Powered By Blogger

суббота, 7 июня 2014 г.

منافقانہ روش اور جہدآجوئی کے دعویدار  میر مزاربلوچ
 پچھلے ایک عرصہ سے سوشل اور پرنٹ
میڈیا پر جس طرز سے بی ایل ایف ، بی آر ے، بی آر پی،یوبی اے،بی این ایم اور بی ایس او (آزاد)کے خلاف تنقید کی جارہی ہے اس سے قطعاً یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ یہ تنقید برائے تعمیر ہو بلکہ یہ طرزعمل یقیناً سوچا سمجھا منصوبہ لگتاہے تاکہ بلوچ عوام میں جہدِآجوئی میں مصروف عمل مسلح اور سیاسی تنظیموں کیلئے جو قربت اور حمایت ہے اسے ختم کیا جائے اور جنگجورہنماؤں اور انکی مسلح تنظیموں کی امیج کو چکنا چور کردیا جائے.80 کی دہائی میں جس طرح ڈاکٹر مالک اوراس کے زر خرید ساتھیوں نے جہدِآجوئی کو کامریڈفدا احمد کی شھادت کے بعد پارلیمنٹ کا رخ دیکر ذاتی و گروہی مفادات کی بھینٹ چڑھاکربلوچ عوام میں جو مایوسی پھیلا دی اور بعد میں عوام کو باور کراتے رہے کہ مسلح جدوجہد بلوچ کے بس کی بات نہیں (سر گوں سنگءَ میڑینگ نبیت) ہم پارلیمنٹ میں رہ کر متوسط طبقہ کے حقوق کی جنگ لڑیں گے۔وقت گزرتا گیا اور2000کی دہائی میں بلوچ تحریک آزادی نے دوبارہ سراٹھاناشروع کردیا.بی ایل اے وجود میں آگئی جس نے شھید بالاچ مری کی قیادت میں کوہلو اورملحقہ علاقوں میں کارروائیاں شروع کردیں جس کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر اور واحد قمبر کی قیادت میں مکران میں بی ایل ایف کا قیام عمل میں لایاگیا لیکن بلوچ تحریک آجوئی گوادر میں بی ایل ایف کے ہاتھوں چینی انجینئرز پر حملہ کیسبب بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوئی جس کے بعد نواب اکبر خان بگٹی، غلام محمدبلوچ، شیر محمدبلوچ، لالہ منیر بلوچ اور نواب زادہ بالاچ مری کی شھادت نے بلوچ قومی تحریک کوعالمی سطح پر مزید ہائی لائٹ کرکے بلوچ نوجوانوں کوجذبہ آجوئی کی طرف راغب کردیا اور یہ جذبہ جنون کی شکل میں بلوچستان کے کونے کونے میں پھیل گیا جس کے بعد غیراسلامی و غیر مہذب ریاست نے بلوچ فرزندوں کی اغواء اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا اوراب تواجتماعی قبروں تک نوبت آپہنچی ہے بلوچی روایات اورچادرچاردیواری کی تقدس کو تاراج کیا جارہا ہے بازاریں کسی بھی وقت بمباری سے محفوظ نہیں رہیں دشمن ریاست ہمیں بنام بلوچ نشانہ بنا رہا ہے دوسری جانب بلوچ مسلح افواج کی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی ہے لیکن اس نازک اور فیصلہ کن مرحلے میں مسلح تنظیموں کی جانب سے سوشل اورپرنٹ میڈیا پرایک دوسرے کونیچا دکھانے اور کیچڑ اچھالنے کانہ ختم ہونے ہونے والا سلسلہ پورے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے جس سے بلوچ قوم اضطرابیت کا شکارہے اور یقیناً اس عمل سے سب سے بڑافائدہ ریاست کوپہنچ رہا ہے۔شہداء کے ورثا پریشان، مسنگ پرسن کے لواحقین بے بس. ماما قدیر اور بلوچ بہنوں کی دنیاکی سب سے بڑی تاریخ رقم کرنے والی لانگ مارچ پر قلم خاموش، زبانیں گنگ، کان بہرے، توتک کی اجتماعی قبروں پرنظر اندھے لیکن معاملہ صرف اور صرف ایک دوسرے پر نکتہ چینی پر آکر اٹکا ھواہے قلات میں جنگجو شہداء کے علاوہ 20سے زائد معصوم بچوں بزرگوں اور خواتین کی شہادت جیسے کوئی معنی نہیں رکھتی بس ھیلی کاپٹر مارنے کے شادیانے بجائے جارہے ہیں.واہ بھت خوب. مسلح تحریکوں میں خامیاں تو ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں اس طرح منظر عام پرلاکر دشمن کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں یہ مسائل ھمالیہ کی طرح بلندوبالا اور بڑے نہیں کہ انہیں سر کرکے حل نہ کیا جاسکے ہم نے دشمن کے سامنے اپنی پول کھول دی کہ ہم کتنی پانی میں ہیں۔خدارا اس سلسلے کو بند کرکے بلوچ شہداء کی قربانیوں پر پانی نہ پھیریئے تقسیم در تقسیم کاسلسلہ بند کرکے صرف آزاد بلوچستان کیلئے اپنی توانائیاں بروئے کار لاکردشمن کا مقابلہ کیجئے کیونکہ اب کی بار اگر تحریک ناکام ہوگئی تو پھر (خدانہ کرے) بلوچ قوم ریاست کے خلاف سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہیگی۔۔۔!

Комментариев нет:

Отправить комментарий