Powered By Blogger

пятница, 29 апреля 2016 г.

بلوچ پری بمقابلہ بلوچ جن اور بہت سارے عامل


”تم سبزل سامگی بننا چاہتے ہو؟“ میرے والد میری شاعری کی کتابیں جلانے کی کوشش کرنے سے قبل چلائے۔ میں ان کا غصہ سمجھتا تھا، وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی نصابی کتب پر توجہ مرکوز کروں لیکن وہ کیونکر ایسا سمجھتے تھے کہ میں سامگی بننا چاہتا ہوں جنکا شاعری سے کوئی لینا دینا نہیں۔
سامگی بلوچی کے ایک گلوکار ہیں جو طویل عرصے سے اس پیشے سے لاتعلق ہیں۔ جب میرے والد جوان تھے اُسوقت سامگی مقبول ترین گلوکار تھے، کم از کم مکران میں۔ اپنی سیاہ رنگت اور افریقی بالوں کیساتھ لڑکیاں انکا پیچھا ایک راک اسٹار کی طرح کرتی تھیں۔ بلوچ قبائلی نظام میں سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے ایک شاہی قبیلے کی لڑکی سے شادی کی۔
ان کی گلوکاری کے بغیر کسی شادی کی تقریب بہت کم مہمانوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا۔ ان کی پرفارمنس منفرد تھی۔ مخنث رقاص ان کے ہمراہ ہوتے۔ جب سامگی گاتے تو وہ ناچتے اور مہمانوں کیساتھ ناز نخرے کرتے۔
تقریباً تیس سال قبل جب میرے والد جوان تھے تو انہوں نے ایک کچی سڑک پر ادھار لیے موٹر سائیکل پر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے پانچ میل کا سفر کیا۔ انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ آپکو کسی ایسی شادی کیلئے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی جہاں سامگی اپنے، عورتوں جیسے کپڑے پہنے، رقاصوں کیساتھ گا رہے ہوتے۔
”روپا، آسیہ، ذرا ہلا بلبل،“ سامگی مائک پر چلاتے جب جب رقاص سست پڑ جاتے اور جب صبح قریب ہوتی اور مہمانوں پر نیند غالب آجاتی۔ سامگی کی اکساہٹ پر تھکے رقاص شادی کی تیز دھنوں والے گانوں پر پھر سے تیز ناچنا شروع کردیتے۔
میرے والد اس رات طلوع آفتاب سے ذرا قبل گھر لوٹے، وہ ہر قدم بڑی احتیاط سے رکھتے تاکہ اپنے خود آموز مُلا والد کو کہیں جگا نہ دیں۔ لیکن وہ جاگ رہے تھے۔ حتیٰ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پانچ میل دور سامگی کا پروگرام ہے اور ان کا بیٹا یہ موقع نہیں گنوائے گا۔ انہوں نے سونے کا ڈرامہ کیا، اپنے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈلی لیے، اس انتظار میں کہ انکا بیٹا اس ڈلی کی پہنچ میں آجائے۔ جب میرے والد اسکی پہنچ میں آئے تو مٹی کی ڈلی ان کی ٹانگ میں لگی۔ وہ کئی ہفتوں تک لنگڑاتے رہے۔
سامگی بھی ان دنوں کسی بیماری کے باعث لنگڑاتے ہیں، لیکن وہ اسکے علاج کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ کئی سال گزر گئے ہیں کہ انہیں کسی تقریب میں بلایا گیا ہو۔ خدا جانے ان کے مشہور مخنث رقاص کہاں گئے۔ اب بلوچستان میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
مدرسوں کے تعلیم دیے گئے ملاوں، جنہوں نے کراچی اور پنجاب میں بنیاد پرست مدارس میں کئی سال گزارے ہیں، کی کھمبیوں جیسی افزائش نے چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خود آموز مُلا دادا کو بھی ان سے پریشانی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ”ہر بار تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی اپنی جیب میں بڑی رقم لیے آتا ہے اور میری مسجد کی مرمت کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ جیسا ہے ویسے ہی رہے۔“
یہ رقم سندھ اور پنجاب کے بڑے مدارس سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں بسنے والے سینکڑوں ہزاروں بلوچ، خاص طور پر وہ جو مذہبی شیوخ کیساتھ کام کرتے ہیں، مساجد کی تعمیر کیلئے رقم کا بندوبست کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں حتیٰ کہ ایسے مقامات پر بھی جہاں آس پاس کوئی نہیں رہتا۔ ایران کے ہمسایہ بلوچستان کو ایک سلفی گڑھ بنانے کیلئے سعودی عرب سے فنڈ جمع کرنے کا ایک مرکز بحرین ہے۔
اگر بلوچستان کا موازنہ اسکے ہمسایہ ثقافتوں کیساتھ کیا جائے تو یہ نسبتاً ایک سیکولر اور لبرل معاشرہ رہا ہے۔ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ اور نہ ہی انہیں اپنے چہرے ڈھکنے پر مجبور کیا جاتا۔ معاشرے پر مذہب کا نہیں بلکہ قبائلی روایات کا راج تھا۔
گانا ہر اہم موقع کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ کسی بچے کی پیدائش پر۔ بچے کے ختنے پر۔ شادی پر۔ موت پر۔ کسی پیارے کے دور جانے پر۔ مچھلی پکڑنے کے دوران۔ جانوروں کو چرانے کے دوران۔ کسی اونٹ پر سواری کے دوران۔ ہر صنف کا اپنا ایک نام ہے۔
گلوکار اکثر خواتین ہوا کرتیں۔ شرُک ایرانی، ماہرنگ، گُلُک، شریفہ سوتی، گنجان، دُری۔ اب گانا صرف مردوں کے میدان عمل میں آتا ہے۔ کبھی کبھی، کسی دوگانے کیلئے، کسی غیر بلوچ گلوکارہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسکی بلوچی تلفظ آپکے کانوں میں گدگدی کرنے لگتی ہے۔
فلمساز ڈاکٹر حنیف شریف نے ایک بار مجھ سے کہا کہ ”جب میں کسی فلم کا اسکرپٹ لکھ رہا ہوتا ہوں تو میں یہ بات ذہن میں رکھتا ہوں کہ اس میں کوئی ایسا منظر نہیں ہونا چاہئے جس میں کسی عورت کا ہونا لازمی ہو۔ اگر عورتیں فیس بک پر کوئی تصویر شیئر کرنا چاہیں تو انہیں چہرے والے حصے کو کاٹنا پڑتا ہے۔ کسی فلم میں دکھایا جانا تو دور کی بات ہے۔“
وہ ایک بے حد محتاط فلمساز ہیں۔ وہ اپنا اسکرپٹ اسطرح سے لکھتے ہیں کہ جہاں خواتین کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن دیگر کو اپنے آپ پر ہنسنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اپنی فلموں میں وہ کسی آدمی کو عورتوں کے کپڑے پہناتے ہیں اور کیمرے عام طور پر صرف اس کی پیٹھ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار، جب ایک شوہر اپنی بیوی (جسے اسکرین پر نہیں دکھایا جاتا) کو چائے کا ایک کپ لانے کیلئے بلاتا ہے۔ ”ایک منٹ،“ ایک آواز آتی ہے، جو کسی آدمی کے حلق سے آرہی ہوتی ہے لیکن اسے اتنا بھینچا جاتا ہے کہ وہ ایک عورت کی آواز لگتی ہے۔
ایک فلمساز راشد حسن نے 2013ء میں اپنی فلم بے مراد میں ایک ایرانی خاتون شامل کرنے کی ہمت کی۔ سوشل میڈیا پر انہیں حتیٰ کہ ان لوگوں، جنہیں ”لبرل“ اور ”سیکولر“ کے الفاظ پسند ہیں، کی طرف سے بھی بلوچ ثقافت کو بگاڑنے کیلئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) ان کے حق میں کھڑی ہوئی، لیکن یہ گروہ ان دنوں بہت کمزور ہے کہ کوئی اثر ڈال سکے۔
بائیں بازو کی اقدار پر مبنی بی ایس او کو 1967ء میں قائم کیا گیا، اس نے بلوچوں میں علیحدگی پسند جذبات کو زندہ رکھنے کے علاوہ انتہا پسند اسلام کا مقابلہ کرنے میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر وہ بلوچ جو کبھی بھی کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھا ہے ایک بار اس تنظیم کا رکن ضرور رہا ہے۔
ایک مرتبہ میرے دادا کو ایک نو بیاہتہ جوان عورت پر سے آسیب نکالنے کیلئے کہا گیا۔ وہ ایسے لوگوں عموماً کسی نفسیات دان کو دکھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن وہ ضد کر رہے تھے، تو وہ اس جوان خاتون سے جن نکالنے کیلئے ان کے ساتھ ہو لیے۔
”چاہے تم کوئی جن ہو یا کوئی پری، اس عورت کے جسم سے فوراً نکل جاو،“ انہوں نے عام بلوچی عاملانہ اظہار میں اسے حکم دیا۔
”ملا! تم میرے ساتھ گڑبڑ کرنے کی ہمت نہ کرنا۔ میں بی ایس او کا صدر ہوں اور میں اس عورت سے محبت کرتا ہوں،“ خاتون نے ایک آسیب زدہ آواز میں جواب دیا۔
Baloch girl
میرے دادا اس نتیجے پر پہنچے کہ اس جوان عورت کی شادی اس کی مرضی کیخلاف کی گئی تھی اور وہ کسی بی ایس او والے سے محبت کرتی تھی۔
بی ایس او کی طاقت ایسی تھی کہ اس کے علیحدگی پسند نعرے شادیوں میں نغموں کے طور پر لگائے جاتے تھے۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے اب اس پر پابندی لگا دی ہے۔ چونکہ فوج کی طرف سے علیحدگی پسند بغاوت کو کچلنے کیلئے بلوچ قومپرستوں کیخلاف بدنام زمانہ ’مارو اور پھینک دو‘ والا آپریشن شروع کرنے کے بعد سے اس کے اراکین پکڑے اور مارے جا رہے ہیں۔ یہ گروہ کئی عرصے سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسٹڈی سرکل لگانے کے قابل نہیں رہا جہاں مارکسی اور قومپرست ادب سکھایا جاتا۔
جب بلوچستان میں کوئی زلزلے آجائے تو بین الاقوامی دہشت گرد گروہ لشکر طیبہ کا خیراتی بازو جماعت الدعوة یا دیگر مذہبی گروہوں کو متاثرین کی امداد کیلئے فوجی پروٹوکول کے تحت لایا جاتا ہے اور بیک وقت ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں جماعت الدعوة نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ صرف انہی کی کوششوں کی بدولت ہے کہ پاکستان کا پرچم اب بھی بلوچستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ اور پاکستان کی فوجی اسٹابلشمنٹ، جس نے افغانستان، بھارت اور بلوچستان کیخلاف اپنے اسٹراٹیجک اثاثوں کے طور پر اکثر ان اسلام پسندوں پر انحصار کیا ہے، جانتی ہے کہ اسلام وہ واحد ربط ہے جو بلوچستان کو پاکستان کے باقی حصوں کیساتھ جوڑے رکھ سکتی ہے۔
لیکن بلوچ خاتون گلوکارہ یا اداکارہ کی کمی کیلئے فوجی اسٹابلشمنٹ پر الزام عائد کرنا نامناسب ہے۔ اس کوتاہی کی ذمہ داری رجعت پسندانہ بلوچ قومپرستی اور تھوڑی بہت، کم از کم، پنجابی فلموں میں خواتین اداکاراوں کو ملنے والے ہتک آمیز کردار پر عائد ہوتی ہے۔
جب ایک بار میں نے ایک نوجوان بلوچ قومپرست سے پوچھا کہ وہ خواتین کے گانے اور اداکاری کرنے کے خلاف کیوں ہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا، ”کیا ہمیں بھی اسی طرح سے اپنی عورتوں کی توہین کرنے کیا اجازت دے دینی چاہئے جیسا کہ پنجابی فلموں میں ان کیساتھ ہو رہا ہے۔“
چونکہ عورتیں بلوچ ثقافتی منظرنامے سے غائب ہو رہی ہیں، وہ سیاسی محاذ پر ابھر رہی ہیں۔ فوج نے اب تک قومپرست عورتوں کو مارنا شروع نہیں کیا ہے۔ چونکہ بلوچ مرد بھاگ رہے ہیں تو لہٰذا خواتین ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو رہی ہیں۔ بی ایس او کی تاریخ میں پہلی بار اس کی چیئرپرسن ایک نوجوان خاتون کریمہ بلوچ ہیں۔
میرے دادا جس جوان عورت سے آسیب نکالنے کی کوشش کررہے تھے جس پر مانا جاتا تھا کہ کوئی جن آیا ہوا ہے۔ اگر اگلی بار انہیں کسی جوان مرد پر سے آسیب نکالنے کیلئے مدعو کیا جائے تو یہ کوئی پری ہو سکتی ہے۔

суббота, 9 апреля 2016 г.

جی ایم بلوچ: میرے ماموں اور ناقابل شکست حریف

تحریر : ساجد حسین
ہم تقریبا ہر روز لڑے۔ سیاست پر۔ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ایک نوجوان رکن تھا اور وہ ایک تجربہ کار بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی تھے۔ لیکن انہوں نے میرے کتابی خیالات کو ایک نوجوان کے یوٹوپیا طور پر کبھی مسترد نہیں کیا۔ اگرچہ، وہ شاذ و نادر ہی مجھ سے اتفاق کرتے، میں جو بات کہتا وہ اسے ہمیشہ سنتے تھے اور پھر ایک سگریٹ جلاتے جس سے انہیں اپنا جوابی دلیل دینے کیلئے تیار ہونے میں وقت ملتا۔
کبھی کبھار ہماری تکرار نہایت اونچی آواز کو پہنچ جاتی تو میری والدہ، ان کی بہن، ہمارے درمیان اپنا دوپٹہ ڈال دیتی، ایک بلوچ روایت کہ میدان جنگ میں جب ایک عورت ایسا کرتی ہے تو مرد اسکے احترام میں تلوار زنی روک دیتے ہیں۔
ہمارے سیاسی مقاصد مختلف نہیں تھے۔ ہم سیاسی ساتھی تھے۔ ہماری تنظیمیں ایک آزاد بلوچستان کیلئے جدوجہد کر رہی تھیں اور ایک باقاعدہ اتحاد میں تھیں۔ لیکن ہمیں حکمت عملی پر اختلاف تھا۔
وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ کراچی پریس کلب کے سامنے ریلیوں میں علیحدگی پسند بلوچ عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے۔ ایک مرتبہ، جب موجودہ بلوچ شورش زور پکڑ رہی تھی، تو انہوں نے اپنے آبائی قصبے مند میں نیم فوجی چوکیوں کیخلاف ایک احتجاج کی قیادت کی۔ ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ آخر کار، ایف سی کمانڈر نے ان کو پیشکش کی کہ اگر وہ ان لوگوں کے نام انہیں دے دیں جو مسلح افواج پر حملے کر رہے ہیں تو چوکیاں ہٹا دی جائیں گی۔ انہوں نے جواب میں کیا کہا؟
”آپ ان کے نام جاننا چاہتے ہو؟ وہ میں ہوں، اور میرا نام غلام محمد ولد محمد ایوب ہے۔ جی ہاں، وہ راکٹ میں نے آپ کے کیمپ پر داغے تھے۔ میں آپ کے قافلوں پر گھات لگا کرحملہ کرتا ہوں۔ جب کبھی بھی آپ اپنے کیمپ سے باہر قدم رکھتے ہو تو وہ میں ہوں جو آپ لوگوں پر فائرنگ کرتا ہے۔ یہ میں ہوں۔ اب آپ میرے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں کریں اور چوکیاں ہٹادیں۔“
ہجوم نے خوشی سے نعرے لگائے۔ اور چوکیوں کو اسی روز بعد میں ہٹا دیا گیا۔
میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی اس کھلی حمایت کے خلاف تھا۔ ہمیں بہت سی چیزوں پر اختلاف تھا، لیکن ہمارے اختلاف کی جڑ یہی تھی۔ میری دلیل یہ تھی کہ ہم سیاسی گروہ ہیں اور ظاہری سطح پر کام کرتے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد عام بلوچوں کو متحرک کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنے نصب العین کیلئے عوامی حمایت حاصل کرسکیں۔ اس کے علاوہ، مسلح گروہوں کی کھل کر حمایت کرنے سے فوجی اسٹابلشمنٹ برہم ہوگی اور وہ ہمیں ہمارا کام کرنے نہیں دے گی۔
لیکن ایک مرتبہ، جب وہ لیاری کراچی میں بی ایس او اور بی این ایم کے مشترکہ طور پر زیر اہتمام ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے تو میں ہجوم میں موجود تھا۔ جیسے ہی انہوں نے بولنا شروع کیا تو میں نے اپنے اندر کے محتاط شخص کو کھونا شروع کیا۔ ان کی شعلہ بیانی نہایت سحر انگیز تھی اور میں آہستہ آہستہ اس ہجوم کا حصہ بن گیا جو انکے ہر لفظ پر نعرہءتحسین بلند کررہا تھا۔
لیکن جب ہم گھر واپس آئے تو ہم نے جھگڑا کیا۔ ”آپ نے پہلے ہی سے فوج کو برہم کیا ہوا ہے۔ آج آپ نے ایم کیو ایم (ایک سیاسی گروہ جو اپنے مخالفین کیخلاف تشدد کے ذریعے کراچی پر حکومت کرتی ہے) کیخلاف بات کی۔ وہ بھی اردو میں تاکہ وہ سمجھ سکیں۔ آپ مزید دشمن بنا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو کراچی میں آپ کو جان سے مار نے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔“
انہوں نے اپنی دودھ پتی چائے کی چسکی لی، ایک سگریٹ جلائی، اپنا پہلو بدلا اور مسکرائے۔ ”وہ (ایم کیو ایم) ہمارے کارکنوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ وہ کراچی (دو کروڑ کی آبادی والے ساحلی شہر کراچی میں بلوچ ایک اہم نسلی گروہ ہیں) میں بلوچوں کی طاقت آگاہ ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچ سیاسی طور پر منظم ہوں۔ میں صرف ان کو ایک پیغام بھیجنا چاہتا تھا کہ ہم اپنے لوگوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں،“ انہوں نے اپنی چائے کا آخری قطرہ پیا اور اپنا سگریٹ پھونکا۔
ایم کیو ایم نے ہمارے ساتھیوں کے ایک دفتر کے سامنے ہوائی فائرنگ کی تاکہ کراچی میں انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی سے باز رکھیں۔ ایم کیو ایم کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے جو کچھ چیئرمین (بلوچوں میں وہ اس نام سے جانے جاتے ہیں) نے اس جلسہ عام میں کہا تھا وہ انتہائی پروقار تھا۔ ”اگر آپ کے پاس گولیاں ہیں، تو ہمارے پاس راکٹ ہیں۔“ پہلے انہوں نے یہ الفاظ بلوچی میں کہے۔ پھر انہوں نے مزید کہا: ”بالفرض اگر آپ کی سمجھ میں نہیں آیا ہے تو مجھے اردو میں اسے دہرانے دیں۔“
میں انہیں لاپرواہ کہتا تھا۔ انکے پیروکار انہیں نڈر کہتے تھے۔ لاپرواہی اور نڈر ہونے کے درمیان ایک لکیر کھینچنا مشکل ہے لیکن میں نے ان کے چہرے پر کبھی خوف نہیں دیکھا۔ فوجی اسٹابلشمنٹ کو ان کی صلاحیت کے بارے میں علم تھا کہ وہ محض اپنے الفاظ سے بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔
جاسوسوں کی طرف سے ان کا پیچھا کیا جا رہا تھا۔ ان میں سے چند کو وہ شکل سے پہچانتے تھے۔ وہ اپنے راستوں کو تبدیل کرکے اور مختلف مقامات پر قیام کرکے ان کو الجھانے کی کوشش کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ جلد ہی انہیں اٹھایا جا ئے گا کیونکہ فوج نے کافی وقت پہلے سے ہی بلوچ کارکنوں کو ”غائب“ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور وہ ان کے رہنما تھے۔ لیکن وہ اب بھی عوامی اجتماعات میں تقاریر کرتے اور کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے رہے تھے۔
اس دن ایک عوامی اجتماع تھا۔ 3 دسمبر2006 کو۔ انہوں نے نہایا دھویا، کپڑے تبدیل کیے، اپنے بالوں میں تیل ڈالا اور گھر سے نکلتے وقت مجھ سے پوچھا: ”کیا تم نہیں آرہے؟“ جس طرح سے بلوچ اپنے سیاسی معاملات چلارہے تھے، میں اس سے مایوس تھا اور بالکل اس موڈ میں نہیں تھا ”نہیں،“ میں نے جواب دیا۔ اور وہ چلے گئے۔
”کیوں تم اور تمہارے ماموں ہمیشہ لڑتے رہتے ہو؟“ ان کی اہلیہ نے مجھے ڈانٹتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آپ کے خاوند خود کو مصیبت میں ڈالنے جا رہے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ دوسروں کے سامنے میرے اور میرے دوستوں کیخلاف بولتے ہیں،“ میں نے شکایت کی۔
”نہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ وہ کبھی بھی تمہارے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے۔ جی ہاں، وہ تمہارے کچھ دوستوں کے حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کو نہیں چھپاتے ہیں لیکن کب اور کہاں انہوں نے تمہارے خلاف بات کی ہے؟“
اور بحث جاری رہی۔ ہم اب بھی بات کر رہے تھے کہ انہیں ایک فون کال موصول ہوئی۔ وہ تھوڑی دیر کیلئے ایک مورتی کی طرح بیٹھی رہیں، اور پھر کہا: ”وہ انہیں اٹھاکر لے گئے ہیں۔“
بغیر کچھ کہے، میں گھر سے باہر بھاگا۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور میرے پاس لیاری جانے کیلئے کسی بس یا رکشہ کے کرایے کیلئے پیسے نہیں تھے تاکہ اس بارے میں جاکر معلومات کروں کہ کیا ہوا تھا۔ میں بارش میں دو کلومیٹر تک چل کر ایک دوست، ان دوستوں میں سے ایک جنہیں وہ ناپسند تھے، کے گھر گیا اور کچھ پیسے ادھار لیے۔
اور میں نے نو ماہ تک اپنی بھاگ دوڑ جاری رکھی۔ ایک عدالت سے دوسرے تک۔ ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے تک۔ کراچی سے لاہور اور اسلام آباد تک۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر سے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے دفتر تک۔ ہمیں ان کے اتے پتے کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ملا۔
مورخہ 20 ستمبر 2007ء کو میں ایک مسافر بس پر اسلام آباد کے قریب پہنچ رہا تھا جہاں ان کے کیس کے حوالے سے اگلے روز مجھے سپریم کورٹ کی سماعت میں حاضر ہونا تھا۔ میں نے اس سفر کیلئے اپنے ایک دوست سے 4,000 روپے ادھار لیے تھے جو کہ میں نے ابھی تک واپس نہیں کیے۔ اسلام آباد پہنچے کو چند کلومیٹر رہ گئے تھے، مجھے ایک ٹیکسٹ پیغام موصول ہوا کہ فوج نے انہیں سبی، مرکزی بلوچستان میں ایک ضلع، میں پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
اس طرح کی افواہیں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں۔ تو میں اس پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ پھر مجھے ایک نامعلوم نمبر سے ایک کال موصول ہوئی۔ یہ ان کی جماعت کے ایک رکن کی طرف سے تھا۔ خبر کے بارے میں سن کر ان کے ساتھی سبی تھانے میں جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک سے مجھے فون کرنے کو کہا تھا۔
”تم اپنے ماموں سے بات کرنا چاہتے ہو،“ کال کرنے والے نے کہا۔
میں تذبذب میں تھا کہ کیا کہوں۔ فون کرنے والا آئی ایس آئی کا بندہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر میں نے ان کی آواز سنی۔”ہاں یار۔ واپس آ جاو۔“ کسی نے، شاید ان کی اہلیہ نے، ان سے کہا تھا کہ میں اسلام آباد جارہا ہوں۔
انہیں اگلے روز انکے آبائی ضلعے کے تربت جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اور پھر چند روز بعد رہا کیا گیا۔ بلوچستان کے ہر شہر سے سب انکا خیر مقدم کرنے گئے تھے۔ میں نہیں گیا۔ وہ ایک بار پھر میرے سیاسی حریف تھے۔
اپنی رہائی کے فوری بعد انہوں نے شعلہ بیان تقریریں کرنا شروع کر دیں، کہ اگر پاکستان انہیں خاموش کرنا چاہتا ہے تو ہمت کرکے انہیں جان سے مار دے۔
کچھ دنوں بعد جب وہ علاج، چونکہ حراست کے دوران انہیں بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، کیلئے کراچی آئے تو ہمارے جھگڑوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ وہ وہی شخص تھے ماسوائے اسکے کہ انکے بال چھوٹے تھے جو ان کے اذیت رسانوں نے کاٹ دیے تھے۔ اس کے علاوہ، ان کے چہرے پر گوشت نام کی کوئی چیز نہیں بچی تھی۔ ان کے پہلے ہی لمبے کان مزید لمبے لگ رہے تھے۔ اب وہ اپنے قمیض کی سامنے والی جیب میں بج رہے اپنے سیل فون کی گھنٹی تک نہیں سن سکتے تھے۔
”وہ میرے سر کے گرد کچھ لپیٹ دیتے اور اس سے کچھ گزارتے تھے، مجھے لگتا ہے کہ وہ بجلی کا کرنٹ تھا،“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، جب میں نے عقوبت خانوں میں گزارے گئے ان کی سخت آزمائش کے بارے میں پوچھا۔ دوسروں کے برعکس، جنہوں نے فوجی عقوبت خانوں کی تاریکیوں کو دیکھا تھا، وہ خود پر کیے گئے ذہنی اور جسمانی تشدد کی نہ ختم ہونے والی رونگٹے کھڑے کردینی والی کہانیاں سنائیں گے، لیکن انہوں نے اپنے آپ پر کیے گئے تشدد کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا۔ ”کبھی کبھار، وہ مجھے مارتے تھے۔ مجھے گالیاں دیتے تھے۔ مسلح گروہوں کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ کرتے تھے۔ بس یہی ہوتا تھا،“، جب بھی میں ان سے پوچھتا تو وہ یہی کہتے تھے۔ اگرچہ وہ پوری بات نہیں بتاتے تھے۔
عوامی اجتماعات میں ان کے چبھتے ہوئے الفاظ اب بھی فوجی اسٹابلشمنٹ کو پریشان کر رہے تھے۔ 2008ء میں ایک دن، میں ایک لائبریری میں بیٹھا ہوا کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو کسی نے مجھے فون کیا کہ انہیں کراچی پریس کلب کے سامنے، جہاں وہ تقریر کر رہے تھے، سے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
میں لائبریری سے نکلا، ایک بس پکڑی اور ایک دوست کو فون کیا کہ پریس کلب کے ارد گرد پولیس اسٹیشنوں میں انہیں تلاش کرے جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ انہیں ایک بار پھر”غائب“ کیا جائے گا۔ ٹریفک کی وجہ سے مجھے اس علاقے تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگا۔ میرے دوست نے مجھے فون کیا کہ اسے اندازہ ہے کہ انہیں صدر پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے کیونکہ انچارج اسے کوئی سیدھا جواب نہیں دے رہا تھا۔ میں نے اسے اپنے پہنچے تک وہیں رکنے کا کہا۔ میں جب وہاں پہنچا تو ہمیں انتظار کرنے کو کہا گیا کہ گویا انچارج مصروف ہے۔ اسٹیل کے ایک اسٹول پر تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد جب میں تھک گیا تو وہیں آگے اور پیچھے ٹہلنا شروع کر دیا۔ سورج ابھی ابھی غروب ہوا تھا۔ لیکن جب میں ٹہل رہا تھا تو میں انچارج کے آفس کے اندر جھانکنے کی کوشش کی، اس بات کی تصدیق کرنے کیلئے کہ وہ واقعی بہت مصروف ہے یا صرف تاخیری حربہ استعمال کررہا ہے، میں نے ان کے جوتے دیکھے۔ میں نے سکھ کا سانس لیا! وہ یہیں تھے۔ فوج نے انہیں نہیں اٹھایا تھا۔
اس وقت میں کوئی بے بس طالبعلم نہیں تھا۔ اب میں ایک صحافی کے طور پر پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی روزنامے کیساتھ کام کر رہا تھا۔ میں نے انچارج کے دفتر میں اپنا بزنس کارڈ بھیجا اور اس نے مجھے اندر بلالیا۔
”اس سے تمہارا کیا رشتہ ہے،“ انچارج نے پوچھا۔
”یہ میرے مامو ہیں۔“
انچارج نے گہری سانس لی اور پھر اپنے دفتر کی دیوار پر لٹکے ایک بلیک بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر سفید رنگ میں کچھ نام عمودی ترتیب میں لکھے ہوئے تھے۔ ”یہ سابق ایس ایچ اوز (پولیس سٹیشن کا انچارج) کے نام ہیں۔ ان کے ٹرانسفر کی تاریخ بھی لکھی ہوئی ہے۔ آپ ایک صحافی ہیں، آپ کہتے ہیں؟ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس اسٹیشن کے ایس ایچ او تقریباً ہر ماہ ٹرانسفر ہوتے ہیں۔ آپکو پتہ ہے کیوں؟“ میں نے کچھ نہیں کہا۔ ”کیونکہ کراچی پریس کلب ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور آپ کے ماموں ہر ہفتے پاکستان کو گالیاں دینے وہاں آتے ہیں،“ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ ”اس کے بعد فوج کے لوگ ہمارے کانوں میں غلیظ الفاظ کیساتھ چلاتے ہیں کہ آپ لوگ اسے کیوں نہیں روکتے۔“
میں بین السطور انکا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب میں جان چکا تھا کہ وہ انہیں زیادہ دیر تک حراست میں نہیں رکھنے والے تھے۔ یہ گرفتاری محض ایک تنبیہ تھی۔
”سر میں اپنے ماموں کی وجہ سے پیدا شدہ آپکے مسائل کیلئے معافی چاہتا ہوں۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ پھر انہیں پریس کلب کے سامنے کبھی نہیں دیکھیں گے،“ میں جانتا تھا کہ ایک کھوکھلا وعدہ کر رہا ہوں۔
”جی ہاں، بڑی مہربانی۔ میں کوئی ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) درج نہیں کروں گا، اور تم اسے کل مجسٹریٹ کے دفتر سے ایک چھوٹا سا جرمانہ ادا کرکے رہا کرا سکتے ہو۔ لیکن اس میں کچھ سمجھانے کی کوشش کرو۔“
”ضرور، میں کروںگا،“ میں نے ایک اور کھوکھلا وعدہ کیا، کہ گویا میں کسی اسکول ٹیچر کو یقین دہانی کرا رہا تھا میرا بچہ مستقبل میں کوئی شرارت نہیں کرے گا۔
اگلے روز صبح سویرے، ہم مجسٹریٹ کے دفتر میں تھے۔ یہ ایک بھرا ہوا دفتر تھا۔ وہاں اس دفتر کی گنجائش سے زیادہ فائلیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم 20 سے زائد منٹ تک کھڑے رہے اور مجسٹریٹ اپنی فائلوں کو دیکھتا رہا کہ گویا وہ ہماری موجودگی سے بے خبر تھا۔ جب اس نے سر اٹھا یا تو میں نے ساٹھ سال کے قریب کا ایک تھکا ہوا آدمی دیکھا۔
”ملزم کون ہے،“ انہوں نے پوچھا۔
”وہ،“ میں نے شرماتے ہوئے اپنے ماموں کی طرف اشارہ کیا۔
مجسٹریٹ نے تھوڑی دیر تک ان کی طرف دیکھا۔ پولیس اسٹیشن میں رات گزارنے کی وجہ سے، انکے چہرے پر بھوری رنگ کی ہلکی سی شیو بڑھی ہوئی تھی۔
”اپنی عمر تو دیکھو۔ کیا اس عمر میں ایسی حرکتیں کرنا اچھا کام ہے؟ آپ کو اپنے پوتے پوتیوں کیساتھ کھیلنا چاہیے نہ کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا چاہیے۔“
میں دعا کر رہا تھا کہ اس کے جواب میں وہ کوئی ناگوار بات نہ کہہ دیں۔ وہ عمر میں مجسٹریٹ سے کم از کم 25 سال چھوٹے تھے۔ لیکن وہ ہوشیار تھے۔ وہ خاموش رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں ایک اور دن باہر رہنے کا موقع ملے تاکہ وہ پریس کلب جاکر ایک سحرزدہ عوام کے سامنے کوئی شعلہ فشاں تقریر کریں۔
انہیں رہا کیا گیا۔ میرا ان کیساتھ کام ختم ہوا، کم از کم اسوقت کے لئے۔ مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر ایک ہجوم ان کا انتظار کر رہا تھا۔ ”میں تم سے گھر پر ملوں گا،“ انہوں نے مجھ سے یہ کہا اور بھیڑ کے ساتھ چلے گئے۔
اس دن شام کو دیر سے جب وہ گھر آئے تو وہ ہمارے درمیان بدترین جھگڑوں میں سے ایک تھا۔ میری والدہ مسلسل دخل دے رہی تھیں، ہم میں صلح کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے برتن، بستر، چادر اور تکیے کے بارے میں شکایت کرنے کیلئے جو میں گزشتہ رات تھانے لے گیا تھا اور واپس لانا بھول گیا تھا۔ ”وہ اب جا چکے ہیں۔ آپ کراچی پولیس کو نہیں جانتیں،“ میں نے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنے بھائی کی طرح ضدی تھیں۔ ”مجھے وہ کسی بھی حالت میں واپس چاہیئیں۔ اور اگلی بار اگر تم جیل گئے تو میں تمہارے لئے کھانا نہیں بھیجوں گی،“ انہوں نے اپنے بھائی کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ہمارا سیاسی جھگڑا اب ایک گھریلو مسئلے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ہم نے ان سے نئے برتن خریدنے کا وعدہ کیا لیکن کبھی نہیں خریدے۔
وہ اپنی بیوی، ماں اور بہنوں سے کیے گئے وعدے پورا کرنے میں کھرے نہیں اترے۔ انہوں نے اپنی بیوی سے ایک ایئر کنڈیشنر خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے پورانہیں کیا۔ لیکن انہوں نے بلوچ عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا۔ تقریباً ہر تقریر میں، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایک آزاد بلوچستان کیلئے اپنی جان قربان کر دیں گے۔
مورخہ 3 اپریل 2009ء کو انہیں تربت میں اپنے وکیل کے دفتر سے اٹھا لیا گیا۔ 9 تاریخ کو ان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔
میں اب بھی سوچتا ہوں کہ ان کی سیاسی حکمت عملی غلط تھی۔ لیکن اپنی ”غلط“ حکمت عملی کیساتھ انہوں نے ایک آزاد بلوچستان کے خواب کیلئے لاکھوں بلوچوں کو متحرک کیا۔ مجھے اب بھی لگتا ہے کہ میری مجوزہ حکمت عملی صحیح تھی، لیکن میں نے کیا اثر ڈالا؟ میں مند میں انکے گھر پر جمع ہوئے ان ہزاروں طیش میں آئے بلوچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ان کی موت کا بدلہ لینے کا وعدہ کیا۔
میں نے یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ لیکن بہت سوں نے کیا یا کم از کم پورا کرنے کوشش کر رہے ہیں۔

пятница, 1 апреля 2016 г.


”کیا پاکستان ٹوٹے گا؟


کارنیگی انڈاو منٹ فار انٹرنیشنل پیس میں مرکز برائے بین الاقوامی پالیسی کے ایشیاء پروگرام کے ڈائریکٹر سلیگ ایس ہیریسن کے ریمارکس
(ریمارکس کی 9جون 2009ءکی تقریر کیمطابق جانچ نہیں کی گئی ہے)
ترجمہ: لطیف بلیدی
Selig S Harrisonمیں اپنی تقریر کا آغاز کتاب کے ایک حوالے کیساتھ شروع کرنے جا رہا ہوں۔ یہ اقتباس میرے نزدیک پاکستان کے موضوع پر لکھی گئی ایک اہم کتاب سے ہے جسکا نام ’گریٹ گیم کی پرچھائی: تقسیم ہند کی ان کہی داستان‘ ہے، جسے نریندراسنگھ ساریلا نے لکھا ہے جوکہ ایک ریٹائرڈ بھارتی سفارتکار اور ماونٹ بیٹن کے اے ڈی سی تھے۔ انہیں برطانوی آرکائیوز تک بے مثال حد تک رسائی حاصل تھی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے تفصیلی اور حتمی ثبوت پیش کیے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ حتیٰ کہ مارچ 1945ء کے اوائل میں ونسٹن چرچل اور برطانوی جنرل اسٹاف نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اسٹراٹیجک وجوہات کی بناء پر تقسیم ہند ضروری ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر پاکستان کے قیام کیلئے کام کیا کیونکہ جناح نے ان سے فوجی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور نہرو نے ایسا کرنے سے انکار۔
یہ امر اس بات کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ پاکستان کیونکر اتنا ناقابل فعال ہے۔ یہ ایک مصنوعی سیاسی ہستی ہے۔ برطانیہ نے پانچ نسلی گروہوں کو اکھٹا کیا جو کہ تاریخی طور پر اس سے قبل کبھی بھی ایک ہی مملکت میں ایک ساتھ نہیں رہے تھے۔ ان میں سب سے بڑا نسلی گروہ بنگالی تھے۔ وہ دیگر تمام چاروں، یعنی پنجابیوں، پختونوں، بلوچوں اور سندھیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھے۔ بے شک یہ پانچ سے چار ہوئے جب بنگلا دیش الگ ہوا۔جب یہ ہوا تو 1971ء کے بنگلا دیش بحران کے دوران میں ڈھاکہ میں تھا جب تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے فوج داخل ہوچکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ میری ایک یادگار گفتگو ہوئی تھی جس میں انہوں کہا تھا کہ یہ بہتر ہوگا اگر بنگالی واقعتا الگ ہوجائیں کیونکہ ان کے بغیر پاکستان کا انتظام زیادہ بہتر طور پر چلایا جاسکے گا۔ اس سے انکی مراد یہ تھی کہ اگر وہ بنگالیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیں تو پنجابیوں کے ساتھ تعاون میں انہیں پاکستان کا نظام چلانے کا ایک بہتر موقع مل سکے گا۔ اور ہوا بھی یہی، ماسوائے اس کے کہ فوج، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، نے انہیں بالآخر پھانسی دیدی۔
پاکستان کی فوج، جو اسے برطانیہ کی طرف سے ورثے میں ملی تھی، پر بھاری اکثریت کیساتھ پنجابی افسران اور سپاہیوں کا غلبہ تھا۔ تو لہٰذا بنگالیوں کے جانے کیساتھ بلوچ، پشتون اور سندھیوں نے ایک ظالمانہ تاریخی ستم ظریفی کا سامنا کیا۔ صدیوں سے وہ اپنے علاقوں میں مغلوں کے حملوں کیخلاف مزاحمت کرتے آرہے تھے، لیکن اب وہ خود پنجابیوں کی حکمرانی کے تحت آچکے تھے جو مغلوں کی عظمت کو اپنے اقتدار کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تین نسلی اقلیتیں مجموعی طور پر آبادی کا محض 33 فی صد ہیں لیکن وہ پاکستان کے 72 فیصد علاقے کو اپنا آبائی وطن سمجھتے ہیں۔ یہ امر اس تنازعے کا ایک مستقل حصہ ہے۔
آئیں سب سے پہلے بلوچ پر نظر ڈالیں کیونکہ وہ ایک فعال بغاوت چلا رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اسی لئے 1958ء(1948) میں پاکستان کی قابض فوج کو انہیں زبردستی شامل کرنا پڑا۔ اب بھی پورے بلوچستان میں شورش سے نمٹنے کیلئے فوج کی چھاونیاں قائم ہیں جو وقفے وقفے سے اسے کچلتی آئی ہے اور اس کے بعد جلد ہی دوبارہ شورش شروع ہوجاتی ہے۔ اس شورش کو بنیادی طور پر پنجابیوں کے بلوچستان کے اقتصادی استحصال کیخلاف بلوچ کی نفرت بھڑکاتی ہے خاص طور پر وہاں سے نکالا جانیوالا قدرتی گیس جسکا سب سے زیادہ استعمال باقی ماندہ پاکستان کرتا ہے جسے بلوچ غیر منصفانہ شرائط پر مبنی سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، بشمول تیل کے، جنہیں شورش کے خاتمے تک ترقی نہیں دی جا سکتی۔ اسوقت بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے 22 منصوبے التواء کا شکار ہیں، لہٰذا یہ پاکستان کیلئے ایک سیاسی اور فوجی مسئلے کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑا مضمحل کن اقتصادی مسئلہ بھی ہے۔
فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے ان کے رہنماوں کو خرید کر اور انہیں قتل کرکے بلوچ کو تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں بلوچ باغی قوتوں کے دو مضبوط رہنماوں کو قتل کیا ہے، سب سے پہلے اکبر بگٹی اور حال ہی بالاچ مری، انہوں نے انہیں شہید بنادیا ہے۔ اس وقت بلوچ مسلح جدوجہد کے پاس موثر متحدہ قیادت نہیں ہے مگر چھ ملین بلوچ سیاسی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہیں۔ وہاں اب بھی چند اعتدال پسند بلوچ سیاسی شخصیات موجود ہیں جو پاکستان میں رہنے کے حق میں ہیں اگر اقلیتوں کو صوبائی خودمختاری مل جائے جسکا تصور 1973ء کے آئین میں دیا گیا ہے، لیکن آزادی کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد میں نام نہاد سویلین حکومت کی آمد کے باوجود آئی ایس آئی بلوچ اور سندھیوں کی، وکلاء اور عدالتوں تک رسائی دیے بغیر، پکڑ دھکڑ جاری رکھے ہوئی ہے۔ 900 سے زائد بلوچ اور سندھی سرگرم کارکن بنا کسی سراغ کے غائب ہوئے ہیں۔ میں آپ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ’ناقابل تردید کی تردید: پاکستان میں جبری گمشدگیاں‘ پڑھنے کی درخواست کرتا ہوں جو انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر پوری سند کیساتھ حوالہ دیتی ہے، جو مشہور زمانہ پنوشے کے چلی میں گمشدگیوں سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔
فوجی لحاظ سے تنہا بلوچ ایک کمزور پوزیشن میں ہیں لیکن انہوں نے سندھی دھڑوں کیساتھ اتحاد قائم کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ بلوچ اور سندھی رہنماء جس بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ہے ایک خود مختار بلوچ سندھی وفاق جو کہ بھارتی سرحد سے لیکر ایران تک پھیلی ہوئی ہوگی۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں سب سے واضح رکاوٹ بے شک کراچی ہے جو کہ ایک کثیر النسلی آبادی کیساتھ اس علاقے کے وسط میں ہے۔ لیکن بلوچ اور سندھیوں کا کہنا ہے کہ کراچی کا انحصار گیس اور پانی کی پائپ لائنوں پر ہے جو اسکے ارد گرد کے دیہاتی علاقوں سے گزرتی ہیں جو انکے کنٹرول میں ہیں۔
میں نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے مستقبل اس امر پر منحصر ہونگے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیا شکل اختیار کرتے ہیں۔ بھارت میں اب تک یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ایک مستحکم پاکستان بھارتی مفاد میں ہے۔ لیکن ممبئی حملوں کے بعد لشکر طیبہ کیخلاف کارروائی میں پاکستان کی ناکامی نے انہیں دوبارہ کچھ اور سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
بھارتی غصہ جتنا بڑھتا ہے اتنا یہ خیال بھی کہ بھارت کو بلوچ اور سندھی علیحدگی پسندی کی حمایت کرنی چاہئے، یا تو پاکستان کیخلاف بھرپور جوابی فوجی کارروائی کیلئے ایک متبادل کے طور پر یا پھر دومحاذی فوجی حکمت عملی کے ایک اہم حصے کے طور پر۔ ایک متبادل کے طور پر یہ کہ بلوچ اور سندھیوں کو اکسانا پاکستان کیساتھ ایک براہ راست فوجی تصادم کے خطرات سے بچائے گا جوکہ ایٹمی جنگ کی سطح تک جا سکتی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے خروج کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایک دومحاذی حکمت عملی کے حصے کے طور پر یہ کہ بلوچ اور سندھی باغیوں کیلئے بھارتی حمایت پاکستانی فورسز کی خاصی تعداد کو سندھ کی طویل سرحد پر محدود رکھیں گی جبکہ دیگر افواج کشمیر یا پنجاب، یا دونوں میں بھارتی فورسز کا سامنا کریں گی۔
گزشتہ پانچ سالوں سے پاکستان بھارت پر الزام لگاتا آرہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے بلوچ مزاحمتکاروں کی مدد کررہا ہے لیکن اسکے حق میں ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔ ان الزامات میں معتبریت کا فقدان پایا جاتا ہے کیونکہ بلوچ چھوٹےغیرموثر ہتھیاروں کیساتھ لڑ رہے ہیں۔ بلوچ کہتے ہیں کہ دبئی اور خلیج فارس کی دیگر ریاستوں میں مقیم بلوچ ہم وطنوں سے فنڈز کی فراہمی کیساتھ انکے ہتھیار بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے ہیں۔ اگر درحقیقت بھارت بلوچوں کو بڑے پیمانے پر جدید ترین ہتھیار، ترسیلی مدد اور فنڈز دینے کا فیصلہ کرلے تو وہ بڑی تعداد میں بیروزگار بلوچوں اپنی طرف کھینچ کر 4,500 جنگجووں کی اپنی موجودہ قوت کو تیزی سے بڑھالیں گے۔
موجودہ وقت میں ایک آزاد بلوچستان یا ایک بلوچ سندھ فیڈریشن کے امکانات بہت دور نظر آتے ہیں۔ لیکن اصل گیم چینجر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک جنگ ہوگی جس میں بھارتی ایئر فورس براہ راست بلوچ باغی فورسز کی مدد کرے گی۔ بلوچ کیساتھ ماضی کی لڑائیوں میں پاکستان ایئر فورس نے بلوچ مزاحمتکاروں اور شہریوں پر یکساں طور پر بڑی بے رحمی سے بمباری کی ہے اور بلوچ کو علاقے قبضے میں لینے اور اپنا قبضہ جمائے رکھنے کیلئے بھارتی فضائی مدد کی ضرورت پڑے گی۔
اپنی بہت بڑی جنگی طاقت کے علاوہ، پاکستان کی مسلح افواج 38 ارب ڈالر کے اثاثوں کیساتھ ایک وسیع کاروباری سلطنت کو کنٹرول کرتے ہیں جو انہیں اقتصادی طور پر طاقت میں رہنے میں مدد دیتا ہے (جنکی تفصیلات عائشی صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انکارپوریشن‘ میں دی گئی ہیں) جسکی ایک طویل جدوجہد کو برقرار رکھنے کیلئے ضرورت ہے۔
خواہ بھارت کیساتھ کشیدگی پاکستان کے ٹوٹنے کی صورت میں نکلے یا نہ نکلے، آنے والے سالوں میں بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند گروہوں کے اپنے نیم فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا امکان ہے۔ چنانچہ، جب تک کہ مرکزی حکومت اقلیتی صوبوں کیساتھ ایک پرامن مصالحت کے حصول کی کوشش نہیں کرتا، پاکستان کے پہلے سے موجود سنگین اقتصادی مسائل میں مضمحل کن نسلی کشیدگی شدت لے آئیں گی۔ یہ کشیدگیاں اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں گی اور ملک کے بڑے حصوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاہدوں کے نفاذ کو ناممکن بنا دیں گی۔ میں نے اپنی رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ایک پرامن مصالحت کیلئے کیا چیز ضروری ہے، خاص طور پر 1973ء کے آئین پر عملدرآمد جو صوبوں کو اختیارات کی ایک بامعنی منتقلی پر منتج ہو۔
اب پشتونوں کی طرف آتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف آباد 41 ملین پشتونوں میں اتحاد کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔
برطانوی راج سے قبل 1747ء سے پشتون سیاسی طور پر ایک افغان سلطنت کے زیرانتظام متحد رہیں جو مشرق میں پنجاب کے مرکزی خطے سے لیکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ان کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا جب برطانیہ نے دریائے سندھ اور خیبر پاس کے درمیان پشتون آبائی علاقے کے 40,000 مربع میل پر قبضہ کرلیا جس میں نصف پشتون آبادی سمٹ گئی اور اس کے بعد ان پر ڈیورنڈ لائن تھوپ دی جس نے ان کی فتح کو رسمی شکل دیدی۔ بعد ازاں 1947ء میں برطانیہ نے یہ علاقہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں 1947ء کے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد پاکستان کی نئی حکومت کو سونپ دیا۔ ریفرنڈم کا اہتمام برطانوی نوآبادیاتی حکام کے زیر انتظام کیا گیا تھا جنہوں نے صوبے کے پاکستان کیساتھ الحاق کی کھل کر طرفداری کی۔ 572,799 اہل ووٹروں میں سے صرف 292,118 نے ووٹ دیا۔ یہ اسلئے ہوا کیونکہ بہت سے پشتونوں کی جانب سے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ جن پشتون جماعتوں نے 1946ء کے صوبائی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے تھے اس ریفرنڈم میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنے کے علاوہ ایک آزاد ”پشتونستان“ کے اختیار کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ ریفرنڈم سے قبل ان جماعتوں کے رہنماوں کو قید کیا گیا اور 22 جون 1947ء کے ”بنوں اعلامیہ“ کے بعد ان کے اخبارات پر پابندی عائد کی گئی جس میں انہوں نے ”پشتونستان“ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان لوگوں میں سے جن پشتونوں نے برطانوی حکام کی جانب سے منعقد کردہ قبائلی اجتماعات میں ووٹ دیا تھا، پاکستان کے حق میں کل 2,894 ووٹ پڑے۔ چنانچہ اس مسئلے کا فیصلہ 50.5 فیصد اہل رائے دہندگان نے کیا تھا جو کھلی دھاندلی کے الزامات کے درمیان ہوا جسکی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد ظاہر شاہ کی بادشاہت، محمد داود کی جمہوریہ اور کابل میں کم میعاد کمیونسٹ حکومت، ان سب نے پاکستان کے پشتون علاقوں پر حکومت کرنے کے حق کو چیلنج کیا ہے۔ بسا اوقات افغانستان نے پاکستان کے اندر ایک خودمختار پشتون ریاست قائم کئے جانے کے مقصد کی حمایت کی ہے، بعض اوقات ایک آزاد ”پشتونستان“ پاکستان سے کاٹ کر بنائے جانے کی بات کی ہے اور بسا اوقات ”گریٹر افغانستان“ کی جس سے وہ اپنے کھوئے علاقے براہ راست شامل کر سکے۔
سوویت قبضے کیخلاف مزاحمتی تحریک اور القاعدہ اور طالبان کیخلاف امریکی فوجی کارروائی، جو 2001ء میں شروع ہوئی، نے پشتون معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کی ہے جس نے ”پشتونستان“ تحریک کے مستقبل کو غیر یقینی بنادیا ہے۔ قبائلی معاشرے میں ملا پر ملک کی روایتی بالادستی کمزور ہوئی جب امریکہ نے سعودی عرب اور خلیج فارس کے اسلامی گروہوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلام پسند حاشیہ نشینوں کو سوویت یونین کیخلاف جدوجہد کیلئے ہتھیاروں کی امداد اور فنڈز کی فراہمی کی۔ یہ سب انٹرسروسز انٹیلی جنس پاکستان کی نظامت کی ایماء پر کیا گیا۔ آئی ایس آئی کا مقصد ایسے نائبین پیدا کرنا تھا جو پشتونستان کے تصور کے مخالف ہوں۔ سوویت افواج کے جانے کے بعد جب ان نائبین نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کے قابل نہیں ہیں تو آئی ایس آئی طالبان کی طرف متوجہ ہوئی جسکے پاس ایک پشتون اساس تھی لیکن اس پر ایک پین اسلامسٹ نظریے کی حامل علماء رہنماوں کا غلبہ تھا۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ طالبان کی حکومت، جس نے 1996ء سے 2001ء تک حکومت کی، نے ایسا کرنے کے پاکستانی دباو کے باوجود ڈیورنڈ لائن کو قبول نہیں کیا۔
پشتون معاشرے میں گزشتہ تین دہائیوں کی افراتفری سے پیدا شدہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں ملِک کی قیمت پر مُلا کی طاقت میں اضافہ ہونے کے باوجود پشتونوں میں اجتماعی تشخص کا ایک طاقتور احساس موجود ہے جسکی جڑیں ایک قدیم قبائلی ساخت میں پیوست ہیں جو اب بھی ان کی زندگی کا تعین کرتی ہے۔ پشتونوں پر سب سے ممتاز برطانوی ماہر لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروفیسر ایمریطس رچرڈ ٹیپر ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے جو ٹیپر کہتے ہیں: ”مختلف پشتون گروہوں کے درمیان مقامی تنازعات کے باوجود سیاسی اتحاد کیلئے غیرمعمولی صلاحیت کی حامل ایک علامتی جذبے کے طور پر تمام پشتونوں کی نسلی اور ثقافتی وحدت کے تصور سے وہ طویل عرصے سے آشنا رہے ہیں۔“
پاکستان کی مسلح افواج اور امریکی ڈرون طیاروں کی طرف سے پشتون سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس سے ایک گہرا سیاسی اثر پڑا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات، جو فاٹا کے طور پر جانا جاتا ہے، کی سیاست سے نئی وابستگی کے سبب انتہا پسند پشتون اب اپنے آپ کو شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان کے شمالی کونے میں آباد پشتونوں کے سیاسی بھائیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اقتصادی ترقی چاہتے ہیں، لیکن ایسی ترقی جو پشتونوں کے کنٹرول میں ہو نہ کہ پنجابی اکثریتی مرکزی حکومت کے کنٹرول میں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں نشانہ بنائے جانے سے ایک پشتون احساس کو ابھارنے کے سبب فاٹا میں لڑی جانیوالی ”دہشت گردی کیخلاف جنگ“ نے انہی جہادی قوتوں کو مضبوط کیا ہے جنہیں امریکہ شکست دینے کی کوشش کررہا ہے۔ طالبان قیادت کی بنیاد غزالی پشتون قبائل میں ہے، لہٰذا امریکی پالیسی نے طالبان کو دونوں یعنی اسلام اور پشتون قوم پرستی کا چیمپیئن بننے کے قابل بنایا ہے۔
روایتی دانش میں، ایک یا دوسرا، اسلامی یا تو پشتون، بالآخر فتح یاب ہوگا لیکن ایک اور یکساں طور پر بظاہر معقول ممکنہ امکان یہ بھی ہے کہ اس کا نتیجہ، جیسا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا تھا، ایک ”اسلامی پشتونستان“ کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جو یا تو کچھ یا پھر سرحد کے دونوں اطراف آباد تمام پشتونوں کو اپنے اندر سمیٹ لے گا۔ یکم مارچ 2007ء کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک سیمینار میں سفیر حسین حقانی کے پیشرو میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمود علی درانی، جو ایک پشتون ہیں، نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے امید ہے کہ طالبان اور پشتون قومپرستی مدغم نہیں ہونگے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سمجھیں کہ ہمارا کام تمام ہوا، اور ہم اس کے دہانے پر ہیں۔“
امریکی مفادات اور پالیسیوں کے لحاظ سے ان سب کا کیا مطلب ہے؟ نسلی کشیدگی میں کمی کا براہ راست تعلق اس بات پر منحصر ہے کہ ہم القاعدہ کیساتھ کس طرح سے نمٹتے ہیں اور میں سب سے پہلے اسی پر بحث کروں گا۔
پھر میں اس بات کی جانچ کروں گا کہ پاکستان کا ٹوٹنا پاکستان میں جہادی قوتوں کیخلاف جدوجہد اور جنوبی ایشیاء میں وسیع تر امریکی مفادات پر کس طرح سے اثرانداز ہوگا۔
وزیرستان میں القاعدہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کیلئے ہمیں پشتون قبائل اور پشتون طالبان رہنماوں کا تعاون حاصل کرنا ہو گا جو القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت ہم اسوقت جو کچھ کر رہے ہیں اس سے القاعدہ کیلئے پشتون حمایت کو تقویت مل رہی ہے۔ ہم پنجابی فوجی بھیج رہے ہیں اور ڈرون حملے کررہے ہیں جو پشتون شہری ہلاکتوں کا باعث بنی ہیں، یہ اقدامات پشتونوں کو تیزی سے طالبان اور القاعدہ کی طرف جانے میں کارفرما رہی ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اس عمل نے فاٹا کے پشتونوں کو تیزی سے سیاست زدہ اور بنیاد پرستانہ بنا دیا ہے۔ یقینا ڈرون حملوں سے کچھ کامیابی ملی ہے لیکن جیساکہ بروس ریڈل نے مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ”یہ شہد کے کسی چھتے میں ایک ایک مکھی کا پیچھا کرنے جیسا ہے۔“ میرے خیال میں فوائد کی نسبت زیادہ بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ میری رپورٹ میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ امریکہ کو ڈرون حملے روکنے چاہئیں، پشتونوں کیخلاف جنگ کیلئے پنجابی فوجی بھیجنے میں پاکستان کی حوصلہ افزائی بند کرنی چاہئے اور طالبان دھڑوں کو القاعدہ سے علیحدہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیے گئے کم پروفائل والی خفیہ کارروائیاں کرنے کیلئے ایک سازگار سیاسی ماحول پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ کارروائیوں کے لحاظ سے طالبان دھڑوں میں سے زیادہ تر افغانستان اور پاکستان میں مقامی مقاصد کو حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ امریکہ کیلئے براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سیکولر پشتون رہنماء سوات میں امن معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش میں صحیح تھے اور یہ واضح نہیں تھا کہ ناکامی پہلے سے ہی اس کا مقدر تھی۔ ان میں سے کچھ کو لگتا ہے کہ اسلام آباد نے اپیلیٹ دائرہ کار اور عدالتی تقرریوں کے کنٹرول پر اصرار کرکے زیادتی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ان مسائل پر اسلام آباد کا رویہ مزید لچک دار ہوتا تو یہ معاہدہ ناکام نہ ہوتا۔
امریکہ کو پاکستان میں طالبان دھڑوں کیساتھ امن اقدامات کی اسی طرح سے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جس طرح اسوقت ہم افغانستان میں مقامی سطح پر ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مشرف کے دور میں امن معاہدوں کے خیال کو غیر معتبر ٹھہرایا گیا لیکن وہ معاہدے آئی ایس آئی کیساتھ گفت و شنید کے نتیجے میں ہوئے تھے اور مقامی سطح پر انکی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ فاٹا کے پشتونوں کو یہ باور کروائے کہ وہ ان کی سیاسی خواہشات سمجھتا ہے۔ فاٹا کے پشتون نہیں چاہتے کہ پنجابی اکثریتی مرکزی حکومت ان پر حکومت کرے جسکی تجویز اسوقت دی جارہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں پشتون صوبہ سرحد میں ضم کیا جائے جسے 13 مارچ کو ایک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ انہیں اسی قانونی نظام اور سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کے تحت لے آئے گا جو دیگر پاکستانیوں پر لاگو ہیں۔ امریکہ کو فاٹا کے صوبہ سرحد میں انضمام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور ایک متحدہ پشتون صوبے کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جس میں سرحد، فاٹا اور بلوچستان اور پنجاب کے پشتون علاقوں کو ایک متحد ہستی میں ضم کیا جائے جسکا نام ”پختونخواہ“ ہو۔ پشتون پنجابیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط پوزیشن چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکی حمایت اس نفسیاتی فضاء کو یکسر تبدیل کردے گی جس میں القاعدہ کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
جیساکہ میں نے پہلے کہا تھا کہ ایک آزاد پشتونستان کا ظہور امریکی مفادات کیلئے لازمی طور پر کوئی خطرہ نہیں ہوگا اگر یہ سیکولر قیادت میں ہو تو۔ اسی طرح سے ایک آزاد بلوچ سندھی فیڈریشن بھی لازمی طور پر امریکی مفادات سے متصادم نہیں ہوگا کیونکہ بلوچ اور سندھی علاقے سیکولر اقدار اور اعتدال پسند اسلام کے مضبوط گڑھ ہیں۔ اکثر سندھی صوفی ہیں اور کئی بلوچ ذکری ہیں۔ وہ وہابی اور دیوبندی طرز کے اسلام کو مسترد کرتے ہیں جسے پنجاب میں سپاہ صحابہ اور دیگر شیعہ مخالف سنی گروہ زہریلے پن سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسلام پسندوں کا خطرہ پنجاب میں مرکوز ہے جہاں لشکر طیبہ اور دیگر سخت گیر جہادی گروہ تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں۔ بہر حال میری رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ بلوچستان اور سندھ کا الگ ہوجانا خواہش انگیز نہیں ہے اور اسکا امکان بھی نہیں ہے اگر 1973ء کے آئین میں دی گئی خود مختاری کے دفعات کا احترام کیا جائے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم ہو تو۔
میں نے مضمحل کن کا لفظ کئی بار استعمال کیا ہے کیونکہ یہ پاکستان پر نسلی کشیدگیوں کے اثرات کی توضیح بہترین طور پر کرتا ہے۔ نسلی کشیدگیاں پاکستان کو بتدریج کمزور کردیں گی حتیٰ کہ اگر یہ غیر یقینی طور پر باہم قائم بھی رہے۔ امریکہ نے گزشتہ پچاس برسوں سے فوجی امداد کی ترسیل کرکے ایک فرینکنسٹائن عفریت کو جنم دیا ہے جس نے نسلی کشیدگیوں کو کم کرنا زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ اب ہمارا سامنا حد سے زیادہ پھولے ہوئے مسلح افواج سے ہے جو کہ ایک مراعات یافتہ اشرافیہ بن چکا ہے اور طاقت پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں اسکے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ اسلام آباد میں سویلین حکومتوں کا گلا بھونٹتے ہیں اور وفاق کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری آئینی اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔ سویلین قیادت کو مضبوط بنانے اور طاقت کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کرنے میں امریکہ جو کچھ کرسکتا ہے اسے کرنا چاہئے لیکن ہوسکتا ہے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ صدر زرداری اپنی پوزیشن کو برقرا رکھنے کیلئے وہی کرتے ہیں جو کچھ فوج انہیں کہتی ہے اور صدر زرداری کو گھیرنے کیلئے وزیراعظم گیلانی آئی ایس آئی کیساتھ کام کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سویلین حکومت فوج اور آئی ایس آئی کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اقلیتی صوبوں میں جو کچھ کرنا چاہیں کریں اور زرداری، اپنے وعدوں کے باوجود، 1973ء کے آئین کو نافذ کرنے سے ڈرتے ہیں۔
امریکہ فوجی امداد میں کافی حد تک کٹوتی کرنے سمیت اس نقد سبسڈی، جو اتحادی سپورٹ فنڈز کے طور پر جانا جاتا ہے، کو کم کرنے سے اور آئی ایس آئی کے سویلین کنٹرول سے مشروط کرنے سے نسلی کشیدگیوں کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایک کتاب، ’پاکستان کی تغیر پذیر جمہوریت میں خفیہ ایجنسیوں کی اصلاح‘، میں امریکی پالیسی کیلئے ایک بہترین تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا ہے جسے فریڈرک گرارے نے لکھا ہے جو میرے مطالعے کی مشاورتی کمیٹی کے رکن تھے اور اسے حال ہی میں کارنیگی کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ اسوقت امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک بحران کا سامنا ہے جو ان مسائل پر براہ راست اثرانداز ہورہے ہیں جن پر ہم بحث کرتے آئے ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد پاکستانی حکومت نے لشکر طیبہ کیخلاف کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی ہے اور حال ہی میں اس کے دو رہنماوں کو رہا کیا گیا ہے جو نظربند تھے۔ اس کے ملیشیا میں سے کسی کو بھی غیر مسلح نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، امریکی انتظامیہ کانگریس کو 10.5 ارب ڈالر امداد کی منظوری کیلئے کہہ رہی ہے، اور کانگریس کے رہنماء تمام اقسام کی شرائط پر غور کر رہے ہیں ماسوائے سب سے زیادہ اہم شرط کے، جو لشکر طیبہ کیخلاف کریک ڈاون ہے۔ پاکستان کی طرف سے کارروائی کی کمی کے سبب بھارت کی پریشانی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک مغالطہ انگیز سکوت چھایا ہوا ہے۔ لشکر طیبہ کا ایک اور حملہ بلاشبہ بھارتی جوابی کارروائی پر منتج ہوگی بشمول بلوچ اور سندھی باغی قوتوں کی خفیہ یا اعلانیہ حمایت کے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب میں جہادیوں کا مقابلہ کرنا، پاکستان کو ایک ساتھ رکھنا اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کی روک تھام لازم و ملزوم ہیں۔