Powered By Blogger

четверг, 28 июня 2018 г.


نوسال کس کرب سے گزرے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:مہلب بلوچ 
’دین‘‘ یعنی کہ میرے والد دین محمد بلوچ، یہ وہ لفظ ہے جب پہلی دفعہ میں نے بولنا سیکھا
مجھے وراثت میں اس نام کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا ہے،میں اپنے پیارے ابوجان کے بارے میں سوچتی ہوں تو سوچ کررہ جاتی ہوں کہ جب مجھے اسکول جانا تھا تب آپ وہاں موجود نہیں تھے،جب مجھے کچھ سیکھنا تھا تب بھی سکھانے کے لئے آپ وہاں موجود نہیں اور نہ ہی کوئی بات ،کوئی اپنی یاد بتانے کے لئے موجود تھے ۔
جب سے مجھے یاد ہے میں ماما (قدیر)کی دوست بن کر پھر رہی ہوں جیسے میں ماماکے خاندان کا ایک بچی ہوں اوروائس فارمسنگ پرسن کاکیمپ ہماری گھرہے لیکن اس گھرکے لوگوں کی زندگی خانہ بدوشوں کی طرح گزررہی ہے۔ کبھی کوئٹہ بھوک ہڑتالی کیمپ ،کبھی کراچی بھوک ہڑتالی کیمپ ،کبھی احتجاج ،کبھی پریس کانفرنس، کبھی ٹرین مارچ توکبھی لانگ مارچ۔۔۔۔۔۔
میرے اّبو جان یعنی کہ’’ ڈاکٹر دین محمد بلوچ جن کو پاکستانی خفیہ ادارے والے حراست میں لے چکے ہیں۔‘‘
کچھ دنوں تک یہ بات مسلسل چلتا رہا کہ’ ڈاکٹر دین محمد کو اس کے ڈیوٹی کہ دوران کچھ لوگ اٹھا کر لے گئے ہیں‘ پھر شاید لوگوں کے لئے یہ بات صرف ایک کہانی بن گئی اورلوگ اس کہانی کو بھولتے چلے گئے مگرمیر ے سینے میں ایک زخم سا بنتاگیا،یہ سانحہ لوگوں کے لئے صرف ایک بات تھی لیکن میرے روح میں اندھیرا ہی پھیلتاگیا، ابو کی سارے پیار، محبت، شفقت سب کچھ بس مجھ سے ہی چھینی گئی تھی ابھی تک تو میں نے ابو کا کچھ نہیں دیکھاتھا،ابھی تومیرے پیار کاحصہ باقی تھا،ظالموں نے مجھے میرے پیارکے حصے سے محروم کیا۔
اسی پیار ومحبت ،اسی نام کے خاطر میں اپنے ابوکی تلاش میں نکلی، ایک تصویرہاتھ میں لیے شہرشہر، گلی گلی ،کوچے، جنگلوں میں پاگلوں کی طرح پھر رہی تھی کہ اچانک راستے میں میری ملاقات ایک بوڑھے آدمی سے ہوئی جس کو لوگ ماماکے نام سے جانتے ہیں اور وہاں اس کے پاس بیٹھی ایک عورت سے بھی ملی جو میری طرح کسی کی تلاش میں تھی جس کوفرزانہ مجید کہتے ہیں، ان کے اردگرد تصویروں سے بھری پڑی تھی، عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے، جوان سب کی تصویریں موجود تھیں ۔
میں اپنے ماماسے پوچھنے لگی’’ یہ کون لوگ ہیں جن کی تصویریںیہاں ہیں؟‘‘
جواب میں مامانے مجھ سے کہا’’ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی غلامی کے خلاف آواز اٹھانا شروع کیا ،ان آواز کو دبایا گیا، ان کو پاکستانی اذیت گاہوں میں ڈالا گیا، جس طرح تمہارے ہاتھ میں جو یہ تصویر ہے یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔‘‘
میں ان تصویروں کو بڑی گہرائی سے دیکھ رہی تھی، جی چاہ رہی تھی بس دیکھتی جاؤں یہ ساری تصویریں بہت تکلیف دے رہی تھیں مجھے، میں نے تمام تصویروں کو گلے لگائی
ہر تصویر کی کہانی الگ تھی، ہر تصویر میں الگ الگ چہرے تھے، ہر تصویر پر الگ الگ تاریخ درج تھیں ،کسی پر ایک سال پرانی تاریخ تھی تو کسی پر چار سال، کسی اور تصویر پرآٹھ سال تو کسی پر دس سال پرانی تاریخ ۔
آخر میں میں نے بھی اپنی ہاتھ کی تصویر ان تصویروں کے ساتھ رکھا
چونکہ میری عمر بہت چھوٹی تھی اور میں بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھی تھی جہاں پر کچھ بھی کھا پی نہیں سکتے تھے، شروع شروع میں شام کے وقت بھوک اور پیاس برداشت سے باہر ہوتی تھی پھر آہستہ آہستہ کچھ دنوں بعد عادت سی ہونے لگی۔ روڈ پر بیٹھنے کی، گاڑیوں کے شور سننے کی،انسان کے دردسے بیگانے آتے جاتے لوگوں کی ۔
جب میں زیادہ بیزار ہوتی تھی تو وہیں کھیلنا شروع کرتی تھی ،اپنی اسکول کی کتابیں بھی ساتھ لاتی اور پڑھتی تھی۔
جب نیند آتی تھی وہیں تصویروں کے پیچھے سو جاتی تھی، مجھے یاد ہے ۔جب میں نیند سے اٹھتی توماما کہتا’’ بیٹا پریس یا میڈیا والے آگئے لیکن تم سو رہی تھی اس لئے میں نے ان سے کہا تھوڑی دیر بعد آجائیں،ہاں ابھی تک میرے لوگ نہیں آئے ہیں۔ ‘‘
جب واپس میڈیا والے آتے ایک عجیب انداز سے کہتے’’ تم لوگوں کی بس یہی ایک بچی ہے؟‘‘
میڈیاوالے ہماری مختصر انٹرویو کر کے چلے جاتے۔
کیمپ میں کچھ دن بعد میری ملاقات میری ہم عمر لڑکی سے ہوئی ،اسے دیکھ کر تھوڑی بہت خوشی ہوئی چلو یہاں پرمیری بھی ہم عمر کی لڑکیاں آتی ہیں۔ اسکی ہاتھ میں بھی ایک تصویر تھی، میں اس سے ملی، ہماری تھوڑی بہت دوستی ہوئی، میں اس سے پوچھنے لگی’’تمہاری ہاتھ میں جو تصویر ہے یہ کس کی ہے؟‘‘
وہ درد بھری نگاہوں سے تصویر کوتکتی ہوئی کہنے لگی’’ یہ میری بابا کی تصویر ہے ،ان کا نام علی اصغر بنگلزئی ہے، میرے پیدا ہونے کے دو مہینے کے بعد ان کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی والی لے گئے ہیں ،اب ان کو نو سال گزر گئے ہیں، اب بھی ہمیں کوئی بھی اطلاع نہیں ہے ان کے بارے میں ،میں ہمیشہ یہاں ماما کے کیمپ میں آتی ہوں۔‘‘
یہ باتیں سن کر میرے اندر ایک گھبراہٹ سی ہونی لگی، اندر سے ایک خوف پھیل رہی تھی، میری ہاتھ میں جو تصویر تھی وہ تصویر لرزنے لگی ۔میری آنکھ آنسوؤں سے بھرگئے ،بارباریہی بات میری ذہن میں گردش کرنے لگی کہ کہیں ایسا نہ ہو میرے بابا بھی اتنے عرصے تک لاپتہ رہیں۔ اتنے لمبے عرصے تک میں اپنے بابا کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتی ہوں۔ کیسے اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکتی ہوں؟
کئی عجیب طرح کے سوال میرے ذہن میں جنم لے رہے تھے۔
میں نے بہت خوفزدہ انداز سے اس لڑکی سے سوال کیا، شاید میری سوال بے مطلب ہو لیکن اس وقت مجھے اس سوال کا اندازہ نہیں تھی ،شاید مجھے اس وقت اس کے دل میں جو سمندر جیسے گہرے زخم تھے۔ درد اور تکلیفوں کی کوئی انتہا نہ تھی، مجھے اس وقت اسکا اندازہ نہیں تھا،شاید میں اس وقت اتنے لمبے عرصے کی بڑی تکلیف سے نہیں گزری تھی۔
میں نے پوچھا،’’ کیا تم اتنے لمبے عرصے تک اپنے بابا کو نہیں بھولے ہو؟
کیونکہ تمہیں اپنے بابا کا چہرہ بھی یاد نہ ہوگا‘‘
یہ سوال سننے کے بعدوہ لڑکی کچھ لمحوں تک خاموش رہنے کے بعد بڑی بے بسی اور ناامیدی سے نے کہامہلب
’’یہ ایسا زخم ہے جو کبھی نہیں بھرتا اور نہ اس کے نشان کبھی تمہیں بھولنے دیں گے‘‘
اوپرپھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہنے لگی میری دعا یہی ہے کہ جتنے لمبے عرصے تک میں جتنی تکالیف سہہ لئے ہیں،یہ تکالیف کوئی اور نہ سہے
وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی،مجھے بہت افسوس ہواکہ میری وجہ سے انہیں تکلیف ہوئی ، میں نے انہیں گلے لگائی اورمیرے پاس چند جھوٹے تسلی کے کچھ الفاظ کے سواکچھ بھی نہ تھا جو انہیں دے سکوں ۔
پھر کیاہوا؟
میرے ابوایک تصویر کے فریم بند میرے ساتھ ہے لیکن مجھے کیا پتہ تھی کہ ایک دن میرے ابو کو بھی پاکستان کے زندانوں میں نو سال مکمل ہو جائیں گے اور میں اس کے لیے انتظار کے سوا کچھ نہیں کر سکوں گی،انتظاربس انتظاراورایک تصویر۔۔۔۔
اب مجھے میری دوست کے تمام باتوں کی آزمائش ہو گئی ہے۔
نو سال کس درد ناک کرب سے گزر گئے اس کی بھی اندازہ ہوئی ہے مجھے
نو سال دن رات اسی خوف میں مبتلا گزرے ہیں کہ کہیں والد کی مسخ شدہ لاش ملنے کی خبر نہ آئے،کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ میرے والد بازیاب تو ہوئے ہیں لیکن ہمیشہ کے لئے اپاہج اور معذور ہیں یا پھر اپنی دماغی تواذن کھو بیٹھے ہیں۔
یا پھر توتک اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں جو صرف چندہڈیوں کی شکل میں انسان ملے ہیں، کہیں ان میں سے ایک میرے بابا نہ ہوں
بلوچستان کے کسی بھی کونے سے کسی بلوچ فرزند کی رہائی کی خبر آتی تھی ہم زمین ،آسمان ایک کر کے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ شاید وہ اذیت خانوں میں میری بابا سے ملے ہوں ،کوئی خبر یا کوئی پیغام ساتھ ہو لیکن ہر کسی سے نا امیدی کے سوا اور کچھ نہ ملی۔
ان نو سالوں میں ہم ہر رات اسی امید پر سوتے اورصبح جاگتے ہیں کہ جس طرح ہر اندھیری رات کے بعد ایک صبح ضرور ہوتی ہے ہمارے لئے بھی ایک صبح ضرورہوگی لیکن میرے لئے اور میری فیملی کے لئے کسی بھی اندھیری شب کے بعد کوئی صبح نہ ہوئی،ہم ابھی تک ظلم کے اندھیرے میں جی رہے ہیں نہ جانے کب تک۔۔۔۔؟

Комментариев нет:

Отправить комментарий