Powered By Blogger

четверг, 8 марта 2018 г.


لاپتہ ڈاکٹر سعیداللہ بلوچ کے نام


تحریر: شہزاد بلوچ
ہم ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہیں جہاں انسان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے یا پھر اپنے نقطہ نظر کو ظاہر کرنے کی بھی اجازت نہیں، مطلب موجودہ دور میں زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنے خیالات اور سوچ کو لاپتہ سمجھو ورنہ خود لاپتہ کردئیے جاؤ گے۔
ویسے تو خیر لاپتہ ہونے کے لئے کوئی شرائط مقرر نہیں مگر یہ آپکی قابلیت پر انحصار کرتا ہے کہ آپ کس وقت کس جگہ کس سے اور کیسے اختلافات رکھتے ہیں، آیا آپ کسی مذہبی بحث میں چھلانگ لگاتے پائے جاتے ہیں یا آپ ایک آزاد سیاسی سوچ رکھتے ہیں یا پھر آپ سچ کو تحریر یا بیان کرنے والے ایک ایماندار صحافی ہیں اور ہاں یاد رہے فوج کے متعلق بولنے یا لکھنے پر خصوصی طور پر آپکو سیکنڈوں میں تلاش کرلیا جائیگا، آپ گھر میں ہوں، یا بازار میں، ہاسٹل میں ہوں یا اسکول میں ، مریض ہوں یا ڈاکٹر، بس میں سوار ہوں یا اپنی گاڑی میں ، ہوٹل میں قیام ہو یا اپنے ہی بیڈ روم میں یہ وردی والے الہ دین کا چراخ رگڑ کر آپ تک باآسانی پہنچ سکتے ہیں۔
کیونکہ آپ کا قیام زمین کے ایک ایسے حساس حصے میں ہے جہاں نہ تو انسانی جانوں کی کوئی قدر اور قیمت ہے نہ ہی وہاں کسی قانون کی بالادستی دکھائی دیتی ہے، اردو میں ایک کہاوت ہے کہ ‘جسکی لاٹھی اسکی بھینس’۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے یہاں ایک سیاسی ماحول ہوا کرتا تھا مطلب طلبہ یا دوسری آزادی پسند پارٹیز کے کارکن شہروں اور دیہاتوں میں سیاسی سرگرمیاں کرتے دکھائی دیتے تھے اور انکی سرگرمیوں کو کچھ بہادر اور باضمیر صحافی حضرات پزیرائی دیا کرتے تھے۔ مگر وقت اور حالات کی پیچیدگیوں نے آج ہم سے ہمارا ایک اچھا بھلا پڑھا لکھا تعلیم یافتہ طبقہ، روشن خیال سیاسی کارکن اور مہذب صحافی ہم سے چھین لئے یا تو آج وہ عقوبت خانوں میں زمینی خداؤں کی نازل کردہ قیامت کے عزاب سہہ رہے ہیں یا پھر اپنی سرزمین کے آغوش میں ہمیشہ کی نیند سلا دئیے گئے ہیں جو کہ میری نظر کافی پرسکون زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ بغیر روح کے جسم کو نہ تو لاپتہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی عزاب دیا جاسکتا ہے۔۔اگر کبھی میرے وطن جانے کا اتفاق ہو تو وہاں دو قسم کے ہی لوگ نظر آہینگے۔ ایک وہ جو اپنے پیاروں کے لوٹنے کے لئے آنسو بہار ہے ہیں اور دوسرے وہ جو جنہیں اپنے پیاروں کی لاشیں ویرانوں سے ملنے کا درد آنسو بہانے پر مجبور کرتا ہے۔۔ گزشتہ دنوں میری سرزمین سے ایک نوجوان ڈاکٹر سعید بلوچ کو اسکے کالج کے ہاسٹل کے کمرے سے کچھ نامعلوم افراد اغوا کرکے لے گئے۔ دو کلو میٹر کی دوڑ لگا کر فوج میں بھرتی ہونے والا جائل و ان پڑھ سپاہی کیا جانے کہ دنیا کی سب سے پسماندہ علاقے کا یہ نوجوان زندگی کے کن مسائل سے گزرتا ہوا آج اپنی منزل کے قریب آن پہنچا تھا کہ اس سے اسکا آنے والا روشن کل چھین لیا گیا۔ وہ فائنل ائیر کا طالب علم تھا اسکے بعد ہی وہ اپنے پروفیشن کے اعتبار سے اپنی نئی زندگی کو شروع کرتا مگر افسوس کہ سعید بے خبر تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹری کی ڈگری فائنل ائیر زندان میں رہ کر ہی حاصل کی جاتی ہے۔ کاش سعید اس راز کو جان پاتا تو میرا نہیں خیال کہ وہ کبھی بھی ڈاکٹر بنے کی خواہش بھی ظاہر کرتا۔۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий