Powered By Blogger

четверг, 18 декабря 2014 г.

پشاور واقعہ اسی طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ہے مگر اس میں آئی ایس آئی و فوج براہ راست ملوث ہے. بی این ای

)بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے پشاور حملے کے بعد معاشرے کے سماجی و سیاسی اور دوسرے طبقوں کی جانب سے ردعمل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ریاست کے مقتدرہ نے بلوچستان میں گذشتہ دس سالوں سے بلوچ نسل کشی کی انتہا کرکے بلوچستان کو لہولہان کردیالیکن اس منافق معاشرے کے ان نام نہاد روشن فکر طبقوں نے کھبی بھی بلوچ نسل کشی پر آوازبلند نہیں کیا۔ لیکن آج اس کے اپنے گھر میں یہی افتاد آن پڑی ہے توسماجی و سیاسی طبقوں سمیت انسانی حقوق اداروں اور میڈیا نے دنیا کو سر پر اٹھا لیا ہے ۔ ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ہر قسم کی دہشت گردی اور معصوم لوگوں کے قتل کی مذمت کرتے ہیں ، چاہے وہ بلوچستان کی طرح آئی ایس آئی و فوج خود کریں یا پشاور
پشاور واقعہ اسی طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ہے مگر اس میں آئی ایس آئی و فوج براہ راست ملوث ہے. بی این ایم
کی طرح اپنے قومی اثاثے طالبان سے کروائیں ۔ جبکہ بلوچستان میں فوج و آئی ایس آئی خود اور اپنے مذہبی دہشت گرد گروہوں کے ذریعے بلوچ طلباء و اساتذہ کو قتل کرکے سر عام گھوم رہے ہیں ، طالبان و داعش کی شاخیں پنجگور، تربت اور گوادر میں کئی اسکولوں کو جلا کر کئی طلباء اساتذہ کو قتل کر چکے ہیں ۔ خضدار ، قلات و کوئٹہ میں خواتین پر تیزاب پھینک کر سیکولر بلوچستان میں آئی ایس آئی کی مدد سے ایک دہشت گرد مذہبی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ پشاور واقعہ اسی طرح کا ایک اندوہناک واقعہ ہے مگر اس میں آئی ایس آئی و فوج براہ راست ملوث ہے ، طالبان کی حالیہ پرورش میں پشتونوں کی نقصان کو برداشت کرنے کا مقصد اپنے اثاثے کو مزید مستحکم کرکے دُنیا کو بلیک میل
کرکے امداد بٹورنے کیساتھ خطے میں ایک اسٹیک ہولڈر کا مقام حاصل کرنا ہے، چونکہ پاکستان کی اہمیت بلوچستان و افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے ہے ، اسی لئے ان حملوں کو بدنام زمانہ آئی ایس آئی و فوج برداشت کرکے غیر مستحکم افغانستان کے لئے انہی اثاثوں کو استعمال میں لا کر اپنی بلیک میلنگ جاری رکھنا چاہتا ہے ، تاکہ خطے میں کسی بھی معاملے پر پاکستان کو حصہ دار ٹھہرا کر ہر عمل میں ملوث کیا جا سکے ۔ ان کے ہاں بلوچستان و پشاور کے معصوموں کی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،انہیں صرف تجربہ کے طور پر مارا جاتا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ افسوس اس بات کی ہے کہ پشاور واقعے کی شب و روز کوریج و عالمی طاقتوں کی طرف سے مذمت کی جاتی ہے مگر دُنیا اور عالمی میڈیا بلوچستان کی اس جیسی صورتحال پر خاموش رہ کر بلوچ نسل کشی کا تماشہ دیکھ رہی ہیں ۔ بیس ہزار سے زائد بلوچوں کی جبری اغوا و گمشدگی ، تین ہزار سے زائد مسخ شدہ لاشیں اور اس تہذیب یافتہ دور میں اس صدی کی اب تک سب سے بڑی اجتماعی قبروں کی دریافت پر اقوام متحدہ ، عالمی
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی طاقتوں کی خاموشی پاکستان کو مزید بلوچستان و پشاور جیسے واقعات کو دہرانے کیلئے مواقع فراہم کر رہا ہے ۔ بلوچستان میں رپورٹنگ پر کئی بین الاقوامی صحافیوں کو چوبیس گھنٹے کے نوٹس پر ملک سے نکال باہر کرنے کے باوجود میڈیا میں بلوچستان کو صحافیوں کیلئے نو گو ایریا بنانے پر کسی قسم کا رد عمل سامنے نہیں آیا ۔ لوکل میڈیا و انسانی حقوق کے تنظیموں کی کارکردگی اس سے بھی بد تر ہے ۔ ہم دُنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اس خطے میں امن بلوچستان کی آزاد حیثیت کی بحالی اور طالبان کے خاتمے سے مشروط ہے جو صرف پاکستان کی وجود سے انکاری سے ہی ممکن ہے ۔ اقوام متحدہ و عالمی قوتیں خطے و بلوچستان میں
مزید ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا نوٹس لیکر بلوچستان کی آزادی کی حمایت کرکے پاکستانی فوج کے ہاتھوں بنگلہ دیش کی تاریخ دہرانے و موجودہ قتل و غارت گری کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں ۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий