Powered By Blogger

суббота, 11 октября 2014 г.


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات یہاں تک آں پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر:۔ میر یاسین بلوچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بہت ہی بھیانک تضاد ہورہاہے، قومی مڈی کا نام لے کے بلوچ تحریک کو نقصان دیا جارہا ہے، اس طرح کے بحث و مباحثے سے نقصان صرف قوم کا ہوگا، اتنے جانیں گنوا بیھٹے ہیں اتنے ابھی تک ریاست کے عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہیے ہیں تو صرف اپنی وطن کی آزادی کے لیے نہ کے کسی فرد کسی تنظیم یا کسی پارٹی کے لیے۔
قومی مڈی یعنی قوم کی دولت جسے قوم اپنی مرضی سے اپنے تنظیم یا پارٹیوں کو مدد کرنے لیے کسی بھی شکل میں دیتاہے، اور کیا قومی مڈی صرف ایک تنظیم کا ہے اگر وہ قومی مڈی ہے تو اس پہ صرف ایک کا حق نہیں بلکہ اُن تمام کے تمام کا حق ہے جو قوم کے مفاد کے لیے استعمال کریگا۔
اگر ایک باپ کے پانچ بچے ہوں تو والد کے وفات کے بعد اس جائیداد و دولت صرف ایک بیٹے کو نہیں بلکہ تمام بیٹوں کو ملے گا بلکل اسی طرح اگر اسے قومی مڈی کہتے ہوں تو اِس مڈی میں سب کا حق ہے، اور جس طرح بار بار چوری کا الفاظ استعمال کیا جارہا ہے بلکل ہی غلط بات ہے۔ کیا اس مڈی کو غلط جگہ استعمال کیا جارہا ہے یا مڈی بلوچوں کو نقصان دینے کے لیے استعمال ہورہاہے؟اگر آپ کے پاس بھی ہوتا تو آپ بھی اسے ویسے ہی استعمال کرتے جیسا کے آج اس مڈی کا استعمال ہورہاہے، مڈی قوم کا اور قومی مفاد میں ہی استعمال ہورہاہے باقی الزامات لگانا اپنی انا کا مسئلہ ہے۔
مگر ایسے عمل کو سوشل میڈیا کی ذینت بناکے ہم نے قوم کو مزید انتشار کی طرف دکھیلا ہیں اور مزید سے مزید قوم کو غلامی کی جانب جان بوچھ کر دکھیل رہیے ہیں ہم اپنی انا کی ضد میں قوم کو نقصان پہنچارہئے ہیں اگر کچھ بھی مسئلے ہیں تو اُسے سوشل میڈیا میں لانے کی ضرورت کیا ہے ایسے مسئلے گفت وشنید سے بھی حل کیئے جاسکتے ہیں کیا ہم اس بات سے بے خبر ہیں کے سوشل میڈیا میں تمام کے تمام بلوچ نہیں بلکہ زیادہ تعداد میں ریاست کے لوگ اور اس کی خفیہ ادارے بھی شامل ہیں جو ہماری ہر بات ہر عمل پہ نظر رکھے ہوئے ہیں۔ سب جاننے کے باوجود ہم نے خود کو انجان کیا ہوا ہیں، ہماری آجکل کی حکمت عملی قوم کو مزید نقصان دے رہا ہیں اور اس کا تخمیہ بھی قوم کو اُٹھانا پڑیگا، ہم نے جو آج قومی مڈی کا شوشہ چھوڑا ہیں کیا واقع وہ قومی مڈی ہی تھی اگر ہاں تو قومی مڈی میں سب کا حق ہیں آپ ایک جانب ہوکے کسی کو بھی چور نہیں کہہ سکتے قوم نے پیسے دیے ہیں اُس مڈی کے لیے تو اُس مڈی سے قومی کام ہی ہورہاہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہیں کہ سرمچاروں نے سرمچاروں کو مارنے کے لیے بارودی سُرنگ بچائے ہیں خدا کا کچھ تو خوف کرے بلا بارودی سُرنگ آپ کے خلاف کیوں بچائنگے آپ بھی قومی آزادی کے لیے جدوجہد کررئیے ہوں اور وہ بھی جب کے اُس کا دشمن آپ نہیں تو آپ کو کیونکر کوئی مارنا چائیگا البتہ کافی وقتوں سے آپ کی طرف سے تنقید سُننے کو ملا ہیں، کیا ہم بلکل ہی بھول گئے ہے کہ ہمارا مقصد آزادی ہے نہ کے آپس میں دست و گریبان ہونا ہے، جو ریاست چاہا رہا ہے ویسا ہی ہورہا ہے یا ہم خود ویسا ہی کررئیے ہے، ہمارے اس طرح کے آپسی تضاد سے سنگین نتائج برآمد ہونگے، ہم سب کچھ جانتے ہیں سمجھتے ہیں مگر پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے، تاریخ گواہ ہے بلوچ کو ہمیشہ بلوچوں نے ہی نقصان دیا ہے، بلوچوں کو غیر کی جانب سے کبھی اتنا نقصان نہیں ملا جتنا کہ بلوچوں سے ملا ہے۔
اگر ہم چاکر اور گواہرام کی زندگی کے بارے میں پڑھیں تو بلوچ تاریخ میں یہ دو طاقتور ترین لوگ تھے مگر انہوں نے بیشتر بلوچوں کو آپسی جنگ میں مروایا تھا انہو ں نے آپس میں بیشتر جنگیں لڑی بہ نسبت دوسروں کے، اور آج کے دور کا تبصرہ کرے تو ہم بلکل ہی ماضی کے کہانیوں کو دہرا رئیے ہے آج پھر دو طاقتیں آمنے سامنے آرئیے ہے القابات اور الزامات لگائے جارئیے ہیں یہاں تک کہ قتل کرنے کے بھی الزامات لگائے جارئیے ہے، کیا تاریخ پھر سے خود کو دُہرارئی ہے کیا پھر سے چاکر و گواہرام کا قصہ بیان ہونے والا ہے کیا آج ایک مرتبہ پھر دو طاقتیں آمنے سامنے جنگ کرنے والے ہے یکطرفہ بیان بازی سے تو یہی لگ رہا ہے مگر اللہ نہ کرے کے ایسا ہوں، کیونکہ ماضی میں اگر دو طاقتیں لڑی ہے تو اُس کا نقصان بھی بلوچ قوم کو اُٹھانا پڑھا اور اگر آج ایسا ہوا تو اس کا نقصان بھی بلوچ قوم کو ہی ہوگا، مسئلے کے حل کی تلاش کرنا چائیے نہ کہ مسئلے کو مزید گھمبیر بنانا چائیے، سلجھنا سیکھنا ہوگا اُلجھ تو ہم پچھلے 67 سالوں سے رئیے ہیں اس مسئلے کا واحد حل بزرگوں بڑوں کی موجودگی اور گفت و شنیدگی سے ہے اس طرح سوشل میڈیا میں آکے ریاست کی زبان میں ہی الزامات القابات لگانے سے فائدہ دشمن کو ہی ہوگا اور دوریاں بھی مزید بڑی گی اگر بات قومی مفاد کی ہے تو قومی مفاد یہی ہے کہ ایسے مسئلوں کو سوشل میڈیا کی ذینت نہ بنایا جائے سوشل میڈیا میں کسی کی بھی پہچان ممکن نہیں جہاں دوست و دشمن کا پتہ نہ چلے وہاں بیان بازی سے نفرتوں میں اضافہ ہوگا، ہمارا مقصد ایک ہم سب بلوچستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کررئے ہے تو اس تحریک میں شامل لوگوں سے نفرت کیوں ناراضگی کیوں اور ریاست کو نفرت پھیلانے کا موقع کیوں دیا جارہا ہے مزید انتشار سے بچا جائے اور قومی مفاد کے بارے میں سوچا جائے قوم کی نگائیں آپ لوگوں پر ہے قوم کو مزید مایوس نہ کرے پہلے سے قوم آپ کی نااتفاقیوں کی وجہ سے مایوس ہے اب آپس میں دست و گریبان ہوکے قوم کو مزید مایوس نہ کرے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий