Powered By Blogger

четверг, 7 января 2016 г.



مقبوضہ بلوچستان : پاکستانی فورسز کے ہاتھوں سال 2015 میں 


نو ہزار سے زائد بلوچ فرزند گرفتار


بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت سنہ 2015 کے دوران نو ہزار سے زائد افراد 

کو گرفتار کیا گیا۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 

نیشنل ایکشن پلان کے تحت مختلف علاقوں میں سنہ2015 کے دوران خفیہ معلومات کی 

بنیاد پر 1940 کاروائیاں کی گئیں

ان کاروائیوں کے دوران مجموعی طور پر نو ہزار تین سو 69 افراد کو گرفتار کیا گیا 

جوبلوچستان کی تاریخ میں ایک سال کے دوران سب سے بڑی گرفتاریاں ہیں۔
محکمہ داخلہ کے مطابق سنہ 2015 کے دوران بلوچستان میں مجموعی طور پر ٹارگٹ 

کلنگ کے 222 واقعات رونما ہوئے جن میں مجموعی طور پر 200 سے زائدافراد ہلاک اور 

304 زخمی ہوئے۔
اس کے مقابلے میں سنہ 2014 میں 281 واقعات رونما ہوئے تھے جن میں 275 افراد ہلاک 

اور 731 افراد زخمی ہوئے۔
سنہ2015 میں ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہونے والوں میں سے 60 سکیورٹی فورسز کے 

اہلکار 

تھے جن میں پولیس کے36، ایف سی کے 43 اور لیویز فورس کے تین اہلکار شامل تھے 

جبکہ مجموعی طور پر 145اہلکار زخمی ہوئے۔
سنہ 2014کے مقابلے میں سنہ 2015 میں ایف سی اور پولیس کے اہلکاروں کی ہلاکتوں 

میں اضافہ ہوا۔
آباد کاروں پر سنہ 2014 میں ہونے والے 25 حملوں کے مقابلے میں سنہ 2015میں 

13 حملے ہوئے لیکن سنہ 2014 میں ہلاک ہونے والے 30 افرادکے مقابلے میں سنہ 2015 

میں 36 افراد ہلاک ہوئے
۔
سنہ 2015 میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں دیگر لسانی اور نسلی طبقات سے تعلق 

رکھنے والے 55 افراد ہلاک اور 141 زخمی ہوئے۔ سنہ 2014 میں ایسی ہلاکتوں کی تعداد 

41 اور زخمیوں کی تعداد 294 تھی۔
سنہ 2014 میں فرقہ وارانہ واقعات میں مجموعی طور پر 91 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 

سے 80 کا تعلق شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے سے تھا جبکہ 5سنی 

علما بھی مارے گئے تھے اور26 زخمی ہوئے تھے
۔
سنہ 2015 میں فرقہ وارانہ واقعات میں مجموعی طور پر 44 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 

21 کا تعلق ہزارہ قبیلے سے تھا۔
ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ سید امتیاز شاہ کا کہنا ہے کہ جرائم اور تشدد کے واقعات میں 

کمی واقع ہوئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ 146یہ اعداد و شمار تشدد کے واقعات اور دیگر جرائم کے دیگر واقعات 

میں 40 سے 50 فیصد کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

145

سنہ 2015 کے دوران بم دھماکوں، راکٹ حملوں، بارودی سرنگ کے دھماکوں اور دستی 

بم حملوں کے 419 واقعات رونما ہوئے جبکہ سنہ 2014 میں اس طرح کے 452 واقعات 

رونما ہوئے تھے۔ سنہ 2015 میں کیسکو، ریلوے اور گیس کی تنصیبات پر 68 حملے ہوئے 

جبکہ سنہ 2014 میں115 حملے ہوئے تھے۔
سنہ 2015 کے دوران بھی تشدد زدہ لاشوں کی برآمد گی کا سلسلہ جاری رہا۔ محکمہ 

داخلہ حکومت بلوچستان کے مطابق مجموعی طور پر129افراد کی تشدد زدہ لاشیں 

برآمد 

ہوئیں جن میں 40 بلوچوں،21 پشتونوں اور 12 دیگر لسانی طبقات سے تعلق رکھنے والے 

افراد کی تھیں جبکہ 56 ناقابل شناخت تھیں۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے برعکسں لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم 

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ کا دعویٰ ہے کہ سنہ 2015 کے 

دوران صرف بلوچوں کی 157تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔
اگرچہ حکام کا یہ کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری 

آئی ہے لیکن اس مد میں اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے
 ۔
جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مالی سال 2014کے بجٹ میں امن و امان 

کی مد میں 21ارب 56کروڑ روپے کے مقابلے میں رواں مالی سال کے لیے26ارب 95کروڑ 

ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پانچ ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتاہے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий