Powered By Blogger

пятница, 4 января 2019 г.


جنرل اسلم اور دوستوں کی شہادت قربانیوں کا سلسلہ - تحریر: سفر خان بلوچ
ستر سالہ پاکستانی غلامی کے خلاف بلوچوں کی جنگ آزادی اس وقت پورے شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ورنا ،کماش ،طالب علم، ڈاکٹر ، وکلا ، سمیت متعدد سرکردہ رہنما پاکستانی جبر کے خلاف آواز اٹھا کرپاکستانی درندہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں ۔ شہید جنرل اسلم اور دوستوں کی شہادت انہی قربانیوں کا سلسلہ ہے جو آزادی تک بلوچ ورنا اور کماش دیتے رہیں گے ۔
یہ بات تلخ سہی مگر حقیقت ہے کہ جنگ کا نام مرنا یا مارنا ہے ، جنگ کی اصول ہے مار و یا مرواور جب تک جنگ چلتا رہے گا اسی طرح پارٹی ورکر یا رہنما شہید ہوتے رہیں گے و یسے جنگ کا دوسرا نام بھی تباہی ہے اور تباہی میں سب کچھ آتا ہے لوگوں کی شہادت بنی بنائی خوابوں کا ٹوٹنا بستیوں اور محلوں کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا عام سی باتیں ہوتی ہیں ۔اور جنگوں میں ویسا سوچا جاتا ہے ضروری نہیں ہر وقت ویسا ہی ہو ایک بات ذہن نشین ہونا چاہیے جنگ میں آپ دشمن کے خلاف منصوبہ بناتے ہو اور دشمن آپ کے خلاف لڑنا دونوں کو ہے اور مرنا بھی دونوں کو ہے اس طرح بھی نہیں ہے ہر وقت دشمن شکست سے دوچار ہوتا ۔شکست جنگوں میں وہ آخری اور پہلا مرحلہ ہوتا ہے جو ہر وقت دونوں فریقوں کے درمیان موجود ہوتا ہے آخر جاکر کس کے مقدر میں ہوگا وہ جنگی سپاہیوں کی شاطر چالوں اور جنگی حکمت عملیوں سے طے پاتا ہے
شہید جنرل اسلم بلوچ اوردوستوں کی شہادت کے بعد کئی دوست یہی سوچ رہے ہیں اب بلوچ تحریک آزادی کا کیا ہوگا ؟یہ بات سو فیصد حقیقت کہ اس وقت جنرل اسلم کی شہادت بلوچ قوم کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں مگر ہم بلوچ تحریک آزادی کی جدوجہد میں دیکھیں یہ پہلی دفعہ نہیں کہ اس طرح کے رہنما وقت سے پہلے ہم سے جدا ہوگئے ہیں شہید غلام محمد ، شہید قندیل صباح دشتیا ری ،شہید ڈاکٹر منان، شہید بالاچ مری سنگت ثناء بلوچ یہ وہ رہنما ہیں کہ وقت سے پہلے ہم سے جدا ہوکر شہید ہوئے اور اس وقت بلوچ آزادی کی جدوجہداپنے پہلے مرحلوں میں تھااور ان دوستوں کی شہادت سے کچھ بھی ہوسکتا اور دشمن نے بھی یہی سوچ کربلوچ لیڈران اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کی کہ ان لوگوں کی شہادت اور اغواء نما گرفتاریوں سے تحریک آزادی ختم ہوجائیگا مگر جینے یا مرنے کے فلسفہ نے دشمن کے تمام خوابوں کو خاک میں ملا دیا اور یہ بات بھی یقینی ہے جتنے بھی بلوچ رہنما پاکستانی فوج کے ہاتھوں شہید ہوچکے ہیں وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ دشمن انہیں شہید کریگا مگر ہم وقت اور حالات کا جائزہ لیں تو اس وقت بلوچ کے پاس کوئی تیسرر استہ موجود ہی نہیں ہے، اس وقت بلوچ مرے یا مارے، اور اس بات کو بھی بلوچ اپنے دماغ میں رکھ لیں کہ جدوجہد کروگے تو مروگے نہیں کروگے توبھی مروگے اور
میں یہ سمجھتا ہوں بلوچ اس وقت مر چکے ہواور جتنے بھی بلوچ آج جدوجہد کر رہے ہیں وہ زندہ ہونے کی کوشش کر رہے ہیں،آج بلوچ دشمن آپ کے ساحل وسائل کو بے دردی سے لوٹ مار کر رہا اس سے بھی بڑی بات آپ کی ثقافت اور قومیت کو ختم کرنے کی آخری کوشش کر رہا ،اگر آج بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیکر جدوجہد کریگا تو چانس ہے کہ بلوچ ا جتماعی موت سے بچ جائے اگر جدوجہد نہیں کی تو اجتماعی موت سے بچ جانا ممکن نہیں ہے ۔
اکثر دوستوں میں یہی تاثر پایا جارہا ہے کہ چینی قونصلیٹ کے بعد استاد اسلم بلوچ پہ پاکستان اور چین آخری کوشش کر رہے تھے کہ استاد اسلم کو نشانہ بنایا جائے یہ بات میں پہلے بھی کرچکا ہوں جنگ کر وگے آپ دشمن کو مارو گے دشمن اپنی دفاع کے لئے آ پ کو ضرور نشانہ بنائیگا اگر استاد اسلم جنگ نہیں کرتا بلوچ قومی مفادات کو سامنے رکھ ان کے لئے جدوجہد نہیں کرتا یہ بات یقینی تھا کہ پاکستان انہیں کبھی بھی نشانہ نہیں بناتا ،یہ بات بھی یقینی تھا کہ استاد اسلم اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ دشمن آج نہیں کل اس کو نشانہ بنائے گا اگر استاد اسلم خاموشی اختیارکر لیتا یہ بھی بات یقینی تھا کہ دشمن انہیں کبھی بھی نشانہ نہیں بنا لیتا اگر انہیں دشمن نے نشانہ بنا یاصرف اور صرف اسی وجہ سے وہ جدوجہد کر رہا تھا جدوجہد میں شدت لارہا تھا ، جو دشمن کوہرگز قابل قبول نہیں تھا 

Комментариев нет:

Отправить комментарий