Powered By Blogger

воскресенье, 18 мая 2014 г.

تحریر: ریزرڈ زارنیکی ترجمہ : آرچن بلوچ

18مئی2014(ہمگام آرٹیکل)قدرتی وسائل سے مالامال بلوچستان انسانی بد اعمالیوں کی وجہ سے تباہ ہوچکی ہے۔ اپنی بے شمار قدرتی وسائل کی بدولت ، جن کی قیمت سینکڑوں بلین ڈالروں کی حساب میں ہے ، دنیا کی امیرتریں خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باسی انتہائی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی ظلم کا شکار بھی ہیں۔ اس ملک نے صوبہ بلوچستان کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ایک پوشیدہ سفاکانہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مارو اور پھینکو کے پالسی نے ابتک لاکھوں لوگوں کی جان لی ہے۔ اس غیر واضع جنگ نے ، جسے سفاک قوتوں نے یہاں کئی عرصے جاری کر رکھا ہے ، صوبے کو انسانی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا ہے۔ آ ئی ایس آئی بلوچ لوگوں کو نشانہ بنارہاہے۔ بلوچستان کے لوگ اس وقت سے مشکلات کے شکار ہیں جب بلوچستان کو بزور طاقت پاکستان کے ساتھ شامل کیاگیا۔ حکمران بلوچستان پر اپنا مضبوط گرفت مسلط کرنے کی کام پہ لگے ہوے ہیں کیوں کہ وہاں بے شمار قدرتی وسائل دستیاب ہیں۔ حکمرانوں کو صوبے کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ماضی میں صوبے کے دانشور طقبہ نے جب یہ بانپ لیا کہ حکمرانوں کی نیت ٹھیک نہیں ، وہ وسائل پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں ، جس سے مقامی آبادی کو کچھ فائدہ نہیں ملتا، تو انہوں نے ریاست کے خلاف احتجاج کا راستہ اپنایا۔ ریاست احتجاج کرنے والوں کو قانونی جواز کے بغیر نشانہ بناتی ہے، انہیں قتل کرتی ہے یا جیلوں میں ٹھونس دیتی ہے۔ حکومت پاکستان نے عملاً ظلم و جبر کرنے والے مقتدرہ کو کھلی چھوٹ دی ہے، اپنی آنکھ ، کان بند رکھے ہیں۔ مشرف کے دور حکمرانی میں فوج اور آئی ایس آئی کو ناقابل یقین استبدادی قوت و اختیار ات دیا گیا۔ امنسٹی انٹرنشنل نے ۲۰۲۱ میں بریفینگ دیتے ہوے کہا کہ ان کے تحقیق کے مطابق، مارو اور پھینکو آپریشن کی پالسی کے تحت ، صرف ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۰ سے ۱۰ ستمبر ۲۰۱۱ کے درمیان، ۲۴۹ بلوچ کارکن جن میں ٹیچرز، سیاسی ورکر، جرنلسٹ اور وکلاء شامل تھے غائب یا قتل کیے گیے ۔ انسانی حقوق کی اڈوکیسی گروپ ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق گزشتہ ۹ سالوں میں ۸۰۰۰ لوگ اغواء ہوے، جن میں سے ۱۵۰۰ کی مسخ شدہ لاشیں وصول ہوئیں۔ مارو اور پھینکو کی پالسی مشرف کے دور حکمرانی میں اپنائی گئی اور موجودہ حکمرانوں کے دور میں بھی جاری وساری ہے اس پالسی کے تحت بلوچ ورکروں کو گرفتار کرتے ہوے انہیں دنوں اور ہفتوں تک بغیر کسی خارجی رابطہ کے جیلوں میں روکھے رکھتے ہیں ، وہاں انہیں سخت ازیتیں دیکر تحقیق کرتےہیں اورپھر ان کا کام تمام کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے کو پسماندہ رکھا گیا ہے۔ بچوں کی تعلیم کیلئے سہولتیں بلکل نافید ہیں، سکینڈری سکولینگ سے آگے آپ کو کچھ نہیں ملیگا۔ کیوں کہ حکمراں یہ نہیں چاہتے کہ یہ علاقہ خود انخصار ہو۔ یہاں آئی ایس آئی دانشور طبقہ کی نسل کشی اس لیے کرتی ہے تاکہ لوگ ا نکی استبدادی شکنجے میں رہیں۔ صوبے میں میڈیا براہ راست آئی ایس آئی کے کنٹرول میں ہے ، تاکہ قتل و نسل کشی کی حقائق انکی تعین کردہ حدود میں رہیں۔ انٹرنشنل میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں و بین الاقوامی انسانی فلاحی اداروں کے ورکرز بلوچستان میں قطعً داخل ہو نہیں سکتے۔ حتیٰ دوسرے ممالک کے سفارت کاروں کے اھل کاروں کو بھی اجازت نہیں کہ وہ بلوچستان کا وزیٹ کریں۔ آئی ایس آئی کے کنٹرول میں چلنے والی میڈیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا زکرتک نہیں کرتے۔ پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کی بلوچ آزادی پسندوں کے ساتھ ٹکراؤ نے کئی زندگیوں کے چراگ گل کیے ہیں ۔ آئی ایس آئی نے اس صوبے میں اپنی بربریت قتل کرو اور پھینکو کی پالسی تک محدود نہیں کی ہے بلکن اس نے اب بلوچ قومی لیبریشن مومنٹ کے خلاف سائبر جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے جس کے تحت تحریک کے خلاف گمراہ کن انفارمیشن پھیلایا جارہاہے۔ بلوچ نشنل لبریشن مومنٹ اس لیے شروع کی گئی تاکہ بلوچستان کے اصل زمینی حقائق دنیا کے سامنے آسکیں۔ آئی ایس آئی کی اس سائبر جنگ نے بلوچ آزادی جہد کیلئے مشکلات پیدا کیے ہیں۔ بلوچستان نہ صرف ریاستی جبر اور امتیازی ناروا سلوک کا شکار ہے، بلکن اسے غیر ھموار معاشی مسائل بھی در پیش ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اپنی لوکیشن اور قدرتی وسائل کی بدولت بڑی اھمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان چاہتا ہے کہ وہ آزاد ریاست رہے مگر پاکستان اسے اس کی قدرتی وسائل کی اھمیت کی وجہ سے اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے۔ بلوچ مزاحمتی تحریک کو قابو میں رکھنے کی زمہ واری آئی ایس آئی ، ملٹری انٹلیجنس اور فرنٹئر کور کو دی گئی ہے۔ آئی ایس آئی کی اس پوشیدہ جنگ ، جسے بلوچستان کی معصوم لوگوں کے خلاف لڑا جارہا ہے کو ختم ہونا چاہیے۔ گرفتار لوگوں کو جیلوں میں قتل کرکے باہر پھینکنا بلوچ کمیونٹی کے خلاف ایک ظالمانہ میسج ہے۔ لوگوں کو ماورئے عدالت قید میں رکھنا اور انہیں قتل کرنا اس لیے روا رکھا جارہاہے تاکہ مقتدرہ ہر قسم کے قانونی جوابدہی سے بچ سکیں۔ لیکن صوبے میں انسانی حقوق کے خلاف ورزی کے حوالے آئی ایس آئی اور پاکستانی حکمرانوں کے کردار بین الا قوامی مقتدرہ قوتوں کے سامنے جواب دہی سے بچ نہیں سکتے ۔


 نوٹ۔ ریزرڈ زارنیکی یورپین پارلمنٹ کا ایک رکن ہے، انہوں نے یہ آرٹیکل یورپین پارلمنٹ کی ماھنامہ نیوزپیپر کے لیے لکھا ہے جو اس مہینے کی ۹ تاریخ کو شائع ہوا ہے ، اھمیت کے لحاظ سے میں نے اسے اردو میں ترجمہ کیاہے۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий