Powered By Blogger

среда, 30 августа 2017 г.

مذہبی شدت پسندتنظیم کو تحریک آزادی سے جوڑنا ممکن نہیں

اداریہ  ,, ڈیلی سنگر
رواداری،اشترکیت،سیکولرزم نہ صرف بلوچ کی تاریخ کا انمول حصہ ہیں بلکہ بلوچ سماج و تہذیب و تمدن کاتشخص ہیں۔ بلوچ سماج کی تہذیب و تمدن اور تاریخ کے اوراق اس بات پہ بھی مہر ثبت کرتے ہیں کہ بلوچ قوم قطعاً مذہبی نہیں رہا ہے۔بلوچوں میں مذہبی رواداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچ مذہب کو لے کر کبھی دست گریبان نہیں ہوا۔ البتہ پاکستانی قبضہ کے بعد بلوچ سماج میں مذہبی انتشار پھیلانے کے لیے خاص حکمت عملیاں ترتیب دیں گئیں،خاص کر،ساٹھ و ستر کی دہائی میں بلوچ سماج میں مذہبی جنونیت کو پروان چڑھانے کے لیے قابض ریاست کے خفیہ اداروں نے جمعیت علماء اسلام اور دیگر مذہبی ٹولزکے ذریعے مقبوضہ بلوچستان میں اس نظریے پر کام کو تیز کر دیاگیا۔مکران،کوسٹل بیلٹ ستر کی دہائی میں اس سے متاثر ہوئے اور ذگری فرقے کے خلاف نفرت کے رجحان کو پاکستانی اداروں نے اسی جمعیت کے کارندوں کے ذریعے پروان چھڑایا،جسکی ایک مثال پسنی میں ذکری مسلمان کا تاریخی لڑائی ہے جو مذہب کے نام تاریخ میں رقم ہے جس میں بلوچ آپس میں دست گریبان ہوئے۔البتہ پاکستانی قبضہ سے قبل بلوچ تاریخ میں بلوچ قوم آپس میں دست وگریبان کبھی نہیں ہوا جو بلوچ کی سیکولر ،روداری و اشترکیت کی سوچ و سماجی مہر و محبت کی نشانی ہے۔بلوچ تاریخ کے اس فیز میں اگر دیکھا جائے تو بلوچ آزادی کی جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مشرف کے دور سے خاص حکمت عملیوں کے ذریعے بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسندی کو ایک خطرناک نظریے کے طور پر مقبوضہ بلوچستان میں متعارف کرایا گیا۔بلوچستان بھر میں مدرسوں کی ایک ایسی نیٹ ورک پھیلائی گئی جس کے ذریعے مذہبی شدت پسند نظریہ ایک توانا شکل میں اب اپنی وجود رکھنے کی سہی میں ہے ۔مدارس سے مذہبی شدت پسندی نظریے کو پھل پھولنے کے بعد اسے مساجدوں و عبادت گاؤں تک پہنچایا گیا جو اب بلوچ سماج میں ایک کینسر کی طرح پھیل کر اسے گھل سھڑانے کی اپنی جدوجہد میں مصروف ہے ۔
مقبوضہ بلوچستان میں جاری شعوری،علمی آزادی کی جدوجہد نے جہاں طبقات،ذات پات کو زمین بوس کر دیا اسی طرح مذہبی تفریق کو عوامی سطح پر اپنی انقلابی تعلیمات و عمل سے پروان چھڑانے نہیں دیاجو بلوچ کی سب سے بڑی کامیابی کہی جا سکتی ہے۔البتہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مقامی منشیات فروشوں،سماجی برائیوں میں ملوث افراد سمیت پاکستانی نظام کو اسلام کا اصل سماج ماننے والے بلوچوں کے ذریعے ایسے گروہ منظم کیے اور انہیں اپنی فوجی چھاؤنیوں میں پناگائیں دیں۔کیونکہ وہ مذہب کے نام پر تفریق اور بلوچ سماج میں دراڑڈال سکیں تاکہ قابض بہ آسانی اپنی حکمرانی قائم کر سکے۔ایسے میں لشکر خراسان،داعش،لشکر جھنگوی،جنداللہ یا جیش العدل نامی تنظیموں کو مضبوط کیا گیا تاکہ آئی ایس آئی و دیگر مذہبی سامراجی ممالک کے ایجنڈوں کے ساتھ بلوچ سماج میں مذہبی تفریق پیدا کرکے نوجوانوں کی سرزمین سے محبت کو اسلام کے شدت پسندی کی جانب راغب کیا جا سکے۔اسی طرح جنداللہ یا جیش العدل نامی گروہ جو خاص کر مکران سے ایران کے سرحدی علاقے یا نوشکی جانب اپنا کچھ وجود رکھتی ہے ، بلوچ جہد آزادی کے خلاف بھر سرے پیکار ہے۔مقبوضہ بلوچستان سے باہر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ایران کے خلاف بلوچستان کی آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہے یا ایسی بات کرنے والے بھی ریاستی حکمت عملیوں کے تحت بلوچ کے خلاف اس پلاننگ کا حصہ ہیں،جو بلوچ جہد آزادی کو مذہبی شدت پسندی کے غلاف میں منقلب کرنے میں جتے ہیں ۔ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ مذہبی تنظیم نے کب مغربی بلوچستان کی آزادی کادعویٰ کیا؟۔اگر کیا بھی ،تو کیا مذہبی شدت پسند نیشنلزم،سیکولرزم پر یقین رکھتے ہیں؟ وہ تو ملک کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ تو امت کا لفظ استعمال کرتے ہیں ،اور نہ ہی کسی تاریخ میں مذہب کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں ۔آزادی کی جنگیں یا تحریک ہمیشہ مذہب سے مبرا رہی ہیں۔پاکستان کی اگر آزادی کی بات کی جائے تو مذہب کی بنیاد پرہندوستان کوتقسیم کرکے اسے الگ ملک کا نام دیا گیا ۔اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی تحریک آزادی نہیں تھی البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف ہندوستان کی آزادی کیلئے منظم تحریک چلی اور وہ مذہب کے بالکل بنیاد پر نہیں تھامذکورہ تحریک میں تمام مذہب کے لوگ شامل تھے ۔ 
ایسا کبھی دیکھا یا سنانہیں گیاکہ کسی مذہبی شدت پسند نے نیشنلزم کی بنیاد پر جدوجہد کی،اگر وہ نیشنلزم و سیکولرزم کی بات کرے تو وہ مذہبی شدت پسند ہو ہی نہیں سکتا،اب کچھ لوگ پتا نہیں کیوں ایسے گروہ کی حمایت پر سوشل میڈیا میں اپنی پوری قوت استعمال کر کے بغیر منطق کے دلائل دینے پر بہ زد ہیں کہ ایران کیخلاف آزادی کی جدوجہد کر کرہے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ان کی یہ جنگ مغربی بلوچستان کی آزادی کی جنگ نہیں بلکہ اہل تشیع کیخلاف ایک شدت پسند مذہبی جنگ ہے جسکی جڑیں بلوچستان میں پھیل چکی ہیں جو ہزارہ برادری پر متعدد حملوں وھماکوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں جس میں سینکڑوں اہل تشیع کو بیدردی کیساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ،اسی طرح ذگری فرقے پر حملے بھی ہمارے سامنے واضح مثال ہیں۔ 
ایران میں برسرپیکار شدت پسند مذہبی تنظیم جنداللہ یا جیش العدل پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا اثاثہ ہے اور مذکورہ تنظیم سے وابستہ تمام ارکان کراچی و پاکستان کے بڑے بڑے مدارسوں اور فوجی کیمپس میں ریاستی اداروں کی زیر سرپرستی میں اپنی تعلیم و تربیت حاصل کرچکے ہیں۔ رہی بات مذکورہ تنظیم پر گذشتہ دنوں پنجگور کے سرحدی حدود میں بلوچ سرمچاروں کے حملے و ہلاکتوں کی تو یہ ایک مثبت حکمت عملی ہے اگر بلوچ عسکری تنظیمیں پہلے پہل اس مذہبی گروہ کیخلاف کارروائی کرتی تو بلوچستان میں مذہبی شدت گروہ کاؤنٹر ہوجاتے ۔بلوچستان جسے ریاستی ادارے ایک مذہبی شدت پسندی میں دھکیل رہے ہیں اس میں بڑی حد تک کمی آجاتی ۔ کہا جارہا ہے کہ مذکورہ تنظیم پر جب بلوچ عسکری پسندوں نے حملہ کیا تو وہ ایران میں ایک کارروائی کے بعد واپس بلوچستان حدود میں آرہے تھے اور ریاستی اداروں کے کیمپ ان کے محفوظ پناگائیں ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ جیش العدل ایک ایرانی مذہبی شدت پسند گروہ ہے اور اسکے اپنے مذہبی مقاصد ہیں۔اگرا کوئی غور کریں تواسکی اور داعش کے جھنڈے میں کوئی فرق نہیں ہے ۔داعش سے مشابہت رکھنے کے ساتھ ،دوسری اہم بات انکے ویڈیوز و تصاویر میں صاف ظاہر ہے، انگلی اُٹھا کر اوپر کی جانب اشارہ کرنا جو داعش کا سنبل ہے، یعنی مذکورہ مذہبی شدت پسند تنظیم اسی قبیل و نظریہ کا مالک ہے جو دیگر اسلامی شدت پسند تنظیم ہیں۔اب اس تنظیم کو مغربی بلوچستان کی آزادی کی تحریک سے جوڑناایک احمقانہ بات ہوگی ۔ دنیا میں مذہب کے نام پر کاروبار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے،جہاں ایسے کئی گروہوں کو سعودی عرب ،پاکستان و دیگر ممالک کی جانب سے مالی مدد مل رہی ہے،تاکہ وہ اپنی مذہبی حکمرانی و مقاصد کے لیے ان کو استعمال کر سکیں،اب سوچنے کی بات یہ ہوگی کہ کسی مذہبی شدت پسند کا دفاع کرنے والے لوگ کیا خود سعودی و دیگر ملوث ممالک سے فنڈ تو وصول نہیں کر رہے...؟ایسے مذہبی شدت پسندوں کا دفاع کرکے بلوچ سماج میں مذہبی شدت پسندی کو پروان چھڑانے والے یقیناًبلوچ قوم کے دوست نہیں ہو سکتے۔مذکورہ مذہبی شدت پسند تنظیم پر ہفتہ کے روز بلوچ سرمچاروں کے حملے کے بعد،سرمچاروں کو عوامی سطح پذیرائی ملنا ،مختلف مکاتب فکر کی جانب سے سراہانا یقیناًبلوچ سماج میں مذہبی شدت پسند نظریے کی بیخ کنی ہے۔ 

Комментариев нет:

Отправить комментарий