Powered By Blogger

среда, 31 октября 2018 г.

نومبر 13 یوم شہدائے بلوچستان۔۔۔دودا بلوچ 

پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے جنگ میں حصہ لینے اور مرنے والوں کیلے ''دو منٹ کی خاموشی ''کابالکل الگ طریقہ منایا ،ان دو منٹوں میں قوم کے ہر فرد کو کہا گیا کہ وہ اپنا سارا کام چھوڑ کر جہاں ہے اور جیسے بھی ہے ان دو منٹ تک خاموشی اختیار کریں۔ دو منٹ کی خاموشی کا مقصد قوم کے تمام امراء کو اس میں غم شریک کرنا تھا اور انہیں احساس دلانا تھا کہ جنگ میں شہید ہونے والوں کی وجہ سے ہم زندہ ہیں۔ 

بلوچستان وہ سرزمین ہے جو اپنی جغرافیائی اہمیت اور سائل وسائل کی وجہ سے ہمیشہ استعماری قوتوں کی نظر میں رہی ہے، ایسا کوئی دور نہیں گزرا جس میں بلوچ قوم اپنی زمیں اورقومی بقا کیلئے نہیں لڑا ہے۔ ہمیشہ دشمن کے سامنے اپنی سر اٹھا کر کھڑے رہے ہیں۔ اسی بنیاد سے تیرہ نومبر کو شہدائے بلوچستان کے مناسبت سے یاد کیا جاتا ہے جو قومی بقا اور آزادی کی جنگ میں شہید ہوئے ہیں۔

چلو آج جھک کر اُن عظیم ہستیوں کو سلام پیش کریں جن کی عظیم قربانیوں کی بدولت آج ہم خود کو بلوچ کہنے پر فخر محسوس کرتے ہیں جو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگئے ہیں لیکن اُن کا نظریہ اور قربانیوں کا فلسفہ ہمیشہ تحریک اور آزادی کی جد جہد کو روح پھونک دیتی رہے گی، جنہوں نے اپنی انفرادی مفادات کو ترک کرکے اجتماعی نظریے اور مفادات کی خاطر قربانی دی ہے۔

دنیا کی زندہ قومیں ہمیشہ اپنے شہیدوں کو یاد کرتے ہیں جو قومیں اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو بھول گئے ہیں ان کی مثالیں تامل کی جیسی ہوگی جہاں پر آزادی پسندوں نے اپنے شہیدوں کی قربانیوں کو بھول کی آزادی کے جنگ کو چوری چکاری کا جنگ بنا دیا جنہیں بعد میں ایک 
عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

نومبر 13 سن 1839 کو انگریز استعماری ریاست سے اپنی زمین،قومی سلامتی،زبان اور ثقافت کی دفاع میں خان میر محراب خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہادت کا رتبہ قبول کرتے ہیں اور بلوچ، دنیا کی تاریخ کے صفحات میں قربانیوں کا عظیم باب بن جاتا ہے۔ اسی دن کے مناسبت سے جسے بلوچ طلبا تنظیم (بی ایس او آزاد) 2010 میں 13نومبر کو یوم شہدا منانے کا اعلان کرتا ہے اور بعد میں بلوچستان اور پورے دنیا میں جہاں بلوچ آباد ہیں ہر سال اسے دن شہدا کو خراج تحسین پیش کرتے اور شہدا کے مزاروں اور تصویروں پر شمع روشن کر کے اُن کی قربانیوں اور جرات کو سلام پیش کرتے ہیں۔اسے وجہ سے تیرہ نومبرکو بلوچ شہداء کے دن کی مناسبت سے یاد کیا جاتا ہے اور شہید ہوئے سارے نوجوانوں ،بزرگوں اور عورتوں اور بچوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

بلوچ قوم کرائے ارض پر قائم واحد قوم نہیں جو اپنے شہدا کو یاد کرنے کیلئے ہر قوم ایک دن مقرر کرتا ہے جہاں لوگ اپنے شہید ہوئے جانثاروں کو جو اپنے وطن کی دفاع میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں، اُنہیں سلام پیش کرتے ہیں اُنہیں یاد کرتے ہیں، اُن کے قبروں پر جاکر سلامی دیتے ہیں یہ ایک طریقہ ہوتا ہے اُن کو سلام پیش کرنے کا اُن کے جدوجہد اور قربانیوں کو یاد کرنے کا تاکہ قوم کے نوجوان اپنی آزادی کی اہمیت کو جان جائیں کہ یہ آزادی اُنہیں یوں ہی نہیں ملی ہے بلکہ اس کیلئے ہزاروں لوگوں نے قربانیوں دی ہیں، آزادی سیاستدانوں کی طرح جھوٹے سلوگن سے نہیں ملتا بلکہ اس کیلئے جانوں کی قربانی درکار ہوتی ہے اور وہی قومیں اپنی آزادی کو برقرا رکھ پائے ہیں جن کے نوجوانوں اور باشعور طبقے نے اپنی آزادی کی حفاظت کیلئے جدوجہد کیا ہے قربانی دی ہے جبکہ دوسری طرف وہ قومیں تباہ ہوئے ہیں جہاں لوگوں نے اپنی زندگیوں کو ترجیح دے کر استعماری ریاستوں کو اپنے زمین کو قبضہ کرنے کیلئے کھلی چھوڑ دی ہے جن کا آج نام و نشان نہیں ملتا اور جبکہ وہ قومیں جنہوں نے اپنی آزادی کی حفاظت کیلئے اپنے جانوں کا پرواہ کیے بغیر استعمار کے خلاف لڑے ہیں وہ آج اپنے نام و نشان سے زندہ قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔

اسی طرح بلوچ اُن زندہ قوموں میں سے ایک ہے جس نے کبھی بھی کسی قابض کو بخوشی اپنے زمین پر رہنے نہیں دیا ہے بلکہ اپنی آزادی کو حاصل کرنے کیلئے ہمیشہ سے دشمن ریاستوں سے نبرد آزما رہے ہیں اپنے جانوں کی قربانی دی ہے لیکن دشمن ریاستوں کی غلامی کو قبول نہیں کیا ہے، بلوچ انگریز سے اپنی آزادی کیلئے لڑے ہیں اب وہ پاکستان جیسے ناپاک ریاست کا جوانمردی سے سامنا کر رہے ہیں لیکن دشمن کی غلامی کرنے کو کبھی بھی ترجیح نہیں دیا ہے، آج یہ بلوچ شہدا کا نظریہ اور اُن کی قربانیاں ہیں کہ دشمن ریاست کی جانب سے درندگی کے حدیں پار کرنے کے بعد بھی بلوچ قوم دشمن کے خلاف مضبوطی سے کھڑا ہے
۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий