Powered By Blogger

среда, 22 октября 2014 г.

کریمہ بلوچ: پاکستان سے آزادی کی جہدکار 
تحریر : لارا سیکورن پیلیٹ
ترجمہ : لطیف بلیدی

کریمہ بلوچ دہشت گرد ہے یا انسانی حقوق کی ایک سرگرم کارکن۔ اس بات کا انحصار اس پر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں۔
اگر آپ ان سے پوچھیں، جیسا کہ اوزی نے پوچھا ہے، تو وہ آپ کو بتائیں گی: ’’ہم جدوجہد کے پرامن ذرائع پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘ لیکن پھر وہ مزید یہ کہہ کر معاملے کو الجھا دیتی ہیں: ’’جن لوگوں نے ریاستی افواج کیخلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں انکے پاس بھی ایک اچھا جواز موجود ہے۔‘‘
یہ منہنی سی مگر مضبوط ذہن کی مالک 28 سالہ خاتون پاکستان کی سب سے متنازعہ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کی رہنماء ہیں جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان، جوکہ ایک 60 سالہ قومپرست بغاوت کا مسکن ہے، کی آزادی کیلئے مہم چلا رہی ہے۔ حکومت نے ’’دہشت گردی کی حمایت‘‘ کرنے پر 2013 میں اس تنظیم پر پابندی لگا دی۔
کریمہ ان دنوں اس خطے میں سفر کیا کرتی ہیں اور احتجاج اور ریلیاں منظم کرتی ہیں۔ وہ اکثر کراچی پریس کلب کے سامنے لاپتہ کارکنوں کی تصاویر کیساتھ بیٹھی ہوئی دکھائی دیتی ہیں یا بی ایس او آزاد کا جھنڈا لہراتے اور آزادی کے نعروں والے پلے کارڈ تھامے سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے نظر آتی ہیں۔
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں کریمہ کو ایک خطرناک سیاسی کردار اور ملک کی سلامتی کیلئے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دریں اثناء، جنوب مغرب میں ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر، اندرون بلوچستان، وہ ایک مقامی ہیرو اور امید کی ایک چراغ راہ ہیں۔
بلوچ نسلی اقلیت، جسکی اپنی زبان، روایات اور ثقافت ہے، کئی بین الاقوامی سرحدوں کے پار پھیلی ہوئی ہے، یعنی ایران، پاکستان اور افغانستان تک۔ لگ بھگ جرمنی جتنا رقبہ ہونے کے باوجود یہ پاکستان کی آبادی کے صرف 5 فیصد کا مسکن ہے۔ اور جبکہ یہ خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ تیل، گیس اور معدنیات ۔ اسٹراٹیجک حوالے سے اہم ۔ اسکی تین سرحدیں ہیں، بحیرہ عرب میں 750 کلومیٹر طویل ساحل اور گوادر میں گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے ۔ اس کے لوگ پاکستان میں غریب ترین اور سب سے کم تعلیم یافتہ ہیں۔
کئی لحاظ سے، بلوچ عوام کی کہانی کی بازگشت جنوبی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ بھر میں سنائی دیتی ہے۔ خواہ ہم کردوں، پشتونوں، سنی یا شیعہ، نسلی اور مذہبی گروہوں کی بابت بات کریں، ان بڑے ممالک میں اقلیتیں پیدا ہوئی ہیں جو ملکی سرحدوں کے پار تک پھیلی ہوئی ہیں، جن کے سبب یہ ممالک علیحدگی پسند تحریکوں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ ایک ہی نسل کی دیگر عسکریت پسند گروہوں کی نسبت، اکثر علیحدگی پسندوں کو زیادہ پریشان کن سمجھا جاتا ہے اور یہ تنازعات ناقابل حل لگتی ہیں۔
’’پاکستان نے بلوچستان کو پہلے ہی سے کھو دیا ہے، لیکن یہ اسے جانے نہیں دے گا،‘‘ لندن کے اسکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے مرکز برائے مطالعہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے بُرزین واغمرکہتے ہیں۔ ’’اور سول سوسائٹی اس کو تبدیل کرنے کیلئے بہت کم ہی کچھ کر سکتی ہے۔‘‘
محارب بلوچ قومپرستوں نے 1947ء میں پاکستان کی پیدائش کے سال کے بعد ہی اپنی آزادی کیلئے جدوجہد شروع کی تھی، اس بغاوت کی قیادت بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروہوں نے کی ہے۔ کریمہ نے 2006 میں بی ایس او آزاد میں شمولیت اختیار کی جب اس وقت کے صدر پرویز مشرف پر بلوچستان کے دورہ کے دوران دو مرتبہ اقدام قتل کے بعد تشدد بڑھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے کالج میں اپنے ہم جماعتوں اور مختلف سیاسی گروہوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں یہ احساس ہوا کہ اس کو مؤثر بنانے کیلئے انہیں ایک منظم تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا۔ وہ اپنی شناخت کی حفاظت کرنے کیلئے اپنا چہرہ ڈھک کر رکھتی ہیں، اور ان کے حجاب کے اوپر صرف ان کی چیرتی ہوئی سبز آنکھیں دکھائی دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم پر پابندی عائد ہونے کے بعد سے ہمارے پاس زیر زمین جانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن قیادت واقعتا چھپ نہیں سکتی۔‘‘
ان سے رابطہ کرنا ایک چیلنج تھا اور شاید موزوں وجوہات کی بناء پر وہ تحریری سوالات بھیجنے پر مصر تھیں۔ بی ایس او آزاد کے بہت سے کارکنوں کو پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یا تو قید کیا ہے یا قتل۔ کریمہ کے پیشرو کو مبینہ طور پر مارچ میں اغواء کیا گیا، اور انہوں نے بتایا کہ ان گھر پر دو بار مارٹروں کے ساتھ گولہ باری کی گئی، البتہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔
یہ محض تازہ ترین تشدد ہے کہ جس نے انکی دنیا پر حملہ کیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے بلوچ کارکنوں کے اغواء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل، تشدد، نقل مکانی اور مظاہرین کے خلاف ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال کو رپورٹ کیا ہے۔ لاشیں اکثر سنسان جگہوں یا گلیوں میں پھینک دی جاتی ہیں، 2013 میں 116 لاشیں ملیں۔ جنوری 2014 میں بلوچستان میں خضدار کے علاقے سے تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، اور جبکہ بہت سی لاشیں زیادہ گل سڑ چکی تھیں جنکی شناخت نہیں ہوسکی، ایشیائی انسانی حقوق کمیشن نے ان لاشوں کو بلوچ علیحدگی پسندوں سے منسلک کیا ہے۔
حکومت کی طرف سے کریمہ کی تنظیم پر پاکستانیوں کیخلاف پرتشدد انتقامی کارروائیوں کی حمایت کا الزام لگایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تشدد کے استعمال سے اغماض یا اسکی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ بی ایس او آزاد کی بنیاد، بطور ایک سیکولر تنظیم کے، ایک معروف علیحدگی پسند جنگجو اللہ نذر بلوچ نے 2002 میں رکھی تھی، جو اس وقت بلوچستان لبریشن فرنٹ کی کمان کر رہے ہیں۔
بلوچستان میں ایک اخبار کے مدیر رہنے کے بعد امریکہ میں جلاوطن پاکستانی صحافی ملک سراج اکبر کے مطابق، ’’بی ایس او آزاد بلوچ نوجوانوں کے درمیان سب سے مقبول ترین تنظیم ہے، اور یہ واضح طور پر پاکستان کیخلاف مسلح مزاحمت کی حمایت کرتی ہے۔‘‘
امریکہ بلوچستان کی شورش کو دہشت گردی کے طور پر نہیں دیکھتا ہے، لیکن ان گروہوں پر متعدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے، جیسا کہ پشتون ’’آبادکاروں‘‘ کو ہدف بنانا، پشتون ڈاکٹر کبھی کبھار خوف کی وجہ سے بلوچ علاقوں میں جانے سے انکار کرتے ہیں، اور اسکے ساتھ ساتھ صحافیوں کو دھمکیاں دینا یا حتیٰ کہ قتل کرنا۔
شوہر یا بچوں کے بغیر، کریمہ نے اپنی زندگی بلوچ قومی مقصد کیلئے وقف کرنے کا انتخاب کیا ہے۔ ایک نوجوان عورت کی طرف سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کی قیادت والی شبیہہ خطے میں زیادہ عام ہوچکی ہے۔ کریمہ کا کہنا ہے کہ، ’’دس سال قبل صورتحال بالکل مختلف تھی۔ جب ہم (خواتین) سب سے پہلے مظاہروں کیلئے باہر سڑکوں پر آئے، یہ بہت عجیب لگ رہا تھا، لیکن اب ہر خاندان قومپرست تحریک میں سرگرم اپنی خواتین پر فخر کرتے ہیں۔‘‘
اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی باز گشت میں، یہ نوجوان کارکن خواتین کی تعلیم کو قومپرست کاز کو فروغ دینے کیلئے اہم سمجھتی ہیں۔ بی ایس او آزاد تربیتی گروہ منظم کرتا ہے اور کئی رسالے چھاپتا ہے۔ 53 فیصد کی قومی اوسط کے مقابلے میں بلوچستان کی 37 فیصد شرح خواندگی کی حوالے سے تعلیم نہایت ضروری ہے۔
دریں اثناء، کریمہ اوربی ایس او آزاد کو ایک اور دشمن کا سامنا ہے: اسلامی بنیاد پرستی۔ خطے میں داعش کی حمایت یافتہ گروہوں کی موجودگی اور نقل و حرکت بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے شیعہ اقلیت کے ارکان کو نشانہ بنانا شروع کیا اور اب ان خواتین کو دھمکانہ شروع کر دیا ہے جو تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں، یہاں تک کہ ان پر تیزاب کیساتھ حملے کیے گئے۔ ’’میرا خیال ہے کہ بڑھتی ہوئی مذہبی بنیاد پرستی ہمارے لئے، خاص طور پر خواتین کیلئے، سب سے بڑے سیاسی اور سماجی چیلنجوں میں سے ایک ہے‘‘، کریمہ کا کہنا ہے، جو یہ سمجھتی ہیں کہ قومپرستانہ رجحانات کا مقابلہ کرنے اور عورتوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے حکومت کی طرف سے اسلام پسندوں کی معاونت کی جارہی ہے۔
یا تو وہ دہشت گردی کی ایک خبطی حامی ہیں یا ایک جذباتی آزادی پسند، مگر ایک بات واضح ہے: ان تمام مشکلات کے باوجود کریمہ ایک خاتون سیاسی رہنما بن رہی ہیں۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий