Powered By Blogger

понедельник, 22 сентября 2014 г.

ماما قدیر کا پیغام 
بلوچ قوم و رہنماؤں کے نام
ماہنامہ سنگر ستمبر شمارہ
میں ماما قدیر بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین، بلوچ قوم سے مخاطب ہوں کہ میں جو پیغام ابھی ریکارڈ کر رہا ہوں اس سے پہلے بھی کچھ دوستوں نے ریکارڈ کیا مگر بد قسمتی سے وہ کوئی وجہ بتائے بغیر اسے شائع کرنے میں ناکام رہے۔ اس لئے اسے اپنا قومی اور انسانی فرض سمجھ کر پھر ریکارڈ کرکے آپ تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
معزز سامعین و حضرات:
آج کل بلوچستان میں حریت پسندوں کے درمیان اختلافات کا چرچہ ہے، پارلیمانی جماعتیں اور رد انقلابی اس صورتحال سے بہت خوش ہیں۔ وہ اپنی نجی محفلوں میں بڑی مسرت سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں۔ کیا بلوچ قومی تحریک کیلئے یہ ایک نیک شگون ہے؟ یہ درست ہے کہ اختلافات ہر تحریک میں ہوتے ہیں، بڑے سے بڑا انقلابی لیڈر بھی غلطیوں سے مستثنیٰ نہیں۔ لیکن جس طرح سے ان مسائل کو آج کل سوشل میڈیا پر اٹھایا جارہاہے، جس کے باعث بہت سارے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ وہاں اسکے منفی اور مثبت اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مثبت بات یہ ہے کہ تنقید کو علمی استعداد اورعلمی سطح اور نظریاتی سوالات سے لیس ہونا چاہئے، بغیر استدلال کے جوش و جنونیت میں آکر بلوچستان سے محبت بھلا کس کام کی؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ کس کا پرچم ہے یہ کس کا مظاہرہ ہے، فلاں کیا کر رہا ہے، فلاں کو ایسا کرنا چاہئے، فلاں ہیرو ازم کا شکار ہے، فلاں خود پسند، حتیٰ کہ نواب خیربخش مری سے متعلق بھی ایسے سولات پوچھے جا رہے تھے، جن کو بچگانہ ہی قرار دیا جاسکتاہے۔ ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک ایسے مرحلے میں ہے، جب ہر گلی کوچے میں بلوچوں کا خون بہہ رہا ہے، بے شمار لوگ غائب ہیں، اذیت گاہوں میں ظلم سہہ رہے ہیں، اکثر کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ زندہ ہیں یا اجتماعی قبرستانوں میں پھینک دیئے گئے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، قبائلی جھگڑوں کے نا م پر بلوچ معاشرے کو منظم ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے، ہر جانب آگ لگی ہوئی ہے، لاکھو ں افراد فوج کشی کے باعث اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ ایرانی خفیہ ایجنسی ساواک کی طرح ہر گھر میں مخبر پیدا کئے جا رہارہے ہیں۔ اس صورتحال میں بعض بلوچ حریت پسندوں کو الگ تھلگ کرنے اورisoalation کا شکار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور یہ تضاد کا کھیل سوشل میڈیا پر کھیلا جا رہا ہے، کیا یہ لوگ بلوچستان کی محبت کے جنون میں قابض ریاست کا کام آسان نہیں کر رہے؟
کسی کیلئے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ قابل قبول نہیں تو کسی کو نواب براہمدغ خان بگٹی پر اعتراض۔ کیا یہ تحریک کا رومانس ہے یا غیر ذمہ دارانہ حرکتیں ہیں؟ عام بلوچوں نے اپنی ساری توقعات، حتیٰ کہ اپنی زندگیاں اورخاندان کی عزت و آبرو داؤ پر لگا رکھی ہے، وہ ان سوالات کو سننے میں اور اُن سے پیدا ہونے والے اختلافات پرکبیدہ خاطر ہیں، ان کا مورال کمزور کیا جارہا ہے۔ نفسیاتی جنگ جو اس مرحلے میں بلوچ جیت چکے ہیں، اب اس کو شکست میں تبدیل کرنے کیلئے ایسے شوشے کیوں چھوڑے جارہے ہیں؟ ہر شہید کا بہتا ہوا لہو ہم سے ضرور پوچھ رہا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم کس حد تک ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں؟ ان تمام سولات کو گہری نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کہ طویل غلامی اورخاص طور پر پاکستانی سیاست کے اثرات سے اب تک ہم اپنا دامن نہیں چھڑا سکے ہیں۔ وہی محلاتی سازشیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش، فتویٰ بازی سے سارے عناصر پاکستانی سیاست کے تانے بانے ہیں۔ یہ سب کچھ اب حریت پسندوں کے بعض نام نہاد نقادوں کا مرغوب کھیل بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر اپنی مرضی کے اقتباسات چن کر ان کو پیسٹ کرکے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بلوچ کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کے نقصانات کیا ہونگے، اس سے کسی کو غرض نہیں۔ المیہ یہ ہے کہ چند ایک مظاہروں میں شریک ہو کر یا انقلابی تنظیم کے ممبر ہونے کے ناطے وہ جلد ہی دانشوری کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ کتاب اور قلم کے ساتھ پر بھی تنقید کی جاتی ہے اور جو سیاسی رہنما آزادی کیلئے کتاب سے رہنمائی کی بات کرتے ہیں ان کا کھلم کھلا مزاق اڑایا جاتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کتابیں انسان کا علم اور تجربات ہیں جو ظلم، استحصال اور غلامی کے خلاف حریت پسندوں کو عمل پر مجبور کرتے ہیں۔ بلوچ سیاست کا المیہ رہا ہے کہ یہ ہمیشہ سے انتہا پسندی کا شکار رہی ہے۔ ان میں ضرور مخلص لوگ بھی ہونگے لیکن اس سوچ نے بلوچ قوم کو بہت نقصان پہنچایا۔ مسلح جد و جہد کے حامیوں نے پختہ کار ذہنوں کے کتاب کی مخالفت کی اور ردِ انقلابی عناصر نے بندوق کی جگہ کتاب کے رٹ لگائے رکھی، لیکن دونوں انتہائیں انتہائی غلط ہیں۔ بلوچ قوم، بلوچ قومی تحریک کیلئے جہاں جذبہ حریت کی ضرورت ہے وہان عقل اور سوچ کی ضرورت بھی ہے۔ تعقّل پسندی کے بغیر صرف جذبات کے ذریعے قوم کو غلامی سے نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ ہٹلر کو بھی اپنے وطن سے محبت تھی لیکن جنون کی حد تک تھی۔ اُسکی اس محبت نے کیا گُل کھلائے؟ صرف محبت کے اظہار سے قوم اور ملک کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی کو دانشوری کا شوق ہے تو اسکی راہ کس نے روکی ہے؟ اس راہ پر چلے اور قوم کو راستہ سمجھانے میں مدد دے۔ لیکن عقلی استدلال سے عاری ایک دوسرے کیخلاف الزامات کی بوچھاڑ ہمارے ذھنی پسماندگی کا ثبوت ہیں، وہ کام جو مخبر نہیں کر سکتے آج وہی کام ہم اپنے ہاتھ سے سر انجام دے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سولات اُٹھانے والوں پر بھی بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ کیا وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ ان سوالات کا جواب دے سکیں؟ وطن سے دور رہ کر کنکر پھینکنا بڑا آسان ہے۔ اس سے نرگسیت کی تسکین ہو سکتی ہے لیکن اسے وطن کی محبت کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بہتر یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر اُلٹے سیدھے سوالات پیسٹ کرنے اور کتاب کی مخالفت کے بجائے وہ اپنے سوالات کو تحریری شکل میں لائیں۔ یہ ایسے ہیں کہ وہ کتاب کی مدد سے کتاب کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یقیناََ جو بھی سوالات معاشرے میں اُٹھتے ہیں ان کا تعلق علمی تجربات اور مشاہدات سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کیلئے یہ سب کچھ نہیں ہے تو کسی دوسرے کیلئے کیوں کر غلط ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا دانشور، سیاسی ورکر اور انقلابی مختلف کردار ہوتے ہیں۔ بہت کم ایسے عبقری ذہن ہونگے جو بیک وقت سیاسی رہبرا ورعظیم دانشور ہوں۔ لہٰذا خود کو چُوں چُوں کا مربّہ بنانے کے بجائے ایک مرکز پر توجہ دی جائے اور کام کیا جائے۔ صرف سوالات اُٹھانے سے مسائل کا حل نہیں ہونگے۔ ان کے جوابات دینے کی بھی سعی کرنی چاہیئے۔
فتویٰ بازی اور خود کو افضل سمجھنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ سبھی قوم کی عدالت میں احتساب کیلئے تیار رہیں۔ اگر ایسے سوالات اُٹھا نے کی بات ہوتی تو نواب خیر بخش مری سے بڑھ کر ایسی کونسی شخصیت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کبھی اپنی دانشوری کا زعم نہیں دکھایا۔ بُرے حالات میں بھی اپنے بد ترین دشمنوں کے خلاف ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے لوگوں کی سوچ منتشر ہوجائے۔ لوگوں کو منتشر کرنے کے بجائے انکی سوچ کو ایک مرکز پر لانا ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے انقلابی تنظیموں میں موقع پرستوں کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں ہر قدم پر ہوشیار رہنا ہوگا۔ درباری ذہنیت کو اپنے بیچ میں سے نکالنا ہو گا۔ عوام اور بعض سیاسی شخصیات کی قربت کی خاطر قوم کے مفاد کو داؤ پر لگانے والوں سے دور رہنا ہوگا۔ بیشک ہماری تعداد اور کم ہو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ایک بار موقع پرست ہمارے درمیان گھُس بیٹھے، وہ اختلافات کو ضرور ہوا دینگے۔ ایسے انسان کی تربیت کسی اور ماحول میں ہوئی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لاکھوں بلوچوں کے خون اور جذبات کی بنیاد پر جس نرگسیت کی بنیاد ڈالی جارہی ہے یہ تباہی کا باعث ہے۔ اُسے روکنے کیلئے جہاں عمل موثر ہتھیار رہا ہے وہاں بہترین لٹریچر کی بھی ضرورت ہے۔ ذہنی عیاشی کے ذریعے قوم کی خدمت نہیں ہو سکتی۔ اس نقطہ کو ضرور سمجھنا چاہیے کہ مختلف شخصیات اور گمنام انقلابی اپنا عمل، اپنے موثر کردار کے ذریعے ثابت کر رہے ہیں۔ چند موقع پرستوں کو یہ حق نہیں دینا چاہیئے کہ وہ اُلٹے سیدھے سوالات کے ذریعے اپنی انا کی تسکین یا ردِ عمل کے طور پر بلوچ قومی تحریک کے خلاف زہر پھیلائیں۔ جن کو مقبولیت اور شہرت کا شوق ہے ان پر کوئی پابندی نہیں، وہ کوئی اور میدان بھی منتخب کر سکتے ہیں۔ موقع پرست اور سوشل میڈیا کے نادان دوستوں کو آخر کب تک سمجھانا پڑے گا کہ انقلاب اور آزادی کی جد و جہد صبح کا ناشتہ، دوپہر یا رات کی ضیافت نہیں ہے۔
بحث سمیٹتے ہوئے ان مشکلات کے حل کیلئے دو اہم تجاویز غور کیلئے سامنے رکھتا ہوں۔ پہلے یہ کہ ہماری توانائی اور وقت ایک دوسرے کیخلاف خرچ ہونے کے بجائے بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ریاست کے خلاف کار آمد ہو۔ دوسرا اتحاد و اتفاق کی فضا کیسے پیدا کی جائے۔ تنقید اور کردار کشی میں فرق۔ جس طرح کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ جو کچھ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا میں تنقید اور درستگی کے نام پر ہو رہا ہے اُسے درستگی تو نہیں البتہ ہم خرابی اور اتحاد کے بجائے انتشار کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں۔ اس کا آسان حل تو وجود نہیں رکھتا مگر محتاط راستہ یہی ہے کہ ادارے اور معتبر لوگ سوال و جواب و ڈائیلاگ کریں تاکہ وہ ہر اُٹھتے سوال کا مشّخص جواب دیں اور اپنے کئے ہوئے بات کا ذمہ دار بھی ہوں۔ اس طرح ایک ذمہ دارانہ بحث جو ہر لحاظ سے علمی اور اخلاقی دائروں میں ہو، مثبت اور درستگی کا سبب بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر جعلی ناموں اور اداروں کے سامنے جوابدہی سے مبرّا لوگ یہی کریں گے جو پچھلے ایک سال کرکے پراگندگی اور مایوسی پھیلا چکے ہیں۔
اتحاد کے تقاضے:
ایک بات بارہا کہی گئی ہے اور یہ ایک آفاقی سچ بھی ہے کہ اگر ہمارے دشمن ہمیں مارنے اکٹھے ہو رہے ہیں تو ہم مرنے والوں کو اپنے دفاع کیلئے کیا چیز یکجاہ ہونے سے روک رہی ہے؟ بلوچ قومی جد و جہد ایسے سے بے شمار واقعات سے آشنا ہے کہ جب ہم نے ذاتی مفادات، بضد انا کی خاطر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارکر دشمن کا کام آسان کیا ہے۔ بلوچ وطن کی تقسیم اور بلوچوں کی غلامی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے۔ جس طرح سابقہ تحریکوں کو ختم کرنے، ہمارے درمیان سے صادق و جعفر بھرتی کرکے ہمارے سامنے کھڑے کئے گئے ہیں۔ آج بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں۔ ایسے حالات میں اتحاد و اتفاق کا فارمولہ بہت آسان اور قابل عمل ہونے اور دو باتیں بہت لازمی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس تمام قوتوں سے ساتھ کوئی ربط نہیں رکھنا چاہئے جو بلوچ قوم کو اسکے شہداء کے ارمانوں کے برخلاف پاکستانی پارلیمنٹ کی طرف لیجانا چاہتے ہیں۔ ان کا نام کوئی بھی ہو، پارٹی کوئی بھی ہو، نعرہ کوئی بھی ہو، لیکن ان کی منزل آزادی نہیں۔ لہٰذا وہ آزادی کیلئے جان دینے والوں کو اپنے اقتدار تک پہنچنے کا سیڑھی بنانا چاہتے ہیں۔ جس کی اجازت ہر گز نہیں دینی چاہئے، دوسری بات یہ ہے کہ ان تمام قوتوں کو اپنا فطری اتحادی تصور کیا جائے جو بلوچ قوم کے ریاست کی بحالی اور اُسے آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو اُس کا دُنیا کے تمام بین الاقوامی قوانین کے مطابق مسلمہ حق ہے۔ بلوچ قوم چونکہ کٹ مر رہا ہے اسلئے یہاں کسی مصلحت، اقربا پروری، ذاتی تعلقات و قبائلی و شخصی اثر رسوخ سے بلند ہوکر حقیقی قوتیں خاص کر واجہ ہیر بیار مری، واجہ ڈاکٹر اللہ نذر، واجہ براہمدغ خان بُگٹی اور واجہ خلیل بلوچ اپنے نظریاتی حکمت عملی کے اختلافات کے حل کیلئے ایک مشترکہ مصالحتی کونسل تشکیل دیں۔ اور مذکورہ تمام مسائل اس فورم میں زیر بحث لائیں اور بڑے اور نظریاتی سوالات و جوابات کیلئے بلوچ غیر جانبدار دانشور و سفید ریش حضرات کی خدمات لی جائیں جو سب کو شائستگی سے سُنیں اور ایک ساتھ کام کا کوئی فارمولہ طے کریں۔ اور مصالحتی کونسل کے سامنے تمام فریق اپنے تحفطات و تضادات رکھ کر انہیں فیصلہ کا اختیار دیں۔ اگر آج ہم یہ کام کرنے میں ناکام ہوئے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم اپنے آپ کو بحیثیت قوم ایک بہت بڑے المیہ سے بچا سکیں گے۔ 

Комментариев нет:

Отправить комментарий