Powered By Blogger

суббота, 16 февраля 2019 г.

 یہ موازنہ یا تقابلی جائزہ آخر کیوں؟ ... ڈاکٹر جلال بلوچ


کبھی ویتنامیوں کی مثال دے کر بلوچ قومی تحریک کو ناکام ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ، کبھی کیوباء، کبھی ساؤتھ افریقہ، کبھی الجزائر، کبھی سویت یونین ،کبھی چائنا، کبھی تامل اور کردوں اور آج کل پشتون تحفظ موونٹ کو بلوچ قومی تحریک کے لیے ایک مثال بنا کے پیش کیا جارہا ہے۔

یہ مباحثے ہمیں عام لکھاریوں یا عام لوگوں کی جانب سے دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتے بلکہ ایسے رویے اکثر قومی آزادی سے وابستہ لکھاریوں یا بعض اوقات تحریک میں ذمہ داریاں سنبھالیں لوگوں میں بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔

کیا اس قسم کے خیالات، سوچ یا منطق سے مبرا رویے سیاسی نابلدگی یا عمل سے راہ فرار تو نہیں ؟ الغرض کیفیات جو بھی ہوں وہ الگ بحث ہے۔ اس مضمون میں دیکھتے ہیں، کسی تحریک کا دوسرے تحریک یا تحریکوں سے موازنہ کرنے کے لیے اصول کیا ہیں خصوصاً بلوچ قومی تحریک کا پشتون قومی تحریک سے موازنہ کے زاویے کو نگاہ میں رکھ کر اور مختصراً سیاسی نظام کے اس اہم موضوع (تقابلی سیاست)پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا۔

کسی بھی سیاسی کارکن کے لیے وابسطہ تحریک کا موازنہ کسی دوسرے تحریک سے کرنے کے لیے پہلے پہل خود سے اس ضمن میں چندضروری سوالات پوچھے ، جو کسی تحریک کا دوسرے تحریک سے موازنہ کرنے کے بنیادی اصول ہیں کہ

۱۔وابسطہ تحریک اور جس سے یا جن سے موازنہ کیا جارہا ہے ان کی سماجی نوعیت اور دشمن کی حالت؟۔۲۔تاریخی حیثیت،(نیزاس مد میں ماضی کے تجربات بھی اہمیت کے حامل ہیں)۔۳۔تحریکوں کی نوعیت، حالیہ اور سابقہ حیثیت، دشمن کی سابقہ اور موجودہ حیثیت۔۴۔ دنیا یا آس پاس کے حالات(موجودہ معروضی اور موضوعی حالات) وغیرہ۔ موازانہ کرتے وقت ان عوامل پہ وسیع نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے نہیں تو انسان اپنی حالت اور دوسروں کی کامیابیوں یا ان کے حالات دیکھ کر مایوسی کی بھنورمیں پھنس سکتا ہے۔

آتے موضوع کی جانب کہ بلوچ تحریک کا موازانہ کیوں دیگر تحریکوں سے کیا جاتا ہے؟ کیسے اس سوال کا جواب تواکثر اوقات ہمارے دانشور اور قلم کار بھی دینے سے قاصر رہتے ہیں۔اس کی آسان سی مثال ہم یوں لے سکتے ہیں ۔جب وہ ویتنام کی مثال دیتے ہیں تو یہ کہنے سے ہی قاصر ہیں کہ ویتنام کے کس دور کا ہم بلوچ تحریک سے موازنہ کررہے ہیں؟ یا کیوبا کی مثال دیتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ کیوباء میں فوکو تھیوری کا نظریہ ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے ،جب کہ بلوچ قومی تحریک کو دیکھتے ہوئے جہاں مسلح جدوجہد کے ساتھ ہمیں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچستان ریپبلکن پارٹی یعنی جماعتی اوور تنظیمی صورتحال وغیرہ کے طرز سیاست کا نظارہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جو کیوبن انقلاب کے طریقہ کار سے متصادم ہے۔ایک اور مثال لے لیتے ہیں جو بلوچ قومی تحریک اور اس کا موازنہ بھی کیا جاتا ہے، وہ ہے سویت انقلاب۔اب بلا سویت یونین یا روس کی بالشویک انقلاب جہاں نظام اور ایک نئے معاشی نظریے کو لاگو کرنے کی جدوجہد ہورہی تھی اس کا بلوچ جہد آزادی سے کیا رشتہ اوور کیسا موازنہ۔اور نہ ہی اس ضمن میں سویت اور بلوچ سماج، جغرافیہ اور اس دور کے حالات اور ماضی کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔

ان تقابلی جائزوں میں کبھی بھی ہمارے قلم کاروں ، سیاسی دانشوروں نے جغرافیہ، سماج(تحریک سے وابستہ افراد اور دشمن)حالیہ اور سابقہ حیثیت، جدوجہد کی طوالت، سابقہ غلطیوں کا ازالہ، تحریک کی ساخت وغیرہ کی جانب توجہ دینے کی جسارت ہی نہیں کی ۔ اکثر کسی ایک واقعہ کو لے کر یا کسی ایک ہستی سے متاثر ہوکر مفروضات کی رو میں بہنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن ویتنامی تحریک میں فرانسیسی عہد کو وہ بھول جاتے ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد ویتنامی فرانسیسی عسکری اداروں میں اپنے ہی لوگوں کا لہو بہارہے تھے اور پچاس ہزار سے زائد ویتنامیوں کو فرانس میں تربیت دی گئی کہ وہ جاکے ویتنام میں فرانسیسی ثقافت کو فروغ دیں یا یوں کہہ سکتے ہیں نوآبادیاتی نظام کو طول دیا جائے۔اور چائنا کی مثال دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ ماؤزے تنگ نے تضادات پہ قلم اٹھانے کی جسارت کیوں کی؟ یا منشویک پارٹی کے قیام کو قصداً زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔ ایسے مباحثے، تحریر و تقاریر وغیرہ انسان کی مایوسیانہ کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ البتہ ایسا بھی نہیں کہ ان تحریکوں کو زیر بحث نہ لایا جائے لیکن شرط پھر وہی ہے کہ جب تک ہمیں ان پہ مکمل عبور وہ بھی تجزیاتی زاویے سے نہ ہو تو ان پہ بحث کرنا ، بات کرنا اور کچھ تحریر کرنا فائدے کی بجائے نقصانات کا باعث بنتے ہیں۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اگر ہم بلوچ سماج کا جائزہ لیں تو ہمیں اپنی قومی تاریخ، جدوجہد کی تاریخ اور آج ہم کس سطح پہ پہنچ چکے ہیں دیکھنے چاہیے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری جدوجہد سے دیگر اقوام پہ کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ہمارے ادارے کس حد تک مضبوط ہیں اور ان میں موجود کارکنان کی ذہنی سطح کیا ہے؟ اداروں کا قیام اور دورانیہ کتنا طویل ہے اور اگر کمزوریاں موجود ہیں تو اس کے اثرات کیا مرتب ہوئے ہیں ، مثلاً اگر ادارے حقیقتاً کمزور یا نا قابل اصلاح ہیں تو ان کی وجہ سے تقسیم کے مرحلے سے ہم کتنی بار گزرچکے ہیں اور اس تقسیم سے کام میں جدت آیا ہے یا ہم زوال کی جانب محو سفر ہیں؟۔ دوسری بات سماج کی سیاسی سوچ کی سطح کیا ہے؟سماج کی بات اس لیے کہ ان باتوں کا براہ راست اثر سماج پہ پڑتا ہے جو تحریک کا محور ہے، بسا اوقات یہاں تحریک کی جو ساخت ہوگی سماج بھی اسی ڈھگ پہ چل سکتی ہے۔

جب مباحثوں، تحریر و تقاریر میں منطق پسِ آئینہ چلا جائے تو ان کی وجہ سے اکثر ہوتا یہ ہے کہ جنگ کی سختیوں سے تنگ آنے والے غیر منطقی سوالات ذہن میں لیے مزید مایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ، جس کے اثرات عوام کے ساتھ عام کاکنوں پہ بھی پڑتے ہیں، جو یقیناًکسی بھی تحریک کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

بحث ، تقابلی جائزہ یا موازنہ الغرض ماضی میں جو ہوا ،سو ہوا، جہاں دنیا کے دیگر آزاد ریاستوں یا کامیاب تحریکوں کی ہمیں جو مثالیں دی جاتی تھی یا اب بھی دی جاتی ہے ۔پر آج کل سوشل میڈیا پہ چلنے والا ایک اورمباحثہ جس کے اثرات ہم جہدکاروں میں شدت کے ساتھ محسوس کررہے ہیں ۔وہ ہے پشتون تحفظ موومنٹ کا بلوچ قومی تحریک سے موازنہ۔ان مباحثوں میں دلیل، منطق اور سیاسی اصولوں یا طریقہ کار پردہ سکرین سے غائب ہیں۔ جن سے ایسا لگتا ہے کہ یہ مباحثے نہیں بس دل کا غبار ہے جو نکالاجارہا ہے یاتحریک کی سختیوں سے دل برداشتہ ہوکر راہ فرار اختیار کیا جارہا ہے یا کسی ایک فرد سے متاثر ہوکر یا چند ایک موقعوں پہ عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر اثر لیا جارہا ہے وغیرہ وغیرہ۔اس حوالے سے نہ ہمارے یہ تجزیہ نگار نظریہ عدم تشدد کی وجہ سے پشتونوں کا ماضی دیکھتے ہیں جہاں خان غفار خان نے کانگریس سے متاثر ہوکر پشتون قوم کی فطرت کے خلاف انہیں نظریہ عدم تشدد کی جانب گامزن کرنے کی کوشش کی جس کی سزا آج تک پشتون غلامی کی صورت میں بگھت رہی ہے۔حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پشتون قوم فطرتاً مزاحمت پسند ہے اور وہ کسی غیر کو اپنی سرزمین پہ برداشت نہیں کرسکتے۔جیسے برطانیہ جو فقط انتالیس(۳۹) سال تک افغانستان پہ حکمرانی کرسکا اور آخر کار اسے پشتون مزاحمت کے سامنے سرتسلیم خم کرنا پڑا، دور جانے کی ضرورت نہیں سویت یونین کی مثال سب کے سامنے ہے اور آج کل امریکہ کی پسپائی کے چرچے زبان زد عام ہے۔اب بلا ایک ایسی قوم جورضاکارانہ طور پر اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے آخری حد تک جاسکتا ہے اسے نظریہ عدم تشدد کے فلسفے سے مسلح کرنے کا منطق کیا؟ لیکن بلوچوں نے قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کے ہوتے ہوئے بھی مزاحمت شروع کی حالانکہ اس وقت قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ بھی گاندھی جی سے متاثر تھے، لیکن بلوچوں نے پارٹی کی پروا کیے بغیر فطری اصولوں کی پیروی کی جو آج تک جاری و ساری ہے۔ایک اور اہم بات جو نظر اور سوچ سے غائب ہے وہ ہے تحریک کی ساخت اور مقاصد۔یہاں بلوچ واضح موقف لیے جدوجہد کررہے ہیں جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ ریاستی نظام میں تبدیلی کی بات۔اب بلا موازنہ کیسے اور کیونکر؟

بلوچ قومی تحریک اور اس خطے میں چلنے والی دیگر تحاریک یا اقوام کا اس ضمن میں پس منظر یا اس خطے میں بلوچ قوم کی ذہنی سطح کیا ہے؟ اس حوالے سے کوئی دس سال قبل کا ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے ایک پشتون دوست کے ساتھ پیش آیا۔ میرے اس رفیق کا کہنا ہے کہ جب میں کسی تربیتی پروگرام کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا تھا تو وہاں کسی سندھی قوم پرست سے قوم، قومیت اور قومی جدوجہد کے حوالے سے بات چیت ہوئی تو اس دوست کا کہنا تھا کہ سندھی ساتھی نے بلوچ قوم پرستی پہ تنقید کیا اور اس کے مقابلے میں سندھی قوم پرستی کو مضبوط خطوط پہ ظاہر کرنے کی کوشش کی اور یہاں تک کہ پاکستان سے چھٹکارے کے لیے انہوں نے سندھیوں کی جدوجہد کو بلوچ تحریک پہ فوقیت دی اور بلوچ قوم کو سیاسی حوالے سے پست اور حقیر ظاہر کرنے کو کوشش کی۔تو پشتون دوست کا کہنا تھا کہ میں نے فقط اتنا کہا کہ ’’بلوچوں نے تو روز اول سے اپنی آزادی کی جدوجہد شروع کی جبکہ سندھیوں کو ابھی ہوش آرہا ہے اس سے نتیجہ یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ سیاسی پختگی میں سندھی بلوچوں سے ساٹھ (۶۰)سے پیچھے ہیں۔‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اس پشتون دوست کی اس بات نے ساری حقیقت کوایک ہی جملے میں سمیٹ دیا۔کہ اس خطے میں موجود دیگر اقوام کا بلوچ قوم سے سیاسی سوچ اور جدوجہد کے حوالے سے کیا موازنہ کیا جاسکتا ہے۔

اس تاریخی حقیقت سے کوئی ذی شعور جو سیاست کی اونچ نیچ سے واقف ہے انکار نہیں کرسکتا کہ اگر دیگر اقوام اس خطے میں اپنی آزادی یا حقوق کی بات کرچکے ہیں، کررہے ہیں یا کریں گے تو ان پہ براہ راست بلوچ تحریک کے اثرات ہی مرتب ہوئے ہیں ، ہورہے ہیں اور ہوتے رہینگے۔کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست پاکستان کے خلاف پہلی جدوجہد بلوچوں نے شروع کی جو ہنوز جاری ہے ۔ہاں ایسا بھی نہیں کہ تحریک میں کمزوریاں نہیں ہے یا ماضی میں غلطیاں سرزد نہیں ہوئی۔ لیکن موجودہ تحریک کو دیکھتے ہوئے جو گزشتہ دو دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے جس میں ہزاروں بلوچ فرزند شہید ہوچکے ہیں اور نصف لاکھ کے قریب بلوچ ریاستی عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک کی روانی میں کوئی فرق نظر نہیں آتا بلکہ موجودہ تحریک میں پہلی دہائی کی نسبت دوسری دہائی میں شدت دیکھنے کو ملتی ہے حالانکہ اس دوران اختلافات کی ایک لہر بھی اٹھی جسے دیکھ کر بعض لکھاری، دانشور اور مدبرین اسے تحریک کا زوال تصور کررہے تھے لیکن آج ان اختلافات کی وہ صورت برقرار نہیں یا جنہوں نے اس دور میں رجعت پرستانہ سوچ کی ترویج کی ، اس سے انہیں نقصان اٹھانا پڑاجبکہ مجموعی طور پر تحریک میں جدت کی لہر دوڑنے لگی جو کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے اہم اور بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔

جبکہ بلوچ قومی تحریک کے برعکس پشتون تحفظ موومنٹ جس کے بارے میں ابھی تک یہ کہا جاتا ہے کہ یہ محض ریاست میں نظام کی تبدیلی اورچند ایک حقوق کی جدوجہد کررہی ہے، اس سے لگتا کچھ ایسا ہے کہ یہ ماضی کی ان غلطیوں کو دہرارہی ہے جو خان باچا خان سے سرزد ہوئی۔ جبکہ بلوچ قومی تحریک واضح موقف کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری ہے جہاں وہ مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے باوجود بھی آزادی کی سوچ سے کبھی غافل نہیں رہے۔اور یہی سوچ ہے، جس کے اثرات سماج پہ پڑتے ہیں جو کسی بھی تحریک کا محور ہے ۔جس کا نظارہ ہمیں آج پورے بلوچستان میں عملی صورت میں نظر آرہاہے۔جبکہ پشتونوں میں آج تک پاکستان سے آزادی کی کوئی لہر دیکھنے کو نہیں ملتی ، تحریک کا ذکرتو دور کی بات ہے۔ تو بلوچ قومی تحریک کا پشتون تحفظ موومنٹ سے موازنہ یا تقابلی جائزہ کیسے اور کیونکر۔؟حتیٰ کہ دوسرے لوازمات اور جزئیات جو کسی تحریک کے لیے لازم ہوتے ہیں پہ بات ہی نہیں کرتے ، جن میں جغرافیہ، ماضی، جماعت یا تحریک کی ساخت، دارانیہ ، وقت وحالات ، سختیاں، قربانیاں اور افلاس اور اس میں ثابت قدمی وغیرہ۔جن سے ابھی تک پشتون قومی آزادی یا قومی سوچ کی مناسبت سے گزرے بھی نہیں۔ ہاں البتہ یہ ممکنات میں سے ہے کہ آنے والے دنوں میں اس خطے میں پشتونوں کے ساتھ ساتھ دیگر محکوم اقوام بھی اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے جدوجہد شروع کریں پریہاں یہ بات یا د رکھنے کی ہے جب بھی اس خطے میں کوئی تحریک ابھرے گی وہ بلووچ قومی تحریک سے ہی متاثر ہوگی کیونکہ اس خطے میں جدوجہد کی ماں بلوچ قومی تحریک ہی کہلاتی ہے اور کہلائیگی۔

سماجی اور سیاسی نشوونماء کے لیے میں ہمیں بلوچ قومی تحریک کا دیگر تحریکوں یا کسی بھی سیاسی عمل کا موازنہ کرنے کے لیے سائنسی نقطہ نگا ہ رکھنا چاہیے جو سیاسی نظام کا حصہ بھی ہے ۔اگر ہم تقابلی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر رائے قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے ان کارکنوں میں ابہامی کیفیت پیدا ہوگی جو ابھی تربیت کے مرحلے سے گزررہے ہیں یا جنہوں نے ابھی تربیت حاصل کرنی ہے۔

جب تقابلی سیاست کی بات ہوتی ہے تو شعور میں یہ الفاظ گردش کرتے ہیں کہ تقابلی سیاست کسی بھی سیاسی تنظیم کی نشوونماء میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور سیاسی کارواں کو کامیابی سے منزل مقصود کی جانب لیجانے کا اہم ذریعہ ہے ۔جس سے حالات کو مدِ نظر رکھ کر سمتوں کا درست تعین کیا جاتا ہے ۔ یہ وہ اہم طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سیاست کے اصولوں اور عمل کا تعین کیا جاتا ہے ۔ اس طریقہ کار کے اپنانے سے مختلف سیاسی مسائل، وابستہ تحریک کا دیگر تحریکوں سے موازنہ کرنے کا طریقہ کار کاتجزیہ کرکے ان کی نوعیت معلوم کی جاتی ہے جس سے مختلف سیاسی کیفیات اور معاملات اور ہر مسئلے پر اثر انداز ہونے والے حقیقی عوامل کی تہہ تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے۔

تقابلی سیاست کا مطالعہ سیاسی عمل میں ایک منظم طریقہ کار بھی ہے تحقیق کی سی صورت بھی اختیارر کرتی ہے۔منظم طریقہ کار اس لیے کہ یہ سیاسی عمل میں تعلقات کی راہ ہموار کرتی ہے جو وہاں کی سیاسی عمل میں پیدا ہوتی ہیں۔ تحقیق اس لیے کہ یہ سیاسی نظام کا بظاہر مطالعہ کرنے کے علاوہ اندرون خانہ تحقیق پر بھی زور دیتا ہے۔جس سے سیاسی نظام اور اس کے اداروں ، سیاسی پارٹیوں کے رویوں اور طرزِ عمل جس سے سیاسی پارٹیاں پروان چڑھتی ہیں کاپتہ چلتا ہے۔

لہٰذا بلوچ آزادی پسند جماعتوں اور تنظیموں کو اس مد میں نہ صرف پالیسی سازی پہ زور دینا چاہیے بلکہ ان پالیسیوں کا نفاذ بھی وقت کی ضرورت ہے۔پالیسیوں کے نفاذ کی بات اس لیے ہورہا ہے کیونکہ سیاسی نظام کے فرائض میں ایک اہم فریضہ پالیسی سازی میں کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ اس کے لیے سیاسی نظام میں وسیع مشینری موجود ہوتی ہے۔ جس میں مختلف شعبے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ جن کے فرائض میں منظور شدہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہناناہوتا ہے اور سیاسی عمل میں وہی نظام زیادہ کامیاب ہوتا ہے جو پالیسی کے نفاذ میں موثر حکمت علمی اپنائے۔ کیونکہ اس سے کارکنان کی بہتر نشوونماء ہوتی ہے جس سے وہ رائے قائم کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کسی عمل کا تجزیہ کرنا ہوتو اس کے لیے وہ تحقیق یا مکمل سیاسی اپروچ کے ساتھ میدان عمل کا رخ کرتے ہیں۔


Комментариев нет:

Отправить комментарий