Powered By Blogger

пятница, 10 октября 2014 г.

 تحریر نود بندگ بلوچ

      لشکرے بلوچستان اور اختر مینگل کی موقع پرستیاں اور ہماری نادانیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لشکرے بلوچستان ایک طویل عرصے سے منظر عام سے غائب تھا ، خاص طور پر خضدار وڈھ سے تو اس کے قدموں کے نشان تک مٹ چکے تھے لیکن گذشتہ دن شہید اسد مینگل کے برسی کے موقع پر لشکرِ بلوچستان نے کمال پھرتی سے خضدار ، وڈھ ، اورناچ اور مشکے میں جو راکٹوں کی برسات کردی وہ نا صرف حیران کن بلکہ پریشان کن بھی ہے۔ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لشکرے بلوچستان نے اسد مینگل اور احمد شاہ کو سرخ سلام بھی پیش کردیا ۔
ان حملوں سے کئ سوالات جنم لے رہے ہیں پہلی یہ کہ اگر مذکورہ علاقوں خاص طور پر خضدار وڈھ میں اگر لشکرے بلوچستان کاروائیاں کرنے کی سکت رکھتی ہے تو پھر اتنے وقت سے کر کیوں نہیں رہے ؟ دوسرا سوال میرے ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ طویل خاموشیوں کے بعد صرف اسد مینگل کے برسیوں پر ہی بڑی بڑی کاروائیاں ہی کیوں ہوتی ہیں اور پھر ان کاروئیوں کے بعد پھر سے طویل خاموشی کیوں ؟ کیا یہ گروہیت نہیں کے باقی شہیدوں کا خیر ہے لیکن سردار اختر مینگل اور جاوید مینگل کے بھائ کے شہادت کے دن تو دھوم مچانی ہے آخر مینگل تھا اوپر سے سردار بھی ؟
میں مصلحت پسندی کا مظاھرہ کئے بغیر کہوں گا کہ "لشکرے بلوچستان" کا مقصد نا قومی ہے اور نا ہی آزاد سرزمین ہے یہ صرف ایک پریشر گروپ ہے ۔ جو سردار اختر مینگل اور اس کے بھائ اور بھتیجوں کی ملی بھگت سے بنی ہے جس کا مقصد ایک طرف سے سرکار کو بلیک میل کرکے رکھنا ہے تاکہ اختر مینگل یہ کہہ سکے کہ " دیکھو اگر ہمیں مراعات سے نہیں نوازو گے تو پھر ہم بھی دوسروں کی طرح لڑیں گے " اور دوسری طرف سے اخترمینگل آزادی پسندوں سے منافقانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ اگر کل کو آزادی پسندوں کا پلڑا بھاری ہوا اور آزادی قریب دِکھنے لگی تو پھر یہ کہہ سکیں کہ " ہم تو شروع دن سے آزادی کیلئے لڑ رہے تھے دیکھو لشکرے بلوچستان ہمارا ہے " اور تیسری طرف لشکرے بلوچستان کے صورت میں سردار اختر مینگل کا قبائلی لشکر بھی تیار ہے جو وڈھ میں اسکے سرداری کی حفاظت آخر دم تک کرتا رہے گا۔ اس منافقانہ سیاست میں ناصرف اختر مینگل ملوث ہے بلکہ اس کا بھائ جاوید مینگل بھتیجیں نورالدین و بھاول بھی شامل ہیں۔
بلوچ سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ یہ " مینگل " طبقہ ہائے فکر ( مراد مینگل قبیلہ نہیں) شروع دن سے ہی موقع پرستانہ اور منافقانہ سیاست میں اپنی مثال آپ رہا ہے ۔ یہ " بزنجو " طبقہ ہائے فکر (مراد بزنجو قبیلہ نہیں) سے بھی زیادہ خطر ناک رہی ہے کیونکہ " بزنجو طبقہ فکر " کھلم کھلا ردِ انقلابی عوامل میں ملوث رہی ہے لیکن " مینگل طبقہ فکر " ایک منافقانہ انداز سے تحریکِ آزادی کے جڑیں دیمک کی طرح چاٹتے رہے ہیں ۔ چار راکٹ فائر کرنا ہو ، پہاڑوں پر جانا ہو ، یا اپنے کارکنوں کو موت کے منہ میں جھونک کر شہید کروانا ان کا ہمشہ مقصد "جی ایچ کیو" میں اپنا وزن بڑھانا اور اپنے سرداری کو مظبوط کرنا ہوتا ہے ۔ لاشوں پر سیاست تو انہیں گٹھی میں ملی ہے ۔ تازہ مثال ہی ان کا دیکھ لیں کے گذشتہ 4 سے 5 سالوں کے دوران ان کے 50 سے زائد کارکن شہید ہوئے اور کئ ہنوز لاپتہ ہیں لیکن انہوں نے ان قربانیوں کو آزادی کے بجائے تختِ وڈھ کیلئے قیمت کی صورت میں پاکستان کو دے دیا۔ اب بدلے میں سردار اختر مینگل کو ناصرف وڈھ کی سرداری مل گئ بلکہ شفیق کو لات مار کر سرکار نے اس کی نشست بھی جھالاوان و سراوان میں اختر مینگل کیلئے خالی کردی۔ اب بدلے میں اختر مینگل وہ کام کرے گا جو شفیق نہیں کرپایا تھا ۔ شفیق تو صرف آزادی پسندوں کو شہید کر رہا تھا جس کی وجہ سے تحریکِ آزادی رکنے کے بجائے مزید تیز ہورہی تھی لیکن اختر مینگل مذکورہ علاقوں میں اپنے منافقانہ سیاست سے لوگوں کو آزادی پسندوں سے دور اور سرکار سے نزدیک کرنے کی کوشش کرے گا اور ساتھ ساتھ سیاسی طور پر خود ارادیت ، خود مختاری حقوق جیسے دوغلے نعرے سرکار کی مدد سے مقبول کرکے خود کو ایک طرف سے " انٹی گورنمنٹ " بھی دکھاتا رہے گا اور دوسری طرف سے سیاسی کنفیوژن بھی پھیلائے گا ۔ یہ منافقت صرف بلوچستان میں بی این پی نہیں کرے گی بلکہ بیرونی ممالک میں نورالدین ، جاوید ، بھاول، نصیر دشتی ، قمبر مالک ، صمد بلوچ، منیر مینگل ، واحد بلوچ اور ثناء بلوچ وغیرہ بی این پی مینگل کے ذیلی جماعتوں BHRC اور BSYA تحریک کے حوالے سے کنفیوژن پھیلانے میں کوئ کثر نہیں چھوڑیں گے۔
میرے خیال میں قوم ان آستین کے سانپوں سے پہلے ہی بہت زیادہ نقصان اٹھا چکی ہے ، بلوچ قوم اور تمام آزادی پسند سیاسی جماعتیں ناصرف ان سے دور رہیں اور مکمل قطع تعلق کردیں بلکہ ہمارے سیاسی دانشور ان کے پروپگینڈہ کا مکمل "انٹی تھیسس" پیش کریں ۔ میں بیرونی ملک مقیم بلوچوں کو بھی اس حوالے سے خبردار کرنا چاہوں گا کہ BHRC اور BSYA بی این پی مینگل کی ہی ذیلی جماعتیں ہیں اور وہ BHRC اور BSYA سمیت واحد بلوچ امریکہ, منیر مینگل فرانس اور میجر مجید خلیج کا بائکاٹ کرکے انکو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے نا دیں ۔
دیکھا جائے تو ان کو مکمل تنہائ کا شکار کرنا ہی بلوچ قومی تحریک کیلئے سود مند ہے ، لیکن مجھے کچھ ایسے رجحانات دِکھ رہے ہیں جو کافی پریشان کن ہیں ۔ ان رجحانات پر میں پہلے بہت لکھ چکا ہوں ( جس کی وجہ سے سنگت حمل حیدر بلوچ مجھ سے کافی ناراض بھی ہیں ) لیکن میں آج ان پر تفصیلاً لکھنے کے بجائے انکو یہاں نقاط کے صورت میں ظاھر کرکے آپ کو دعوت دوں گا کہ آپ ان پر غور و فکر کریں ۔
1۔ قائد BLF اور اختر مینگل ٹیلی فونک رابطے
2۔ مشکےمیں بی ایل ایف اور میراللہ تعلقات
3۔ پیرس میں منیر مینگل(بی این پی ہمنوا ) اور
BNM کے CC ممبر بیچ اشتراکِ عمل
4۔لندن میں BSYA کے cc ممبرز کا بی ایس او آزاد
میں شمولیت۔
5۔لندن میں عالمی نمائندے BNM اور BHRC تعلقات
6۔امریکہ میں BNM کےCC اور واحد (بی این پی) کے تعلقات۔
آخر میں ایک بات کہوں گا کہ آج کل بہت سے دوستوں کی طرف سے اتحاد کی خواہشات کا اظہار دیکھ رہا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں بلوچ تحریک میں نفاق ڈالنے کی ایک سب سے بڑی وجہ بی این پی مینگل اور بی این پی مینگل کو چور دروازے سے تحریک میں جگہ دینے والے انقلابی رہبر ہی ہیں ۔ جب تک ہمارے انقلابی جماعتیں نا صرف کھلم کھلا بلکہ اندرونِ خانہ بی این پی مینگل سے قطع تعلق نہیں کرتے اتحاد صرف دیوانے کا خواب ہی رہے گا۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий