Powered By Blogger

пятница, 1 апреля 2016 г.


”کیا پاکستان ٹوٹے گا؟


کارنیگی انڈاو منٹ فار انٹرنیشنل پیس میں مرکز برائے بین الاقوامی پالیسی کے ایشیاء پروگرام کے ڈائریکٹر سلیگ ایس ہیریسن کے ریمارکس
(ریمارکس کی 9جون 2009ءکی تقریر کیمطابق جانچ نہیں کی گئی ہے)
ترجمہ: لطیف بلیدی
Selig S Harrisonمیں اپنی تقریر کا آغاز کتاب کے ایک حوالے کیساتھ شروع کرنے جا رہا ہوں۔ یہ اقتباس میرے نزدیک پاکستان کے موضوع پر لکھی گئی ایک اہم کتاب سے ہے جسکا نام ’گریٹ گیم کی پرچھائی: تقسیم ہند کی ان کہی داستان‘ ہے، جسے نریندراسنگھ ساریلا نے لکھا ہے جوکہ ایک ریٹائرڈ بھارتی سفارتکار اور ماونٹ بیٹن کے اے ڈی سی تھے۔ انہیں برطانوی آرکائیوز تک بے مثال حد تک رسائی حاصل تھی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے تفصیلی اور حتمی ثبوت پیش کیے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ حتیٰ کہ مارچ 1945ء کے اوائل میں ونسٹن چرچل اور برطانوی جنرل اسٹاف نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اسٹراٹیجک وجوہات کی بناء پر تقسیم ہند ضروری ہے۔ انہوں نے جان بوجھ کر پاکستان کے قیام کیلئے کام کیا کیونکہ جناح نے ان سے فوجی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور نہرو نے ایسا کرنے سے انکار۔
یہ امر اس بات کو سمجھنے میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ پاکستان کیونکر اتنا ناقابل فعال ہے۔ یہ ایک مصنوعی سیاسی ہستی ہے۔ برطانیہ نے پانچ نسلی گروہوں کو اکھٹا کیا جو کہ تاریخی طور پر اس سے قبل کبھی بھی ایک ہی مملکت میں ایک ساتھ نہیں رہے تھے۔ ان میں سب سے بڑا نسلی گروہ بنگالی تھے۔ وہ دیگر تمام چاروں، یعنی پنجابیوں، پختونوں، بلوچوں اور سندھیوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھے۔ بے شک یہ پانچ سے چار ہوئے جب بنگلا دیش الگ ہوا۔جب یہ ہوا تو 1971ء کے بنگلا دیش بحران کے دوران میں ڈھاکہ میں تھا جب تحریک آزادی کو کچلنے کیلئے فوج داخل ہوچکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کیساتھ میری ایک یادگار گفتگو ہوئی تھی جس میں انہوں کہا تھا کہ یہ بہتر ہوگا اگر بنگالی واقعتا الگ ہوجائیں کیونکہ ان کے بغیر پاکستان کا انتظام زیادہ بہتر طور پر چلایا جاسکے گا۔ اس سے انکی مراد یہ تھی کہ اگر وہ بنگالیوں سے چھٹکارا حاصل کر لیں تو پنجابیوں کے ساتھ تعاون میں انہیں پاکستان کا نظام چلانے کا ایک بہتر موقع مل سکے گا۔ اور ہوا بھی یہی، ماسوائے اس کے کہ فوج، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، نے انہیں بالآخر پھانسی دیدی۔
پاکستان کی فوج، جو اسے برطانیہ کی طرف سے ورثے میں ملی تھی، پر بھاری اکثریت کیساتھ پنجابی افسران اور سپاہیوں کا غلبہ تھا۔ تو لہٰذا بنگالیوں کے جانے کیساتھ بلوچ، پشتون اور سندھیوں نے ایک ظالمانہ تاریخی ستم ظریفی کا سامنا کیا۔ صدیوں سے وہ اپنے علاقوں میں مغلوں کے حملوں کیخلاف مزاحمت کرتے آرہے تھے، لیکن اب وہ خود پنجابیوں کی حکمرانی کے تحت آچکے تھے جو مغلوں کی عظمت کو اپنے اقتدار کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تین نسلی اقلیتیں مجموعی طور پر آبادی کا محض 33 فی صد ہیں لیکن وہ پاکستان کے 72 فیصد علاقے کو اپنا آبائی وطن سمجھتے ہیں۔ یہ امر اس تنازعے کا ایک مستقل حصہ ہے۔
آئیں سب سے پہلے بلوچ پر نظر ڈالیں کیونکہ وہ ایک فعال بغاوت چلا رہے ہیں۔ وہ کبھی بھی پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اسی لئے 1958ء(1948) میں پاکستان کی قابض فوج کو انہیں زبردستی شامل کرنا پڑا۔ اب بھی پورے بلوچستان میں شورش سے نمٹنے کیلئے فوج کی چھاونیاں قائم ہیں جو وقفے وقفے سے اسے کچلتی آئی ہے اور اس کے بعد جلد ہی دوبارہ شورش شروع ہوجاتی ہے۔ اس شورش کو بنیادی طور پر پنجابیوں کے بلوچستان کے اقتصادی استحصال کیخلاف بلوچ کی نفرت بھڑکاتی ہے خاص طور پر وہاں سے نکالا جانیوالا قدرتی گیس جسکا سب سے زیادہ استعمال باقی ماندہ پاکستان کرتا ہے جسے بلوچ غیر منصفانہ شرائط پر مبنی سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، بشمول تیل کے، جنہیں شورش کے خاتمے تک ترقی نہیں دی جا سکتی۔ اسوقت بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے 22 منصوبے التواء کا شکار ہیں، لہٰذا یہ پاکستان کیلئے ایک سیاسی اور فوجی مسئلے کے ساتھ ساتھ یہ ایک بڑا مضمحل کن اقتصادی مسئلہ بھی ہے۔
فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے ان کے رہنماوں کو خرید کر اور انہیں قتل کرکے بلوچ کو تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں بلوچ باغی قوتوں کے دو مضبوط رہنماوں کو قتل کیا ہے، سب سے پہلے اکبر بگٹی اور حال ہی بالاچ مری، انہوں نے انہیں شہید بنادیا ہے۔ اس وقت بلوچ مسلح جدوجہد کے پاس موثر متحدہ قیادت نہیں ہے مگر چھ ملین بلوچ سیاسی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہیں۔ وہاں اب بھی چند اعتدال پسند بلوچ سیاسی شخصیات موجود ہیں جو پاکستان میں رہنے کے حق میں ہیں اگر اقلیتوں کو صوبائی خودمختاری مل جائے جسکا تصور 1973ء کے آئین میں دیا گیا ہے، لیکن آزادی کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ اسلام آباد میں نام نہاد سویلین حکومت کی آمد کے باوجود آئی ایس آئی بلوچ اور سندھیوں کی، وکلاء اور عدالتوں تک رسائی دیے بغیر، پکڑ دھکڑ جاری رکھے ہوئی ہے۔ 900 سے زائد بلوچ اور سندھی سرگرم کارکن بنا کسی سراغ کے غائب ہوئے ہیں۔ میں آپ سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ ’ناقابل تردید کی تردید: پاکستان میں جبری گمشدگیاں‘ پڑھنے کی درخواست کرتا ہوں جو انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں پر پوری سند کیساتھ حوالہ دیتی ہے، جو مشہور زمانہ پنوشے کے چلی میں گمشدگیوں سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔
فوجی لحاظ سے تنہا بلوچ ایک کمزور پوزیشن میں ہیں لیکن انہوں نے سندھی دھڑوں کیساتھ اتحاد قائم کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے۔ بلوچ اور سندھی رہنماء جس بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ہے ایک خود مختار بلوچ سندھی وفاق جو کہ بھارتی سرحد سے لیکر ایران تک پھیلی ہوئی ہوگی۔ اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں سب سے واضح رکاوٹ بے شک کراچی ہے جو کہ ایک کثیر النسلی آبادی کیساتھ اس علاقے کے وسط میں ہے۔ لیکن بلوچ اور سندھیوں کا کہنا ہے کہ کراچی کا انحصار گیس اور پانی کی پائپ لائنوں پر ہے جو اسکے ارد گرد کے دیہاتی علاقوں سے گزرتی ہیں جو انکے کنٹرول میں ہیں۔
میں نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے مستقبل اس امر پر منحصر ہونگے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کیا شکل اختیار کرتے ہیں۔ بھارت میں اب تک یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ایک مستحکم پاکستان بھارتی مفاد میں ہے۔ لیکن ممبئی حملوں کے بعد لشکر طیبہ کیخلاف کارروائی میں پاکستان کی ناکامی نے انہیں دوبارہ کچھ اور سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
بھارتی غصہ جتنا بڑھتا ہے اتنا یہ خیال بھی کہ بھارت کو بلوچ اور سندھی علیحدگی پسندی کی حمایت کرنی چاہئے، یا تو پاکستان کیخلاف بھرپور جوابی فوجی کارروائی کیلئے ایک متبادل کے طور پر یا پھر دومحاذی فوجی حکمت عملی کے ایک اہم حصے کے طور پر۔ ایک متبادل کے طور پر یہ کہ بلوچ اور سندھیوں کو اکسانا پاکستان کیساتھ ایک براہ راست فوجی تصادم کے خطرات سے بچائے گا جوکہ ایٹمی جنگ کی سطح تک جا سکتی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے خروج کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ایک دومحاذی حکمت عملی کے حصے کے طور پر یہ کہ بلوچ اور سندھی باغیوں کیلئے بھارتی حمایت پاکستانی فورسز کی خاصی تعداد کو سندھ کی طویل سرحد پر محدود رکھیں گی جبکہ دیگر افواج کشمیر یا پنجاب، یا دونوں میں بھارتی فورسز کا سامنا کریں گی۔
گزشتہ پانچ سالوں سے پاکستان بھارت پر الزام لگاتا آرہا ہے کہ وہ افغانستان میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے بلوچ مزاحمتکاروں کی مدد کررہا ہے لیکن اسکے حق میں ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔ ان الزامات میں معتبریت کا فقدان پایا جاتا ہے کیونکہ بلوچ چھوٹےغیرموثر ہتھیاروں کیساتھ لڑ رہے ہیں۔ بلوچ کہتے ہیں کہ دبئی اور خلیج فارس کی دیگر ریاستوں میں مقیم بلوچ ہم وطنوں سے فنڈز کی فراہمی کیساتھ انکے ہتھیار بلیک مارکیٹ سے خریدے گئے ہیں۔ اگر درحقیقت بھارت بلوچوں کو بڑے پیمانے پر جدید ترین ہتھیار، ترسیلی مدد اور فنڈز دینے کا فیصلہ کرلے تو وہ بڑی تعداد میں بیروزگار بلوچوں اپنی طرف کھینچ کر 4,500 جنگجووں کی اپنی موجودہ قوت کو تیزی سے بڑھالیں گے۔
موجودہ وقت میں ایک آزاد بلوچستان یا ایک بلوچ سندھ فیڈریشن کے امکانات بہت دور نظر آتے ہیں۔ لیکن اصل گیم چینجر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک جنگ ہوگی جس میں بھارتی ایئر فورس براہ راست بلوچ باغی فورسز کی مدد کرے گی۔ بلوچ کیساتھ ماضی کی لڑائیوں میں پاکستان ایئر فورس نے بلوچ مزاحمتکاروں اور شہریوں پر یکساں طور پر بڑی بے رحمی سے بمباری کی ہے اور بلوچ کو علاقے قبضے میں لینے اور اپنا قبضہ جمائے رکھنے کیلئے بھارتی فضائی مدد کی ضرورت پڑے گی۔
اپنی بہت بڑی جنگی طاقت کے علاوہ، پاکستان کی مسلح افواج 38 ارب ڈالر کے اثاثوں کیساتھ ایک وسیع کاروباری سلطنت کو کنٹرول کرتے ہیں جو انہیں اقتصادی طور پر طاقت میں رہنے میں مدد دیتا ہے (جنکی تفصیلات عائشی صدیقہ کی کتاب ’ملٹری انکارپوریشن‘ میں دی گئی ہیں) جسکی ایک طویل جدوجہد کو برقرار رکھنے کیلئے ضرورت ہے۔
خواہ بھارت کیساتھ کشیدگی پاکستان کے ٹوٹنے کی صورت میں نکلے یا نہ نکلے، آنے والے سالوں میں بلوچ اور سندھی علیحدگی پسند گروہوں کے اپنے نیم فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کا امکان ہے۔ چنانچہ، جب تک کہ مرکزی حکومت اقلیتی صوبوں کیساتھ ایک پرامن مصالحت کے حصول کی کوشش نہیں کرتا، پاکستان کے پہلے سے موجود سنگین اقتصادی مسائل میں مضمحل کن نسلی کشیدگی شدت لے آئیں گی۔ یہ کشیدگیاں اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کریں گی اور ملک کے بڑے حصوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاہدوں کے نفاذ کو ناممکن بنا دیں گی۔ میں نے اپنی رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ایک پرامن مصالحت کیلئے کیا چیز ضروری ہے، خاص طور پر 1973ء کے آئین پر عملدرآمد جو صوبوں کو اختیارات کی ایک بامعنی منتقلی پر منتج ہو۔
اب پشتونوں کی طرف آتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف آباد 41 ملین پشتونوں میں اتحاد کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔
برطانوی راج سے قبل 1747ء سے پشتون سیاسی طور پر ایک افغان سلطنت کے زیرانتظام متحد رہیں جو مشرق میں پنجاب کے مرکزی خطے سے لیکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ان کیلئے انتہائی تکلیف دہ تھا جب برطانیہ نے دریائے سندھ اور خیبر پاس کے درمیان پشتون آبائی علاقے کے 40,000 مربع میل پر قبضہ کرلیا جس میں نصف پشتون آبادی سمٹ گئی اور اس کے بعد ان پر ڈیورنڈ لائن تھوپ دی جس نے ان کی فتح کو رسمی شکل دیدی۔ بعد ازاں 1947ء میں برطانیہ نے یہ علاقہ شمال مغربی سرحدی صوبے میں 1947ء کے ایک متنازعہ ریفرنڈم کے بعد پاکستان کی نئی حکومت کو سونپ دیا۔ ریفرنڈم کا اہتمام برطانوی نوآبادیاتی حکام کے زیر انتظام کیا گیا تھا جنہوں نے صوبے کے پاکستان کیساتھ الحاق کی کھل کر طرفداری کی۔ 572,799 اہل ووٹروں میں سے صرف 292,118 نے ووٹ دیا۔ یہ اسلئے ہوا کیونکہ بہت سے پشتونوں کی جانب سے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا گیا تھا۔ جن پشتون جماعتوں نے 1946ء کے صوبائی انتخابات بھاری اکثریت سے جیتے تھے اس ریفرنڈم میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنے کے علاوہ ایک آزاد ”پشتونستان“ کے اختیار کو بھی شامل کرنا چاہتے تھے۔ ریفرنڈم سے قبل ان جماعتوں کے رہنماوں کو قید کیا گیا اور 22 جون 1947ء کے ”بنوں اعلامیہ“ کے بعد ان کے اخبارات پر پابندی عائد کی گئی جس میں انہوں نے ”پشتونستان“ کا مطالبہ کیا تھا۔ ان لوگوں میں سے جن پشتونوں نے برطانوی حکام کی جانب سے منعقد کردہ قبائلی اجتماعات میں ووٹ دیا تھا، پاکستان کے حق میں کل 2,894 ووٹ پڑے۔ چنانچہ اس مسئلے کا فیصلہ 50.5 فیصد اہل رائے دہندگان نے کیا تھا جو کھلی دھاندلی کے الزامات کے درمیان ہوا جسکی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے۔
پاکستان کے قیام کے بعد ظاہر شاہ کی بادشاہت، محمد داود کی جمہوریہ اور کابل میں کم میعاد کمیونسٹ حکومت، ان سب نے پاکستان کے پشتون علاقوں پر حکومت کرنے کے حق کو چیلنج کیا ہے۔ بسا اوقات افغانستان نے پاکستان کے اندر ایک خودمختار پشتون ریاست قائم کئے جانے کے مقصد کی حمایت کی ہے، بعض اوقات ایک آزاد ”پشتونستان“ پاکستان سے کاٹ کر بنائے جانے کی بات کی ہے اور بسا اوقات ”گریٹر افغانستان“ کی جس سے وہ اپنے کھوئے علاقے براہ راست شامل کر سکے۔
سوویت قبضے کیخلاف مزاحمتی تحریک اور القاعدہ اور طالبان کیخلاف امریکی فوجی کارروائی، جو 2001ء میں شروع ہوئی، نے پشتون معاشرے میں گہری تقسیم پیدا کی ہے جس نے ”پشتونستان“ تحریک کے مستقبل کو غیر یقینی بنادیا ہے۔ قبائلی معاشرے میں ملا پر ملک کی روایتی بالادستی کمزور ہوئی جب امریکہ نے سعودی عرب اور خلیج فارس کے اسلامی گروہوں کے ساتھ مل کر افغانستان میں اسلام پسند حاشیہ نشینوں کو سوویت یونین کیخلاف جدوجہد کیلئے ہتھیاروں کی امداد اور فنڈز کی فراہمی کی۔ یہ سب انٹرسروسز انٹیلی جنس پاکستان کی نظامت کی ایماء پر کیا گیا۔ آئی ایس آئی کا مقصد ایسے نائبین پیدا کرنا تھا جو پشتونستان کے تصور کے مخالف ہوں۔ سوویت افواج کے جانے کے بعد جب ان نائبین نے ثابت کر دیا کہ وہ اپنی طاقت کو مجتمع کرنے کے قابل نہیں ہیں تو آئی ایس آئی طالبان کی طرف متوجہ ہوئی جسکے پاس ایک پشتون اساس تھی لیکن اس پر ایک پین اسلامسٹ نظریے کی حامل علماء رہنماوں کا غلبہ تھا۔ تاہم، اہم بات یہ ہے کہ طالبان کی حکومت، جس نے 1996ء سے 2001ء تک حکومت کی، نے ایسا کرنے کے پاکستانی دباو کے باوجود ڈیورنڈ لائن کو قبول نہیں کیا۔
پشتون معاشرے میں گزشتہ تین دہائیوں کی افراتفری سے پیدا شدہ تقسیم اور اس کے نتیجے میں ملِک کی قیمت پر مُلا کی طاقت میں اضافہ ہونے کے باوجود پشتونوں میں اجتماعی تشخص کا ایک طاقتور احساس موجود ہے جسکی جڑیں ایک قدیم قبائلی ساخت میں پیوست ہیں جو اب بھی ان کی زندگی کا تعین کرتی ہے۔ پشتونوں پر سب سے ممتاز برطانوی ماہر لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے پروفیسر ایمریطس رچرڈ ٹیپر ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے جو ٹیپر کہتے ہیں: ”مختلف پشتون گروہوں کے درمیان مقامی تنازعات کے باوجود سیاسی اتحاد کیلئے غیرمعمولی صلاحیت کی حامل ایک علامتی جذبے کے طور پر تمام پشتونوں کی نسلی اور ثقافتی وحدت کے تصور سے وہ طویل عرصے سے آشنا رہے ہیں۔“
پاکستان کی مسلح افواج اور امریکی ڈرون طیاروں کی طرف سے پشتون سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر شہری ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس سے ایک گہرا سیاسی اثر پڑا ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات، جو فاٹا کے طور پر جانا جاتا ہے، کی سیاست سے نئی وابستگی کے سبب انتہا پسند پشتون اب اپنے آپ کو شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان کے شمالی کونے میں آباد پشتونوں کے سیاسی بھائیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ اقتصادی ترقی چاہتے ہیں، لیکن ایسی ترقی جو پشتونوں کے کنٹرول میں ہو نہ کہ پنجابی اکثریتی مرکزی حکومت کے کنٹرول میں۔ مزید اہم بات یہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں نشانہ بنائے جانے سے ایک پشتون احساس کو ابھارنے کے سبب فاٹا میں لڑی جانیوالی ”دہشت گردی کیخلاف جنگ“ نے انہی جہادی قوتوں کو مضبوط کیا ہے جنہیں امریکہ شکست دینے کی کوشش کررہا ہے۔ طالبان قیادت کی بنیاد غزالی پشتون قبائل میں ہے، لہٰذا امریکی پالیسی نے طالبان کو دونوں یعنی اسلام اور پشتون قوم پرستی کا چیمپیئن بننے کے قابل بنایا ہے۔
روایتی دانش میں، ایک یا دوسرا، اسلامی یا تو پشتون، بالآخر فتح یاب ہوگا لیکن ایک اور یکساں طور پر بظاہر معقول ممکنہ امکان یہ بھی ہے کہ اس کا نتیجہ، جیسا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے کہا تھا، ایک ”اسلامی پشتونستان“ کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جو یا تو کچھ یا پھر سرحد کے دونوں اطراف آباد تمام پشتونوں کو اپنے اندر سمیٹ لے گا۔ یکم مارچ 2007ء کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک سیمینار میں سفیر حسین حقانی کے پیشرو میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمود علی درانی، جو ایک پشتون ہیں، نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”مجھے امید ہے کہ طالبان اور پشتون قومپرستی مدغم نہیں ہونگے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سمجھیں کہ ہمارا کام تمام ہوا، اور ہم اس کے دہانے پر ہیں۔“
امریکی مفادات اور پالیسیوں کے لحاظ سے ان سب کا کیا مطلب ہے؟ نسلی کشیدگی میں کمی کا براہ راست تعلق اس بات پر منحصر ہے کہ ہم القاعدہ کیساتھ کس طرح سے نمٹتے ہیں اور میں سب سے پہلے اسی پر بحث کروں گا۔
پھر میں اس بات کی جانچ کروں گا کہ پاکستان کا ٹوٹنا پاکستان میں جہادی قوتوں کیخلاف جدوجہد اور جنوبی ایشیاء میں وسیع تر امریکی مفادات پر کس طرح سے اثرانداز ہوگا۔
وزیرستان میں القاعدہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کیلئے ہمیں پشتون قبائل اور پشتون طالبان رہنماوں کا تعاون حاصل کرنا ہو گا جو القاعدہ کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت ہم اسوقت جو کچھ کر رہے ہیں اس سے القاعدہ کیلئے پشتون حمایت کو تقویت مل رہی ہے۔ ہم پنجابی فوجی بھیج رہے ہیں اور ڈرون حملے کررہے ہیں جو پشتون شہری ہلاکتوں کا باعث بنی ہیں، یہ اقدامات پشتونوں کو تیزی سے طالبان اور القاعدہ کی طرف جانے میں کارفرما رہی ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اس عمل نے فاٹا کے پشتونوں کو تیزی سے سیاست زدہ اور بنیاد پرستانہ بنا دیا ہے۔ یقینا ڈرون حملوں سے کچھ کامیابی ملی ہے لیکن جیساکہ بروس ریڈل نے مشاہدہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ، ”یہ شہد کے کسی چھتے میں ایک ایک مکھی کا پیچھا کرنے جیسا ہے۔“ میرے خیال میں فوائد کی نسبت زیادہ بڑی سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ میری رپورٹ میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ امریکہ کو ڈرون حملے روکنے چاہئیں، پشتونوں کیخلاف جنگ کیلئے پنجابی فوجی بھیجنے میں پاکستان کی حوصلہ افزائی بند کرنی چاہئے اور طالبان دھڑوں کو القاعدہ سے علیحدہ کرنے کیلئے ڈیزائن کیے گئے کم پروفائل والی خفیہ کارروائیاں کرنے کیلئے ایک سازگار سیاسی ماحول پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنا چاہیے۔ کارروائیوں کے لحاظ سے طالبان دھڑوں میں سے زیادہ تر افغانستان اور پاکستان میں مقامی مقاصد کو حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ وہ امریکہ کیلئے براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سیکولر پشتون رہنماء سوات میں امن معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش میں صحیح تھے اور یہ واضح نہیں تھا کہ ناکامی پہلے سے ہی اس کا مقدر تھی۔ ان میں سے کچھ کو لگتا ہے کہ اسلام آباد نے اپیلیٹ دائرہ کار اور عدالتی تقرریوں کے کنٹرول پر اصرار کرکے زیادتی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ان مسائل پر اسلام آباد کا رویہ مزید لچک دار ہوتا تو یہ معاہدہ ناکام نہ ہوتا۔
امریکہ کو پاکستان میں طالبان دھڑوں کیساتھ امن اقدامات کی اسی طرح سے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جس طرح اسوقت ہم افغانستان میں مقامی سطح پر ایسا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مشرف کے دور میں امن معاہدوں کے خیال کو غیر معتبر ٹھہرایا گیا لیکن وہ معاہدے آئی ایس آئی کیساتھ گفت و شنید کے نتیجے میں ہوئے تھے اور مقامی سطح پر انکی کوئی حیثیت نہیں تھی۔
رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ امریکہ کو چاہئے کہ وہ فاٹا کے پشتونوں کو یہ باور کروائے کہ وہ ان کی سیاسی خواہشات سمجھتا ہے۔ فاٹا کے پشتون نہیں چاہتے کہ پنجابی اکثریتی مرکزی حکومت ان پر حکومت کرے جسکی تجویز اسوقت دی جارہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں پشتون صوبہ سرحد میں ضم کیا جائے جسے 13 مارچ کو ایک انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی رپورٹ میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ انہیں اسی قانونی نظام اور سیاسی جماعتوں کے ایکٹ کے تحت لے آئے گا جو دیگر پاکستانیوں پر لاگو ہیں۔ امریکہ کو فاٹا کے صوبہ سرحد میں انضمام کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے اور ایک متحدہ پشتون صوبے کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جس میں سرحد، فاٹا اور بلوچستان اور پنجاب کے پشتون علاقوں کو ایک متحد ہستی میں ضم کیا جائے جسکا نام ”پختونخواہ“ ہو۔ پشتون پنجابیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط پوزیشن چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے امریکی حمایت اس نفسیاتی فضاء کو یکسر تبدیل کردے گی جس میں القاعدہ کیخلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
جیساکہ میں نے پہلے کہا تھا کہ ایک آزاد پشتونستان کا ظہور امریکی مفادات کیلئے لازمی طور پر کوئی خطرہ نہیں ہوگا اگر یہ سیکولر قیادت میں ہو تو۔ اسی طرح سے ایک آزاد بلوچ سندھی فیڈریشن بھی لازمی طور پر امریکی مفادات سے متصادم نہیں ہوگا کیونکہ بلوچ اور سندھی علاقے سیکولر اقدار اور اعتدال پسند اسلام کے مضبوط گڑھ ہیں۔ اکثر سندھی صوفی ہیں اور کئی بلوچ ذکری ہیں۔ وہ وہابی اور دیوبندی طرز کے اسلام کو مسترد کرتے ہیں جسے پنجاب میں سپاہ صحابہ اور دیگر شیعہ مخالف سنی گروہ زہریلے پن سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسلام پسندوں کا خطرہ پنجاب میں مرکوز ہے جہاں لشکر طیبہ اور دیگر سخت گیر جہادی گروہ تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں۔ بہر حال میری رپورٹ میں دلیل دی گئی ہے کہ بلوچستان اور سندھ کا الگ ہوجانا خواہش انگیز نہیں ہے اور اسکا امکان بھی نہیں ہے اگر 1973ء کے آئین میں دی گئی خود مختاری کے دفعات کا احترام کیا جائے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم ہو تو۔
میں نے مضمحل کن کا لفظ کئی بار استعمال کیا ہے کیونکہ یہ پاکستان پر نسلی کشیدگیوں کے اثرات کی توضیح بہترین طور پر کرتا ہے۔ نسلی کشیدگیاں پاکستان کو بتدریج کمزور کردیں گی حتیٰ کہ اگر یہ غیر یقینی طور پر باہم قائم بھی رہے۔ امریکہ نے گزشتہ پچاس برسوں سے فوجی امداد کی ترسیل کرکے ایک فرینکنسٹائن عفریت کو جنم دیا ہے جس نے نسلی کشیدگیوں کو کم کرنا زیادہ مشکل بنا دیا ہے۔ اب ہمارا سامنا حد سے زیادہ پھولے ہوئے مسلح افواج سے ہے جو کہ ایک مراعات یافتہ اشرافیہ بن چکا ہے اور طاقت پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں اسکے مفادات وابستہ ہیں۔ وہ اسلام آباد میں سویلین حکومتوں کا گلا بھونٹتے ہیں اور وفاق کو مستحکم کرنے کیلئے ضروری آئینی اصلاحات کی مخالفت کرتے ہیں۔ سویلین قیادت کو مضبوط بنانے اور طاقت کی منتقلی کی حوصلہ افزائی کرنے میں امریکہ جو کچھ کرسکتا ہے اسے کرنا چاہئے لیکن ہوسکتا ہے اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ صدر زرداری اپنی پوزیشن کو برقرا رکھنے کیلئے وہی کرتے ہیں جو کچھ فوج انہیں کہتی ہے اور صدر زرداری کو گھیرنے کیلئے وزیراعظم گیلانی آئی ایس آئی کیساتھ کام کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سویلین حکومت فوج اور آئی ایس آئی کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اقلیتی صوبوں میں جو کچھ کرنا چاہیں کریں اور زرداری، اپنے وعدوں کے باوجود، 1973ء کے آئین کو نافذ کرنے سے ڈرتے ہیں۔
امریکہ فوجی امداد میں کافی حد تک کٹوتی کرنے سمیت اس نقد سبسڈی، جو اتحادی سپورٹ فنڈز کے طور پر جانا جاتا ہے، کو کم کرنے سے اور آئی ایس آئی کے سویلین کنٹرول سے مشروط کرنے سے نسلی کشیدگیوں کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایک کتاب، ’پاکستان کی تغیر پذیر جمہوریت میں خفیہ ایجنسیوں کی اصلاح‘، میں امریکی پالیسی کیلئے ایک بہترین تفصیلی خاکہ پیش کیا گیا ہے جسے فریڈرک گرارے نے لکھا ہے جو میرے مطالعے کی مشاورتی کمیٹی کے رکن تھے اور اسے حال ہی میں کارنیگی کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ اسوقت امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک بحران کا سامنا ہے جو ان مسائل پر براہ راست اثرانداز ہورہے ہیں جن پر ہم بحث کرتے آئے ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد پاکستانی حکومت نے لشکر طیبہ کیخلاف کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی ہے اور حال ہی میں اس کے دو رہنماوں کو رہا کیا گیا ہے جو نظربند تھے۔ اس کے ملیشیا میں سے کسی کو بھی غیر مسلح نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود، امریکی انتظامیہ کانگریس کو 10.5 ارب ڈالر امداد کی منظوری کیلئے کہہ رہی ہے، اور کانگریس کے رہنماء تمام اقسام کی شرائط پر غور کر رہے ہیں ماسوائے سب سے زیادہ اہم شرط کے، جو لشکر طیبہ کیخلاف کریک ڈاون ہے۔ پاکستان کی طرف سے کارروائی کی کمی کے سبب بھارت کی پریشانی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک مغالطہ انگیز سکوت چھایا ہوا ہے۔ لشکر طیبہ کا ایک اور حملہ بلاشبہ بھارتی جوابی کارروائی پر منتج ہوگی بشمول بلوچ اور سندھی باغی قوتوں کی خفیہ یا اعلانیہ حمایت کے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب میں جہادیوں کا مقابلہ کرنا، پاکستان کو ایک ساتھ رکھنا اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کی روک تھام لازم و ملزوم ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий