliban, was killed in a drone strike.
Usman told investigators he came home one day to find his brother sitting with an older man.
“My brother said that you should join jihad … you should become a suicide bomber,” Usman said in the confession.
He left that day and traveled with the older man by bus to the Afghan province of Kandahar, where they crossed into Pakistan’s Baluchistan province.
From there, they rode a motorcycle to the remote desert town of Wadh in southern Baluchistan, where Usman began his training and stayed at the home of a man called Maaz.
“In our room, Maaz took out explosives from a bag and prepared two suicide jackets,” Usman told investigators.
Police suspect Wadh is where several militant movements, including al Qaeda, the Pakistani Taliban and other local banned groups, have been active.
The media wing of Pakistan’s military did not respond to requests for comment for this article, including how militants could use Wadh as hub.
An intelligence official, who declined to be named because he was not authorized to speak to the press, denied Wadh was part of a militant network.
“No training camp in Wadh or safe (haven) for militants now,” the official said in a Whatsapp message.
After about a month in Wadh, Usman said he traveled by motorcycle with an escort on dusty back roads to Shikarpur. A few days later, he was dispatched with his explosives vest to attack a prayer meeting attended by Shi’ite Muslims.
The attack failed when one worshipper spoke to Usman in the local Sindhi language, which he could not understand. A crowd gathered and grabbed him before he could reach his detonator.

CENTRAL SUSPECT

Police investigators, who spoke about the case on condition of anonymity, said Usman’s confession helped them identify several key militants including a suicide vest maker and the man who oversees the network – a former Pakistani intelligence services asset named Shafiq Mengal.
“Our intelligence shows that he has 500-1,000 militants working under him and is living in the mountains,” said a senior police official.
Reuters was unable to contact Mengal or independently confirm the assertions of the police official. But his father, a prominent Baluch politician during the military regime of General Zia ul Haq in the 1980s, said his son had no links with militant networks.
“Shafiq has not given shelter to any terrorist outfit and their activities,” former Baluchistan chief minister Naseer Mengal told Reuters.
Shafiq Mengal meets Pakistan army officer in his camp
However, the older Mengal added that his son had been active in supporting Pakistani security forces in battling Baluch separatist groups.
“Shafiq fought against those elements who challenged the writ of State and were involved in target killings of innocent people and security forces,” he said.
An internal police profile of Mengal seen by Reuters said he attended an elite school in the eastern city of Lahore before completing his education at a madrassa.
According to the document, prepared by a Baluchistan police official, Mengal “was set up by the intelligence agencies to counter separatist Baloch militants” that fight the government in Baluchistan.
The report said that, more recently, it appeared Mengal shifted his efforts to helping jihadists.
The intelligence official said Mengal no longer had any association with the military.
The armed forces have launched several major offensives against groups including al Qaeda and the Taliban in recent years, but they have also been accused of using militants as proxy fighters in Kashmir and Baluchistan – a charge they deny.

“HATE-FILLED SERMONS”

Police said another important suspect in the network was Hafeez Brohi, already on Pakistan’s wanted terrorist list. He comes from Shikarpur, and it was at Brohi’s residence that they said the teenager stayed before the failed attack.
Usman did not name Brohi directly but said a man named Umer Hafiz, who police officials say was actually Brohi, took him from Wadh to Shikarpur by motorbike.
Usman’s police case file also identifies Brohi as one of the main suspects in the failed bombing. Case files seen by Reuters on several other sectarian attacks in Shikarpur also single him out.
The town itself, some 250 km east of Wadh but several times that distance by road, is seen as an increasingly important center of sectarian extremism, according to officials from the counter terrorism department.
Two local Shi’ite mosques were targeted by attacks in 2015.
Several new madrassas have been built in the area in recent years, and members of the Shi’ite minority suspect that they are used by Sunni hardliners to spread religious intolerance.
“The madrassas are concentrated in remote villages,” said Syed Atta Hussain Shah, the imam of the Shi’ite mosque in Shikarpur. “Preachers show up from elsewhere and stay in these madrassas and deliver hate-filled sermons.”
Police officials said they suspected Brohi was the point man for the network in southern Sindh province and was involved in the bombing at Sehwan Sharif shrine that killed 90 people – the most deadly attack in Pakistan claimed by Islamic State.
Brohi has been in hiding for the last three or four years, according to CTD officials.
Usman was sentenced to death in March along with 10 militants in absentia, including Brohi.
Additional reporting by Gul Yousafzai in Quetta; Editing by Mike Collett-White

среда, 2 августа 2017 г.

بلوچ تحریک آزادی کوئی پروکسی جنگ نہیں ..... بجاربلوچ
پروپیگنڈہ سیاست وجنگ کاایک اہم عنصرہے سیاست اورجنگ میں فریقین اپنے اہداف ومقاصدکے حصول کیلئے پروپیگنڈے کوایک موثر آلہ کے طورپر استعمال کرتے ہیں اپنے اوراپنے حامیوں کی صفوں میں یکجہتی کومضبوط وبرقراررکھنے،اپنے مقاصدکوجائزاوران مقاصدکے حصول کیلئے اپنے اقدامات وحکمت عملی کودرست باورکرانے،اپنے صفوں اورحامیوں میں جدوجہداورجنگ کیلئے لگن،محنت اوربے لوث قربانی کے جذبے کوبڑھاوادینے اور ان کاحوصلہ بلندوبرقراررکھنے کیلئے پروپیگنڈہ کوایک اہم ہتھیارماناجاتاہے نہ صرف یہ بلکہ مخالف فریق کے مقاصد،اہداف، اقدامات اور حکمت عملی کوناجائز،غلط،غیرقانونی اورغیر اخلاقی باورکرانے ، رائے عامہ کے اندراس کے بارے میں بدگمانی، بددلی، مخالفت و مخاصمت کے جذبات پیداکرکے رائے عامہ کواس کے خلاف بھڑکانے ،فریق مخالف کوذہنی ونفسیاتی طورپرمفلوج کرکے اسے اندر سے توڑنے اوران کے حامیوں میں خوف،بددلی ،بدگمانی اورکامیابی کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرکے جدوجہد و جنگ کے ان کے جذبے کوکندکرنے، ان کے صفوں میں مایوسی اورانتشارپھیلانے کیلئے بھی پروپیگنڈے کونہایت کارگرہتھیارسمجھا جاتا ہے ۔ پروپیگنڈہ کے علمی مفہوم اورعملی استعمال سے یہ بات صاف عیاں ہے کہ اگر ایک طرف سے حق،انصاف اورسچ کی علمبردارقوتیں سچائی اور انصاف کی سربلندی کیلئے پروپیگنڈہ کااستعمال کرتے ہیں تودوسری جانب بدی کی قوتیں جھوٹ وگمراہی پھیلانے کیلئے اس کااستعمال کرتے ہیں جب جنگ کسی محکوم قوم اوراس کے وطن پرقابض استعماری ریاست کے مابین ہوتویہ بات طے ہے کہ قابض ریاست کے پاس پروپیگنڈہ کے ذرائع کاایک وسیع پھیلاہواجال یانیٹ ورک ہوتاہے تعلیمی ومذہبی اداروں،ان میں پڑھائی جانے والی نصاب،اخبارات و رسائل،فلم، ڈرامہ،ریڈیو،ٹی وی جیسے روایتی ذرائع ابلاغ پرتوریاست کاکنٹرول ہوتاہی ہے تاہم انٹرنیٹ سمیت مواصلات کے دیگرجدید ذرائع بھی بڑی تیزی سے ریاستی