Powered By Blogger

суббота, 10 марта 2018 г.

آزادی کی جدوجہد میں دانشوروں کا کردار ,, شوہاز بلوچ

دانشور وہ شخص کہلاتا ہے جو سماج میں رونما ہونے والے واقعات و حالات کو حقیقی معنوں میں قلم کی رو سے عام عوام تک پہنچاتا ہے، اس کام کو کرنے سے انہیں ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں پہنچتا مگر اس سے اْن کے ارد گرد موجود لوگ خوشحال و خوشگوار زندگی بسر کر سکتے ہیں ۔ایک ایماندار دانشور ہمیشہ اپنے ضمیر کا سنتا ہے اور اپنے عقل و منطق سے سماج کو مستحکم و پائیدار بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کام کو سرانجام دینا اتنا آسان نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں ۔دانشور کی زندگی ایک انقلابی کی زندگی کی طرح ہوتی ہے، جتنے قربانیاں ایک انقلابی اپنے لوگوں کو آزاد کرانے کے لیے دیتا ہے، ایک دانشور کی زندگی بھی اسی طرح گزرتا ہے جنہیں اپنے افکار و خیالات عوام تک پہنچانے کے لیے کئی مشکلوں کو پار کرنا ہوتا ہے، جنگ آزادی کے دوران ایک دانشور کا کردار ایک انقلابی لیڈر سے بڑھ کر ہوتا ہے، لیڈر وہی ہوتا ہے جو پارٹی و تنظیم کو دشمن کے خلاف منظم و متحرک کرتا ہے، اپنے کارکنان کو سخت سے سخت حالات جھیلنے کی تربیت دیتا ہے جبکہ ایک دانشور کی ذمہ داری پورے قوم کو جگانا ہوتا ہے۔ تمام لوگوں کو دشمن کے خلاف بیدار کرنا ایک دانشور کا شیوہ ہوتا ہے، غلامانہ و استحصال زدہ معاشرے میں ایک دانشور کی ذمہ داریاں دگنی ہوجاتی ہیں۔جب جرمنی میں نپولین نے عام عوام کا جینا حرام کر دیا تھا ، بلاوجہ قتل و غارت گری کیا جا رہا تھا تو وہاں کے دانشوروں نے نپولین کے خلاف عوام کو بیدار کرنے کیلئے کھٹن جدوجہد شروع کی وہاں کے ایماندار دانشور متحد ہوئے اور جرمنی کے لوگوں کو منظم کرنا شروع کر دیا اْنہوں نے اس بات کا ادراک کیا تھا کہ ہمارے لوگوں کے درمیان نااتفاقی و مختلف دھڑوں میں ہونا ہی ہمارے استحصال کا سبب ہے جس کے بعد وہاں کے دانشور و مفکروں کی کڑی کوشش و محنت نے عوام کو متحد و یکجا کیا اور 1872ء میں جرمنی بسمارک کی صورت میں ایک عظیم قوم بن کر ابھرااور آج جرمنی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور مثال دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک چین م جہاں انیسویں صدی میں صدیوں سے مستحکم و مضبوط چین وسط میں رونما ہونے والے واقعات و حالات کو قابو میں نہیں لا سکے اور چین سامراجیوں کے شکنجے میں آ گیا جس کے سبب چینوں کا بری طرح سیاسی و معاشی استحصال شروع ہوا، کئی برس تک چینوں پر ہونے والے مظالم پر وہاں کے دانشور خاموش رہے جبکہ کچھ دانشوروں کا خیال تھا کہ یہ جبر و بربریت جلدی ختم ہونگے لیکن ان کا خیال ایک خیال ہی رہا بلکہ جبر و بربریت مزید زیادہ ہوا پھر بعد میں کچھ دیانت دار دانشور انقلابِ روس و مارکس کے نظریات پر گامزن ہوئے اور جلدی سمجھ گئے کہ چینیوں کا نجات مصلح جنگ سے ممکن ہے۔ دانشورں نے بروقت سمجھا کہ ہم خاموشی اختیار کرکہ شاید کچھ اور سال جی سکیں لیکن ان سامراجیوں کے ہاتھوں چینی عوام کا استحصال کبھی نہیں رکھے گا اس لیے اْنہوں نے فیصلہ کیا کہ دشمن کے خلاف عوام کو مسلح جنگ کرنے کیلئے بیدار کریں گے، اس کے بعد چینی عوام نے ماوزے تنگ کی قیادت میں سامراجیوں سے مضبوط جنگ کی اور فتحیاب ہوئے(آج کا چین ہمارے موضوع میں نہیں)
اسی راہ میں ایک اور زندہ مثال فرانس کے عظیم و روشن خیال دانشور والٹئیر ہیں اس معلم دانشور نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی آزادی و مساوات کو برقرار رکھنے مزہبی جنونیت و انتہا پسندی کے خلاف لکھنے اور جنگ کرنے میں گذار دی،(سامراج کے خلاف جبر و بربریت اور غلامی کے خلاف لکھنا بھی جنگ کے مترادف ہے) والٹئیر نے مذہبی تنگ نظری و دینی تعصبات کے خلاف کئی کتابیں لکھیں، اس نے یورپ میں سارے حکمران، اشرافی اور کرپٹ سیاستدانوں کا اصل چہرہ عوام میں بے نقاب کیا، ان کے سارے سیاہ کرتوتوں کو عوام الناس کے سامنے عیاں کیا، یہ کام اتنا آسان نہیں تھا بلکہ اسے کئی دھمکیاں ملیں لیکن وہ ایک درباری دانشور کے بدلے میں ایک حقیقی و ایماندار دانشور تھا، لوگوں پر ہونے والے بربریت کے خلاف ایک ایماندار دانشور و مفکر نہیں لکھے گا یا ظلم کے خلاف عوام میں انقلاب بیدار نہیں کرے گا تو وہ بھی اس بربریت میں ظالم کا برابر شریک کہلایا جائے گا ،والئٹیر کے انقلابی افکار و نظریہ کے سبب اْنہیں کئی بار ملک بدر کیا گیا اْنہیں کئی مرتبہ پیرس سے جلاوطن کیا گیا، وہ یہ سب مصائبیں جھیلتا رہا لیکن مرتے دم تک اْس نے اپنے نظریات و افکار کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا اور اپنے زندگی کے آخری دنوں تک وہ ظلم کے خلاف لکھتا و بولتا رہا، والٹئیر کے وقت دینی تعصبات مذہبی جنونیت خونریزی خدا کے نام پر قتل و غارت گری بیگناہ عوام پر حکمران طبقے کا ظلم و جبر روز کے معمول تھے لیکن والٹئیر کے ذمہ دارانہ دانشوری کے سبب ان ملکوں میں ایک حد تک لوگوں کا استحصال ختم ہوا عوام حکمرانوں کے خلاف بیدار ہوا اور آج وہ ممالک ترقی یافہ ممالک ہیں اور اب وہاں آزادی ہے۔
اسی راہ میں ایک اور مزاحمتی دانشور فرانز فینن ہے جنہیں الجزائر کی تحریک آزادی کا سب سے اہم ترین دانشور کہا جاتا ہے، فینن نے لکھنے کا آعاز نسل پرستی کے خلاف شروع کیا جس وقت سفید فام کا غلبہ تھا وہ دانشور کو تحریک آزادی کی جنگ میں سب سے نمایاں گردانتے تھے اور لکھنے کو دشمن پر حملہ سمجھتے تھے، وہ اپنے لوگوں کو کہتے تھے کہ اگر سامراج کو شکست سے دوچار کرنا ہے تو ہمیں مزاحمت کرنی چائیے مزاحمت سامراج سے آزادی کا واحد راستہ ہے وہ تشدد کے حامی نہیں تھے لیکن جابر کو جابر کے زبان میں جواب دینے کو صحیح گردانتے تھے وہ صرف چالیس سال زندہ رہے لیکن اپنی مختصر سی زندگی میں اپنے قوم کو غلامی کے خلاف نفرت سکھا گئے۔
اس ضمن میں ایک اور اہم نام ژان پال سارتر ہے، سارتر ایک عظیم انقلابی دانشور تھے وہ پہلی مرتبہ دوسری عالم گیر جنگ میں جرمن فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ایک سال جرمن فوج کے جیل میں گذارا اور پھر قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے اور فرانس پر جرمنی کے ناجائز قبضہ کے خلاف مزاحمتی تحریک میں شامل ہو گئے سارتر نے اپنی پہلی ناول 'لا نارسی، انیس سو اڑتیس میں متعارف کرایا۔یہ ناول لوگوں پر یہ واضح کرتا ہے کہ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے جہاں اگر انسان آزاد نہیں تو وہاں کے لوگوں کو غلامی کے خلاف مزاحمت کرنی چائیے وہ مارکسزم و سوشلزم کے حامی تھے اور اپنے آپ کو ان کا ساتھی کہتے تھے سارتر کو انیس سو چونسٹھ میں ادب کا نوبیل انعام نوازا گیا لیکن اْس نے نوبیل انعام لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ادیب کو اپنے آپ کو ادارہ میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دینی چائیے اور اپنی کامل آزادی برقرار رکھنی چائیے،
وہ انسان حقیقی معنوں میں کبھی بھی ایک دانشور نہیں کہلایا جا سکتا جو اپنے اوپر خطروں و دھمکیوں کا بہانہ بناکر سامراج و قبضہ گیر کی تعریف و توصیف کرتا پھرتا ہے اور یہی لوگ دوسرے جانب اپنے آپ کو دانشور تصور کرتے ہیں جو ایک بے شرمانہ عمل کے زمرے میں آتا ہے۔
آج بلوچستان میں ریاستی کارروائیاں زور و شور سے جاری و ساری ہیں بلوچ سرزمین ہوبہو وہی منظر پیش کر رہا ہے جو ہمیں 1971 میں بنگلادیش میں نظر آیا اسی ریاستی فوج نے ہزاروں بنگالیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا کئی عورتوں کو جنسی زیاتی کا نشانہ بنایا لیکن باشعور بنگالی دانشوروں نے دشمن کے آگے سر جھکانے کے بجائے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے خلاف خوب لکھا اور اپنے لوگوں کو بیدار کیا، آج بنگلادیش ایک آزاد و مستحکم ریاست کی شکل میں اپنے آپ کو دنیا کے اندر منوا چکا ہے
آج بلوچستان میں ایک بھی ایسا گھر موجود نہیں جہاں کسی کا بھائی تو کسی کا باپ گمشدہ نہیں ہے یا شہید کیا نہیں جا چکا ہے، سی پیک کو ترقی کا نام دے کر سی پیک راہ پر واقع گاؤں کے گاؤں کو صفحہ ہسی سے مٹائے جا رہے ہیں، لوگوں کو زبردستی نکل مقانی کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور جو لوگ مجبور ہوکر نکل مقانی کرکے شہروں کا رخ کرتے ہیں کہ بہتر زندگی بسر کر سکیں لیکن وہاں بھی آئی ایس آئی کے اہلکار انہیں اغوا کرکے لے جاتے ہیں پر ان کا کہیں بھی اتا پتہ نہیں ملتا، اب ایک عرصے سے پاکستانی فوج اور گھناونی حرکتوں پر اتر آئی ہے کئی علاقوں میں عورتوں اور بچوں کو اغوا کرنے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے جو جنگی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے، آج بھی کئی عورتیں پاکستانی زندانوں میں قید و بند ہیں، اس کے علاوہ گھروں پر بلاوجہ بمباری بھی اب ایک عام بات بن چکی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے شہیدء قندیل واجہ صبا دشتیاری کے علاوہ ہمیں دوسرے کوئی ایک بھی ایسا دانشور نظر نہیں آتا جس نے قومی آزادی پر مکمل بات کیا ہے اور بلوچ نوجوانوں کو غلامی کے خلاف بیدار کیا ہے اس کے علاوہ بلوچستان میں ایسے کئی انسانی حقوق کے علمبردار، صحافی و استاد شہید کئے جا چکے ہیں، جنہوں نے بلوچستان میں ریاستی بربریت کے خلاف بولا ہے جن میں سبین محمود کی نام بھی شامل ہیں جنہیں بلوچستان میں رونما ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر ایک پروگرام کرنے پر ریاستی اہلکاروں نے قتل کیا بعید القیاس بلوچستان میں 44 صحافی پاکستانی فوج کی جانب سے شہید کئے جا چکے ہیں
اب اس صورتِ حال میں بلوچ دانشوروں کا اخلاقی و قومی فرض بنتا ہے کہ بلوچستان کے سنگین صورتحال پر خاموش ہونے کے بجائے واجہ صباء دشتیاری کا راستہ اختیار کرکہ اپنا اخلاقی و قومی فرض ادا کریں۔ پاکستانی بربریت کیخلاف دنیا کو آگاہ کریں اور بلوچ قوم کو بیدار کرنے کیلئے اپنے قلم کو استعمال میں لائیں جو ایک دانشور ہونے کے ناطے آپ کا فرض ہے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий