Powered By Blogger

среда, 21 февраля 2018 г.

خاران کے بُلبُل زہری کے چٹان سے ملاقات.
تحریر زمرک زہری
یہ دن پوری ی دنیاء کے مسلموں کا تہواری دن تھا، دنیاء کے کونے کونے میں عید کی تیاریاں اور خوشیاں منایا جارہا تھا، بازاروں میں رنگ برنگیاں سجھی ہوئی تھی، ہر طرف ایک میلا نما سا منظر بنا ہوا تھا. پوری دنیاء کے مسلم کمیونٹی کیلئے خوشی کا لہر تھا.
ہم بلوچ بھی مسلم ہیں مگر ہم دنیاء کے باقی مسلموں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے تھیں.
دنیاء کے چاروں طرف عید کی تیاریاں ہو رہی تھی مگر یہاں میرے دیس میں ہر گھر پر عید ایک غم کا آندھی لےکر آرہا تھا.
کیونکہ بلوچستان وہ واحد خطہ ہے جہاں ہر گھر سے ایک یا ایک سے زائد فرزند یا تو لاپتہ ہے یا پھر شہید کردیا گیا ہے.
بلوچستان میں یہ تہوار دنیاء سے کافی مختلف تھا اور اسی مختلف منظر نے ہمیں بچپن سے ستائے آیا ہے اور تب ہی سے ہم منتشر ہیں.
عید بھی ہوگئی سب نے عید بھی منایا لوگ دوستوں اور عزیزوں کے میل جُل میں مگن تھے مگر میں خود کو خوش قسمت بھی کہتا ہوں اور بد قسمت بھی.
خوش قسمت اس لئے کہ اس تہوار کے دورانیہ میں میرا ملاقات دو وطن کے بہادر سپوتوں سے ہوا. اور بدقسمت اس لئے کہ میرے گمان تک میں یہ نہیں تھا کہ یہ ان سے پہلی اور آخری ملاقات ہوگی اور وہ دو ہیرے اس بدقسمت راج سے بچھڑ جائیں گے.
میرا شہر کبھی باغیوں کا گڑھ کہلایا جاتا تھا مگر نہ جانے کس بلا کا سایہ اس پر پڑی کہ سب کے زندگیوں پر غلامی کا بسیرا ہوگیا ہم کھل کے یہاں اپنے وطن، راج، ثقافت اور تہذیب پر گپیں لڑاتے تھیں مگر اب حالات یہ ہین کہ مجھے اپنے وطن کے عاشقوں سے دور دور پہاڑوں سے گنجان اور پسماندہ علاقوں میں جاکر ملنا پڑا.
میں ایک معاشرے کےگھٹن زدہ روایات و کردار سے ستایا ہوا بچے کی طرح اکثر سوچا کرتا تھا کہ میں تو اس اندھیری رات کا سفر جیسے بھی تک کٹ چکا ہوں مگر آنے والے نسلوں کا بھی یہی حال ہوگا کیا؟
جب سے ہوش سنبھالا ہے میرا وطن جھلسا ہوا مجھے نظر آرہا ہے، ہر روز ایک نوجوان کی مسخ لاش ملتی ہے یا پھر لاپتہ ہوتا ہے.
بابا اور بھائی کبھی بھی آکر ان کے متعلق بات تک نہیں کرتے جیسے ہر گھر کے پیچھے ایک فوجی کیمپ قائم ہے.
آزاد بلوچستان تو دور صرف بلوچستان کا نام آپ کبھی بھول کر بھی لب سے ادا کرے تو آس پاس موجود لوگوں کی نظریں آپ کی طرف اس گمان سے ٹک جاتے ہیں کہ یہ کون ہے اس بھیڑ میں اتنا کچھ کہے جا رہا ہے اور جان کا خطرہ بھی نہیں.
ایسا لگتا ہے آقا ڈنڈا ہاتھ میں لئے ہمارے سرپر کھڑا ہے.
یہ حالات نے مجھے دماغی طور پر منتشر کردیا.
فطرت کچھ اور کہے جا رہا تھا حقیقت کچھ اور بن چکا تھا ہنارے لئے.
تبھی سے ہم انگاروں میں جلنے کا ٹھان لیا اور اپنی سنگتوں کی متلاشی بنے.
اس تلاش میں کافی وقت لگے شاید یہ میری کمزوری تھی کہ میں اپنی جزبات کو سامنے نہیں لارہا تھا.
مگر جنہوں نے میری جزبات کو سمجھا تھا انہوں نے کمال کردیا.
میں تو چند الفاظیں بھی کسی محفل میں کھلے بازار میں آزادی کیلئے ادا نہیں تھا مگر وہ چہروں کو پڑھنے والوں نے کمال کردیا.
نہ جانے کہاں میں بھول میں بلوچستان اور بلوچ راج کے حق میں کچھ لکھا یا بیان کیا تھا کہ مجھے بہت کم وقت میں ایک سنگت کا پیغام آ پہنچا.
کچھ دن کے روابط میں مجھے وہ جانشینوں نے اپنے کاروان کا ایک حصہ قرار دے دیا اور مجھے ملاقات کیلئے بلایا اور میں ایک ستایا ہوا کم علم انسان کی کفیت ہی بدل گئی ایسا لگا برسوں کے پیاسے کو دریاء مل گیا.
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر میں پہلے پیش قدمی کرتا تو شاید میرے وطن کے فرزند پہلے مجھے اپنے دیوان میں بُلاتے.
مگر دیر ہی سہی ایک ملاقات تو میرے زندگی کے کسی حصے میں شمار ہوا.
جب دلجان کے ایک سنگت کا مجھ سے اچانک رابطہ ہوا تو اس نے کہا سنگت اگر آپ چاہو تو ہم آپ سے ملاقات کا طلبگار ہیں. میں برسوں سے ملنے کیلئے ترسا ہوا انسان کیسے انکار کرتا. میں نے کہا جب آپ چاہو ہم ملنے کیلئے آئیں گے.
ہائے یہ تنگ دستی موبائل نہ ہونے کی وجے سے سنگتوں سے کچھ دن رابطہ نہ ہو سکا.
مگر جس کو راہ ڈھونڈنے ہو اور راہ آزادی کا ہو تو اس کیلئے سارے ذریعے کھل جاتے ہیں.
میں نے کہیں سے بھی رابطے کا ذریعہ نکال کر سنگتوں سے رابطہ جاری کیا تب مجھے دلجان اور نورالحق سے ملاقات کا موقع دیا گیا. میں اپنی شہر سے نکل کر گھنٹوں کی سفر طے کرکے اس نگری میں جا پہنچا جہاں مجھے ان جانبازوں سے ملنا تھا.
کل مجھے ان دو ہستیوں سے ملنا ہے جو آج شہداء تراسانی کا پہچان اپنے نام کرکے امر ہوگئے.
موبائل نہ ہونے کی صورت میں میں نے کسی دوست سے موبائل چند منٹ کیلئے اس سے لیکر ھنینا دلجان کو پیغام بھیجا تھوڑی دیر بعد ہمارے دل و جان کا پیغام آیا روایتی حال حوال کے بعد اس نے دوسرے دن ہمارے ملاقات کیلئے مناسب سمجھ کر کہا کہ کل ملتے ہیں.
2011سے یہی میری خواہش تھی کہ سنگتوں سے مل لوں اور ان کی درسِ دیوان میں شمول کا موقع حاصل ہوں. ان سے کچھ سیکھنے کو ملے اور اپنی وطن کی محبت کو عشق میں بدلنے کی صلاحیت ان سے حاصل کر سکوں آخر وہ دن میرے زندگی کی خوبصورتی کا ایک اہم حصہ بن گیا، دوعظیم وطن کے سپوتوں سے ملاقات کا عین میرے خواہشات کے مطابق موقع مل گیا.
رات بھر ہزاروں خیالوں میں گم رہا سوچتا رہا کہ کل جب اُن سے ملاقات ہو جائے گا تو ان سے کچھ سوالات ضرور پوچھوں گا اور کہیو سوال میرے زہن میں گردش کر رہے تھے
صبح جب ہوا آنکھ کھلی تو دیکھا وہ پہاڑی سے گنجان علاقہ میرے نظر میں ایک جنت کا منظر پیش کر رہا تھا شاید اس لئے کہ میرے برسوں کی خواہش آج اس بنجر علاقے میں پوری ہونے والا تھا.
ہم اس جگہ روانہ ہوئیں جس کو سنگت دلجان نے انتخاب کیا تھا، میں نے گھر سے نکلنے کا پیغام سنگت کو ارسال کیا کہ ہم نکل چکے ہیں. سنگت کا پیغام تھوڑی دیر بعد آیا کہ آپ آجائیں ہم بھی ادھر آپ سے ملیں گے.
اب راستے میں سفر کے دوران سینکڑوں باتیں مجھے ستانے لگے کہ کیسے سنگتوں سے ملوں گا کیسے سلام دعا کروں گا اور اپنے جزبات و وطن سے محبت کی شدت ان کو شیئر کروں گا.
ہم ان سے پہلے وہاں پہنچ گئیں پھر جاکر کسی جگہ پر ان کا انتظار کرنے لگا.
ایسے حالت میں انتظار انسان کیلئے موت کی گھڑی ہوتی ہے مگر یہاں انتظار ایک عجیب منظر پیش پیش تھا.
تخت دار تو دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان کو سب سہولیات فرہم کیا ہے مگر اس دن بجلی نہ ہونے کی وجے سے موبائل کا چارج بھی آخری لمحات میں تھا تب مجھے سمجھ آیا کہ ان کی مہربانیاں کتنی ہے اس دیس پر.
خیر جیسے بھی ہوا ان سے رابطہ جاری رہا.
اچانک ھنینا دلجان کا پیغام پہنچا کہ ایک جگے پر آنے کا مجھے کہا اور میں موبائل دوست کے حوالے کرکے اکیلے سنگتوں کے جانب بڑھنے لگا.
یہاں ہر شخص مشکوک ہے جب میں سنگتوں کے جانب بڑھنے لگا تو میرا دوست مجھے عجیب نگاہوں سے گھور رہا تھا جیسے اس کی آنکھیں مجھ سے مخاطب ہیں کہ کہاں جا رہے ہو اور کس سے ملنے.
کیونکہ یہاں جان کا خطرہ بھی کسی کیلئے خالی نہیں شاید وہ مجھے اکیلے جاتے ہوئے یہی محسوسـکر رہا تھا کہ اکیلے کہیں بھی جانا خطرے سے خالی نہیں مگر میں آگے بڑھ گیا.
میں وہاں سے تھوڑا آگے نکل گیا کہ دیکھتا ہوں دو بندے چہرے رومال سے چھپے ہوئے موٹرسائیکل پر آکر میرے قریب کھڑے ہوئے.
روایتی مصافحہ اور حال حوال کے فوراً بعد میں سنگتوں کے ہمراہ وہاں سے نکل کر کسی محفوظ جگے پر کسی سائے دار درخت کے نیچے پہنچے.
آج میں اور وہ درخت تو ہیں مگر وہ دو جانباز نہیں رہے جس کو اس درخت نے پناہ دیا تھا.
آج میرے سینے سے ایک درد اور ایک فخر ایک ساتھ نکل رہے ہیں حیران ہوں کہ درد کا ہوجاؤں یا فخریہ لمحات کا.
ہم تینوں جاکر ایک طرف بیٹھ گئیں بلوچی روایت کے مطابق پھر سے علاقائی حال حوال ہوا سنگت نے مجھ سے تعارف پوچھا ایک دوسرے سے اپنے تعارف بھی ہوئے.
میرے زندگی کا یہ پہلا دن تھا ان جانبازوں کے درمیان خود کو پاکر عجیب محسوس کر رہا تھا.
میرے جتنے بھی سوالات تھے سب نے دم توڑ دیئے.
اور ہمارا اُستاد دلجان آزادی کے متعلق باتیں کرنا شروع کیا میں بس ایک نالائق شاگرد کی طرح اسے سنتا رہا. ایسا لگ رہا تھا میں کسی عالمی ادارے میں کسی پروفیسر کا لیکچر سُن رہا ہوں تب عجیب خیالات میرے زہن میں ابھرے کہ پہاڑوں میں رہنے والے دن رات دشمن سے قوم راج اور خود کو حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کیا نہیں سیکھتے ایک آکسفرڈ یونیورسٹی کے پروفءسر سے بھی اچھے انداز میں مجھے سمجھا رہا تھا.
قوم کے خیرخواہوں سے لیکر غداروں تک سب کے متعلق بتاتا گیا. اور عین اسی وقت بارگ فون پہ کسی مجھ جیسے نکمے کو گائیڈ کر رہا تھا.
دو قوم کے استاد ہم سے بچھڑ کر اس قوم کو نیند سے جگایا اور خود امر ہو گئیں.
لیکچر سناتے سناتے جیب سے سگریٹ کا پاکٹ نکالا اور بارگ سے ماچس لیکر سگریٹ سلگایا، تب مجھے کیوبا کا ہیرو چی گویرا یاد آیا. مگر ہمارا دلجان بلوچستان کا چی گویرا تھا اور بارگ اس کا ہمراہ پختا ساتھی اس کا ہمراز ہو جیسے ساتھ بیٹھا تھا.
ان کی زندگی کا گزر بسر ہم سے کافی مختلف تھا. مٹی پر بیٹھنا ان کا شیوا بن چکا تھا. ان کی باتوں کا انداز جیسے کوئی مفکر محوگفتگو ہے. نہ زات پر اتر پن ہے نہ خود کی جہد پر غرور.
اُن کے بیٹھنے اور باتیں کرنے کا انداز آج بھی میرے نگاہوں میں گھوم رہا ہے.
وطن سے محبت کرنے والوں کو کسی ریشم کا کالین یا صوفا کی ضرورت نہیں وطن کی مٹی ان کیلئے کسی ریشم سے کم نہیں یہ بھی مجھے دلجان اور بارگ نے اس دن سکھا دیا.
سنگتوں کی اس ملاقات نے میرے سوئے ہوئے آنکھوں کو کھول دیا کہ آپ کے وطن آپ سے کیا چاہتا ہے اور آپ میں وہ سارے صلاحتیں ہیں جو کسی انقلابی سوچ کے مالک کے پاس ہوتے ہیں.
آپ بھی اپنے دوست اور دشمن میں فرق کر سکتے ہو بس آپ کو آگے بڑھنا ہے وطن کے خاطر راج کے خاطر اپنے آنے والے نسلوں کے خاطر.
آپ کو بھی اپنے اندر یہ خوبی جگانا ہوگا کہ ماں بہنوں اور وطن کی عزت کو کس نے تار تار کیا اور کس غدار نے اپنے آقا کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اپنے راج کے آشیانوں کو جھلسا دیا اور آگ لگا رہے ہیں.
اور سنگتوں کی وہ چند کے منٹ کے ملاقات نے مجھے ہمیشہ کیلئے بدل دیا.
مجھ جیسے ہزاروں نوجوانوں کو جگانے کیلئے دلجان اور بارگ آگے بڑھے تھے تاکہ مجھ جیسے غافلوں کو اپنے ساتھ لیکر آگے بڑھیں مگر قسمت کا ہمارے ساتھ مزاق آج کا کھیل نہیں برسوں کا ہے.
ابھی تک امتیاز کا زخم بھرا نہیں تھا کہ ہم دو اور جانبازوں سے ہار گئیں.
مگر آج دلجان اور بارگ زندہ ہیں مجھ جیسے ہزار نہیں سینکڑوں نہیں کم از کم دس بیسوں کو تو دلجان و بارک نے سنبھالا ہوگا.
اگر ان دس بیسوں سے دو بھی اس کاروان کا حصہ بنیں دلجان اور بارگ کا یہ جدوجہد رہینگان نہیں گیا جس کیلئے وہ اپنا جان ہتھیلی پر رکھ کر زہری جیسے علاقے میں پہنچ گئیں.
اس ملاقات کے اختتام کے بعد مجھے اپنے وہی جگے پر پہنچا دیا اور واپسی میں یہی کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ
رخصت اف اواروں سنگت

Комментариев нет:

Отправить комментарий