کنٹرول کے شکنجے میں کسے جارہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ عالمی قوتوں،اداروں اوررائے عامہ تک اپناموقف پہنچانے کیلئے ریاست کے پاس سفارتی ذرائع وسہولیات میسرہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ محکوم قوم کی تحریکِ آزادی کے بارے میں غلط، جھوٹا اور منفی پروپیگنڈہ کرکے اس کاایک مسخ شدہ شبیہہ پیش کرتاہے یہی بات ہمیں بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستانی پالیسی اور اقدامات میں صاف نظرآتاہے پاکستانی فوج،کٹھ پتلی مرکزی وصوبائی حکومتیں،ربڑاسٹمپ پارلیمنٹ اوراسمبلیاں،فوج وخفیہ اداروں کی آلہ کارسیاسی اورمذہبی جماعتیں،تنظیمیں اورچاپلوس میڈیاجھوٹی ویکطرفہ پروپیگنڈہ کے زورپرپاکستانی رائے عامہ کوگمراہ کرنے کیلئے بلوچ قومی تحریک آزادی کوپاکستان کے خلاف بھارت،افغانستان،امریکہ اوراسرائیل کی پراکسی جنگ باورکرانے کی کوشش کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی سرپرستی وسربراہی میں قائم مسلم ممالک کی عسکری اتحادمیں پاکستان کی شمولیت کے بعد سے دبے دبے الفاظ میں ایران کانام بھی لیاجارہاہے مذکورہ بالاوہ ممالک ہیں جنہیں پاکستانی فوج اپنے رائے عامہ کے ہاں بطور دشمن ممالک پیش کرتاہے۔ بلوچ قومی آزادی کی جائز فطری جدوجہد کومتذکرہ بالادشمن ممالک کی طرف سے پاکستان پرمسلط کردہ پروکسی جنگ بتانے کا مقصدجھوٹے پروپیگنڈہ کے ذریعے منفی حب الوطنی اورپاکستانیت کے جذبات کوابھارکر مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج، خفیہ اداروں اوران کی تشکیل کردہ پرائیویٹ مسلح جتھوں کے ہاتھوں بلوچ نسل کش ریاستی اقدامات، انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں ،فوج اوراس کے ساجھے داروں کی کرپشن کے خلاف رائے عامہ کوآوازبلندکرنے سے بازرکھناہے ۔اگرماضی میں جھانک کردیکھیں توسابق سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سردجنگ کے تناظرمیں پاکستان بلوچ قومی تحریک آزادی کوگرم پانیوں تک پہنچنے کی روسی امنگوں کی تکمیل کاآلہ اورروس کامسلط کردہ پروکسی جنگ proxy war قراردے کرتحریک کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے حمایت اورمددحاصل کرتارہا بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف پاکستان کایہ پروپیگنڈہ پاکستانی رائے عامہ اورمیڈیاتک محدودنہیں ہے بلکہ تنظیم اقوامِ متحدہ،یورپین یونین اوردیگرعالمی اداروں اورمیڈیامیں بھی بلوچ قومی تحریک آزادی کوپاکستان اپنی نام نہادسلامتی کے خلاف بیرونی قوتوں کی پرائی جنگ proxy war باورکرانے کی سفارتی کوششیں کرتارہاہے البتہ وہاں امریکہ،اسرائیل اورایران کانام نہیں لیاجاتاصرف بھارتی اور افغان خفیہ اداروں پر الزام عائدکیاجاتاہے۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے خلاف اِسی ریاستی پروپیگنڈہ کے کڑی کے طورپرمئی 2017ء میں مقبوضہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت کے ایک 09رکنی وفدنے صوبائی وزیرنواب جنگیزمری کی قیادت میں بیلجیئم کی دارالحکومت برسلزکادورہ کیا۔ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والے این این آئی کی رپورٹ کے مطابق یہ پارلیمانی وفدوزراء جنگیزمری،رحمت صالح،سرفرازبگٹی،ارکان اسمبلی نصراﷲزیرے،پرنس احمدعلی،طاہر محمود،آغامحمدرضا،صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑاورمشیرعمیراحمدحسین پرمشتمل تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق وفدچارروزہ دورہ پر 02 مئی 2017ء کوبرسلزپہنچ گیاجہاں وفدنے پاکستانی تارکینِ وطن سے ملاقات کی جس کااحتمام پاکستانی سفارتخانہ میں کیاگیاتھا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفدکے ارکان نے دعویٰ کیاکہ سی پیک بلوچستان کیلئے گیم چینچرثابت ہوگا۔اطلاعات کے مطابق مذکورہ بالاوفدکے ارکان نے 03 مئی2017ء کوبرسلزمیں یورپین یونین کے دفاترکادورہ کرکے ای یوکے پارلیمنٹیرین اورخارجہ معاملات کی کمیٹی کے رکن مائیکل گےئلراورپارلیمانی ہم آہنگی کمیٹی کے رکن وپارلیمنٹیرین ساجدکریم اوردیگرحکام سے ملاقاتیں کیں ۔رپورٹس کے مطابق وفدنے یورپین یونین کے نمائندوں کوبلوچستان میں غیرملکی مداخلت سے آگاہ کرتے ہوئے اس بیرونی مداخلت کی تدارک کیلئے ای یوسے کرداراداکرنے کی اپیل کی وفدنے بلوچستان کی اقتصادی اہمیت اورسرمایہ کاری کے مواقع خصوصاًسی پیک سے جڑی سرمایہ کاری کی اہمیت کواجاگرکیا۔27 جون 2017ء کوبی بی سی اردوکے پروگرام سیربین کواپنے ایک انٹرویومیں رحمت صالح نے مذکورہ دورہ سے متعلق بتاتے ہوئے کہاکہ ہم نے ای یوکے نمائندوں کوبلوچستان کی اقتصادی اہمیت،سرمایہ کاری کے مواقع،سی پیک سمیت ترقیاتی عمل اوراس عمل کوسبوتاژکرنے کیلئے بھارتی خفیہ ادارہ ریسرچ اینڈاینلائسس ونگ کی تخریبی سرگرمیوں سے آگاہ کیاموصوف نے اپنے مذکورہ انٹرویومیں مقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی ذمہ داری بھی بلوچ قومی تحریکِ آزادی پرڈالتے ہوئے تحریکِ آزادی کودہشتگردی وتخریب کاری قرار دیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیانے مذکورہ وفدکی برسلزروانگی،وہاں اس کی سرگرمیوں اوران کی موقف کوتورپورٹ کی مگران کی اس جھوٹی پروپیگنڈے کے جواب میں یورپین یونین کی نمائندوں کے ردعمل کے بارے میں کوئی رپورٹنگ نہیں کی، لگتاہے کہ ای یوکے نمائندوں نے اس وفداوراس کے پروپیگنڈے کوکوئی اہمیت نہیں دی ہے کیونکہ پاکستان جہاں وزیراعظم کے احکامات کوآئی ایس پی آرکاترجمان جوتے کی نوک پررکھ کرٹوئٹ کے ذریعے ردکرتاہے وہاں مقبوضہ بلوچستان جیسے جنگ زدہ خطہ کے کٹھ پتلی حکومت کی اس وفدکے ارکان کی نمائندہ حیثیت ،اختیارات اور اوقات کے بارے میں ای یوکے نمائندے کیسے غلط فہمی کاشکارہوسکتے ہیں؟رحمت صالح جیسے ریاستی آلہ کار سی پیک جیسے سامراجی استحصالی منصوبے کوجھوٹی پروپیگنڈے کے زورپرچاہے جتنابھی ترقی اورگیم چینجرکہیں مگربلوچ عوام کووہ دھوکہ نہیں دے سکتے گوادرسے بیسیمہ تک جہاں جہاں سی پیک شاہراہ پرکام ہواہے وہاں سینکڑوں بستیوں کے لاکھوں بلوچوں کوفوج نے جبری نقل مقامی پر مجبورکیاہے اپنے آبائی اراضیات،املاک ومکانات سے جبری بے دخلی کوکوئی ذی شعورانسان کبھی بھی ترقی وخوشحالی نہیں مان سکتااس شاہراہ کونہ صرف مقبوضہ بلوچستان بلکہ مقبوضہ گلگت بلتستان اورمقبوضہ ایسٹ ترکستان کے عوام کی بھی مزاحمت کاسامناکرناپڑرہاہے کیونک یہ شاہراہ وہاں کے محکوم اقوام کی مرضی ومنشاء اورقومی مفادات کے خلاف جبراًتعمیر کی جارہی ہے۔ سی پیک کے پس پردہ چین کی توسیع پسندانہ سامراجی عزائم ومنصوبہ سے ای یوسمیت علاقائی اورعالمی قوتیں اچھی طرح معلوم ہیں چین کی انہی سامراجی منصوبوں،پالیسی اورعزائم کے باعث جنوب مشرقی ایشیامیں اس کے تمام ہمسایہ ممالک سمیت بھارت اور بھوٹان کے ساتھ چین کے تعلقات شدید کشیدگی کاشکارہیں۔
بلوچ قومی تحریکِ آزادی کوبدامنی،تخریب کاری اورامن وامان کی خراب صوتحال سے تعبیرکرنااورمقبوضہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کیلئے بلوچ قومی تحریک ،بھارتی اورافغان خفیہ اداروں کوذمہ دارٹھہرانارحمت صالح جیسے آئی ایس آئی کے آلہ کارضمیرفروشوں کاایک ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے جس پریقین کرنے والامشکل سے بھی کوئی نہیں ملے گا۔بلوچ عوام،یواین او،انسانی حقوق کی علاقائی اور عالمی تنظیمیں،میڈیا اوررائے عامہ یہ توجانتے ہیں کہ بزرگ بلوچ رہنماشہیدسردارمحمداکبرخان بگٹی اوراس کے ساتھیوں ، بی این ایم کے بانی صدرشہیدمیرغلام محمدبلوچ،سیکریٹری جنرل شہیدڈاکٹرمنان بلوچ سمیت درجن سے زائداس کے مرکزی عہدیداروں ، سینکڑوں کارکنوں، بی ایس اوآزاد کے سیکریٹری جنرل شہیدرضاجہانگیرسمیت سینکڑوں کارکنوں ،بی آرپی کے رہنماشہیدجلیل ریکی ،شیرمحمد بلوچ سمیت اس کے بھی سینکڑوں کارکنوں ،شہیدصبادشتیاری ،اسسٹنٹ پروفیسرعبدالرزاق زہری سمیت سینکڑوں محب وطن بلوچ دانشوروں،شہیدمولوی عبدالخالق اور شہید مولاناعبدالکبیرکمبرانی کوRAWاوراین ڈی ایس نے نہیں بلکہ پاکستانی فوج ،ایف سی اورخفیہ اداروں نے ہی قتل کیاوہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بی این ایم کی مرکزی کمیٹی کے ارکان ڈاکٹردین محمدبلوچ،غفوربلوچ،بی ایس اوآزاد کے سابق چیئرمین زاہدبلوچ، سابق وائس چیئرمین ذاکرمجیدبلوچ،سیکریٹری اطلاعات شبیربلوچ سمیت ہزاروں سیاسی کارکنوں کوجبری لاپتہ کرکے فوج ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کے خفیہ عقوبت خانوں میں را اوراین ڈی ایس نے لاپتہ نہیں کیاہے پاکستانی فوج ،ایف سی اوردیگر سکیورٹی اداروں کی آپریشنزمیں گرفتاراورلاپتہ بلوچ فرزندوں کی مسخ لاشیں راRAWنہیں پھینک رہاہے۔ توتک،ڈیرہ بگٹی اورکوہِ مردارکی دامن میں دریافت اجتماعی قبروں میں بے گورو کفن دفن سینکڑوں بلوچ فرزندوں کاقاتل رااوراین ڈی ایس نہیں بلکہ پاکستانی سکیورٹی ادارے ہی ہیں27 اپریل 2017ء کو ایف سی کے زیرحراست اسکول ٹیچر بیت اﷲ، آصف انورعلی،ماجد مجید،صابرغلام حسین اورجاسم رحیم کوبھارتی راRAW نے نہیں بلکہ پاکستان آرمی نے جعلی مقابلہ میں قتل کیا۔07جولائی 2017ء کودشت مکران کے گاؤں کمبیل میں فوجی آپریشن کے دوران دوسگے بھائیوں سلیم بلوچ اورشکاری بلوچ اوران کے رشتہ دار سمیربلوچ کواین ڈی ایس نے نہیں بلکہ پاکستانی فوج نے قتل کیا۔مشکے،ڈیرہ بگٹی،نصیرآباد اور بولان سے سینکڑوں بلوچ خواتین وبچوں کو راRAW نہیں بلکہ پاکستانی آرمی ہی گرفتارکرکے اپنے کیمپوں میں قیدکرتارہاہے۔یقیناًبلوچ عوام، انسانی حقوق کی علاقائی اورعالمی تنظیمیں مقبوضہ بلوچستان میں فوجی آپریشنزمیں عام سویلین آبادیوں کوجبرکا نشانہ بنائے جانے،مسخ لاشیں پھینک دینے اورہزاروں بلوچ فرزندں کوجبری لاپتہ اورلاکھوں خاندانوں کونقل مکانی پرمجبورکرنے کے مرتکب پاکستانی فوج اوردیگر سکیورٹی اداروں کے گھناؤنے کردارسے بے خبر نہیں ہیں وہ مقبوضہ بلوچستان میں آزادی پسندجمہوری سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں اورمیڈیا پرعائد ریاستی بندشوں سے بھی لاعلم نہیں ہیں۔ مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جبراوردہشتگردی کے بارے میں یقیناً کوئی ابہام نہیں ہے تاہم یہ حقیقت ہمیں قومی تحریک آزادی کے حوالے سے ہماری قومی فرائض سے بری الذمہ نہیں کرتا ہے۔ آزادی پسندبلوچ تنظیموں کی بیرون ملک مقیم رہنماؤں اورکارکنوں کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ریاستی ظلم اوردہشتگردی کے خلاف علاقائی اورعالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کو معلومات دیتی رہیں بلکہ اس ظلم وجبر کی روک تھام کیلئے انھیں عملی اقدامات اٹھانے پر بھی آمادہ کرنے کی مسلسل کوششیں کرتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ قابض ریاست کے جھوٹے پروپیگنڈے کابھی موثرجواب دیں ماناکہ ریاستی پروپیگنڈہ مشینری کے مقابلے میں بلوچ آزادی پسندتنظیموں کے پاس پروپیگنڈے کے ذرائع نہ ہونے کے برابرہیں مگر یہ حقیقت انھیں اس معاملے میں ان کی قومی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں کرتاہے ہوناتویہ چاہیئے تھاکہ جس روزکٹھ پتلی صوبائی حکومت کایہ وفد برسلزمیں یورپی یونین کے رہنماؤں سے ملاقات کیلئے گیاتھااسی روزبلوچ آزادی پسندوہاں ایک مظاہرہ کرتے اورمقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج ،خفیہ اداروں،ان کی تشکیل کردہ پرائیویٹ مسلح جتھوں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایک تفصیلی دستاویزdossier یورپین یونین کے نمائندوں کے حوالہ کرتے تاکہ جھوٹی ریاستی پروپیگنڈے کابروقت اوربرمحل جواب مل جاتا۔
جہاں تک پروپیگنڈے کے زورپربلوچ قومی تحریکِ آزادی کوپرائی جنگproxy war باورکرانے کی ریاستی بیانیہ کاتعلق ہے تو یہ سراسر جھوٹ ،دروغ گوئی اوربدنیتی پرمبنی ہے۔ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی تاریخ خوداس کُھلی حقیقت کاگواہ ہے کہ بلوچ قومی تحریکِ آزادی کسی ملک یاخفیہ ادارے کاآلہ کاراورپروکسی جنگ نہیں ہے تقسیم ہندکے وقت جب بلوچ قیادت نے مسلم لیگی قائدین کے توسیع پسندانہ امنگوں اورعزائم کوبھانپ لیاتو قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کی ایک وفدنے ہندوستان کادورہ کیاجہاں انہوں نے کانگریس کی قیادت سے ملاقات کر کے بلوچستان کی آزادریاست قلات کی آزادی کی تحفظ کیلئے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگرکانگریسی قیادت نے ان کوکسی بھی قسم کی یقین دہانی کرانے سے انکارکردیاجب مارچ 1948ء میں پاکستان نے بلوچستان کی آزادریاست پرجبری قبضہ کیاتوشہزادہ عبدالکریم بلوچ کی قیادت میں بلوچ عوام نے اس جبری قبضہ کی مزاحمت شروع کردی شہزادہ اوراس کے رفقاء حمایت کی حصول کیلئے افغانستان گئے مگر افغانستان نے ان کی مددکرنے سے انکارکردیاکشمیرکامسئلہ تویواین اوکی جنرل اسمبلی میں زیربحث آیامگرافغانستان اور بھارت سمیت کسی ملک نے بلوچستان پرپاکستان کے جبری قبضہ کوچیلنج نہیں کیا۔1960،1950 اور1970 کی دہائیوں میں بھی بلوچ قوم نے اپنے ہی بل بوتے پرپاکستانی قبضہ کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑی پاکستانی ریاستی پروپیگنڈہ کے برعکس روس،بھارت،افغانستان اوراسرائیل سمیت کسی بھی ملک نے یواین اویاکسی دوسری عالمی فورم پر بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے حق میں نہ کوئی آوازبلندکی ہے اورنہ کسی قسم کی فوجی،مالی، اخلاقی اورسفارتی مدددی ہے۔2000ء میں بلوچ تحریک آزادی کی احیاء بھی بلوچ قومی کوششوں کی مرحون منت ہے اس میں کسی بیرونی قوت کا کوئی کردارنظرنہیں آتاہے بلوچ گزشتہ سترہ سال سے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ یواین اوکی انسانی حقوق کے تنظیموں کی جانب سے بلوچ قوم کے خلاف ریاستی اداروں کی ظلم وجبرکے خلاف وقتاً فوقتاًآوازیں بلنداوررپورٹس شائع ہوتی رہی ہیں مگرجنرل اسمبلی اور سکیورٹی کونسل جیسے فورمز پربلوچ قومی آزادی کی حمایت میں کوئی قرار دادزیربحث نہیں آیاہے امریکہ،بھارت یاکسی اورملک نے اب تک کھل کربلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فوجی،سیاسی،مالی،اخلاقی اورسفارتی مددنہیں کی ہے البتہ امریکی کانگریس کے چندارکان نے 2012ء میں آزادبلوچستان کی حمایت میں ایک قراردادکانگریس میں بحث کیلئے جمع کرادی ہے جبکہ 2016ء میں بھارتی یومِ آزادی کے موقع پر بھارتی وزیراعظم جناب نریندرمودی نے پہلی بارمقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی ریاستی دہشتگردی کی کھل کرمزمت کردی مگرانکی یہ حمایت بھی اب تلک کسی ٹھوس فوجی ،مالی اورسفارتی مددکی صورت میں سامنے نہ آسکا پاکستانی جھوٹی پروپیگنڈہ کے برعکس اگریواین او،یورپین یونین، نیٹوسمیت کوئی عالمی ادارہ، امریکہ ، بھارت سمیت کوئی عالمی یاعلاقائی قوت یاملک اگربلوچ قومی تحریک آزادی کی فوجی،مالی،اخلاقی اور سفارتی مددکرتاتومقبوضہ بلوچستان کی صورتحال قطعاًایسانہیں ہوتاجیسا کہ آج ہے اگرکوئی عالمی یاعلاقائی قوت یاملک بلوچ قومی تحریکِ آزادی کی فوجی،مالی اور سفارتی مدداورسیاسی واخلاقی حمایت کرے تواس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کیونکہ آزادی،جمہوریت، عالمی و علاقائی امن،ترقی وخوشحالی کیلئے ایساکرناان کابین الاقوامی فرض اوربلوچ قوم کاقومی وفطری حق ہے پاکستان ایک جانب کشمیراورافغانستان میں اپنی مداخلت اوردہشتگردی کی سرپرستی کے عمل سے عالمی توجہ ہٹانے اور دوری جانب بلوچ قومی تحریکِ آزادی کاایک گمراہ کن شبیہہ بنا کر پیش کرنے کیلئے بلوچستان میں بھارت اورافغانستان کی مداخلت کاجھوٹا پروپیگنڈہ کرتاہے بلوچ آزادی پسندقوتوں کوچاہیئے کہ وہ قابض ریاست اوراس کے مقامی آلہ کاروں کے اس جھوٹے پروپیگنڈہ کاجواب دینے کیلئے موثرحکمت عملی بنائیں مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی کے شکاربلوچ عوام کوقابض ریاست اوراس کی بلوچ دشمن کردارکے بارے میں کچھ بتانے کی اتنی ضرورت بھی نہیں پڑے گاالبتہ قو م دوستی اورجمہوریت پسندی کانقاب پہنے نیشنل پارٹی ،جمہوریت پسندی اور اسلام دوستی کالبادہ اوڑھے دیگرجماعتوں کی فوج اور خفیہ اداروں کے ساتھ تعلق وتعاون کوبے نقاب کرنے کی ضرورت ہے بلوچ عوام کو اچھی طرح دکھاناہے کہ یہ جماعتیں قومی آزادی کی اس جدوجہدمیں بلوچ عوام کے ساتھ نہیں بلکہ قابض ریاست ،اس کی سفاک فوج اورخفیہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں یہ جماعتیں بلوچ عوام کے خلاف دشمن کا آلہ کار،معاون کاراورشریک جرم ہیں قوم دوستی،وطن دوستی،اسلام دوستی اورجمہوریت پسندی جیسے اعلیٰ اقدار کے ساتھ ان جماعتوں کاکوئی دورکاواسطہ بھی نہیں ہے البتہ بلوچ قوم کے خلاف پاکستانی ریاستی دہشتگردی اورانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کوعالمی سطح پرموثرطورپر بے نقاب کرنے کیلئے بلوچ آزادی پسندجماعتیں، بیرون ملک مقیم ان کے نمائندے ،سنگرپبلیکیشنزاورتوارجیسے اشاعتی ادارے ایک ایسارابطہ سسٹم بنائیں جس کے ذریعے مقبوضہ بلوچستان میں فوجی آپریشنز،سکیورٹی وخفیہ اداروں کے چھاپوں ،جبری گمشدگیوں،مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی ،فوج کے ہاتھوں گاؤں اورگھروں کو جلانے ،املاک کولوٹنے اور جعلی مقابلوں میں قتل کے تمام واقعات کوماہانہ ایک تفصیلی دستاویزکی شکل میں شائع اورپی ڈی ایف کرکے سوشل میڈیا،ای میل اوردیگر ذرائع سے عالمی اداروں اورذرائع ابلاغ کے دفاتر، اوربااثر شخصیات کو باقائدگی سے بھیج دیاجائے۔