Powered By Blogger

пятница, 29 апреля 2016 г.

بلوچ پری بمقابلہ بلوچ جن اور بہت سارے عامل


”تم سبزل سامگی بننا چاہتے ہو؟“ میرے والد میری شاعری کی کتابیں جلانے کی کوشش کرنے سے قبل چلائے۔ میں ان کا غصہ سمجھتا تھا، وہ چاہتے تھے کہ میں اپنی نصابی کتب پر توجہ مرکوز کروں لیکن وہ کیونکر ایسا سمجھتے تھے کہ میں سامگی بننا چاہتا ہوں جنکا شاعری سے کوئی لینا دینا نہیں۔
سامگی بلوچی کے ایک گلوکار ہیں جو طویل عرصے سے اس پیشے سے لاتعلق ہیں۔ جب میرے والد جوان تھے اُسوقت سامگی مقبول ترین گلوکار تھے، کم از کم مکران میں۔ اپنی سیاہ رنگت اور افریقی بالوں کیساتھ لڑکیاں انکا پیچھا ایک راک اسٹار کی طرح کرتی تھیں۔ بلوچ قبائلی نظام میں سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود انہوں نے ایک شاہی قبیلے کی لڑکی سے شادی کی۔
ان کی گلوکاری کے بغیر کسی شادی کی تقریب بہت کم مہمانوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا۔ ان کی پرفارمنس منفرد تھی۔ مخنث رقاص ان کے ہمراہ ہوتے۔ جب سامگی گاتے تو وہ ناچتے اور مہمانوں کیساتھ ناز نخرے کرتے۔
تقریباً تیس سال قبل جب میرے والد جوان تھے تو انہوں نے ایک کچی سڑک پر ادھار لیے موٹر سائیکل پر ایک شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے پانچ میل کا سفر کیا۔ انہیں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ آپکو کسی ایسی شادی کیلئے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی جہاں سامگی اپنے، عورتوں جیسے کپڑے پہنے، رقاصوں کیساتھ گا رہے ہوتے۔
”روپا، آسیہ، ذرا ہلا بلبل،“ سامگی مائک پر چلاتے جب جب رقاص سست پڑ جاتے اور جب صبح قریب ہوتی اور مہمانوں پر نیند غالب آجاتی۔ سامگی کی اکساہٹ پر تھکے رقاص شادی کی تیز دھنوں والے گانوں پر پھر سے تیز ناچنا شروع کردیتے۔
میرے والد اس رات طلوع آفتاب سے ذرا قبل گھر لوٹے، وہ ہر قدم بڑی احتیاط سے رکھتے تاکہ اپنے خود آموز مُلا والد کو کہیں جگا نہ دیں۔ لیکن وہ جاگ رہے تھے۔ حتیٰ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ پانچ میل دور سامگی کا پروگرام ہے اور ان کا بیٹا یہ موقع نہیں گنوائے گا۔ انہوں نے سونے کا ڈرامہ کیا، اپنے ہاتھ میں مٹی کی ایک ڈلی لیے، اس انتظار میں کہ انکا بیٹا اس ڈلی کی پہنچ میں آجائے۔ جب میرے والد اسکی پہنچ میں آئے تو مٹی کی ڈلی ان کی ٹانگ میں لگی۔ وہ کئی ہفتوں تک لنگڑاتے رہے۔
سامگی بھی ان دنوں کسی بیماری کے باعث لنگڑاتے ہیں، لیکن وہ اسکے علاج کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتے۔ کئی سال گزر گئے ہیں کہ انہیں کسی تقریب میں بلایا گیا ہو۔ خدا جانے ان کے مشہور مخنث رقاص کہاں گئے۔ اب بلوچستان میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔
مدرسوں کے تعلیم دیے گئے ملاوں، جنہوں نے کراچی اور پنجاب میں بنیاد پرست مدارس میں کئی سال گزارے ہیں، کی کھمبیوں جیسی افزائش نے چیزیں بدل کر رکھ دی ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خود آموز مُلا دادا کو بھی ان سے پریشانی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ”ہر بار تھوڑے عرصے بعد کوئی نہ کوئی اپنی جیب میں بڑی رقم لیے آتا ہے اور میری مسجد کی مرمت کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ جیسا ہے ویسے ہی رہے۔“
یہ رقم سندھ اور پنجاب کے بڑے مدارس سے آتی ہے۔ اس کے علاوہ خلیجی ممالک میں بسنے والے سینکڑوں ہزاروں بلوچ، خاص طور پر وہ جو مذہبی شیوخ کیساتھ کام کرتے ہیں، مساجد کی تعمیر کیلئے رقم کا بندوبست کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں حتیٰ کہ ایسے مقامات پر بھی جہاں آس پاس کوئی نہیں رہتا۔ ایران کے ہمسایہ بلوچستان کو ایک سلفی گڑھ بنانے کیلئے سعودی عرب سے فنڈ جمع کرنے کا ایک مرکز بحرین ہے۔
اگر بلوچستان کا موازنہ اسکے ہمسایہ ثقافتوں کیساتھ کیا جائے تو یہ نسبتاً ایک سیکولر اور لبرل معاشرہ رہا ہے۔ خواتین کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کیا جاتا تھا۔ اور نہ ہی انہیں اپنے چہرے ڈھکنے پر مجبور کیا جاتا۔ معاشرے پر مذہب کا نہیں بلکہ قبائلی روایات کا راج تھا۔
گانا ہر اہم موقع کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ کسی بچے کی پیدائش پر۔ بچے کے ختنے پر۔ شادی پر۔ موت پر۔ کسی پیارے کے دور جانے پر۔ مچھلی پکڑنے کے دوران۔ جانوروں کو چرانے کے دوران۔ کسی اونٹ پر سواری کے دوران۔ ہر صنف کا اپنا ایک نام ہے۔
گلوکار اکثر خواتین ہوا کرتیں۔ شرُک ایرانی، ماہرنگ، گُلُک، شریفہ سوتی، گنجان، دُری۔ اب گانا صرف مردوں کے میدان عمل میں آتا ہے۔ کبھی کبھی، کسی دوگانے کیلئے، کسی غیر بلوچ گلوکارہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسکی بلوچی تلفظ آپکے کانوں میں گدگدی کرنے لگتی ہے۔
فلمساز ڈاکٹر حنیف شریف نے ایک بار مجھ سے کہا کہ ”جب میں کسی فلم کا اسکرپٹ لکھ رہا ہوتا ہوں تو میں یہ بات ذہن میں رکھتا ہوں کہ اس میں کوئی ایسا منظر نہیں ہونا چاہئے جس میں کسی عورت کا ہونا لازمی ہو۔ اگر عورتیں فیس بک پر کوئی تصویر شیئر کرنا چاہیں تو انہیں چہرے والے حصے کو کاٹنا پڑتا ہے۔ کسی فلم میں دکھایا جانا تو دور کی بات ہے۔“
وہ ایک بے حد محتاط فلمساز ہیں۔ وہ اپنا اسکرپٹ اسطرح سے لکھتے ہیں کہ جہاں خواتین کی ضرورت نہ ہو۔ لیکن دیگر کو اپنے آپ پر ہنسنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اپنی فلموں میں وہ کسی آدمی کو عورتوں کے کپڑے پہناتے ہیں اور کیمرے عام طور پر صرف اس کی پیٹھ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کبھی کبھار، جب ایک شوہر اپنی بیوی (جسے اسکرین پر نہیں دکھایا جاتا) کو چائے کا ایک کپ لانے کیلئے بلاتا ہے۔ ”ایک منٹ،“ ایک آواز آتی ہے، جو کسی آدمی کے حلق سے آرہی ہوتی ہے لیکن اسے اتنا بھینچا جاتا ہے کہ وہ ایک عورت کی آواز لگتی ہے۔
ایک فلمساز راشد حسن نے 2013ء میں اپنی فلم بے مراد میں ایک ایرانی خاتون شامل کرنے کی ہمت کی۔ سوشل میڈیا پر انہیں حتیٰ کہ ان لوگوں، جنہیں ”لبرل“ اور ”سیکولر“ کے الفاظ پسند ہیں، کی طرف سے بھی بلوچ ثقافت کو بگاڑنے کیلئے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) ان کے حق میں کھڑی ہوئی، لیکن یہ گروہ ان دنوں بہت کمزور ہے کہ کوئی اثر ڈال سکے۔
بائیں بازو کی اقدار پر مبنی بی ایس او کو 1967ء میں قائم کیا گیا، اس نے بلوچوں میں علیحدگی پسند جذبات کو زندہ رکھنے کے علاوہ انتہا پسند اسلام کا مقابلہ کرنے میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر وہ بلوچ جو کبھی بھی کسی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں پڑھا ہے ایک بار اس تنظیم کا رکن ضرور رہا ہے۔
ایک مرتبہ میرے دادا کو ایک نو بیاہتہ جوان عورت پر سے آسیب نکالنے کیلئے کہا گیا۔ وہ ایسے لوگوں عموماً کسی نفسیات دان کو دکھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ لیکن وہ ضد کر رہے تھے، تو وہ اس جوان خاتون سے جن نکالنے کیلئے ان کے ساتھ ہو لیے۔
”چاہے تم کوئی جن ہو یا کوئی پری، اس عورت کے جسم سے فوراً نکل جاو،“ انہوں نے عام بلوچی عاملانہ اظہار میں اسے حکم دیا۔
”ملا! تم میرے ساتھ گڑبڑ کرنے کی ہمت نہ کرنا۔ میں بی ایس او کا صدر ہوں اور میں اس عورت سے محبت کرتا ہوں،“ خاتون نے ایک آسیب زدہ آواز میں جواب دیا۔
Baloch girl
میرے دادا اس نتیجے پر پہنچے کہ اس جوان عورت کی شادی اس کی مرضی کیخلاف کی گئی تھی اور وہ کسی بی ایس او والے سے محبت کرتی تھی۔
بی ایس او کی طاقت ایسی تھی کہ اس کے علیحدگی پسند نعرے شادیوں میں نغموں کے طور پر لگائے جاتے تھے۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے اب اس پر پابندی لگا دی ہے۔ چونکہ فوج کی طرف سے علیحدگی پسند بغاوت کو کچلنے کیلئے بلوچ قومپرستوں کیخلاف بدنام زمانہ ’مارو اور پھینک دو‘ والا آپریشن شروع کرنے کے بعد سے اس کے اراکین پکڑے اور مارے جا رہے ہیں۔ یہ گروہ کئی عرصے سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسٹڈی سرکل لگانے کے قابل نہیں رہا جہاں مارکسی اور قومپرست ادب سکھایا جاتا۔
جب بلوچستان میں کوئی زلزلے آجائے تو بین الاقوامی دہشت گرد گروہ لشکر طیبہ کا خیراتی بازو جماعت الدعوة یا دیگر مذہبی گروہوں کو متاثرین کی امداد کیلئے فوجی پروٹوکول کے تحت لایا جاتا ہے اور بیک وقت ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں جماعت الدعوة نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ صرف انہی کی کوششوں کی بدولت ہے کہ پاکستان کا پرچم اب بھی بلوچستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ اور پاکستان کی فوجی اسٹابلشمنٹ، جس نے افغانستان، بھارت اور بلوچستان کیخلاف اپنے اسٹراٹیجک اثاثوں کے طور پر اکثر ان اسلام پسندوں پر انحصار کیا ہے، جانتی ہے کہ اسلام وہ واحد ربط ہے جو بلوچستان کو پاکستان کے باقی حصوں کیساتھ جوڑے رکھ سکتی ہے۔
لیکن بلوچ خاتون گلوکارہ یا اداکارہ کی کمی کیلئے فوجی اسٹابلشمنٹ پر الزام عائد کرنا نامناسب ہے۔ اس کوتاہی کی ذمہ داری رجعت پسندانہ بلوچ قومپرستی اور تھوڑی بہت، کم از کم، پنجابی فلموں میں خواتین اداکاراوں کو ملنے والے ہتک آمیز کردار پر عائد ہوتی ہے۔
جب ایک بار میں نے ایک نوجوان بلوچ قومپرست سے پوچھا کہ وہ خواتین کے گانے اور اداکاری کرنے کے خلاف کیوں ہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا، ”کیا ہمیں بھی اسی طرح سے اپنی عورتوں کی توہین کرنے کیا اجازت دے دینی چاہئے جیسا کہ پنجابی فلموں میں ان کیساتھ ہو رہا ہے۔“
چونکہ عورتیں بلوچ ثقافتی منظرنامے سے غائب ہو رہی ہیں، وہ سیاسی محاذ پر ابھر رہی ہیں۔ فوج نے اب تک قومپرست عورتوں کو مارنا شروع نہیں کیا ہے۔ چونکہ بلوچ مرد بھاگ رہے ہیں تو لہٰذا خواتین ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہو رہی ہیں۔ بی ایس او کی تاریخ میں پہلی بار اس کی چیئرپرسن ایک نوجوان خاتون کریمہ بلوچ ہیں۔
میرے دادا جس جوان عورت سے آسیب نکالنے کی کوشش کررہے تھے جس پر مانا جاتا تھا کہ کوئی جن آیا ہوا ہے۔ اگر اگلی بار انہیں کسی جوان مرد پر سے آسیب نکالنے کیلئے مدعو کیا جائے تو یہ کوئی پری ہو سکتی ہے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий