Powered By Blogger

понедельник, 28 октября 2013 г.

‫پاھار ماہنامہ سنگر اکتوبر
سنگر کا پُر مغزاور دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے۔۔۔۔
اختر مینگل کی آنکھ مچولی نے بلاآخر بلوچستان اسمبلی کی ایک ایم پی کی نشست پر تشریف آواری کے ساتھ دم تھوڑ دیا ۔جہاں الیکشن سے پہلے مینگل صاحب نے بلوچ قوم کو اپنی پوری قوت کے ساتھ بے وقوف بنانے کی کوشش کی تو کہیں قابض ریاست کو بھی بلیک میل اور خود کو عوامی طاقت کہہ کر اپنی قیمت بڑانے کا ڈرامہ رچایامگر تب جا کے تمام حربے بے سود نکلے جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنی وفاداری کا تمغہ کچھ پورانے اور کچھ نئے نام کے مڈل کلاسوں کے گردن میں تھما دیا۔ریاست کے خاندانی وفادار بزنجو صاحب دیگر سرکاری وفاداروں پہ بازی لے گئے اور کیچ کے کروڑ پتی مڈل کلاس کو بھی پاکستانی تاریخ میں وفاداروں کی لسٹ میں اپنا نام آفیشل طور پر رقم کرنے کا نادر موقع ملا اور اس نے بھی اس وفاداری کو لبیک کے ساتھ قبول کیا وہ الگ داستان ہے کہ یہ واحد وفادار ہے جسکی وفا کا رسہ کئی سروں پر مشتمل ہے اور کھینچنے والے کئی۔۔مقبوضہ بلوچستان میں سیاسی ڈرامے اور وفاداری کا مستقل تاج پہننے کے ڈرامے زورشور کے ساتھ جاری ہیں۔مینگل صاحب کا الیکشن کے بعد دبئی روانگی اور پھر اس طرح واپس آکے عہد ووفا کے پاکستانی سوگند کوئی عام بات نہیں انکے قبائلی اور روایاتی حریف جنہوں نے مشرف دور سے تاحال ریاستی خفیہ اداروں،فوج کی سربراہی میں کئی ڈیتھ اسکواڈ بنائے اور بلوچ فرزندوں کو انکی زمین پر لہولہان کر دیا۔اب اختر مینگل کی پاکستانی کرسی پر تشریف آوری اس سے پہلے دونوں حریفوں کا وڈھ میں طاقت کے مظاہرے کی جھلکیاں دراصل خود سوالیہ نشان ہیں۔کچھ یوں لگتا ہے کہ یہ سب دونوں سرکاری وفاداروں کو آپس میں ملاپ کا ڈراپ سین تھا جس کے بعد اختر کو حلف برداری کرنی تھی۔مینگل صاحب کی دو طرفہ پالسیاں اسکی حکمت عملیوں کا حصہ ہیں وہ بیک وقت خود کو تھوڑا بہت عوام میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں مگر سردار صاحب بھول گئے کہ اب وہ دور نہیں رہا۔انقلاب نے شہیدوں کی لہو نے آج بلوچ قوم کو باشعور بنادیا ہے اس پر آشوب دور میں پاکستانی جھولی تھامنے کی ان کی عادتیں و عہدو وفا سمجھ سے باہر ہے ۔دوسری جانب شفیق مینگل کی پر اسرار گمشدگی پہ کئی تجزیہ ہورہے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ اختر مینگل کو کچھ عرصہ کے لیے پاکستانی ایجنسیاں مالک کے ساتھ ملا کر کسی اور حکمت عملی کے تحت بلوچ جہد کو کاؤنٹر کرنے اور دنیا کو باور کرانے کے لیے کہ یہ بلوچ قوم کے نمائندئے ہیں اور بلوچ مزاحمتی یا آزادی کی جدوجہد چند افراد پر مشتمل ہے۔(چند افراد کا ذکر خود ریاست کے خاندانی وفادار حاصل بزنجو نے ایک ٹی وی شو میں بھی کیا) کچھ کا خیال ہے کہ اختر مینگل سے چونکہ شفیق مینگل کے علاقائی سرداری و طاقت کا مسئلہ ہے اس لیے اس نے اختر کے زیر دست کام کرنے سے انکار کیا اور پاکستان نے اسے اپنے جی ایچ کیو میں وقتی نظر بند رکھا ہے تاکہ اختر مینگل کو مکمل اختیار و طاقت دی جائے کہ وہ کس حد تک کروڑپتی مڈل کلاس کے ساتھ مل کر پاکستانی قبضہ کو بلوچ سرزمین پر برقرار رکھنے کے لیے ہنر کھاتے ہیں ۔کچھ کا یہ بھی خیال ہے کہ شفیق مینگل کو اسی دوران جب ملٹری و اختر اور انکے درمیان یہ تمام معاہدے ہو رہے تھے کوئی خطرناک بیماری لاحق ہو گئی ہے۔لیکن یقینی طور پر اس وقت کچھ کہناقیاس آرائی ہوگی مگر یہ یقینی ہے کہ اختر مینگل کی ریاستی کرسی پر تشریف آوری و پاکستانی سرکار کی بلوچ جہد کو داخلی و عالمی سطح پرکاؤنٹر کرنے کی نئی پالسیاں اس گمشدگی یا زیر زمین ہونے کے پیچھے ضرور کارمرز ہیں۔
اگست کے آخر اور ستمبر کے ابتدا میں بی این ایف کے سیکریٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے اپنے ہم منصب بان کی مون کو خط لکھا جس میں جنگی جرائم،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مرتکب پاکستان کے خلاف عالمی قوا نین کے تحت کاروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ڈاکٹر منان صاحب کی خط سے ایک اضافہ ضرور ہوگا کہ بان کی مون و امریکہ کو مقبوضہ بلوچستان میں آزادی پسند سیاسی فرنٹ کی سیاسی جہد سے آگاہی کے علاوہ آنے والے وقتوں میں اپنی پالسیوں کو مرتب کرنے میں سیاسی فرنٹ کی موجودگی و اہمیت کار آمد ثابت ہوگی بشرطیکہ یہ سلسلہ مستقل مزاجی کے ساتھ جاری رہے۔انقلابی جدوجہد میں قومی آگاہی و تربیت انقلاب کا بنیادی جز ہے اسی طرح جدید دور میں اس کیسخت ضرورت ہوتی ہے کہ آپ اپنی جہد و قابض کی بربریت کو دنیا کے سامنے کتنا اُجاگر کر سکتے ہیں جس کے لیے خالص انقلابی اداروں کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔اس جدید دور میں جہاں ہم ایک ایسے خطے میں اپنی وجود رکھتے ہیں جو آج بھی ترقی و دنیا کی دوڑ سے کوسوں دور ہے،اور اس میں بلوچ سرزمین پر آباد بلوچ تو آج بھی بابا آدم کے زمانے سے شاید چند سال آگے سرایت گر گئی ہے ۔ایسے میں اپنی قوم کو آگاہی سے زیادہ مشکل کام بیرونی اقوام ممالک کو اپنی محکومی و آزادی کے بارے میں دستاویزی و سائنسی آگاہی کے ساتھ دشمن ریاست کی ظلم و جبر کا بھی آئینہ دکھانا بے انتہا ئی ضروری ہے۔اب فرنٹ و دیگر جماعتیں یا افراد اسے کیسے نبھاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ایک بات صاف ہے کہ دنیا کو آگاہی و انکی توجہ مبذول کرانے کے لیے اتحاد و یکجہتی کے بغیر فارن میں یہ کام اپنی ڈیڑھ انچ کی مساجدیں بنانے سے کسی بھی صورت ممکن نہیں۔لاپتہ افراد کے عالمی دن کے موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افرادکے اہلخانہ نے مظاہرہ کیا۔لواحقین نے بینرز اور اپنے عزیز و اقارب کی تصاویریں اُٹھا رکھی تھیں اس طرح کے مظاہرے جو عالمی دن کے مناسبت سے ہوتے ہیں اس وقت کوئی اثر یا توجہ اپنی جانب متوجہ کرا سکتے ہیں جب مشترکہ پلیٹ فارم اور یکجہتی کے ساتھ ہوں اور مقام کا تعین بھی ہو۔۔مگر ایک جانب انقلاب کی باتیں تو دوسری جانب اداروں و تنظیموں کے وجود سے انکاری افراد اور پھر اپنی ڈیڑھ انچ سے کم کی دیواریں۔۔کونسی انقلاب اور لینن و مارکس کی پیرو کاری ہے۔۔۔بہرحال کاروان آزادی کا سفر تو جاری رہے گا مگر باہمی یکجہتی انتہائی اہم ہے۔تاریخ کے اوراق میں خود کو مورخ کی قلم کے نوک سے نکلے سیاہی میں سرخ رو کرنا اور مورخ کی قلم سے سرخ رو ہونا شاید کسی بھی انقلاب کے دعویدار کے لیے ایک مشکل نہ سہی مگر محتاط عمل ہو گا۔آج اپنی آواز کو بلند و اس میں اثر پیدا کرنے کے لیے اب ان ڈیڑھ انچ کی دیواروں و انا و اسی انا کے چکر میں آئے روز نئی دیواریں کھڑی کرنے کاوقت نہیں بلکہ ان دیواروں کو مسخ کرنا پڑھے گا ایک قومی جہد کے لیے،ایک آزاد وطن کے لیے اور کامیاب انقلاب کے لیے۔۔۔۔
دشت سے مند آتے ہوئے پاکستانی فورسز نے روز مرہ کی ایک لوکل سواری کی گاڑی پر راکٹ داغہ اور فائرنگ کی جس سے گاڑی میں سوار تمام افراد زخمی ہوئے جبکہ بلوچی زبان کے شاعر شبیرمعصوم بلوچ اور انکی والدہ اور کزن خان محمد اسی وقت خالق حقیقی سے جا ملے اور اپنی زمین پر غیر فوج کی بربریت کا نشان بن کر شہید ہوگئے۔پاکستانی فوج کے حملے میں گاڑی میں سوار خواتین و بچے بھی شدید زخمی ہوئے جبکہ ایک ۶ سالہ بچہ عمران بلوچ اگلے روز مادریں سرزمین میں اپنی خوشبو کو آنے والی نسلوں کے لیے مدہم کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔اُس شہید بوڑھی ماں کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی زمین پر غلام تھا اور شاعر شبیر بلوچ کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی شاعری سے سرزمین کو خود محسوس کرتا اور دوسروں کو اسکی خوشبو سے لطف اندوز کراتا تھا۔نوجوان خان محمد کا قصور یہ تھا کہ وہ غلام تھا ۔آج ریاستی فورسز و اسکے نام نہاد مالک و دیگر کا بلوچ کی لہو کو اس بے دردی سے بہانا قومی غلامی کا نتیجہ ہے ۔۔۔ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہا ں دم تھا۔۔۔۔۶ سالہ معصوم عمران جان کا جرم و قصور یہ تھا کہ وہ اپنی اس سرزمین پر زندگی کی ابتدا کر بیٹھا تھا جو غیروں کے قبضے میں ہے۔اگر ہماری پچھلی نسل و آب و اجداد آزادی کے اس جہد کو صحیح معنوں میں پروان چھڑاتے تو آج عمران جان جیسے ہزاروں بچے دشمن ریاست کی بربریت و وحشت کا شکار نہ بنتے۔۔۔جب سنگر پبلی کیشنز نے دوسری ایڈیشن اور (شہیدانی تاک ۱ ) پر کام شروع کیا تو شہید ماسٹر یحییٰ بلوچ کے گھر والوں سے ادارہ سنگر کے سب ایڈیٹر شاری بلوچ نے پوچھا کہ شہید ماسٹر کی کوئی خاص بات یاد ہے تو بانک نے کہا ہاں’’وہ انقلاب کا شروعاتی دور تھا اور ہمارے لیے بھی سب نیا تھا میں نے ایک دن غصہ سے پوچھا کہ تمھارے اس آزادی و جنگ کے چکر میں بچوں کو کون پالے گا۔۔تو شہید نے فرمایا’’ آج میں اپنے آب و اجداد کی وجہ سے غلام ہوں اگر میرے بزرگوں نے اس جنگ کا آغاز کیا ہوتا تو آج صورت حال کچھ اور ہوتی۔۔اور میں نہیں چاہتا کہ اس پیٹ کے چکر میں کل میری اولاد میرے بارے میں یہی کہے کہ دیکھو باپ نے جہد نہیں کیا اور ہماری غلامی کا سبب خود ہمارا باپ ہے اور آج میری جہد زیادہ نہ سہی ایک قدم تو اس سلسلے کو آگے بڑھائے گا یہی میرا اثاثہ ہے اپنے اور قوم کے بچوں کے لیے‘‘ شہید ماسٹر کے تاریخی الفاظ اگر 1948 سے جہد آزادی مسلسل اپنی انقلابی سلسلے کو برقرار رکھتی اور ہمارے بزرگ اپنا کردار ادا کرتے تو آج عمران جان اس طرح ریاستی لانچر کا شکار ایک ماں کے ساتھ نہیں ہوتا۔۔۔بلوچ چائے جہد کار ہویا عام بلوچ وہ ہے غلام اور پوری قوم کا قصور یہی ہے کہ وہ غلام ہے اور اگر غلام نہ جاگا اور اسے احساس نہیں ہوا کہ وہ غلام ہے تو اسی طرح نت نئے طریقے سے موت یقینی ہے اور اگر احسا س غلامی میں شہادت کا عظیم رتبہ پھائے تو یہی احساس غلامی ہی آزادی کی شمعیں جلائے گی۔ اُسی روز لیاقت بلوچ بھی ریاستی آمر کا شکارکر ہو کر شہید ہوئے۔
ستمبر کے مہینے کا آغاز بھی ریاستی فورسز نے بمباری سے کیا ۔مند کے درمیانی پہاڑی علاقوں میں دو روز تک پاکستانی جنگی ہیلی کاپٹروں نے جی بھر کر بارود کی بارش کی کئی مال مویشی ہلاک اور کئی بلوچ مال داروں کے گھروں کو فضائی بمباری سے تباہ کیا گیا۔قابض ریاستی فوج کے ترجمان نے میڈیا کو کہا کہ بلوچ سرمچاروں پر حملہ کرکے درجن سے اوپر سرمچاروں کو ہلاک کیا ہے مگر بی ایل ایف کے ترجمان گہرام بلوچ نے میڈیا میں فوج کے اس بیان کو انکی شکست خوردہ فوج کی حوصلوں کو بڑھانے کا حربہ قرار دیا اور انھوں نے کہا کہ ریاستی فورسز کے فضائی حملوں کا بھرپور جواب دیا گیا ہے جس سے انکے دو ہیلی کاپٹروں کو نشانہ بنا کر جزوی نقصان پہنچایا گیا۔
ناروے میں موجود سابقہ نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما کچکول ایڈوکیٹ نے بی این ایم میں شمولیت کا اعلان کیا ۔کچکول علی ایڈووکیٹ کی انقلابی کاروان میں شمولیت سے یقیناًنیشنل پارٹی کو دھچکا لگا ہے۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ پرانے کامریڈ نئی خون اور جذبہ آزادی سے بھر پور نوجوانوں میں خود کو کیسے ڈال پھاتے ہیں اور خود میں وہ جوش و ولولہ لا سکیں گے کہ نہیں۔۔یہ تو وقت ہی بتا سکتا ہے۔۔مگر ایڈووکیٹ صاحب کی قومی جہد آزادی میں شمولیت ایک اہم عمل ہے۔ اس لیے کہ علی صاحب سابقہ پاکستانی پارلیمنٹ کے منجھے ہوئے کھلاڑی اور موجودہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے سرغنہ مالک صاحب کے دست راست این پی کے اہم رہنما رہ چکے ہیں اس لیے چہ میگوئیوں میں اضافہ ضرور ہوا ہے ۔اب وقت اور حالات یہ فیصلہ کریں گے کہ واقعی ایڈوکیٹ صاحب جذبہ وطنیت کی گرمائش و محکومی کو محسوس کرتے ہوئے کاروان آزادی کا حصہ بنے ہیں یا مجبوری و وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لیے۔۔۔۔ بہر کیف انکی ایک آزادی پسند سیاسی تنظیم میں شمولیت خوش آہن ہے اس لیے کہ کمزور دشمن اس وقت طاقت ور ہوتا ہے جب اپنے لوگ اپنی قوم کے افراد اسکی مدد یا غلامی کو خود تسلیم کریں اور پھر اس کی مددگار بنیں۔ایڈوکیٹ صاحب اپنے زمانے کے اہم و خاص لیڈر مانے جاتے تھے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ دشمن کی چالوں سے واقف کچکول علی قابض ریاست کے لیے کتنے خطرناک انقلابی ثابت ہوتے ہیں۔
کیچ کے قریب دشت میں فوج کے ساتھ جھڑپ میں نوجوان سرمچار ذکریا بلوچ اور احمد جان شہید ہوئے اور مشکے میں سرمچار فاضل امین بھی فورسز کے ساتھ جھڑ پ میں شہید ہوئے دونوں مقامات پہ فورسز کے درجنوں اہلکار ہلاک ہوئے جبکہ مشکے میں شہید فاضل امین کی لاش کو بھی فورسز اپنے ساتھ اٹھا کر لے گئے اور پھر کچھ روز بعد شہید کی لاش کو مسخ کر کے پھینکا گیا۔بی ایل ایف کے ترجمان نے سرمچاروں کی شہادت کو سرخ سلام پیش کیا اور جہد آزادی میں شہیدوں کی خدمات و گراں قدر قربانیوں و بہادریوں کو تاریخ کا اہم اثاثہ قرار دیا۔
بی ایس او آزاد نے کولواہ میں عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا۔جلسہ میں بی ایس او آزاد کے چےئرمین،وائس چےئرپرسن سمیت بی این ایم کے رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔عوامی جوش و ولولہ کا یہ سلسلہ اور ان سنگین حالات میں عوام کو جوش و جزبہ کے ساتھ یکجا کرنا دشمن کی خوف کو کاؤنٹر کرنے کا بہترین عمل ہے ۔جہاں پاکستانی فورسز اپنی پوری قوت و ظلم و جبر کے ساتھ یہ سمجھ رہا ہے کہ وہ بلوچ قوم کو خوف زدہ کریں گے اور ایسے حالات میں طلباء تنظیم کی آگاہی و عوامی رابطہ مہم اور انقلابی ماحول کو اس طرح برقرار رکھنا۔۔نوجوانوں کی ہمت و انقلاب کی نوید ہے جو سلام کے مستحق ہے۔
ڈیرہ اللہ یار سے دو مسخ لاشیں برآمد ایک کی شناخت لاپتہ بہار مرید بگٹی سے ہوئی جبکہ دوسرے کی شناخت کچھ روز بعد ہوئی جو لاپتہ ظفر سمالانی کی جسد خاکی تھی جنکو اگست کے شروعات میں گھر سے ایف سی نے اغوا کیا تھا۔
ستمبر کے مہینے کے دوسرے ہفتے میں بی این ایم کے مرکزی چےئرمین خلیل بلوچ کے والد محترم عبدالسلام بلوچ خالق حقیقی سے جا ملے جو کچھ مدت سے بیمار تھے۔ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں پنجگور کے مقامی قبرستان میں انکو سپرد خاک کیا گیا۔سنگر پبلی کیشنز کو چےئرمین خلیل بلوچ کے والد کی ناگہانی وفات پر رنج و غم ہے ۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
پنجگو تسپ میں عبدالحکیم بلوچ کے گھر میں فورسز و خفیہ اداروں نے ہلہ بھول کر خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ۔چندوں و امداد پر قائم فوج نے گھر کے تمام قیمتی سامان لوٹ لیے اور گھر میں موجود طفیل بلوچ،سلام بلوچ ،مراد بلوچ اور حمل بلوچ کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے۔جبکہ مستونگ دشت میں ایک ہی خاندان کے ۶ افراد کو اس وقت فوج نے اغوا کیا جب وہ اہلخانہ کے ساتھ کوئٹہ علاج کے لیے جا رہے تھے،حسب توقوع فوج نے خواتین کو بے ننگ و تشدد کا نشانہ بنایا اور۔ظہور بنگلزئی،عبدالمالک،محمد،فتح محمد،شیر محمد، محمد صالح بنگلزئی کو فورسز تشدد کرتے ہوئے ساتھ لے گئے جو تا حال لاپتہ ہیں۔
ڈاکٹر مالک نے فوج کے سامنے اپنی وفا اور بلوچ نسل کشی میں نئی حکمت عملیوں کے تحت جنرل کیانی کو شیڈول کے پہلے دورے کے لیے ڈیرہ بگٹی کا انعقاد کیا اور مالک صاحب جوں ہی جنرل کے ساتھ ڈیرہ بگٹی سوئی کی زمین پر لینڈ ہوئے اور نیم چھاونی پونچھے تو سرمچاروں نے راکٹوں کی بارش شروع کردی۔پاکستانی فورسز نے اپنے جنرل اور وفادار وزیراعلیٰ کی حفاظت کے لیے ہیلی کاپٹروں و فضائیہ کا بھر پور استعمال کیا مگر جزبہ حق سے سرشار سرمچاروں نے ریاستی فورسز کا ڈھٹ کر مقابلہ اور کیانی و مالک نے اپنی طے شدہ پروگرام کو کو ادھورا چھوڑ کر بھاگنے میں ہی پاکستانی بقا سمجھی اور جان بخشی بھی۔۔۔اپنی فوج کی ناکامی کا بدلہ پاکستانی فوج نے اگلے چند دنوں تک ڈیرہ بگٹی میں مقامی آبادیوں کو نشانہ بنا کر کیا اور کئی افرادکو اغوا کرکے لے گئے۔جبکہ علی خان اور گزو بگٹی کو شہید کیا گیا۔
پاکستانی نئے وزیر اعظم نے اے پی سی(آل پارٹیز کانفرنس) کا انعقاد کیا جس میں طالبان سے بات چیت ایجنڈہ اہم موضوع تھا جبکہ بلوچستان پر فوج کشی کے سابقہ شیڈول کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا،بعد میں کسی ٹی وی ٹاک شو میں حاصل بزنجو نے اسی حوالے سے کہا کہ ہمارے پاس صرف بی ایل اے سے بات چیت و مزاکرات کا اختیار ہے جب کہ دیگر کے خلاف طاقت استعمال کی جائے گی۔اب یہ الفاظ نہ ہضم ہوئے نہ سمجھ میں آئے۔۔چونکہ بلوچ سرزمین پر موجود تمام مزاحمتی تنظیموں کا بنیادی اور مین مقصد بلوچ سرزمین کی آزادی ہے پھر حاصل بزنجو کا یہ بیان کیا بلوچ مزاحمتی تنظیموں میں سوشل میڈیا میں جاری اس تفریق کا حصہ نہیں جس کے تحت ایک انتشاری سوچھ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ شاید یہ اندازہ غلط ہو مگر کچھ تو ہے ۔۔۔۔اے پی سی میں قیمت کی بڑوتی کے لیے اختر مینگل جو ہمیشہ موقعہ کی تلاش میں ہوتے ہیں اس بار بھی خوب باتیں کیں اور نواز شریف و جرنلوں کی توجہ حاصل کرنے کی اپنی سی سہحی کی۔۔اس کانفرنس کا ایک اور مقصد بھی کہ دنیا کو شو کر نے کے لیے کہ مڈل کلاس سے لے کر سردار تمام میرے ساتھ ہیں۔۔۔جیسے مشرف نے کہا ۳ سردار ایک کو شہید کیا،ایک اے پی سی میں شامل ہو گیا۔۔۔اور ایک مرد آہن جو انقلاب کی نوید ہے۔جو سراپا انقلاب ہے یہ بلوچ کا ایمان ہے کہ اسے موت بھی شکست نہیں دے سکتی چونکہ وہ خود انقلاب ہے۔۔۔اب نواز شریف اور فوج نے جو ایک مہم شروع کیا ہے جس ٹیم کے لیڈر بزنجو و مالک ،نائب کپتان زہری اور ریزو کھلاڑی اختر مینگل ہیں دنیا کو باور کرانے کے لیے کہ تمام بلوچ سیاسی قوتیں انکے ساتھ آن بورڈ ہیں۔جس کا اظہار کچھ اس طرح بزنجو صاحب نے کیا کہ دو ہزار کے قریب تمام مسلح لوگ ہیں ۔اب یہ خود کی قیمت و کرسی کی تحفظ کا ایجنڈہ ہے یا پھر غالب والی،شعر
دل بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔۔۔۔آج بلوچ جہد آزادی کے جلسوں،مظاہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا اکٹھا ہونا اور آسمان کو آزادی کے فلگ شگاف نعرؤں کے ساتھ چیرنا ۔۔۔آزادی کا نعرہ بلند کرنے والوں کو اس بات کا بھی اچھی طرح ادارک ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کسی بھی وقت حملہ آور ہو کر انکی عزت،ننگ و جان ختم کرسکتی ہے۔ مگر انکی جذبہ قومیت،عشق سرزمین کی دیوانگی،علمی و شعوری انقلابی آگاہی نہتے ہاتھ بے خوف وطن پر نچاور ہونے کے لیے آزادی کا پرچم تھامے رہتے ہیں۔حاصل بزنجو،اختر مینگل و دیگر کا پاکستانی کیمپ میں بلوچ جہد کاروں کو چند افراد گردانا خام خیالی سے کم نہیں اور خیالی دنیا میں رہنے والی بات ہے۔ الیکشن سے پہلے جہاں حاصل بزنجو اقتدار کی کرسی کے لے راہ ہموار کر رہے تھے ایک ٹی وی شو میں کہا کہ ۷۴ میں بلوچ قومی تحریک ایک وجود رکھتی تھی اور آج تو کچھ بھی نہیں ہے اور اس وقت مستحکم تھی جب وہ ختم ہو سکتی ہے تو یہ چند افراد تو کچھ بھی نہیں ہیں۔۔۔۔اب ان الفاظ کا مقصد و مفہوم کسی بھی ذہی الشعور سے ڈھکے چپے نہیں۔ڈاکٹر مالک کی حکومت نے آتے ہی بلوچ نسل کشی میں تواتر کے ساتھ تیزی کے اقدامات اُٹھائے۔سرکار کے خاص جان محمد بلیدی جو ڈاکٹر مالک کے مشیر خاص اور زبان بھی۔کہتے ہیں کہ جب کوئی ہماری فوج کومارے گا تو جواب میں ہماری فوج بھی مارے گی پھر بلوچ بولتے ہیں آپریشن ہو رہا ہے۔۔۔واہ بلیدی صاحب نمک حلالی تو کوئی آپ سے سیکھے۔آپریشن و بلوچ فرزندوں کے اغوا کے سلسلے میں تیزی کے ساتھ اسی رفتار سے لاپتہ فرزندوں کی مسخ لاشیں بھی مل رہی ہیں تو دوسری جانب بلوچ قومی جہد کے خلاف پاکستان کے اندر ایک رائے کو ہموار کیا جا رہا ہے۔تاکہ بلوچ قوم کے خلاف بڑئے پیمانے پر آپریشن کیا جا سکے۔اندرونی طور پر اے پی سی کو لیں یا دیگر ٹاک شو میں انکے پالتو ریاستی افراد کے پروگرام ہوں جہاں چائے حاصل ہو،یا جان،یا زہری ہو یا اختر یا مالک تمام افراد ایک طرف بلوچ جہد آزادی کو چند افراد کا غصہ کہتے ہیں یا نا انصافی کا شاخسانہ۔۔۔ابھی تک کوئی اسے عوامی جہد آزادی کی جنگ ماننے کو تیار نہیں۔۔۔دوسری جانب جان محمد بلیدی ،حاصل بزنجو،زہری کہتے ہیں بندوق سے ختم کریں گے تو ایک طرف مالک کہتے ہیں لاپتہ افراد کی رہائی کے لیے کوشیشں جاری ہیں پھر لاشیں۔اور اختر مینگل بھی اسی طرح دو طرفہ پالسیوں پر گامزن۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کل ملا کر داخلی حوالے سے اپنی میڈیا و اسمبلی کے ذریعے بلوچ جہد سے انکاری پاکستان کے اندر دوسری اقوام کے سامنے جہد آزادی کو چند افراد،و ناراضگی ظاہر کرکے پوری فوجی طاقت کے استعمال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔تو دوسری طرف بیرونی ممالک جیسے کہ چین کا دورہ ہو یا باقی آنے والے سرکاری شیڈول دنیا کو بھی یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ پوری بلوچ سیاسی قوتیں ہمارے ساتھ ہیں ۔اب تو اختر مینگل بھی انکے ساتھ ہے اس لیے کوئی ایسی سیاسی مظبوط قوت و اتحاد نہیں ہے ،اس لیے دنیا پریشان نہ ہو ایسے ویسے کر کے ہم اس کو نمٹ لیں گے۔اور اسی پالیسی کے تحت حاصل بزنجو،ثناہ زہری واختر مینگل و دیگر کو اتحاد میں شامل کیا گیا ہے جبکہ عوامی کے ساتھ بھی انکے معاملے طے ہونے کی طرف جا رہے ہیں۔لفظ عام کوئی بھی اختلاف و حزب اختلاف نہیں۔پوری اسمبلی ۵۰ ووٹ والے پاکستانی ممبران ایک طرف صرف پاکستانی بقا اور اپنی نوابی ،سرداری،میری کو بچانے کے لیے اکٹھے ہیں۔۔۔جبکہ دوسری جانب بظاہر آج بھی ہم دست و گریبان ہیں۔پاکستانی اس سازش و آنے والی طوفان کا رخ بے شک قوم کر لے گی چونکہ انقلاب کا جوش،شہیدوں کا لہو اور مٹی کی محبت سمندری ریلے کی طرح کیچھڑ کو کنارے لگانے کے ساتھ ہر طوفان کو پچھاڑ دیتی ہے۔۔۔مگر بلوچ آزادی کے ایجنڈے میں متفق ساتھی کیوں اکٹھے ہونے سے ڈرتے ہیں بظاہر کوئی اختلاف نہیں تو کیوں یکجہتی نہیں ۔کیا انا اور ذاتی سرداری آڑئے آ رہی ہے،اگر نہیں تو کیوں دوریاں بڑھ رہی ہیں جس سے صرف دشمن ریاست کو شے مل رہی ہے۔۔۔۔
ریاستی جبر و ظلم پورے مہینے اپنی آباوتاب کے ساتھ زوروں پہ رہا ستمبر کے آخری دس روز میں سلسلہ تیزی کے ساتھ جاری رہا،سبی مچھ میں بلوچ سرمچاروں کی فورسز کی قافلے پہ کامیاب حملے کے بعد فوج نے حسب معمول عام آبادیوں کو نشانہ بنایا لوٹ مار کے بعد کئی افراد کو اغوا کر کے لے گئے۔دوسری جانب 21 ستمبر کی رات گوادر میں فوج،خفیہ اداروں اور پولیس نے درجنوں گھروں میں لوٹ مار کے بعد ۲۰ کے قریب نوجوانوں کو اغوا کیا گیا ۔
ڈیرہ بگٹی میں فورسز نے اٹو بگٹی اور انکے معصوم فرزند بچل بگٹی کو شہید کیا ۔شہادتوں کا سلسلہ ریاستی فورسز و اسکی خفیہ اداروں و ڈیتھ اسکواڈوں کے ذریعے تحریک کے آخری سورج کے گروب کے ساتھ تو رہیں گی اس لیے کہ قابض اپنی آخری سانس تک سونے جیسے بلوچ سرزمین پر اپنی قبضہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔
ڈاکٹر مالک کی سرکار جسے ایک خاص مقصد کے تحت ابھی تک اور قائم کیا گیا ہے۔ تاکہ پاکستانی ریاست جو آخری سانسیں مقبوضہ بلوچ زمین پر لے رہی ہے آکسیجن دی جا سکے اور اس قبضہ کو کسی طرح سے دوبارہ مستحکم کیا جاسکے اسکی کے غرض سے نہ صرف مالک کو لے کر دنیا کے سامنے مڈل کلاس و عوامی نمائندہ حکومت کا ڈھونگ رچایا جا رہا ہے بلکہ چین کے دورہ کے بعد متوقعہ گلف ممالک،ایران ،و روس کا بھی دورہ آمد پہ ہے تو دوسری جانب مذاکرات کے نام پر لندن بھی پہنچ گئے ۔ایک بار پھر مذاکرات کا شوشہ چھوڑ کر دل کو بہلانے والی باتیں۔بی آر پی و مہران بلوچ نے پاکستانی اس شوشہ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے آزادی کے ایجنڈے کے بغیر کسی بھی ایشو پر بات چیت کو شہداء کی لہو سے غداری قرار دیا۔جیسا کہ بلوچ قومی لیڈر روز اول سے کہہ رہے ہیں کہ بات چیت اقوام متحدہ،و دیگر ذمہ دار ممالک کی موجودگی و گارنٹی پر صرف بلوچ قومی آزادی پر ہونگے۔۔بظاہر ڈاکٹر مالک کو یہ شوشہ بھی مہنگا پڑا۔اب دیکھنا ہے کہ خود کو خان آف قلات اور آزاد بلوچستان کے بعد تخت برطانیہ کے طرز کی خود کی حیثیت کو قائم رکھنے کے خواہاں ڈاکٹر مالک سے ملاقات کرتے ہیں کہ نہیں ۔۔۔اگر کر بھی لیں تو اس سے نہ بلوچ قومی آزادی کو فرق پڑھے گا نہ بیچارے مالک کو کوئی فائدہ۔۔۔۔
بلوچ ری پبلکن پارٹی نے عالمی برادری کی توجہ بلوچستان میں ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں گمشدگیوں بلوچ نسل کشی ،ریاستی ظلم و جبر کی جانب مبذول کرانے لئے شعور و آگاہی مہم شروع کردی جسکے تحت یورپ ،ساؤتھ کوریا ،لندن،سوئٹز لینڈ میں پارٹی کارکنان و رہنماؤں کی جانب سے پملفیٹ اور کتابچے تقسیم کئے گئے جن میں بلوچستان میں سیاسی کارکنان کی ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں گمشدگیوں ،گولیوں سے چھلنی مسخ شدہ لاشوں ،سیاسی کارکنوں ،اساتذہ طلباء ،وکلاء ،دانشوروں کو ہدف بنا کر قتل کرنے بلوچ قومی معدنیات کی پاکستان و چائنہ کی جانب سے لوٹ کھسوٹ اور ریاستی ظلم و جبر انسانی حقوق کی پامالی کا تذکرہ کیا گیا ۔اس مہم کا مقصد عالمی برادری کو بلوچستان کی اصل صورتحال سے آگاہی فراہم کرنا تاکہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ،عالمی برادری ،مہذب ممالک بلوچستان میں قبضہ گیریت کے خاتمہ اور پاکستان کے خفیہ اداروں فورسز کی جانب سے بلوچوں کی نسل کشی رکوانے میں اپنا مؤثر و عملی کردار ادا کریں جبکہ 26 ستمبر کو بی آر پی کے قائد براہمدغ بگٹی کی جانب سے جنیوا میں میڈیا میں پریس کانفرنس بھی کی گئی اور مقبوضہ بلوچستان کی صورت حال و بلوچ قوم پر جاری پاکستانی بربریت کے بارے میں دنیا کو و میڈیا ذریعے آگاہ کیا گیا۔‬

Комментариев нет:

Отправить комментарий