Powered By Blogger

воскресенье, 22 апреля 2018 г.


وہ قیامت کی گھڑی تھی ۔۔۔۔۔تحریر:۔صباء بلوچ

میری دولہا بھائیو ں کو سرخ سلام ۔
لوگوں کے لئے آج کا دن شایدمعمول کاایک دن ہے مگر میرے لئے یہ دن کا قیامت کی گھڑی ہے۔ آج ہی کے دن یعنی 21 اپریل 2015 کی رات 4 بجے کے وقت پاکستان کے ناپاک آرمی فورسزنے مشکے کے علاقے گورجگ میں ہمارے گھر پر اس وقت دھاوابولا جب ہمارے گھر میں میری بھائی اعجاز جان اور میری کزن شاہنواز جان اور باسط جان کی شادی اورشادی کی خوشیاں جاری تھیں۔

شہنوازجان کی شادی کا دوسرااورباسط جان کی شادی کا تیسرا دن تھا اوراعجازجان کے نکاح کی رات تھی ،پوراخاندان خوشی سے جھوم رہاتھا،اپنے بھائیوں کی شادی میں بہن خوشی سے نہال تھے ،ہمارے گھر میں پے درپے پاکستانی فوج کے حملوں اور دربدری سے ہم اکھٹے ہوکر خوشیاں منانے کے لئے ترس رہی تھیں کہ یہ موقع آیاکہ تین بھائی ایک ہی وقت میں دلہا بن چکے تھے۔ ہمیں قطعاََ یہ معلوم نہ تھی کہ خوشیوں کے یہ دن ہمارے قیامت بن جائیں گے اور ہم زندگی بھر اپنے دلہا بھائیوں کی شہادت کے آگ میں سینہ بریان ہوں گے ۔
رات کی آخری پہر جب دلہا عجلہ عروسی میں محو خواب تھے کہ فرعونی لشکر ٹوٹ پڑا ،اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو دیکھ کر ہم سب سہم گئے، فوجیوں نے سب سے پہلے دلہابھائیوں اور آفتاب جان کو گھسیٹ کرایک جگہ اکھٹاکیا ،اس کے بعد فوجی درندے دیگر رشتہ داروں اور بچوں کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے میری ماں نے چلا کر کہا’’ہمارا کیا قصور ہے ،ہم پر ایسی ظلم کیوں کررہی ہو؟‘‘
ایک آرمی والاجو شاید ان کا افسر تھااس کی آنکھوں سے جیسے انگارے برس رہے ہوں نے بڑھ کر میری ماں سے کہا’’آپ سب غدار ہیں، ملک توڑنا چاہتے ہیں‘‘۔
میری ماں اپنی بچوں کے ساتھ یہ ظلم دیکھ کرچپ ہونے کے بجائے اور بولتی رہی کہ’’ مجھے ماریں لیکن میرے بچوں کو چھوڑدیں،یہ دولہا ہیں،ان کے ہاتھوں کی مہندیاں دیکھیں ‘‘
بھائیوں کو ایسی درندوں کے ہاتھ میں دیکھ کر میں بھی ہوش و حواس کھوچکی تھی میں جوں ہی آگے بڑھی کہ بھائیوں کو بچالوں تو ایک فوجی نے بندوق کے بٹ اور لاتوں سے مجھے مارنا شروع کیا میں نے انہیں خدا کا واسطہ دیاکہ ’’کیا تم لوگوں کو خدانہیں ہے ، جو ہم پر اتنا ظلم کرہے ہو‘‘ تو ان کے آفیسر نے جواب دیا’’تم لوگوں کو مارناجہاد ہے،تم لوگ مسلمان نہیں ہو،‘‘۔
میں اس وقت اسلام اور جہاد کی تشریح سے قاصر تھی مگر یہ اندازہ ضرور ہوا کہ یہ آرمی والے کیسے اسلام کے پابند ہیں جس میں معصوم لوگوں کو مارنا ثواب سمجھا جاتاہے ۔
میں ،میری ماں گھرکے دوسرے خواتین اور بچوں کی چیخوں اور آہ و زاری سے قیامت کا منظر تھا ،ہم فوجیوں سے التجائیں کررہی تھیں ،انہیں خدا کا واسطہ دے رہی تھیں۔ شاید ہمیں اندازہ نہ تھا کہ مہندی کی رنگوں سے سجے ہمارے دلہا بھائی اپنی ہی لہوسے سجنے والے ہیں۔
ہماری فریادیں ان ظالموں کے دلوں کو موم نہ کرسکیں اور ہمارے دولہا بھائیوں کے ساتھ کئی رشتہ دار اور گاؤں کے دوسرے لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر ٹرکوں میں بھرکر لے گئے ۔میری بھائیوں اوردوسرے رشتہ داروں کو آرمی والوں نے اپنی قریبی کیمپ لے گے کیونکہ تحصیل مشکے میں 40 یا 50 چھوٹے اور بڑے کیمپ اور چوکیاں موجود ہے ،مشکئے میں ہرجانب فوج ہی فوج نظر آتاہے ،کسی کو آرمی اور کسی کو ایف سی کہاجاتاہے لیکن ہماری نظروں سے دیکھوتو سب قاتل ہیں ،سبھی کے ہاتھ معصوم بلوچوں کے ہاتھوں سے رنگین ہیں۔ہر کلو میٹر یا آدھا کلو میٹر پر ایک چوکی موجود ہے جن کاکام تشدد،قتل اور لوٹ مار ہے۔
میرے دولہا بھائیوکو دیگر بلوچ قیدیوں جیسا سالوں سال قید میں نہیں رکھا گیابلکہ اسی ایک رات میں ان پر اتنا تشدد کیاکہ وہ صبح تک سب کے سب شہید ہوگئے ۔
ہمیں مگرمعلوم نہ تھا ،ہم اپنے دلہا بھائیوں کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ واپس آئیں گے کہ مبارک باددینے کے لئے جمع ہونے والے رشتہ دار اور قرب و جوار کے لوگ انہیں مبارک باددیں گے ۔لیکن ہماری نصیب میں خوشی کے بجائے قیامت خیزدرداور رنج والم کاداستان تو لکھا جاچکاتھا بس ہمیں معلوم نہ تھا،شام پانچ بجے ہمیں ہمارے بھائی دولہا سے شہید دولہا بن گئے اور ان کی میتیں گھر لائی گئیں گھر کا وہ سماں میں قیامت تک نہیں بھولوں گی ۔میں نہیں جانتی کہ قیامت اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوگی۔ہم محشر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں ،ہمارے حواس ہمارے ساتھ نہیں تھیں۔ہمارے دولہابھائیوں پر ان درندوں نے ایسی تشدد کی تھی کہ جیسے انہیں درندوں نے نوچ لیاہواورحقیقت میں بھی انہیں درندوں نے نوچ لیا تھا ،یہ فوجی انسان نہیں ہیں درندے بلکہ درندے سے بدتر ہیں ۔
شام 5 بجے ہم تک ہمارے دولہا بھائیوں کی میتیں پہنچائی گئیں ہم نے اپنے بھائیوں اور میری ماں اور میری خالہ نے اپنے دولہا بچوں کی لاشوں کو دیکھا تو رات کو جن ہاتھوں پرمہندی تھا، ابھی پورے جسم لہولہاں تھا وہ کون سنگ دل ہوتا ہے جو یہ نظارہ برداشت کر سکے۔ یہ قیامت کے منظر کا دیکھ کر میری ماں اور خالہ سمیت گھر کے کئی لوگ بے ہوش ہوگئے ۔جب ماں اور خالہ ہوش میں آگئے اس وقت دولہاؤں کی آخری دیدارہورہاتھا،میری ماں اور خالہ نے اپنے شہیدوں کادیدار کیااور پھر بے ہوش ہو گئے۔ شہداء کو خاندان کے ارمانوں کے ساتھ دفن کردیاگیااور بعد میں اسلام کے پاسبان پاکستانی فوج نے بیان دیاکہ’’ آج دہشت گردوں نے ہم پہ حملہ کیا اور جوابی فائرنگ سے چار حملہ آور مارے گئے ہیں۔
پاکستان اورپاکستانی فوج کچھ بھی کہے لیکن ہماری نظروں کے سامنے بھائیوں کو درندوں نے اٹھاکر لے گئے اورایک ہی رات میں انہیں تشددکرکے شہید کیاگیاپورے گاؤں کو معلوم ہے کہ آرمی اور ایف سی والوں نے ہمارے گھر پر چھاپہ مارکرانہیں اٹھایاتھا۔یہ پاکستان کے آرمی کب تک جھوٹ بولتا رہتا ہے؟ ایک نہ ایک دن ضرور ان کا جھوٹ دنیا کے سامنے عیاں ہوگا اور انشااللہ ہوگا ۔آج 21اپریل 2018 میری دلہا بھائیوں کی شہادت کوتین سال مکمل ہوگیاہے لیکن میرے بھائیوں کا درد ہرے زخم کی طرح ترو تازہ ہے ،میری ماں اب بھی اپنے جوان بیٹوں کو یاد کرکے بے ہوش ہوجاتی ہیں ۔اپنوں کو کھونازندگی کا سب سے بڑی درد ہے لیکن میں جانتی ہوں کہ یہ صرف میری خاندان کا درد نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے ہر ماں اور بہن میری طرح ایسے ہی درد جھیل رہی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میرے دولہابھائیوں نے مادروطن کی آزادی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاہے ۔میرے بھائیوں نے آزادی کے لئے اپنا لہوبہایاہے جب پوری قوم انہیں خراج عقیدت پیش کرتاہے توہمیں احساس ہوتی ہے پوری قوم ہماری درد میں شریک ہے تویہ احساس ہماری حوصلوں کو اوربلند کردیتی ہےhttps://dailysangar.com/home/page/10671.html

Комментариев нет:

Отправить комментарий