Powered By Blogger

понедельник, 9 апреля 2018 г.


خدا حافظ واجہ۔۔۔۔انور ساجدی

میرا بے رحم قلم زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ''گلو گیر ''نہیں ہوا،ہر بڑے واقعہ کو ہر سانحہ کو ہر شہادت کو اس نے پوری قوت کے ساتھ رقم کیا لیکن آج پہلا موقع ہے کہ یہ ڈگمگا رہا ہے عقل حیران ہے دل پریشان ہے اس لئے الفاظ اور قلم ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔
اس سانحہ کو اس عظیم شہادت کو رقم کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں اگر چہ یہ شہادتوں کے نہ رکنے والے سلسلہ کا تسلسل ہے لیکن میرا دل کہہ رہا ہے کہ شہادتیں کچھ الگ سی ہیں ان کی شان کچھ جدا ہے اور یہ تاریخ میں کچھ الگ انداز سے رقم کرنے کی متقاضی ہیں۔

رندوں کی سر زمین مند جس نے ایسا بیٹا جنا کہ وہ اس پر صدیوں تک نازاں رہے گا،حقیقت یہ ہے کہ چند سال قبل جب واجہ غلام محمد ہم سے بحث کرتا تھا ناراضگی کا اظہار کرتا تھا تو ہمیں یقین نہیں آتا تھا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر عمل کر کے دکھائے گا اور جو اس کا عزم ہے وہ کر گزرے گا،گذشتہ سال وہ مخصوص بلوچی''دزمال''(جو ایک ریشمی کپڑاہے اور جسے مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) میں پہنے کا زیادہ رواج ہے) پین کر تو میں نے اس کی وجہ پوچھی واجہ نے کہا کہ یہ کفن ہے اور اس میں خونی رنگ ہے وہ 3اپریل کو اسی کفن کے ساتھ اٹھائے گئے اور اسی کفن میں شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہو گئے اس کی مغفرت کی دعا اس لئے ٹھیک نہیں کہ شہید کی مغفرت پہلے سے ہو چکی ہوتی ہے۔
واجہ غلام محمد نے مکران کے خطے مین وطن دوستی جد و جہد اور تحریک کو ایک نیا اسلوب دیا وہ گذشتہ پانچ سالون میں کئی بار جیل گیا بار بار تشدد اور اذیتیں برداشت کیں لیکن ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ جس راستہ کا انتخاب اس نے کیا ہے اس میں یہ سب کچھ تو ہو گا۔خوشی کا مقام ہے کہ اس نے اپنا سر بلند رکھا جو کت تو گیا لیکن جھکا نہیں،دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس شان کا مظاہرہ کرتے ہیں غلام محمد نے ایک بہت کھٹن مگر شاندار سنت قائم کی ہے جس پر عمل کرنا ہر کسی کا کام نہیں۔
نواب شہباز اکبر نے جو روایت قائم کی غلامحمد نے نہ صرف اس کا تسلسل برقرار رکھا بلکہ اسے ایک نئی جہت عطاء کی،نواب نے ساحل و وسائل کا نعرہ لگا کر تراتانی کے پہاڑوں کو گلنار کر دیا لیکن غلام محمد کا سرخ لال خون بحرہ بلوچ کے پانیوں میں مل گیا جب تک یہ پانی ہیں جب تک بحرہ بلوچ سوکھ کر خشک نہیں ہو جاتا یہ لال خون اس کہ سطح پر تیرتا رہے گا،اس شہادت کی گواہی دیتا رہے گا،اتنا بہتر گواہی شاہد ہی کسی لیڈر کی قربانی کا ہو،واجہ کے ساتھ لالہ منیر نے جس ثابت قدمی جوانمردی اور بہادری کے ساتھ دیا اس کے لئے ''یار غار ''کا لقب درست ہوگا،لالہ منیر پنجگور کا ''عظیم سپوت''جس نے رخشان ڈیلٹا کو درخشندہ بنا کر اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا معلوم نہیں کہ منیر سے پہلے اس علاقہ کے کتنے لوگوں نے اپنی دھرتی پر خون نچھاور کیا لیکن یہ بات طے ہے کہ لالہ جیسی قربانی ایسی شہادت ایسی شان شائد کسی نے دکھائی ہو پنجگور کی خوبصورت وادیاں عظیم دریائے رخشان اس کے نخلستان اس کے مچھکدے اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لالہ منیر کے نام سے منسوب رہیں گے انہون نے دھرتی اور ''بلوچیت''کا حق ادا کر دیا۔
شیر محمد بلوچ تو تھا ہی شیر اس نے کئی سال قبل پہلے نواب اکبر خان کی جماعت میں شامل ہو کر اپنا راستہ جدا کرلیا شیر جان نے باقی
سارے ساتھیوں سے زیادہ جیل کاٹی لیکن اسے راستے سے نہ ہٹا سکے۔
شیر جان نے اپنے نام کی لاج رکھ لی اس نے ٹیپو سلطان کا یہ مقولہ سچ ثابت کر دکھایا کہ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈرکی سو سالہ زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔‘‘
آج تاریخ میں دکن کے غدار میر قاسم کو بہت بُرا سمجھا جاتا ہے اس کی وطن فروچی پر سارا ہندوستان لعنت بھجتا ہے لیکن ٹیپو کو اس کی قربانی کو اس کی شجاعت کو تاریخ کھبی فرا موش نہیں نہیں کر سکتی۔
میں بہت بوجھل دل کے ساتھ تینوں شہداء کو خدا حافظ کہتا ہوں لیکن تینوں شہداء ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہیں گے، ان کی قربانی روشنی کی مانندآنے والوں کی رہنمائی کرے گی۔ نواب اکبر خان،خالد،میر بالاچ اور اس کے بعد ان تین شہادتوں اور بے شمار شہادتوں کے بعد کہنے اور سننے کے لئے کیا رہ گیا ہے۔انہوں نے اپنی قوم کو ایک بہت بڑی آزمائش اور مشکل میں ڈال دیا ہے ان کے راستے پر چلنا جو سوئے دار کی طرف جاتا ہے ایک کھٹن کام ہے ان کی قربانی سے منہ موڑنا بے وفائی ہے یہ ایک مشکل صورتحال ہے ممکن ہے کہ وقت ان شہادتوں زخم مند مل کر دے یا یہ شہادتیں طوفان اور سونامی کی شکل اختیار کر لیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن جو لوگ تحریک کی قیادت کر رہے ہیں ان کے لئے غور و فکر کا مقام ہے کہ وہ کس طرح ایک بہتر اور کار گر حکمت عملی اپنا کر چلیں قومی تحریک میں شہادتیں اور قربانیاں کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی یہ دھرتی پر احسان ہے ان کا مسئلہ تو جاری رہے گالیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اتنی بھاری قیمت کے بدلے میں کیا کچھ ملے گا کیا سودے باقی گنجائش ہے، مفاہمت مصالحت درمیانی راستہ وغیرہ کی اصطلاح میں استعمال ہویے رہیں گی، غلام محمد بلوچ،شیر محمد بلوچ اور لالہ منیر کو جن لوگون نے اُٹھایا اور قتل کیا وہ کون تھے....؟
اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ ان کی نشامدہی مشکل ہے لیکن اس پر سوچا جانا چاہئے۔

(بشکریہ روزنامہ انتخاب کوئٹہ)
https://dailysangar.com/home/page/10464.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий