Powered By Blogger

четверг, 12 марта 2015 г.

کامریڈ حمید شاہین، فکرونظریہ اور سوانح حیات,, پیش لفظ  ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ 



حمید میں آپ کو دوست مخاطب کر کے کلام کرتا ہوں کیونکہ آپ زندہ ہیں۔ آپ کی فکر زندہ ہے۔ میری پہلی ملاقات شاید یونیورسٹی میں آپ سے ہوا تھا اس وقت آپ بی ایس او (اِستار) کے چیئرمین تھے۔ اور آپ کی کاوشوں سے مرتب کردہ (اِستار) کا کتابچہ مجھے ملا۔ پڑھ کر احساس ہوا کہ شہزادوں اور زرداروں کے درمیان رہتے ہوئے بھی آپ نے اپنی نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنی طبقاتی افکار سے روگردانی کی ہے۔
حمید افسوس ہے کہ میں آپ کو اس وقت زیادہ سمجھ نہ سکا جس وقت ہماری نظریاتی کشمکش پارلیمانی پارٹیوں کے ساتھ اپنی انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ اس وقت بی ایس او کے تینوں دھڑوں کی بولان میڈیکل کالج میں جلسہ سے آپ کی خطاب میں جو سنجیدگی دیکھی اور اب محسوس کررہا ہوں وہ ایک بالغ سیاسی کارکن کی تقریر تھی جس میں کسی جذباتی پن کا اظہار نہ تھا۔ مجھے یا مجھ جیسے کئی لوگوں کو اچھا نہیں لگا لیکن آپ ماحول سے متاثر ہونے والے نہیں تھے بلکہ اپنی بات نہایت سنجیدگی سے رکھتے تھے۔ حمید مجھے معاف کرنا میں ایک مردہ پرست قوم سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ کئی معاملات پر اختلاف رائے رکھنے کے باوجود ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ جس دن آپ شالکوٹ کے مضافاتی علاقہ میں اپنے اُستاد سے ملانے کے لئے لے گئے میں نے آپ کو ایک خاص سوشلسٹ پایا۔ ہمیشہ طبقاتی کرداروں پر بحث کرتے تھے۔ میرے لئے قومی مسئلہ میں طبقاتی کرداروں کی نشاندہی کرنا مشکل ہورہاتھا لیکن آپ بضد تھے کہ اشرافیہ کہیں بھی اپنی اصلی چہرہ دکھاسکتا ہے۔ اس کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ بالآخر ہم اس بات پر متفق ہوئے کہ نظریہ سے مسلح اور جامع اصولوں کی پابند تنظیم ہی اِن کرداروں کو لگام دے سکتا ہے۔ جب ہم دوستوں نے پارلیمانی پارٹیوں سے علیٰحدگی اختیار کرنے ’’کیچ‘‘ میں بی ایس او (آزاد) کی تشکیل کی تو اُس وقت آپ کیچ آئے۔اور چھپکے سے شہید گُل بہار اور دوستوں کے پمفلٹ پارلیمانی پارٹیوں کے جلسہ میں تقسیم کیا اور اپنا خطاب بھی کیا۔ آپ بائیں بازو کے قوم پرست اور سوشلسٹ نظریات پر پختہ یقین کرنے والا شخص تھے۔ آپ ماؤ اور چے گویرا سے متاثر تھے جو ہمیشہ چے گویرا اور کاسترو کی لباس سے مشابہ لباس پہنتے تھے اور بین الاقوامیت پسند تھے۔ جب بی ایس او آزاد اور اِستار کا انضمام کے لئے حقیقی دوستوں کے ساتھ ساتھ موقع پرست بھی سرگرم تھے۔ آپ مجھ سے زیادہ مسئلے کی نزاکت کا ادراک رکھتے تھے جونہی انضمام کے لئے دونوں طرف سے دباؤ بڑھ گیا آپ مجھے جناح روڑ کے آخری سرے میں ایک چھوٹے سے چائے کی ہوٹل میں لے گئے جہاں پشتون، ہزارہ اور بلوچ سیکولر سیاسی کارکنوں کی بحث و مباحثہ کی ایک خاص جگہ تھی۔
سویت یونین کی بکھر جانے کے بعد سوشلسٹ نظریات کی احیاء اور طبقات سے پاک معاشرے کے لئے جدوجہد کی باتوں میں مشغول تھے۔ آپ انضمام اور اس کے بعد کی قیادت سیاسی و نظریاتی پالیسیوں پر اپنا نقطہ نظر پیش کی۔ جس میں پارلیمانی سیاست کو بھی بطور سیاسی طریقۂ کار اختیار کرنے پر زور دیا۔دلیل کے طور پر ’’کے۔ بی‘‘ کا نام لیکر اظہار کیا کہ وہ اس طریقۂ کار کو خارج از جہد نہیں کرتا۔ لیکن میں نے آپ سے اتفاق نہیں کیا۔ آپ مادیت کے فلسفہ کے پیروکار تھے۔ اضداد کو برحق سمجھتے تھے لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ بقولِ شریعتی حضرات انسان نے کوئی جرم نہیں کی تھی بلکہ وہ شعور کی دانہ کھانے کے بعد آسائش سے بیدخل کردیئے گئے تھے۔ اس طرح آپ بھی شعور کی دانہ کو چھکنے کے بعد رؤسا اور شرفاء کے درمیان جگہ نہ پاسکے۔ کیونکہ شعور اُمرا و شرفاء کے لئے زہر قاتل ہے۔ یار حمید حالات
واقعات نے سچ ثابت کیا کہ اشرافیہ واقعی جدوجہد کے دوران کسی مرحلے میں اپنا اصل چہرہ دکھاسکتا ہے اور خدائی کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ یہ درندہ اس وقت کامل قابو میں نہیں آسکتا جب تک شعور کا دانہ نہ کھائے اور کھانے کے لئے قائل نہیں ہوسکتا تو کھائے کون۔؟ انا کی شعوری تشکیل اس وقت ممکن ہے جب انسان خود کو نفی کرے۔ جس طرح آپ نے خود کو نفی کرکے اپنی زیست کو آنے والے نسلوں کے لئے قربان کرگئے اور تاریخ کا حصّہ بن گئے اور اپنے حصّے کا کام مکمل کرلیا۔ بیٹا ’’فدا بلوچ‘‘ اور دوستوں کے لئے ترکہ میں نظریہ آزادی، طبقات سے پاک معاشرہ اور جنگ آزادی کے طویل سفر چھوڑے ہیں۔ جو انقلابی ارتقاء کے ساتھ رواں دواں ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
زیارت، بلوچستان
(5 مارچ 2014ء)

Комментариев нет:

Отправить комментарий