Powered By Blogger

суббота, 1 ноября 2014 г.


کسی بھی حملہ آور تنظیم کی پالیسی ساز شخص کو ان کے 

منفی اثرات کا اندازہ 

ہی نہیں ہے اور ہم ہر اُس عمل کی مذمت کرتے ہیں جو 

تحریک آزادی کے رخ 

کو 

موڑ کر برادر کشی کی طرف لے جا رہی ہو۔ یہ ایک نا 

پسندیدہ عمل ہے۔ بلوچ

نیشنل موومنٹ

مقبوضہ بلوچستان  نیوز)بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے بی ایل اے 

کی یو بی اے کے کیمپ پر حملے کے بارے میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے 

کہ ہمیں ایسے کسی بھی عمل سے گریز کرنا چاہئے جس سے دشمن ریاست کو 

فائدہ حاصل ہو،پاکستان پرست جماعتوں نے موجودہ تحریک کے شروع کے دنوں 

لوگوں کو ایک آپس کی جنگ یا خانہ جنگی کا خوف دے کرپروپگنڈہ کے ذریعے 

تحریک آزادی سے دور رہنے کو کہا تھا، اگر آج پندرہ سال بعد ہم اس برادر کشی 

کا شکار ہوتے ہیں تو اس میں بلوچ تحریک میں غلط حکمت عملیوں و کوتاہیوں و 

اداروں کی کمی کے عنصر کو رد نہیں کیا جا سکتا،اس طرح ہم دشمن کے 

پروپگنڈے کو اپنی تئیں مضبوط کر رہے ہیں اور مزید جواز بخش رہے ہیں ۔یہ 

برادر کشی کی جنگیں ریاست کی پروپگنڈہ مشینری کو مزید قوت بخشتے ہیں ۔ 

نواب مری کی رحلت کے بعد اس طرح کے حالات کا رونما ہوناان کرداروں پر 

سوالیہ نشان ہے ۔ بلوچ قوم ایسے اعمال کی نہ صرف حمایت نہیں کریگی بلکہ 

اِسے سرکاری زبان و پالیسی تصور کریگی ۔اس برادر کشی کے پیچھے کیا 

محرکات ہیں ، بلوچ قوم کو کچھ معلوم نہیں ،بلوچ قوم کو ان بنیادی مسائل سے آگاہ 

کرکے مطمئن کریں کہ اس برادر کشی میں خون کی ہولی کھیلنے کی تیاری 

کیونکر ضروری ہے۔ کسی بھی حملہ آور تنظیم کی پالیسی ساز شخص کو ان کے 

منفی اثرات کا اندازہ ہی نہیں ہے اور ہم ہر اُس عمل کی مذمت کرتے ہیں جو 

تحریک آزادی کے رخ کو موڑ کر برادر کشی کی طرف لے جا رہی ہو۔ یہ ایک نا 

پسندیدہ عمل ہے، ہزاروں بلوچوں کی قربانی ایک خواہش و اُمید کیساتھ پیوست ہے 

جسے برادر کشی کا شکار کرکے ہزاروں خاندانوں کی دل آزاری کی جارہی ہے ۔

سلیمان داؤد کی گزشتہ دنوں کے بیان کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ان کے 

’’فدائین ‘‘ کا پہلا وار کہا جا سکتا ہے ۔ ہیر بیار مری کی طرف سے اختلافات کی 

انکشاف کے بعد بی این ایم نے دونوں فریقین سے ملکر آپسی اختلافات کو ختم 

کرنے کی کوشش کی ، اس ضمن میں ان سے رو برو اور کئی دفعہ ٹیلیفونک 

رابطے ہوئے ہیں ، جہاں ہمیں نہ کوئی نظریاتی اختلاف نظر آیا ہے نہ کوئی ناقابلِ 

حل تضاد ۔بلکہ ایک فاشسٹ رویہ و برادر کشی وعدم برداشت ہے ،جس سے 

ہماری مفاہمتی عمل کو غلط رنگ دیکر ہمارے ہی خلاف منفی پروپگنڈہ شروع کیا 

گیا لیکن ہم نے ان سب حرکات کی پرواہ کئے بغیر مصالحتی عمل کا حصہ بنے 

رہے اور درخواست کرتے رہے کہ اپنی ان باتوں کو ناقابل واپسی حد تک نہ لے 

جائیں۔آج فوج ، ڈیٹھ اسکواڈ، مذہبی انتہا پسند، قوم پرستی کی کھال میں نیشنل پارٹ

ی اور بی این پی مینگل جیسے وفاق پرست کالی بھیڑیے جنگ آزادی کو ختم 

کرنے پر تلے ہو ئے ہیں، دشمن کی ان تمام مورچوں کو چھوڑکر آزادی پسندوں 

قوتوں کے خلاف برادر کشی کا عمل دشمن کیلئے کس قدر مددگار ثابت ہوگا ، اس 

کا اندازہ شاید ہی کوئی آزادی پسند لگا سکے ۔ یکم اکتوبر کا یہ عمل تحریک 

آزادی 
کے حالیہ دورانیہ میں ایک سیاہ باب کا آغاز ہے ،ہم اپیل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ 

پھر بیٹھ کر سوچیں اور ایک حل تلاش کریں ۔ ہم دوسرے بلوچ قوم پرست قوتوں ، 

بلوچ دانشور اور ادیبوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کیلئے 

سنجیدہ کوششیں کریں 

Комментариев нет:

Отправить комментарий