Powered By Blogger

воскресенье, 28 декабря 2014 г.

بلوچ ریپبلکن پارٹی کے قائد اور بلوچ قومی رہنما نواب براہمداغ بگٹی کا ’’کشک‘‘ سے خصوصی انٹرویو


کشک: بی آر ایس او بلوچ ری پبلکن پارٹی کا اسٹوڈنٹ ونگ ہے اور بی آر پی کے مر کز نے بی آر ایس او کو خود مختار رکھا ہے لیکن دوسرے آزادی پسند پارٹیوں اور
تنظیموں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ بی آر ایس او بلوچ ری پبلکن پارٹی کا ونگ ہونے کے ساتھ ساتھ خود مختار نہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: بی آر ایس او کا بی آر پی سے نزدیکی ضرور ہے لیکن مرکزی کابینہ اور زونل ڈھانچوں سمیت ان کے اپنے ادارے موجود ہیں جو اپنے تمام تر تنظیمی فیصلے کرنے میں پوری طرح آزاد ہیں۔ جہاں تک ہم آہنگی اور باہمی روابط کا تعلق ہے تو بی آر پی کے بی آر ایس او سمیت تمام آزادی پسند سیاسی جماعتوں اور طلبا تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں جو کہ ہماری نظر میں ایک مثبت عمل ہے۔

کشک: کیا بلوچ قومی اتحاد بلوچ نیشنل فرنٹ کی بحالی کے لیے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں؟ اگر ہاں تو اس بارے میں قوم کو حقیقت سے آگا ہ کیوں نہیں کیا جا رہا کہ اتحاد کی بحالی میں کونسی رکاوٹوں کا سامنا ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: قومی اتحاد کے لئے بی آر پی ہر ممکن اقدامات اٹھارہی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ جلد از جلد قومی اتحاد کو تنظیمی شکل دیتے ہوئے جہد کو تیز تر کیا جائے لیکن یہ بات باہمی صلح مشورہ سے ہی طے پائیگی کہ بی این ایف کو بحال کیا جائے یا اس سے ایک بہتر تنظیمی ادارہ قائم کیا جائے جس میں شامل تمام جماعتیں اور تنظیمیں نا صرف قومی یکجہتی کو پروان چڑھائیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ادارے کے قوانین کی پاسداری کریں اور قومی اتحاد کو ماضی کی طرح ذاتی اورگروہی مفادات کی نظر ہونے سے بچائیں۔ جہاں تک رکاوٹوں کی بات ہے تو بالکل مشکلات کا سامنا ضرور ہے جس میں ریاست کی جانب سے بڑھتی ہوئی جارحیت اور سیاسی کارکنوں کی اغواہ نما گرفتاریاں اور ان کو شہید کرنا شامل ہیں۔جس طرح ریاست کی جانب سے بلوچستان میں سرفیس سیاست کو نا ممکن بنادیا گیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک منظم، مظبوط اور موثر عملی اتحاد کی تشکیل کے لئے کتنے مسائل کا سامنا کرنا پرسکتا ہے لیکن ہم پھربھی بہت پرامید ہیں ۔ 

کشک: اگر بی آر پی ، بی این ایف میں شامل ہوتی ہے تو ایسے میں بی آر ایس او کو الگ حیثیت دی جائیگی یا نہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: جہاں تک بی آر پی کی موقف کا تعلق ہے تو آزادی پسند سیاسی جماعتوں اور دیگر تنظیموں کی جانب سے جو بھی اتحاد قائم کی جائیگی، اس میں شامل تمام جماعتوں کی الگ حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لہذا بی آر ایس او ہو یا پھر بی ایس او (آزاد) ان کی الگ تنظیمی حیثیت کو ساتھ لیکر ہی معاملات کو آگے لیکر جایا جائیگا۔

کشک: بی آر ایس او کے سینیئر دوستوں نے بی ایس او آزاد کے مرکزی دوستوں سے رابطے کیے تھے جس میں بی ایس او آزاد کے دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر بی آر پی پھر سے بی این ایف میں شمولیت اختیار کرتی ہے تو بی آر پی اور بی آر ایس اودونوں کو کل ملاکے5 نمائندے بی این ایف میں دیے جائینگے جبکہ بی ایس او آزاد اور بی این ایم کے پانچ پانچ نمائندے ہونگے ۔تو کیا ایسے میں بی آر پی اور بی آر ایس او کی حیثیت ان سے کم نہیں ہوگی؟

نواب براہمداغ بگٹی: میرے خیال میں میں نے آپ کے اس سوال کا جواب بھی پچھلے جواب میں ہی دے دیا ہے۔ اگر بی آر پی ، بی این ایم ، بی آر ایس او، بی ایس او (آزاد) یا پھر جو بھی آجوئی پسند سیاسی جماعت یا تنظیم قومی اتحاد کا حصہ بنے گی تو اسے بھی اتنی ہی نمائندگی ملنی چاہئے جتنا کا ان میں سے کسی ایک کو ملے گی۔

کشک: کیا سنگل پارٹی کے حوالے سے اقدامات اُٹھائے جا رہے ہیں ، اگر ہاں تو کیا بی این ایف میں شمولیت کے بعد بلوچ سنگل پارٹی کے لیے راہ ہموار کی جائیگی یا نہیں اور اگر کی جائیگی تو کیا بی این یف میں شامل بی این ایم، بی آر پی، بی آر ایس او اور بی ایس او آزاد اپنے پارٹی اور تنظیموں کے ڈھانچے کوختم کر کہ نئے پارٹی کا قیام عمل میں لانے کے لیے تیار ہونگے جس میں یہ تمام پارٹی اور تنظیمیں ایک پارٹی اور ایک تنظیم ہوکر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے؟

نواب براہمداغ بگٹی: دیکھیں ہم ایک قومی یکجہتی کی بات کرتے ہیں کہ جس کے نتیجے میں ہماری طاقت پارٹیوں اور تنظیموں میں بٹنے کی بجائے متحد اور موثر ہو چاہے اس یکجہتی کی صورت ایک قومی الائینس کی شکل میں ممکن ہو یا پھر ایک سنگل پارٹی کی تشکیل سے۔ بی آر پی، بی این ایم، بی آر ایس او اور بی ایس او (آزاد) یہ سب جماعتیں پاکستانی قبضہ گیریت کے خاتمے اور ایک آزاد بلوچ ریاست کے حصول کے موقف بغیر کسی شرط کے متفق ہیں اور کم و بیش طریقہ کار میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے لیکن چونکہ ان کی طاقت ایک ساتھ نہیں ہے جس کی وجہ سے قومی تحریک اتنی منظم اور موثر نہیں ہے کہ جتنی ہونی چاہیئے لہذا ہماری کوشش یہی ہے کہ اس طاقت کو منظم کیا جائے اور جہد آجوئی میں یکجہتی کو پروان چڑھاتے ہوئے منزل کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔

کشک: ریاست کی طرف سے بلوچ قوم کو تعلیم سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے مکران میں اسکولوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے اساتذہ کو ڈیتھ اسکواڈز کی طرف سے دھمکیا دی جا رہی ہیں اس حوالے سے بی آر پی کی پالیسی کیا ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: بی آر پی ایک آزاد بلوچ ریاست کے ساتھ ساتھ ایک خوشحال بلوچ معاشعرے کی تشکیل کو یقینی بنانے کے لئے جدوجہد کررہی ہے جو کہ ہمارے پارٹی آئین و منشور کے بنیادی نقات ہیں۔ ظاہر ہے ایک خوشحال معاشرے کے قیام میں تعلیم ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم ہی قوموں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر کامیابیوں کی اونچائی تک پہنچادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض ریاست بلوچ قوم کی جسمانی نسل کشی کے ساتھ ساتھ ان کی علمی نسل کشی بھی کررہی ہے تاکہ اسے تعلیم سے دور کیا جاسکے جس کا مقصد ہی یہی ہے کہ بلوچ قوم اپنی تشخص، تاریخ ، زبان اور ثقافت سے دور ہوتا جائے اور اسی طرح اسے ابدی غلامی کے اندھیروں میں جھونک دیا جائے لیکن بلوچ قوم میں اتنی شعور موجود ہے کہ وہ ریاست کی ان گھناؤنی سازشوں کا سامنا کرسکے۔ بی آر پی بحیثیت ایک قومی جماعت کے ناصرف بلوچ قوم میں تعلیم کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ قوم کی جسمانی نسل کشی کے ساتھ ساتھ علمی نسل کشی پر بھی آواز اٹھاتی ہے۔

کشک: بلوچستان کی آزادی سے پہلے آزاد بلوچستان کے جھنڈے کو منتخب کرنا شائد ممکن نہیں لیکن کچھ حلقوں میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ بی آر پی نے آزاد بلوچستان کے جھنڈے کو اپنا پارٹی جھنڈا بنا دیا ہے اس حوالے سے قوم کو آگا کرینگے؟

نواب براہمداغ بگٹی: اس وقت بلوچستان پاکستان کی جبری قبضہ میں ہے اور بلوچ قوم اپنی بقاء کی جدوجہد کررہی ہے۔ آزاد بلوچستان کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ قومی ترانے کا ذکربھی کیا جاتا ہے حالانکہ یہ صرف علامتی چیزیں ہیں چاہے وہ آزاد بلوچستان کا پرچم ہو یا پر قومی ترانہ، ان کو حتمی صورت دینے کے لئے قوم کی نمائندہ جماعتوں کا متفق ہونا ضروری ہے ۔ لہذا یہ کہنا کہ بی آر پی کی جانب سے آزاد بلوچستان کے پرچم کو پارٹی پرچم بنادیا ہے غلط ہے۔ لیکن یہ ایک علامتی پرچم ضرور ہے اور بی آر پی کی جانب سے اس کو اپنانے کے عمل کو مثبت طریقے سے دیکھنا چاہئے۔


کشک: غلامی کو دوام دینے کیلئے پاکستان و ایران ہر طرح کے حربے استعمال کر رہے ہیں،جیسے حالیہ وقتوں میں فرقہ ورانہ فسادات ،ہندو،ذگری،سنی وغیرہ،اس باریں میں آپ کی کیا حکمت عملی ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچ قوم ہمیشہ سے مذہبی انتہاپسندی، دہشتگردی اور فرقہ وارانہ فسادات سے پاک رہی ہے لیکن پاکستان کی قبضہ گیریت کے بعد بلوچ قو م کو قابض کی جانب سے ملنے کئی تحائف میں سے یہ بھی شامل ہیں۔ظاہرہے پاکستان کو بلوچستان درکار ہے اور اس کے لئے اس کو بلوچوں سے جان چھڑانا مقصود ہے لہذا وہ ریاستی بربریت، نسل کشی، علم کشی اور دوسرے مظالم کے ساتھ ساتھ مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور دہشتگردی جیسے برائیوں سے بلوچ معاشرے کو آلودہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بلوچ قومی جہد آجوئی میں اس طرح کی کوئی تفریق موجود نہیں ہے۔ ہماری نظر میں مذہب انسان کا ایک ذاتی معاملہ ہے اور ایک عام بلوچ کو اپنے مذہبی عقیدہ چننے اور اس پر آزادی سے عمل کرنے کا پورا حق ہے جو کہ یقیناًایک آزاد بلوچ ریاست کے قیام سے ہی ممکن ہے۔

کشک: تحریکِ آزادی کے بارے میں بلوچ قوم کو آگا کرنے کے لیے بلوچ قوم کا اپنا میڈیا ہونا بہت ضروری ہے کیا آپ نہیں سوچتے کہ انٹرنیشنلی بلوچ قوم کا اپنا ایک ٹی چینل ہونا چایئے تاکہ وہ بلوچ جو سوشل میڈسے دور ہیں بلوچستان کی صورتِ حال سے بخوبی واقف ہوں ؟اگرہاں تو اب تک اس پر کام کیوں نہیں کیا گیا؟

نواب براہمداغ بگٹی: بالکل ہونا چاہئے، ناصرف ٹی وی چینل بلکہ ٹی وی ، ریڈیو اور معلومات سے رسائی کے وہ تمام ذرائع ہونے چاہئے کہ جن کی مدد سے بلوچ قوم نہ صرف اپنے جدوجہد سے جڑی رہے بلکہ بین الاقوامی سیاست اور دنیا میں بدلتے ہوئے حالات و واقعات اور ان کے بلو چ جہد آزادی پر پڑنے والی اثرات سے براہ راست معلومات رکھے ۔ جس طرح پاکستانی میڈیا نے بلوچستان کے حالات کے بارے میں عالمی برادری کو اندھیرے میں رکھا ہوا ہے تو ایسے میں بلوچ قومی میڈیا کا ہونا ایک انتہائی خوش آئند عمل ہوگا لیکن ظاہر ہے اس کے راستے میں بھی کئی رکاوٹیں موجود ہیں۔ جس میں ریاست کی بلو چ کارکنوں اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ محدود وسائل سرفہرست ہیں۔ لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں جس طرح بی آر پی سمیت دیگر بلوچ سیاسی کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیا جارہا ہے اور بلوچستان کو براہ راست بین الاقوامی دنیا سے کنیکٹ کیا جارہا ہے، یہ یقیناًایک اہم اور قابل تعریف عمل ہے۔

کشک: کراچی میں بلوچ آبادی والے علاقوں میں بلوچ قوم کی نسل کشی بے دردی سے جاری ہے کیا بی آرپی کراچی میں آباد بلوچوں کو متحد کر کے تحریکِ آزادی میں شامل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: بی آر پی ایک بلوچ قومی آزادی پسند جماعت ہے اور یقیناًبلوچستان سمیت کراچی اور دیگر علاقوں اور پوری دنیا میں مقیم بلوچوں میں قومی تحریک کے بارے میں شعوری بیداری پیدا کرکے انہیں تحریک میں نہ صرف شامل کرنا بلکہ منظم طریقے سے متحرک کرنا ہمارا قومی فریضہ ہے اور میرے خیال میں کراچی کے بلوچ اس وقت آزادی کی تحریک میں کسی طرح پیچھے نہیں ہیں جیسے کہ آئے روز بلوچستان میں ریاستی مظالم کے خلاف آواز اٹھانا اور ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کی صورت میں ایک سیاسی انداز میں اپنا کردار بھی ادا کررہے ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ آزادی پسند سیاسی جماعتوں کو مزید کا م کرنے کی ضرورت ہے۔

کشک: کر د وں نے خود کو آج دنیا کے سامنے ایک قوم کی حیثیت سے منوادی ہے اور کافی حدتک کامیابیاں بھی حاصل کیں ہیں ، انکی جہدِ آزادی اور بلوچ قوم کی جہدِ آزادی تقریباََ یکسا ں ہیں تو بلوچ کیوں اب تک خود کو دنیا کے سامنے نہیں منوا سکیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: کرد وں اور بلوچوں کی قومی تحریکوں میں یکسانیت ضرور موجود ہے لیکن ان میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں بھی ہیں جیسا کہ بین الاقوامی سطح پر کرد ڈیاسپورہ کا متحرک کردار اور تحریک میں خواتین کی مردوں کے شانہ بہ شانہ شمولیت قابل ذکر ہیں۔ گو کہ حالیہ تحریک میں بلوچ خواتیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں جو کہ ایک نہایت مثبت چیز ہے لیکن اس کا کرد خواتین سے ابھی تک موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ میری نظر میں جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اس طرح کی تحریکوں کو منوانے میں دو چیزیں بڑی اہم ہیں جن میں ایک اس قوم کا بین الاقوامی سطح پر مضبوط لابیئنگ کرنا اور دوسرا بین الاقوامی طاقتوں کا اس تحریک سے وابستہ مفادات کا ہونا ہیں ۔ بد قسمتی سے بلوچ تحریک کی لابیئنگ اس وقت تک اُس حد مضبوط نہیں ہے کہ وہ بین الاقوامی پالیسیز پر اثر انداز ہوسکے اور دوسری بات کہ مختصر مدت کے لئے ہی صحیح لیکن بین الاقوامی طاقتوں کی مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں۔ مختصر مدت کے لئے اس لئے کیونکہ مغربی ممالک افغانستان سے اپنی فوجیوں کے انخلاکے حوالے سے پاکستان پر منحصر ہے حالانکہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو دوغلاپن اور منفی کردار رہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ پی آر پی بین الاقوامی سطح پر بلوچ تحریک کے حوالے سے بھرپور کام کررہی ہے اور ہم پرامید ہیں کہ جلد ہی دوسرے آزادی پسند دوستوں سے مل کر مزید کام کیا جائے گا جس سے مثبت نتائج سامنے آئینگے۔

کشک: بلوچ خواتین کی تحریک میں شمولیت کافی محدود ہے اسکی کیا وجوہات ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: محدود شمولیت کی وجوہات میں سرفہرست ریاست کی جانب سے مذہبی انتہاپسندی اور تعلیم سے دوری ہے کیونکہ جب تک ایک قوم تعلیم یافتہ نہیں ہوگی اور خاص کر اس کے خواتین تعلیم یافتہ نہیں ہونگیں تب تک وہ قوم نہ تو اپنی حیثیت منواسکتی ہیں اور نہ ہی ترقی کرسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کی جانب سے بلوچستان میں مذہبی انتہاپسندی، بچیوں کے تعلیمی اداروں کا نشانہ بنانا اور ان پر تیزاب حملوں میں تیزی انہیں ریاستی سازشوں کا حصہ ہیں کہ بلوچ قوم خاص کر بلوچ خواتین کو تعلیم سے دور رکھا جائے کیونکہ محدود ہی صحیح لیکن بلوچ خواتین کی تحریک میں شمولیت اور سرگرم کردار نے ریاست کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ 

کشک: بلوچ آزادی پسند تنظیموں کا زیادہ تر توجہ مسلح جدوجہد کی طرف ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاست کے دوسرے تمام ذرائع استعمال نہیں کیے جارہے اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی : بلوچ قوم ایک ایسے سفاک دشمن سے آمنے سامنے ہے جو کہ صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے اور جمہوری انداز جدوجہد کو ہمیشہ طاقت کے زو ر پر کچھلنے کی کوشش کی ہے جس کی واضح مثال آزادی پسند بلوچ سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بڑی تعداد میں اغواء نما گرفتاریاں، ٹارچر سیلوں میں انہیں اذیتیں دینا اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینک دینا یا پھر اجتماعی قبروں میں دفنا دینا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں اس وقت سرفیس پر جدوجہد کو ناممکن بنادیا گیا ہے اور سیاسی کارکنان زیرزمین کام کررہی ہیں اور زیادہ تر بلوچ نوجوان مزاحتمی اور مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہورہے ہیں کیونکہ مسلح اور سیاسی طریقہ کار دونوں ہی آزادی کی تحریک کا حصہ ہوتی ہیں جو کہ ایک ساتھ چلتی ہیں۔

کشک: ایسا نظر آتا ہے کہ بلوچ تحریکِ آزادی ایک محدود مدت تک کے لیے ہے، اگر بلوچ قوم اس محدود مدت میں آزادی حاصل نہ کر سکیں تو کیا ہمارے پاس لونگ ٹرم پالیسی ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا کہ بلوچ تحریک آزادی ایک محدود مدت کے لئے ہے کیونکہ بلوچ تحریک میں منزل یعنی آزادی تک پہنچنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے حالانکہ حکمت عملی اور طریقہ کار ضرور موجود ہے لیکن سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ جدوجہد بلوچستان کی آزادی تک جاری رکھی جائیگی۔ بلوچ قوم گزشتہ 67 سالوں سے جدوجہد کررہی ہے جس میں کئی مراحل طے کیے گئے اور 2000 کے عشرے میں شہید نواب اکبر خان بگٹی کی قیادت میں جس مرحلے کا آغاز کیا گیا ہے وہ آج بھی پوری توانائی سے جاری ہے اور اس میں دن بہ دن تیزی لائی جارہی ہے۔ مشکلات ضرور موجود ہیں لیکن ہمارے پاس منشور موجود ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہوئے جدوجہد کررہے جو کہ ناصرف آزادی کے حصول بلکہ ایک آزاد بلوچستان کے نظام کے بارے میں اہم تجاویز رکھتی ہے جسے آپ لے الفاظ میں لانگ ٹرم پالیسی کہا جاسکتا ہے۔ 

کشک: قوم چاہتی ہے کہ آپ قوم کی نمائندگی کریں نہ کہ ان پر بادشاہت ، آپ کے اور حیر بیار کے رویے میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتاکیو؟

نواب براہمداغ بگٹی: میں نے کبھی قوم پر بادشاہت کی بات نہیں کی اور نہ ہی اس طرح کی کوئی تاثر دینے کی کوشش کی اور میں اس بات کو سراسر مسترد کرتا ہوں اور جہاں تک حیربیار مری کے رویے سے فرق کی بات ہے تو میں نہیں جانتا کہ آپ کس نظریے سے فرق کی بات کررہے ہیں لیکن ہم اداروں کی بات کرتے ہیں اور بلوچ قوم کو متحدہ پلیٹ فارم پر جمع کرکے اتحاد کی بات کرتے ہیں تاکہ ہماری طاقت بٹنے کی بجائے یکجا ہو اور ہم منظم ہوکر جدوجہد کو منزل مقصود تک پہنچائیں ۔

کشک: آپ ہمیشہ اپنے انٹرویوز میں بلوچستان میں ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں ، جبکہ اسکوٹ لینڈ کی موجودہ ریفرنڈم ہمارے لیے ایک سبق ہے جہاں کے لوگ ہم سے کئی زیادہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ہم سے کئی آگے بھی ہیں ، کیاآپ بلوچستان میں ریفرنڈم کو ایک آپشن سمجھتے ہیں؟

نواب براہمداغ بگٹی: جب ہم ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خدانخواستہ بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار ہوگئے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے اقوام کی طرح بلوچ قوم کو بھی اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا جمہوری حق ملنا چاہیے لیکن میں اس بات پر حیران ہوں کہ اسکاٹ لینڈ کی ریفرنڈم کا بلوچستان سے کس طرح موازنہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ دونوں کی صورتحال بلکہ ہی مختلف ہے۔ کیا سکاٹ لینڈ پر برطانوی فوج روزانہ کی بنیادوں پر فوجی آپریشن کرتی ہیں؟ کیا سکاٹس سیاسی کارکنوں ، طالب علموں ، اساتزہ، ادیبوں ، شاعروں اور وکیلوں کو برطانوی خفیہ ادارے اغواء کرکے لاپتہ کرتی ہیں؟ کیا سکاٹ لینڈ میں آئے روز مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں؟ کیا وہاں پر اجتماعی قبروں کا کوئی تصور دیکھنے کو ملتا ہے؟ اگر نہیں تو ان دونوں کا موازنہ کرنا نا انصافی ہوگی۔ آج اگر بلوچستان سے پاکستانی فورسز کو نکال کر وہاں بین الاقوامی امن فورسز کی موجودگی میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کئے جائیں تو یقیناًبلوچ قوم کی بھاری اکثریت آزادی کی حق میں ووٹ دیگی جس کا ثبوت گزشتہ ریاستی الیکشن ہیں جس میں پاکستان اپنی تمام تر ریاستی مشینری اور فوجی طاقت استعمال کرنے کے باوجو د تین فیصد سے زائد لوگوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے مجبور نہ کرسکا جو کہ بذات خود ایک ریفرنڈم ہے کہ بلوچ قوم کی اکثریت آزادی کی حق میں ووٹ دیتی ہے۔

کشک: لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ براہمدغ بگٹی کا مہران مری کے ساتھ بہترین تعلقات کی وجہ آپسی رشتہ داری ہے ، اس بات میں کتنی حقیقت ہے؟

نواب براہمداغ بگٹی: اس بات سے قطع نظر کے آپ کن لوگوں کی بات کرتے ہیں لیکن نواب مہران مری ہی نہیں ہم تمام آزادی پسند بلوچ رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں سے نہ صرف بہترین تعلقات چاہتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ متحدہ پلیٹ فارم کی تشکیل کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔ اگر آپسی رشتہ داری ایک مثبت کردار ادا کرتی ہیں تو یہ ایک مثبت عمل ہے لیکن اگر ہم نظریاتی رشتوں سے ذاتی رشتہ داریوں کو ترجیح دیتے تو شہید نواب اکبر خان بگٹی کے خاندان میں سے کچھ لوگ تو ہمارے ساتھ ضرور ہوتے لہذا میں اس بات کو سراسر مسترد کرتا ہوں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий