Powered By Blogger

четверг, 16 апреля 2015 г.

’ہم پاکستان کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں: بی ایل ایف کے کمانڈرڈاکٹراللہ نذر سے انٹرویو: کارلوس زوروتوزا,


جمعہ کے روز پاکستانی ذرائع نے خبر دی کہ پاکستان کے جنوبی صوبے بلوچستان میں بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے 20 تعمیراتی کارکنوں کو گولی مار کر ہلاک کیا ہے۔ مبینہ طور پر حملہ آور ایک زیر تعمیر ڈیم کے قریب واقع مزدوروں کے کیمپ میں سیکورٹی گارڈز کو زیر کرنے کے بعد داخل ہوئے اور سوئے ہوئے مزدوروں کو قریب سے گولی مار کر ہلاک کردیا۔

ہدف بنا کر ہلاک کیے گئے تمام مزدور مبینہ طور پر کو بلوچستان سے باہر دوسرے صوبوں سے تعلق رکھتے تھے، ان میں 16 کا تعلق پنجاب اور چار سندھ سے تعلق رکھتے تھے۔ آٹھوں سیکورٹی گارڈز جوکہ سب بلوچستان سے تھے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا۔ بی ایل ایف کے ایک ترجمان نے مبینہ طور پر کہا کہ ان کا ہدف پاکستانی فوج اور حکومت کے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنیوالے کارکن تھے۔
تاہم، بی ایل ایف کے اعلیٰ کمانڈر ڈاکٹر اللہ نذر نے منگل کے روز پاکستانی میڈیا کی طرف سے پیش کردہ بیانیے کو ’’بلوچ تحریک آزادی کیخلاف مکمل اور صریحاً پروپیگنڈہ‘‘ قرار دیا۔ ڈاکٹر اﷲ نذر اس بات پر زور دیکر کہتے ہیں کہ ان کا ہدف فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے کارکن تھے جو کہ پاکستانی فوج سے منسلک ایک ادارہ ہے۔
انہوں نے اس ہفتے کے دوران وائس نیوز کیساتھ کیے گئے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ ’’اگر وہ (تعمیراتی کارکن) محض عام شہری تھے تو کیونکر فرنٹیئر کور (ایک نیم فوجی گروہ) اور دیگر مسلح یونٹس کو ان کی حفاظت پر معمور کیا گیا تھا؟‘‘
بلوچ ایران، پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے آر پار ایک شورش زدہ علاقے میں بستے ہیں۔ یہ ایک وسیع و عریض علاقہ ہے جوکہ فرانس جتنا ہے، اس میں گیس، سونے اور تانبے کے بہت بڑے ذخائر ہیں، زیرزمین تیل اور یورینیم کے بے تحاشہ وسائل ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہاں اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل 600 میل سے زائد طویل ایک ساحلی پٹی ہے جو کہ آبنائے ہرمز کے دہانے کے قریب واقع ہے۔
اگست 1947ء میں بلوچ نے پاکستان سے آزادی کا اعلان کیا لیکن نو ماہ بعد پاکستانی فوج بلوچستان میں داخل ہوئی اور اس پر قبضہ کر لیا جس سے ایک شورش برپا ہوئی جو کہ وقفے وقفے سے آج تک جاری ہے۔
آج جنوبی پاکستان میں چھ سے سات بلوچ باغی گروہ موجود ہیں جو گوریلا جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ تمام نمایاں طور پر سیکولر ہیں، اور آزاد بلوچستان کے ایک مشترکہ ایجنڈے پر متفق ہیں۔
’’جنگ 1948 میں شروع ہوئی، لیکن گزشتہ 14 سال میں پاکستان نے ’مارو اور پھینک دو‘ جیسے سفاکانہ طریقوں کے ذریعے اس کی شدت میں اضافہ کیا ہے‘‘، اﷲ نذر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، جو کہ ایک سابق ڈاکٹر رہے ہیں اور آج کی مجموعی طور پر بلوچ آزادی کی تحریک کے سب سے نمایاں چہروں میں سے ایک ہیں۔
مارچ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک سماعت کے دوران ٹی کمار، جو کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کے بین الاقوامی ایڈووکیسی ڈائریکٹر ہیں، نے پاکستان کی حکومت پر ’’بلوچ عوام کیخلاف جبری گمشدگیوں، تشدد، اور قتل‘‘ کی ایک منظم پالیسی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ کمار نے اس معاملے پر عالمی برادری کی خاموشی کی بھی مذمت کی۔
اگست 2014 میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی حکومت سے ’’پورے ملک میں ریاستی ایجنسیوں کی طرف سے سینکڑوں افراد کے اغواء کرنے اور ان کے انجام یا ٹھکانے کے بارے میں معلومات فراہم نہ کرنے کے ناپسندیدہ عمل کو روکنے‘‘ کا مطالبہ کیا۔
لاپتہ افراد کی صحیح تعداد تا حال نامعلوم ہے اور اس علاقے میں جاکر معلومات اکٹھی کرنا ناممکن ہے۔ تاہم، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز، جوکہ لاپتہ افراد کے خاندان والوں میں سے کچھ کی طرف سے قائم کردہ پرامن احتجاج کرنیوالا ایک وکالتی گروہ ہے، 2000ء کے بعد سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لاپتہ افراد کی تعداد کو تقریباً 20000 بتاتا ہے۔
اﷲ نذر لاپتہ افراد کے حوالے سے بات کرتے ہیں لیکن وہ اندرون ملک لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونیوالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں جوکہ ’’یا تو پاکستانی فوج کی فوجی کارروائیوں کے سبب یا ملک بدری کی پالیسیوں‘‘ کی وجہ سے دربدر ہوئے ہیں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ’’صرف اپریل کے مہینے کے دوران اب تک فوج نے مشکے (اﷲنذر کے آبائی علاقے) میں 200 سے زائد گھروں کو جلا یا ہے اور 25 بے گناہ بلوچ قتل کر دیے ہیں۔‘‘
پیر کے روز، پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ فوج نے بی ایل ایف کے 13 ارکان ہلاک کیے ہیں جوکہ مبینہ طور پر جمعے کے روز ہونیوالے حملے میں ملوث تھے اور دعوے کیساتھ خبر دی کہ ہلاک شدگان میں ایک ممتاز بلوچ کمانڈر بھی شامل تھا۔ لیکن اﷲنذر نے وائس نیوز کیساتھ گفتگو میں بالکل مختلف بات کہی۔
انہوں نے بتایا کہ ’’وہاں پانچ لاش ملے تھے۔ پاکستانی حکام نے جس شخص کی ’کمانڈر حیات بلوچ‘ کے نام سے نشاندہی کی، وہ محض ایک غریب آدمی تھا جو کہ دو سال قبل ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگنے کے بعد سے معذور ہو چکا تھا۔‘‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’’دیگر چار ان لوگوں کی لاشیں تھیں جو ایک سال سے پاکستانی ایجنسیوں کی طرف سے ’غائب‘ کرنے کے بعد لاپتہ تھے،‘‘ انہوں نے پاکستانی ذرائع ابلاغ کی طرف سے پیش کردہ معلومات کو ’’مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا۔

ایک متنازعہ منصوبہ

جمعہ کے روز ہلاک ہونیوالے 20 متاثرین گوادر شاہراہ کی سڑک پر کام کر رہے تھے جو کہ جنوب مغرب میں واقع ایک دور دراز ساحلی مقام ہے۔ یہ ایک متنازعہ چینی اور پاکستانی منصوبے کی وجہ سے خاص طور پر ایک حساس علاقہ ہے جو کہ بیجنگ کو گوادر کے انتہائی اسٹراٹیجک اہمیت کی حامل گہرے پانی کی بندرگاہ کا کنٹرول دے دیگی۔ پاکستانی حکومت نے پہلے ہی سے اس ماہ کے آخر تک اسکے بنیادی ڈھانچے کا افتتاح کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا تھا۔
بلوچ نے کھلے طور پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، انہیں ڈر ہے کہ یہ منصوبہ اس خطے کو ایک اور کراچی میں تبدیل کردیگا۔ آج پاکستان کی اہم بندرگاہ، جو کہ ہمسایہ سندھ کی دھرتی پر واقع ہے، کراچی کے شہری علاقے کی آبادی میں 1947 میں 200000 نفوس سے بڑھ کر آج تقریباً 25 ملین تک پہنچ چکی ہے۔ بلوچ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بھی انفراسٹرکچر انکے علاقے کی نازک آبادیاتی خصوصیات کے توازن کو بگاڑکر انہیں اپنے ہی ملک میں اقلیت میں تبدیل کر سکتی ہے۔
اﷲ نذر نے کہا کہ ’’مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، لیکن گوادر منصوبہ ہمارے لوگوں کیلئے پہلے ہی سے بہت ساری ذلت لایا ہے۔ بات کو آگے بڑھائے بغیر یہ کہنا کافی ہوگا کہ شاہراہ کے ساتھ واقع دیہاتوں میں بسنے والے 40000 سے زائد افراد کو اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا جاچکا ہے۔‘‘
اﷲ نذر مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ ’’وہ تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں جو یہاں آکر نو آبادیاتی سلطنتوں کی خاطر بلوچستان کے وسائل لوٹنے کی کوشش کررہی ہیں‘‘ وہ سب اپنی سرگرمیاں ختم کردیں، اور وہ اس بات کو دوہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک ’’کسی بھی قسم کی جارحیت کیخلاف‘‘ اپنی سرزمین کا دفاع جاری رکھے گی۔ بظاہر، مؤخر الذکر ایک وسیع معنوی حیثیت رکھتی ہے۔
اﷲ نذر نے کہا کہ ’’فوج اور پاکستانی انٹیلی جنس ادارے بلوچستان میں بنیاد پرست اسلام کے فروغ کیلئے ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف یہ ہمارے قومی دعووں اور ہماری جائز جدوجہد سے توجہ ہٹانے کا ایک آلہ ہیں تو دوسری طرف وہ ان بنیاد پرستوں کو ہمارے خلاف لڑنے اور ہماری تحریک کو ختم کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔‘‘
کمانڈر اﷲ نذر مزید کہتے ہیں کہ بلوچستان میں پاکستانی سیکورٹی فورسز چھ تربیتی کیمپوں کی معاونت کر رہی ہیں جہاں داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے رنگروٹوں کو مبینہ طور پر تربیت دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہماری گلیوں میں ان کی موجودگی انتہائی حد تک غالب ہے یہاں تک کہ وہ ان میں بھرتی ہونے کیلئے پمفلٹ تک تقسیم کرتے ہیں۔‘‘
پیٹر چاک، جوکہ رینڈ کارپوریشن کے ایک سیاسی تجزیہ کار ہیں، نے وائس نیوز سے بات کرتے ہوئے بلوچستان میں اسلامی گروہوں کے وجود کی بطور لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان کے نام سے تعیناتی کی تصدیق کی ہے۔
اﷲ نذر کہتے ہیں وہ نہیں چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ انٹرویو باقی دنیا کیلئے المدد کی پکار بھیجے بغیر ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ مہذب دنیا کو یہ بات معلوم ہو کہ ہم پاکستان کے ہاتھوں نسل کشی کا شکار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بین الاقوامی تنظیمیں اس بات کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں۔‘‘

Комментариев нет:

Отправить комментарий