Powered By Blogger

четверг, 24 августа 2017 г.

ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا فکر انگیز پیغام.......عبداللہ حسین

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ کو ایک پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ محدود وسائل اور کمزور پوزیشن کے مقابلے میں چائنا اور امریکہ کی سیاسی، معاشی و عسکری امداد کے مزے لینے والے پاکستان کی طاقت ور ریاست ہر طرح سے بلوچ تحریک کو مٹانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ اگر تحریک کو ریاست ختم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس کا مطلب ہے کہ بلوچ قوم کی زبانوں ، تاریخ و ثقافت اور جغرافیہ کو تبدیل کرنے میں پاکستا ن مکمل آزادہوگا، اب تک بلوچ قوم کے اقدار، زبان کو اگرچہ ریاست کمزور کرنے میں جزوی کامیابی حاصل کرچکی ہے، لیکن مکمل کامیاب نہ ہونے کی اصل وجہ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک ہے، جس کی جڑیں تاریخی حقیقتوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
بلوچ قوم جس طرح آج شناخت کے خطرے سے دوچار ہے، اس سے پہلے شاید ہی کبھی اس صورت حال سے دوچار ہوا ہو۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے حالات بلوچ قو م کے لئے غیر معمولی ہیں، ان حالات سے غیر معمولی زیرک اور ادراک وفہم رکھنے والے رہنما ہی اپنے قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ ، اس تحریک کے اہم ترین نام ہیں، جن کی شخصیت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے کے باوجود موجودہ تحریک کی با اثر ترین شخصیت ہیں۔ بلوچستان بھر میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے ماننے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی مسلح تنظیم کسی علاقائی نمائندہ تنظیم کے بجائے بلوچستان بھر کے نوجوانوں کی تنظیم ہے۔ آزادی پسند حریت پسند نوجوانوں کی بڑی تعداد نے زبان و علاقائی تفریق کے باوجود اس تنظیم کے پلیٹ فارم پر جدوجہد کرنے کا انتخاب کرکے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں۔پاکستانی ریاست بلوچستان کے حوالے سے غیر اعلانیہ، لیکن واضح موقف رکھتی ہے۔ ریاست کی عملی سرگرمیاں انہی پالیسیوں کا اظہار ہیں، اس پالیسی کے مطابق آزادی پسندوں کو جڑ سے ختم کرکے بلوچستان پر بغیر کسی رکاوٹ کے حکمرانی کی جاسکے۔ چند روز قبل ایک بریگیڈیئر نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔ جس پر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کوئی موقف ظاہر نہیں کیا البتہ بی ایل ایف کے سینئر رہنماء اخترندیم بلوچ نے مذاکرات پر آمادگی کو اقوام متحدہ کی ثالثی سے مشروط کرکے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کردیا۔ بلوچستان آج ایک ایسی صورت حال سے گزر رہی ہے کہ درمیانی راہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ہے۔ نیشنل پارٹی اپنے کردار سے خود کو فوج کا سول نمائندہ ثابت کرچکی ہے البتہ اختر مینگل کی پارٹی کی کوشش یہی ہے کہ وہ درمیان میں رہ کر سیاست کرے، سخت ترین کوششوں کے باوجود بھی بی این پی مینگل درمیان میں اپنے لئے جگہ نہیں بنا پائی ہے، اب بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اختر مینگل کے جھکاؤ کو آزادی پسندی کی سیاست کی طرف محسوس کررہی ہے، حالانکہ اختر مینگل پاکستانی پارلیمنٹ کو نہ صرف تسلیم کرتی ہے بلکہ اس پارلیمنٹ کو بلوچستان کے مسائل کے حل کا ذریعہ بھی سمجھتی ہے۔ یہ یہی پارلیمنٹ ہے جس کا تجربہ بلوچستان کے بیشتر رہنماؤں بشمول مینگل نے خود کی ہے۔ تمام پارلیمانی جماعتیں کوئی بڑی سرگرمی اپنی جگہ، بلوچی و براہوئی زبان میں پرائمری تعلیم تک رائج نہیں کرسکی ہیں۔ میگاپروجیکٹس پر کنٹرول اب اس پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگوں کے لئے محض خواب ہی ہیں۔ اگر اختر مینگل اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے موجودہ طرز سیاست کو جاری رکھ کر قوم کے لئے کچھ کرسکتے ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ عالمی حالات کا بدلتا منظر نامہ اور بلوچستان میں موجود آزادی کی خواہش کو مدنظر رکھ کر اختر مینگل کو واضح الفاظ میں آزادی مانگنا چاہیے، اپنے وسائل پر حصہ مانگنے سے بہتر ہے کہ وسائل پر ملکیت کا دعویٰ کیا جائے۔
جیسا کہ شروع میں ، میں نے کہا تھا بلوچ قوم کو ایک پیچیدہ جنگ کا سامنا ہے۔ جنگ کی یہ پیچیدگی ریاست کی صرف فوجی طاقت کے استعمال کی وجہ سے نہیں بلکہ زبانوں کی تفریق، مذہبی شدت پسندی، اور بلوچستان میں نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوششیں وہ حربے ہیں کہ ان کی کامیابی کی صورت میں بلوچ مزید تقسیم کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس تقسیم کا نقصان کسی مخصوص تنظیم یا پارٹی کو نہیں ہوگا بلکہ اختر مینگل سمیت تمام پارلیمانی و غیر پارلیمانی جماعتیں اس تقسیم سے متاثر ہوں گے، اگر زبان کے نام سے بلوچ قوم کو تقسیم کیا گیا تو اس کے نقصانات بلوچ وطن کی ایران و افغانستان میں تقسیم کے نقصانات کی نسبت بھی زیادہ ہوں گے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے اپنے تازہ ترین پیغام میں ان حربوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست زبان، و علاقہ پرستی کی بنیاد پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اپنے اس پیغام میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے براہوئی زبان کا انتخاب کرکے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ بلوچ قوم کی زبانوں کی بنیاد پر تقسیم کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ ریاست کی طاقت ور میڈیا اور دوسرے ذرائع ان حربوں کو کامیاب بنانے کی کوششوں میں باقاعدہ لگے ہوئے ہیں۔ براہوئی اکیڈمی کے چند عہدے دار بھی شعوری و لاشعوری طور پر براہوئی کو بلوچ قوم سے الگ کوئی شناخت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کوششوں کا حاصل کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ بلوچوں کی یکجہتی کو مزید تقسیم کرکے شکوک و شبہات کا ماحول پیدا کیا جائے۔
اپنے اس پیغام میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے آنیوالی ریاست کے لئے ٹیکنوکریٹس، میرین بائیولوجسٹس اور دوسرے شعبوں میں ایکسپرٹس کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ان شعبوں میں تحقیق کریں تاکہ آزادی حاصل کرنے کی صورت میں بلوچ اپنی ریاست کو خود چلا سکیں۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا یہ پیغام زمینی حقائق پر مبنی ایک فکرانگیز پیغام ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام بلوچ تنظیمیں، اپنے نظریے میں اختلاف کے باوجود ان معاملات پر یکجہتی کا مظاہرہ کرکے تقسیم کے اس عمل کی حوصلہ شکنی کریں۔ کیوں کہ قوموں کا اتحاد ہی ان کی بقاء ہے، اگر قومیں علاقائیت اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہونا شروع ہوگئیں تو وہ اپنے وجود کے مخالفین کے لئے خود یہ راستہ ہموار کررہی ہیں کہ انہیں آسانی سے زیر کیا جا سکے
۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий