Powered By Blogger

суббота, 9 апреля 2016 г.

جی ایم بلوچ: میرے ماموں اور ناقابل شکست حریف

تحریر : ساجد حسین
ہم تقریبا ہر روز لڑے۔ سیاست پر۔ میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ایک نوجوان رکن تھا اور وہ ایک تجربہ کار بلوچ قوم پرست رہنما اور بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی تھے۔ لیکن انہوں نے میرے کتابی خیالات کو ایک نوجوان کے یوٹوپیا طور پر کبھی مسترد نہیں کیا۔ اگرچہ، وہ شاذ و نادر ہی مجھ سے اتفاق کرتے، میں جو بات کہتا وہ اسے ہمیشہ سنتے تھے اور پھر ایک سگریٹ جلاتے جس سے انہیں اپنا جوابی دلیل دینے کیلئے تیار ہونے میں وقت ملتا۔
کبھی کبھار ہماری تکرار نہایت اونچی آواز کو پہنچ جاتی تو میری والدہ، ان کی بہن، ہمارے درمیان اپنا دوپٹہ ڈال دیتی، ایک بلوچ روایت کہ میدان جنگ میں جب ایک عورت ایسا کرتی ہے تو مرد اسکے احترام میں تلوار زنی روک دیتے ہیں۔
ہمارے سیاسی مقاصد مختلف نہیں تھے۔ ہم سیاسی ساتھی تھے۔ ہماری تنظیمیں ایک آزاد بلوچستان کیلئے جدوجہد کر رہی تھیں اور ایک باقاعدہ اتحاد میں تھیں۔ لیکن ہمیں حکمت عملی پر اختلاف تھا۔
وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ وہ کراچی پریس کلب کے سامنے ریلیوں میں علیحدگی پسند بلوچ عسکریت پسندوں کی حمایت کرتے۔ ایک مرتبہ، جب موجودہ بلوچ شورش زور پکڑ رہی تھی، تو انہوں نے اپنے آبائی قصبے مند میں نیم فوجی چوکیوں کیخلاف ایک احتجاج کی قیادت کی۔ ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے۔ آخر کار، ایف سی کمانڈر نے ان کو پیشکش کی کہ اگر وہ ان لوگوں کے نام انہیں دے دیں جو مسلح افواج پر حملے کر رہے ہیں تو چوکیاں ہٹا دی جائیں گی۔ انہوں نے جواب میں کیا کہا؟
”آپ ان کے نام جاننا چاہتے ہو؟ وہ میں ہوں، اور میرا نام غلام محمد ولد محمد ایوب ہے۔ جی ہاں، وہ راکٹ میں نے آپ کے کیمپ پر داغے تھے۔ میں آپ کے قافلوں پر گھات لگا کرحملہ کرتا ہوں۔ جب کبھی بھی آپ اپنے کیمپ سے باہر قدم رکھتے ہو تو وہ میں ہوں جو آپ لوگوں پر فائرنگ کرتا ہے۔ یہ میں ہوں۔ اب آپ میرے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں کریں اور چوکیاں ہٹادیں۔“
ہجوم نے خوشی سے نعرے لگائے۔ اور چوکیوں کو اسی روز بعد میں ہٹا دیا گیا۔
میں علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی اس کھلی حمایت کے خلاف تھا۔ ہمیں بہت سی چیزوں پر اختلاف تھا، لیکن ہمارے اختلاف کی جڑ یہی تھی۔ میری دلیل یہ تھی کہ ہم سیاسی گروہ ہیں اور ظاہری سطح پر کام کرتے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصد عام بلوچوں کو متحرک کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنے نصب العین کیلئے عوامی حمایت حاصل کرسکیں۔ اس کے علاوہ، مسلح گروہوں کی کھل کر حمایت کرنے سے فوجی اسٹابلشمنٹ برہم ہوگی اور وہ ہمیں ہمارا کام کرنے نہیں دے گی۔
لیکن ایک مرتبہ، جب وہ لیاری کراچی میں بی ایس او اور بی این ایم کے مشترکہ طور پر زیر اہتمام ایک عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے تو میں ہجوم میں موجود تھا۔ جیسے ہی انہوں نے بولنا شروع کیا تو میں نے اپنے اندر کے محتاط شخص کو کھونا شروع کیا۔ ان کی شعلہ بیانی نہایت سحر انگیز تھی اور میں آہستہ آہستہ اس ہجوم کا حصہ بن گیا جو انکے ہر لفظ پر نعرہءتحسین بلند کررہا تھا۔
لیکن جب ہم گھر واپس آئے تو ہم نے جھگڑا کیا۔ ”آپ نے پہلے ہی سے فوج کو برہم کیا ہوا ہے۔ آج آپ نے ایم کیو ایم (ایک سیاسی گروہ جو اپنے مخالفین کیخلاف تشدد کے ذریعے کراچی پر حکومت کرتی ہے) کیخلاف بات کی۔ وہ بھی اردو میں تاکہ وہ سمجھ سکیں۔ آپ مزید دشمن بنا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو کراچی میں آپ کو جان سے مار نے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔“
انہوں نے اپنی دودھ پتی چائے کی چسکی لی، ایک سگریٹ جلائی، اپنا پہلو بدلا اور مسکرائے۔ ”وہ (ایم کیو ایم) ہمارے کارکنوں پر حملہ کر رہے ہیں۔ وہ کراچی (دو کروڑ کی آبادی والے ساحلی شہر کراچی میں بلوچ ایک اہم نسلی گروہ ہیں) میں بلوچوں کی طاقت آگاہ ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچ سیاسی طور پر منظم ہوں۔ میں صرف ان کو ایک پیغام بھیجنا چاہتا تھا کہ ہم اپنے لوگوں کا دفاع کرنا جانتے ہیں،“ انہوں نے اپنی چائے کا آخری قطرہ پیا اور اپنا سگریٹ پھونکا۔
ایم کیو ایم نے ہمارے ساتھیوں کے ایک دفتر کے سامنے ہوائی فائرنگ کی تاکہ کراچی میں انہیں کسی بھی طرح کی سیاسی سرگرمی سے باز رکھیں۔ ایم کیو ایم کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے جو کچھ چیئرمین (بلوچوں میں وہ اس نام سے جانے جاتے ہیں) نے اس جلسہ عام میں کہا تھا وہ انتہائی پروقار تھا۔ ”اگر آپ کے پاس گولیاں ہیں، تو ہمارے پاس راکٹ ہیں۔“ پہلے انہوں نے یہ الفاظ بلوچی میں کہے۔ پھر انہوں نے مزید کہا: ”بالفرض اگر آپ کی سمجھ میں نہیں آیا ہے تو مجھے اردو میں اسے دہرانے دیں۔“
میں انہیں لاپرواہ کہتا تھا۔ انکے پیروکار انہیں نڈر کہتے تھے۔ لاپرواہی اور نڈر ہونے کے درمیان ایک لکیر کھینچنا مشکل ہے لیکن میں نے ان کے چہرے پر کبھی خوف نہیں دیکھا۔ فوجی اسٹابلشمنٹ کو ان کی صلاحیت کے بارے میں علم تھا کہ وہ محض اپنے الفاظ سے بلوچ نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔
جاسوسوں کی طرف سے ان کا پیچھا کیا جا رہا تھا۔ ان میں سے چند کو وہ شکل سے پہچانتے تھے۔ وہ اپنے راستوں کو تبدیل کرکے اور مختلف مقامات پر قیام کرکے ان کو الجھانے کی کوشش کرتے۔ وہ جانتے تھے کہ جلد ہی انہیں اٹھایا جا ئے گا کیونکہ فوج نے کافی وقت پہلے سے ہی بلوچ کارکنوں کو ”غائب“ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور وہ ان کے رہنما تھے۔ لیکن وہ اب بھی عوامی اجتماعات میں تقاریر کرتے اور کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے رہے تھے۔
اس دن ایک عوامی اجتماع تھا۔ 3 دسمبر2006 کو۔ انہوں نے نہایا دھویا، کپڑے تبدیل کیے، اپنے بالوں میں تیل ڈالا اور گھر سے نکلتے وقت مجھ سے پوچھا: ”کیا تم نہیں آرہے؟“ جس طرح سے بلوچ اپنے سیاسی معاملات چلارہے تھے، میں اس سے مایوس تھا اور بالکل اس موڈ میں نہیں تھا ”نہیں،“ میں نے جواب دیا۔ اور وہ چلے گئے۔
”کیوں تم اور تمہارے ماموں ہمیشہ لڑتے رہتے ہو؟“ ان کی اہلیہ نے مجھے ڈانٹتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آپ کے خاوند خود کو مصیبت میں ڈالنے جا رہے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ دوسروں کے سامنے میرے اور میرے دوستوں کیخلاف بولتے ہیں،“ میں نے شکایت کی۔
”نہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ وہ کبھی بھی تمہارے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے۔ جی ہاں، وہ تمہارے کچھ دوستوں کے حوالے سے اپنی ناپسندیدگی کو نہیں چھپاتے ہیں لیکن کب اور کہاں انہوں نے تمہارے خلاف بات کی ہے؟“
اور بحث جاری رہی۔ ہم اب بھی بات کر رہے تھے کہ انہیں ایک فون کال موصول ہوئی۔ وہ تھوڑی دیر کیلئے ایک مورتی کی طرح بیٹھی رہیں، اور پھر کہا: ”وہ انہیں اٹھاکر لے گئے ہیں۔“
بغیر کچھ کہے، میں گھر سے باہر بھاگا۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور میرے پاس لیاری جانے کیلئے کسی بس یا رکشہ کے کرایے کیلئے پیسے نہیں تھے تاکہ اس بارے میں جاکر معلومات کروں کہ کیا ہوا تھا۔ میں بارش میں دو کلومیٹر تک چل کر ایک دوست، ان دوستوں میں سے ایک جنہیں وہ ناپسند تھے، کے گھر گیا اور کچھ پیسے ادھار لیے۔
اور میں نے نو ماہ تک اپنی بھاگ دوڑ جاری رکھی۔ ایک عدالت سے دوسرے تک۔ ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے تک۔ کراچی سے لاہور اور اسلام آباد تک۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفتر سے پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے دفتر تک۔ ہمیں ان کے اتے پتے کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ملا۔
مورخہ 20 ستمبر 2007ء کو میں ایک مسافر بس پر اسلام آباد کے قریب پہنچ رہا تھا جہاں ان کے کیس کے حوالے سے اگلے روز مجھے سپریم کورٹ کی سماعت میں حاضر ہونا تھا۔ میں نے اس سفر کیلئے اپنے ایک دوست سے 4,000 روپے ادھار لیے تھے جو کہ میں نے ابھی تک واپس نہیں کیے۔ اسلام آباد پہنچے کو چند کلومیٹر رہ گئے تھے، مجھے ایک ٹیکسٹ پیغام موصول ہوا کہ فوج نے انہیں سبی، مرکزی بلوچستان میں ایک ضلع، میں پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
اس طرح کی افواہیں کافی عرصے سے گردش کر رہی تھیں۔ تو میں اس پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ پھر مجھے ایک نامعلوم نمبر سے ایک کال موصول ہوئی۔ یہ ان کی جماعت کے ایک رکن کی طرف سے تھا۔ خبر کے بارے میں سن کر ان کے ساتھی سبی تھانے میں جمع ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک سے مجھے فون کرنے کو کہا تھا۔
”تم اپنے ماموں سے بات کرنا چاہتے ہو،“ کال کرنے والے نے کہا۔
میں تذبذب میں تھا کہ کیا کہوں۔ فون کرنے والا آئی ایس آئی کا بندہ ہو سکتا ہے۔ لیکن پھر میں نے ان کی آواز سنی۔”ہاں یار۔ واپس آ جاو۔“ کسی نے، شاید ان کی اہلیہ نے، ان سے کہا تھا کہ میں اسلام آباد جارہا ہوں۔
انہیں اگلے روز انکے آبائی ضلعے کے تربت جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اور پھر چند روز بعد رہا کیا گیا۔ بلوچستان کے ہر شہر سے سب انکا خیر مقدم کرنے گئے تھے۔ میں نہیں گیا۔ وہ ایک بار پھر میرے سیاسی حریف تھے۔
اپنی رہائی کے فوری بعد انہوں نے شعلہ بیان تقریریں کرنا شروع کر دیں، کہ اگر پاکستان انہیں خاموش کرنا چاہتا ہے تو ہمت کرکے انہیں جان سے مار دے۔
کچھ دنوں بعد جب وہ علاج، چونکہ حراست کے دوران انہیں بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، کیلئے کراچی آئے تو ہمارے جھگڑوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ وہ وہی شخص تھے ماسوائے اسکے کہ انکے بال چھوٹے تھے جو ان کے اذیت رسانوں نے کاٹ دیے تھے۔ اس کے علاوہ، ان کے چہرے پر گوشت نام کی کوئی چیز نہیں بچی تھی۔ ان کے پہلے ہی لمبے کان مزید لمبے لگ رہے تھے۔ اب وہ اپنے قمیض کی سامنے والی جیب میں بج رہے اپنے سیل فون کی گھنٹی تک نہیں سن سکتے تھے۔
”وہ میرے سر کے گرد کچھ لپیٹ دیتے اور اس سے کچھ گزارتے تھے، مجھے لگتا ہے کہ وہ بجلی کا کرنٹ تھا،“ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، جب میں نے عقوبت خانوں میں گزارے گئے ان کی سخت آزمائش کے بارے میں پوچھا۔ دوسروں کے برعکس، جنہوں نے فوجی عقوبت خانوں کی تاریکیوں کو دیکھا تھا، وہ خود پر کیے گئے ذہنی اور جسمانی تشدد کی نہ ختم ہونے والی رونگٹے کھڑے کردینی والی کہانیاں سنائیں گے، لیکن انہوں نے اپنے آپ پر کیے گئے تشدد کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں بتایا۔ ”کبھی کبھار، وہ مجھے مارتے تھے۔ مجھے گالیاں دیتے تھے۔ مسلح گروہوں کے بارے میں مجھ سے پوچھ گچھ کرتے تھے۔ بس یہی ہوتا تھا،“، جب بھی میں ان سے پوچھتا تو وہ یہی کہتے تھے۔ اگرچہ وہ پوری بات نہیں بتاتے تھے۔
عوامی اجتماعات میں ان کے چبھتے ہوئے الفاظ اب بھی فوجی اسٹابلشمنٹ کو پریشان کر رہے تھے۔ 2008ء میں ایک دن، میں ایک لائبریری میں بیٹھا ہوا کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا تھا تو کسی نے مجھے فون کیا کہ انہیں کراچی پریس کلب کے سامنے، جہاں وہ تقریر کر رہے تھے، سے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
میں لائبریری سے نکلا، ایک بس پکڑی اور ایک دوست کو فون کیا کہ پریس کلب کے ارد گرد پولیس اسٹیشنوں میں انہیں تلاش کرے جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ انہیں ایک بار پھر”غائب“ کیا جائے گا۔ ٹریفک کی وجہ سے مجھے اس علاقے تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگا۔ میرے دوست نے مجھے فون کیا کہ اسے اندازہ ہے کہ انہیں صدر پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا ہے کیونکہ انچارج اسے کوئی سیدھا جواب نہیں دے رہا تھا۔ میں نے اسے اپنے پہنچے تک وہیں رکنے کا کہا۔ میں جب وہاں پہنچا تو ہمیں انتظار کرنے کو کہا گیا کہ گویا انچارج مصروف ہے۔ اسٹیل کے ایک اسٹول پر تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد جب میں تھک گیا تو وہیں آگے اور پیچھے ٹہلنا شروع کر دیا۔ سورج ابھی ابھی غروب ہوا تھا۔ لیکن جب میں ٹہل رہا تھا تو میں انچارج کے آفس کے اندر جھانکنے کی کوشش کی، اس بات کی تصدیق کرنے کیلئے کہ وہ واقعی بہت مصروف ہے یا صرف تاخیری حربہ استعمال کررہا ہے، میں نے ان کے جوتے دیکھے۔ میں نے سکھ کا سانس لیا! وہ یہیں تھے۔ فوج نے انہیں نہیں اٹھایا تھا۔
اس وقت میں کوئی بے بس طالبعلم نہیں تھا۔ اب میں ایک صحافی کے طور پر پاکستان کے سب سے بڑے انگریزی روزنامے کیساتھ کام کر رہا تھا۔ میں نے انچارج کے دفتر میں اپنا بزنس کارڈ بھیجا اور اس نے مجھے اندر بلالیا۔
”اس سے تمہارا کیا رشتہ ہے،“ انچارج نے پوچھا۔
”یہ میرے مامو ہیں۔“
انچارج نے گہری سانس لی اور پھر اپنے دفتر کی دیوار پر لٹکے ایک بلیک بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر سفید رنگ میں کچھ نام عمودی ترتیب میں لکھے ہوئے تھے۔ ”یہ سابق ایس ایچ اوز (پولیس سٹیشن کا انچارج) کے نام ہیں۔ ان کے ٹرانسفر کی تاریخ بھی لکھی ہوئی ہے۔ آپ ایک صحافی ہیں، آپ کہتے ہیں؟ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس اسٹیشن کے ایس ایچ او تقریباً ہر ماہ ٹرانسفر ہوتے ہیں۔ آپکو پتہ ہے کیوں؟“ میں نے کچھ نہیں کہا۔ ”کیونکہ کراچی پریس کلب ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور آپ کے ماموں ہر ہفتے پاکستان کو گالیاں دینے وہاں آتے ہیں،“ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ ”اس کے بعد فوج کے لوگ ہمارے کانوں میں غلیظ الفاظ کیساتھ چلاتے ہیں کہ آپ لوگ اسے کیوں نہیں روکتے۔“
میں بین السطور انکا مطلب سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب میں جان چکا تھا کہ وہ انہیں زیادہ دیر تک حراست میں نہیں رکھنے والے تھے۔ یہ گرفتاری محض ایک تنبیہ تھی۔
”سر میں اپنے ماموں کی وجہ سے پیدا شدہ آپکے مسائل کیلئے معافی چاہتا ہوں۔ لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ پھر انہیں پریس کلب کے سامنے کبھی نہیں دیکھیں گے،“ میں جانتا تھا کہ ایک کھوکھلا وعدہ کر رہا ہوں۔
”جی ہاں، بڑی مہربانی۔ میں کوئی ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) درج نہیں کروں گا، اور تم اسے کل مجسٹریٹ کے دفتر سے ایک چھوٹا سا جرمانہ ادا کرکے رہا کرا سکتے ہو۔ لیکن اس میں کچھ سمجھانے کی کوشش کرو۔“
”ضرور، میں کروںگا،“ میں نے ایک اور کھوکھلا وعدہ کیا، کہ گویا میں کسی اسکول ٹیچر کو یقین دہانی کرا رہا تھا میرا بچہ مستقبل میں کوئی شرارت نہیں کرے گا۔
اگلے روز صبح سویرے، ہم مجسٹریٹ کے دفتر میں تھے۔ یہ ایک بھرا ہوا دفتر تھا۔ وہاں اس دفتر کی گنجائش سے زیادہ فائلیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہم 20 سے زائد منٹ تک کھڑے رہے اور مجسٹریٹ اپنی فائلوں کو دیکھتا رہا کہ گویا وہ ہماری موجودگی سے بے خبر تھا۔ جب اس نے سر اٹھا یا تو میں نے ساٹھ سال کے قریب کا ایک تھکا ہوا آدمی دیکھا۔
”ملزم کون ہے،“ انہوں نے پوچھا۔
”وہ،“ میں نے شرماتے ہوئے اپنے ماموں کی طرف اشارہ کیا۔
مجسٹریٹ نے تھوڑی دیر تک ان کی طرف دیکھا۔ پولیس اسٹیشن میں رات گزارنے کی وجہ سے، انکے چہرے پر بھوری رنگ کی ہلکی سی شیو بڑھی ہوئی تھی۔
”اپنی عمر تو دیکھو۔ کیا اس عمر میں ایسی حرکتیں کرنا اچھا کام ہے؟ آپ کو اپنے پوتے پوتیوں کیساتھ کھیلنا چاہیے نہ کہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کرنا چاہیے۔“
میں دعا کر رہا تھا کہ اس کے جواب میں وہ کوئی ناگوار بات نہ کہہ دیں۔ وہ عمر میں مجسٹریٹ سے کم از کم 25 سال چھوٹے تھے۔ لیکن وہ ہوشیار تھے۔ وہ خاموش رہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انہیں ایک اور دن باہر رہنے کا موقع ملے تاکہ وہ پریس کلب جاکر ایک سحرزدہ عوام کے سامنے کوئی شعلہ فشاں تقریر کریں۔
انہیں رہا کیا گیا۔ میرا ان کیساتھ کام ختم ہوا، کم از کم اسوقت کے لئے۔ مجسٹریٹ کے دفتر کے باہر ایک ہجوم ان کا انتظار کر رہا تھا۔ ”میں تم سے گھر پر ملوں گا،“ انہوں نے مجھ سے یہ کہا اور بھیڑ کے ساتھ چلے گئے۔
اس دن شام کو دیر سے جب وہ گھر آئے تو وہ ہمارے درمیان بدترین جھگڑوں میں سے ایک تھا۔ میری والدہ مسلسل دخل دے رہی تھیں، ہم میں صلح کرنے کیلئے نہیں بلکہ اپنے برتن، بستر، چادر اور تکیے کے بارے میں شکایت کرنے کیلئے جو میں گزشتہ رات تھانے لے گیا تھا اور واپس لانا بھول گیا تھا۔ ”وہ اب جا چکے ہیں۔ آپ کراچی پولیس کو نہیں جانتیں،“ میں نے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اپنے بھائی کی طرح ضدی تھیں۔ ”مجھے وہ کسی بھی حالت میں واپس چاہیئیں۔ اور اگلی بار اگر تم جیل گئے تو میں تمہارے لئے کھانا نہیں بھیجوں گی،“ انہوں نے اپنے بھائی کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ہمارا سیاسی جھگڑا اب ایک گھریلو مسئلے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ہم نے ان سے نئے برتن خریدنے کا وعدہ کیا لیکن کبھی نہیں خریدے۔
وہ اپنی بیوی، ماں اور بہنوں سے کیے گئے وعدے پورا کرنے میں کھرے نہیں اترے۔ انہوں نے اپنی بیوی سے ایک ایئر کنڈیشنر خریدنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے پورانہیں کیا۔ لیکن انہوں نے بلوچ عوام سے کیا گیا اپنا وعدہ پورا کیا۔ تقریباً ہر تقریر میں، انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایک آزاد بلوچستان کیلئے اپنی جان قربان کر دیں گے۔
مورخہ 3 اپریل 2009ء کو انہیں تربت میں اپنے وکیل کے دفتر سے اٹھا لیا گیا۔ 9 تاریخ کو ان کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی۔
میں اب بھی سوچتا ہوں کہ ان کی سیاسی حکمت عملی غلط تھی۔ لیکن اپنی ”غلط“ حکمت عملی کیساتھ انہوں نے ایک آزاد بلوچستان کے خواب کیلئے لاکھوں بلوچوں کو متحرک کیا۔ مجھے اب بھی لگتا ہے کہ میری مجوزہ حکمت عملی صحیح تھی، لیکن میں نے کیا اثر ڈالا؟ میں مند میں انکے گھر پر جمع ہوئے ان ہزاروں طیش میں آئے بلوچوں میں سے ایک تھا جنہوں نے ان کی موت کا بدلہ لینے کا وعدہ کیا۔
میں نے یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا۔ لیکن بہت سوں نے کیا یا کم از کم پورا کرنے کوشش کر رہے ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий