Powered By Blogger

четверг, 28 августа 2014 г.

خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ
ارشاد مستوئی۔۔۔۔۔ 
گوکہ سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے یہ دعوے کئے جاتے ہیں کہ بلوچستان کے حالات تبدیل ہورہے ہیں اور ماضی کی نسبت امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہے لیکن دوسری جانب بلوچستان میں تشدد کے واقعات بدستور برقرار ہیں بلکہ گذشتہ ہفتہ کوئٹہ اور مستونگ میں ہونے والے واقعات سے خوف دہشت اور عدم تحفظ کے نئے احساس نے جنم لیا 21 جولائی کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب میں کلی کمالو کے مقام پر چار بلوچ خواتین پر اس وقت سرنج کے ذریعے تیزاب پھینکا گیا جب وہ عید کی شاپنگ کیلئے جارہی تھیں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر تیزاب پھینک دیا اور فرار ہوگئے تیزاب حملے میں خواتین کے ہاتھ پیر اور چہرے جھلس گئے جنہیں طبی امداد کیلئے بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
بلوچستان کے کسی بلوچ آبادی والے علاقے میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کا سلسلہ تین چار سال قبل سابق حکومت کے دور میں شروع ہوا جب قلات اور دالبندین میں ایک شدت پسند گروہ نے پمفلٹ سازی کرتے ہوئے خواتین کے چار دیواری سے باہر نکلنے پر خود ساختہ پابندی عائد کی ‘‘2010ء میں قلات اور دالبندین میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہوئے دالبندین میں بلوچ غیرت مند نامی ایک تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبو ل کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ ’خواتین نہ صرف پردے کی پاسداری کریں بلکہ وہ کسی مرد کے بغیر بازار نہ جائیں
واقعہ کے فوراً بعد صوبائی وزیر داخلہ و قبائلی امور میر سرفراز بگٹی نے نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ انتظامیہ سے رپورٹ طلب کرلی جبکہ کیپٹل سٹی پولیس آفیسر عبدالرزاق چیمہ نے اس واقعہ کی تحقیقات کیلئے اے ایس پی سریاب کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دیدی اور اس کو فوری طور پر تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ابھی چوبیس گھنٹے نہیں گزرے تھے کہ ضلع مستونگ میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کا ایک اور واقعہ پیش آیا مستونگ شہر میں 14 سے 15 سال کے درمیان عمروں کی دو بہنیں عید کی خریداری کے لیے بازار آئی تھیں خریداری کے بعد جب یہ واپس گھر جا رہی تھیں توموٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے ان پر تیزاب پھینک دیا تیزاب ان میں سے ایک کی گردن جبکہ دوسری کے چہر ے پر گرگیا۔ دونوں بہنوں کو ابتدائی طبی امداد کے لیے مستونگ شہر میں ایک پرائیویٹ ہسپتال منتقل کر دیاگیا ہے تاحال حملے کے محرکات معلوم نہیں ہو سکے بلوچستان میں 24گھنٹوں کے دوران تیزاب پھینکنے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
بلوچ قوم پرست اور علیحدگی پسند حلقوں کی جانب سے اس پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ ان واقعات کو بلوچستان کے ترقی پسند و روشن خیال چہرے کو مسخ کرنے کی گھناؤنی سازش قرار دیا گیا حکمران جماعت نیشنل پارٹی کے ترجمان نے خواتین پر تیزاب پھینکنے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے بلوچ علاقوں میں خواتین و معصوم بچیوں پر تیزاب پھینکنے کے عمل کو کھلی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دہشت گرد عناصر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرکے معاشرے کو تہہ و بالا کرکے دہشت گردی و انتہاء پسندی کے ذریعے اپنا ایجنڈہ مسلط کرنا چاہتے ہیں جس کی اجازت کوئی بھی مہذب معاشرہ نہیں دے سکتا تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پروزور مطالبہ کرتے ہیں ان واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے ضرورت پڑنے پر ایسے دہشت گرد عناصر کے خلاف ضرب عضب طرز کے آپریشن کے آغاز سے بھی گریز نہ کیا جائے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے ان واقعات کی مذمت کی گئی ہے جبکہ علیحدگی پسند حلقوں کا خیال ہے کہ بلوچستان کی آزادی کے حوالے سے جاری تحریک کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی سے ریاستی قوتیں خوفزدہ ہیں اور انہوں نے بلوچ تحریک کا راستہ روکنے کیلئے انتہاء پسندی و مذہنی جنونیت کے بیج بونا شروع کردیئے ہیں ہزارہ برادری کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کے بعد خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ انہی سلسلوں کی کڑی ہے تاکہ بلوچ تحریک کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کیا جاسکے بلوچستان کے سنجیدہ حلقوں کو بھی ان واقعات پر تشویش لاحق ہے سینئر صحافی تجزیہ نگار سلیم شاہد کا کہنا ہے کہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اور یہاں دشمنیاں نبھانے کیلئے کبھی بھی تیزاب پھینکنے کا طریقہ نہیں اپنایا گیاہم یہ سنتے رہتے تھے کہ پنجاب میں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں خواتین کے چہروں کو مسخ کرنے کے لیے تیزاب پھینکا جاتا ہے۔
بلوچستان میں خواتین کے خلاف یہ ایک نئی چیز ہے اس پر لوگوں کو یہ تشویش ہے کہ بلوچستان میں یہ طریقہ کہاں سے آیا؟ بلوچستان کے کسی بلوچ آبادی والے علاقے میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات کا سلسلہ تین چار سال قبل سابق حکومت کے دور میں شروع ہوا جب قلات اور دالبندین میں ایک شدت پسند گروہ نے پمفلٹ سازی کرتے ہوئے خواتین کے چار دیواری سے باہر نکلنے پر خود ساختہ پابندی عائد کی ‘‘2010ء میں قلات اور دالبندین میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رونما ہوئے دالبندین میں بلوچ غیرت مند نامی ایک تنظیم نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبو ل کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ ’خواتین نہ صرف پردے کی پاسداری کریں بلکہ وہ کسی مرد کے بغیر بازار نہ جائیں بصورت دیگر ان کے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی واقعہ کا وہ خود ذمہ دارہونگی۔‘ دالبندین میں پمفلٹ تقسیم کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ غیرت مند بلوچ اپنی خواتین کو بازار جانے نہ دیں۔ اگر کوئی مر یض ہو تو اپنے ساتھ مرد ضرور لائے اور جو خواتین کھلے منہ بازار اور گلیوں میں نظر آئیں ان کے چہروں پر تیزاب چھڑک دیں گے جس کی ذمہ داری متاثرہ خواتین پرعائدہوگی۔
پمفلٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بازار شیطان کی جگہ ہے اور آج کل خواتین بازارمیں شاپنگ کرنے کے لیے ایسی ملبو سات پہن کر آتی ہیں کہ شیطان بھی شرما جاتاہے۔پمفلٹ کے آخرمیں دائیں طرف ایک دکان میں کاسمیٹک کا سامان دکھایاگیا ہے جس پر کراس کا نشان ہے جبکہ بائیں جانب ایک پرانی عمارت کی تصویر دکھائی گئی ہے جو سادگی کی زندگی کو ظاہر کرتی ہے۔بلوچستان میں تقریباً تمام قوم پرست جماعتوں بشمول بلوچ مزاحمتی تنظیموں نیخواتین پر تیزاب پھنکنے کی شدید مذمت کی تھی اور اس واقعہ کو بلوچ روایات کے خلاف قرار دے دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ بعض قوتیں بلوچ معاشرے کو رجعت پسندی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں جسے بلوچ قوم ناکام بنادے گی۔
کوئٹہ اور مستونگ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کی تو کسی تنظیم یا گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے طاہر حسین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ وویمن پروٹیکشن ایکٹ کے نافذ العمل نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے واقعات ہورہے ہیں جب تک مکمل طور پر وویمن ایکٹ کے نفاذ کو یقینی نہیں بنایا جائے گا صورتحال کی بہتری ممکن نہیں ہوسکے گی ادھر سنجیدہ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ خواتین پر تیزاب پھینکنے کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یہ سماج سرمایہ داری کے زیرِ اثر گل سڑ چکا ہے اور بربریت روز بروز نئی شکلوں میں اپنا اظہار کر ہی ہے۔ان حالات میں ملائیت اور بورژوا لبرلازم دونوں ہی عورت کی نجات کے لئے کوئی لائحہ عمل دینے سے قاصر ہیں۔مذہبی بنیاد پرستی اور مغربی لبرل ازم دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
یہ دونوں عورت کو استعمال کی ایک چیز سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ استعمال کے ’’طریقہ کار‘‘اور حدود پر اختلاف بہر حال موجود ہے۔ملائیت عورت کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر کے شوہر، باپ اور دوسرے نام نہاد خاندانی رشتوں کا غلام بناتی ہے تومغربی لبرل ازم اسے نام نہاد آزادی دے کر بازار میں سرِ عام نیلام کرتا ہے۔ حقوق نسواں کا کاروبار کرنے والی این جی اوز اور دیگر تنظیمیں بھی سامراجی قوتوں کی آلہ کار ہیں۔ آج کے معاشرے کی خواتین میں بھی طبقاتی فرق نمایاں ہے۔ایک جانب وہ خواتین ہیں جو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ جو پارلیمنٹ اور اقتدار کے دیگر ایوانوں میں محنت کشوں کو کچلنے والی پالیسیاں ترتیب دینے میں سرگرم ہیں۔ایسی خواتین بھی ہیں جو گھریلو ملازم محنت کشوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہیں اور خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتی ہیں۔جن خواتین نے اپنی زندگیوں کو طبقہ امرا کے مردوں لیے نمائش بنا نے پر اکتفا کر لیا ہے،ہر وقت نئے زیورات اور لباس کے لیے تگ و دو ان کی زندگی کا محور ہے۔
جبکہ دوسری جانب وہ خواتین ہیں جو سخت موسموں میں بھی خاندان کی کفالت کے لیے شدید مشکلات برداشت کرتی ہیں اور زمانے بھر کی ذلتوں کا سامنا کرتی ہیں۔ان دونوں طبقوں کی خواتین کے مسائل اور زندگیاں مختلف ہیں اس لیے ان کی سیاسی اور سماجی جدوجہد بھی مختلف ہے۔گھریلو کام کاج جو محنت کش خواتین کی پیدائشی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے امیر گھرانوں کی خواتین اس سے مستثنیٰ ہیں بلکہ اسے قابل فخر سمجھا جاتا ہے کہ انہیں یہ کام نہیں آتے۔حقوق نسواں کا کاروبار کرنے والے افراد اس طبقاتی تفریق کو ماندکرنا چاہتے جو اس سماج کی جڑوں میں موجود ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عورت سماجی طور پر تب تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک وہ معاشی طور پر آزاد اور خود مختار نہ ہواور یہ معاشی و سماجی خود مختاری موجودہ نظام کے زیرِ اثر رہ کر حاصل نہیں جا سکتی۔


Комментариев нет:

Отправить комментарий