Powered By Blogger

вторник, 8 января 2019 г.


شہید امیرالملک بلوچ
تحریر ۔ نود بندگ بلوچ


" مرنے کیلئے زندہ نا رہو۔۔۔۔ بلکہ زندہ رہنے کیلئے مرو "
۔۔۔۔
تمہیں دیکھ کر اکثر میں سوچتا تھا کہ آخر درد کی وہ آخری حد ہوتی کیا ہے جو انسان کو توڑ دیتی ہے ، جو ایک مضبوط انسان کو گٹھنے ٹِکوا کر اسے اسکے خوابوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کردیتی ہے ؟ شاید شدید سردی میں برہنہ حالت میں کسی رسی سے الٹا گھنٹوں لٹکے رہنا اور جسم پر مسلسل چابکوں ، لاتھوں اور گھونسوں کا برسنا تمہیں تین دن سے سونے بھی نہیں دیا گیا ہو اور آنکھ لگتے ہی تمہارے منہ پر زور سے گھونسے لگ رہے ہوں ، غلیظ گالیاں تمہاری سماعتوں سے ٹکرارہی ہوں، الٹا لٹکے لٹکے تمہاری سانس اکھڑ رہی ہو جسم کے ہر حصے میں اتنی تکلیف ہورہی ہو کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے کہ کس حصے میں کتنی تکلیف ہورہی ہے ، تمہیں صرف ایک چیز محسوس ہورہا ہو ، تکلف بہت زیادہ تکلیف ، خون کی طرح رگوں میں دوڑتا تکلیف ، ہڈیوں کے اندر گھستی ہوء تکلیف ، روح کو نوچنے والی تکلیف پھر الٹا لٹکے لٹکے تمہارے پورے جسم کا خون جیسے تمہارے سر میں جمع ہوگیا ہو اور دل کی ہر دھڑکن تمہارے سر میں کسی ہتھوڑے کی طرح برس رہا ہو ؟ نہیں شاید یہ بھی وہ آخری حد نہیں جو تمہیں توڑ سکے پھر شاید درد کی آخری حد یہ ہے کہ تمہارا ایک چھوٹا بھاء 3 سال اور دوسرا 1 سال سے کسی اندھیرے زندان میں بند ہوں اور تمہیں پتا بھی نا ہو کہ وہ اب زندہ بھی ہیں کہ نہیں ، ہر رات سونے سے پہلے تمہارے بھائیوں کے چہرے تمہارے سامنے آجاتے ہوں اور یہ احساس تمہیں سونے نہیں دے رہا ہو کہ نجانے وہ کس حالت میں ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ درد سینے میں اٹھتا ہو کہ جس تکلیف سے وہ گذر رہے ہیں اس کی وجہ صرف تم ہو ، تمہارا گھر ایک کھنڈر بنا دیا گیا ہو ، اور تمہارا بھوڑا باپ اور ماں بہنیں در بدر ہوجائیں ، تمہارا بھوڑا باپ اس عمر میں تمہاری ماں بہنوں کو اٹھائے سر چھپانے کیلئے دیارِ غیر میں بھٹکا بھٹکا پھررہے ہوں ، تمہارے تین کزنوں کو شہید اور اور نانا سمیت 12 کزن تین سال سے لاپتہ ہوں ، تم نے چار سال سے کسی عزیز و قریب کا چہرہ تک نا دیکھا ہو ؟ شاید یہ کسی بھی انسان کو توڑنے کیلئے کافی ہو لیکن سنگت امیر جان تم پتہ نہیں کس مٹی سے بنے ہو ، ان سب سے گذرنے کے باوجود تمہارے ماتھے پر تو ایک شکن بھی نہیں ، گردشِ حالات کی سختی کا ایک نشان بھی تمہارے چہرے پر نظر نہیں آتا ، جب بھی تمہاری طرف دیکھوں تو آنکھوں میں صبحِ نو کی وہی چمک ہے اور چہرے پر وہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ ، جب بھی تم سے بات کروں تو امید کے سوا کچھ نا پاوں ، اگر کبھی تمہارے منہ سے کوء پریشانی سنوں تو صرف اتنا کہ " بس سنگتاتے برابر کروء ء4ِ " (بس دوستوں کو سنبھالنا ہے)۔ تم آخر ٹوٹتے کیوں نہیں ، زار زار روتے کیوں نہیں ، درد سے کراہ کر تھکتے کیوں نہیں ، کندھوں پر دکھوں کا یہ گھانٹ لئے تمہارے کندھے جھکتے کیوں نہیں ، آخر یہ تمام تکالیف تمہاری آنکھوں کی چمک اور چہرے سے مسکراہٹ چھین کیوں نہیں لیتے ، سنگت امیر جان یہ ساری تکلیفیں مل کر بھی تمہیں اس بات پر آمادہ کیوں نہیں کرتے کہ تم اپنے خوابوں سے دستبردار ہوجاو ، یہ تکلیفیں آخر تمہیں مار کیوں نہیں دیتے کیوں آخر کیوں ؟ مجھے جواب دو ، مجھے نفرت ہورہی ہے تمہاری آنکھوں کی امید اور چہرے پر سجے مسکراہٹ سے یہ میرے بے حسی پر ہنس رہے ہیں میرا مذاق اڑا رہے ہیں، مجھے جواب چاہئے تم بولتے کیوں نہیں۔؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میری نظر تمہارے آخری اسٹیٹس میسج پر پڑی جو مرنے سے کچھ دن پہلے تم نے لکھا تھا " مرنے کیلئے زندہ نا رہو۔۔۔۔ بلکہ زندہ رہنے کیلئے مرو "

Комментариев нет:

Отправить комментарий