Powered By Blogger

вторник, 10 марта 2015 г.

عظیم بلوچ قومی رہنما واجہ مامو رحمدل مری کا اغوا،، چاکر خان بلوچ

بلوچ قومی جہد میں ہزاروں جہد کار، درجنوں لیڈر گمنامی میں قومی نجات ،قومی تشخص اور آزادی کے لیے جد وجہدکر رہے ہیں۔سینکڑوں ساتھی ایسے ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کے خاندان اپنی آنے والی نسلوں اور قومی جہد آزادی کے لیے قربان کر دئیے ہیں اور آج بھی بلا تفریق اُف کئے بغیر سرزمینِ بلوچستان کی پہاڑوں میں دشمن ریاست سے نبردآزما ہیں۔انسان اپنی اعمال،دور اندیشی،مستقبل مزاجی و اشتراکی سوچ سے سماج اورقوم میں مقام بناتا ہے۔اور اس مقام کو قائم ودائم رکھنے کے لیے پوری زندگی،پوری نسل اور پوری خاندان کی بھلی چڑھاتا ہے لیکن نظریہ،قومی فکر ومقصد کو آنچ نہیں آنے دیتا۔ ایسے ہی ایک رہنما،شفیق،مہر و محبت کرنے والے اُستاد کا نام واجہ رحمدل مری ہے جسے ہر علاقے کا سرمچار، جہد کار اپنے انداز سے احترام والے نام دیتے ہیں۔اور احترم میں شاذو نادر ہی انکا نام کوئی لیتا۔ناکو،مامو، واجہ،واجوجیسے القابات سمیت کوئی ابا جیسے پر محبت اندازمیں نہایت احترام سے انہیں مخاطب کرتا ہے۔ کچھ روز قبل واجہ رحمدل کو مری علاقے جالڈی سے دلشاد ولد شاہ میر اور بلوچ نامی افراد نے اغوا کیا جو ہیر بیار مری کے اہم لوگ ہیں اور بزرگ قومی رہنما کو جو نہتا تھا بڑی بے دردی سے دشمنوں کی طرح ہاتھ پاؤں باندھ کر گاڑی میں پھینکا گیا جیسے کہ وہ دشمن فوج کا گرفتار کیا جانے والا سپاہی ہو۔۔۔اُف اُف۔۔۔۔جس کسی نے واجہ رحمدل جیسے شفیق بزرگ کو دیکھا ہے ان کیلئے رحمدل مری کا اغوا آسمان گرنے جیسی بات ہے۔
واجہ رحمدل کے اغوا نے کئی سوال جنم دئیے اور شعور رکھنے والے انسانوں کے لیے بہت کچھ واضح کر دیا۔اور مجھے بھی سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اس لیے کے مامو رحمدل کو کم مدت میں بہت ہی قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ایک معصوم،شفیق استاد جو ایک چھڑی کے سہارے چلتا ،پھر مضبوط انسان،ایک ایسا خاموش صوفی جو سراپا عمل،سراپا قربانی،سراپا شفقت تھا۔ایسے انسان کا اغوا سمجھ سے بالاترہے؟
واجہ رحمدل جسے میں مامو کہتا تھا اس لیے کہ مامو سعادت مری کی شبیہہ اس میں پاتا۔میں مامو سعادت مری کو کبھی دیکھ نہ سکا لیکن جتنا انکے بارے میں پڑھاسنامجھے واجہ رحمدل میں انکی روح نظر آتا۔شاید ہی بلوچ قومی جہد آزادی میں کوئی ایسا سرمچار ہو (چائیے تعلق کسی بھی مزاحمتی تنظیم سے ہو) وہ مامو رحمدل کو نہ جانتا ہو۔وہ پیار،علم،گوریلہ شہری و دیہی جنگ کا ایسا سپہ سالار کہ ان کے لئے الفاظ سمیٹنا مشکل ہے۔قومی آزادی کا ایسا رہنما جو بلا تفریق ہر مزاحمتی کیمپ میں جاتا اور کئی ماہ تک سرمچاروں کی جنگی و علمی تربیت کرتااوراس عمر میں اس میں علم حاصل کرنے ،پڑھنے و سیکھنے کا اتنا جنون تھا کہ اب تک میں نے کسی دوسرے میں نہیں دیکھا۔مامو رحمد ل ملنگ انسان ہیںیہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ وہ سراپا بلو چ تحریک ہیں۔2009 میں پہلی بار واجہ سے ملاقات مکران میں ہوئی مختصر ملاقات۔۔۔۔لیکن پھر سلسلہ شروع ہوا،مامو کو صحیح معنوں میں جاننے کا موقعہ مشکے میں2010 آپریشن کے دوران ہوا۔کچھ مدت ساتھ رہنے کے بعد مامو کی عظمت انکے رہن سہن انکے ساتھیوں سے گفتگو،روز مرہ کے شیڈول گشت سے عیاں ہوتی ہے وہ ایک دبستان ہیں۔ کچھ ماہ انکے ساتھ گزارنے سے انسان خود کو کھوجنے میں کسی حد تک کامیاب ہوجاتا اوریہی مامو کے صوفیزم تھا۔2011 ء مشکے میں جب ایک بڑی طویل آپریشن ہوا تو عصاء کے سہارے گھومتے بزرگ مامو رحمدل کو اور قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔جاری فوجی آپریشن میں جنگی جہازوں کی پروازیں اور شیلنگ کر رہی تھیں۔مامو کیمپ کمانڈر کو ہدایات دیتے اور آخری دستے کی قیادت کرتے نکلنے والے وہ عظیم قومی رہنما کہ انکی زندگی پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔اس آپریشن میں واجہ مامو نے مختلف دستوں کو جنگی حکمت عملی کے تحت مختلف سمت روانہ کیا اور آخری دستے کی کمان کرتے ہوئے نکلنے کی تیاری میں تھے۔ میں نے ا نہیں کہا کہ مامو آپ پہلے چلے جاتے تو اچھا تھا رات تک اس علاقے سے نکلنا ضروری ہے۔تو میرے کندھے پر محبت سے ہاتھ رکھتے ہوئے بولا’’بیٹا ہم پہلے قافلے کیساتھ جائیں گے اور مغرب سے قبل وہ پوزیشن میں پہنچیں ہم انھیں راستے میں جا ملیں گے ،اس چھڑی کو نہ دیکھیں ‘‘اور پھر پیاری سی ہلکی مسکراہٹ ۔۔۔ ساتھیو بس ہمت کریں رات سے قبل اس پوزیشن میں پہنچ جائیں گے۔ میں ذرا دل میں حیران رہ گیا کہ ۲گھنٹے کا فاصلہ پہلے سے اول دستے اور ہمارے درمیان ہے۔ مگر مغرب کے آخری پہر پوزیشن سے کچھ فاصلے پر ہم پہلے دستے کے پاس پہنچ چکے تھے۔ایک ایسا رہنما جسکی روح سے سانس تک بلوچ سرزمین اور جنگی مہارت بھری ہے۔کتنی داستانیں کتنی یادیں۔۔۔مامو کی زندگی کا ہر پل قربانی و جہد کا نام ہے۔ ایسے بزرگ رہنما کے اغوا نے میرے دل و دماغ میں ایک سوال برپا کر دیا کہ آخر کیوں۔۔۔۔؟ کیوں۔۔۔۔۔؟
مامو رحمد ل کی عمر کا اندازہ صحیح معلوم نہیں لیکن میرے خیال میں واجہ75 سے80 کے درمیان کے ہونگے ۔بچپن کوہستان مری بلوچ جہد کار کمانڈورں سرمچاروں کے زیر سایہ و تربیت اور جنگ میں گزری۔اور لڑکپن سے جوانی بھی سرزمین بلوچ کی آبیاری اور انقلابی جہد کو اگلی نسل تک منتقل کرنے میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا اورجب2002 میں ایک بار پھر جنگ کا آغاز ہوا تو اس سے قبل تیاریوں میں صف اول کے رہنما تھے جو طویل جنگی حکمت عملی کے تحت ایک وسیع جامعہ حکمت عملی ترتیب دینے میں مامو کا اول دستہ و کردار تھا۔اسی طرح بی ایل ایف کی بنیاد جب 1999 میں رکھی گئی تو وہ یہاں بھی اول دستے میں شامل تھے اور انکی قومی جہد میں خدمات کسی الفاظ و تعارف کے محتاج نہیں۔مکران سے جھلاوان،ڈیرہ بگٹی،کوہلو،موجودہ قومی آزادی کی جنگ کا جائزہ لیا جائے تو واجہ رحمدل کی خدمات قومی جہد میں دن رات کرنا خود ایک تاریخ اور داستان ہے۔واجہ نے اپنی آنکھ قومی جہد کی فضا میں کھولی اور جہد سے منسلک رہے ۔وہ ان جہد کار،رہنماؤں میں سے ہیں جنہوں نے اپنے خاندان کے تمام افراد قومی جہد کے لیے قربان کر دئیے ۔عمر کے اس موڑ پر بھی جہد سے ایک سچی لگن و کمیٹڈوابستگی دیکھیں کہ بڑھاپے کی خراب صحت کے باوجود مقبوضہ بلوچستان کے کھونے کھونے میں جاتے رہے۔کوہستان مری کی پہاڑوں کی طرح مکران،جھلاوان کے پہاڑ بھی واجہ مامو رحمدل کی سانسوں،قدموں کی آواز سے مانوس ہونے کے ساتھ ساتھ بے پناہ مہر رکھتے تھے۔مکران میں مامو سعادت مری کی کمان میں آپریشن سے ناصر آباد و دیگر کئی آپریشنوں میں ریاستی فوج کی جنگی عملوں و حکمت عملیوں کو نیست و نابود کرنے والے مامو واجہ رحمدل ہزاروں جہدکاروں کے لیے ایک درس گاہ،یونیورسٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔بلا آخر اغوا کر لیے گئے۔کیوں؟کیا اس لیے کہ وہ سب کے لیے قابل احترام تھا وہ ہر مزاحمتی تنظیم کے لیے کمان کی حیثیت رکھتا تھا اور اس بات سے خود ہیر بیار مری اچھی طرح واقف ہیں،اور کبھی کبھی علی الصبح لندن مختلف مسائل کے حل کے لیے فون کرنے والا واجہ رحمدل اغوا ہو گیا۔۔۔۔۔!!یہاں قربانیاں گنوانے کی دوڑ نہیں،مگر ایک انسان جو اس ادھیڑ عمرمیں ہسپتال،یا کسی کیمپ میں بستر پراپنی صحت کے ساتھ لڑ کر آخری سانس گزار رہا ہوتا۔مگر نہیں انہوں نے آج بھی زندگی کو جہد اور عمر کو رکاؤٹ بننے نہیں دیا۔آج بھی سرگرم تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے،موجودہ صورت حال پر بی ایل اے میں پیدا کردہ حالات سے نالاں اور حل کی تلاش میں گرداں تھا(بی ایل اے میں سینئر ساتھیوں کا اچانک صفایا اور باقی موضوعات زیر بحث نہیں)مگر اغوا کر لیا گیا۔
کیا واجہ رحمدل آزادی مخالف تھا،کیا وہ مری سرداریت کی بھینٹ چڑھ گیا؟اگر نہیں تو کیوں اغوا کیا گیا؟وہ تو خود رہنما تھا ایک غیر مسلح بوڑھے شخص کے ساتھ ایسا سلوک وہ بھی قومی جہد سے منسلک ایسا ناروا سلوک کی مثال بلوچ روایات میں نہیں۔واجہ مامو رحمدل کے ساتھ کیا گیا سلوک تو پاکستانی فوج بلوچ کے ساتھ کرتا ہے۔اللہ جانے۔۔کہ انقلاب اور آزادی کے معنی کچھ لوگوں کے لیے کیا ہیں۔مامو رحمدل کے ساتھ کیا ہو گا؟یہ ایک اہم سوال ہے جس طرح پاکستانی فوج بلوچ فرزندوں کو اغوا کرنے کے بعدان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکتی ہے۔ کیا کہیں ایسا تو نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔؟ایسا ہو بھی سکتا ہے جس طرح رویہ نظریات سے عاری اور شخصی انا کی نشاندہی کر رہے ہیں ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔اہل علاقہ گواہ ہے بلکہ مامو کے ساتھ جو لوگ تھے وہ گواہ ہیں کہ کس بے دردی کے ساتھ بزرگ بلوچ قومی رہنما کو اغوا کیا گیا۔کیا کوئی جوابدہ ہے قوم کے ہزاروں جہد کاروں کا جنکے اُستاد کو اغوا کیا گیا۔۔۔۔؟؟ جس نے ہزاروں فرزندوں کی آزادی کی راہ میں علمی وعملی تربیت کی۔پتہ نہیں؟سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ انقلابی جہد ہے ۔؟؟ایک ایسے انسان کو جو سراپا جہد ہو ،انقلاب ہو، اگر واجہ رحمدل کی پچپن سے لڑکپن اور تاحال زندگی پر روشنی ڈالی جائے تو ممکن نہیں کہ ایک کتاب میں اسے سمیٹا جا سکے۔ایسے عظیم انسان کو قبائلیت کا نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔بہر حال بحیثیت ایک جہد کار کے اس طرح کے رویوں نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے اور میں عالم برذخ ایسے کرب سے گزر رہا ہوں جس نے میری روح کو جنجھوڑ دیا ہے ۔ اسی طرح قوم کے ہر فرزند کے دل و دماغ میں بھی کئی سوالات نے ضرورجنم لیا ہو گا۔60کی دہائی سے 2015 تک بلا وقفہ جہد مسلسل کے پیغمبر کا علاقے میں باقی ساتھیوں کی موجودگی میں اغوا اور پھر انکار۔۔۔کیا یہ عمل قابل معافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

Комментариев нет:

Отправить комментарий