Powered By Blogger

вторник, 16 июня 2015 г.

بابا خیر بخش مری : میر محمد علی ٹالپر


نواب خیر بخش مری اس جہان فانی میں نہیں رہے لیکن وہ جو کچھ تھے، جس چیز کی انہوں نے نمائندگی کی اور جو کچھ انہوں نے عظیم بلوچ قوم کیلئے کیا، ان کی یہ میراث لافانی ہے۔ لافانیت ایک بھاری قیمت کی ادائیگی پر ملتی ہے اور یہ ان عام غیرفقری قسم کے بزدل رہنماؤں کیلئے نہیں ہے جو اپنے نظریات اور آدرشوں کو سب سے پہلی منافع بخش پیشکش پر سمجھوتہ کرکے بیچ دیتے ہیں۔ ضیاء الحق نے جب 1978ء میں بلوچوں کو عام معافی کی پیشکش کی تو دیگر تمام رہنماؤں نے، جن کے لوگ افغانستان میں تھے، یہ پیشکش قبول کرلی اور وہ سب واپس آگئے۔ صرف مریوں نے، جو کہ خیر بخش مری سے متاثر تھے، ان تمام مشکلات کے باوجود جو انہیں اس جنگ زدہ ملک میں پناہ گزین کی زندگی گزارتے 1992 تک جھیلنی پڑیں،وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ جب کبھی بھی کوئی مجھ سے ایک حقیقی رہنماء کے بارے میں پوچھتا ہے تو میرے ذہن میں نواب صاحب کی شبیہہ ہوتی ہے اور میں ہمیشہ میر تقی میر کے اس شعر کا حوالہ دیتا ہوں۔
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
جبکہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی
ایک مرتبہ میں نواب صاحب کیساتھ تھا اور جب میں نے یہ شعر پڑھا تو انہیں پسند آیا اور انہوں مجھے اسے لکھ کر دینے کو کہا۔
نواب خیر بخش مری 29 فروری 1928 کو پیدا ہوئے۔ ان کا نام انکے نامور دادا سے منسوب ہے جنہوں نے پہلی عالمی جنگ کیلئے مریوں کو بطور ایندھن فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا اور 1918 میں برطانیہ کیخلاف گمبز اور ہرب کی تاریخی لڑائیاں لڑیں۔ وہ سردار دودا خان کی پشت سے بھی تھے جن کے تحت مئی 1840 میں مریوں نے سارتاف کے علاقے میں برطانوی افواج کا مکمل صفایا کردیا تھا جسکی قیادت لیفٹیننٹ والپول کلارک کررہے تھے۔ لیفٹیننٹ کلارک جب کاہان کی طرف جارہے تھے تو انہوں احمقانہ انداز میں کہا تھا کہ ’اگر دودا تصادم چاہتا ہے تو اسے ملے گا۔‘ پھر اگست 1840 میں ایک بڑی فوج میجر کلبورن کی سربراہی میں کاہان کا محاصرہ ختم کرنے کیلئے بھیجی گئی تو اسے نفسک پر بھاری شکست دیکر پسپا ہونے پر مجبور کیا گیا۔ پاکستانیوں کی اکثریت اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ بلوچ کے دل میں اپنی آزادی کیلئے ایک والہانہ محبت موجود ہے اور انکی جدوجہد کسی بیرونی شیہہ کے سبب نہیں۔
وہ بھاولان کے بعد آٹھویں مری سردار تھے؛ دلچسپ بات یہ ہے کہ سردار بھاولان سے قبل مری قبیلے کی سرداری قبیلے کیلئے دی جانیوالی خدمات کی بنیاد پر تمام کنبوں کو باری باری سونپی جاتی تھی۔
نواب خیر بخش نے نہ صرف مریوں کی خدمت کی بلکہ انہوں نے بلوچ قوم کی بھی خدمت کی۔ انہیں اپنے مادر وطن بلوچستان سے محبت کرنے اور اس کیلئے قربانی دینے کی ترغیب دی اور یہ محض الفاظ کی ذریعے نہیں تھی بلکہ ان کے اعمال اور طرز زندگی جو انہوں نے گزاری۔ انہوں نے دنیا کی پانچویں بڑی فوج کیخلاف بغاوت کی ترغیب دی اور بلوچ وسائل کا استحصال کرنے کی پاکستانی کوششوں کو مسلح مزاحمت کے ذریعے روکنے کا راستہ دکھایا۔ بعض لوگ جان بوجھ کر یا نادانستہ طور پر یہ دعویٰ کرتے یا الزام لگاتے ہیں کہ نواب صاحب پاکستان کے اندر خود مختاری کے خیال کے حامی تھے؛ وہ تمام لوگ جو ایسا کررہے ہیں وہ میڈیا اور اسٹابلشمنٹ کی طرف سے پھیلائے گئے خرافات کے ذریعے ان کے نام کو بدنام کررہے ہیں۔
ایک بچہ جو ’پلنگیوں‘ یعنی غیرملکیوں کیخلاف مریوں کی غیرمعمولی بہادری کے قصے سن سن کر پلا بڑھا ہو تو وہ صرف ایک کٹر آزادی پسند ہی بنے گا۔ کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نواب صاحب نے آزاد بلوچستان کے خیال کو بہت دیر بعد قبول کیا تھا، یہ بات صریحاً غلط ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ 1951 میں پولیٹیکل ایجنٹ ڈیوس نے جب ان سے کہا کہ، ’’خیر بخش آپ حکومت کو اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا، ’’ڈیوس، اگر ہٹلر نے برطانیہ پر قبضہ کرلیا ہوتا اور آپ سے یہ کہا جاتا کہ آپ اپنے بدبخت لوگوں کو ترقی دینے میں جرمنوں کی مدد کریں، تو آپ کا ردعمل کیا ہوتا؟‘‘ ڈیوس نے جواب دیا، ’’مجھ پر خدا کی لعنت ہو اگر میں پھر کبھی آپ سے یہ سوال پوچھوں۔‘‘ وہ ہمیشہ آزاد بلوچستان کے کٹر ماننے والے تھے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ وہ دو بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن پاکستانی استحصال کیخلاف ’فراریوں‘ کی شکل میں مزاحمت بھی اسکے ساتھ ساتھ جاری رہی جسکی قیادت میر شیر محمد مری نے کی۔ بلوچ عوام کیلئے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اکیلے ہی مستقل مزاجی کیساتھ بلوچستان کی آزادی کی مانگ کرتے رہے جبکہ باقی سب وقت کی رو میں بہہ گئے۔
نواب صاحب فخریہ طور پر ان چیزوں کیخلاف تھے جنہیں وہ ناانصافیاں گردانتے۔ 1958 میں جب مارشل لاء حکام نے بندوقیں جمع کرانے کا حکم دیا؛ دیگر سرداروں نے احتجاج تو کیا مگر حکم بجا لائے جبکہ انہوں نے بندوقیں آری سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے ایک بوری میں ڈالے اور بھیج دیے۔ ان کیلئے کوئی بھی عمل دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے زیادہ شرمناک نہیں تھا؛ انھوں نے اپنی زندگی میں اس بات کی تبلیغ بھی کی اور اس پر عمل بھی کرتے رہے۔انہوں نے مجھے بتایا کہ بالاچ نے دسمبر 2005 میں کوہلو میں مشرف پر راکٹ فائر کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا کہ اس نے یہ صحیح کام کیا ہے تو جواب میں انہوں نے اس سے پوچھا، ’’تمہارا نشانہ کیونکر خطاء ہوا؟‘‘ دستبرداری اور کمزوری کا اظہار انکا خاصہ نہیں تھا۔
نواب صاحب اپنے خاندان کیساتھ 7 دسمبر 1981 کوافغانستان آئے تھے۔ وہ کسی یورپی ملک کا انتخاب بھی کر سکتے تھے لیکن وہ اپنے لوگوں کے قریب رہنا چاہتے تھے جنہوں نے 1973 تا 77 ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں کے دوران اور اس کے بعد ہزاروں کی تعداد میں افغانستان کی طرف ہجرت کی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ افغانستان اس وقت افراتفری کے عالم میں تھا جیسا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور عرب ممالک افغان عوام کیخلاف جاری جنگ کی مالی امداد کررہے تھے اور وہ یہ سب پاکستانی حمایت کیساتھ کررہے تھے جسکے بغیر وہ یہ کبھی نہ کرپاتے۔
افغانستان میں انکا قیام، بطور ایک برابر فرد کے، پروقار اور اکرام کیساتھ تھا۔ انہوں نے مجاہدین کیخلاف لڑائی میں روس کی مدد کرنے کی تمام درخواستیں مسترد کردیں کیونکہ افغانستان میں رہنے کا مقصد صرف اور صرف بلوچ قومی جدوجہد کو مضبوط کرنا تھا۔ 1989 میں انہیں ایک بار کسی معاملے پر بحث کیلئے صدر نجیب اللہ کی طرف سے مدعو کیا گیا، جب وہ پہنچے تو سیکورٹی کے کسی شخص نے ان کی تلاشی لینی چاہی۔ طیش میں آئے نواب صاحب پیدل ہی واپس ہوئے تو نجیب کے معاونین دوڑے دوڑے آئے اور انہیں منانا چاہا لیکن انہوں نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں تلاشی ہی دینی ہوتی تو وہ پاکستان میں رہتے۔ ان کے اپنے اقدار اور اصول تھے جنکا دفاع انہوں نے بھاری ذاتی قیمت پر کیا۔
پاکستانی حکام نے انہیں اکثر جیل میں رکھااور انکے جیلر انکا بہت احترام کرتے تھے کیونکہ اسیری کے دوران انہوں نے کبھی خود کو ہسپتال میں داخل نہیں کروایا اور نہ کبھی انہوں نے شکایت کی۔ وہ وہاں اپنے کپڑے بھی خو دھویا کرتے۔ کبھی کبھار کچھ دوست اسٹابلشمنٹ کی طرف سے تجاویز کے ساتھ آتے مگر وہ صرف ان کو سن لیتے اور اپنی رہائی یا آسائش کیلئے کبھی بھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ان پر جسٹس محمد نواز مری کے قتل کا غلط الزام عائد کیا گیا اور دو سال تک انہیں جیل میں رکھا گیا لیکن انہوں نے ضبط و استقلال کیساتھ قید برداشت کی اور آخر میں حکومت کو انہیں رہا کرنا پڑا۔ انہوں نے کبھی بھی مظلوم بننے کا کھیل نہیں کھیلا کیونکہ اس سے ہمدردی تو حاصل کی جاسکتی ہے لیکن بلوچ کی نظر میں اسے بے عزتی تصور کیا جاتا ہے؛ وہ ہمیشہ دشمن کیخلاف ڈٹے رہے اور کبھی ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا جس سے دشمن کا جی خوش ہو۔ وہ ہمیشہ دو ٹوک انداز میں کہتے کہ بلوچ آزادی چاہتے ہیں اور پاکستان کے اندر ایک غلام حیثیت سے نہیں رہنا چاہتے۔
میں ان چند خوش نصیب افراد میں سے ہوں جن سے وہ بات کرنا اور اپنے خیالات کا اظہار کرنا پسند کرتے تھے۔ وہ مجھ سے میری تحریروں کے بارے میں پوچھتے اور میں ہمیشہ ان کو اپنی تحریریں بھیجا کرتا۔ وہ ان میں توجیہی خامیوں اور غلط اصطلاحات کی نشاندہی کرتے اور میں اس بات کو یقینی بنانے کی سعی کرتا کہ اس معیار پر پورا اتروں جسکی وہ مجھ سے توقع رکھتے تھے۔ میں پاکستانی اسکول کے نصابی کتب سے ملی عادت سے 14 اگست کو یوم آزادی لکھتا لیکن نواب صاحب کہتے کہ اگر کوئی چیز آزادی سے کچھ مشابہت رکھتی ہوتی تو وہ نظر آجاتی؛ اسکے بعد بجائے آزادی کے میں نے تقسیم کا لفظ ہی استعمال کیا۔ میں غلطی سے پاکستان کا حوالہ ایک ریاست کے طور پر دیا کرتا تھا لیکن انہوں نے اس پر مجھ سے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ مختلف اوقات میں مختلف طاقتوں کیلئے کرائے کے سپاہیوں کی ایک چوکی ہے۔ میری تصحیح ہوئی اور میں اپنے مضامین میں ان اصطلاحات کے استعمال سے گریز کرتا اور چونکہ میرا مؤقف اور زبان بلوچ نواز ہوتا اور میں ان تصورات کو چیلنج کیا کرتا جو پاکستانیوں کو بے حد عزیز ہوتے، اسی لئے آخرکار اخبارات نے مجھے جگہ دینا بند کردیا۔ نواب صاحب مجھ سے ان فارسی اور اردو اشعار کو لکھ کر دینے کا کہتے جو میں انہیں سنایا کرتا۔ وہ مجھ پر انتہائی مہربان اور نیک نہاد تھے؛ وہ کمرے میں مجھ سے پہلے نہ داخل ہوتے اور نہ ہی باہر نکلتے اور اصرا کرتے کہ میں آگے چلوں اور مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی مان لینا پڑتا۔ میں ان کی موجودگی میں ہمیشہ اس طالب علم کی طرح بیٹھتا جوکہ اپنے سب سے زیادہ محترم استاد کی تعظیم میں سہما ہوا بیٹھے۔
نواب صاحب کی مرغے لڑانے کی محبت افسانوی تھی اور انکی آذانوں کا شور و غوغا گفتگو کو مصالحے دار بنادیتے۔ وہ بڑے جوش و خروش کیساتھ مرغوں کی یادگار لڑائیوں اور ان کے کارناموں کے قصے بیان کرتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے اور میرے بھتیجوں سلیمان اور زبرکش ٹالپر کیساتھ قریب ڈیڑھ گھنٹے تک ان کارناموں کے بارے میں بات کی؛ ماضی کی ان لڑائیوں کی بابت انکے تیز حافظے نے مجھے حیرت زدہ کردیا۔ وہ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کیلئے اکثر مرغ بازی کی اصطلاحات کا استعمال کرتے۔ وہ ان تمام لوگوں کا احترام کرتے جو لڑسکتے اور کوئی لڑائی منظم کرسکتے۔
انہوں نے اپنے اصول دنیاوی آسائشوں سے زیادہ محبوب رکھے اور یہی چیز ان کی طاقت کا اصل منبع تھی جس نے انہیں سمجھوتے کرنے سے بچنے میں مدد دی جو کہ دیگر لوگ کرتے رہے۔ انہوں نے مجھے ایک بار بتایا کہ لوگ کہتے ہیں میرے پاس بہت پیسے ہیں لیکن وہ اب بھی اس قرض کو چکا رہے ہیں جو انہوں نے افغانستان سے واپسی کے بعد لیا تھا اور انہوں نے مزید بتایا کہ اگر انکے پاس پیسے ہوتے تو وہ کبھی بھی اپنے داماد گھر میں نہ رہتے۔ انہوں نے دنیاوی آسائشوں کیلئے اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کو ترجیح دی اور اسی چیز نے انہیں بلوچ جہد آجوئی کا دائمی علامت بنادیا۔
آج پاکستان کے ظلم و ستم اور استحصال کیخلاف مزاحمت پورے بلوچستان میں پھیل چکی ہے اور اس نے بلوچ قوم اور معاشرے کے تمام طبقوں کا احاطہ کیا ہوا ہے مگر اس کیلئے ہمیں نواب خیر بخش اور مری عوام کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ انہوں نے ہی اس شمع کو اس دور میں بھی روشن رکھا جب حالات انتہائی مشکل اور ناموافق تھے۔ نواب صاحب کی پہچان پاکستان کی طرف سے بلوچ شناخت کو ختم کرنے کی کوششوں کیخلاف کھل کر لڑنے اور بلوچ وسائل کا استحصال روکنے کیلئے مسلسل مسلح مزاحمت ہے۔ وہ پاکستان کیخلاف مزاحمت کے سیاسی صف اول کے سربراہ تھے جبکہ مری عوام طویل عرصے تک پاکستان کیخلاف مسلح مزاحمت کا ہر اول دستہ رہے۔ بلاشبہ 1973 کی جدوجہد اسی مزاحمت کا تسلسل تھی جسکی ابتداء شہزادہ عبدالکریم نے کی تھی، جو مزاحمت اور قربانیاں نواب نوروز خان کی طرف سے دی گئیں، جو جدوجہد شیر محمد مری اور علی محمد مینگل نے کی، مگر بلوچ کی طرف سے کی جانیوالی یہ واحد سب سے اہم جدوجہد تھی اور یقیناًاس میں مری ہر اول دستہ تھے جیسا کہ تقریباً تین چوتھائی جھڑپیں مری علاقوں میں وقوع پذیر ہوئیں یا جن کیلئے مری ہی ذمہ دار تھے۔ 1973 کی جدوجہد بلوچ مزاحمت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس جدوجہد کے بغیر بڑے پیمانے پر کی جانیوالی مزاحمت، جسے آج ہم دیکھ رہے ہیں، کبھی بھی ایک حقیقت نہیں بن پاتی۔ جو اہم کردار مریوں نے اس مزاحمت کو زندہ رکھنے میں ادا کیا ہے یہ کبھی متنازعہ ہو ہی نہیں سکتی۔ نواب صاحب پاکستان کیخلاف مزاحمت کے روح رواں تھے اور حتیٰ کہ انکی رحلت کے بعد بھی وہ بلوچ کیلئے انکی خواہشات، عزم مصمم اور آزادی کیساتھ ایک پروقار زندگی گزارنے کی علامت بن چکے ہیں۔
وہ ایک برف پوش آتش فشاں کی طرح اتاہ تھے، کبھی بھی کوئی نہیں جان پاتا کہ وہ کیا سوچ رہے یا محسوس کر رہے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی اپنے جذبات کو اونچی آواز میں بولنے سے یا سخت لہجے میں یا رقیق القلبی سے بات کرکے مجروح نہیں کیا کرتے تھے؛ وہ ہر طرح کے حالات میں حیرت انگیز تحمل کا مظاہرہ کرتے۔ جن 43 سالوں میں میری ان سے رفاقت رہی، میں خوش نصیب تھا کہ ان سے سینکڑوں بار ملا، لیکن میں نے انہیں کبھی غصہ کرتے یا کوئی نامناسب لفظ کا استعمال کرتے نہیں دیکھا۔ میں نے صرف ایک بار 1988 میں انہیں اشکبار ہوتے دیکھا جب وہ لشکرگاہ میں مریوں سے خطاب کر رہے تھے اور ان مشکلات کا ذکر کررہے تھے جو ان لوگوں کو ہجرت اور وہاں رہنے کے دوران پیش آئیں۔ انکی آنکھیں ہمیشہ اپنے شہید بیٹے بالاچ کے تذکرے پر نم ہوجاتیں۔ وہ اپنے جذبات کو چھپاتے مگر انہیں دبا کر نہیں رکھتے تھے اور اسی لئے وہ اپنے لوگوں سے انتہائی محبت اور اپنے دشمنوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ عوام سے اپنی محبت کے سبب وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ اگر آزادی لوگوں کو انصاف اور حقوق دلانے میں ناکام رہی تو یہ بے معنی ہوگی۔
بلوچ کیلئے وہ ایک علامتی والد، ایک رول ماڈل، ایک فلسفی، ایک مدبر اور بلوچ میں جو کچھ بھی اچھا ہے، وہ اس سب کی بہترین مثال تھے۔ انہوں نے نجات اور آزادی کیلئے بلوچ میں موجود غالب جبلت کی نمائندگی کی۔ وہ بلوچ قوم کی روح اور اس کیلئے بصیرت رکھنے والے رہنما تھے۔ ان کی رحلت ایک ناقابل تلافی نقصان ہے اور ان کے حامی اور پیروکار طویل عرصے تک انکے غم کو بھلا نہیں پائیں گے۔ ظاہراً یہاں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو انکی جگہ لے سکے جس سے بلوچ کیلئے سب سے اچھی بات یہ ہوگی کہ وہ اس نقصان کے درد و غم کو اپنی طاقت کے منبع میں بدل دیں تاکہ بھرپور توانائی کیساتھ اس جدوجہد کو جاری رکھیں جسکے لئے انہوں نے اپنی پوری زندگی قربان کررکھی تھی۔ یقیناًیہ عمل جدید دور کے عظیم ترین بلوچ کیلئے بہترین خراج عقیدت ثابت ہوگا۔

Комментариев нет:

Отправить комментарий